You are currently viewing اقبال :عصر حاضر کے نظامِ تعلیم سے شکایات

اقبال :عصر حاضر کے نظامِ تعلیم سے شکایات

محمد سلیم سرور

پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر(اردو) نمل یونیورسٹی،اسلام آباد،پاکستان

اردو لیکچرار, ایسٹرون کالج آف سائنس اینڈکامرس راولپنڈی

chandbhatti187@gmail.com

اقبال :عصر حاضر کے نظامِ تعلیم سے شکایات

Iqbal: A Critique of Contemporary Education

Each nation has its own philosophy and objectives of life. The education system of every nation is built to achieve these objectives. Iqbal warns us not to replicate west in their systems as the Muslim Ummat has an entirely different view of life as compared to the western secular nations. His main critique on the contemporary education is from the same perspective. For Iqbal the very basic kernel of each Islamic concept and system is its relevance to the concept of Tawheed, and the main objective of an Islamic way of education is to strengthen its recipients’ personality and individuality. The main question is whether the contemporary education is relevant to our own ‘Deen’ and whether our teachers are being able to develop dynamic Muslims. This research is qualitative in nature and analyzes Iqbal’s educational thought through investigation of Iqbal’s relevant literature. A substantial portion of Iqbal’s work is on the development of individual and Muslim ummah, which is also one of the core objectives of education. Iqbal gives us clear directives for development of individual and what causes the failure in the development of the required vicegerent or Naib of the Creator. His complaint is directed towards the educationists and educational institutions in focusing on the western objectives of life and pinning down the students to petty matters of this life rather than focusing on its higher endeavors. Before Iqbal the objective of the education should be the development of highly dynamic human beings with the enthusiasm and excitement to prepare for great challenges of life in the cause of molding world order as required by our Creator.

Keywords: Iqbal: Knowledge, Education, Complaints

اپنی ملت پر قياس اقوام مغرب سے نہ کر.

خاص ہے ترکيب ميں قوم رسول ہاشمی.

         یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر قوم کا نظامِ تعلیم اس قوم کے تصور علم کے تحت ہوتا ہے بالکل اسی طرح اقبال بھی جانتے تھے کہ ہماری قوم ایک مضبوط مذہبی تصور سے پیوستہ ہے ۔ہمارےخداوندانِ مکتب نے بنیادی تصور  کو فراموش کردیا اور مغربی تہذیب کی نقالی شروع کردی اور پھر اس کا انجام واضح ناکامیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اقبال کی نظر میں تعلیم کےمعنی و مفاہیم

تعلیم کے معنی  معلومات کو جمع کرنا اور مخفی صلاحیتوں کو نکھارنا۔تعلیم کے ذریعے کس قسم کی معلومات جمع کی جاتی ہیں اور ان معلومات کے ذریعے کس قسم کی خوبیوں کو نکھارا جاتا ہے۔ان معلومات کو جمع کرنے کے لیے کس قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور کہاں پر جمع ہوتے ہیں۔اس قسم کی معلومات کو جمع کرکے  کن لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یہ سب لوگ کیا  کہلاتے ہیں ۔ان تمام سوالات کو مجوزہ مقالے میں اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں کھنگال کر جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اقبال نے موجودہ تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے کن شکایات کا ذکر کیا ہے۔اقبال نے جن شکایات کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے ان کا بچوں کی تربیت سے کیا تعلق ہے۔یہ شکایت بچوں کو کس طرح برباد کرتی ہیں اور کن خرابیوں کا باعث بنتی ہیں۔ان خرابیوں کا شکار یہ بچے جوان ہو کر اپنی قوم کے لیے  کس قسم کی تباہ کاریوں کا باعث بنتے ہیں۔اقبال کے تصورات سے ہم ان تمام باتوں کے جوابات دیکھیں گے

کسی بھی عمارت کی پہلی اینٹ ٹیڑھی لگ جائے تو اس عمارت کی ساری دیواریں ٹیڑھی  ہی بنتی ہیں۔اقبال جانتے تھے کہ بچے کسی بھی  قوم کی بنیادیں ہوا کرتے ہیں اگر بچوں کی تربیت  کامل ہوجائے تو اس قوم کی دیواریں  مضبوط ہوجاتی ہیں ۔وہ قوم ایک عام عمارت کی مانند نہیں رہتی بلکہ  ناقابل شکست قلعہ کا روپ دھار لیتی ہے۔

علم کی  اولین خصوصیت یہ ہے کہ وہ زندگی کے  لیےخندہ سامانِ حقیقت مہیا کرے۔علم کی ایک قسم انسان اپنے حواس یعنی عقل سے حاصل کرتا ہے دوسری قسم جس کا تعلق وجدان یعنی ایمان  سے ہے۔یہ ذرائع باہم متصادم نہیں  بلکہ مربوط ہیں۔علم کے حصول کے لیے جب مراحل  بنائے جاتے ہیں تو پہلہ مرحلہ  یقینِ کامل کا ہوتا ہے۔جس علم کے لیے آپ سر گرداں ہیں اس کے حصول میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے ۔جس قدر ایمان مضبوط ہوگا اس قدر ہی اس علم کے حصول میں آسانی رہے گی۔

                  جوہر   میں  ہو  لا الہ  تو  کیا  خوف

                   تعلیم      ہو      گو        فرنگیانہ  ۱

         تعلیم کو دُر نایاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد  لاالہ پر ہو۔یہ بھی اپنی جگہ ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس  تعلیم کی بنیادلاالہ پر رکھی جائے گی وہ  باقی تمام مسائل سے کیسےبالاتر ہوجائے گی۔اس تعلیم سے جوطبعی قوت ہاتھ لگے گی وہ شیطانی  قوت کو آسانی سے مسمار کرسکے گی۔تعلیم وہ تلوار ہے  اگر اس کو ایمان کی مہارسے آزاد کردیا جائے تو یہ بہت سی انسانی حدود کی گردنیں بہت آسانی سے اڑا سکتی ہے۔اقبال حواس پر مبنی تعلیم کی اہمیت کے دل سے قائل تھے مگر  اس کے لیے ایمان  کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا رکن اول ہے۔اس حوالے اقبال ،خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

                  ‘‘علم سے میری مراد وہ  علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے عام طور پر میں نے

                  علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے

                   جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔’’ ۲

اقبال کی نظر میں تعلیم کی وسعت:

اقبال وہ ماہِرتعلیم  تھے  جو امت ِ مسلمہ کوقرآن و حدیث کے سلیبس کے ساتھ اتحاد کے مدرسے میں خودی کی تعلیم  دینے کے لیے کوشاں رہے۔وہ تعلیم کی اہمیت ،افادیت  اور تعلیم کے ذرائع کے حوالے سے گہری  فہم رکھتے تھے ۔ ۔

 وہ علم نہیں  زہر ہے احرار کے حق میں

                  جس علم کا حاصل ہے  جہاں میں دو کف جو ،۳

اقبال امتِ مسلمہ کی بنیادوں میں دین کی تعلیم کےداعی تھے۔جس قوم کی تعلیم کی بنیاد دین پر مبنی ہوگی اس میں اخلاق کا مادہ لازمی ہوگا اور اخلاق کسی بھی قوم کو روحانی طور پر مضبوط بناتا ہے۔اقبال دنیاوی تعلیم کے خلاف نہیں تھے بلکہ اس تعلیم کی بنیادیں دین سے وابستہ دیکھنا چاہتے تھے۔اقبال کے نزدیک دینی تعلیم ہی بنیادی تعلیم ہے اور اس دینی تعلیم سے ہر قسم کی دنیاوی تعلیم کے سوتے پھوٹتے ہیں  مگر اس دنیاوی تعلیم کی حدود دینی حدود کے اندر ہی رہنی چاہیں۔ جس قدر دینی  تعلیم اوراس سے پیدا ہونے والی دیناوی تعلیم  کے درمیان  ربط گہرا ہوگا اس قدر ہی انسان کی خودی مضبوب ہوگی۔   دینی تعلیم سےدنیاوی تعلیم کوعلیحدہ رکھ کر بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔اُن کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ وہ انسان کی قلبی ماہیت اور روحانی اصلاح کرکے اس کے اندر حفظِ خودی کی خوبیاں پیدا کردے۔اسے توحید،علم،عشق،بلند ہمتی،سخت کوشی،پاک دامنی،فقر،رواداری،دوراندیشی اور قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بنادے۔

اقبال کے نظام ِتعلیم کی خصوصیات:

                  علم  از  سامان  حفظِ  زندگی  است

                  علم از  اسبابِ  تقویمِ  خودی  است۴

         علم اور تعلیم کی  کچھ حدود اقبال کے حوالےسے واضح کرنے کی کوشش کے بعد دوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں کہ اقبال کس قسم کی تعلیم چاہتے تھے۔اقبال اپنی قوم کے بچوں کے لیے کس قسم کی تعلیم چاہتے تھے اور ان کو مکتب کے ذمہ داران سے کس قسم کی شکایات رہی ہیں۔تعلیم  دینے کے لیے ضروری ہے کہ  بہترین معلومات بہترین طریقے سے دوسروں تک پہنچائی جائیں۔اگر حاصلانِ تعلیم کی صحیح رہنمائی نہ کی جائے تو یہی تعلیم ان کے لیےزہرِ قاتل ثابت ہوگی اور اس بےراہ روی کا شکارآج کے طالب علم  نہ صرف  کل کی منزل سے بھٹک جائیں گے بلکہ ہمیشہ کے لیے راہ میں  طرح طرح کی خرابیاں  بھی پیدا کریں گے۔تعلیم ایک قوت ہے اور اس قوت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔تعلیم کی اس اہمیت اور درست رہنمائی کے حوالے سے ڈاکٹر سلامت اللہ اپنی کتاب‘‘تعلیم ،فلسفہ اور سماج’’ میں لکھتے ہیں:

                  اگر تعلیم کا مقصد واضح نہ ہو ،تو تعلیم ایک رجعت پرست قوت بن سکتی ہے۔

                  مثال کے طور پر ہمت،جواں مردی،وفا شعاری،مستقل مزاجی،فرماں برداری

                  اپنی جگہ قابلِ تعریف محاسن ہیں،مگر یہی خوبیاں ڈاکوؤں کے کسی گروہ میں پیدا

                  کردی جائیں تو متمدن سماج کے لیے عذابِ جان بن جائیں گی۔’’۵

اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم دیتے وقت انتہائی احتیاط برتیں اور مواد کو چھان بین کے بعد طالب علم تک پہچائیں۔یہی وہ ابتدائی سیڑھیاں ہیں جن پر  سےہوتے ہوئے ہماری قوم کے معمار منزل پر پہنچ کر  ہمارے لیے سرمایہ افتخار بنیں گے۔

خودی  ہو  علم  سے  محکم  تو  غیرتِ  جبریلؑ

                  خودی  ہو  عشق  سے  محکم  تو  صور  اسرافیلؑ  ۶

تعلیم کی ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ خودی کو محفوظ و مضبوط بنائے۔اقبال کی ساری تعلیمات کا مرکز و محور خودی ہی  کی حفاظت  و ترقی کے گرد گھومتا ہے ۔اقبال کی نظر میں تعلیم وہی ہے جسے خودی کے مترادف کا درجہ حاصل ہو اور انسان کی دنیاوی تگ وتاز کو دین کے تابع رکھے۔جس علم سے خودی محکم ہو وہ علم انسان کے لیے غیرت کی ڈھال بن جاتا ہے۔غیرت ایک ایسا زیور ہے جو ضمیر کو مسجع کردیتی ہے۔جب ضمیر روشن اور بیدار ہوگا تو انسان اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گا بلکہ پوری انسانیت کا علمبردار بن جائے گا۔یہی وہ تعلیم ہے جسے اقبال نے غیرت جبریل کاثانی قراردیا ہے۔

انسان کو قوتِ متخیلہ ،قوت ِ استدلال  اور قوتِ حافظہ جیسی نعمتوں سے نوازا گیا ہے اس لیے  اسے دنیا کو تسخیر کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔اقبال کی نظرمیں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اوراس کے ساتھ ہی خدا،کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا  ہے۔چناچہ محض مادی اور محض روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں،روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا  اور تعلیم کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی  اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیرِ کائنات کے لیے تیارکرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا بھی کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرہ وجود میں لانے میں مدددے ۔تعلیم کو درست سمت میں رواں کرنا خداوندانِ مکتب کی ذمہ داری ہے ،اگر خداوندانِ مکتب مطلوبہ مواد کا انتخاب نہیں کریں گے تو معلم چاہے جیسے بھی  اعلیٰ ہوں اور طریقہ جیسا بھی نایاب ہو مگر سب کچھ بےسود ثابت ہوگا۔

اقبال کا ماننا تھا کہ تعلیم وہ ہے جس سے حقیقی مقاصد تک رسائی حاصل ہو۔موجودہ تعلیمی نظام کو دیکھ کر اقبال کو یہ شکایت بھی  پیدا ہوئی کہ ہمارے مکتب  میں تعلیم دی جاتی ہے یہ بے مقصد ہے کیونکہ اس تعلیم  کے ذریعے انسان  اپنی قوم کے مسائل تلاش کرنے اور پھر ان کو حل کرنے میں ناکام ٹھہرا ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک یا مذہب کا نظامِ تعلیم دیکھا جائے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنی قوم کو پستی سے نکال کر بلندی پر لا کھڑا کرے۔شیخ محمد علی اپنی کتاب‘‘نظریات و فکارِ اقبال’’ میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

                  ‘‘اس تعلیم سے پیدا شدہ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ ایسے افراد پیدا کرنے میں مکمل

                  طور پر ناکام و نامراد رہی ہے جو زندگی کے حقیقی و دنیاوی مسائل کا حل جانتے ہوں یا ان

                  کو سمجھنے کی استطاعت رکتھے ہوں۔ان تمام امور کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علم جب بے عقیدہ

                  تو  صرف سطحی رہ جاتا ہے اور اس کی کوئی ٹھوس افادیت باقی نہیں رہتی۔’’۷

         اقبال ہند کے مسلمان طلباء کو اسلامی طرزِ تعلیم سے روشناس کروانا چاہتے تھے۔اقبال کی فکر جدید ہی نہیں جدید تر تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جہاں مغربی تعلیم ضروری ہے وہاں اسلامی باطن بھی ضروری ہے۔اقبال نے  کبھی بھی اپنی قوم کے نوجوانوں کو خود سے الگ  رکھ کر یا قوم کے باطن کو اسلام سے جدا نہیں دیکھا تھا ۔اقبال کو  خداوندان ِ مکتب سے شکایت ہے کہ یہ نوجوانوں کو جو تعلیم دے رہے ہیں وہ ان کو سائنس سے آشنا تو کروا رہی ہے مگرباطن سے غافل بنا رہی ہے۔اقبال نے ضربِ کلیم میں جدید سائنس کی طرف یوں  اشارہ کیا ہے:

                           جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا

                           زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا      ۸

اقبال کی اساتذہ اور خداوندانِ مکتب سے شکایات

شکایت ہے مجھے یارب!خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا      ۹

         اقبال نظامِ تعلیم میں جس بات کی کمی محسوس کرتے تھے وہ یہ کمی  تھی کہ ہماری تعلیم اسلامی تقاضوں کو نبھانے سے قاصر نظر آتی ہےاور یہ کمی ہنوز اپنی جگہ پر ثبت ہے۔اسلامی تقاضوں کو نبھانے والی تعلیم کی مانگ صرف اقبال کی آواز نہیں تھی بلکہ  وقت کی ضرورت تھی  اور ہےکیونکہ بحیثیت قوم ایسی تعلیم ہمارے نظریاتی ڈھانچے کی روح ہے۔موجودہ نظام ِ تعلیم میں ایسی تعلیم دی جارہی ہے جو خردمند کے لیے زہر ہے کیونکہ اس میں صرف اور صرف مادیت کا درس دیا جاتا ہے۔ایک بلند پرواز شاہین بھی رزق کھاتا ہے مگر اس کا شکار چیل کے شکار کی طرح مردار نہیں  بلکہ اپنا شکار کیا ہوا ہلال  گوشت ہے۔خاکبازی کی تعلیم سے انسان صرف مادیت پرست اور چیل کی طرح مردار کا پروردہ بن کر رہ جاتا ہے۔خاکبازی کا درس لینے والا بچہ دنیا کی دولت تو شاید وافر مقدار میں حاصل کرلے مگرغیرت ِ ذاتی اور غیرتِ ایمانی جیسی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔اقبال ایسی تعلیم کے حق میں تھے جو خودی کی حفاظت اور تربیت کرے۔خودی وہ ہے جو آپ کے ایمان کو تقویت بخشے۔اقبال کا ماننا تھا کہ جس تعلیم سے خودی کی حفاظت نہ ہو وہ نہ صرف بے سود ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔

اقبال نے خداوندانِ مکتب سے شکایت کی ہے کہ وہ بچوں کو ظاہری تخمین ِظن سکھا کر باطنی بےکراں مایہ  سے محروم کررہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ  اس نظامِ تعلیم میں بچہ کتاب سے باہر نکل کر کچھ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا اور اس کا دماغ  لکیر کا فقیر بن جاتا ہے۔جس بچے کے دل میں عشق پیدا کیا جانا ہو وہ دل  تاریک کنواں بن کر رہ جاتا ہے۔جس بچے کو مستقبل کا رہبر بننا ہوتا ہے وہ    پیدائشی غلام بن کر رہ جاتا ہے۔اس حوالے سے اقبال ضرب کلیم کی ایک نظم‘‘علم و عشق’’ میں لکھتے ہیں:

                  علم  نے  مجھ  سے  کہا  عشق  ہے  دیوانہ  پن

                  عشق  نے  مجھ  سے  کہا  علم  ہے  تخمین و ظن

                  بندہء  تخمین و ظن! کرم  کتابی  نہ  بن

                   عشق  سراپا  حضور،  علم   سراپاء حجاب! ۱۰

         اقبال  نے یہ شکایت کی ہے کہ یہ لوگ ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو عشق سے بےنیاز ہے۔یہاں عشق سے مراد عشقِ رسول اور تڑپ ایمانی ہے۔جس تعلیم میں یہ خصوصیات موجود ہوں گی وہ حجاب میں رہ کر کسی رہبر کے پیچھے چلنے کی بجائے وہ سراپا رہبر بن جائے گی۔

         اقبال کو ایک شکایت یہ بھی ہے  جس تعلیم میں  انبیاء کی سیرت شامل نہ ہو وہ کم بصری کا شکار ہو جاتی ہے۔بصارت سے بصیرت تک کے سفر کے لیے تعلیم میں دین کا شامل ہونا ضروری ہے۔اقبال اپنی نظم‘‘علم اور دین’’میں اس طرف  یوں اشارہ کرتے ہیں:

                  چمن  میں  غنچہ  تربیت  ہو  نہیں  سکتی

                  نہیں  ہے  قطرہء شبنم  اگرشریک نسیم

                  وہ علم،کم بصری  جس  میں  ہمکنار نہیں

                  تجلیات    کلیم و مشاہدات      حکیم! ۱۱

         اقبال کے ان شعروں  میں موجود اشارے کے مطابق ، شبنم(دین) اگر دنیا کی تعلیم میں شامل نہیں تو غنچہ(بچوں) کی تربیت نہیں ہوسکتی، اقبال کو خداوندان ِ مکتب ایک شکایت یہ بھی ہے کہ وہ جو پود تیار کررہے ہیں وہ کم بصری کی  حامل ہے۔انہی اشعار میں کم بصری کو دور کرنے کا حل بھی بتا دیا ہے۔

         اقبال کو خداوندان ِ مکتب سے  شکایت ہے کہ ان کی تعلیم کی بنیاد محسوسات پر مبنی ہے۔جس چیز کو محسوس کیا جاتا ہے اسی کو تعلیم کو حصہ بنایا جاتا ہے اوراس قسم کی تعلیم سے مذہب کا پہلو کمزورسے کمزور تر ہوتا جاتا ہے۔مذہبی  تعلیم کے حصول کے لیے جنون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس محسوسات کی تعلیم سے جنون کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے۔اقبال  محسوسات کی تعلیم اور  مذہبی جذبے کے ماند پڑنے کے متعلق اپنی نظم‘‘تضمین برشعر میرزا بیدل’’میں اس طرح اشارہ کرتے ہیں:

                  محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی           اس دور میں  ہےشیشہ عقائد کا پاش پاش

                  مذہب ہے جس کا نام وہ ہے اک جنون خام        ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش   ۱۲

         جس تعلیم سے جنون کا مادہ نکل جائے وہ تعلیم معذور بن کر رہ جاتی ہے اور تخیل جیسی نعمت سے عاری ہوجاتی ہے۔اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک انسان معذور ہوجائے تو وہ ممکن ہے زندہ تو رہ لے مگر پہلے کی طرح کارکردگی نہ دکھا پائے بالکل اسی طرح معذور نظام ِ تعلیم سانسیں تو لے رہا ہوتا ہے مگر تخیل کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے

اقبال چاہتے تھے کہ اہلِ مکتب وہ طالب علم پیدا کریں جن کے سینے میں ایک تڑپ موجود ہو۔اہلِ مکتب ایسے طالب علم پیدا کررہے ہیں جن کا رجحان اس علم سے سرور حاصل کرنے میں ہے  اور یہ طالب علم ذکر کا سکون حاصل کرنےسے قاصر ہیں۔علم  کی اس دولت نے  دنیا کے پیچ در پیچ الجھے ہوئے مسائل سلجھانے کی فکر تو پیدا کردی مگر ان  غیور لوگوں کو دل کی وہ دولت نہیں دی جس سے وہ  اپنا اور اپنی قوم کا حال اور مستقبل سنوار لیتے۔اقبال کو اپنے نوجوانوں سے یہ بھی شکوہ ہے کہ یہ اقبال کو گریبان چاک دیکھ کر بھی اثر قبول نہیں کرتے ۔مکتب کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے طالب علموں میں وہ دل پیدا کریں جو  حالات کی ضرورت کے مطابق اثر قبول کرنے والے ہوں۔اقبال اپنی ایک غزل کے اشعار میں ان نکات کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:

                  تیری متاعِ حیات ،علم و ہنر کا سرور

                  میری متاع حیات ایک دل ناصبور!

                  مصلحتاً  کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے

                  تیرے نفس میں نہیں گرمی،یوم النشور ۱۳

اقبال چاہتے تھے کہ میرے مسلمان طالب علم کے سینے میں قیامت کےدن سی گرمی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے مد مقابل کو پگھلا سکے۔علم انسان کو جہاں دنیا کی معلومات دیتا ہے وہاں اس کے سینے میں جذبوں کا بھی ایک نیا جہان پیدا کردیتا ہے۔اقبال کو جس مکتب سے شکایت ہے وہ مکتب ان طالب علموں  کے سینوں میں برف کی سی ٹھنڈک اور بھیڑ کی سی سستی پیدا کررہے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اور یہ نائب زمین پر موجود باقی تمام معاملات کے لیے ایک معیار کا درجہ رکھتا ہے۔انسان ایک کسوٹی ہے اور اس کسوٹی کو اچھائی اور بہتری کا معیار بنانا انسان کے رہبر کے بس میں ہے۔ذمہ دارانِ مکتب کو چاہیے کہ وقت اور سماج کی ضرورت مدِ نظر رکھتے ہوئےمواد کا انتخاب کریں اور معلمین کو چاہیے اس مواد کو لے کر طالب کی باطنی صلاحیتوں کو ابھاریں۔معلمین اگر کسوٹی کو بھول جائیں تو اس تعلم سے باطنی معیار کے اجاگر ہونے کی بجائے ظاہری ہوس جنم لے گی۔انسان ایک کسوٹی ہے اس حوالے سے ڈاکٹر سلامت اللہ اپنی کتاب‘‘فلسفہ،تعلیم اور سماج ’’ میں لکھتے ہیں:

         ‘‘انسان تمام چیزوں کی کسوٹی ہے۔انسان کی شخصیت قابلِ احترام ہے اور انسان

         میں کمال حاصل کرنے کی بےپایاں صلاحیت موجود ہے،وہ موزوں حالات میں

         خوب سے خوب تر بننے کی کوشش کرسکتا ہے۔یہ فلسفہ تعلیم بچوں اور نوجوانوں

کے اس حق کا دعوے دار ہے کہ انھیں وہ تمام وسائل اورسہولتیں مہیا ہونی چاہیے،

جن کی بدولت ان کی جسمانی،ذہنی ،اخلاقی غرض ہر اعتبار سے مکمل نشوونما ہوسکے

اور وہ اپنے سماج کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد اور موثر رکن بن سکیں۔’’۱۴

اقبال کو خداوندانِ مکتب سے ایک شکایت یہ ہے کہ جو یہ تعلیم دے رہے ہیں اس سے نوجوانوں  کی معلومات تو  بڑھ رہی ہے مگر فراغت کا بیج بھی  جگہ پا رہا ہے۔علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت کے لیے ضروری ہے مگر اس علم  کے ماخذات قرآن وحدیث ہی ہونے چاہیے۔جس علم سے تحرک کی بجائے سستی پیدا ہو وہ علم نوجوان کے لیے موت ہے۔جب ہم کسی کو ترقی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں مگر اس  ترقی سے پیدا ہونے والے بگاڑ کو نظر انداز کرنے سےنئی نسل بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔اقبال نے  اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس علم سےنوجوان نسل سہل پسند ہوچکی ہے۔اقبال اپنی نظم‘‘تعلیم اور اس کے نتائج’’(تضمین بر شعر ملا عرشی) میں کہتے ہیں کہ یہ جو تعلیم کا بیج بویا گیا ہے یہ ناکام ہوچکا ہے:

                  خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر        لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ساتھ

                  ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم           کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

                  گھر میں پرویز کے  شیریں تو ہوئی جلوہ نما           لے کے آئی ہے مگر تیشہ ء فرہاد بھی ساتھ

                                    ‘‘تخم دیگر بکف آریم و بکاریم زنو

                                    کانچہ کشتیم زخجلت نتواں  کرد درد’’      ۱۵

اقبال کہتے ہیں جس طرح خسرو پرویز کے گھر میں شیریں تو آگئی تھی مگر اپنے ساتھ اپنے عاشق کا تیشہ بھی لے آئی تھی۔شیریں کا آنا تو مبارک تھا مگر تیشہ خسرو پرویز کے لیے خوش آئند نہیں تھا۔مغربی طرز تعلیم  نےہمارے نظام تعلیم میں شامل ہوکر الحاد کو فروغ دیا۔جس طرح فرہاد کے تیشے کا خسرو پرویز کو ڈر تھا اسی طرح ہمیں بھی الحاد سے ڈر ہے کہ یہ کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس نظم کا آخری شعر ملا عرشی کا  ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ یہ بیج ناکارہ ہوچکا ہے ،اب اس کی جگہ نئے بیج کو لانا ہوگا بالکل اسی طرح اقبال بھی کہتے ہیں کہ اب اس نظامِ تعلیم کی جگہ کسی نئے نظام کو لانا ہوگا۔

         اقبال نے خداوندان ِ مکتب سے  یہ شکایت بھی کی ہے کہ یہ لوگ نوجوان نسل کو علم ِ فلکیات  مطلب چاند ستاروں کا علم تو دے رہے ہیں مگر حقیقت کی دنیا سے دور کررہے ہیں۔اس علم کا کیا فائدہ جو انسان کو دور کہیں آسمان کے چاند ستاروں تک تو رسائی دے دے مگر اپنے باطن تک نہ پہنچا سکے۔اصل تعلیم وہی ہے جس سے انسان اپنے باطن سے آشنائی پیدا کرسکے کیونکہ باطن کو پہچاننے سے خدا اور خدا کی مخلوق سے حقیقی واقفیت ہوجاتی ہے۔‘‘شرح ارمغان حجاز’’ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی  نظم ‘‘تعلیم’’ کی شرح میں لکھتے ہیں:

                  ‘‘اس بلند فکر کا کیا فائدہ جو محض ستاروں اور سیاروں کے گرد گھومتی ہے(یعنی یہ صحیح

                  سہی کہ علم فلکیات انسان کی بلند فکری کا حامل ہے لیکن اس سے انسان کا باطن تو روشن

                   نہیں ہوتا یعنی وہ روحانی و دینی جذبوں سے عاری رہتا ہے۔اس لیے ایسی بلند فکر بے

                  فائدہ ہے۔) ایسے فکر یا اس  قسم کے علم کی مثال تو بادل کے اس ٹکڑے کی طرح ہے

                  جو ہوا سے فضا کی وسعتوں میں بے کار ادھر اُدھر اڑتا پھرتا ہے۔لیکن برستا نہیں۔’’ ۱۶

تعلیمی نظام سے شکایات

اقبال کو  شکایت ہے کہ جس مغربی طرزِ تعلیم نے نوجوان کو سورج کی شعاؤں کو گرفتار کرنا تو سکھا دیا مگر  باطن میں جھانکنانہ سکھایا،اس تعلیم کا کیا فائدہ!۔اقبال جانتے تھے کہ اس طرزِ تعلیم سے سادہ لوح مسلمان نوجوان ایک دن انسانیت سے محبت کو فراموش کربیٹھیں گے۔اقبال مغربی طرزِ تعلیم یا سائنسی تعلیم کے خلاف نہ تھے بس وہ یہ چاہتے تھے کہ ہر قسم کی تعلیم کے باطن میں اسلام کا زندہ ہونا ضروری ہے۔اسلام نے علم و حکمت  کو خیر کثیر قراردیا ہے۔یہ علم و حکمت خیر کثیر تب ہی بن سکتا ہے جب یہ علم انسان کے لیے نہ صرف دنیا کی منزل کی راہیں ہموا رکرے بلکہ آخرت کی منزل کا بھی راہی بنا دے۔یہ علم وحکمت تب ہی  خیر کثیر اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی کنجی بن سکتا ہے جب اس کی عنان انسان کی روح کے تابع رہے۔علم وحکمت جب روحانی جذبہ سے فرار اختیار کرتا ہے تب یہ خیر کثیر بننے کی بجائے ابلیس کا ہم راہی اور‘ شر’ کا گہوارہ بن جاتا ہے۔اقبال اس طرف اپنے فارسی کے اشعار کے میں اشارہ کرتے ہیں:

                  دل اگر بنددبہ حق پیغمبری است                 ور زحق بیگانہ گردد کافری است

                  علم را بے سوز دل خورانی  شر است               نور وتاریکیءبحرو براست

                  قوتش ابلیس را یارے شود                      نور،نار، از صحبت نارے شود

                  علم  بے عشق است از طاغوتیاں                  علم باعشق است از لاہوتیاں

                  بے محبت علم و حکمت مردہء                     عقل تیرے بر ہدف ناخوردہء۱۷

         اقبال کی اسی بات کو بعد میں  آنے والے  مفکرین نے  بھی بنیاد مانا اور جانا کیونکہ  اقبال  نے جس باطنی جذبہ کو مسلمان بچوں میں پیدا کرنا ضروری سمجھا تھا وہ صرف ایک جذبہ نہیں تھا بلکہ جذبہ اسلام تھا۔طالب علموں کے ذہن میں معلمومات کا  ذخیرہ بھر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس ذخیرے کو مقصدیت کا الماسی جامہ پہنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔یہ صرف اقبال کے دل و ماغ کی آواز نہیں تھی بلکہ پوری قوم کی آواز تھی کیونکہ  قومیں جب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ رہی ہوں تب انھیں صرف سواری کی نہیں بلکہ ایک ایسی سواری کی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں  منزل کا راستہ بتانے کے ساتھ ساتھ منزل تک بھی پہنچائے۔ہماری قوم کیونکہ ابھی  منزل کی شاہراہ پر رنجہ نشین ہوئی ہےاس لیے اسے ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو ان کے نظریات و مفادات کے تابع ہو اور مقصدیت سے بھرپور ہو۔اقبال کی اسی بات کی تائید ڈاکٹر محمد امین اپنی کتاب‘‘ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل’’ میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

                  ‘‘ہمارا نظام تعلیم بحران کا شکار ہے اور ناکام ہوچکا ہے۔اس کی ناکامی کاسب سے بڑا مظہر

                   یہ ہےکہ وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے۔دیکھیے!ہر قوم کا نظامِ تعلیم ان

                  معتقدات پر مبنی ہوتا ہے جن پر وہ قوم ایمان رکھتی ہےاور نظام تعلیم کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ

                  ایسے افراد تیار کرے جو اس معاشرے کے قول و عمل سے مطابقت رکھتے ہوں اور یوں

                  اس کے ایک مفید شہری کے طور پر اس معاشرے کے اہداف و آدرشوں  کے حصول میں

                  اپنا کردار ادا کرسکیں۔پاکستان میں بسنے والے مسلمان اپنے یکساں عقیدے  اور نظریہ ء

حیات کی بنا پر ایک قوم ہیں لہٰذا اس کے نظامِ تعلیم کا ہدف صرف یہی ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے

افراد تیار کرے جو اسلامی فکر پر یقین رکھتے ہوں اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں

تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں اور پاکستانی معاشرہ دنیا میں ترقی اور عظمت کی منزلیں

طے کرسکے۔’’۱۸

 زندگی کے اعلیٰ مقاصد  کی گرفت سے آزاد ہوجانے کے بعد انسان مادی زندگی کے علمی اور عملی اشغال میں کھو کر رہ جاتا ہے۔جس انسان نے دنیا و آخرت کے عظیم مقاصد کو حاصل کرنا تھا وہ انسان ہوس وحرس پجاری بن کر رہ جاتا ہے۔دنیا کی ہر قوم حتیٰ کے ہر شخص کا علم کسی نا کسی تصور تحت ہوتا ہے اور تصور جس قدر عظیم ہوگا وہ قوم اور شخص اس قدر ہی کامیاب  ٹھہریں گے۔اقبال مغربی تہذیب یا یورپ کو اسی لیے پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے کیونکہ اُس تہذیب نے انسان کو مادی زندگی سے لاہوتی زندگی کا سفر نہیں سکھایا بلکہ مادی زندگی کو ہی سب کچھ بنا کر دکھا دیا۔اس طرح جس شخص نے اعلیٰ جوہر پانا تھا  اور لافانی اقدار کا حامل انسان بننا تھا وہ شخص مادی زندگی کو مقصود بالذات بنا کر رہ جاتا ہے۔یہ شخص عشق کا جوہر ،روح کی طاقت اور خدا کےنائب جیسی تمام صفات کھو بیٹھتا ہے۔اقبال کی انہی باتوں کی طرف ڈاکٹر غلام عمر اپنی کتاب‘‘اقبال کا انسان کامل’’ میں اشارہ کرتے اور اقبال کے اشعار بھی نقل کرتے ہیں:

                  ‘‘آہ یورپ زین مقام آگاہ نیست        چشم او ینظر بنور اللہ نیست

                  مغرب میں انسان کی فکرو عمل کی ساری کاوشیں،صرف انسان  کی مادی ہستی کے گھومتی

                  ہیں۔سارے علوم وفنون،اور ان کی شاخ در شاخ تخصیص  کا لا متناہی سلسلہ،حکومت و

                  سیاست،جمہوریت،آمریت یا اشتراکیت کے مختلف نظام حتیٰ کے مذہب کے ادارے کی

                  حسبِ ضرورت تشکیل و ترتیب،غرض زندگی کے تمام اداروں کا بنیادی موضوع انسان

                  کی مادی ہستی ہے۔’’۱۹

اقبال اس بات کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ جب کسی انسان کی زندگی پر مادیت مجموعی طور پر غالب آجائے تو وہ شخص باطنی طور پر کمزور ہوجاتا ہے اور پھر اس کا روحانی جذنہ مضمحل ہوجاتا ہے۔جب کسی شخص یا پھرمجموعی قوم کا روحانی جذبہ کمزور پڑجاتا ہے تب وہ قوم نہ صرف عارضی مقاصد کے حصول میں ڈانوالا ڈول نظر آتی ہے بلکہ  مستقل منزل سے بھی بھٹک جاتی ہے۔جیسا کہ درج بالا اقتباس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ اس نامرادی کی زد میں صرف ایک شخص نہیں بلکہ پوری قوم اور قوم کے تمام شعبے آتے ہیں۔جب قوم کے ذہنوں کے تمام حصے مادی ضرورتوں سے بھر جائیں گے تو پھر اس قوم کے دل و دماغ میں اچھائی اور تربیت کے لیے کوئی حصہ خالی نہیں بچے گا۔اقبال  اس بات کی یوں وضاحت کرتے ہیں:

         ‘‘پُر ہے افکار سے ان مدرسہ والوں کا ذہن        خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز

         چاہیے خانہءدل کی کوئی منزل خالی               شاید آجائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز ’’۲۰

اقبال کہتا ہے کہ آج ہمیں اپنے بچوں سے اکثریہی شکایت رہتی ہے کہ وہ اچھے اور برے یا نیک اور بد کی تمیز نہیں کرپاتے ،اس شکایت کے اصل ذمہ دار تو مدرسہ والے ہیں کیونکہ  وہ بچے کے ذہن میں صرف مادیت کے افکار بھرتے ہیں ۔مادیت کے افکار بچوں کے ذہنوں میں اس قدر سما چکے ہیں کہ اب ان کے ذہنوں میں اخلاقیات کے مہمان کے لیے کوئی گنجائش نہیں بچی۔

اقبال کو شکایت ہے کہ اس نظام تعلیم نے افکار تو پیدا کیے مگر افکار اور ذہن کے تصور میں ربط پیدا نہیں کرسکے۔جب کسی  نظام تعلیم کے مواد اور اذہان میں ٹھوس ربط پیدا نہیں ہوگا تو اس کے نتیجے میں خالی الذہن اور وہم کا شکار لوگ پیدا ہوں گے۔اس طرح کے لوگ اپنی قوم کے لیے تو کجا اپنے لیے بھی تاریکی میں روشنی پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے۔اقبال اپنی نظم ‘‘عصر ِ حاضر’’ میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں:

         ‘‘پختہ افکار کہاں ڈھونڈنےجائے کوئی            اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

         مدرسہ عقل کو  آزاد  تو کرتا ہے مگر                چھوڑ جاتا ہے خیالات  کو بےربط ونظام

         مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق            عقل بےربطیِ افکارسے مشرق میں غلام’’۲۱

اس قسم کی تعلیم سے پختہ ذہن لوگ پیدا نہیں ہو پاررہے۔جہاں پختہ خیالی مفقود ہے وہاں کمزور ایمانی اور عشق سے خالی دل بھی جنم لے رہے۔یورپ کی تعلیم نے اگرچہ عقل کو آزادی دی ہے مگر اس  آزادی کے نتیجہ میں وہ کوئی مضبوط ربط پیدا نہیں کرسکے۔جب انفرادی طور پر بےربط ذہن جنم لیں گے تو اس کے نتیجہ میں افراد اور اقوام کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔

اقبال کوجدید دور کے نظام ِ تعلیم اور مکتب والوں سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے یورپ کی نقل کرکے  نہ صرف تخلیقی قوت کھودی بلکہ بےکاری کو گلے لگا لیا۔یہی وہ خطہ ہے جہاں  لوگ محنت ومشقت کو فخر سمجھتے تھے مگر آج یورپ کی نقل کے بعد لوگوں نے بےکاری اور سہل پسندی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔اقبال  اپنی نظم ‘‘ایک سوال’’ میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں:

         ‘‘کوئی پوچھے حکیم یورپ سے          ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

         کیا یہی ہے معاشرت کا کمال            مرد  بیکار  و  زن  تہی  آغوش’’۲۲

ایک وقت تھا کہ ہند اور یونان علم و حکمت کے مرکز مانے جاتے تھے  مگر آج یہ دونوں خطے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔جب کوئی شخص یا قوم لکیر کی فقیری اختیار کرلیتی ہے تب وہ تخلیقی جہتیں کھونے کے ساتھ ساتھ کامیابی کی راہیں بھی مسدود کر بیٹھتی ہے۔اقبال کو شکایت ہے  کہ ہمارے  کم فہم مرد حضرات نے یورپ کی نقالی کرکے بیکاری کی راہ اختیار کر لی ہے اور خواتین نے یورپ کی خواتین کی نقل کرتے ہوئے بچوں کی پیدائش میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے اور فارغ البالی جیسے شغل کو اپنا لیا ہے۔یورپی تہذیب کی نقل کرنے کے بعد مسلم قوم کے نوجوان تخلیقی اذہان کے حوالے سے محدود و مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔

اقبال نے جن شکایات کا ذکر کیا ہے  یہ سب نکات مسلم  قوم کے نوجوانوں کے  لیے  زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں۔اقبال کے فلسفہ کو جس ایک لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے وہ ‘خودی’ہے۔خداوندانِ مکتب نے اپنی قوم کے نوجوانوں کی خودی  کو فروغ دینے میں  نہ صرف کوتاہی برتی بلکہ اس کی حفاظت سے بھی غافل رہے اور نتیجتاً روحانی طور پر ایک مفلوج قوم پروان چڑھتی رہی۔اقبال  نے برسوں پہلے جن نکات کی نشاندہی کی تھی وہ نکات   آج ہمارے  نظام تعلیم کی ناکامی کے کلیدی اسباب کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ڈاکٹر محمد امین نے  اپنے نظام تعلیم کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے  اپنی کتاب ‘‘ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل ’’میں ان نکات کی طرف  یوں اشارہ کیا ہے:

         ‘‘جب یہ واضح ہوگیا  کہ ہمارا نظام تعلیم ناکام ہوگیا ہے اور بحران کا شکار ہے تو دو اور دو

         چار کی طرح واضح طور پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟ہمارے

         نزدیک اس کی ناکامی کے دو بنیادی سبب ہیں: ایک تو یہ کہ اسلامی تقاضوں پرپورا نہیں

 اترتااور دوسرے یہ  مغربی فکروتہٖذیب کی نقالی پر مبنی ہے۔’’۲۳

         اقبال  نے نظام تعلیم اور خداوندان مکتب سے جو شکایات کیں ان میں سے چند کا سطور بالا میں تذکرہ کیا گیا،ان شکایات کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم نے اپنے بنیادی تصور کو پس پشت ڈال کر آگے کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ترقی کرنا ہر فرد واحد کا پیدائشی حق ہے مگر جب یہ ترقی اس شخص کو اس کے  روحانی اور تہذیبی تصور سے جدا کردے گی تو وہ شخص اپنی قوم اور تہذیب سے کٹ کر رہ جائےگا اور بنیادی اقدار کھودے گا۔موجودہ دور میں ہماری نوجوان نسل پر چھائی ہوئی مغربی تہذیب کو رد کرنے کے لیے ہمارے علمائے کرام کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر محمد امین اپنی کتاب‘‘ہمارا دینی نظام تعلیم’’ میں لکھتے ہیں:

                  ‘‘مغربی تہذیب آج کی غالب تہذیب ہے اور مسلمان معاشرے طوعاً و کرہاً اس کی تقلید

                  کررہے ہیں لہٰذا مغربی تہذیب کی پیروی کی وجہ سے مسلمان معاشرے بہت سے مسائل

                  کا شکار ہیں۔علماءکرام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلم معاشروں کی رہنمائی کریں،ان کو

                  مغربی تہذیب کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل  ان کو بتائیں۔’’۲۴

اقبال بھی یہی چاہتے تھے کہ ہمارا نظامِ تعلیم مغربی  تہذیب سے پاک  اور خالص اسلامی اقدار کا حامل ہو۔افسوس کہ ہماری تہذیب نے  اسلامی اقدار کو اپنا کر اس کو ترویج دینے کی بجائے مغربی تہذیب کو اپنا لیا جو روحانی طور پر کمزور اورنام نہاد تہذیب ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر محمد امین نے بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارے علمائے کرام کو  مغربی تہذیب کے بھوت کو  ہمارےنظام تعلیم سے خارج ازبحث کرنا چاہیے۔

اقبال نے نظام تعلیم کو دیکھتے ہوئے جن کمزوریاں کا ذکر کیا ہے ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے  پہلے ہم اپنے نظام تعلیم میں سے ان کمزوریوں کو تلاش کریں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قریباً ایک صدی کاعرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہم اپنے نظام تعلیم میں اقبال کے نشان دہندہ نقائص کو نقائص نہیں سمجھ سکے اور اگر کوئی ان کمزوریوں کو کمزوریاں سمجھتا بھی ہے تو وہ ان کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ہماری نوجوان نسل کی خودی کو محفوظ و مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اسلامی اقدار کا حامل بنایا جائے۔نوجوان نسل کو روحانی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کواپنے تصور تعلیم سے روشناس کروایا جائے اور مغربی  تہذیب کو رد کرنے کے قابل بنایا جائے۔مغربی تہذیب کو رد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ  اس تہذیب  کے نقائص کو عقلی بنیادوں پر نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا جائے  اور اس کے متبادل کے طورپر اسلامی تہذیب میں سے عملی جامہ پیش کیا جائے۔

مجموعی جائزہ:

اقبال کی علامت زدہ شکایات کو  دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی اقدار کو عقلی دلائل و براہین کے ساتھ نظامِ تعلیم کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوان نسل بذات  خودمغربی تہذیب کو ٹھکرا سکے۔مذکورہ بالا شکایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم تصورِخودی سے محروم،عشق ِ محمد میں کمزور،روحانی جذبے سے معذور اور اسلامی اقدارسے دور  ہوچکا ۔اقبال  کی نظر میں  امتِ مسلمہ  کے نظام تعلیم کی یہی وہ اقدار ہیں  جو دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی کی ضامن اور کامیاب نظامِ تعلیم کا سلیبس ٹھہرتی ہیں ۔

نتائج:

ا۔امتِ مسلمہ نے اپنے نظام تعلیم کے سلیبس کو فراموش کردیا ہے۔

۲۔امت مسلمہ خودی اور تعلیم کے تعلق کو بھلابیٹھی ہے

۳۔خداوندان مکتب نے مغربی تہذیب کی نقالی کو اپنا  تعلیمی شعار بنا لیا ہے۔

۴۔عصر ِ حاضر کے مسلم نوجوان اسلامی تعلیم کے حقائق اور مغربی تہذیب کے نقائص کو جاننے سے عاری ہیں۔

حوالہ جات:

۱۔محمد اقبال،علامہ،مکتوباتِ اقبال،مرتبہ سید نذیر نیازی،اقبال اکادمی،لاہور،۱۹۷۷،ص۲۶۷

۲۔محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال(بال ِ جبریل)،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،۲۰۱۴،ص۳۴۲

۳۔ محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،کپور پرنٹنگ پریس ،لاہور،۱۹۴۴ء،ص۱۶۶

۴۔محمد اقبال،علامہ،اسرار خودی،شرح(یوسف سلیم چشتی) اقبال اکادمی ،لاہور۱۹۴۴،ص۳۱

۵۔سلامت اللہ،ڈاکٹر،تعلیم،فلسفہ اور سماج،مکتبہ جامعہ ملیہ،دہلی،۱۹۷۴ءص۱۶

۶۔ محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال(بال ِ جبریل)،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،۲۰۱۴،ص۳۹۱

۷۔ محمد علی ،شیخ،نظریات و افکارِ اقبال،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،۱۹۸۴ء،ص۱۶۲

۸۔محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،کپور پرنٹنگ پریس ،لاہور،۱۹۴۴ء،ص۶۷

۹۔محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال(بال ِ جبریل)،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،۲۰۱۴،ص۳۶۸

۱۰۔ محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،کپور پرنٹنگ پریس ،لاہور،۱۹۴۴ء،ص۱۳

۱۱۔ محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،کپور پرنٹنگ پریس ،لاہور،۱۹۴۴ء،ص۱۹

۱۲۔ محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال مع شرح ،مکتبہ دانیال ،لاہور،سن ندارد،ص۱۵۶

۱۳۔ ایضاًص۱۲۵

۱۴۔ سلامت اللہ،ڈاکٹر،تعلیم،فلسفہ اور سماج،مکتبہ جامعہ ملیہ،دہلی،۱۹۷۴ءص۱۸

۱۵۔ محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال مع شرح ،مکتبہ دانیال ،لاہور،سن ندارد،ص۲۵۴

۱۶۔خواجہ حمید یزدانی،ڈاکٹر،سلیم اختر،ڈاکٹر، شرح ارمغانِ حجاز،سنگ میل پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۰۴،ص۹۳

۱۷۔غلام عمر،ڈاکٹر،اقبال کا انسان کامل،مکتبہ عالیہ،لاہور،۱۹۷۶ء،ص۷۱

۱۸۔محمدامین ،ڈاکٹر،ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل،ادارہ مطبوعات طلبہ،لاہورف،۲۰۱۰ءص۲۱

۱۹۔غلام عمر،ڈاکٹر،اقبال کا انسان کامل،مکتبہ عالیہ،لاہور،۱۹۷۶ء،ص۷۵

۲۰۔حمید یزدانی،شرح ضرب کلیم،سنگ ِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۰۵،ص۸۰

۲۱۔ایضاًٍ ص۸۱

۲۲۔ حمید یزدانی،شرح ضرب کلیم،سنگ ِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۰۵،ص۹۳

۲۳۔ محمدامین ،ڈاکٹر،ہمارا تعلیمی بحران اور اس کا حل،ادارہ مطبوعات طلبہ،لاہورف،۲۰۱۰ءص۲۰

۲۴۔محمد امین،ڈاکٹر،ہمارا دینی نظامِ تعلیم،دارالخلاص،لاہور،۲۰۰۴،ص۳۳

***

Leave a Reply