You are currently viewing آزادیٔ ہند میں اردو شعرا و ادباکا کردار

آزادیٔ ہند میں اردو شعرا و ادباکا کردار

ڈاکٹرعرشیہ اقبال

پی ایچ ڈی، اسکالر،کلکتہ یونیورسٹی

آزادیٔ ہند میں اردو شعرا و ادباکا کردار

         ہندستان کی شناخت وہ تہذیب ہے جو مشترکہ تہذیب کے نام سے موسوم ہے اور اردو زبان اسی مشترکہ تہذیب کی دین ہے ۔ اس زبان نے ہمیشہ اپنے ملک کا ساتھ نبھایا ہے ۔ ملک ہندستان میں آزادی کی جتنی بھی تحریکیں رونما ہوئیں اس میں اردو زبان کا بڑا اثردیکھنے کو ملتا ہے۔ جنگ آزادی میں ہماری مادری زبان اردو نے اہم کردار ادا کیاہے۔ جب ملک ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اس وقت سرزمین ہند نے ایسے ایسے  نامور، تابندہ، شاعروں،ادیبوں اور بہادر و دلیرسیاست دانوں ، جیالوں و  ہند کے متوالوں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی کوششوں سے ملک کا مستقبل بدل ڈالا،ملک جو انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، ان غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور ملک میں آزادی کا پرچم لہرایا۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعروں سے ملک کا ہرگوشہ گونج اٹھا۔ دو لفظوں کا یہ نعرہ اپنے اندر وہ جہت رکھتا ہے کہ جس سے ملک کا ہر نوجوان اپنے اندر ایک جوش ولولا  اور جنونی کیفیت محسوس کرتا ہے اور ان کے سینے میں ملک کی محبت دوبالا ہوجاتی ہے۔ وہ ہر وقت ملک کی خاطر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی وہ پُرتاثیر نعرہ ہے جس نے ہر خاص و عام کو ملک کی آزادی جنگ میں شریک ہونے پر آمادہ کیا۔ یہ وہ نعرہ ہے جو خالص اردو زبان کا ہے ۔ جب بھی کوئی تحریک چلی یا آزادیٔ ہند کا ذکر چھڑتا ہے تو اس نعرے کے بغیر بات ختم نہیں ہوتی اور بعض اوقات تو سلسلۂ گفتگو کا آغاز ہی اس نعرے سے ہوتا ہے ، تاکہ جوش و خروش دونوں جانب برقرار رہے۔ آج بھی اگر کسی کو اپنی بات منوانا ہوتا ہے تو خود بخود زبان سے یہ نعرہ جاری ہوجاتا ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک جذبہ بھی ہے جو ہمیں ماضی کی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے۔ اسی نعرے کی پکار پر آزادی کے بے شمار متوالوں نے جام شہادت نوش کیاتھا۔ ملک ہندوستان کی آزادی اس نعرے کی احسان مند ہے۔ یہ نعرہ آزادی کا بگل ہے،اور تو اور یہ نعارہ اردو زبان کی دیں ہے اس ضمن میں شارب ردولوی صاحب کا مشہور جملہ یاد آتا ہے:

’’ہندوستان کی جنگِ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی۔ ایک اہنسا ، دوسری اردو زبان۔‘‘

                              (حوالہ: سہ ماہی فکروتحقیق، شمارہ 3، جلد:61، جولائی تا ستمبر2013ء، ص:58)

         واقعی شارب صاحب کی بات سو فیصد ی درست ہے۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہر وطن پرست بشر کو اس بات کو  تسلیم کرنا ہی چاہیے۔جب بھی آزادی کی بات ہوگی اردو شاعروں اور ان کے کلام کے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی،آزادی ہند میں ہمارے شعرا کا بڑا اہم کردار رہا ہے،ان کے کلام نے آزادی کی جنگ میں بہت ہی خاص رول نبھایا ہے۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

         بسمل عظیم آبادی کی غزل ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ پر کافی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ہر تحریک ہر انقلاب اور ہردور میں نئی روایات کو لانے میں اس شعر کا سہارا لیاگیا ہے۔ یہاں ایک ضروری بات بتاتی چلوں کہ اس شعر کے حوالے سے بھی ہماری قوم کو مایوس کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اردو ادب کے محقق جناب قاضی عبدالودود صاحب کا احساس ہے کہ انہوں نے اس بات کو تحقیق کے بعد ثابت کردیا ہے کہ یہ غزل کامطلع جسے ایک ہندو وطن پرست کاکوری کیس میں موت کی سزا پانے والے رام پرشاد بسمل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جنہوں نے آخری وقت پر اپنی زبان سے اس تاریخی شعر کو ادا کرکے لوگوں کو کش مکش میںڈال دیا، نام کی یکسانیت نے بسملؔ عظیم آبادی کو رسوا کیا مگر سچائی چھپ نہ سکی اور جلد ہی ہمارے اردو کے محقیقیں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ کلام بسملؔ عظیم آبادی کی ہے ، انہوں نے یہ غزل 1921ء میں تحریر کی تھی،اور قاضی عبدالغفار کے رسالہ ـصباح میں چھپی تھی مگر وہ شمارہسرکار نے ضبط کر لیا تھا اس لے کہیں دستیاب نہ ہو سکاـ۔ بسملؔ کے علاوہ مجاز، مخدوم، جذبی، سردار جعفری، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، علامہ اقبال، پرویز شاہدی وغیرہ کے کلام میں ہمیں حب الوطنی کے کئی اشعار اور لازوال نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جلال آتش برق شہاب پیدا کر

ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر

جو ہو سکے تو خود انقلاب پیدا کر

وطن کی پاسبانی جاں و ایماں سے بھی افضل ہے

میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں

ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے

مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے

بھارت کے اے سپوتو ہمت دکھائے جائو

دنیا کے دل پہ اپنا سکہ بٹھائے جائو

کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے

بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے

ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں

اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم

کیفی اعظمی کا یہ شعر بڑا مشہورہوا اور اس کو ایک دیس بھگتی فلم میں گیت کے روپ میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔شعر ملاحظہ فرمائیں:

کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو

اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو

          جب گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک چلائی تو اس دور میں اردو شعرا و ادباء نے بھی قلم کو ہتھیار بنا کر ایسے ایسے لازوال کلام اور مضامین تحریر کیے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔حالیؔ، آزادؔ،سرسید نے بھی ادبی تحریک چلا کر ملک کی آزادی میںپیش پیش رہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ قید و بند کی مصیبتیں بھی سہی، ظلم بھی برداشت کیا، سزا کاٹی اور جیل میں رہ کر بھی ادبی کام کو جاری رکھا۔ اس کے علاوہ ان پر باغی ہونے کا الزام بھی ٹھرایا گیا۔ ان میں فیض احمد فیض، مولانا آزاد ، حسرت موہانی، جوش ، پرویز شاہدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

         شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے بھی کئی نظمیں حب الوطنی سے سرشار، انگریزی حکومت کے خلاف جذبات سے لبریز شاعری کی جسے پڑھ کر لوگوں میں جنون کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اقبال کے کلام نے ملک کے باشندوں کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آنکھوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا۔ اپنی لازوال نظموں کو اقبال نے اردو زبان میں تحریر کیا جس نے آزادی ہند میں اہم کردار  نبھایا ہے۔ ’’ترانہ ہندی‘‘ جوکبھی ہندوستان کا قومی گیت ہواکرتا تھا،سدا بہار نظم ہے ۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

         علامہ اقبال نے نظم ’’ترانۂ ہندی‘‘ 1905ء میں لکھا جسے ہندوستان کے غیر رسمی قومی گیت کا درجہ حاصل ہے۔ ملک کی عظمت اور اس کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لیے آج بھی اس گیت کو ہر موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نظم کی فضیلت یہ رہی کہ جب اندراگاندھی نے بھارت کے پہلے خلاباز راکیش شرما سے پوچھا کہ خلا سے بھارت کیسا دکھائی دیتا ہے تو راکیش شرما نے اقبال کی اس نظم کا پہلا مصرع سنایا’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ اس کے علاوہ مہاتما گاندھی نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا تھا کہ اقبال کے ’’ترانہ ہندی‘‘ کو انہوں نے جیل میں قید کے دوران کئی پڑھاتھا۔ خود  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی پہلی کانفرنس میں ملک کی عظمت بیان کرنے کے لیے اسی ترانے کے اشعار پڑھتے تھے۔

         فیض احمد فیض کی نظموں میں صبح آزادی ان کی ایک حب وطن نظم ہے اس کے علاوہ  مخدوم نے نظم انقلاب، سرخ سویرا، جوش نے شکست زنداں کا خواب تحریر کیا۔برج نرائن چکبست جنہیں قومی شاعر کا خطاب دیاگیا انہوں نے12نظمیں لکھیں جو حب الوطنی پر مبنی ہیں۔ وطن کا راگ، فریاد قوم، جلوۂ صبح، آوازۂ قوم، برق اصلاح، خاکِ ہند، ہمارا وطن دل سے پیارا وطن، وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک، نالۂ یاس، قومی مسدس، لارڈ کرزن سے جھپٹ جیسی لازوال نظمیں تحریر کرکے اردو ادب کومالامال کیا۔ ان شعرا کے علاوہ حالی، شبلی، آزاد، اسماعیل میرٹھی، سرور جہاںآبادی، اکبر الٰہ آبادی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

         اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو نثر نگاری نے بھی آزادیٔ ہند میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرسید نے اپنے مضامین اورپریم چند، کرشن چند، بیدی، عصمت چغتائی، جیلانی بانو ، سجادظہیروغیرہ نے اپنے افسانوں سے ملک کے حالات ، واقعات اور انسانی زندگی کی بدحالی و پامالی کابیان کھل کر کیا اور اپنی تصانیف کے زریعہ ملک کی آزادی  کی تحریک میں شریک ہوئے۔ پریم چند کا افسانوی مجموعہ’’سوزوطن‘‘ انگریزوں نے ضبط کرلیا تھا۔ چونکہ ان کے افسانے کھل کر انگریزی حکومت کی مخالفت کررہے تھے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے افسانے بھی نذرآتش کیے گئے اور افسانہ نگاروں کو باغی قرار دیاگیا۔ تقسیم ہند کے ہنگامی ماحول میں لکھے گئے افسانوں میں منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ کرشن چند کا افسانہ ’’امرتسر آزادی سے پہلے‘‘ عزیز احمد کا ’’کالی رات‘‘ رامانند ساگر ، بھاگ ان بردہ فروشوں سے، بیدی کا افسانہ’’لاجونتی‘‘ جیلانی بانو کا افسانہ ’’مجرم‘‘ الیاس احمد گدی کا ’’بغیر آسمان کی زمین‘‘ اشفاق احمد کا ’’گدڑیا‘‘خواجہ احمد عباس کا افسانہ ’’انتقام‘‘ حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ عصمت کا ’’جڑیں‘‘ احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’ُرمیشرسنگھ‘‘ اوپندر ناتھ اشک کا افسانہ ’’ٹیبل لینڈ‘‘ شفیق کا نیلاخوب‘‘ سریندر پرکاش کا افسانہ ’’بالکنی ‘‘ قدرت اللہ شہاب کا افسانہ ’’یا خدا ‘‘(ناولٹ) اور جوگندر پال کا افسانہ ’’پناہ گاہ‘‘ کافی مشہور ہیں۔

          الغرض یہ تمام شعری و نثری خدمات خالص اردو ادب کی دین ہیں اور ان تمام شعرا و ادبا جن کا میں نے ذکر کیا ہے سب نے ملک کی آزادی کے لیے بڑی جاں فشانی سے قلم کو ہتھیار بناکر آزادیٔ ہند میں اپنا فرض ادا کیا اور اردو زبان کو ذریعہ اظہار بناکر اردو زبان کو بھی فروغ دیا۔ اس طرح اردو زبان نے آزادیٔ ہند میں اپنا کردار پیش کیا ہے۔ جسے تاقیامت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭٭

Leave a Reply