You are currently viewing سنجے مشراکا فن اور فکر

سنجے مشراکا فن اور فکر

 

ڈاکٹر نزہت فاطمہ صدیقی

اسسٹنٹ پروفیسر(اردو)

کرامت حسین مسلم گرلز پی جی کالج، لکھنؤ

سنجے مشراکا فن اور فکر

         آج نہ صرف لکھنؤ و قرب جوار ہی نہیں بلکہ سرحدوں کے پار کے اہل سخن اور شائقینِ شعر و شاعری سنجے مصرا شوق کی شاعری،ان کی تنقیدی بصیرت، انسانی رویوں کے معترِف ہیں۔ اس اردو کی زبوں حالی کے دور میں سنجے صاحب جس طرح اردو کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں وہ ان کی اس زبان سے بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے۔ ان کا بیشتر عالمانہ کلام آج کے دور کے سب سے عام ذریعہ سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جائے گا جو ان اردو ادب کی دنیا میں ان کی شہرت کا باعث ہے۔حالانکہ ان کی فکر ان کی شہرت اور مقبولیت سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

شہرت کا دور آنکھ جھپکتے گذر گیا

جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ، ادھر گیا

         مذکورہ بالا شعر کے خالق سنجے مشرا شوق کی پیدائش ۱۹۶۷ ء میں ہوئی۔ جب ملک کے سماجی حالات درست ہونے لگے تھے اور اردو کی محافظت کا وہ عالم نہیں رہ گیا تھا۔ اردو زبان اور شاعری سے ان کے تعلق ِ خاطر بلکہ محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں اردو اور فارسی میں ایم اے کیاجب ارود پر معاشی دروازے بند ہو چکے تھے۔یہ سنجے مشرا کا شوق ہی تھا کہ حصول علم کے لیے مختلف زبانوں کے کوچے میں پھر رہے تھے۔ اس طرح انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ ایک ساتھ پانچ زبانوں میں مہارت حاصل کی جس میں ہندی ، انگریزی اور سنسکرت بھی شامل ہے، جوسنجے مشرا شوق کی علمی انفرادیت کی ایک شناخت ہے۔

میری غزلوں میں مہکتا ہے مرے دل کا لہو

اور حرف و لفظ کی کاری گری خاموش ہے

         سنجے مشرا شوق نے شاعری کب شروع کی اس کا علم ان کے قریبی لوگوں کو ہی ہے لیکن بطور شاعر ان کی شہرت ان کے زمانۂ تعلیم سے ہی ہونے لگی تھی۔ان کی پہلی غزل ۱۹۸۵ میں رسالہ نیا دور میں شایع ہوئی جو شاعری کی دنیا میں داخل ہونے کی سند بنی۔

         زبان و بیان پر ان کی گرفت، انتخاب الفاظ اور استعمال الفاظ، معنی آفرینی ان کی شاعری کے اوصاف ہیں۔ خیال آرائی کے نادر اور نایاب نمونے ان کے اشعار کو پر اثر بناتے ہیں۔ ان کے افکار میں تازہ کاری ہے جو اردو شاعری میں قیمتی اضافہ ہے۔ وہ روایتوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ لیکن جدید فکر کے ساتھ وہ غزل کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں، اور یہ فیضان ہے استاد شاعر مرحوم نسیم اختر صدیقی کا جنہوں نے سنجے صاحب کی صلاحیتوں کو جلا بخشی اور وہ آج اپنے سے زیادہ استاد کا نام اور ان کے فن کے پرچم کو بلند کیے ہوئے ہیں۔ استاد مرحوم کا مجموعۂ کلام انہوں نے شایع کرایا اور اس کا بہت باوقار اجرا کیا۔ شعر گوئی کے ساتھ ساتھ اپنے استاد کے تئیں جو طرز عقیدت سنجے مشرا شوق کا ہے وہ کمیاب ہے اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ اور بھی قابل تعریف بات ہے کہ انہوں نے اپنے ان اساتذہ کا کلام بھی تلاش کر لیا جن کی بے نیازی اسے محفوظ کرنے پر کبھی مایل ہی نہیں تھی۔اگر سنجے مشرا شوق کی بات ہو اور ان کے استاد محترم کی بات نہ ہو تو یہ نا انصافی ہوگی۔جس طرح چمن میں بغیر پھول کے ثمر کی ،امید کرنا بے معنی ہے ٹھیک اسی طرح بنا اچھے استاد کے اچھے شاگرد کا تصور بے کار ہے۔ جب بھی کسی شخصیت کی بات ہوتی ہے تو اس کے استاد کا ذکر لازمی ہے جس کی تربیت میں وہ نکھرتی ہے۔دبستان لکھنؤ کے معروف و ممتاز شاعرمرحوم نسیم اختر صدیقی ایسی ہی عالمانہ ہستی ہے جن کی تربیت کے زیر سایہ سنجے مشرا شوق کے تخلیقی ہنرمیں نکھار پیدا ہوا۔

         سنجے مصرا شوق نے اردو کے مایہ ناز شعرا کی صحبت اٹھائی اور جو کسبِ فیض کیا وہ ان کے کلام میں صاف جھلکتا ہے۔ ان کی رباعیاں اردو شاعری کا قیمتی بیش بہا سرمایہ ہیں جن کی تعداد سیکڑوں میں ہیں لیکن ابھی منتظرِ اشاعت ہیں۔ میری نظر سے جتنی گزریں سنجے صاحب کی عظمت کا اشاریہ ہیں۔ رباعی دماغ کو تھکا دینے والی صنف ہے لیکن شاید ایسی صعوبت میں ان کو زیادہ لطف آتا ہے اور چا مصرعوں میں وہ بہ آسانی عالمانہ اور فلسفیانہ خیالات نظم کر دینے پر حیرت انگیز قدرت رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر

دل رنج میں ڈوبا تو اجالی برسات

پلکوں کی کواڑوں نے چھپالی برسات

پھر صبح کی دیوی کی گھنی پلکوں سے

اک پریم پجاری نے چرالی برسات

         سنجے مشرا شوق کو صرف غزل ہی نہیں رباعیات میں بھی مہارت حاصل ہے۔اُنہوں نے دل کا غبار نکالنے والی طنزیہ شاعری بھی کی اور عمدہ و لاجواب نظمیں بھی۔ ان کی شہرت کا باعث غزلوں سے زیادہ رباعیات بنیں ۔حالانکہ عصر حاضر میں شعرا اس صنف سخن کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں۔جوشؔ، فراقؔ، امجد ؔحیدرآبادی، جگت موہن لال رواںؔ کے بعد رباعی کا چلن کم ہو گیا۔سنجے مشرا شوق نے رباعی اور غزل کو اپنے تجربات اور احساسات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ان کی شاعری اور شخصیت دونوں ہی ارود اور اودھ کی تہذیب کا نمونہ ہیں۔وہ فارسی شعر و ادب کا علم رکھتے ہیں لیکن شعری زبان کی حد تک انہوں نے فارسی کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔زبان سادہ وسلیس ہے جو شاعری کی اثرآفرینی کا راز بھی ہے۔الفاظ کو فکرکے موتی میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن یہ کار خاص بھی سنجے مشرا شوق کے لیے مشکل نہیں ہے۔ان کی شاعری ان کے مزاج اور شخصیت کی آئینہ دار ہے۔

پڑی رہتی ہے قدموں میں ہمارے مسندِ شاہی

ہم اپنے سر کے نیچے ہاتھ کا تکیہ لگاتے ہیں

         یاپھریہ شعر:

میری صحبت کا نتیجہ ہے کہ سارے مظلوم

ایک ہی وقت میں بے باک ہوا چاہتے ہیں

         سنجے مشرا شوق کے اس نوعیت کے اشعار اکثر غزلوں میں نظر آتے ہیں جو قاری کو ٹھہرکر سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔حالانکہ بظاہر ان کے اشعار سادہ ہیں لیکن ان میں کسی طرح کا کوئی پیچ نہیں ہے۔اشعار کی معنویت کی ایک تہہ الفاظ کے نیچے ہوتی ہے جہاں تک فوراً نگاہ نہیں پہنچتی ہے۔ان کے بہت سے سادہ اشعار میں بھی معنی کی وہ تہہ نظر آتی ہے۔آخرمیںسنجے مشرا شوق کی شاعرانہ کمالات کا اعتراف میں عصر حاضر کے مایہ ناز ارود نقادپروفیسر شارب ردولوی کا یہ جملہ دہرانا چاہوں گی:

         ’’سنجے مشرا شوق کی شاعری آج کی نسل کی شاعری میں امید کی کرن کی طرح ہے جو مایوسی میں امید اور ناروا حالات میں سراٹھا کر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے۔جو آج کے بے چین نوجوان کے کرب اور جھنجھلاہٹ کی تصویر بھی ہے اور اپنی تہذیبی اقدار کی پروردہ بھی۔ــ‘‘

***

Leave a Reply