ڈاکٹر محمد سہیل اقبال
محمد کا مرا ن اقبا ل
(پر و ڈیوسر ڈائریکٹر جزل ایگری کلچرل انفارمیشن پنجاب ، لاہور)
By, Dr. Muhammad Sohail Iqbal
Muhammad Kamran Iqbal
(Producer) Director General Agricultural Information Punjab, Lahore
اُردو فکشن: تعزیراتی نظام، معاشرتی تحفظ اور انصاف کا المیہ
(بحوالہ خصوصی افسانہ”ادھورا مقدمہ ” ( ڈاکٹر حمیرا اشفاق ) اور ناول”چیخ“ انور سن رائے )
Adhora Muqadma” and ”Cheikh”: An Elegy on Adjourn Justice and Social Insecurity (Comparative Study)
Abstract:
The article in hand, comes with the main objective of studying Dr Humera Ishfaq’s short story ”Adhoora Muqadma” with special reference to its resemblance with Anwar Sen Rai’s novel ”Cheikh”. These works have been analysed critically and textually to explore the nature of cruelty, malice, brutality, torture and sufferings of the subjects in the third world countries. Both writings have pen-pictured the psychology of the people who have been the victim of torture and killing on one hand while on the other hand the stories reveal the psychological condition of those people who inflict such torture. This research will help readers understand the social, psychological and physical conditions of the prototypes in the stories as well as the general public in the era and areas where such brutality had been practised.
Keywords:
ڈاکٹر حمیرا اشفاق، انور سن رائے، تشدد، چیخ، قتل ، الزام ، فرد جرم، ملزم، جج، عدالت، ادھورا مقدمہ، انصاف۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا افسانہ”ادھورا مقدمہ“ اور انور سن رائے کا ناول ”چیخ“ مشکل فن پارے ہیں۔ یہ ایسے علائم اور استعارے ہیں جنہیں ان کے پس منظر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔”ادھورا مقدمہ“ اور ”چیخ“ میں قتل اور تشدد جیسے جرائم کی پوری”گریٹ گیم“موجود ہے۔اس کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے Peter Hopkirk کی اہم کتاب”The Great Game“ کا مطالعہ بہت ضروری ہے”ادھورا مقدمہ“ اور ”چیخ“ میں قتل اور تشدد کی تاریخ اور داستان کو بے نقاب کرنے کی منفرد کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح یورپ، مغرب اور ان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے جنگ و جدل کا بازار گرم کرکے قتل اور تشدد کی پرورش کرتے ہیں،جس کا اثر دنیا کے باقی ممالک بھی با آسانی قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد قتل اور تشدد گروہی ہو جاتا ہے جو سارے خطے، ملک اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔1857 سے سانحہ گیارہ ستمبر تک ایسے ہی اندوہناک واقعات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔”ادھورا مقدمہ“ اور”چیخ“ میں قتل، تشدد اور ان کے پس پردہ عوامل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔اس بنا پر دونوں فن پاروں کا تقابلی مطالعہ مذکورہ جرائم کے علائم و استعارے کو سمجھنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔عالمی سطح پر قتل اور تشدد جیسے اقدام کی حمایت اور سر پرستی کرنے والے ادارے، عناصر، عوامل،افراد اور ممالک کے خلاف نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم”Jacinda Adern“ کا بیان قابل ستائش ہے:
We are not immune to the viruses of hate, of fear of other, we can be the nation that discovers the cure. (1)
”ادھورا مقدمہ“ کلاشنکوف کی انجان گولی فائر کرنے والے نا معلوم افراد پر ہے جس سے دس لوگوں کی موت اور پینتیس لوگ زخمی ہو گئے۔گولی کس نے چلائی تھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ناکے پر سپاہی نے ایک سنہری نمبر والی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رکی تو نہیں البتہ ذرا سی آہستہ ضرور ہو گئی۔ اس سنہری نمبر پلیٹ والی گاڑی کے ادھ کھلے شیشے میں سے ایک ہاتھ باہر نکلا جس میں ایک کارڈ تھا۔ یہ کارڈ کیا تھا، اس کو دیکھنے کی نوبت نہ آئی اور سپاہی کے ردعمل کی پرواہ کیے بغیر گاڑی نے رینگنا جاری رکھا۔خاتون وکیل نے اسی سنہری گاڑی کے خلاف شک کی بنیاد پر اپنا پہلا مقدمہ دائر کیا:
میں اپنے متحرک دماغ سے ابھی تک ایک انجان گولی کی جس کے خلاف میں اپنا پہلا مقدمہ لڑ رہی ہوں، اب اس وقت جب میں سرخ روشنائی سے اپنے کیس کی کارروائی لکھ رہی ہوں تو نجانے کیوں میری آنکھوں میں وہ سنہرے نمبر پلیٹ کی گاڑی گھوم رہی ہے کیونکہ بطور وکیل میں نے شک کی مدد سے سچ کی طرف سفر کرنا سیکھا تھا۔(2)
ناول”چیخ“ میں ایک شخص کو گرفتار کرکے لے جایا جا رہا ہے۔ اس کا قصور کیا ہے کچھ معلوم نہیں،کہاں لے جایا جا رہاہے اس کا بھی نہیں پتا۔کیوں لے جایا جا رہا ہے یہ بھی نہیں پتا۔جب گاڑی سے اتارا گیا تو سامنے ایک کشادہ سبزہ زار تھا، اس کے سامنے ایک برآمدہ تھا، اس برآمدے میں کئی دروازے تھے۔اس کو ایک آفیسر کے سامنے پیش کیا گیا۔اب اس شخص کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں۔اس کو مزید اندر لے جانے کی ذمہ داری ایک سنتری کے سر تھی۔بہت سے کمروں اور راہداری سے نکل کر ایک بڑے سے کمرے میں دھکیل دیا۔یہ کمرہ ایک دربار کے برابر تھا۔اس کمرے میں ایک کٹہرا تھا جو عدالتی کٹہروں سے ذرا مختلف تھا۔اس سے پہلے اس شخص کو کسی عدالت میں حاضر ہونے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔عدالتوں کے متعلق جو کچھ دیکھا تھا وہ ڈراموں اور فلموں کی حد تک ہی تھا۔لیکن یہ عدالت ساری دنیا کی عدالتوں سے مختلف تھی۔ملزم ”غلام ولد غلامو“روسٹرم کے سامنے کھڑے ہوئے شخص نے اس کا نام پکارا۔اپنے نام اور پتا کے علاوہ وہ کچھ اور نہ سن سکا۔یہ عدالت کا پیش کار تھا۔جس کو لائے گئے شخص کی زندگی کے بارے میں کچھ پڑھنے کا کام سونپا گیا تھا۔پیش کار اپنی پوری طاقت،لگن، ایمانداری اور فرض شناسی سے مسلسل بولے جا رہا تھا،لیکن اس کی آواز بالکل بھی ملزم کو سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ملزم قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا تاکہ اس کی آواز کو سن سکے لیکن بے سود۔ ملزم پیش کار کے با لکل قریب آگیا اس کے باوجود بھی اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی کیونکہ یہ سرسری سماعت کی خصوصی عدالت تھی اس لیے ملزم کو کچھ سنائی دے نہ دے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا:
ہر چند کہ مجھے اس دستاویز کے ایک ایک لفظ اور اس کی ادائیگی کے تمام تر جزئیات سے واقف ہونا چاہیے۔ ممکن ہے یہ دستاویز سماعت کے لیے عدالت کو دیے گئے اختیارات سے متعلق ہو یا پھر اسے مجھ پر لگائے گئے الزامات سے مرتب کیا گیا ہودونوں صورتوں میں عدالت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس دستاویز کی مجھ تک رسائی، یعنی اس کے پڑھے جانے کی آواز کو مجھ تک پہنچانا ممکن بنائے۔ہر عدالت میں ملزم کو اپنے بارے میں تمام الزامات سے واقف ہونے کا پورا حق ہوتا ہے۔ ہر چند کے ہمارے ہاں بنیادی حقوق کو معطل ہوئے ایک زمانہ ہو چکا ہے۔(3)
برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کرکے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے منصوبے بنائے۔ان تمام منصوبوں کی بنیاد ناقص تعلیم وہ بھی صرف ضرورت کے تحت،جسمانی تشدد،معاشی ذرائع پر قبضہ،غیر منصفانہ پولیس اور عدالتی نظام،فیوڈل، اشرافیہ کی اجاراداری، عام انسانوں کی زندگیوں کو تہس نہس کرنا، کہیں بھی مارے جاسکتے ہیں، قتل کیے جا سکتے ہیں، بے گھر کیے جا سکتے ہیں۔سیکیورٹی کے نام پر آپ کی زمینوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔یہ انگریزوں کا کلچر تھا جس کے منفی اثرات پسماندہ ممالک پر مرتب ہوئے۔موجودہ عالمی منظر نامہ ہم سب کے سامنے ہے۔ لیکن بہت سے ممالک میں یہ منظر نامہ تلخ اور علامتی ہو جاتا ہے جو انتہائی دلخراش اور تلخ حقائق کو بے نقاب کرتے ہیں۔یہ لوگ ”محمد جہان“کے کنویں کے بونوں کی طرح کئی گروہوں میں تقسیم ہیں۔ان لوگوں کی وسیع ملکیتوں کا آغاز 1857ء ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ ساری دنیا میں یہ اپنے مفا د کے لیے بڑے ہی موثر اور کار آمد طریقے سے کام کر تے ہیں۔ تشدد کے معاشی پہلو کے حوالے سے زرعی اصلاحات کے پس منظر میں ”اے،آر شبلی“ اس علامتی تناظر کو سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
زرعی اصلاحات کے نفاذ کی تین مرتبہ کوشش ہوچکی ہیں۔آخرکارکیا وجہ ہے کہ نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکل سکا۔میرے نزدیک اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ زرعی اصلاحات وضع کرتے وقت پسماندگی کے بنیادی اسباب پر غور نہیں کیا جاتا،بلکہ یہ ہے کہ ستر فیصد مزروعہ اراضی پر با لواسطہ یا بلاواسطہ پرانے جاگیردار،اور نودولتئے قابض ہیں جن کو زراعت سے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ مزدوروں کے خون سے اپنا چراغ ِاقتدار روشن کرتے رہیں۔ بد قسمتی سے اب تک جتنی حکومتیں بر سر اقتدار آئیں وہ عوام کی نہیں،مفاد پرست طبقہ کی نمائندگی کرتی رہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے زرعی اصلاحات کے نام پر جو بھی قدم اٹھایا گیا اس کا فائدہ خود برسر اقتدار طبقہ کے سوا کسی کو نہ پہنچ سکا۔(4)
ترقی پذیر ممالک میں ترقی یافتہ ممالک کی ہدایات پر ظلم و بربریت کو بر قرار رکھنے والے جا نشین اور پیروکارموجود ہوتے ہیں۔حالانکہ ان کے اپنے ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے، امیر غریب کا فرق روا نہیں رکھا جاتا، جس کی روشن مثال یہ ہے کہ جب صدر بش دنیا کی واحد سپر پاور کے صدارتی عہدے پر فائز تھا تو اس کی بیٹی جینا کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔کیونکہ اکیس سال سے کم عمر والا شراب نہیں پی سکتا۔اس پر مقدمہ چلا اور جرمانہ عائد ہو گیا۔اس کے علاوہ ایک دن اپنے محلے کی صفائی بھی کرنا پڑی اور اس کے بعد اخلاقیات اور شراب کے نقصان بتانے والی کلاس میں بھی چھے گھنٹے بِتائے۔اسی جرم میں ایک رات برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر جب اقتدار میں تھے ان کے بیٹے یوان کو جیل میں ایک رات گزارنا پڑی۔لیکن دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہزاروں بچوں،عورتوں اور بزرگوں کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں، چار چار اور پانچ پانچ سال کی بچیوں کے ریپ اور قتل پر سیاست کی جاتی ہے۔سیاسی جماعتیں ٹی وی پر آکر بحث و مباحثہ کرتی ہیں اور سیاسی مصلحت کی بنا پر پھر آپس میں بیٹھ کر پارلیمنٹ میں مچھلی اور کافی پیتے ہیں اور مقتول کے خلاف ہی ٹی وی پر پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے۔”ادھورا مقدمہ“ ایسے ہی لرزا خیز قتل و غارت کی صورت گری کو پیش کرتا ہے:
میں نے ایک اور واقع کا ذکر کیا جب میں عدالت کے سامنے پارکنگ نہ ملنے کی وجہ سے اِدھر اُدھر گاڑی گھما رہی تھی تو ایک زور دار سائرن بجا اور بہت سی لمبی کالی گاڑیوں کی ایک قطار گزری تھی۔ان گاڑیوں کے شیشے خلافِ قانون کالے تھے۔ ان کے آگے پیچھے والی ڈبل کیبن میں کئی مسلح افراد تھے جن میں سے کچھ با وردی اور کچھ سادہ لباس میں تھے۔وہ کلاشنکوفیں لہراتے گزرے تھے۔ ان کو کسی ناکے پر نہیں روکا گیابلکہ ان کے لیے تو چیک پوسٹ پر لگی رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔مجھے شک ہے کہ انہی میں سے کسی ایک کلاشنکوف سے گولی نہ چلائی گئی ہو۔(5)
ناول”چیخ“ میں ملزم غلام ولد غلامو اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کو جاننا چاہتا ہے جو ہر ملزم کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن دنیا کے کسی ملک میں اگر بنیادی حقوق معطل ہو جائیں تو پھر ملزم اپنے اوپر لگائے گئے الزام کو سننے کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔جج کی مسلسل نیند ملزم کو مزید نا انصافی کی طرف دھکیل رہی تھی۔اگر جج ایک دفعہ صرف آنکھ کھول کر دیکھ لیتا تو شائد ملزم بری ہو جاتا۔لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں جج صاحبان کو آنکھ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ملزم کے زور سے چیخنے پر بھی جج کی آنکھ نہیں کھلی۔ ملزم کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ خود ”پیش کار“ کے پاس جا کر فرد جرم دیکھ لے:
پیش کار کے برابر پہنچنے اور اپنی حدود سے مکمل تجاوز کرنے کے سوا اور کوئی رستہ نہ تھا۔میں اور بلند ہوا،اور بلند ہوا اور روسٹرم کے پیچھے کھڑے پیش کار تک پہنچ گیا، با لکل فرد جرم پر جھک گیا۔کیوں کہ صفحات کے پلٹنے کے سوا مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی،میں نے فرد جرم کے صفحات کو بار بار آنکھیں مَل کر دیکھا، یہاں تک کہ ایک بار تو انہیں چھو بھی لیا لیکن میں آپ کو کیسے بتاؤں وہ مکمل طور پر بے تحریر تھے۔با لکل سادہ اس کے باوجود کہ پیش کار پوری توجہ اور انہماک سے ہر صفحے کو پڑھ رہا تھا۔(6)
ممکن ہے کہ فرد جرم کو جدید ٹیکنالوجی سے ایسے تیار کیا گیا ہو کہ ایک ملزم،فرد جرم کو دیکھنے کے با وجود بھی اپنے بارے میں لگائے گئے الزا مات کو نہ جان سکے۔صرف پیش کار کو ہی اس کا علم ہوکہ فرد جرم کن الزامات سے آراستہ ہے۔ایک دھتکارا ہوا درخواست گزار کے پاس جو بری طرح سے ہار چکا تھا، پریشانی سے اس کا جسم چور چور تھا، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی چھا گئی۔انصاف ملنے کی کوئی ذرا سی بھی امید باقی نہ تھی تو ایسے میں ایک معصوم ملزم جس پر بے بنیاد الزام عائد کیا گیا تھا جو پوری کوشش کے باوجود یہ بھی نہ جان سکا کہ مجھے کس جرم میں زبردستی عدالت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، آخر کتنی دیر کٹہرے کی قوت کے خلاف لڑ سکتا تھا۔موجودہ معاشروں میں اب تحفظ کا تصور ایسے ہی عنقا ہو گیا ہے۔ برائن فورسٹ (Brian Forst) لکھتے ہیں:
معاشرے میں مکمل تحفظ کا تصور اب ایک دیومالائی حیثیت اختیار کر چکا ہے،گلوبلائزیشن کے دور میں مکمل تحفظ اور دفاع ممکن نہیں ہے،اصل ایشو یہ ہے:مسلسل مربوط اور بین الانحصار دنیا میں ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کتنے عدم تحفظ کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟بے کراں عدم تحفظ کئی صدیوں تک کئی اقوام کی قسمت بنا رہا۔(7)
قتل اور تشدد جیسے جرائم موجودہ دور کے سنگین مسائل ہیں۔لیکن اس سے بڑھ کر سنگین جرم یہ ہوتا ہے کہ مظلوم کو کسی طرح کا انصاف نہیں ملتا۔ ظالم مظلوم کو دیکھ کر دلی سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے، پولیس کو اطلاع کرنے پر مزید سنگین نتائج کی دھمکی دیتا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں لوگوں کو قتل کرنے اور تشدد کرنے کے لیے خفیہ اڈے بنا رکھے ہیں۔ دنیا کے پسماندہ ممالک میں عوام ایسے ہی مارے جاتے ہیں۔ ”ادھورا مقدمہ“ میں قتل کی جو واردات بیان کی ہے وہ ایسی لگتی ہے جیسے یہ کسی شائستہ کلچر کا حصہ ہو اور یہ کلچر ہم محلوں،گلیوں،بازاروں اور شہروں میں ہر جگہ دیکھتے ہیں۔اذیت رسانی کی ان وارداتوں کے پیچھے طاقتور مافیا ہوتا ہے۔قانون ان کے سامنے پیدائشی اندھے کی طرح ہوتا ہے جس نے کبھی دنیا دیکھی ہی نہیں ہوتی۔عدالتی کمرے میں ایسی ہی سر گوشی گردش کر تی ہے:
کمرہ عدالت میں شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ ہونے لگی۔مجھے وہ جملے اس وقت یاد آ رہے ہیں جو عدالت کے احاطے میں گردش کر رہے تھے۔ایک سینئر وکیل دوسرے سے کہہ رہا تھا”کوئی اس لڑکی کو سمجھائے یہ کس کے خلاف مقدمہ لڑ رہی ہے۔(8)
ناول”چیخ“ میں ملزم غلام ولد غلاموپر ہر الزام کو ثابت کرنا بہت آسان تھا یہ کہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جو سینئر ججوں پر مشتمل تھی۔عدالت کے سامنے پیشکار نے فرد جرم پوری تفصیل اور انہماک سے پڑھی۔ملزم کو کٹہرے سے نکل کر فرد جرم تک کی بھی رسائی دی اور اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی۔ہر بات ایسی اٹل تھی کہ ساری دنیا مل کر بھی کوئی شک پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ملزم کو تو بس ایک ہی شکایت تھی کہ فرد جرم کے پڑھے جانے کی آواز ان تک نہیں پہنچ رہی تھی۔جس کی وجہ سے غلام ولد غلامو یہ نہیں جان سکا کہ الزام کیا ہے۔ملزم کو واپس اپنی جگہ کٹہرے میں آنا پڑا:
میں واپس لوٹ آیا، اپنے کٹہرے میں، اپنی اس اوقات میں جسے انصاف کے زعم میں بھول گیا تھا۔مجھے پہلی بار احساس ہوا، عام زندگی میں معمول کے مطابق دکھائی دینے والی چیزیں جب واسطے میں آتی ہیں تو کتنی غیر معمولی ثابت ہوتی ہیں۔کون کہہ سکتا ہے، کون انہیں جان سکتا ہے؟(9)
”ادھورا مقدمہ“کسی ایک فرد کے خلاف نہ تھا۔ یہ مقدمہ بہت سے افراد اور اداروں کے خلاف تھا۔ڈبل کیبن میں بیٹھے ہوئے افراد جو کچھ وردی میں تھے اور کچھ کپڑوں میں،جن کے پاس کلاشنکوف اور بندقیں بھی تھی۔ ناکے پر موجود شخص جس نے سفید پراڈو کے نمبر کو بھی دیکھنے کی نوبت نہ سمجھی ۔ اس میں بیٹھے ہوئے افراد کی شناخت کی ضرورت تھی۔یہ بھی تیسری دنیا کے ملکوں کا عام چلن ہے کہ لینڈکروزرز،پجاروز،پراڈو جیسی مہنگی گاڑیوں کو نہیں روکا جاتا۔ ایسی گاڑیاں ٹول ٹیکس بھی ادا نہیں کرتی ہیں۔ان لوگوں کو اس جیسی ہر چھوٹی بڑی سہولتیں میسر ہوتیں ہیں۔یہ سب کلچر انگریز کے وضع کردہ نظام کا خاصہ تھا۔ عصر حاضر میں اس کلچر کو مزید طاقتور ہونے کا فروغ ملا۔عام لوگوں کو قتل کرنا اب ان کا مشغلہ اور قانون کو اپنے پاؤں تلے روندنا ان کی تفریح ٹھہری۔رات کی نشریات میں ”ادھورا مقدمہ“ پر سیاسی جماعتوں کے مخالفین نے ایک دوسرے پر الزام لگایا۔قتل کے اس معاملے کو اسمبلی میں میں بھی اچھالا گیا۔اس کے بعد خاتون وکیل کے ساتھ بڑے اور خاص لوگوں والا سلوک ہونے لگا۔پھر سے شک پیدا ہوا کہ کہیں مجھے یہ لوگ مقدمہ کی پیروی سے تو نہیں روکنا چاہتے۔آج اس سے بڑے بڑے لوگ ملنے آئے تو دیکھا کہ پھولوں کا گلدستہ اٹھانے والا شخص تو وہی تھا جس نے گاڑی کو جانے دیا تھا۔اسی شخص کو ڈبل کیبن میں کلاشنکوف تانے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ جو صحافی کبھی صبح میں نہیں جاگا آج جاگ گیا تھا۔ شک کا سفر سچ میں تبدیل ہو گیا۔کل کی تاریخ میں ان کے سب کے نام بتانا ہوں گے۔ لیکن اس کی مہلت نہیں دی جا سکتی تھی:
میرے وجود سے لپٹی مشینوں نے بولنا شروع کر دیا مگر میں چپ تھی۔اب ساکت آنکھیں بھی دھندلانے لگی تھیں۔ نرس اور ڈاکٹر نے سب کو باہر بھیج دیا۔ دو بجلی کے جھٹکوں نے رہی سہی طاقت بھی ختم کر دی۔ نبض اور دھڑکن کسی سکون کی وادی میں جا بسی تھیں۔ ڈاکٹر نے اس صحافی کو بتایا دیا کہ مرنے والوں کی تعداد گیارہ رہ گئی ہے۔(10)
ملزم غلام ولد غلامو سوچ رہا تھا کہ میرے خلاف جرم ثابت کرنے کے بعد سزا کی باری تھی۔غلام ولد غلامو اس خاندان کو یاد کرنے لگا جس کے سات افراد نے اچانک خود کشی کیوں کرلی تھی؟شاید ایسے ہی تشدد کا نتیجہ تھی۔ اس عورت کے بیٹے کو کسی ادارے کے افراد نے اغوا کرنے کے بعد تشدد کیا،صرف اس لیے کہ وہ ایک ایسی چوری کا اعتراف کر لے جو اس نے کی بھی نہیں تھی۔ اعتراف نہ کرنے پر تشدد کرنے والوں نے نیا طریقہ بھی نکالا کہ اس کی ماں اور بیوی کو بچوں سمیت اٹھا لائے۔نئے طریقے کے تحت دونوں عورتوں کو اس مرد کے سامنے برہنہ کر دیا گیا جو ایک ماں اور ایک بیوی تھی۔ان کے مخصوص جسمانی حصوں پر بھی تشدد کیا گیا۔ایسا ہی تشدد اب غلام ولد غلامو پر کیا جانا تھا۔غلام ولد غلامو اس لحاظ سے خوش نصیب تھا کہ نہ تو اس کی بیوی تھی، ماں فوت ہو چکی تھی اور بہن کوئی تھی نہیں۔لیکن غلام ولد غلامو کو بھی برہنہ کر لیا گیا:
کتیا کے بچے،سور۔۔۔ماں دے یار۔۔۔گا۔۔۔ میں تیری شکل بگاڑ دوں گا۔میں تجھے واپس جانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔دیکھتا ہوں تو کب تک نہیں بولے گا۔اُس کے جواب میں بس میری چیخیں نکل رہی تھیں لیکن مسلسل چیخنے کی وجہ سے اب صرف خرخراہٹ بن کر رہ گئی تھیں۔ شاید اس لیے انہوں نے مجھے ”ساؤنڈ پروف“ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔ اچانک اس نے تار پھینکا اور ڈنڈا اٹھا لیا ۔لیکن بچنے کے لیے میری کوشش کی وجہ سے اُسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔اس دوران اشرف اور ان کا ساتھی مسلسل ہنستے رہے تھے۔ حرامیوں تماشا کیا دیکھ رہے ہو، ادھر آؤ، ذرا اس کو الٹا کرو اور اس کے ہاتھ پاؤں قابو کرو۔(11)
”ادھورا مقدمہ“ اور ”چیخ“ میں جو تشدد،ظلم،ناانصافی اور سفاکی بیان کی گئی ہے اس کے پس پردہ بہت سے حقائق ہیں۔جن میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا، مساوی ترقی، معاشی ذرائع پر تصرف،اقتدار پر قابض ہونے کی حوس،دنیا میں عوام کو محکوم رکھنے کی منصوبہ بندی،غلامانہ ذہنیت، جاگیردارانہ نظام کا فروغ، اہم عہدوں پر اشرافیہ کا قبضہ، دنیا بھر میں عوام مخالف سیاسی پالیسیاں، وغیرہ وہ حقائق ہیں جن سے ”ادھورا مقدمہ اور ”چیخ“ کا تانہ بانہ تیار کیا گیا ہے۔امرتیا سین(Amartya Sen)لکھتے ہیں:
بلا شبہ دنیا میں بہت سی کشاکشیں اور بر بریتیں یکتا اور نا قابل انتخاب تشخص کے فریب سے ہی قائم رکھی جاتی ہیں۔نفرت سازی کا فن کچھ ایسی شکل تیار کرتا ہے کہ یہ کسی مبینہ طور پر غالب تشخص کی جادو کی قوت کو اُبھارتا ہے، ایسا تشخص جو دوسری تمام وابستگیوں کو ڈبو دیتا ہے اور جنگجویانہ شکل میں بڑی آسانی کسی بھی انسانی ہمدردی اور فطری رحمدلی پر غالب آ جاتا ہے جو ہم عام حالات میں رکھتے ہیں۔اس کا نتیجہ ملکی بے قابو تشدد ہو سکتا ہے یا چابکدستی والا عالمی تشدد اور دہشت گردی۔(12)
”ادھورا مقدمہ“ اور ناول ”چیخ“ میں تشدد اور قتل و غارت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔جن میں سیاست کے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، یعنی تشدد کا سیاسی پہلو۔ اس کے بعد ان فن پاروں سے دوسرا بڑا پہلو قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔تیسری دنیا کے ملکوں میں قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ایسی نوعیت ہوگی تو نتیجہ عوام پر ظلم و ستم اور تشدد بڑھے گا۔تیسرا بڑا پہلو جس کو امرتیاسین ((Amartya Sen نے بھی اہمیت دی ہے وہ معاشی پہلو ہے۔عصر حاضر کے اس عالمی منظر نامے کو ارون دھتی روئے(Arundhati Roy (بڑی تہہ داری سے بیان کرتی ہیں:
حکومتوں، سیاسی جماعتوں، انتخابات اور میڈیاکیلئے صرف ایک ہی چیلنج باقی رہ گیا تھا اور وہ تھا لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور لوگوں کی قوت و اقتدار کا خوف۔اسے کس طرح لے پالک بنایا جائے،کس طرح نوع بنو احتجاجوں کو اپنے تابع کیا جائے اور کس طرح لوگوں کے غم و غصے کو بند گلی میں دھکیلا جائے۔(13)
”ادھورا مقدمہ“ اور ” چیخ“ میں تشدد کی ایک طویل تاریخ بیان کی گئی ہے۔ دنیا میں تشدد پہلے سے موجود تھا لیکن موجودہ دور میں یہ پیش رفت ہوئی ہے کہ اب تشدد کھلے عام ہوتا ہے۔کہیں اور کسی طرح بھی اس کی روک تھام نہیں ہوتی۔جو ادارے تشدد کرتے ہیں اُن کی نفسیات کیا ہوتی ہیں،جس پر تشدد کیا جاتا ہے اُس کی نفسیات کیا ہے،ایسے تشدد اور قتل کی ورادت کو ”ادھورا مقدمہ“ اور ناول ”چیخ“ میں سمونے والے پر کیا گزرتی ہے اور ان فن پاروں کا قاری کس طرح اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے،یہ سب عوامل ان فن پاروں میں ہمیشہ کے لیے مقید کر دیے گئے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں تشدد اور قتل و غارت گری کے عوامل کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کے پس پردہ حقائق کو جان سکیں۔اس لحاظ سے”ادھورا مقدمہ“ اور ”چیخ“ خاص اہمیت کے حامل فن پارے ہیں۔
حوالہ جات
1۔,8 Tariq Khosa ” The Anti-Terror Fight: Dawn, Lahore, March 15, 2019, P
2۔ حمیرا اشفاق، ڈاکٹر، کتبوں کے درمیان، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز ،2019ء، ص،103۔
3۔ انور سن رائے، چیخ، کراچی: علم و ادب پبلشرز اینڈ سیلر، 1987ء، ص، 13۔
4۔ اے،آر،شبلی،پاکستان کے دیہہ خدا، لاہور: آتش فشاں،2009ء،ص،109۔
5۔ حمیرا اشفاق، ڈاکٹر، کتبوں کے درمیان، ص،104۔
6۔ انور سن رائے، چیخ، ص،19۔
7۔ برائن فورسٹ(Brian Forst)،After Terror، (دہشت کے بعد) مترجم،ایم وسیم،مشعل بکس،
لاہور، 2009ء،ص،37۔
8۔ حمیرا اشفاق، ڈاکٹر، کتبوں کے درمیان، ص،105۔
9۔ انور سن رائے، چیخ، ص،22،23۔
10۔ حمیرا اشفاق، ڈاکٹر، کتبوں کے درمیان، ص،110
11۔ انور سن رائے، چیخ، ص،135۔
12۔ امرتیا سین(Amartya Sen)، Identity And Violence(تشدد اور تشخص)، مترجم:پروفیسر،
مقبول الہی،مشعل بکس، لاہور، سن، 2009ء، ص،9۔
13۔ ارون دھتی روئے(Arundhati Roy)، Urdu translation of Arundhati Roy’s Essays
(سرمایہ داریت، ریاستی جبر اور مزاحمت) مترجم:امجد نذیر، سوجھلا، ملتان،2012ء،ص،58۔