You are currently viewing آزادی سے قبل اجمیر میرواڑہ میں خواتین کی اردو خدمات

آزادی سے قبل اجمیر میرواڑہ میں خواتین کی اردو خدمات

ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ

ایسوسی ایٹ پروفیسر۔گورنمنٹ پرتھوی راج چوہان کالج۔اجمیر

آزادی سے قبل اجمیر میرواڑہ میں خواتین کی اردو خدمات

         دارالخیر اجمیرابتداء ہی سے مذہب،تصوف،روحانیت،تہذیب و تمدن،ثقافت اور شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔اردو کی ابتدائی نشو و نما میں ہندوستان کے دیگر خطّوں کی طرح اجمیر کے صوفیائے کرام نے بھی پیش رفت دکھائی ،جس کے شواہد مختلف ماہرینِ لسانیات کے بیانات ہ کتابیات سے فراہم ہوتے ہیں۔

         واضح ہو کہ اجمیر میرواڑہ میں جہاں مردمانِ ادب نے اردو کے تناظر میں علمی و ادبی خدمات انجام دیں،وہیں خواتین و مستورات کا بھی غیر معمولی حصہ رہا۔تاہم اس علاقہ کی علمی و ادبی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہاں کی خواتین کی خدمات کو شامل نہیں کیا جائے۔

         اجمیر میر واڑہ میں خواتین کے ایسے دو طبقات رہے جنھوں نے آزادی سے قبل شعرو ادب کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان میں پہلا طبقہ اُن باذوق طوائفوں کا تھاجو بذاتِ خود شعر گوئی کے عمل سے روبرو ہوا کرتی تھیں،دوسرا طبقہ اُن مہذب اور شریف گھرانوں کی مستورات و بیگمات کا تھا جو پردہ داری کا اہتمام کرتے ہوئے شعر و سخن میں دلچسپی لیا کرتی تھی۔مختلف حوالوں سے خوشگوار انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ان خواتین کا کلام ادبی محفلوں میں دوسرے حضرات پڑھ کر سناتے تھے،کیہں کہ پردہ داری کے سبب وہ ادبی تقریبات میں بہ نفسِ نفیس تشریف نہیں لا سکتی تھیں۔جبکہ طومئفوں کا طبقہ اس لئے مشہور ہوا کہ وہ اساتذہ کا کلام اپنی محفلوں میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ طبع زاد تخلیقات بھی نذرِ سامعین و ناظرین کر کے دادِ تحسین،تحائف،ارمغان،نذریں اور انعام و اکرام حاصل کیا کرتی تھیں۔ایک مشترکہ روایت ان دونوں طبقات میں یہ رہی کہ ان کا کلام اکثرمعاصر رسائل،جرائد اور شعری گلدستوں میں شائع ہوتا رہتا تھا۔اس لئے اجمیر میر واڑہ کی خواتین و بیگمات کی اردو ادب میں نمائندگی ہوتی ہے۔

         اس جانب سب سے پہلے ڈاکٹر شاہد جمالی نے توجہ کی،اور’’چند شاعرات راجستھان‘‘نامی کتاب میں اجمیر میرواڑہ ہی نہیںبلکہ پورے راجستھان کی خواتین پر قلم اٹھایا۔مشہور رسالہ ’’پیام یار‘‘اور ایسے ہی دوسرے رسائل سے اجمیر و میرواڑہ کی خواتین کے کلام کو جمع کیا،جو در حقیقت عرق ریزی کا کام ہے۔اجمیر میرواڑہ کی جن با ذوق طوائفوں کا اس کتاب میں ذکر ہے،ان کے نام،امرائو جان ناز،بی رحمان جان صنم،بی کالی جان حسین،بی محمدی جان زیبا،بی پیاری جان ضیا، کے نام شامل ہیں۔لیکن ان کے علاوہ بھی اجمیر میں کئی اور با ذوق طوائفیں تھی،جیسے،بی صابرہ،بھورا،بشیرہ،بلبل،مسرت وغیرہ۔آج اجمیر شریف میں دہلی گیٹ سے لے کر دھان منڈی،کمہار محلہ،پیر مٹھا گلی،مسلم موچی محلہ،موتی کٹلہ،گلی مدھو شاہ شہید اور درگاہ بازار میں جو اونچی اونچی عمارتیں دیکھائی دیتی ہیں،آزادی سے قبل ان میں سے بیشتر طوائفوں کے کوٹھے اور رہائش گاہیں ہوا کرتی تھیں،جہاں لوگ ادب اور تہذیب سیکھنے آتے تھے۔ڈاکٹر شاہد جمالی لکھتے ہیں،

’’راجپوتانہ کی جو طوائف شا عرات تھیں،انھوں نے دہلوی اساتذہ کی سر پرستی میں حسن و عشق کے مضامین نہایت عمدگی سے پیش کئے۔دہلی کی زبان اور روز مرہ،ان طواثفوں کے یہاں خوب نظر آ تا ہے۔یہاں تک کہ ان کی طرحی غزلیں اساتذہ کے غزلوں کے ساتھ رسائل میں شا ئع ہوا کر تی تھیں۔یہ ان کے لئے ایک فخر کی بات تھی۔اور شا عری بھی کو ئی معمولی یا بازاری نہیں تھی۔جیسا کہ ان کے کلام سے ظا ہر ہے۔مثال کے طور پر اگر کسی رسالہ میں عاشق ؔ کا یہ کلام شا ئع ہوتا ہے۔ع

وہ کو ئی امتحان لیتے ہیں        بے گناہوں کی جان لیتے ہیں

 تو اسی رسالے میں ،اجمیر کی ایک طوائف ’بی کالی جان حسین ؔ ‘ کا یہ کلام بھی شا ئع ہوتا ہے۔ع

غیر کا امتحان لیتے ہیں         میرا کہا بھی مان لیتے ہیں  ‘‘

(چند شاعرات راجستھان اور کچھ بھولے بسرے شعراء۔شاہد جمالی،ص    )

ایک اور جگہ شاہد جمالی لکھتے ہیں،

         ’’ ان طوائفوں کی یہ شاعری کوئی بازاری یا غیر معیاری نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں کسی طرح کی عریانیت نظر آتی ہے۔بلکہ یہ ایک فن کی شکل میں نظر آتی ہے اور اس دور کے لب و لہجہ اور زبان کی صحیح عکاسی کرتی  ہے۔شعراء حضرات کے مقابلہ میں ہم ان کی شاعری کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ان طوائفوں کی یہ شاعری راجپوتانہ کی اردو شاعری کی اثاث ہے۔ شو خی و ظرافت ،محاوراتی زبان ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ہر شاعرہ کے کلام میں داغ ؔ اسکول کا اثر صاف طور پر نظر آتا ہے۔ان سبھی کے کلام کے نمونے راقم نے رسالہ پیام یار سے جمع کئے ہیں۔جس میں زیادہ تر طرحی کلام شائع ہوا کر تا تھا۔ہر شاعرہ کو کسی نہ کسی استاد سے تلمذ حاصل ہے۔‘‘

(چند شاعرات راجستھان،ص  )

         اجمیر کے معمر بزرگ حضرات بتاتے تھے کہ اکثر علم و ادب سے وابستہ حضرات ،ان طوائفوں کی شاعرانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے،اس لئے انھوںنے اپنی شاعرانہ حیثیت منوانے کی غرض سے  ان رسائل اور گلدستوں میںاپنا کلام برائے اشاعت ارسال کرنا شروع کیا،جو طرحی مصرعوں پر کلام طلب کرتے تھے۔اجمیر کی طوائفوں نے ’’پیامِ یار‘‘لکھنو میں اپنی طرحی غزلیں برائے اشاعت ارسال کیں،یہی تخلیقات شاہد جمالی نے مذکورہ رسالے کے قدیم شماروں سے جو ۸۶۔۱۸۸۵ء سے تعلق رکھتے ہیں یکجا کی ہیں۔اس سلسلے میں امرائو جان نازؔ کی مندرجہ ذیل تخلیقات ’’پیا م یار‘‘کے مختلف شماروں کے حوالے سے پیش کی ہیں،

تمہیں کیا ،شاد رہے یا کوئی ناشاد رہے

تم سلامت رہو دشمن کا گھر آباد رہے

تم اگر یونہی سدا مائل بیداد رہے

عشق کا نام بھی لیگا نہ کوئی یاد رہے

غیر سے مل کے کہیں بھول نہ جانا سرکار

وعدے کیا کیا کئے جاتے ہو ذرا یاد رہے

ناز ؔ اس محو ِ تغافل سے شکایت ہے عبث

بھول جانا بھی غنیمت ہے اگر یاد رہے

(پیام یار۔مئی۔۱۸۸۵ ء۔ص۔۱۷۔۱۸)

دل میں تصور ِ گل رخسار ہی رہا

سینہ ہمارا غیرت گلزار ہی رہا

آئے بھی اور چلے بھی گئے ان سے مل کے لوگ

میں تاک جھانک  میں پس دیوار ہی رہا

قاتل نے بعد قتل بھی بخشا نہ جرم عشق

عاشق سزا بھی پا کے گنہہ گار ہی رہا

سودا ے چشم یار سے خالق بچائے ناز ؔ

جس کو لگا یہ روگ وہ بیمار ہی رہا

(پیام یار۔اگست۔۱۸۸۵ ء۔ص۔۲۰)

میری ان کو خبر نہ ہو نہ سہی

دل کی بھی دل کو کچھ خبر نہ ہوئی

نازِ دل نازؔ کا فسانہ ہوا

اور ابھی تک تمہیں خبر نہ ہوئی

(پیام یار۔دسمبر ۱۸۸۵ ء۔ص۔۱۷)

مل جائے تو ہم جان تلک دیکر بدل لیں

لیکن کہیں دشمن کا مقدر نہیں ملتا

کیوں اس کا پتہ مجھ کو ملا غیر کے گھر میں

صبر آہی گیا تھا یہ سمجھ کر نہیں ملتا

ناچار ہیں اس دل سے ہم اے ناز ؔ وگرنہ

کیا اور کوئی یار سے بہتر نہیں ملتا

(پیام یار۔مئی۔۱۸۸۶ ء۔ص۔۲۴)

تمہیں ہم چاہتے ہیں بات یہ ہے

خدا جانے جفا کیا ہے وفا کیا ہے

اجل بھی بے خبر ہے تو بھی غافل

کوئی رکھّے کسی کا آسرا کیا

پیام موت ہے بیمارئی دل

جسے ہو یہ مرض اوسکی دوا کیا ہے

بتوں نے تو کیا اے نازؔ یہ کچھ

اب آگے دیکھیں کر تا ہے خدا کیا

(پیام یار۔مارچ۔۱۸۸۷ ء۔ص۔۲۰)

آتا ہے جو وہ منھ کو چھپائے مرے آگے

بہتر ہو اگر اس سے نہ آئے مرے آگے

یخلایا ہے خبر وہ کہ بلا یا ہے مجھے ناز ؔ

منھ چوم لوں قاصد کا  جو آئے مرے آگے

(پیام یار۔اپریل۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۱۸ )

         پیام یار اور دیگر رسائل میں سب سے زیادہ کلام امرائو جان نازؔ کا شائع ہوتا تھا،ان کے کلام پر اگرچہ روایت پرستی کی چھاپ دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کلام مجروں اور محفلوں میں پیش کیا جاتا تھا،اور اس وقت کے عواماسی قسم کی شاعری کو پسند کرتے تھے۔یعنی نازؔ کے لئے شاعری تسکین ذوق کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ روٹی روزی کا وسیلہ بھی تھی۔

         امرائو جان نازؔ سے متاثر ہو کر بی رحمانی جان صنمؔ نے بھی مصرعہ طرح میں اشعار کہہ کر پیام یار میں اشاعت کے لئے بھیجنا شروع کئے،ذیل میں پیام یار بابت،نومبر۱۸۸۹ء  سے ان کی طرحی غزل کے اشعار بطور نمو نہ ملاحظہ کیجئے،

روتے ہو کیایہ حال نہیں ہے رقیب کا

افسانہ میرا ہے اسے پہچان جائیے

وہ چھیڑتے ہیں راہ میں کر کے مجھے سلام

پھر کہتے ہیں ذرا مجھے پہچان جائیے

آتے ہیں وہ رقیبوں سے روٹھے ہوئے صنم ؔ

آتا ہے جی میں دوڑ کے قربان ہو جائیے

(پیام یار۔نومبر۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۲۰۔)

         اجمیر کی طوائفوں میں بی کالی جان حسینؔ مترنم شاعرہ کی حیثیت سے مشہور تھیں،اور بولتے ہوئے شعر کہنے میں مہارت رکھتی تھیں،اس کا اندازہ ذیل کے اشعار سے ہوتا ہے،

غیر کا امتحان لیتے ہیں

میرا کہنا بھی مان لیتے ہیں

قبر میں دیکھ کر کہا مجھ کو

آپ کیسا مکان لیتے ہیں

(پیام یار۔مارچ۔۱۸۹۰ ء۔ص۔۲۳)

         امرائو جان نازؔ کے بعد بی محمدی جان زیباؔ کا کلام متواتر شائع ہوا۔زیباؔ اور نازؔ دونوں کا اب و لہجہ بھی مشترک ہے،حسب ذیل اشعار سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے،

لگے کہنے مری میت پہ کس حسرت سے وہ آکر

الٰہی بخشیو اس راہئی شہر خموشاں کو

(پیام یار۔نومبر۔۱۸۸۷ ء۔ص۔۲۰)

کس بات پہ یاد ،بھلا تجھکو ہم کریں گے

کچھ تو ہی مری چارہ گر اے آہ ِ رسا ہو

چہرے سے عیاں صاف ہے آتے ہو جہاں سے

کہدوں میںپتہ کی تو ابھی حشر بپا ہو

منھ پھیر لیا بات نہ کی دیکھ کے مجھ کو

گر یوں ہی کوئی دوسرا تم سا ہو تو کیا ہو

بولے وہ شب وصل کس انداز سے  زیباؔ

ہو جائے ابھی صبح الٰہی تو مزا ہو

(پیام یار۔اکتوبر۔۱۸۸۷ ء۔ص۔۲۰)

مثل ہے یہ تو کہ دشمن کی آشنائی کیا

زبان سے میری بھی نکلا تو برائی کیا

مرے مزار پر آئے تو لائے دشمن کو

اٹھیں گے سینکڑوں فتنے یہ جی میں آئی کیا

(پیام یار۔فروری۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۱۵)

         زیباؔ کے یہاں ایک غزل ایسی بھی ملتی ہے جو اسی زمین میں کہی گئی ہے جس میں امرائو جان نازؔ کی غزلہمدست ہوتی ہے،اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں نے ایک ہی مصرع طرح پر اپنا کلام ،پیام یار کو بھیجا ہوگا،مثلاً،

تیور ہی کہے دیتے ہیں آتے ہیں جہاں سے

کیوں جھوٹ کوئی بات بنائے مرے آگے

(پیام یار۔مئی۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۱۷)

اسی طرح زیباؔ کی ایک اور غزل بی کالی جان حسینؔ کی غزل والے ردیف و قافیہ سے ملتی ہے،گویا یہ غزل بھی مصرعہ طرح پر کہی گئی ہے،حتیٰ کہ دونوں کا کلام پیام یار کے ایک ہی شمارے میں شائع ہوا،اس غزل کا ایک شعر پیش ہے،

بس بس زباں سے مری کہلوائیں نہ آپ

اس دم جہاں سے آئے ہیںخود جان جائیے

(پیام یار۔نومبر۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۲۰)

حالانکہ اس شعر میں زیباؔ نے خود کو ڈوہرایا ہے،یعنی اس موضوع پر اس سے پہلے والے شعر میں انھوں نے اپنا مافی الضمیر واضح کیا تھا۔

         امرائو جان نازؔ اور بی محمدی جان زیباؔ کی طرح ہی بی پیاری جان ضیاءؔ نے بھی مذکورہ مصوع پر اپنی غزل پیش کی ہے،جو پیام یار میں شائع ہوئی،یہ چلن اشارہ کرتا ہے کہ اجمیر کی شاعرات طرحی مصرعوں پر شعر گوئی میں پیش پیش رہا کرتی تھیں،ضیا کی جس غزل کی طرف مذکورہ سطور میں اشارہ کیا گیا ہے،اس سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے،

یا رب ہو کچھ اتنا تو اثر میری دعا میں

تھامے ہوئے وہ بھی جگر آئے مرے آگے

اچھا کہ برا جیسا کیا تم نے وہ تم پائو

گر میں ہوں برائی میںتو آئے مرے آگے

کچھ چھیڑ ہے یہ ،کر تے ہو تعریف عدو کی

پھر دیکھو وہی تذکرہ لائے مرے آگے

یکساں ہے ضیا ؔ مجھ کو شب وصل و شب غم

آتے ہیں تو وہ منھ کو چھپائے مرے آگے

(پیام یار۔مئی۔۱۸۸۹ ء۔ص۔۱۷)

         ضیاءؔ کی اس غزل سے راز فاش ہوتا ہے کہ وہ شعر گوئی کے ضمن میں نازؔ اور زیباؔکی بہ نسبت زیادہ رواں دواں اور مرصع شعر کہتی تھی۔راجستھان کی ان شعرات کے متعلق ڈاکٹر شاہد احمد جمالی کا یہ بیان ہے،

         ’’اہل ادب اس بات سے متفق ہیں کہ طوائف شاعرات نے بھی اردو کے فروغ میں کہیں نہ کہیں  اپنا کر دار نبھا یا ہے۔شعر و شاعری کے شوق میں طوائفوں نے تعلیم بھی حاصل کی اور کسی نہ کسی استاد سے اصلاح سخن لی۔داغ ؔ دہلوی کے دور میں جب سارے ہندوستان میں ان کی زبان اور محاورے نے اردو شاعری میں ایک نیا جوش اور غیر معمولی ذوق و شوق پیدا کر دیا تھا تو نامی طوائفوں نے بھی اپنی شاعری میں ان ہی کی زبان اور ان ہی کا اسلوب لانے کی کوشش کی۔ ذیل میں راجپوتانہ میں آکر بود وباش اختیار کر نے والی چند ایسی طوائفوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو داغ ؔ کی شاعری سے متاثر تھیں اور ان ہی کی زبان میں شعر کہنے کی کوشش کر تی تھیں۔ان شاعرات نے راجپوتانہ کے مختلف شہروں میں آکر اردو میں اپنی استعداد کے مطابق شاعری کی۔۔۔۔۔۔۔کہ ان طوائفوں کی یہ شاعری کوئی بازاری یا  غیر معیاری نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں کسی طرح کی عریانیت نظر آتی ہے۔بلکہ یہ ایک فن کی شکل میں نظر آتی ہے اور اس دور کے لب و لہجہ اور زبان کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔شعراء حضرات کے مقابلہ میں ہم ان کی شاعری کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ان طوائفوں کی یہ شاعری راجپوتانہ کی اردو شاعری کی اثاث ہے۔ شو خی و ظرافت ،محاوراتی زبان ان کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ہر شاعرہ کے کلام میں داغ ؔ اسکول کا اثر صاف طور پر نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔ہر شاعرہ کو کسی نہ کسی استاد سے تلمذ حاصل ہے۔‘‘

(تذکرہ شعرائے راجپوتانہ،۱۹۴۰ء تک،پہلی جلد،شاہد احمد جمالی،اسباق پبلی کیشنس،پونہ،۲۰۱۸ء۔ص۔۱۴۱۔۱۴۰)

         راقم نے پیش نظر مضمون کی ابتدائی سطور میں ضمناً اشارہ کیا تھا کہ اجمیر کی باذوق طوائفوں میں بی صابرہؔ،بھورا،بشیرہ،بلبلؔ اور مسرتؔ وغیرہ کا بھی شمار ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ ان میں سے کسی کے بھی حالات اور کلام دستیاب نہیں ہوا۔اجمیر کے معمر شاعر جناب عبد العزیز صاحب تنویرؔ نے راقم کو مکثر یہ بتایا کہ ’’ان میں سے بہت سی طوائفیں میرے دادا مرحوم منشی مغلؔ بیگ اجمیری (تلمیذ مضطرؔ خیر آبادی)کے پاس آیا کرتی تھیں،وہ گھر کے دروازے پر بیٹھ کر مغل صاحب سے دو ہی مطالبات کرتی تھیں کہ وہ اپنا تازہ کلام انھیں مرحمت فرمائیں تا کہ وہ اسے اپنی محفلوں میں پیش کر سکیں اور دوسرا یہ کہ حضرت ان شاعرات کے نئے کلام پر اصلاح فرمادیں۔مغل صاحب پہلے تو انھیں اپنی تازہ غزلیں عنایت فرماتے  اور ان کے کلام کے لئے یہ فرماتے کہ وہ اپنا کلام چھوڑ جائیں،اصلاح کردی جائے گی،اگلی بار آئو تو اپنا کلام لے جانا۔یہ سلسلہ معلؔ بیگ صاحب کے انتقال سے پہلے ،۱۹۴۴ء تک جاری رہا۔‘‘

         اجمیر شریف میں مذکورہ طوائف شاعرات سے قطح نظر بعض شریف اور مہذب گھرانوں کی مستورات نے بھی شعر و سخن میں دل چسپی لیتے ہوئے اردو کے نسائی ادب میں اضافہ کیا۔اس سلسلے میں ایک اہم نام صابرہ سلطان حزیںؔ کا اسم گرامی اکثر تذکروں میں دیکھنے کو ملتا ہے،شاہد جمالی نے ان کے سوانحی کوائف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے،

         ’’ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئی ، والد کا نام محمد اللہ تھا ۔تین سال کی عمر میں یتیم ہوگئیں۔ سنبھل میں اپنے نانا کے یہاں پرورش پائی ۔ پھر اجمیر آئیں اور بڑا حصہ عمر کا اجمیر میں گذارا۔آپ شکیبا کے نام سے افسانے بھی لکھا کرتی تھیں۔ جو ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ آپ کی شاعری میں جذباتی رنگ جابجا نظر آتا ہے ۔ شاعری آپ کا فطری ذوق تھا ۔ عوام کو سنانے یا رسالے میں چھاپنے کے لئے شاعری نہیں کرتی تھیں۔ بس جب بھی طبیعت اس طرف مائل ہوئی اپنا ذوق پورا کرلیا کرتی تھیں۔ 1943ء میں جامعہ اردو آگرہ سے ادیب اور پنجاب یونیورسٹی سے ادیب عالم کے امتحانات میںنمایاں کامیابی حاصل کی تھی ۔ بڑا عرصہ اجمیر میں گذارکر وہ واپس اپنے وطن چلی گئیں ۔ لیکن یہاں پر اپنا شاعرانہ رنگ چھوڑ گئیں۔‘‘

(چند شاعرات راجستھان اور کچھ بھولے بسرے شعراء،ناشر،فائز احمد۔۲۰۱۴ء۔ص۔۶۸)

         حزیںؔ کی غزلیں اور نظمیں اکثر تذکروں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔تاہم ان کی ایک مشہور نظم بعنوان ’’میری داستان سن لے‘‘سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے،

میری داستاں سن لے

تجھے قسم ہے مری بیقرار آہوں کی

تجھے قسم ہے مری اشکبار آنکھوں کی

تجھے قسم مری دیوانہ وار باتوں کی

         امین قلب حزیں مری داستاں سن لے

ہے ایک جوشش باراں سا آج آنکھوں میں

ہے ایک خواب پریشاں سا آج آنکھوں میں

ہے ایک تہیۂ طوفاں سا آج آنکھوں میں

         امین قلب حزیں مری داستاں سن لے

تجھے قسم ترے افسانہ ہائے رنگیں کی

تجھے قسم ترے لمحات ہائے زریں کی

تجھے قسم مری شب ہائے تار و غمگیں کی

         امین قلب حزیں مری داستاں سن لے

ترے حضور میں کرلوں میں شرح آیت غم

تو آج سن لے مری خونچکاں حکایت غم

خدا گواہ ! نہیں ہے مجھے شکایت غم

         امین قلب حزیں میری داستاں سن لے

یہ میرا نالہ ، کہیں ترا ہی ترانہ نہ ہو

مری حکایت غم ترا ہی فسانہ نہ ہو

یہ حرفِ شوق کہیں راز محرمانہ نہ ہو

         امین قلب حزیں میری داستاں سن لے

         یہ نظم بظاہر ترقی پسندانہ لب و لہجہ میں رنگی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔دراصل حزیںؔ کی شاعری کے عروج کا زمانہ بھی وہی تھا جب ہندوستان میں چاروں طرف ترقی پسند تحریک کا بول بالا تھا۔غزل گوئی میں بھی حزیںؔ کو درجۂ کمال حاصل تھا،جس کا اندازہ ان کی غزلیات کے اکثر و بیشتر اشعار سے ہوتا ہے،

غزل

یہ ربط و ضبط کہاں تک نبھائے جائوں میں

کہ دل کا خون ہو اور مسکرائے جائوں میں

وہ اک نگاہ جو ہستی پہ چھائی جاتی ہے

تمہیں بتائو کہاں تک چھپائے جائوں میں

ستارے شام ہی سے جھلملائے جاتے ہیں

کہو تو اپنی کہانی سنائے جائوں میں

جو کوئی سنتا رہے بیٹھ کر پس پردہ

تمام عمر اسی طرح گائے جائوں میں

لبوں پہ دم ہے مگران کا حکم ہے یہ حزیںؔ

کہ داستانِ محبت سنائے جائوں میں

شیرازۂ حیات ہے پھر منتشر سا کچھ

آنکھوں میں پھر ہے خواب پریشاں سا آجکل

ہاں پھر کوئی خیال پہ چھایا ہوا سا ہے

برپا ہے میری زیست میںطوفاں سا آجکل

پھر آرزو یہ ہے کوئی پوچھے حدیثِ غم

آنکھوں میں ہے تہیہ طوفاں سا آجکل

پھر امتیاز وصل و فراق اٹھ گیا کہ ہے

کچھ دن سے کوئی قلب میں مہماں سا آجکل

کیوں روزگار برسر پیکار ہے حزیںؔ

کیوں زندگی سے دل ہے پشیماں سا آجکل

  ………

آج ان کو بلا رہی ہوں میں

اپنی دنیا بسا رہی ہوں میں

پھر تصور میں ہیں یہ راز و نیاز

کوئی روٹھا، منا رہی ہوں میں

ان کے قدموں پہ آج رکھ کے جبیں

قصہ غم سنا رہی ہوں میں

اے حزیںؔ انتظار دوست میں آج

دل کو ساکت سا پا رہی ہوں آج

………

(چند شاعرات راجستھان۔ص۔۷۱۔۷۰)

         صابرہ سلطان حزیںؔ کی معاصرین شاعرات میں ایک اور اہم نام محترمہ سیدہ سردار بیگم اخترؔ کا بھی ہے۔جنھوں نے اپنی قومی اورحب الوطنی شاعری کے حوالے سے ملک بھر میں اپنی امتیازی پہچان قائم کی۔آپ کے احوال و آثار پر روشنی ڈالتے ہوئے شاہد احمد رقم طراز ہیں،

         ’’مارچ 1918ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئی، آپ کے والد کا نام سید میر حسن ہے ۔ آپ کے جد امجد مرزا داغ دہلوی کے تلامذہ میں سے تھے ۔ چونکہ وہ لکھنؤ کے رہنے والے تھے لیکن جب یہاں حالات خراب ہوئے تو وہ حیدرآباد منتقل ہوگئے ۔ لکھنؤ میں لال محل اور موتی محل نام کی عمارتیں آج بھی ان کی یادگاروں میں سے ہیں۔ ‘‘

(چند شاعرات راجستھان۔ص۔۲۵)

  شاہد جمالی مزیدتحریر فرماتے ہیں،

         ’’آپ کی پیدائش حیدرآباد کی ہے ۔ سن بلوغ کا کچھ عرصہ کانپور میں گذارا ۔ پھر اجمیر کے پاس نصیرآباد کے رہنے والے خان بہادر شیخ عبد الغنی صاحب جو گورنمنٹ آرمی کے کنٹریکٹر اور رئیس تھے سے شادی ہونے کے بعد آپ نصیر آباد آگئیں۔

ابتدا سے ہی آپ کو اردو سے بہت لگائو تھا ۔ آپ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ادیبہ بھی تھیں۔ کئی مشہور رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوئے ہیں۔ آپ علامہ اقبال سے متاثر تھیں ۔ اس لئے آپ کی شاعری میں ان کا سا انداز ملے گا۔آپ کا شمار قومی شاعرات میں ہوتاہے ۔ مسلم لیگ کے ایک جلسہ میں آپ کی تقریر سے متاثر ہوکر مولانا عبد الحامد بدایونی نے آپ کو خطیبہ ہند کا خطاب دیا تھا ۔ آپ کی نظمیں آپ کی غزلوں سے زیادہ اثر دار ہیں۔ ‘‘

(چند شاعرات راجستھان۔ص۔۱۶)

         مذکورہ اقتباس میں شاہد جمالی نے لکھا ہے کہ اختر صاحبہ کی شاعری پر علامہ اقبال کے اثرات مرتب ہیں،یہ قول بڑی حد تک درست ہے،کیوں کہ موصوفہ کے بیشتر اشعار اس صداقت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں،

حق سے ہوا تھا کبھی سینہ عالم گداز

مجھ کو سنا دیجئے پھر وہ نواہائے راز

ذوق طلب ہے تو پھر سود و زیاں سے گزر

راہ وفا میں نہ کر فکر نشیب و فراز

آہی گئی تھی آج نیند سنگ درِیار پر

بیخودی آرزو عمر ہو تیری دراز

پھر دل بیتاب کو چاہئے سوز و گداز

مطرب آتش نفس چھیڑ دے اب اپنا راز

کہہ چکے سب حال دل بارگہہ دوست میں

اخترؔ خاموش چھیڑ تو بھی حدیث نیاز

……

 اختر صاحبہ کی مشہور منظومات میں ’’تحفۂ علم‘‘’’وطن کا سپاہی‘‘’’شاعرہ کی دعا‘‘’’غمِ دوست‘‘’’میری ہے اخترؔ آرزو کیأٔ اور ’’سنگاپور میں ایک مسلم دوشیزہ کو محوِ رقص دیکھ کر‘‘جیسی تخلیقات لائق ستائش ہیں۔اختر صاحبہ کی شاعری کا زمانہ انگریزی حکومت کا زمانہ تھا،جس کے باعث آپنے اکثر منظومات میں جنگ آزادی کا خواب دیکھا اور مجاہدوں کے حوصلے بڑھانے کا کام کیا لیکن صد افسوس کہ جنگ آزادی اور اردو ادب کو موضوع بنا کر جو کتابیں تخلیق کی گئیں اور رسائل و جرائد کے خصوصی شمارے مرتب کئے گئے ،ان میں اختر صاحبہ اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ نہیں ملتا۔حتیٰ کے راجستھان اردو اکیڈمی،جے پور نے ’’نغماتِ آزادی‘‘(مرتبہ،ڈاکٹر فیروز احمد)کے زیر عنوان جو تحقیقی کتاب شائع کی،وہ بھی موصوفہ کے ذکر سے خالی ہے۔ان کی اس قسم کی نظموں میں وہی جوش و ولولہ موجود ہے جو اس دور کی شاعری میں ملتا ہے۔جس کی نظیر میں ذیل کے اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں،

نشاطِ کیف غلامی سے بے نیاز کرے

مرے وطن کو خدا حریت نواز کرے

حیاتِ قوم کے معنی ہیں ہستیٔ شاعر

خدا کچھ اور میری عمر کو دراز کرے

چمن تو کیا ہے زمانہ کی آنکھ کھل جائے

مری نوا کو کہاں تک اثر نواز کرے

ابھی نہیں ہے کوئی سوز نغمہ سے آگاہ

کچھ اور سینۂ ہندوستاں گداز کرے

شفا مآب ہوں بیمار بے حسی و جمود

مرا سخن اثر کار چارہ ساز کرے

نفس نفس کو مرے دے وہ جذبِ شوق کہ جو

نگاہِ قوم کا رخ جانبِ حجاز کرے

عجب نہیں کہ دعا سن لے میری اے اخترؔ

درِ قبول خدا مجھ پہ آج باز کرے

(شاعرہ کی دعا)

بصد ناز و تمکیں، بصد کج کلاہی

وہ آیا، وہ آیا، وطن کا سپاہی

وطن جس کا ایماں، وطن جس کا پیارا

وطن کے مقدر کا روشن ستارا

جواں بازوئوں پر رِدا پارہ پارا

جبیں سے نمایاں مگر نور شاہی

وہ آیا ، وہ آیا ، وطن کا سپاہی

۔۔۔۔۔

عزائم کی تصویر، ہمت کا پیکر

نظر جوہر تیغ کے آئینے پر

ہر اہل وطن کو مبارک ہو اخترؔ

وطن کی محبت کی ’’زندہ گواہی‘‘

وہ آیا ، وہ آیا، وطن کا سپاہی

(وطن کا سپاہی)

اختر صاحبہ خود بھی چونکہتعلیم یافتہ خاتون تھیں اس لئے مسلم گھرانوں کو علم حاصل کرنے کے لئے بیدار کرتی رہتی تھیں،ان کے اسی مقصد کی مثال ان کی نظم’’تحفۂ علم‘‘سے ملتی ہے۔نظم کا انداز سراپا ڈاکٹر اقبال کے اسلوب میں ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے،خاص طور پر نظم کے یہ اشعار بہت موثر ہیں،

علم کے میخانہ میں ہو مے گسارِ زندگی

علم ہے اک جاوداں کیف و خمارِ زندگی

علم سے قوموں کا بنتا ہے مزاجِ ارتقا

علم ہے اک نعمت پروردگارِ زندگی

علم سے کھلتی ہے کلیاں آرزوئو و شوق کی

علم ہے اک مژدۂ فصلِ بہارِ زندگی

علم کردیتا ہے قوموں کو جہاں میں سر بلند

علم ہے اک جادۂ عز و وقارِ زندگی

آج جو قومیں حصولِ علم سے ہیں فیضیاب

عہدِ حاضر میں وہی ہیں تاج دارِ زندگی

علم نے آکر بنایا مقصد دردِ حیات

علم سے پہلے کسے تھا اعتبار زندگی

ہند کی اے صنفِ نازک آشنائے علم بن

ہر ادائے علم ہے آئینہ دار زندگی

علم اگر تجھ میں نہیں تو زندگانی بھی نہیں

خواستگارِ علم ہو اے خواستگارِ زندگی

ناشناسِ علم! کیوں تیری نظر محدود ہے

علم تو انسانیت کا اوّلیں مقصود ہے

         یہ نظم تعلیم نسواں کو بڑھاوا دینے کا پیغام نظر آتی ہے،واضح ہو کہ اختر صاحبہ ہمیشہ لڑکیوں اور مستورات کو بیدار کرنے کا کام کرتی رہیں اس لئے ہندوستانی خواتین کی کسی بھی طرح کی بے راہ روی دیکھ کر اصلاح اور بعض اوقات تنبیہہ کرتے ہوئے اپنا قومی اور مذہبی فریضہ ادا کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں۔ان کی ایک نظم ’’سنگاپور میں ایک مسلم دوشیزہ کو محو رقص دیکھ کر‘‘اسی تناظر میں تخلیق ہوئی تھی۔اس نظم کے یہ متاثر کن اشعار ملاحظہ فرمائیں،

حسن کی عریانیاں، باعثِ فخر و کمال

عظمتِ انسانیت، آہ یہ تیرا زوال

کتنی ادائوں کے ساتھ آج ہے محو خرام

گردنِ اخلاق پر خنجر تہذیب حال

جلوۂ افزنگ کی آہ یہ افسوں گری

کل کہ جو شے تھی حرام آج وہ شے ہے حلال

حسن کہاں ، حسن کا صرف ہے وہم و فریب

عشق نہیں ، عشق کا صرف ہے اک اختلال

حسن میں ہے اب کہاں دلکشی و زندگی

پست ہے ذوقِ نظر ، مردہ ہے ذوقِ جمال

پی کے مئے مغربی ہو نہ بہت جوش میں

ہوش میں آ ، ہوش میں ، تیرا نہیں یہ کمال

چشمِ بصیرت مری دیکھ چکی آہ آہ!

موت سے پہلے ترا سانحۂ انتقال

اختر نے رومانی نظمیں بھی کہی ہیں لیکن تہذیب و تمدن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا،ان کے یہاں عسق و محبت کا پاک و شفاف تصور دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی شاعری عشق کغ مقدس جذبے کی تائید کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس ضمن میں صرف دو مختصر مثالیں پیش ہیں،

اے غمِ دوست بتائوں تیری قسمت کیا ہے

تو سلامت ہے تو پھر مجھ کو ضرورت کیا ہے

عمر گذری اسی احساسِ محبت میںمگر

آج تک پھر بھی نہ سمجھے کہ محبت کیا ہے

سر بہ سجدہ درِ میخانہ پہ ہوجا اخترؔ

اور اربابِ محبت کی شریعت کیا ہے

(نظم۔غمِ دوست)

……

کیا پوچھتے ہو عشق کی افتاد کا عالم

خاموش بھی رہنے میں ہے فریاد کا عالم

ہر سانس میں ہے حسن پر آشوب کا پیغام

ہر گام پہ ہے عشقِ ستم زادہ کا عالم

……

(چند شاعرات راجستھان۔ص،۲۴۔۲۶)

         آزادی سے قبل اجمیر کی سر گرم عمل شاعرہ بیگم مختار عباسی متخاص بہ شیریںؔ کا ذکر خیر شاعرات سے متعلق تذکروں میں ملتا ہے،آپ نے نعت،غزل اور نظم کے حوالے سے  اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مخمس کی ہیئت میں بھی شعر گوئی کا تجربہ تھا۔اس سلسلے میں ایک نعت شریف سے یہ مثال ملاحظہ ہو،جو مخمس کی شکل میں ہے،

سخت ہے نزع کا ہنگام مدینہ والے

خیر پر ہو مرا انجام مدینہ والے

کاش یوں زیست کی ہو شام مدینہ والے

 آئے جب موت کا پیغام مدینہ والے

میرے لب پر ہو ترا نام مدینہ والے

دور ہے ساقی کو ثر ترے پیمانوں کا

رعب چھایا ہے جہاں پر ترے دیوانوں کا

شاہ ِکونین محافظ ہے تو ایمانوں کا

تو ہی والی،تو ہی وارث ہے مسلمانوں کا

ہے تو ہی بانی اسلام مدینہ والے

(راجپوتانہ ک اردو ادب میںخواتین کا حصہ،ص۔۶۴۔۶۵)

بیگم مختار شیریں عباسی کی غزلوں میں جدت طرازی کا ہنر بولتا ہوا دکھائی دیکتا ہے۔کلام کے مشاہدے ہ مطالعہ سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ گویاآپ نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اپنی غزل کو نیا موڑ دیا لیکن  اس کا یہ مطلب نہیں کہ روایت و تہذیب سے آپ نے انحراف کیا ہو،کلام کی پختگی آپ کی ریاضت کی شہادت دیتی ہے،اس بابت آپ کی غزلوں کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں،

کہوں کیا محبت میں کیا کر رہی ہوں

تری زندگی کی دعا کر رہی ہوں

مہ و مہر و انجم میں ہے تیرا جلوہ

نگاہوں سے سجدے ادا کر رہی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھا کر نظر مر کزِ زندگی سے

ترے حسن سے آشنا کر رہی ہوں

سہارا ترے فضل کا کیا ملا ہے

مسلسل  خطا پر خطا کر رہی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تصویر محبت بن گئی ہوں

حقیقت ہی حقیقت بن گئی ہوں

ترے جلووں کی ارزانی سلامت

سراپا نقشِ حیرت بن گئی ہوں

ہو ئی اس طرح تکمیل ِتصور

مجسم رازِ فطرت بن گئی ہوں

تصور میں ترے ہوں دشت وپیما

گلوں میں رہ کے نکہت بن گئی ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعائے سحر میں اثر چاہتی ہوں

تجھے دیکھنے کو نظر چاہتی ہوں

کرم کر مسیحائیوں کے تصدق

مداوائے دردِ جگر چاہتی ہوں

مری چشم بینا ہو اور تیرے جلوے

یہ نظارا شام و سحر چاہتی ہوں

ہو مقبول عالم میں شیریں بیانی

میں اپنی زباں میں اثر چاہتی ہوں

شیریںؔ صاحبہ مذکورہ غزلوں میں خود کلامی کا انداز بھی قابل تعریف ہے،یہ خود کلامی انھیں اپتی معاصر شاعرات میں کئی معنوں میں ممتازکرتی ہے،’’محفل خواتین’’ نامی تذکرے سے شاہد جمالی نے شیریں ؔکے یہ اشعار تذکرہ شعرائے راجپوتانہ ،۱۹۵۰ء تک‘‘ میں قلم بند کئے ہیں۔جس میں اجمیر کی خالدہ فخری ،بیگم منیر الدین معصومؔ انصاری،اور رضیہ نگہت آہؔ کا بھی ذکر کیا گیا ہے،ہو سکتا ہے اور تذکروں میں بھی ان شاعرات کا ذکر کیا گیا ہو،۔خالدہ فخری غزل گوئی میں اس لئے مقبول اور کامیاب ہوئیں کہ آپ نے اردو ،فارسی کی روایتی غزل گوئی سے فیض اٹھایا،آپ بہت سنبھل سنبھل کر شعر کہتی تھیں۔اپنی غزلوں کے لئے ان مترنم بحروں میں شعر کہنا آپ کا مشغلہ تھا جن کے توسط سے اکثر شعرائے کرام کو کامیابی و کامرانی میسر آئی۔خالدہ صاحبہ کی ایک کھنکتی ہوئی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے،

ادھر دامن کوئی پھیلا رہا ہے             ادھر  دست کرم شر ما رہا ہے

ابھی تو منزل دور  ہے اے دل           ابھی سے تھک کے بیٹھا جا رہاہے

نہیں گر کچھ غرض ہم سے کسی کو                 تو کوئی یاد بھی کیوں آرہا ہے

ہے دل کوشاں کسی کی جستجو میں                  مقدر ہے کہ بگڑا جا رہا ہے

بھڑک اٹھے جو شعلے بجھ چکے تھے                 وہی نغمے کو ئی پھر گا  رہا ہے

سکوں ہو خالدہؔ کیسے میسر              فریب حسن دل پر چھا رہا ہے

         بیگم منیر الدین معصومؔ انصاری کو مثنوی کی ہیئت بے حد مرخوب تھی،اس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اردو کی بیشتر شاہکار مثنویوں کا مطالعہ کیا تھا تاہم جب جب آپ پر کسی قسم کا جذبہ طاری ہوا تو مثنوی کی ہیئت میں اظہار قلب و دل کر بیٹھیں،اس سلسلے میں ایک تخلیق’’اپنے بھائی قمر کے نام‘‘ یوں گویا ہوئیں،

خلوص قلب سے دیتی ہوں میں دعا تم کو

کہ تا ابد خوش و خرم رکھے خدا تم کو

تمہاری عمر کو بھائی خدا دراز کرے

تمہا ری ذات پر سارا زمانہ ناز کرے

بلند مر تبہ دنیا میں تم کو ہو حاصل

خدا کے فضل و کرم سے ہوں برکتیں نازل

مصیبتوں سے ہمیشہ خدا بچائے تمہیں

غم و الم کی نہ صورت کبھی دکھائے تمہیں

کمال علم و ادب میں تمہیں حاصل ہو

جو اہل فن کے لئے بھی نشان منزل ہو

تمہاری نثر پہ کچھ ایسا رنگ چھا جائے

عرق عروس ِادب کی جبیں پہ آجائے

تمہارے شعر میں ہو اس طرح کی رعنائی

کہ جیسے ٹھنڈی ہوائیں ہوں اور گھٹا چھائی

قلم سے جلوہ افکار،یوں دکھا ئو تم

دیار فن صحافت کو جگمگائو تم

شروع ہو نیا اک دور زندگانی کا

تمہاری شادی ہو پیغام شادمانی کا

جو تم قمر ہو تو دلہن بھی آئے رشک قمر

کہ جس کا حسن ِفسوں کار ہو بہشت نظر

ہوں ازدواج میں حاصل تمہیں خوشی کے دن

بہارو کیف کی راتیں ہوں دل لگی کے دن

ہمیشہ گلشنِ عالم میں تم پھلو پھولو

نشاط و عیش کے جھولوں میں روز و شب جھولو

         یہ معلوم ہے کہ علامہ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی  وغیرہ نے بھی اپنے فرزندان کو اسی انداز میؒ مخاطب کیا تھا،محترمہ معصومؔ انصاری صاحبہ کا مذکورہ کلام اسی روایت کو آگے بڑھانے کی عمدہ نظیر پیش کرتا ہے،۔

         ایک طرف جہاں معصومؔ صاحبہ نے اپنے اشعار کے توسط سے اپنے بھائی کو یاد کیا تو دوسری طرف رضیہ نکہت آہؔ اپنی اپنی ایک تخلیق ’’سہیلی کی یاد میں‘‘اپنی سہیلی کو یاد کرتے ہوئے ،جذبات کا اس طرح اظہار کرتی ہیں،

جب کبھی تم کو یاد کر تی ہوں

 ہو کے بے چین آہ بھر تی ہوں

گاہ جیتی ہوں گاہ مرتی ہوں

شکر پرور دگار کر تی ہوں

دن تو جیسے کٹ ہو جاتا ہے

شب کو تارے شمار کر تی ہوں

ہوں پریشان و سو گوار مگر

دم تری دوستی کا بھر تی ہوں

کوئی پا لے نہ دل کی بات کہیں

 آہ کر تے ہوئے بھی ڈرتی ہوں

بام و در سے الم برستا ہے

 فرط غم سے جو آہ بھرتی ہوں

گاہ تارے تو گاہ تارنفس

 شب فرقت شمار کر تی ہوں

زندگی موت سے بھی بد تر ہے

سو کے جیتی ہوں اٹھ کے مر تی ہوں

امتحاں کیسا اور کہاں کا سبق

 میں تو بس تم کو یاد کر تی ہوں

آہ کے ساتھ ہے تمہاری یاد

یاد کے ساتھ آہ کر تی ہوں

 رضیہ نکہت آہ ؔ کے مذکورہ اشعار واقعتاً جذبات نگاری کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔اجمیر میں ایک روایت زبانی سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے کہ جب افتخار حسین مضطرؔ خیر آبادی کے بڑے بھائی حافظ محمد حسین بسملؔ خیر آبادی نے اجمیر میں سکونت اختیار کی تو وہ اپنی والدہ ماجدہ محترمہ سعید النساء حرماںؔ کوبھی اپنے ساتھ لے آئے ،جن کا تعلق ذی علم گھرانے سے تھا۔جب بسملؔ اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے تو حرماںؔ صاحبہ محلہ کی لڑکیوں اور مستورات کو اکٹھا کر کے محفل میلاد شریف اور ایام محرم میں خواتین کے مسالمے کا اہتمام کرتی تھیں۔اور با ذوق خواتین کے کلام پر اصلاح بھی دیا کرتی تھیں۔لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان سے کن کن شاعرات نے فیض حاصل کیا۔اس سلسلے میں کوئی تحریری ثبوت ہنوز فراہم نہ ہو سکا۔حالانکہ محترمہ حرماںؔ صاحبہ کے علم و دانش کو ایک عالم نے تسلیم کیا ہے۔خود بسمل نے اپنے ابتدائی کلام پر ان سے اصلاح لی اور مضطر خیر آبادی نے بھی ان ہی سے ابتدائی علم حاصل کیا۔یہ بھی علم نہیں کہ حرماںؔ صاحبہ نے اجمیر کے سکونت کے دوران کون کون سی تخلیقات ہدیہ قارئین کیں۔زیر نظر مضمون میں شامل خواتین سے قطع نظر اجمیر میرواڑہ کی بعض خواتین تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوگئیں۔یہ معلو م نہ ہو سکا کہ وہاں پر ان کے ادبی سرمایہ کی روشنی میں تحقیقی کام ہوا یا نہیں۔

شاعری سے قطع نظر اجمیر میں صحافت کے سلسلے میںایک خاتون کا نام آتا ہے’’موتی بیگم‘‘۔موتی بیگم کی خدمات انفرادی طور پر  اپنے مقام و مرتبے کا احساس دلاتی ہیں۔وہ مرزا غالبؔ کے شاگرد مراد علی ہوشیارؔ؍ بیمارؔ کی اہلیہ تھیں۔بیگم صاحبہ کی رہائش اپنے شوہر کے ساتھ محلہ پرانی منڈی،نزد گلی کایستھان،اجمیر میں رہی۔جہاں انھوں نے اپنے شوہر کی شریک کار رہتے ہوئے مطبع’’چراغِ راجستھان‘‘کے زیر اہتمام اردو کی خدمات انجام دیں۔ہوشیارؔ مرحوم کا اخبار ’’راجپوتانہ گزٹ‘‘اسی مطبع سے شائع ہوتا تھا۔موتی بیگم پروف ریڈنگ،خبروں کی ایڈیٹنگ،طباعت، اور اشاعت میں پیش پیش رہتی تھیں۔ان فنون میں آزادی سے قبل تو کجا آزادی کے بعد بھی کسی دوسری خاتون کی مہارت نہیں دیکھی گئی۔اپنے شوہر کے انتقال کے بعد انھوں نے ’’راجپوتانہ گزٹ‘‘ کی ادارت کا فریضہ انجام دیااوراپنے مطبع سے کتابوں کی طباعت میں بھی پیش رفت کرتی رہیں۔صد افسوس کہ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ان کا قیام اجمیر میں کب تک رہا۔یا انھوں نے اس دار فانی کو کب خیر باد کہا۔موتی بیگم سے متعلق راقم الحروف کی تحقیق  ہنوز جاری ہے

ماخذ۔

چند شاعرات راجستھان اور کچھ بھولے بسرے شعرا۔شاہد احمد۔جے پور۔۱۹۱۴ء

تذکرہ شعرائے راجپوتانہ۔ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔جے پور۔۲۰۱۸ء

راجپوتانہ کے اردو ادب میں خواتین کا حصہ۔شاہد احمد۔جے پور۔۲۰۱۲ء

راجستھان کی نثر نگار خواتین۔شاہد احمد جمالی۔جے پور،۲۰۱۴ء

***

Leave a Reply