نذرانہ بی بی۔
(پی ۔ایچ ڈی ریسرچ سکالر۔قرطبہ یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان)
نوید الحسن
(پی ۔ایچ ڈی ریسرچ سکالر۔قرطبہ یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان)
اقبال ــ ،مسلم نوجوان اورجدید تعلیم
Iqbal was a strong advocate for Muslim youth to embrace modern education as a means of advancing themselves . He believed that education was the key to progress and empowerment Iqbal encouraged young Muslim to seek knowledge in various fields , not only to improve their own lives but also to contribute to the betterment of society .He emphasized the importance of combining spiritual values with modern education ,as he believed that a strong foundation in both would enable Muslims to navigate the challenges of the modern world and make a positive impact .
سلطان الانبیاء اور ختم المرسلین محمد ﷺ نے جس تعلیم کی بنیاد رکھی اُس نے دنیا کو تصورِوحدانیت کے ساتھ ساتھ انسانی مساوات ، توکل و استغناء،امن و سلامتی اور عدل و انصاف سے نوازا ۔ جب تک مسلمان حضورﷺ کے قائم کردہ نظام ِ معاشرت پر چلتے رہے ، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب ہر طرف صدائے لااِلٰہ بلند تر ہوتی چلی گئی ۔ تصور ِ واحدنیت کے بعد قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو جن صفات نے اقوام ِعالم میں سُرخرو کیا وہ اِن کی شانِ قلندری ، صفت ِدرویشی ، انسان دوستی، مہر ومحبت ، بے تعصبی اور استغنائی انداز تھا ۔ لیکن جوں جوں مسلمان زمانۂ نبوت سے دور ہوتے چلے گئے قلندرانہ اور درویشانہ صفات تخت و تاجِ شاہانہ اور ہوسِ زر کا شکار ہوتی چلی گئیں ۔ خلافت جو مشت ِجو سے تقویت پاتی اور مظلوم کی آہ سے کپکپا جایا کرتی تھی ۔ شکوۂ خسروی اور شانِ قیصری میں لطف و سرور ڈھونڈنے لگی ، مسلمان جو جدوجہد ، مشقت اور جہاد سے دنیا میں سرفراز تھے تسہیل پسندی ، عیش کوشی کے رسیا اور ہنگامۂ زیست سے بھاگنے لگے ۔ نتیجتاً دنیا پر غالب آئے ہوئے مسلمان رفتہ رفتہ مغلوب ہوتے چلے گئے ۔ دنیا کی بڑی بڑی اسلامی طاقتیں الحادی فکر کے زیر اثر آنے لگیں ۔
اسلام ظاہری نمود و نمائش کی بجائے پاکیزگی ٔ باطن پر زور دیتا ہے عقل سے بڑھ کر عشق کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے اور
لوازماتِ دنیا کو بے حقیقت جانتا ہے ۔ فقر کی دولت سے تقویت پاتا ہے ۔روحانی قوت اِس کی اصل متاع ہے ۔ افسوس وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے یہ ممتاز اوصاف مسلم نوجواں کی زندگی سے نکل گئے ۔ اسلام سے متصادم حالات پیدا کرنے میں تعلیم ِجدید نے اہم کردار ادا کیا ۔
اہل یورپ نے اسلام اور مسلمانوں پر بغیر کسی جنگ اور جدوجہد کے غلبہ پانے کی خاطر ایسا نظام ِ تعلیم رائج کیا جس کا مقصدخدا کے وجود کی نفی کرنا ، حصولِ جاہ و حشمت اور ہوسِ امارت و زر کو اصل مطمع نظر سمجھ لینا تھا ۔ مغربی نظام ِتعلیم کی ساری بنیاد طاقت کے بل بوتے پر کمزور قوموں پر غلبہ پانا ، انسانوں کو طبقوں میں تقسیم کرنا اور مختلف نوع کے تعصبات کو پروان چڑھانا ہے ۔جدوجہد اور سخت کوشی کی بجائے تسہیل پسندی کی زندگی بسر کرنا ، روحانی قوت کی بجائے عقل کو قوتِ حقیقی سمجھنا اور مشینی زندگی میں آسودگی تلاش کرنا تعلیم ِمغربی کے عناصر ہیں ۔
انیسویں صدی کا سورج دل ، جذبے ، احساس اور روحانیت کی بجائے ٹھوس عقلیت پسندی ، منطقیت اور استدلالی قوت کے ساتھ طلوع ہوا۔ انگریزوں کے ساتھ اُن کا نظام ِ تعلیم اور عقلیت پسندی برصغیر پر غالب آگئی ۔ خشک اور بے کیف عقلیت پسندی کی تحریک علوم ِجدیدہ کی بنیاد بنی اور پھر علوم ِ قدیمہ اور علوم ِجدیدہ میں تصادم کی فضا پیدا ہو گئی اسلامی تعلیمی روایت کا تسلسل ٹوٹ گیا اور مغرب کا نظام ِ تعلیم غالب آگیا ۔
بیسویں صدی کی ابتدا ہوئی تو ملت ِ اسلامیہ کی بے بسی اپنی انتہا پر پہنچ گئی ۔ اِس کا بنیادی سبب یہ کہ امتِ مسلمہ اپنے وہ بنیادی جوہر کھو بیٹھی جن کی وجہ سے انہوں نے ایران و عراق ، اندلس و مصر ، ہندوستان اور فلسطین پر اپنی فتح مندی کے جھنڈے گاڑے تھے ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی ادب اور سیاست کے ایوانوں میں علامہ اقبال کا نام سنائی دینے لگا ۔ ۱۹۰۵ء تک اقبال عام شاعروں کی فکر سے کوئی الگ راہ متعین نہ کر سکے ۔ لیکن ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک جو وقت اقبالؔ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے یورپ میں گزارا دراصل وہی دور اقبال ؔکے ذہنی و فکری ارتقاء کا دور ہے ۔ اقبال ؔ نے یورپ میں تین سال قیام کیا اور اِس عرصے میں یقین کی وہ قوت حاصل کی جو اُن کی مستقبل کی ملّی شاعری کی بنیاد بنی ۔ اقبال ؔ نے دیکھا کہ اہلِ یورپ ایسا نظام ِ زندگی وضع کر رہے ہیں جس میں خدا کا وجود معدوم ، مادہ پرستی کو بنیادی اہمیت ، اخلاقی قدروں کی ناقدری ، ظاہری چمک دمک اور شان و شکوہ کو مقدم سمجھا جاتا ہے ۔ مولانا ابوالحسن ندوی نے لکھا ہے :
’’ ایک عظیم گناہ جو اِس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی اور پھر اس سے
نفع پسندی ، جنسی محبت ، نفسانی خواہش جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے
جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے اور آج حال یہ ہے کہ اِن کے قلوب ایمان
کی حرارت، حب صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں اور یہ عالم ِ نو ایک ایسی
متحرک شے بن کر رہ گیا ہے جس میں نہ کوئی زندگی ہے اور نہ کوئی روح ، نہ شعور و وجدان
ہے نہ مسرت و غم کا احساس ۔ ،، ۱ ؎
تعلیم ِ جدید کے مشاہدے سے ڈاکٹر اقبال ؔ اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ قلب و عشق جس پر ایمان کی بنیاد ہے اِس کی نفی ہورہی ہے ۔ محبت اور انسان دوستی کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں ۔ قیام ِ یورپ کے دوران میں ہی اقبال ؔ نے دین و دنیا کے تصادم کا تماشہ بھی دیکھا ۔ رشتوں کی بے حرمتی ، اعلیٰ انسانی قدروں کا بے قدر ہونا ، سچے جذبوں کا بے توقیر ہونا ، الہامی احکامات کی بے حرمتی اِن سب چیزوں نے اقبال ؔ کے ذہنی و فکری تاروں کو خوب ہلایا ، اقبال ؔ یہ محسوس کر چکے تھے کہ تعلیم ِ جدید میں عقل کو عصائے موسوی کا درجہ حاصل ہے اور سوزو مستی ، جذب و شوق کو کوئی اہمیت حاصل نہیں :
من کی دنیا ! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا ! تن کی دنیا سود و سودا ، مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھائوں ہے ،آتا ہے دھن جاتا ہے دھن ۲ ؎
ایک جگہ اور اقبال ؔ دل و دماغ کے بارے میں یوں کہتے ہیں :
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک
تو بے بصر ہو تو یہ مانع ِ نگاہ بھی ہے
وگرنہ آگ ہے مومن ، جہاں خس و خاشاک
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ِ ادراک ۳؎
عقل کو معجزۂ کن سمجھنے والوں نے انسانی جذبات و احساسات کا گلہ گھونٹ دیا اور علم و حکمت و تدبر ِ مغربی نے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا:
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم ِ مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات ۴ ؎
علامہ اقبال اپنی فکر کے لحاظ سے اپنے معاصر شعرا سے بالکل مختلف تھے اُنکی شاعری جدوجہد اور تیز تر زندگی کا پیغام دیتی ہے ۔وہ آبرو مندانہ زندگی کے لئے کانٹوں سے اُلجھنے کا درس دیتے اور خزاں نا آشنا رہنے کے لئے امتیاز ِ رنگ و بو کو مٹانے کی بات کرتے ہیں :
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں نا آشنا رہنا
جہانِ رنگ و بو سے، پہلے قطعِ آرزو کر لے ۵ ؎
اقبال کی شاعری کے مخصوص رنگ اور منفرد فکر کی وجہ سے ہی پروفیسر آرنلڈ اور شیخ عبد القادر نے انھیں ترکِ شعر سے منع کیا تھا۔ شیخ عبد القادر لکھتے ہیں :
’’ ایک دِن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ اُن کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری
کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صَرف
ہوتا ہے اُسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے ۔ میں نے اُن سے کہا کہ اُن کی
شاعری ایسی نہیں کہ جسے ترک کرنا چاہیئے بلکہ اُنکے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے
ممکن ہے ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔
اِس لیے ایسی مفید خداداد طاقت کو بے کار کرنا درست نہ ہو گا ۔ ‘‘ ۶ ؎
علامہ اقبال افکار ِ تازہ ، اسلامی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ تین سال یورپ میں قیام کرنے کے بعد واپس ہندوستان لوٹے وہ یقین کر چکے تھے کہ قوم کی عظمت و سر بلندی اور اِس کی بقا نوجوانوں سے وابستہ ہے لیکن افسوس یہ کہ جو نوجوان پڑھے لکھے نہیں وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری اور زندگی کی تگ و دو سے محروم ہیں جب کہ پڑھے لکھے نوجوان اسلامی روح سے خالی اور خیرگی ٔ نگاہ کے طالب ہیں ۔ اقبال نے تعلیم جدید اور مسلم نوجوانوں پر شدید تنقید کی وہ حالات و واقعات ِ موجودہ سے یہ نتائج اخذ کر چکے تھے کہ انگریزوں کا وضع کردہ نظام ِ تعلیم اور جدید درس گاہوں کی بنیادوں میں مادہ پرستی ، حصولِ جاہ و جلال اور شہرت و ظاہر داری کا بیج موجود ہے اِن درس گاہوں سے پڑھ کر نکلنے والے کسی صورت بھی زورِ حیدر ؓ ، فقرِ بوزر ؓ اور صدقِ سلمانی ؓ کے اوصاف سے ممتاز نہیں ہو سکتے ۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل ِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا اِلٰہَ الا اللہ ۷ ؎
اسلام کا اندازِ زیست اور جدید درس گاہوں کا نظام ِتعلیم سراسر ایک دوسرے سے متصادم ہے ۔ اسلام خدا کے وجود کا یقین دلاتا ہے اور علوم ِ جدیدہ اسے معدوم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اسلام دولتِ فقر سے متصف ہے جب کہ موجودہ نظام ِ تعلیم کی تمام تر کاوشیں آنکھوں کو خیرہ کرنے والے مستقبل کی نوید دیتی ہیں ۔ اسلام درویشی و قلندری سے روحانی قوت پاتا ہے جبکہ موجودہ نظام ِ تعلیم زر و دولت کے بل بوتے پر اولاد آدم ؑ میں تفریق پیدا کرتا ہے ۔ نیز ہوس ملک گیری اور جہانگیری کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلام جہد ِ مسلسل اور سخت کوشش کا داعی ہے لیکن موجودہ نظام ِتعلیم نوجوانوں کو سہل پسند ، دولت کا پجاری اور عیش و عشرت کا دلدادہ بناتا ہے تمام تر معاشرتی ، اخلاقی اور سیاسی برائیوں کی جڑ ٹھوس قسم کی مادہ پرستی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ :
اپنے رازِق کو نہ پہچانے تو محتاج ِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم !
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم ؟
اے مسلماں ! اپنے دل سے پوچھ ،ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم؟ ۸ ؎
اسلام نے کسی بھی صورت میں ہوسِ جاہ و منزلت کو تحسین کی نظر سے نہ دیکھا ۔ مغربی درس گاہوں میں عقل کے تیز کلہاڑوں سے جذبات و احساسات اور روحانیت کا گلہ گھونٹ دیا گیا ۔ اقبال ؔ لکھتے ہیں :
’’ عصرِ حاضر کی ذہنی سرگرمیوں کے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے یعنی وہ اپنے
ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے خیالات اور تصورات کی جہت سے دیکھئے تو اس کا
وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے ۔ سیاسی اعتبار سے افراد ،افراد سے دست و گریباں
ہیں ۔ اِس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین حصولِ زر پر قابو
حاصل کر سکیں ۔ ‘‘ ۹ ؎
اقبال کے نزدیک مدرسہ اور اہلِ مدرسہ نوجوانوں میں روحِ بلالی ؓ پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ جب تک نوجوانوں میں استغنائے بوزرؓ پیدا نہیں ہوتا انسانی معاشرہ امن و محبت ، پاکیٔ عقل و خرد اور عفت ِ قلب و نگاہ کا محور نہیں بن سکتا:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود عفتِ قلب و نگاہ ۱۰ ؎
اسلام کے تصورِ فقر کے بر عکس نوجوانوں کو تعلیمِ جدید نے ظاہری چمک دمک اور شکوہِ شاہانہ کی طرف آمادہ کیا ۔ رفعتِ پرواز کی بجائے کوتاہیٔ پرواز کے اسباب پیدا ہوئے ۔ اقبال ؔ موت کو اس رزق پر ترجیح دیتے ہیں جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہے:
؎ اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پراوز میں کوتاہی ۱۱ ؎
نوجوانوں کی تن آسانی پر اقبال ؔلہو کے آنسو روتے ہیں :
؎ ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا ، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی ۱۲ ؎
عصرِ حاضر کی درس گاہوں نے نوجوانوں کو دولت کا پجاری بنا دیا ۔ حصولِ دولت کے لیے اسلامی اقدار کی پامالی ، اخلاقی قدروں کا خون کرنا اور تحقیرِ انسانیت کوئی بعید چیز نہیں ۔ ابنِ آدم کے درمیان سارا فساد حد سے بڑھی ہوئی خواہشِ زر سے جنم لے رہا ہے ۔ ۶ ، ارب سے زائد انسانوں میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے ۔ اوسطاً وسائل بھی مسلمانوں کے پاس زیادہ ہیں لیکن اسکے باوجود بے بسی ، مجبوری ولا چاری عالمِ اسلام کا مقدر بنی ہوئی ہے اِس بے بسی ولاچاری کا سبب بے زری نہیں بلکہ روحانی قوت کی کمی ، بصیرت کا فقدان ، دِل کا مردہ ہو جانا اور خوداری و غیرت جیسے اوصاف کا ختم ہو جانا ہے :
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسو ر و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے ،تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں ۱۳ ؎
عصرِ حاضر میں روحانیت کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال ؔ اپنے والدِ محترم کو لکھتے ہیں : ’’ عام لوگوں کی نگاہ بہت تنگ ہے اِن میں بیشتر حیوانوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اِسی
واسطے مولانا رومی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چراغ لے کے پورے شہر میں پھرا کہ کوئی انسان
نظر نہ آیا اور موجودہ زمانہ تو روحانیت کے اعتبار سے بالکل تہی دست ہے ۔ اِسی واسطے
اخلاص ، محبت و مروت و یکجہتی کا نام و نشان نہیں رہا ۔ آدمی آدمی کا خون پینے والا اور قوم
قوم کی دشمن ہے۔ یہ زمانہ انتہائی تاریکی کا ہے لیکن تاریکی کا انجام سفید ہے ۔ کیا عجب
اللہ تعالیٰ جلد اپنا فضل کرے اور بنی نوع انساں کو پھر ایک دفعہ نورِ محمدی ﷺ عطا کرے ۔
بغیر کسی بڑی شخصیت کے اِس بدنصیب دنیا کی نجات نظر نہیں آتی ۔ ‘‘ ۱۴ ؎
علامہ اقبال ؔ کی مدرسہ اور مدرسہ والوں پر یہ تنقید اس وقت تھی جب ما دہ پرستی کا رحجان اپنی انتہا کو نہیں پہنچا تھا ۔ مذہب سے بیزاری کی فضا مکمل طور پر ہموار نہ ہوئی تھی ۔ مغربی تعلیم نے پورے طور پر معاشرے کو اپنی لپیٹ میں نہ لیا تھا ۔ آج حالات بہت آگے جا چکے ہیں اگر آج اقبال ہوتے تو بقو ل میر ؔ یہ کہتے ۔
میں صد سخن ، آ غشتہ بہ خوں زیرِ زباں ہوں
آج کا مسلم نوجوان اسلامی فکر سے دور الحادی سوچ کے قریب تر ہے بالخصوص وہ طبقہ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہے نہ صرف اسلام سے دور بلکہ اپنے اعمال و افعال سے شعائر اسلامی کا مذاق بھی اڑاتا ہے ۔ کم و بیش سو سال قبل اقبال ؔ جس تعلیم پر تنقید کر رہے تھے اُسی تعلیم کے حامل نوجوان آج ملک و ملت کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔ گول میز کانفرس کے موقع پر اقبال جب یورپ میں تھے تو ان کے بیٹے جاوید نے جن کی عمر تقریباً ۶ ، ۷ برس تھی اقبال کو ایک خط لکھا تھا ۔ اس خط کے جواب میں اقبال نے جو چند اشعار جاوید کو لکھ کر بھیجے تھے وہ اقبال کی گہری اسلامی بصیرت کا پتہ دیتے ہیں ۔ اُن اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اقبال مسلم نوجوان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے :
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دِل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر ۱۵ ؎
اقبال ؔ نے جاوید کے پردے میں مسلم نوجوانوں کو جس خودی اور فقیری کا درس دیا ہے ان صفات کا حامل مشکل سے ہی کوئی نوجوان نظر آتا ہے ۔ ہر پڑھا لکھا نوجوان کرنسئی زرنگار اور بلند دنیاوی مرتبے کا طالب ہے ۔ دبیز پردے اور قالین اِس کی افسری کی دلیل ہیں ۔ سہل پسندی نے پُر آسائش اور آرام دہ کمروں تک محدود کر دیا ہے ۔ جس نظام ِتعلیم سے اقبال خائف تھے آج مسلم نوجوان مکمل طور پر اس میں رنگا جا چکا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے لکھا ہے کہ :
’’ اقبال کو اِس امر پر بھی بڑا دکھ ہے کہ تعلیمِ جدید نے عام انسانوں کے اندر غیر سنجیدگی عیش
کوشی اور تفریح پسندی کا رجحان پیدا کیا جس نے معاشرے سے سنجیدگی ، انسانی احترام ،
ایثار و مروت ، فرض شناسی اور دیانت و امانت کو ختم کر کے اعلیٰ اخلاقی قدروںکو شدید نقصان
پہنچایا۔ حکمت و عقل کا یہ اندازتعلیم گاہوںمیں غلام پیدا کرتا ہے بزرگوں سے حیا چھن جاتی ہے
نوجوان غیرت و بلند عزائم سے محروم ہو کر نسوانی عادات اپنالیتے ہیں اور طبقۂ نسواں دینی اور
روایتی شرم و حیا سے بے نیاز ہو کر نمود و نمائش کارسیا ہو جاتا ہے ۔ اِس طرح کی تعلیم کے زیرِ اثر
قومیں اعلیٰ جوہر کھو دیتی ہیں اِسکے افرادفکرِ معاش اور حُب دنیا میں غرق ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ
ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ ساری قوم اقتدار کی پجاری اور دینی حمیت سے بے بہرہ ہو کر اندھیروں
میں گم ہو جاتی ہے ۔ ‘‘ ۱۶ ؎
موجودہ عہد گو عقل کے اعتبار سے نئی دنیائوں کی تلاش و جستجو میں مگن ہے لیکن آتشِ نمرود میں کودنے کے لئے جس عشق و سرمستی کی ضرورت ہے وہ معدوم ہوچکی ہے عقل اور بصارت نے اگرچہ بہت سی منازل طے کر لی ہیں لیکن آستینوں میں ید ِ بیضا رکھنے والے خرقہ پوش ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ پیٹ سے پتھر باندھ کر جہاد کرنے والوں سے مسلم اُمّہ تہی دامن ہے ۔ بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں رکھنے والوں میں خوفِ خدا ، خدا ترسی ، غریب پروری ، ہمدردی ، ہمت و جواں مردی جیسے روحانی اوصاف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ اعلیٰ تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پُر آسائش زندگی کی طلب رہ گیا ہے ۔ ایک مسلم نوجوان جس کے مقاصد جلیل اور خواہشات مختصر ہونی چاہئیںاِسکے مقاصد قلیل اور خواہشات جلیل ہیں تعلیم جدید نے تو نوجوانوں کو مردانہ اوصاف سے بھی محروم کردیا ہے :
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
’’ پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے ‘‘ ۱۷ ؎
مختصر یہ کہ اقبال تعلیم جدید سے جو خطرہ محسوس کر رہے تھے اُس نے آج پوری اُمت ِ مسلمہ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اَب تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ انگریز کے وضع کردہ نظام تعلیم کے نتائج اور ثمرات کو جان لینے کے بعد بحیثیت مسلم ہم اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے اپنے نوجوان کی درست سمت میں راہنمائی کریں۔
حوالہ جات و مآ خذ
۱۔ ابو الحسن ندوی ،نقوشِ اقبال ،کراچی :مجلس نشریات ِ اسلام ، ۱۹۷۵ء ، ص ۶۰
۲۔ علامہ محمد اقبال ،بال جبریل ، کلیات ِاقبال اردو ، نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، ۱۹۹۷ء ،ص ۳۲۳
۳۔ بال جبریل ، کلیات اقبال اردو ، کلیات ِاقبال اردو ،نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، ۱۹۹۷ء ،ص۳۵۹
۴۔ علامہ محمد اقبال ، نظم لینن خدا کے حضور میں، بال جبریل ،ص۳۲۷
۵ ۔ علامہ محمد اقبال ،نظم پھول ،بانگ درا، ص ۲۰۳
۶ ۔ دیباچہ کلیات ِ اقبال اردو از شیخ عبدالستار ، لاہور : شیخ غلام علی اینڈ سنز ،س ن ،ص ۱۵
۷۔ بال جبریل ، کلیات اقبال اردو ، لاہور : شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص۳۳۸
۸۔ بال جبریل ، کلیات اقبال اردو ، لاہور : شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص۳۲۵
۹۔ تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ ، بحوالہ نقوشِ اقبال از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، ص ۷۶
۱۰۔ بال جبریل ، کلیات اقبال اردو ، لاہور : شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص۳۶۹
۱۱۔ بال جبریل ، کلیات اقبال اردو ، لاہور : شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص۳۴۸
۱۲۔ نظم ، ایک نوجوان کے نام ، بال جبریل،ص۳۴۰
۱۳۔ نظم ، مسلمان کا زوال ، ضربِ کلیم ،ص۴۰۵
۱۴۔ مکتوبِ اقبال بنام شیخ نور محمد ۳ جون ۱۹۲۰ء ، مکاتیب ِ اقبال مرتبہ سید منظور حسین برنی
۱۵۔ نظم ، جاوید کے نام ، بال جبریل ،ص۳۳۶
۱۶۔ مغرب پر اقبال کی تنقید ، ادارہ معارفِ اسلامی منصورہ لاہور مئی ۱۹۹۴ء
۱۷۔ بانگِ درا ، ص۲۸۳
***