You are currently viewing ایک مرد قلندر:حکیم سید احمد خاں

ایک مرد قلندر:حکیم سید احمد خاں

حکیم فخرعالم

ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن،علی گڑھ

ایک مرد قلندر:حکیم سید احمد خاں

طارق شاہین کے شعر میں تحریف کے لیے معذرت !

آپ سید میاں سے ملیے گا

آدمی کیا ہے ایک قلندر ہے

         حکیم سید احمد خاں کو دیکھیے تو جسم کوئی بھاری بھرکم نہیں،بچشم ظاہراوسط ڈیل ڈول کے عام سے فرد معلوم ہوتے ہیں،مگر اس جثے میں بلا کی توانانی ہے جو ہر وقت انہیں متحرک رکھتی ہے۔زیب و زینت اور خورد و نوش کے تکلفات سے بے نیاز ہیں ،شاید ان کاموں کے لیے فرصت نہیں ہے یا مصروفیت اس کا موقع نہیں دیتی ہے۔باریش چہرہ مذہبی مزاج کی عکاسی کرتا ہے،کشادہ پیشانی ذہانت کی مظہر ہے،جس کا استعمال وہ صرف تعمیری کاموں میں کرتے ہیں۔سید صاحب کے کاموں کو دیکھ کرکسی لحیم و شحیم اور بھاری بھرکم جثے والے کا گمان ہوتا ہے،لیکن معاملہ برعکس ہے کہ قد کاٹھی کے تومعمولی ہیں،لیکن کام ان کے بڑے ہیں۔

         سید صاحب کی شخصیت قلندرانہ اوصاف سے عبارت ہے،وہ دماغ میں یونانی طب اور اردو زبان کا سودا رکھتے ہیں،یہی ان کا عشق اور مقصد حیات ہیں،ان سے ان کا رشتہ جنون کی حد تک ہے ،جنہیں اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ یونانی طب اور اردو سے ان کی شیفتگی کچھ ایسی ہے کہ ساری تگ کا یہ محور بن گیے ہیں اور علائقِ دنیا سے انہیں بے نیاز کردیاہے۔

ترے جنوں کا خدا سلسلہ درا زکرے!

         حکیم سید احمد کی ولادت یکم جون 1962کواترپردیش کے ضلع خلیل آباد کی تحصیل جھکہی میں ہوئی ،پہلے خلیل آباد ضلع بستی کا قصبہ ہوا کرتاتھا،اب یہ ضلع بن گیا ہے۔سید احمد خاں کے والد حاجی علی رضاخاں ایک متوسط زمیندار تھے ،ان کاشمار جھکہی کے معززین میں تھا،وہ سرکاری کوٹہ کے نگراں تھے اس لیے کوٹہ دار کے نام سے مشہور تھے، علی رضاخاں 1982میںحج کو گئے اور وہیں وفات پاگیے،جنت البقیع میں مدفون ہیں۔

         حاجی علی رضا خاں کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، بڑے بیٹے مظہرالدین خاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے،وہ معروف مجاہد آزادی قاضی محمد عدیل عباسی سے متاثر تھے ان کے ایماپر گورنمنٹ ملازمت چھوڑ کر مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کو مقصد زندگی بنا لیا تھا،ان کے توسط سے کئی تعلیمی اداروںکا قیام عمل میں آیا،دوسرے بیٹے تفضل حسین خاں ٹھیکیدار تھے انہوں نے سلطان پور میں خان ٹمبر کے نام سے ایک فرم کی بنیاد ڈالی،تیسرے بیٹے صلاح الدین خاں گورنمنٹ ٹھیکیدار تھے،چوتھے بیٹے جلال الدین خاں بھی ٹھیکیدار تھے وہ فیض آباد میں ٹھیکیداری کرتے تھے، پانچویں بیٹے حکیم سید احمد خاں ہوئے انہوں نے طبی حلقے میں شہرت و ناموری حاصل کی ،سید احمد سے چھوٹے ایک بھائی خورشید احمد خاں ہیں انہوں نے ٹھیکیداری کو ذریعۂ معاش بنایا،سید احمد کی ایک بڑی بہن اختر النسا اور ایک چھوٹی بہن فخرالنسا ہیں،سید احمد نسبی طور پر یوسف زئی پٹھان ہیں اس لیے نام کے ساتھ خان کا لاحقہ لگاتے ہیں۔

         سید احمد خاں نے ابتدائی تعلیم خیر انٹر کالج سے حاصل کی ،یہ بستی کا مشہور تعلیمی ادارہ ہے،یہاں کے سیکڑوں فارغین نے مقتدر عہدوں پر فائز ہوکرکالج کے نام کو روشن کیا ہے، سید احمد کی شخصیت بھی اس ادارہ کے نیک ناموں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے،1977میں یہاں سے انٹر پاس کرکے بستی کے کسان ڈگری کالج سے 1980 میںبی ایس سی کی ڈگڑی حاصل کی،اس کے بعد یونانی طب کی تعلیم کے لیے راجستھان یونانی میڈیکل کالج جے پور میں داخلہ لیا اور1985-86 میں بی یو ایم ایس کی سند حاصل کی،جب حکیم سید احمد خاں نے اس کالج میں داخلہ لیا تھایہ نیانیا وجود میں آیاتھااس لیے منظوری ،الحاق اور امتحانات کے نظم و نسق سے متعلق کئی طرح کے مسائل سے دوچار تھا،ان سے نمٹنے کے لیے طلبہ نے ’راجستھان یونانی گریجویٹ ایسوسی ایشن ‘تشکیل کی تھی، سید احمد خاں بھی اس تحریک کا حصہ تھے ،اس طرح انہوں نے طالب علمی کے زمانہ ہی میں تحریک کا مزاج پالیا،یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے کہ اطبا کا ایک حلقہ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس سے بیزار ہوکرایک نئے پلیٹ فارم کی تشکیل کرنا چاہ رہا تھا،اس میں آٹھ ریاستوں کے اطبا کی شمولیت ضروری تھی ،اس وقت حکیم سید احمد خاں نے راجستھان سے نمائندگی کی تھی،9 اگست 1990 کوایک رجسٹرڈ تنظیم کی حیثیت سے آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کا قیام عمل میںآیا،اس کی تاسیس اور آبیاری کرنے والوں میںپروفیسر حکیم سید اشتیاق احمد،حکیم صیانت اللہ امروہوی،پروفیسر حکیم عطاء الرحمان جعفری،حکیم شمس الآفاق،سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر عزیز اللہ اعظمی(ڈاکٹر اے یو اعظمی)حکیم محمد محترم عثمانی(شمع کمپنی کے کمرشیل منیجر)،حکیم اخلاق احمد،حکیم ارتضیٰ کریم میرٹھی،حکیم رام لعل ماہر،حکیم الطاف احمد اعظمی،حکیم عبد المبین خاں،حکیم احمد رسول،حکیم علاء الدین ،حکیم صابر رضا ادیبؔ،حکیم عبد الحسیب،حکیم وسیم اختر،محمدالیاس دہلوی(شمع دواخانہ)،مفتی محمد طاہر وغیرہ کے اسما قابل ذکر ہیں،لیکن اس وقت یہ تنظیم جو کچھ بھی ہے سید احمد خاں کی مرہونِ منت ہے،اب وہی اس کے روح رواں ہیں اور تنہااس بزم کو سجائے ہوئے ہیں،اس تنظیم میں ان کے اثر و رسوخ کا دور 2010 سے شروع ہوا جب وہ اس کے جنرل سکریٹری بنے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کی رکنیت حاصل کرکے سید احمد خاں طبی تحریک کے علم بردار بن گیے ،تب سے ان کی زندگی یونانی طب کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہے،وہ یونانی طب کے ایسے رضاکارہیںجنہیں’ فدائین‘ کہا جاسکتاہے،یعنی فن کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے۔

          سیدصاحب کامزاج تحریکی کاموں کے لیے بڑا مناسب ہے،اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اپنے مزاج کی مناسبت سے انہوں نے تنظیمی اور تحریکی امور کو میدانِ عمل بنایا ہے جس کا اولین تقاضا ہے کہ سماج اور معاشرے کو اپنی ذات پر مقدم رکھا جائے،یہ جو ہر سید صاحب میں خوب موجود ہے اور اوائل عمر سے ہے،طالب علمی کے زمانہ میں پڑھائی لکھائی سے جو وقت بچتا وہ طلبہ تنظیم کو آرگنائز کرنے میں گزرتا،اب دلی کے سیلم پور میں ہیں،مگردلی نوردی کرتے رہتے ہیں اورپوری دلی ان کے قدموں کے نیچے رہتی ہے،کانگریس کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے بیرونِ دلی مہاراشٹرا،تلنگانہ،بہار،جھارکھنڈ،اترپردیش اور راجستھان کے سفر وہ اِس طرح کرتے ہیںجیسے پرانی دلی،اوکھلا اور ذاکرنگر میں گھوم رہے ہوں،ان سفروں میں ان کے ہمراہ ایک چھوٹا بریف کیس ہوتا ہے جس میں بمشکل دو تین جوڑے سفاری سوٹ کی گنجائش ہوتی ہے۔

         آل انڈیا یونانی طبی کانگریس قیام کے بعد سے اب تک کئی نشیب و فراز سے گزر چکی ہے،اس پر ایک ایسا دور بھی آیا کہ’’لم یکن شیئاً مذکوراً‘‘ کی مصداق بن گئی تھی،اس وقت اس کی سانسوں کو جاری رکھنے والے سید احمد خاں ہی تھے،اس کے لیے انہیں کوئی جتن کرنے سے گریز نہیں رہا،اس کی وجہ سے انہیں طنز و مزاح کا ہدف بھی بننا پڑا،لیکن ہمت نہیں ہاری اور لوگوں کے حوصلہ شکن رویوں کے باوجودمنزل کے لیے عازم سفر رہے اور سب باتوں سے بے نیاز ہوکر بنجارے کی طرح اپنا راگ گاتے رہے ،آج اسے خوش الحانی بھلے کہا جارہاہومگر کبھی اس آواز پر لوگوں کو منھ بسورتے دیکھا گیا ہے،دنیا کیا کہہ رہی ہے، سید صاحب کو اس سے غرض نہیں ،انہیں کیا کرنا ہے ،بس یہ ہدف ان کا مطمح نظر ہوتا ہے ،ان کے اسی طرز عمل نے کانگریس کو ملک گیرتنظیم بنادیا ہے ،یہ ان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے جس سے مورخ صرف نظر نہیں کرسکتا ہے۔ اس وقت بھی حکیم سید احمد خاں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے روح رواں ہیںاور کامیاب قیادت کررہے ہیں،وہ مصلحتوں سے عاری ہیں،مگرکانگریس کے لیے کسی سے بھی مصالحت کرنے میں اناگزیدہ نہیں ہوتے ،اسی وجہ سے تعلیم و تحقیق سے جڑی سیکڑوں شخصیات کو وہ کانگریس سے جوڑ سکے ہیں ،یہ اچھی بات ہے کہ نوجوان طبیبوں میں کانگریس سے وابستگی بہت پسند کی جارہی ہے۔

         جب سے آل انڈیا یونانی طبی کانگریس سید صاحب کے زیر قیادت آئی ہے اس کے دائرے اور عملی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تنظیم یونانی طب کی ایک موثر آواز بن کرابھری ہے ،یونانی طب کودرپیش ہر مسئلے میں کانگریس کی آواز سب سے پہلے بلند ہونے والوں میںرہتی ہے،ایک عرصہ سے طبی حلقے کا مطالبہ تھا کہ حکومت کی طرف سے یونانی ڈے کا اعلان ہونا چاہیے ،آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے پلیٹ فارم سے حکیم سید احمد خاں نے بھی حکومت کے سامنے کئی بار یہ مانگ دہرائی ،طبی تنظیموں کی لمبی کوشش کے بعد وزارتِ آیوش نے مجدد طب حکیم اجمل خاں کے یوم پیدائش 11فروری کویونانی ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا،اس کے تحت 2017میں پہلا یونانی ڈے منایا گیاتھا۔غیر حکومتی اداروں میں صرف آل انڈیا یونانی طبی کانگریس پابندی سے یونانی ڈے کا اہتمام کررہی ہے،اس موقع پر سیمینار اور سمپوزیم کے انعقاد کے ساتھ نمایاں خدمات کے لیے یونانی طب کے اساتذہ ، محققین اورمعالجین کو اعزازات سے بھی نوازتی ہے،راقم بھی آل انڈیایونانی طبی کانگریس کے ذریعہ علمی و تحقیقی کاموں کے لیے علامہ حکیم محمد کبیرالدین ایواڈ اور ابن سینا انٹرنیشنل ایوارڈ سے سرفرازہوچکا ہے۔

          سید احمد خاں کی خدمات فروغِ اردو کے تعلق سے بھی قابلِ ذکر ہیں،اب تک قومی اور بین الاقوامی سطح پراردو زبان کی اجتماعی تقریب کاکوئی دن  نہیں تھا،سیدصاحب کی مساعی کو بنظر استحسان دیکھنا چاہیے کہ وہ دو دہائیوں سے اردو ڈے کا اہتمام کررہے ہیں اورعلامہ اقبال کے یومِ پیدائش 9 نومبرکو اردو ڈے کے طور پر منانے کی روایت شروع کرنے والوں میںان کا نام سر فہرست ہے۔میں نے ان کے بارے میں قومی اردو کونسل کے بین الاقوامی جریدہ ماہنامہ اردو دنیا میں’ عالمی یوم اردو یادگار مجلہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا ’’گوکہ سید احمد خاں پیشے سے طبیب ہیںاور طب کی بقا و فروغ کے لیے جد و جہد ان کی زندگی کا اہم مشن ہے ،مگر اردو کی ترویج و اشاعت میں اُن کی جو خدمات ہیں وہ اردو سے پیشہ ورانہ وابستگی رکھنے والے کسی فرد سے کم ہرگز نہیں ہیں،سید احمد خاں اردو ڈے کی تیاری میں پورے سال لگے رہتے ہیں،اس موقع پرایک یادگاری مجلہ بھی شائع کرتے ہیں،گزشتہ کئی برسوں کے مجلے میرے مطالعہ میں رہے ہیں ،ان مجلوں کے بارے میں اختصار کا شکوہ تو ہوسکتا ہے،لیکن مشمولات اور محتویات کے لحاظ سے بڑے وقیع اور موضوعات کے اعتبار سے بے حد اہم ہوتے ہیں،یہ امتیاز انہیں دستاویزی حیثیت عطا کر دیتاہے۔اردو ڈے کے انعقاد کا جتنا اہتمام حکیم سید احمد خاں کے یہاں ہے اس کی مثال اردو والوں کے یہاںبھی نہیں ملتی،1997 سے سید صاحب پابندی سے اردو ڈے منارہے ہیں،2000سے وہ ’عالمی یومِ اردو یادگار مجلہ ‘ کے نام سے سوینیر بھی شائع کررہے ہیں،پہلا یادگاری مجلہ معروف مجاہد آزادی قاضی محمد عدیل عباسی کے نام موسوم تھایہ سلسلہ اتنا با برکت ہوا کہ گزشتہ اکیس برسوں سے جاری ہے‘‘۔

         5جون2017کو اہلیہ(محترمہ صالحہ خاتون) کی رحلت کاسانحہ سید احمد خاں کے لیے ایک بڑاصدمہ تھا،اس جانکاہ حادثہ کے بعدخود کو جس طرح سنبھالاوہ کوئی مضبوط اعصاب والاہی کرسکتا ہے،نصف بہتر کی جدائی کاغم یوںبھی نڈھال کردینے والا ہوتا ہے ، اگررفیقِ حیات زندگی کے ایسے موڑ پر داغِ مفارقت دے جائے کہ کاروبار ہستی ناتمام پڑے ہوں تو یہ سانحہ مزید تکلیف دہ ہوجاتا ہے ،سید احمد خاں کی اہلیہ نے ایسے وقت میں جدائی کا غم دیا کہ بچیاں ابھی چھوٹی تھیں اور ان کی تعلیم تربیت اور خانہ آبادی کے کام باقی تھے،تینوں بیٹیاں ڈاکٹر رحمت جہاں،ڈاکٹر نزہت جہاںاور عصمت جہاں ابھی زیر تعلیم ہیں،ماں کے بغیر بیٹیوں کی پرورش انتہائی مشکل کام ہے،اب یہ مرحلہ سید صاحب کو تنہا عبور کرنا ہے ،اس لیے کہ کسی اولاد نرینہ کا سہارا نہیں ہے ۔ اہلیہ حیات تھیںتوساری گھریلو ذمہ داریاں کندھوں پر لے کر سید صاحب کو فارغ کر رکھا تھا۔

         حکیم سید احمد خاں نے 28دسمبر1992کو بحیثیت ریسرچ اسسٹنٹ لکھنؤ سے ملازمتی کیریر کا آغاز کیاتھا،وہ بتاتے ہیں کہ سی سی آریوایم سے ان کی وابستگی میں سابق ممبر پارلیمان ڈاکٹر اے یو اعظمی(ڈاکٹر عزیز اللہ اعظمی)اور حکیم شمس الآفاق کا اہم رول رہاہے،ان کے توسط سے وہ آر کے مکھی کی ڈائرکٹر شپ کے زمانہ میں کونسل کی ملازمت سے وابستہ ہوئے تھے،دراصل ان بزرگوں سے سید صاحب کی شناسائی آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کی معرفت ہوئی تھی۔ 31مئی 2022کو مدتِ ملازمت پوری کرکے وہ ڈپٹی ڈائرکٹر کے منصب سے سبکدوش ہوگیے،ان کی ملازمت کا دورانیہ تقریباً تیس برس کا رہا ،کونسل سے ان کی رخصتی پر بڑے تزک و احتشام سے وداعی تقریبوں کا اہتما م ہوا تھا،سبک دوشی سے تین روز پہلے 27  مئی کوسی سی آر یو ایم کے ڈائرکٹر جنرل پروفیسر عاصم علی خاں،اسسٹنٹ ڈائرکٹر( انتظامی امور)مسٹرکے کے سپرا اور ایڈائزر یونانی حکیم مختار احمد قاسمی نے دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال پہنچ کربحسن و خوبی مدتِ ملازمت کی تکمیل پر نیک خواہشات پیش کیں، پھر30مئی 2022کو سی سی آر یوایم ہیڈکوارٹر اورریجنل ریسر چ انسٹی ٹیوٹ اوکھلا،نئی دہلی کی طرف سے ہوٹل ریورویو میںایک پُر وقارالوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا،اس میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر راحت علی خاں،سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن کے سابق صدر ڈاکٹر راشد اللہ خاں اور اوکھلا انسٹی ٹیوٹ کے دیگر آفیسرزنے شریک ہوکر نیک جذبات کا اظہار کیا۔

         سی سی آریوایم کی ملازمت سے سید احمد خاں کی سبک دوشی پرماہر اقبالیات پرفیسر عبد الحق،معروف اسلامی اسکالرپدم شری پروفیسر اخترالواسع اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر شہپر رسول وغیرہ نے نیک خواہشات پیش کیں۔اس موقع پر سید احمد خاں کے اعزاز میں دہلی کے معززین کی طرف سے ایک نششت منعقد کی گئی ،جس میں سابق ڈپٹی ایدوائزر یونانی حکیم شمس الآفاق،سی سی آریوایم کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی،ریڈیو جرمنی کے نامہ نگار جاوید اختر،اردو بُک ریویو کے ایڈیٹر محمد عارف اقبال،ڈاکٹر عبید اللہ بیگ، ماسٹر مقصود احمد،حکیم عطاء الرحمان اجملی ،ندیم عارف اور محمد عمران قنوجی وغیرہ نے یونانی طب اور اردو زبان کے فروغ کے تعلق سے سید احمد خاں کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا۔

         شاعری جذبات کے اظہار اور خیالات کی ترسیل کا موثروسیلہ ہے،یہ شاعری کا بڑا کمال ہے کہ محض چنداشعار میں لمبی چوڑی باتوں کو نہایت عمدگی سے پیش کیا جاسکتا ہے،حکیم سید احمد خاں کے سلسلے میں اردو زبان و ادب اور طب کے حلقوں کی طرف سے بڑے پیمانہ پر اظہارِ جذبات ہوا ہے،اس موقع پر کئی لوگوں نے منظوم خیالات بھی پیش کیے ہیں ،عبد الغفار دانشؔ نے ایک نظم میں بڑی خوب صورت عکس بندی کی ہے اور حکیم سید احمد خاں کے اوصاف و کمالات اورطبی ولسانی خدمات کا فنکارانہ احاطہ کیا ہے،ان اشعار کے مطالعہ سے قارئین کو سید احمد خاں کی مزاجی ،اخلاقی اور علمی و فنی خوبیوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اس خیال سے عبد الغفار دانشؔ کے کلام کو نقل کیا جارہاہے:

عاجز   و   منکسر ،  برد بار  و   حلیم              خوش نظر،خوش بیاں اور ذہین و متین

ذاتِ باری نے یک جا کیا خاک میں      نام  رکھا  گیا  سید  احمد  حکیم

گل کھلائے ہیں خوش رنگ کلمات کے  خیر کی کرنیں پھوٹیں تری ذات سے

مردِ غازی ہے تو طب کے میدان کا               تو نوازا گیا سات  سوغات  سے

اس  طرح  سے سنوارا رخ و بال کو                تونے  اردو زباںکے خد و خال کو

یومِ اردو  کی  تحریک تجھ سے چلی                  تونے  زندہ کیا  پھر سے  اقبال ؔ کو

تو ہے نباضِ دوراں طبیب و حکیم                 دوش  پر  تیرے  بادِ صبا اور نسیم

تیرے اخلاص کی،  تیرے ایثار کی                ہر طرف روشنی ، ہر طرف ہے شمیم

بے غرض ، بے ریا تیرا  ہر  کام ہے                جد و جہد و  عمل  تیر ا  پیغام  ہے

شائقِ فکر  و  دانش  ؔکا  مرجع  ہے تو         تجھ  پہ  اللہ  کا  یہ بھی انعام ہے

         کسی فرد کی سبک دوشی کے بارے میں سن کرعام طور پر ذہنوں میںازکار رفتگی کا تصورآتا ہے،شاید یہ درست ہو،لیکن ایک خاص طبقے کے لیے ملازمت کی تکمیل زندگی کے ایک نئے مرحلے کا آغازہے،یہ بھی سچ ہے کہ ایسے لوگ استثنا کے زمرے میں آتے ہیں،حکیم سید احمد خاں کاشمار بھی مستثنیات میںہے۔

         سبک دوشی اکثر لوگوں کے لیے اعصاب شکن مرحلہ ہوتا ہے،غالباً یہ وہ لوگ ہوتے ہیںجوصرف ملازمت تک محدود ہوتے ہیں،اس کے سوا کرنے کو ان کے پاس کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا ہے،مگر جو ذہنوں میں عزائم رکھتے ہیںوہ تازہ حوصلے کے ساتھ زندگی کے نئے دور سے محظوظ ہونے کے منصوبے بناتے ہیںاور فرصت کے ان لمحات کو عزائم پورا کرنے کا اچھا وقت خیال کرتے ہیں۔سید احمد خاں نے اردو اور یونانی طب کے فروغ کو مقصدِ حیات بنا رکھا ہے،ملازمت کے دوران کبھی مصلحتوں اور اندیشوں کی شکل میں یا ملازمتی حدود قیود کی صورت میںجو رکاوٹیں آرہی تھیں ، ان بندشوںسے اب آزادی محسوس کررہے ہیں اور کھل کر اپنے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں،دعا ہے کہ ان کے عزائم کے بال و پر ہمیشہ توانارہیں!

***

Leave a Reply