مشفقی : ڈاکٹر الماس خانم
تحریر: سیدہ اوصاف زہرہ
شعبہ اردو۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور
اعلٰی ثانوی سطح کے طلبہ کو اردو رسم الخط اور تلفظ میں درپیش مسائل کا جائزہ
موجودہ دور میں طلبہ کی زبان دانی کے حوالے سے پہلی الجھن صوتی یکسانیت والے حروف کا متفرق املا ہے۔ اکثر طالب علم حروف تہجی کے متعلق پوچھتے ہیں کہ ’س‘ ہے تو ’ص‘ اور ’ث‘ کیوں ؟ ’ہ ‘ہے تو پھر ’ح ‘کیوں ؟ ’ک‘ ہے تو ’ق‘ کا کیا کام؟ اور ’ ز ‘ ہے تو ’ض‘ ، ’ذ ‘کیا اضافی نہیں؟ ۔۔۔۔ آہ!
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
یہ سوالات ابتدائی سطح سے لے کر ثانوی اور اعلی ثانوی سطح بلکہ کسی بھی درجے کے طالب علم کو متفکر کر سکتے ہیں۔ جہاں تک ثانوی سطح کا تعلق ہے تو قومی نصاب برائے اردو ۲۰۰۶ میں اس سطح (نویں تا بارہویں جماعت) کے طالب علم سے یہ امید کی گئی ہے وہ حروف کے استعمال سے باخوبی واقف ہو۔۱ جس کی روشنی میں ثانوی سطح کے طلبہ کم از کم دس ہزار اور اعلٰی ثانوی سطح کے لیے پانچ ہزار الفاظ کے معنی کا ادراک کر سکنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۲۔ وہ زبان کے قواعد اور صنائع سے واقفیت کے بعد پانچ سو سے زائد الفاظ کی ضخامت کا مضمون لکھ سکیں ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ مہارتیں تو کجا! ثانوی حتی کہ اعلی ثانوی سطح کے طالبات کی املائی اغلاط ہی اس قدر ہوتی ہیں کہ اقبال کا یہ شعر انتہائی افسوس کے ساتھ یاد آتا ہے “دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔۔۔” اور حروف تہجی کا اعادہ کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم طالب علموں کو اردو پڑھائیں نہیں بلکہ اس کی لسانی خوبصورتی اور ہمہ گیریت کا شعور دیں۔ موجودہ حکومت نے بھی نصاب کے اہداف اور طالبات کے درمیان اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ سال “زیرو ڈرافٹ یکساں قومی نصاب” شائع کیا ہے جس میں کافی حد تک لسانی اہداف شامل کیے گئے ہیں ۳۔ جن کے اطلاق سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ طالبات ابتدائی سطح سے ہی لسانی مہارتیں حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
زیرِ نظر موضوع کی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر ثانوی اور اعلٰی ثانوی جماعتوں میں لسانی سروے کیا گیا۔ جس میں سوال نامہ حل کروانے کے لیے ایک نجی سکول کی ثانوی اور اعلٰی ثانوی جماعتوں کے پچاس طلبہ میں سروے تقسیم کیے گئے۔مواد کا شماریاتی تجزیہ کیا گیا۔ سروے کے اندراجات کو دو مرکزی حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں سروے شرکا کے کوائف کے حصول کے لیے دو سوالات پوچھے گئے تھے۔ دوسرے حصے میں ’’املائی دشواری اور حرف شناسی کےمسئلہ‘‘ کے تحت دسویں اور گیارہویں کی درسی کتاب سے ۲۱ الفاظ بشمول اشعار لکھوائے گئے۔ درج ذیل تحریر میں جمع شدہ مواد کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے اور تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ اس میں درج تجاویز کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر بروئے کار لا کر طالبات کی لسانی مشکلات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں اساتذہ کی یہ کاوش اردو کے سسکیاں لیتے رسم الخط اور لڑکھڑاتےتلفظ کے لیے آب حیات ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریر مفید ثابت ہو:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
دراصل رسم الخط اور تلفظ کا مسئلہ لسانی نوعیت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ لسانیات کیا ہے؟“لسانیات وہ علم ہے جس کے تحت ہم زبان کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ لسانیات کے ذریعے ہم زبان کی خوبیاں اور خامیاں پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ زبان کیسے بنی اس کے وجود میں آنے کے کیا اسباب تھے۔ کیوں اس زبان کا چلن عام ہوا۔ زبان میں کس کس زبان کے الفاظ داخل ہوئے اور کیسے رچ بس کر اس زبان کا حصہ بن گئے۴۔ یہ علم اس جیسے بہت سے سوالات کا جواب دیتا ہے جن کا جواب حاصل کر کے ایک لسانیات کا طالب علم چاہے وہ ابتدائی سطح کا کیوں نا ہو اپنی زبان سے انسیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ تمام تعلیمی سطحوں پر لسانیات کے مطالعے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ ہم اس کے اصولوں کے تحت زبان کو بآسانی کو درست کرسکتے ہیں اور یہ سلسلہ ہر عمر میں جاری رہتا ہے۔ ’اس کی مثال ایک بچے سے لی جا سکتی ہے۔ ایک بچہ جو کچھ بھی بولتا ہے وہ اپنے معاشرے سے سیکھتاہےلیکن بعض اوقات اس کا تلفظ یا وہ ابھی غلط انداز سے جملے یا الفاظ ادا کرتا ہے۔ آپ اسے فورًاٹھیک کردیتے ہیں اور تھوڑے دن کی محنت کے بعد بچا صحیح انداز سے بولنے لگتا ہے اسی طرح سے زبان کی بہت سی غلطیوں کو لسانیات کے ذریعے سے درست کیا جاتا ہے تاکہ زبان سیکھنے والے اور بولنے والے ان کو سمجھ کر صحیح انداز سے بول سکیں۵۔ فی زمانہ المیہ یہ ہے کہ والدین تو کجا اساتذ ہ بھی درست تلفظ سے آشنا نہیں ہوتے۔ یہ المیہ اردو زبان کو دائمی خسارے کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایسا خسارہ جو ناصرف زبان ، بلکہ تہذیب کے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس صورت حال کی روک تھام کے لیے علم لسانیات کی ضرورت مسلم ہے کیوں کہ یہ ناصرف لسانی اغلاط کی اصلاح میں معاون ہے بلکہ اس علم کی اشاعت سے تہذیب کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تقریب میں ڈاکٹر لرمیلہ وسیلوا ( جو اردو دنیا میں فیض شناسی کے حوالے سے مقبول ہیں۔سخن فہم ہیں، اس لیے اردو شاعری میں سب سے بڑھ کر غالب کی طرف دار ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت و فن ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع بنایا۶) نے دور رس تبصرہ پیش کیا جو درس و تدریس ، تعلم و تعلیم سے وابستہ اشخاص کے لیے نہایت اہم ہے۔ انھوں نے کہا:
’’ کمیونسٹ روس میں علم و حکمت کی بڑی قدر تھی۔وہاں پر خواندگی کی شرح تقریبًا سو فیصد تھی اور سائینس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس ملک کا بول بالا تھا مگر چوں کہ اس معاشرے میں نیکی اور بھلائی کا فقدان تھا اس لیے وہ ملک باد مخالف کے ایک تازہ جھونکے کی تاب نہ لا سکا اور وہ بلند و بالا عمارت جس کا نام کمیونسٹ روس تھا ریت کے محل کی طرح آن کی آن میں زمیں بوس ہوگئی‘‘۷۔
موصوفہ کا یہ تبصرہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا پیغام دیتا ہے۔ ایم ایم حسن نے ان کے اس خیال کی حمایت میں کہا کہ “
“ کمیونسٹ روس کی پسپائی نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ کوئی ملک خواہ علم و حکمت میں کتنی بھی ترقی کرلے اور اپنی تہذیب کو بام عروج تک پہنچادے لیکن اگر وہ تہذیب مذہب کے رنگ سے عاری ہے تو وہ ضرور تباہی سے ہمکنار ہوگی کیوں کہ ایک مادہ پرستانہ تہذیب کی بنیاد ذاتی مفاد اور خود غرضی پر ہوتی ہے۔ وہاں پر اعلٰی انسانی قدروںکی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور جبر و تشدد اور ظلم کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ لہذا جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۸۔ “
دونوں دانشوروں یہ تبصرہ اگست ۱۹۹۳ میں ماہنامہ تہذیب میں “تہذیب وہ ہے کہ جس میں رنگ مذہب بھی ہو“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی تہذیب سے دوری زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔”اس متعلق ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنے مضمون “ زبان و تہذیب” میں خوب تجویز پیش کی، لکھتے ہیں:
کسی زبان کی زندگی اس امر پر منحصر ہے کہ اس کی اعلی پیمانہ پر تدریس ہو رہی
ہے یا نہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام نے نے ۱۹۵۹کے بعد ہائی اسکول کے مرحلے تک فارسی اور عربی میں کسی ایک زبان کی اختیاری تعلیم کا سلسلہ ختم کرکے اردو کے ساتھ تمام پاکستانی زبانوں کو دیوار سے عرصے لگانے کا فیصلہ کرکے جس غلطی کا ارتکاب کیا ہے اسی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی میں اس کانفرنس کے ذریعے ارباب حل و عقد سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کو کلاسیکی زبان کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ انگریزی زبان کے لیے ابھی تک اسکولوں میں لاطینی اور یونانیزبان کی تعلیم ضروری خیال کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے سائنسی علوم کی
لاکھوں اصطلاحات اور تراکیب لاطینی اور یونانی زبانوں کی مدد سے وضع کر لی گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی اصطلاح سازی کے عمل کو خیرباد کہنے والے ہیں اور اصطلاحوں کے بجائے تشریحی پیراگراف سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے ماہرین تعلیم اور سماجیات اس اہم مسئلہ پر غور و فکر کریں گے۹۔
( بین الاقوامی اردو کانفرنس منعقد اسلام آباد مارچ 2005 میں پڑھا گیا) ۱۲۸ ارتقا
یہی وجہ ہے کہ آغاز سے اب تک اردو زبان کو ریختہ سے اردوئے معلٰی بنانے والے تمام ادبا اور شعرا فارسی اور عربی کے ماہر تھے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اردو بہتر کرنے کے لیے ہمیں عربی کو بہتر کرنا ہوگاتوکچھ نقاد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زبان کو مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ لیکن عربی، فارسی سے اردو کا رشتہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا انگریزی سے لاطینی اور یونانی کا! اور اس رشتہ کو اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے جتنا کہ انگریزی کا اپنی ماخذ زبانوں سے ہے۔ لسانیات فقط بولی جانے والی زبان سے متعلق نہیں ہے بلکہ ’’ آج کے دور میں لسانیات نے زبان کے تاریخی جائزوں کی سرحدوں سے باہر نکل کر ریاضی اور سائنس کی اعلیٰ منزلوں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔اب زبانیں اپنے مخصوص دائروں میں محدود نہیں رہ سکتیں ۔ تہذیبی انقلاب‘لسانی تبدیلیوں اور صنعت وسائنس کی
بے پناہ ترقی میں انھیں اپنے لیے جگہ متعین کرنی ہوگی۔ماضی کی طرف نگاہ رکھنا ضروری سہی لیکن زمانے کی رفتار کے پیشِ نظر مستقبل سے صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔زندہ رہنے کے لیے مستقبل کے تقاضوں کو قبول کرنا ہوگا۔ہم نے اردو کے آغاز کے نظریوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے جبکہ فروغِ لسانیات کی طرف سنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے۱۰۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رابعہ سرفراز ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبہ اردوگورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد، نے قابلِ قدر تجویز پیش کی ہے کہ:
’’ہمیں فروغِ لسانیات کی طرف سنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ ایچ۔ ای۔ سی کے زیرِ نگرانی ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو لسانیات کوعلمی مدارج پر فروغ دے۔اس ادارے کے تحت لسانیات کی تدریس پر توجہ دینی چاہیے اور یہ ادارہ ایسی کتب کی اشاعت کو یقینی بنائے جن سے لسانیات اور اس کی افادیت زبان و ادب کے طالب علموں پر اُجاگر ہوسکے۱۱‘‘
اردو میں لسانیات کی قابل ذکر کتابیں ہاتھوں کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں(۔۔)پاکستان میں اردو کو سرکاری پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے لیکن پھر بھی لسانیات کے باب میں اردو نے ترقی نہیں کی۳۹۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے ۲۰۰۹ تک اردو لسانیات کے حوالے سے کوئی گراں قدر خدمات یا اصلاحات منظر عام پر نہیں آئیں اور نہ ہی اس کو علم کا درجہ حاصل ہوا۔ پاکستان میں سب سے پہلے اردو شعبہ لسانیات کا ۲۰۰۹ میں آغاز ہوا۱۲‘‘۔ جس کی بنیاد ڈاکٹر نوید راحت نے قائد اعظم ہونیورسٹی میں رکھی۱۳۔ یوں ملکِ عزیز میں اس کا تعارف زیادہ پرانا نہیں۔ موجودہ دور میں ’اہل زبان اور اربابِ قلم مختلف انداز و اسلوب سے اردو کی خدمت کر رہے ہیں لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کی طرف کم ہی توجہ مبذول ہوئی تھی. وہ ہے الفاظ کی صحت۔ کتنے الفاظ ایسے ہیں جن کو تعلیم یافتہ لوگ بھی غلط بولتے ہیں۱۴۔گوکہ زبان کو سیکھنے سکھانے میں کافی مسائل پیش آتے ہیں لیکن ان میں تلفظ کا ایک نمایاں مسئلہ ہے اردو میں لسانی اصول وضع کیے گئے۔ ہر زبان کو اس قسم کےاصولوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر زبان کو مختلف نوعیت کی پیچیدگیوں کا سامناہوتا ہے۔اردو حروف کی لسانی مماثلت اور تلفظ کے مسائل کے حوالے سے اول یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کوئی بھی بڑی زبان لسانی پیچیدگی سے مبرا نہیں ہوتی۔زبان کی اس فطری بے قاعدگی کے بارے میں سپیر نے اپنی کتاب لینگویج میں لکھا ہے:
“Unfortunately or luckily, no language is tyrannically
consistent. All grammars leak”. ۱۵
انگریزی زبان جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے اس کے متعلق معروف ادیب جارج برناڈ شا نے “سات سو (۷۰۰) الفاظ گھڑ کر بغرضِ اصلاح پیش کیے کہ اس طرح حروف اور آوازیں شامل کی جائیں تو یہ زبان ترقی کر سکتی ہے۔ اس پر عمل نہیں ہوا۔ یہی فاضل مصنف تھے جنہوں نے انگریزی کو ’’پاگل آدمی کی زبان‘‘ قرار دیا۔ اس پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس عجیب زبان میں But، بَٹ ہے تو Put، پَٹ کیوں نہیں؟ انہی نے یہ لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر مَیں چاہوں تو لفظ Fish (مچھلی) اس طرح بھی لکھ سکتا ہوں: GHOTI (دلیل یہ ہے کہ ‘GH’، Rough, Tough جیسے الفاظ میں آتا ہے تو ‘F’ کی آواز دیتا ہے۔ ‘O’ جب Women میں آتا ہے تو ‘I’ کی آواز دیتا ہے اور ‘TI’ جب Nation اور Ration میں آتے ہیں تو ‘SH’ کی آواز نکلتی ہے)۱۶‘‘
اب اگر ہم اس صوتی نزاع کے باوجود انگریزی زبان کی عالمگیریت کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو اس کی کئی وجوہات نظر آتی ہیں۔ جن میں سے دو کا ذکر بر محل ہے۔ اول ماخذات اور دوم لسانی اقدار کی حفاظت۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق انگریزی میں کل ۱۷۱،۴۷۶ الفاظ ہیں جن میں اسی فیصد دوسری زبانوں سے ماخوذ ہیں ۱۷۔ انگریزی زبان میں اس لسانی پہلو کو بہت اہمیت دی جاتی ہیں جس کے لیے ماخذات کا باقاعدہ علم ہے جس کو etymology کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس کی مدد سے لغت بھی مرتب کی جاتی ہیں جیسے کہ
“The Concise Oxford Dictionary of English Etymology Edited by: T. F. Hoad”
“A Dictionary of Etymology of the English Language, and of English Synonymes and Paronymes
John Oswald”
“The Unexpected Evolution of Language – Discover the Surprising Etymology of Everyday Words Justin Cord Hayes 2012”
ان لغات کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کے عنوان اتنے دلچسپ ہیں کہ سرِ ورق دیکھ کر ہی پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اس میں لفظ کو توڑ کر اس کے اصل کی تلاش کرکے اس کی تشکیل اور تاریخ سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لفظ جس زبان سے مستعار لیا گیا ہے یہ بھی تفصیلی بتایا جاتا ہے۔یہ مطالعہ دلچسپ ہے اور اس سے لفظ کی گیرائی سے ہر خاص و عام واقف ہو سکتا ہے۔ انگریز تلفظات کے اصولوں میں تضاد اور تنازع کے باوجود الفاظ کے ماخذات ترک کرنے کے خواہاں نہیں ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس طرح لسانی اقدار کی حفاظت کرتے ہیں۔ثانوی سطح کی جماعت میں زبان شناسی کے اس طریقہ تدریس کی اہمیت اور افادیت کے متعلق محقق اور نقاد ہاربرٹ ڈی پئرسن لکھتے ہیں۱۸:
“When contemplating the study of etymology, one can easily conjure up the image of philologists poring assiduously over texts, puzzling out the primitive origins of words. If this is the impression, it is not surprising
that etymology might appear to second-language teachers as an archaic academic discipline dealing with obscure language matters touching only incidentally on pedagogy. I would like to suggest a different view. I believe a meaningful approach to etymology in second-language learning, as opposed to rote memorization of words, prefixes, suffixes and roots, can offer inter- mediate/advanced second-language students both practical and theoretic- cal linguistic knowledge congenial to a more permanent retention of words and concepts.” .….
Meaningful learning does not occur capriciously or spontaneously, but rather deliberately under conditions in which the learner is cognitively prepared, and what is to be learned is systematically and rationally organized. For this reason psychologists of learning like Ausabel and Robinson (1969) generally subscribe to three necessary conditions for meaningful learning to take place: What is learned can be linked to other areas of learning.
2 The learner must have already internalised ideas to which the new
learning can be connected; and
3 The learner intends to make these connections.
Based on these criteria, etymology could be considered meaningful
learning in the language classroom.۱۸
سوال یہ ہے کہ کیا اردو میں لفظ شناسی کا اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے؟ کیا ہمارے طلبہ کو لفظیات پر عبور حاصل ہے؟ کیا ہماری دسترس میں کوئی ایسی لغت ہے جو اردو الفاظ کے ماخذات کے متعلق سیر حاصل معلومات فراہم کرے؟
ہر بڑی اور مقبول زبان کی طرح اردو میں بھی ماخذات کا مطالعہ نہایت دلچسپ ہے۔بقول نصیر احمد خان اردو میں مستعار لینے کا زبردست عمل ملتا ہے۔ جن زبانوں سے اردو نے بلا تکلف استفادہ کیا ہے ان میں عربی اور فارسی خصوصًا قابل ذکر ہیں۱۹۔ فرہنگ آصفیہ میں شامل اردو کے کل الفاظ کی تعداد ۵۴۰۰۹ ہے جن میں ۲۱۶۴۴ ہندی جس کے ساتھ پنجابی اور پوربی زبان کے بعض خاص الفاظ کی تعداد ۲۱۶۴۴ ہے‘ فارسی کے ۶۰۴۱جب کہ عربی کے ۷۵۸۴ الفاظ ہیں‘۲۰ ۔اس وسیع لین دین کی بنا پر اردو کے طالب علم کو ان زبانوں سے اخذ شدہ الفاظ کے ماخذات کا پختہ علم ہونا لازمی ہے تاکہ ہر زبان کے الفاظ معنی و مفہوم کے لحاظ سے موزوں لفظ کا استعمال اور اس لفظ کے تلفظ کی رعایت کو سمجھا جا سکے۔۔ بطور مثال جملہ دیکھیے:
ایک بندہ خدا نے سر راہ بہترین سر میں اپنی زندگی کے سر کا نغمہ سنایا اس جملہ میں ہر “سر” کا تلفظ علیحدہ ہے پہلا سَر ہے دوسرا سُر ہے اور تیسرا سِر۔
دراصل عربی زبان میں بیشتر الفاظ کا تلفظ لفظ کے باب کی مناسبت سے متعین ہوتا ہے۔ اردو کا بھی یہی قاعدہ ہے‘ ایک باب کے وزن پر جو بھی لفظ آئے گا لامحالہ اسی وزن میں ڈحل جائے گا: جیسے مُفَاعَلَتہ‘ کا باب ہے اس وزن پر جتنے لفظ آئیں گے ان کا تلفظ ایک ہی طرح کا ہوگا۔
مثلًا معاملہ مقابلہ مشاہدہ مکالمہ‘‘ ۲۱
اردو میں ابواب کی ترتیب سے تلفظ کا یہ نظام عربی سے ماخوذ ہے۔جو کئی زبانوں کے قواعدِ تلفظ سے منظم اور سریع الفہم ہے۔اس کے باوجود ان اصولوں سے طالب علم تو کجا اساتذہ بھی واقف نہیں ہوتے۔ خال خال اساتذہ ہی ان اصولوں کی پیروی کرتے ملتے ہیں۔ عدم استعمال کی وجہ سے اس قدر آسان ہونے کے باوجود طلبہ ان قاعدوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ با ایں ہمہ اردو لسانی باریکیوں کو وہ مقبولیت حاصل نہیں جو کہ انگریزی کو ہے ۔ انگریزی میں gh, o,e, ph وغیرہ جیسی صوتی پیچیدگیاں، جس کی طرف برناڈ شا نے بھی اشارہ کیا، ہونے کے باوجود وہ طالبات پر یہ زبان گراں نہیں گزرتی ۔ اس اجمال کی تین وجوہ مقرر کی جاسکتی ہیں:
۱ ۔ نصاب میں اول لسانیات کا حصہ بہت کم ہے اور جو ہے وہ بھی ٹھیٹ لسانی نہیں
۲۔ اردو لسانیات کے حوالے سے سمعی معاونات کی قلت اور عدم فراہمی
۳۔ سوشل میڈیا پر اردو کے حوالے سے معیاری مواد کی عدم دستیابی
۱۔ نصاب میں اول لسانیات کا حصہ بہت کم ہے اور جو ہے وہ بھی ٹھیٹ لسانی نہیں:
موجودہ حکومت نےاردو کے گزشتہ نصاب میں لسانی اہداف کی کم مائیگی کو سمجھتے ہوئے اردو کا جو یکساں تعلیمی نصاب ترتیب دیا ہے۲۲ اس سے بہتراردو تدریس کی امید کی جا سکتی ہے۔ تاہم فی الوقت اردو ثانوی سطح پر جو نصابی کتب پڑھائی جاتی ہیں وہ قومی نصاب برائے اردو ۲۰۰۶کے مطابق مرتب ہیں۲۳۔ جس میں درج ذیل تدریسی مقاصد طے کیے گئے ہیں:
Screen Shot 2022-01-09 at 10.28.38 PM.png ¬
ان مقاصد میں بظاہر چاروں مہارتوں( سننا‘ بولنا‘ پڑھنا‘ لکھنا) کوملحوظ رکھا گیاہے جس کے لیے اردو کے ادبی پہلووں پر توجہ دی گئی ہے۔اس میں خیالات لکھنے اور برتنے کی ہدایات دی گئی ہیں تاہم لسانی بالیدگی خصوصًا الفاظ کو مختلف جہتوں سے جانچنے اور درست تلفظ کے حوالے سے کوئی مقصد شامل نہیں کیا گیا۔ زبان دانی کے لیے لسانی مشقوں کا ہونا لازمی ہے۔ ادب اور لسان دونوں جسم و جاں کی طرح ہیں۔ اگر فقط ادب ہے تو اس “پتھر کے صنم” کا کیا کام! جب طالبِ علم جملہ بنانے تک کا اہل نہ ہو؟ ایک طالب علم کو تخلیقی میدان میں اترنے، کچھ شستہ کہنے اور مدلل لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ادب پارے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لفظوں کی دھڑکن کو محسوس کرسکے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر علامہ اقبال نے جب آٹھویں جماعت کی نصابی کتاب مرتب کی تو اس میں اس قسم کے سوال شامل کیےجن میں الفاظ کے فقط معنی نہیں بلکہ ان کی تشریح کرنے کا کہا گیا۔ چند نمونے پیش ہیں:
۱ ۔ ان الفاظ کی معنی کی تشریح کرو:۔
زمردیں۔ گرمابہ۔ حکمتِ ایزدی۔ شامہ۔ جنوں انگیز۔ حکمتِ بالغہ ۲۶
۳۔ ان اصطلاحات کے معنی کی توضیح کرو:۔
پچی کاری۔ مرغوبیں۔ منبت کاری۔ کنگورہ۳۶
۱۔ ان اصطلاحات کی اس طرح تشریح کرو کہ ان کے مطالب کا فرق سمجھ میں آجائے:۔
لطیفہ گوئی۔ پھکڑ۔ بد لگامی۔ معاملہ بندی۔ رمز ۲۳
کسی لفظ کے معنی تلاش کرنے کا یہ طریقہ بظاہر عام سا ہے۔ لیکن اگر اسے بلومز ٹیکسانومی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تفہیم کےپہلے، دوسرے اور چوتھے درجے (نیچے سے اوپر) کی صلاحیتیں پیدا کرنے کا اہل ہے جب کہ موجودہ نصاب میں فقط لفظ کے معنی پوچھے جاتے ہیں یا معنی کے ساتھ جملہ بنانے کو دے دیا جاتا ہے۔ یعنی تفہیم کی پہلی اور آخری صورت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بے تسلسل تفہیم کی بنا پر طالب علم نہ ہی لفظ کو سمجھ پاتا ہے اور جملہ بنانے سے تو بلکل ہی قاصر ہوتا ہے۔نتیجتًا وہ ادبی زبان کو روزمرہ میں استعمال نہیں کر پاتا اور گفتگو میں لسانی چاشنی سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نصاب میں اس لسانی خلا کی وجہ سے اساتذہ کے لیے شاگردوں سے جملے بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کمی کے پیشِ نظر ابتدائی جماعتوں کے طلبہ سے ایک سوال نامہ حل کروایا گیا۔ جس میں ایسے دس الفاظ شامل کیے گئے جو روز مرہ کی اشیا کے نام ، رنگ اور املا سے متعلق تھے۔ ذیل میں سوالات کا جائزہ پیش ہے:
جدول ۱
تعدد | عمر | نمبر شمار |
50 |
12-19 | 1 |
100.0 | ٹوٹل |
جدول ۲
فی صد | تعدد | مادری زبان | نمبر شمار |
54.0 | 27 | اردو | 1 |
32.0 | 16 | پنجابی | 2 |
14.0 | 7 | پشتو | 3 |
100.0 | 50 | ٹوٹل | 5 |
جدول ۳
فی صد | تعدد درست جوابات | املا کے الفاظ | نمبر شمار |
84.0 | 42 | بچھائے | 1 |
90.0 | 45 | پہنچائے | 2 |
82.0 | 41 | لازمہ | 3 |
84.0 | 42 | شکوہِ لفظی | 4 |
68.0 | 34 | محض | 5 |
74.0 | 37 | خاطر جمع | 6 |
64.0 | 32 | مہِ صیام | 7 |
48.0 | 24 | نحیف و نزار | 8 |
42.0 | 21 | رطب اللسان | 9 |
76.0 | 38 | کثیف | 10 |
76.0 | 38 | عنابی ہونٹ | 11 |
90.0 | 45 | ذرا | 12 |
84.0 | 42 | مستعدی | 13 |
22 | 11 | محظوظ | 14 |
48.0 | 24 | سرعت | 15 |
56.0 | 28 | مخطوطہ | 16 |
50.0 | 25 | اصطبل | 17 |
100.0 | 50 | ٹوٹل |
|
درج بالآ شماریاتی جائزہ ابتر صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے۔ جن طالبات کوقومی نصاب اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے اہل سمجھتا ہے وہ روز مرہ کے الفاظ لکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے طالب علموں میں فقط زبان کی ناخواندگی ہی نہیں بڑھتی بلکہ دیگر نفسیاتی اور معاشرتی مسائل بھی اسی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں کیوں کہ وہ الفاظ کی حرمت سے ناآشنا ہوتا ہے وہ ذاتی اور عوامی سطح پر اپنی بات کو منوانے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ نہ ہی ادب کے ذریعے اپنا کتھارسس کرنے کا اہل ہوتا ہے۔اظہار کی اس بندش کا شکار ہو کر وہ اپنا مطمحِ نظر غصہ کرکے‘ نازیبا الفاظ استعمال کرکے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر دوسری کسی زبان کا علم ہو تو اس طرف رجوع کرتا ہے یا فنونِ لطیفہ کا سہارہ ڈھونڈتا ہے۔ (خیر لسانی ناخواندگی کا یہ ذیلی پہلو جملہ معترضہ ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے ایک الگ تحریر درکار ہےاور یہ ذاتی مشاہدہ ہے؛ سب کا اتفاق کرنا لازمی نہیں)
درج بالا نصابی خلا کے متعلق معروف کالم نگار نجیبہ عارف نے ان الفاظ میں اظہارِ خیال کیا:
“میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو اسی تخصیص کی ضرورت ہے کہ
جب ہم تدریسِ اردوکہیں تو اس سے مراد ہو اردو زبان۔ ادب کو زبان کی تدریس کے لیے ضرور استعمال کیا جائےمگر اس کے علاوہ بھی اردو کی تدریس کے مراحل پر توجہ دی جائے۔ کم از کم پہلے بارہ سال کی تعلیمی زندگی میں اردو زبان کے تدریس کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ اس کے لیے ادبی مواد کی مدد لی جا سکتی ہے مگر صرف ادب کی تدریس پیش نظر نہ رہے بلکہ معروضی نثر لکھنا‘ سائنسی اور تیکنیکی مضامین کے پیرایہ بیان کی تربیت دینا اور روزمرہ بات چیت اور بول چال کے اسلوب سکھانا اردو کی تدریس کے لازمی اجزا سمجھے جانے چاہییے۔‘‘۲۴
اردو بک ریویو کے مدیر محمد عارف اقبال نے خصوصی انٹرویو میں تعلیمی اداروں کی اس کمی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ:
اردو زبان کا براہِ راست تعلق تعلیم اور تعلیمی ادارے سے ہے۔ میں اس بات کا اعادہ ایک بار پھر کروں گا کہ ملک کی تعلیم گاہوں میں اردو زبان کی تدریس کو یقینی بنائے بغیر عوامی سطح پر اردو کا فروغ مشکل ہے۔ گزشتہ ۶۰ برسوں میں تعلیم گاہوں سے ہی اردو کو بتدریج ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اردو آہستہ آہستہ ہمارے گھروں سے بھی نکل گئی۲۵۔
۲۔ اردو لسانیات کے حوالے سے سمعی معاونات کی قلت اور عدم فراہمی:
درست تلفظ سیکھنے سکھانے کے لیے سمعی معاونات ناگزیر ہیں۔ سمعی معاونات ناصرف طالب علم بلکہ اساتذہ کی بھی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ اکثر اساتذہ کا تعلق دیہی علاقعں سے ہوتا ہے یا انہوں نے نجی ادارے سے (پرائیوٹ) ایم اے کیا ہوتا ہے تو وہ خود بھی درست تلفظ سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے نصیر خان نے “صوتی لغت” مرتب کی ہے جو تلفظ سیکھنے کے لیے انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔’ اس کے اندراجات کی ساخت کے دس حصے ہیں جن کی ترتیب یوں ہے: ۱۔اصل لفظ ۲۔ماخذ ۳۔ نحوی زمرے ۴۔ تلفظ ۵ ۔ معنی و مطالب ۶۔ لفظ میں صوتی تبدیلی ۷۔ تلفظ اردو میں ۸۔ تلفظ رومن خط میں۹۔ لفظوں کی رکنوں میں تقسیم ۱۰۔مرکبات‘۲۶۔
یہ لغت تفصیلی ہونے کے باوجود آسان ہے اور طالب علم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم موجودہ دور میں سمعی معاونات کی فراہمی انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے لیے یہ ذرائع کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں:
۱۔ درسی کتب کے ہمراہ سی ڈی یا کیسٹ فراہم کی جائے جس میں مکمل کتاب آڈیو کی صورت میں ہو
۲۔ اردو زبان دانی پر مبنی ماہر لسانیات اور مستند اسانذہ کی ویڈیوز اور آڈیوز کی اشاعت
۳۔ گوگل پر کسی بھی اردو لفظ کے معنی تلاش کرنے پر اس لفظ کے معنی مع تلفظ ظاہر ہوں (جس طرح انگریزی کے کسی لفظ کے معنی تلاش کیے جائیں تو گوگل پر اس لفظ کا ماخذ‘ معنی‘ تلفظ کی آڈیو ‘مترادف‘متضاد نمودار ہوجاتے ہیں؛ اس کے لیے الگ سے کوئی تفصیل نہیں لکھنی پڑتی)
ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام ( جنھوں نے اردو کو برقی رابطے کی زبان بنانے میں گراں قدر خدمت کی ہے)نے اپنی کتاب ’’ تعارف و تنقید‘‘میں تلفظ کے مسئلہ کا حل یہ تجویز کیا ہے:
’’اوٌل تو یہ کہ استاد اِن آوازوں کو خود ادا کریں اور طلبہ اس کو دُہرائیں پھر لفظوں کے ذریعے ان آوازوں کے طریقِ استعمال اور طریقہٴ ادائیگی کو سمجھایا جائے۔ساتھ ہی بلیک بورڈ پر نقشے کے ذریعے ان کے مخارج کی نشاندہی کی جائے ۔اب تک زبان کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں انہی طریقوں کو بروئے کار لایا جا رہاہے لیکن اگر ہم اس کے لیے جدید سمعی اور بصر ی امدا د کا بھی استعمال کریں تو کم سے کم وقت میں خفیف سے خفیف فرق کو بخوبی سمجھا سکتے ہیں۔اس سلسلے میں جدید Language Lab اور Audio ,Video کیسٹ وغیرہ کے استعمال کا اہتمام کرنا چاہیے اور نصاب میں ایسے اسباق شامل کیے جانے چاہیئے جن میں ان حروف مثلاً ص، ض ، ط ، ظ، ع ، غ ، ذ ، ز ، ژ وغیرہ کے لیے الگ الگ اسباق مختص ہوں اور کثیر الاستعمال الفاظ کو ان اسباق میں شامل کیا جانا چاہیئے اور معلم کی یہ کوشش رہے کہ طلبہ ان آوازوں کے مخارج کو بھی سمجھیں اور ان کی ہجے بھی یاد کریں تاکہ جب ان سے املا
(Dictation ) لکھوائی جائے تو آوازوں کے مخارج سے حروف کو پہچان سکیں اور املا میں غلطی نہ کریں ۔الفاظ کی ہجے یاد کرانے میں اس بات پر زور دیا جائے کہ طلبہ الفاظ کو پورے Figure کے ساتھ ذہن نشیں کر نے کی کوشش کریں۲۷ ۔‘‘
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اس حوالے سے مفید صلاح پیش کی ہے جو تلفظ کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نکتہ قومی نصاب برائے انگریزی ۲۰۰۶ کا لازمہ ہے لیکن اردو نصاب میں اسے اہمیت نہیں دی گئی) :
’’ذخیرہ الفاظ کے سلسلے میں بچوں کو ابتدائی جماعتوں ہی سے لغت کے استعمال کی عادت ڈالنے کے لیے اس اہم سرگرمی کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے بچوں کے مجوزہ ذخیرہ الفاظ پر مشتمل بولنے والی لغات یا ٹاکنگ ڈکشنری
خصوصی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ اب تو ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے انتہائی کم لاگت میں ایسی لغات تیار کر کے بلا قیمت بچوں اور اساتذہ تک پہنچائی جا سکتی ہیں۲۸۔‘‘
۳۔ سوشل میڈیا پر اردو کے حوالے سے معیاری مواد کی عدم دستیابی:
اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ ہر سوال ایک کلک کی دوری پر ہے ‘بد قسمتی سےاردو کے حوالے سے کسی سوال کے جواب کو جاننے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔اکژ کتب یا تو انٹرنیٹ پر ہوتی نہیں ہیں یا ہوں تو ڈاون لوڈ کا آپشن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سوشل میڈیا یعنی ٹی وی، فیس بک، ٹوئیٹر پر خبروں‘ڈراموں، تفریحی صفحات پر غیر معیاری مواد شائع ہوتا ہے۔
اس متعلق معروف محقق و نقاد اور اردو ورلڈ اسوسیشن کے چئیرمین خواجہ محمد اکرام الدین نے قابلِ قدر رائے کا اظہار کیا ہے:
’’۔۔سائبر اسپیس عہد حاضر کا وہ خزانہ ہے جہاں علم و فنون اور معلومات کا ذخیرہ بنا ہے یہ ایک وسیلہ ہے جس سےہم آہنگی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن اردو زبان اور اہل زبان کے حوالے سے اگر سائبر اسپیس کا جائزہ لیں تو بروقت وہ شعر یاد آتا ہےاے موجِ بلا ہلکے سے ذرا، دو چار تھپیڑے ان کو بھی کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں۲۹۔‘‘
جی ہاں ہم نے سائبر اسپیس کے مکانات کو خاطر میں نہیں لایا اسی لئے اردو ترجمہ کے حوالے سے جب کسی ایسی ویب سائٹ کی تلاش کرتے ہیں جو اردو زبان سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں پورے طور پر معاون ہوں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔۔۔ اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے نام پر دنیا بھر میں کئی ایسے ادارے موجود ہیں جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس میں کام کر رہے ہوں گے یا کر لینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے‘۔معروف نقاد محمد علی صدیقی نے ایک کانفرنس میں ideology کو مقبول کرنے کا موثر ذریعہ videology بتایا ہے۳۰۔ عام بول چال میں جسے کہا جاتا ہے “جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے”۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا ذہن سازی کا آلہ کار ہے۔ اگر ہم اس کے اس کردار کو مثبت طور سے استعمال کریں ، قومی زبان کی ’آئیڈیالوجی‘ کو کو ’ویڈیالوجی” میں بدل دیں تو یہ قدم اردو زبان کی ترویج میں مہمیز ثابت ہوگا۔ فی الوقت انٹرنیٹ پر انگریزی کی نصابی اور غیر نصابی کتب بلا معاوضہ ایک کلک کی دوری پر ہیں، لفظ لکھو تو تلفظ، معنی، استعمال سب لمحے میں سامنے ہوتا ہے۔ جب کہ اردو کے حوالے سے درسی اور نصابی کتب خصوصًا لغت تک رسائی اس قدر سہل نہیں۔ اب یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ لغت کی تو بہت سی ایپ موجود ہیں۔ تو گزارش یہ ہے کہ اردو مواد تک رسائی ایپ ڈاون لوڈ کی بھی محتاج نہیں ہونی چاہیے؛ جب بھی پاکستان میں انگریزی کے کسی لفظ کے معنی تلاش کیے جائیں تو انگریزی کے ساتھ اردو کے معنی بھی اسی برق رفتاری، جامیت اور تفصیل سے نمودار ہونے چاہیے۔ الغرض کہ مواد کسی اشتہار کی طرح خود سامنے کھل جائے نہ کہ طالب علم کسی لغت کی ایپ کا پابند ہو!
اس کے علاوہ نفاذِ اردو کے حوالے سے جی سی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر الماس خانم نے ایک اہم سروے کیا جو کہ عصرِ حاضر میں اردو کو درپیش مسائل اور رائے عامہ کا با خوبی احاطہ کرتا ہے۔ یہ دستاویز جریدہ تحقیق ۷ میں شائع ہو چکا ہے۔ چوں کہ ڈاکٹر صاحبہ شعبہ اردو میں لسانیات سے ہی وابستہ ہیں اس لیے ان کی تجاویز بھی شامل کی جا رہی ہیں:
۱۔ بین الاقوامی نوعیت کی اہمیت کی حامل جدید علوم و فنون کی کتب کے تراجم کروائے جائیں
۲۔ تمام علوم کی اصطلاحات سازی پر بھرپور توجہ دی جائے اور اصطلاحات سازی پر جو کام ہو چکا ہے اسے عملی جامہ پہنایا جائے
۳۔ اردو زبان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اردو سافٹ وئیرز کو مزید بہتر بنایا جائے
۴۔ اردو کو علمی اور سائنسی زبان بنانے کی طرف بھرپور توجہ دی جائے ۳۱
لیکن یہ سب اقدامات فقط سعی لاحاصل بن کر رہ جائیں اگر اساتذہ ان ذرائع کو بروئے کار نہ لائیں۔جدید تدریسی طریقوں سے واقفیت استاد کی پیشہ ورانہ اخلاق کا حصہ ہے اس عمل کو زبان آموزی کہتے ہیں۔ ہر زبان کے اپنے تدریسی مسائل ہوتے ہیں مسائل کو سمجھتے ہوئے عملی طریقوں کا برتنا استاد کی حاضر دماغی ہی نہیں بلکہ ہنر بھی ہے۔ پس سمعی و بصری آلات یعنی ریڈیو، ویڈیو، ٹیپ ریکارڈر،اور انٹرنیٹ کے موثر استعمال سے اردو کی لسانی بنیادوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔۔جو ہماری قومی ضرورت ہے!
****
حوالہ جات
۱۔ قومی نصاب برائے اردو (لازمی) پہلی تا بارہویں جماعت کے لیے، حکومتِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد ۲۰۰۶ ص ۶، ۷
۲۔ ایضًا ص ۳۵
۳۔ زیرو ڈرافٹ یلساں قومی نصاب اردو ششم تا ہشتم ۲۰۲۰
۴۔ ڈاکٹر رابعہ سرفراز، لسانیات تعارف اور اہمیت 16TH Issue
۵۔ ڈاکٹر ہارون ایوب، اردو کی درس و تدریس کے مسائل. اردو اکادمی، بھوپال ۱۹۸۳ ص ۲۱
۶۔ محمود الحسن، فیض شناسائی غالب کے وسیلے سے ہوئی (کالم) ایکسپریس نیوز ۷ نومبر ۲۰۱۳
۷۔ رسالہ تہذیب شمارہ نمبر ۰۰۳، ص ۴۵
۸۔ ایضًا ۴۶
۹۔ رسالہ ارتقا شمارہ نمبر ۰۳۹ ستمبر ۲۰۰۵، کراچی ص ۱۲۸
۱۰۔ ڈاکٹر رابعہ سرفراز، لسانیات تعارف اور اہمیت 16TH Issue
۱۱۔ ایضًا
- Urdu and linguistics: a fraught but evolving relationship Elena basher.
urdu humanities conference held in Madison Wisconsin
On 14 oct 2010 page 106
۱۳۔ گیان چند جین، عام لسانیات، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی ۱۹۸۵ ص ۴۶
۱۴۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اردو املا اور رسم الخط اصول و مسائل، سنگِ میل پبلکشنز لاہور، ۱۹۷۷ ص ۱۰۵
۱۵۔ سہیل احمد خان، کالم اردو املا اور رسم الخط کے مسائل کا سرسری جائزہ ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۲
Irak.pk/urdu-imla-and-script-issues/
۱۶۔ https://www.lexico.com/explore/how-many-words-are-there-in-the-english-language
۱۷۔ مترجم نصیر احمد خان، لسانیات کیا ہے، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، ۱۹۸۸ ص ۴۱
18- Using etymology in the classroom by Herbert D. Pierson
https://www.researchgate.net/publication/249252371_Using_etymology_in_the_classroom
۱۹۔ نصیراحمد خان، اردو ساخت کے بنیادی عناصر، نئی دہلی، ۱۹۹۴ ص ۲۴۷
۲۰۔ ایضًا ص ۲۴۸
۲۱۔ زیرو ڈرافٹ یلساں قومی نصاب اردو ششم تا ہشتم ۲۰۲۰
۲۲۔ قومی نصاب برائے اردو (لازمی) پہلی تا بارہویں جماعت کے لیے، حکومتِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد ۲۰۰۶ ص
۲۳۔ علامہ اقبال، اردو کورس، پنجاب لیجسلیٹو کونسل، لاہور ۱۹۴۰ ص ۲۶
۲۴۔ ایضًا ص ۳۶
۲۵۔ ایضًا ص ۲۳
۲۶۔ https://teachingurdu.blogspot.com/2012/06/blooms-taxonomy-map-adapted-in-urdu.html
۲۷۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف، کالم مثالی اردو نصاب کی بنیادیں
۲۸۔ پروفیسر نصیر احمد خاں، اردو کی صوتی لغت، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ۲۰۱۴ ص ۲۳
۲۹۔ ڈاکٹر خواجہ اکرام، تعارف و تنقید، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، ۲۰۰۶، ص ۱۶۔ ۱۵
۳۰۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف، کالم مثالی اردو نصاب کی بنیادیں
۳۱۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین، اردو زبان کے نئے تیکنیکی وسائل اور امکانات، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، ۲۰۱۲ ص ۔ ۳۵۳۴
۳۲۔ رسالہ ارتقا شمارہ نمبر ۰۳۹ ستمبر ۲۰۰۵، کراچی ص ۱۲۵
۳۳۔ ڈاکٹر الماس خانم، نفاذِ اردو ضرورت و اہمیت، مسائل اور امکانات: شماریاتی جائزہ، تحقیقی جریدہ شمارہ نمبر ۷
****