روزینہ یاسمین
ریسرچ اسکالر مسلم یونیورسٹی اسلام آباد
اقبال اور مغربی ثقافت
Abstract:
Allama Iqbal, also known as “Mufakkir-e-Pakistan” (The Thinker of Pakistan), was a prominent philosopher, poet, and politician in British India who played a significant role in the intellectual and political life of the subcontinent. He is best known for his poetic works, which inspired the Pakistan Movement and continue to resonate with audiences today.
Iqbal’s poetry often revolved around themes of self-discovery, spirituality, and the revival of Islamic civilization. He emphasized the importance of self-realization, urging individuals to seek their inner potential and strive for a higher moral and spiritual existence. Iqbal’s philosophical ideas and poetic expressions have had a profound impact on the collective consciousness of the South Asian Muslim community.
In addition to his literary contributions, Iqbal was also a staunch advocate for the rights and empowerment of Muslims in the Indian subcontinent. His lectures, essays, and speeches conveyed a vision of a separate homeland for Muslims, which eventually led to the creation of Pakistan. Iqbal’s vision and poetry continue to serve as a source of inspiration for those seeking a deeper understanding of the spiritual and intellectual heritage of the Muslim world.
Key word:
Iqbal, Poet, Philosopher, Pakistan Movement, Islamic Revival, Self-realization, Spiritual Enlightenment, Muslim Empowerment, Political Activism.
ثقافت کیا ہے؟
ثقافت مشہور برطانوی مصنف ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ثقافت پر بحث کرتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ جب بھی اس کھلے کی وضاحت کی جائے تو یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ انفرادی ، گروہی اور معاشرتی ثقافت میں سے زیر غور کون سا موضوع ہے کیونکہ مصنف مذکور کی رائے کے مطابق انفرادی ثقافتی اقدار کا انحصار اس گروہ یا معاشرے کی تہذیبی یا ثقافتی اقدار پر ہے ، جس گروہ یا معاشر سے اس فرد کا تعلق ہے۔ اس لئے فاضل مصنف کے نزدیک معاشرتی ثقافت کی بنیادی ے اس فرد کا تعلق ہے۔ اس لئے فاضل مصنف کے اہمیت حاصل ہے۔
یہ وہی نکتہ ہے جو حضرت علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے:
فرد می گیر و زملت احترام
ملت از افراد می یابد نظام
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطره وسعت طلب قلزم شود
پیکرش از قوم و ہم جانش زقوم
ظاہرش از قوم و پنہانش زقوم
و در زبانِ قوم گویا می شود
برده اسلاف پویا می شود
لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افراد ہی اپنی جماعت اور معاشرے کے نمائند ے ہوتے ہیں، اور کسی معاشرے کے تہذیبی معیار کو جانچنے کے لئے افراد ہی کے عادات واطوار کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرہ افراد ہی کے مجموعے کا نام ہے۔
در جماعت فرد را بینیم ما
از چمن او را چو گل چینیم ہا
ثقافت کا تعلق انسان کے شعوری پہلو سے ہے۔ جس میں علم ، عقاید ، اخلاقی قوانین، مع رسوم و رواجات اور جمالیاتی اقدار شامل ہیں ۔ شعوری پہلو کے ساتھ ساتھ ایک عملی پہلو بھی ہے جسے ہم کردار کہتے ہیں۔ کردار بھی ثقافت کی طرح انفرادی بھی ہوتا ہے اور معاشرتی بھی ۔ مجموعی طور پر معاشرے کی اکثریت کا کر دار اجتماعی اور معاشرتی کہلائے گا۔ کردار کو ثقافت کا عملی پہلو اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کی اساس اور تحصیل ، کوشش، جد و جہد اور تربیت کی مرہون منت ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ معاشرتی ماحول اور کسی حد تک توارث بھی کردار سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مگر مناسب احتیاط ، تربیت اور تشریط (Conditioning) کی مدد سے معاشرتی ماحول، توارث اور دیگر بیرونی عوامل سے آزاد اور بے نیازہ مستحسن اور دلآویز کردار کی تخلیق کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت اقبال نے ارشاد فرمایا :
خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف
کر مشت خاک میں پیدا ہوا آتش ہمہ سوز
بعض اوقات تشریط (Conditioning) کے موثر ہونے کے لئے تبدیلی ماحول ناگزیر ہو جاتی ہے۔
یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں
ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز
میتھیو آرنلڈ اپنی کتاب ثقافت و انتشار Culture and Anarchy میں رقم طراز ہے کہ :
ثقافت کے متعلق ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ علمی ذوق اور اشیاء کی ماہیت معلوم کرنے کا شوق ہی تہذیب و ثقافت کا اصطلاحی نام ہے۔ مگر فاضل مذکور کی رائے میں: یہ نظریہ ثقافت کی اصل بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پھر وہ ایک اور نظریے کا ذکر کرتا ہے جس کی رو سے :
“ہمسایوں سے محبت ، ذوق عمل ، جذبہ امداد ، فیض رسانی ، انسانی اغلاط کی اصلاح ، ذہنی انتشار سے بچنے کی کوشش اور یہ شریفانہ آرزو کہ ہم دنیا کو اُن حالات سے بہتر حالات میں چھوڑیں، جن میں ہم نے اسے پایا تھا۔ یعنی وہ نظام مقاصد ، جن کو خاص طور پر سماجی کہا جاتا ہے ، ثقافت کے میدانِ عمل کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ حصہ بڑی نمایاں اور مخصوص حیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس لئے صرف تجسس کو کلچر کی اصل قرار دینا مناسب نہیں ہے بلکہ اس کی امل تکمیل ذات ہے۔ ثقافت حصول کمال کے اصولوں کے متعلق غور وفکر کرتی ہے۔ اور اس کی وجہ مشترکہ وہ قوت ہے جو صرف یا مخش بنیادی طور پر حصول علم کے خالص اور معقول جذبے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کی تخلیق عوام کی اخلاقی اور سماجی ترقی میں سعی کے جذبے سے ہوتی ہے “
انہی مطالب کو علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ان اشعار میں اپنی مخصوص فصاحت سے بیان فرمایا ہے :
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے علم ہے سو ز دماغ
علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہلِ دانش عائم ہیں کمیاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا باغ
ایمان بنیادی محرک ہے۔ حضرت علامہ علیہ الرحمتہ ایمان بالقلب کو دل کے استعارے کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ۔
دل زنده و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشم نگراں اور
مندرجہ بالا حث سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب ہم کسی فرد کو مہذب کہتے ہیں تو ہماری اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے ذہنی رجحانات ، دماغی صلاحیتیں ، طبعیت، اخلاق و آداب، میل جول، حقوق و فرائض کا احساس، لباس، چال ڈھال، جذبات اور نفسیاتی رد عمل میں موزونیت ، توازن اور رکشی ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو معاشرے کی نظر میں فرد مذکور نا پسندیدہ یا کم از کم نامکمل سمجھا جاتا ہے ۔ علامہ نے معیاری مہذب انسان کے لئے مرد مومن کی اصطلات استعمال کی ہے
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
قدرت کے مقاصد کا عیاداس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اقبال کا نظریہ ثقافت :
تمہیدا عرض کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے ذہن کی تمام تر نشو ونما اسلامی ثقافت کے ماحول میں ہوئی۔ وہ اس ثقافت کے پس منظر میں پہلے اور بڑھے۔ انہوں نے اس ثقافت سے محبت کی۔ وہ اس کے بڑے قدردان اور قدر شناس تھے اور ان کی جدوجہد حیات کا ایک اعلیٰ مقصد یہ تھا کہ یہ ثقافت بڑھئے پھلے پھولے اور نسل انسانی اس سے۔ زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو۔
تاہم اسلامی ثقافت کے پروردہ اور فیض یافتہ ہونے کے معنے یہ ہر گز نہ تھے کہ وہ غیر اسلامی ثقافتوں کی بعض خوبیوں کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھے اور ان کو دوسری ثقافتوں میں کوئی اچھائی یا عظمت نظر نہ آتی تھی یا ان کے اوصاف حسنہ کا اعتراف کرنے میں انہیں پس و پیش تھا۔ انہوں نے یونانی رومی ایرانی، ہندو اور جدید یورپی تہذیب اور اس کی شاخ سے پھوٹنے والی جدید تر روی ثقافت سب کا مطالعہ گہری نظر اور ناقدانہ نگاہ سے کیا اور انہیں جہاں کوئی بات اچھی ملی جہاں کوئی عمل انسانیت نواز دکھائی دیا، جہاں کوئی قدم خیر و برکت کا باعث نظر آیا اس کی انہوں نے بے دریغ اور کھلے بندوں تعریف کی اور جہاں ان کو تاریکی دکھائی دی، جہاں انہوں نے نوع انسانی کی آزادی و ترقی کی مخالف قوتوں کو سر اٹھاتے پایا انہوں نے اس کی مذمت کی اور اس کی سرکوبی کا اہتمام ضروری جانا۔ یوں تو اقبال کی بیشتر شاعری یا تو کسی تہذیب و ثقافت کی تنقید و تردید ہے یا ان ثقافتی قدروں کی تحسین و توصیف جو اقبال کو عزیز ہیں اور انہیں بالعموم اقبال نے اسلامی ثقافت کے اندر پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ یہی حال ان کی اُردو اور انگریزی نثر کا ہے کہ انسانی تاریخ کے اہم ادوار میں ثقافت نے جو مختلف رنگ روپ اختیار کیے اقبال نے ان کا ذکر یا تجزیہ اپنے کسی بنیادی خیال کی وضاحت کے ضمن میں یا اپنے موقف کی تائید میں ضرور کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے پورے کلام نظم و نثر میں ثقافتی نکات اور تہذیبی مباحث جگہ جگہ بکھرے اور پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی تحریروں میں بعض ایسی ہیں جن کا تعلق براہ راست ثقافتی عنوانات سے ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم ان تحریروں کا مطالعہ کریں جو لکھی ہی ثقافتی عنوان کے تحت گئی ہیں۔ ان میں سب سے مقدم وہ لیکچر ہے جو انہوں نے مسلم ثقافت کی روح کے زیر عنوان تیار کیا اور ان کے شہرہ آفاق انگریزی خطبات کا پانچواں باب ہے۔
اس خطبے میں اقبال نے پہلے تو مسلم ثقافت اور یونانی ثقافت کا موازنہ کرکے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یونانی ثقافت عملی اور تجرباتی اور سائنٹیفک نہیں تھی بلکہ بے حد منطقی اور عقل مجرد پر تکیہ کرنے والی تھی ۔ پھر انہوں نے اس خیال کی پُر زور تردید کی ہے جو کسی زمانے میں فرنگی دانش وروں نے بہت پھیلایا تھا کہ عربوں کا علمی ذوق اور سائنسی تجسس یونانی حکمت و فلسفہ کا مرہونِ منت تھا کہ عباسیوں کے عہد میں یونانی کتابوں کا دھڑا دھڑ عربی میں ترجمہ ہوا اور ان ترجموں کی بدولت عربوں کی آنکھ کھلی اور انہوں نے افلاطون اور ارسطو کی شاگردی میں علم و حکمت کا دم بھرا ور نہ خود ان کے پاس کیا تھا۔ اقبال نے واضح شواہد سے اور بعض یورپی محققین کی مدد سے یہ امر بغیر کسی شک وشبہ کے ثابت کیا ہے کہ مسلم ثقافت کو عروج یونانی حکمت کے زیر اثر نہیں بلکہ اس وقت نصیب ہوا جب مسلمان حکما نے یونانی حکمت و دانش سے منہ موڑ لیا اور قرآن حکیم کے عطا کردہ زاویہ نگاہ کو اپنایا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یونانی علم نظری تھا۔ وہ حواس کے بجائے منطق سے کام لیتا تھا اور زندگی کے محسوس اور ٹھوس حقائق سے چنداں سرو کار نہ رکھتا تھا۔ اس کے مقابلے میں قرآنِ حکیم نے سورج اور چانڈ سایوں کے گھٹنے اور بڑھنے موسموں کے تغیر و تبدل رات دن کے اختلاف رنگ اور زبان کا فرق اور قوموں کے عروج و زوال کو اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں بتایا ہے اور ان پر غور کرنے اور ان سے سبق سیکھنے اور نتائج اخذ کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یونانی حکمت سے دلچسپی کے باعث مسلمان حکما کو الٹا یہ نقصان پہنچا کہ قرآن کا بخشا ہوا انداز نظر ایک عرصے تک ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔ فطرت کے مظاہر کو کھلی آنکھوں دیکھنے اور ان پر قلب سلیم کے ساتھ غور کرنے کی بجائے وہ منطق اور عقل مجرد کی دلدل میں پھنس گئے لیکن جو نبی ان کی راست فکری نے یونانی ذہن کے خلاف ردعمل ظاہر کیا، وہ قرآن حکیم کے طرز استدلال کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے ٹھوس اور محسوس حقائق کا جائزہ لے کر ان سے نتائج استقرا کیے اور اس طرح یہ مسلمان ہی تھے جن کی علم دوستی کی بدولت نسل انسانی خشک منطق اور ناز سا عقل مجرد کے چنگل سے نکل کر تجربے اور مشاہدے کے ذریعے سے علم حاصل کرنے کی سیدھی راہ پر رواں ہوئی۔
یورپ کے اکثر محققین کی آنکھوں پر تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ اپنے سوا دوسروں کا حق تسلیم کرنا خواہ اس کا پر تہ تعلق سیاست و معیشت سے ہو یا علم و ہنر سے ان کیے لیے بہت مشکل ہے۔ تاہم یہ سوال کہ جدید سائنس کا بانی کون ہے اور نئے علوم کی دریافت کا سہرا کس کے سر بندھنا چاہئے آج سے ساٹھ ستر برس ادھر بہت گرما گرم بحث کا موضوع تھا۔ بالآ خر چند دیانت دار علمائے مغرب نے اس امر کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ نوع انسانی پر یہ غیر معمولی احسان عربوں کا تھا اور یہ کارنامہ اسلامی ثقافت کی بدولت سرانجام پایا۔ مغرب کے جن تہذیب دانوں نے مسلمانوں کی اس خدمت کا کھلے بندوں اعتراف کیا، ان میں تشکیل انسانیت The” “Making of Humanity کا مشہور زمانہ مصنف بریفالٹ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ جن دنوں علامہ اپنے انگریزی خطبات رقم کر رہے تھے اس وقت اس بے لاگ اور فکر انگیز تصنیف کا دنیا بھر میں چرچا تھا۔ چنانچہ علامہ نے متذکرہ لیکچر میں اس کتاب سے چند اقتباسات دیے ہیں۔ ان میں سے دو کا ترجمہ یوں ہے :
“یہ آکسفورڈ سکول میں ان عربوں کے جانشین تھے جن سے راجر بیکن نے عربی اور عربی سائنس کی تعلیم پائی۔ لہذا تجربی طریقے (سائنسی طریقہ ) کی ابتداء کا فخر نہ تو راجر بیکن کو حاصل ہے اور نہ اس کے ہم نام فرانسیس بیکن کو ۔ راجر بیکن کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ مسلم سائنس اور طریقہ علم کو عیسائی یورپ تک پہنچانے والوں میں سے ایک تھا اور وہ یہ اعلان کرتے نہ تھکتا تھا کہ اس کے ہم عصروں کے لیے بچے علم تک رسائی کا بس یہی ایک راستہ ہے کہ وہ عربی زبان اور عربی علوم سیکھیں۔ یہ بحث کہ تجربی طریقے کا آغاز کرنے والا کون فرنگی تھا ان زبر دست غلط بیانیوں میں سے ایک ہے جن سے یورپی تہذیب کی ابتدا کے بارے میں کام لیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیکن کے زمانے تک عربوں کا تجربی طریقہ کافی مشہور ہو چکا تھا اور تمام یورپ میں اسے شوق سے حاصل کیا جا رہا تھا۔ “
پھر اگر ہم طبیعی علوم میں عربوں کے احسان مند ہیں تو اس لیے نہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے انقلاب آفریں نظریات کی بنیاد رکھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کسی اور چیز یعنی سائنس کے وجود کے لیے۔ قدیم دنیا کو جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں، عہد قبل سائنس کی دنیا تصور کرنا چاہیے۔ اہل یونان کے یہاں فلکیات اور ریاضی کی حیثیت ایک باہر سے لائی ہوئی چیز کی تھی جسے یونانی تہذیب و تمدن نے ہمیشہ اجنبیت کی نگاہوں سے دیکھا۔ یونانی دانش ور خیالات میں نظم و ترتیب پیدا کرتے اور تلمیحات اور نظریوں سے کام لیتے لیکن یہ کہ صبر و برداشت سے تحقیق و تدقیق کی طرف قدم اٹھا ئیں اور مشاہدے اور تجربے کی بنا پر آہستہ آہستہ اثباتی اور قطعی علم کا سرمایہ جمع کریں یہ باتیں یونانی مزاج کے خلاف تھیں۔ یہ نی روح اور نیا طریقہ علم عربوں کی بدولت یورپ کو نصیب ہوا۔
اس کے ساتھ اقبال نے عراقی البیرونی ابن الہیشم اشراقی، ابوبکر رازی ابن الحزم الکندی ابن تیمیہ ابن خلدون اور دیگر کئی مسلمان دانش وروں اور سائنس دانوں کی عظمت فکر کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے بیشتر مسائل جو آج کل مغرب کے بہترین دماغوں کو متوجہ و مصروف رکھے ہوئے ہیں مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں ان سے بحث کی ہے اور وہ اپنے عملی ذوق اور علمی لگن کی بنا پر واقعی جدید یورپی فلسفیوں اور سائنس دانوں کے لائق تعظیم پیش رو تھے۔ یہاں اقبال نے متعدد موضوعات کو چھیڑا ہے جن میں بالخصوص وہ افکار جو انہوں نے مکان و زمان مسلۂ ارتقاء تصویر کائنات اور فلسفہ تاریخ کے بارے میں نظام عراقی اشراقی اور ابن خلدون کے حوالے سے بیان کیے ہیں، نہایت دلچسپ اور نظر افروز ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مسلمانوں کے عظیم دماغ حقائق زندگی کو جاننے کی کیسی گراں قدر کوششوں میں مشغول تھے۔ میں آپ کی توجہ تین نکتوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں لیکن اس سے قبل میں چاہتا ہوں کہ اوپر بیان کی ہوئی ایک دو باتوں کو آپ خود اقبال کے الفاظ میں سن لیں۔ فرمایا: “
“The first important point to note about the spirit of Muslim culture then is that for purposes of knowledge, it fixes its gaze on the concrete, the finite. It is further clear that the birth of the method of observation and experiment in Islam was due not to a compromise with Greek thought but to a prolonged intellectual warfare with it. In fact the influence of the Greeks who, as Briffault says, were interested chiefly in theory, not in fact, tended rather to obscure the Muslim’s vision of the Quran, and for at least two centuries kept the practical Arab temperament from asserting itself and coming to its own. I want, there-fore, definitely to eradicate the misunderstanding that Greek though, in any way, determined the character of Muslim culture.”
اور وہ تین نکتے یہ ہیں :
اول : مسلمان حکما کے مطابق کائنات کوئی بنی بنائی مکمل شے نہیں بلکہ رواں دواں متحرک ہر لحظہ بنتی سنورتی اور ہر دم تخلیق نو سے آراستہ ہونے والی کائنات ہے۔
دوم : اسلام میں ختم نبوت کے جو بھی دینی مضمرات ہوں اور جو بھی معنویت ہو معاشرتی و ثقافتی اعتبار سے یہ عقیدہ انسان کی فکری آزادی اور ذہنی حریت کا منشور ہے۔ کا مستور ہے۔
سوم : از روئے قرآن علم کا فقط ایک ماخذ اور منبع نہیں بلکہ وحی و واردات باطنی کے علاوہ فطرت اور تاریخ بھی دو نہایت اہم ذرائع علم ہیں اور قرآن حکیم نے بار بار زور دیا ہے کہ مظاہر فطرت جانے اور مسخر کیے جانے کے لیے ہیں اور تاریخ سے ہمیں عبرت اور بصیرت حاصل کرنی چاہیے۔
یہ امر کہ علم کے ذرائع تین ہیں۔ )اول وحی دوم فطرت اور سوم تاریخ ) نہایت اہم ہے۔ ایک اس لیے کہ بقول اقبال مسلم ثقافت کا تمام فروغ و عروج اس وقت ممکن ہوا جب مسلمان دانش وروں نے فطرت اور تاریخ کے منابع کو کھنگالا اور ان سے جی بھر کر کام لیا’ دوسرے یہ کہ تصور اس لیے نہایت ضروری اور لائق اشاعت ہے کہ میں پچیس برسوں میں پاکستان میں اس خیال کو شد و مد سے پیش کیا جا رہا ہے کہ علم کا یقینی ذریعہ فقط ایک ہے اور وہ ہے وحی اور انسانوں نے جو کچھ سوچا اور جانا اور تجربہ کیا، وہ قابل اعتماد اور لائق اعتنا نہیں۔ یہ متشددانہ تصور نہ صرف اس ملک کی ذہنی و علمی ترقی کے خلاف ایک سازش ہے بلکہ خود قرآنی تعلیم کے خلاف ایک بغاوت کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقبال کی مغربی تہذیب پر تنقید:
اقبال نے اپنی شاعری میں مغربی تہذیب پر جو شدید تنقید کی ہے اس سے بعض سطح بین حضرات یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ مغربی تہذیب کے سراسر خلاف تھے اور اس کی کوئی ادا انہیں پسند نہ تھی اور اس کا کوئی پہلوان کے نزدیک پسندیدہ نہ تھا۔ یہ بات نہیں ۔انگریزی خطبات کے آغاز میں لکھتے ہیں ؛
“The most remarkable phenomenon of modern history, however, is the enormous rapidity with which the world of Islam is spiritually moving towards the West. There is nothing wrong in this movement, for European culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. Our only fear is that the dazzling exterior of European culture may arrest our movement and we may fail to reach the true inwardness of that culture.”
دوسرے لفظوں میں یورپی تہذیب کا جو حقیقی باطن ہے اقبال کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ یہ باطن علم کی کچی پیاس فطرت کی طاقتوں کی تسخیر بیاری’ غربت اور جہالت پر قابو پانا اور سیاسی و سماجی زندگی میں عوام کی رائے کی وقعت ہے۔ مغربی ثقافت کے جن پہلوؤں پر اقبال کو شدید اختلاف تھا اور جن پر جگہ جگہ انہوں نے وار کیا ہے وہ مختصر یہ ہیں؛
1۔یورپ کی دورگی : انوں کے لیے نیز دوسروں کے لیے شر۔ اپنے ہاں جمہوریت دوسروں کے ہاں استعار۔ اپنے لوگوں کے معیار زندگی کی فکر دوسروں کے گھر میں ڈا کا۔
2۔یورپ کی جغرافیائی قومیت: جس نے انسان کو انسان سے بر بنائیے وطنیت نفرت کرنا سکھایا اور دو خوف ناک عالم گیر جنگیں از وا ئیں ۔
3۔ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام جس نے ترقی پا کر ایک بھیانک سامراج کی صورت اختیار کر لی۔ اس کے سب قوموں کی قو میں غلام بن گئیں اور بنی نوع انسان کی کثیر تعداد محکومی محرومی کا شکار ہوگئیں۔
4۔عورت کے جسم کی عریانی و ارزانی ۔ یورپ نے آزادی نسواں کے نام پر اور صنعتی انقلاب کی ضرورتوں کے تجمت عورت کا بڑی حد تک استحصال کیا اور اسے رفتہ رفتہ جنس تجارت بنا ڈالا۔ اس سے بے حیائی اور جنسی بے راہ رونی عام ہوئی ۔ اقبال اس روش کے بڑے مخالف ہیں۔
5۔ یورپی ثقافت میں مادہ پرستانہ رجحان روز بروز جڑ پکڑتا گیا اور اس کے معاشرے میں روحانی اقدار کی پامالی ہونے لگی ۔ اقبال مادی ضرورتوں اور روحانی قدروں کے درمیان توازن کے سختی کے ساتھ قائل ہیں۔
اسرار خودی ، پیام مشرق اور ثقافت:
اقبال اور ثقافت کے ضمن میں اسرار خودی اور پیامِ مشرق کے دیباچوں سے بھی ہمیں خاصی مددمل سکتی ہے۔ اسرار خودی’ کے دیباچے میں سری کرشن کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
“بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک دل فریب پیرائے میں اپنے ملک وقوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کھلی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اس سے زندگی کا استحکام ہے۔ بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کی نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو۔ سری کرشن کے بعد سری رام نوج بھی اس طریقے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو سری کرشن اور سری رام نوج بے نقاب کرنا چاہتے تھے سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم ہوگئی۔”
اس دیباچے میں مغربی اقوام کی قوت عمل کو سراہتے ہوئے انگلستان کو خصوصی داد دی گئی ہے۔ فرمایا:
” حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی نکتہ رسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں ‘حس واقعات دیگر اقوام عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی فلسفیانہ نظام جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیات عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں ۔ “
متذکرہ بالا اقتباسات سے دو نتائج بالکل واضح ہیں۔ اول، قوموں کے ادب و ثقافت میں اقبال قوت عمل اور حس واقعات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور عمل کی راہ چھوڑ کر تخیل پرست ہونے والوں کے لیے ان کے پاس کوئی دف تحسین نہیں ۔ دوم سچائی اور قوت حوصلہ و ہمت اور بلند خیالی جہاں بھی نظر آئے اقبال اس کی بے دریغ تائید و تعریف کرتے ہیں، خواہ یہ تائید و توصیف ہندو کے حصے میں آئے یا انگریز کے۔
پیام مشرق کے دیباچے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں :
“یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگسان کی تصانیف میں ملاتا ہے خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشوونما کے لیے نا مساعد ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کے طبائع پر وہ فرسودہ است رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذبات قلب کو افکار دماغ سے متمیز نہیں کر
سکتی۔ البتہ امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عصر معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتا ہے۔۔۔۔
اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و قوم کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالا تر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو قابل احترام ہے۔ “
اس اقتباس سے یہ دکھانا مقصود تھا کہ اقبال فرسودگی ست رفتاری اور فرار کے مخالف تھے اور ان کے نزدیک افراد اور اقوام کی سیرت انسانی خطوط پر استوار ہونی چاہیے نہ کہ محدود جغرافیائی تصورات پر۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب اس بحث کو سمیٹ لیا جائے۔ جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے اور اسلامی یونانی، ہندو اور مغربی ثقافت کے متعلق علامہ اقبال کے جو خیالات بیان ہوئے ہیں، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ ہم ثقافت کے بارے میں اقبال کی پسند و نا پسند سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ ثقافت زندگی کی عکاس ہے۔ یہ زندگی کی ہمہ جہت مظہر ہے۔ جس طرح کوئی قوم سوچے گی جیسا اس کا نظریہ کائنات ہو گا، جس قسم کے اخلاق کو وہ اپنائے گی اور زندگی بسر کرنے کا جو انداز وہ اختیار کرے گی اس کی ثقافت کا ویسا ہی رنگ روپ ہوگا۔ اقبال کو بے عملی کم زوری مجبوری اور محتاجی کے مقابلے میں جوش کردار قوت اقتدار اور استحکام پسند تھا۔ وہ تو ہم پرستی اور نامعقولیت کے مقابلے میں جرأت و اعتماد اور معقولیت کے دل دادہ تھے۔ وہ مشکلات سے گھبرا کر راہ فرار اختیار کرنے والوں کے دوست نہ تھے۔ وہ تسخیر کائنات اور عناصر فطرت پر قابو پا کر ان سے کام لینے کے علم بردار تھے۔ وہ نہ مادہ پرست تھے اور نہ مادی حقائق سے آنکھیں چرانے والے۔ وہ مادہ کو حقیقت جانتے تھے اور اس سے عہدہ برا ہونا ضروری سمجھتے تھے لیکن ان کا ایمان تھا کہ زندگی کی اصل روحانی ہے۔ لہذا انسان کی تکمیل کے لیے وہ روحانی اصولوں کی پابندی پر زور دیتے ہیں۔ وہ نفرت کے بجائے محبت اور دشمنی کے بجائے دوستی کے قائل ہیں۔ وہ پوری نسل انسانی کو واحد برادری جانتے ہیں اور نسل و رنگ اور زبان کے امتیازات کے دشمن ہیں۔ ان کی اسلام سے محبت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام نسل و رنگ اور زبان و وطن کے امتیازات سے بالاتر ہو کر انسانی زندگی کو انسانی وحدت کے اصول پر استوار کرتا ہے۔ خود توحید کے تصور سے اگر کوئی معاشرتی اصول استنباط ہوتا ہے تو وہ انسانی وحدت کا اصول ہے۔ اقبال کو ظلم اور استحصال سے نفرت ہے۔ وہ فرد کی آزادی کے قائل ہیں اگر چہ وہ فرد کو سوسائٹی کا ایک ذمہ دار اور مفید رکن دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ غریبی اور افلاس کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ ندرت جدت اور انقلاب کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی ارتقا پذیر ہے اور انسانی ثقافت کو فطرت کے مقاصد میں مددگار ہونا چاہیے۔ وہ افراد اور اقوام کو اعلیٰ اخلاق کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور اس تصور کے مخالف ہیں کہ سیاست کو اخلاق سے بے تعلق ونا چاہیے۔ اخلاقیات میں وہ حیا جنسی پاکیزگی انسان دوستی بلند نظری، حوصلہ مندی اور جرات پر زور دیتے ہیں۔ معیشت میں وہ عدل و انصاف اور سیاست میں عوامی جمہوریت کے قائل ہیں۔ وہ سرمایہ داری آمریت ملوکیت اور ہونا سامراج کے دشمن ہیں۔ قائد اعظم کے نام اپنے خطوط میں وہ سوشل ڈیموکریسی کو اپنا پسندیدہ نظام سیاست بتاتے ، ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ عوام کے معاشی اور سیاسی دونوں طرح کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ آپ ایک ایسے معاشرے کو ذہن میں لائے جو انسانی برادری اور برابری پر قائم ہو تو جس کی معیشت انصاف پر اور جس کی سیاست عطائے حقوق پر مبنی ہو جس میں غریبی اور جہالت نہ ہو جہاں افراد کی روحانی، ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھا جائے جہاں علوم و فنون کا دور دورہ ہو جہاں فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے انسان کے قدموں میں لا ڈالا گیا ہو جہاں تخلیق کاروں اور حسن کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو جس جگہ بے عملی ست روی اور بے کاری کا وجود نہ ہو بلکہ ہر کوئی سرگرم عمل ہو اور جوش کردار اور ترقی اور ارتقا کے نشے سے سرشار ہو جہاں ہر کوئی اپنی بہترین نشوونما میں مصروف ہو اور دوسروں کی خدمت کو حاصل حیات سمجھے۔ بس ایسے معاشرے سے جو ثقافت جنم ست کو حاصل حیات مجھے۔ بس ایسے معاشرے سے جو ثقافت جنم لے گی وہ اقبال کی دل پسند ثقافت ہوگی۔
اقبال نے اپنے چھٹے انگریزی خطبے کے آخر میں لکھا ہے کہ آج انسانیت کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ اول کائنات کی روحانی تعبیر دوم فرد کی ہر قسم کے جبر اور توہم پرستی سے نجات اور سوم ایسے آفاقی نوعیت کے اصولوں کی تدوین جو روحانی بنیاد پر انسانی معاشرے کے ارتقا کی رہ نمائی کر سکیں۔ ایک خواب اس مرد قلندر نے برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی عزت اور مشرق کی نجات کا دیکھا تھا۔ آج پاکستان اور تیسری دنیا اور عالم اسلام کی ہے۔ ایک خواب اقبال نے پوری نسل انسانی کی فلاح اور اس کی ترقی و تہذیب کا بھی دیکھا ہے۔ اس سامنے نہیں آئی ۔ کائنات کی روحانی آزادی کا اہتمام تو جگہ جگہ ہو رہا ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں جنگ جاری ہے مگر اُن آفاقی اصولوں کی دریافت و تدوین کی منزل ابھی دور دکھائی دیتی ہے جن کی بدولت انسانی معاشرے سے ظلم واستحصال، دھونس اور دھاندلی اور نا برابری کی ظلمتیں چھٹ جائیں۔ آج بے حد دولت مند ملک جن کی فراوانی میں غریب ملکوں کا بڑا ہاتھ ہے اپنی کل قومی آمدنی کا اعشاریہ سات فیصد ( % 7. ) بھی پس ماندو ملکوں کی طرف بڑھانے اور لوٹانے کے لیے تیار نہیں اور شمال و جنوب کی گفتگو مسلسل بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے۔ اس طرح بڑی طاقتیں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ پھیلانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں چاہے ان کی اس کوشش کے نتیجے میں کوئی چھوٹی قوم اپنی آزادی اور عزت نفس سے محروم ہو جائے ۔ یہ کارروائیاں اقبال کی آرزو کردہ عالمی ثقافت کے منافی ہیں، مگر اس بات سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پورا مشرق اور سارا عالم اسلام سامراجی طاقتوں کا غلام تھا۔ آج یہ زنجیریں بڑی حد تک کٹ چکی ہیں۔ بلاشبہ استعمار نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے اور جبر کے ظاہری ہاتھ خفیہ ہاتھوں میں بدل گئے ہیں، لیکن اگر تاریخ کی قوت اور پس ماندہ اقوام کے عزم سے ظاہری ہاتھ کٹ سکتے ہیں تو خفیہ ہاتھوں کا علاج بھی کچھ زیادہ دنوں کی بات نہیں ۔ اقبال فقط مفکر پاکستان نہیں، وہ ان معدودے چند ابنائے آدم میں ہیں جنہوں نے عالمی ثقافت اور عالمی برادری کا خواب دیکھا ہے اور بیداری کی صورت میں اُس خواب کی تعبیر جار تھے ابھی مانی تعبیر اور فرد کی اقبال کے دوسرے خوابوں کی طرح یہ خواب بھی پورا ہونے کے لیے دیکھا ہے۔
حواشی:
1۔Reconstruction of religious thought in Islam(لاہور :شیخ محمد اشرف ‘ 1954ء )
- Sheikh Muhammad Ashraf “reconstruction of religious thought in Islam , Lahore 1954
2۔ سید عبدالواحد معینی مرتب “مقالات اقبال” ( لاہور شیخ محمد اشرف 1963ء)
- Said Abdul Wahid “Maqalat Iqbal” sheikh Muhammad Ashraf Lahore 1963
3۔علامہ اقبال “پیام مشرق / کلیات اقبال فارسی ” لاہور پاکستان 1946ء
- Allama Iqbal “Peyam Mashriq / kulliyat Iqbal Farsi” Lahore Pakistan 1946
4۔علامہ اقبال ” اسرار ورمواز ” کتب خانہ نذیریہ اردو بازار جامع مسجد سن اشاعت 1962ء
- Allama Iqbal “israr o Ramos” library naziriya Urdu bazar jama masjid 1962
5۔ علامہ اقبال “ضرب کلیم ” کپور آرٹ پرنٹنگ ورکس لاہور پاکستان 1944ء
- Allama Iqbal “zarb – e- kalim” Kapoor art printing works Lahore Pakistan 1944
6۔ علامہ اقبال ” کلیات اقبال اردو ” انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی 1962ء
- Allama Iqbal “Kulliyat Iqbal Urdu” Anjuman development Urdu hind Delhi 1962
7۔ میتھیو آرنلڈ ” کلچر اینڈ انارکی” سن اشاعت 1867ء۔ 1869ء
- Matthew Arnold “culture and anarchy” 1867- 1869
***