You are currently viewing بلراج بخشی کے افسانوں میں سیاسی و سماجی مسائل

بلراج بخشی کے افسانوں میں سیاسی و سماجی مسائل

 محمداسد

ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف دہلی

بلراج بخشی کے افسانوں میں سیاسی و سماجی مسائل

            تقسیم ہند کے سانحے سے بیشتر لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بے شمار جانیں چلی گئیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ  نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ان حالات نے بلراج بخشی کے آباواجداد کو بھی نقل مکانی کرنے مجبور کر دیا ۔تقسیم ہند کے وقت وہ پونچھ(مقبوضہ کشمیر)  سے ہجرت کر کے ادھم پور میں مقیم ہوئے اور یہیں ادھم پور کے علاقہ نگروٹہ میں۱۰دسمبر۱۹۵۰ــ؁ء بلراج بخشی کی پیدائش ہوئی۔ ان کا اصل نام بلراج کمار بخشی ہے۔ جب کہ ادبی دنیا میں بلراج بخشی کے نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، وہ بیک وقت ڈراما نگار، ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر بھی ہیں۔ان کی تخلیقی صلاحت نے دنیا ادب کو اب تک ایک افسانوی مجموعہ دیا۔ انہوں نے افسانہ نگاری کی ابتدا ”چاندی کا دھواں ”لکھ کر کی، جو ماہنامہ شاعر ممبئی سے۱۹۶۹؁ء میں شائع ہوا۔ افسانہ ”ایک بوند زندگی” جون۱۹۷۸؁ء میں گوپال مثل کی ادارت میں ماہنامہ تحریک دہلی سے شائع ہوا۔ اس طرح انہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں اپنا قدم جمایا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ  جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ ہمیں ان کا افسانوی مجموعہ ایک بوند زندگی، کے روپ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بوند زندگی ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو  ۲۰۱۴؁ء میں منظر عام پر آیا۔ بلراج بخشی کا افسانوی مجموعہ ایک بوند زندگی اردو افسانہ نگاری کی روایت میں اہمیت کا حامل ہے جس کا اندازہ پروفیسر مولا بخش کے اس قول سے لگایاجاسکتا ہے۔ وہ اس  افسانوی مجموعہ کے متعلق یوں رقم طراز ہیں۔

                  ’’افسانہ ایک بوند زندگی جون۱۹۷۸؁ء میںگوپال مثل کی ادارت میں

             ماہنامہ تحریک دہلی میں شائع ہوا تھا۔میں نہیں جانتا کہ ان پینتیس برسوں کے

         دوران بلراج بخشی کس جبری گوشئہ گمنامی یا اگیات واس میں رہے لیکن مجھے تو یہی

          طویل غائب باشی اس مجموعے کے انتساب کی ماخذ نظر آتی ہے ۔ افسانوی مجموعہ ــ

         ’’ایک بوند زندگی ‘‘اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم اضافہ ہے۔‘‘ (مشمولہ، ’’ایک بوند زندگی ‘‘ص:۲۴)

       مذکورہ بالا قول کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ بلراج بخشی نے ایک بوند زندگی لکھ کر اردو افسانہ نگاری کے میدان میں

نہ صرف اپنی شناخت قائم کی ہے بلکہ انہوں اردو افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ افسانوی مجموعہ ’’ایک بوند زندگی ‘‘میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔ فیصلہ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ، زچ، مشترکہ اعلامیہ، مکتی، کیا نہیں ہوسکتا، مکلاوہ، گرفت، کھانسی ایک شام کی، ہارا ہوا محاذ، چور، اور ایک بوند زندگی وغیرہ۔ جو قارئین کے ذہن پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس افسانوی مجموعہ میں شامل پہلا افسانہ فیصلہ، ہے۔ جس کا مرکزی کردار ایک جج ہے۔ کیوں کہ کہانی کا دارومدار فیصلہ پر ہے۔ اس لیے جج کا ہونا لازمی ہے، افسانے کی ابتدا میں ارد گرد کے ماحول کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ جہاں ایک طرف اس علاقے کی خوبصورتی کا ذکر ملتا ہے وہیں دوسری جانب اس کی خستہ حالی کا نقشہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مظفرعلی رانا جو بھدرواہ کا باشندہ ہے  اور جج کے عہدے پر فائز ہے۔ اس کا صبح اٹھنا،ٹیلی ویژن دیکھنا، چائے پینا، اور پھر مقررہ وقت پر عدالت میں پہنچنا اسی کے ارد گرد پوری کہانی کا محور ہے۔کہانی میں ایک کردار بظاہر جنگلی پرندے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو حقیقت میں ایک بے بس انسان کی تمثیل ہے،جسے افسانہ نگار نے بخوبی پیش کیا ہے۔یعنی یہاں کا غریب شہری اس مرغ کی مانند ہے جس پر طاقت ور طبقہ کہ لوگ ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔ یہاں کے تمام سیاسی چہرے شکاری ہیں جو غریب عوام کو ہمیشہ اپنا شکار بناتے ہیں،ان کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے عام آدمی کو مظفر علی رانا جیسے جج کی ضرورت ہے۔ جس کی عدالت میں عام شہری کی سنوائی ہو اور اسے ان شکاریوں سے نجات حاصل ہو۔اس افسانے کا مطالعہ کرتے وقت قاری کا ذہن متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس افسانے کی خوبی ہے۔اس افسانے کے متعلق علی احمد فاطمی یوں رقم طراز ہیں۔

                  ’’افسانہ نگار نے جس جد وجہد، تصادم اور کشاکش کو عدالت

                  میں پیش کرکے پختگی اور بالیدگی عطا کی ہے۔ وہ بلراج بخشی

                 کے ذہن اور وژن کی غمازی کرتی ہے۔‘‘            (مشمولہ ۔’’ـایک بوند زندگی ‘‘ص:۱۴)

’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ میں بگڑے ہوئے سیاسی نظام کو پیش کیا گیا ہے ،کہ جب ایک عام شہری اپنے حقوق کی طلب کرتا ہے تو اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جب عام انسان تیزی سے بڑھتی ہو مہنگائی، کورپشن، کے خلاف آواز بلند کرے تو اس کا کیا انجام ہوتاہے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں ایک ٹریولنگ سیلزمین کو  افسانوی کردار کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ جو شناختی کارڈ کی ضرورت پڑھنے پر ایک سرکاری دفتر کا رخ کرتا ہے۔ٹریولنگ سیلز مین سرکاری افسر سے یہ کہتا ہے کہ مجھے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے ۔سرکاری افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا تمہیں شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ تمہارا چال چلن ٹھیک نہیں ہے اور تمہارے خلاف بہت ساری شکایات درج ہیں،جن میں سے ایک شکایت یہ بھی ہے۔جسے افسانہ نگار نے یوں

قلم بند کیا ہے۔

                   ’’ یہ وزارت داخلہ کی رپورٹ ہے۔ پچھلے سال حکومت مخالف

                   جوجلوس نکلے تم ان میں پیش پیش تھے۔ ہم م م م۔۔ یہ لکھا ہے

                   تم اچھل اچھل کر نعرے لگا رہے تھے۔ ‘‘

                           (ڈیتھ سرٹیفکیٹ،مشمولہـــــ،’’ ایک بوند زندگی‘‘ص : ۳۹)

          مذکورا بالا اقتباس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے۔ ایک عام انسان کا ایسے حالات میں زندگی بسر کرنا دشوار گزار عمل ہے۔ جہاں وہ آزاد نہیں بلکہ قید و بند میں رہ کر زندگی بسر کرتا ہے اور اس کی باگ ڈور سیاسی نظام کے ہاتھوں ہو، اسے ہر سیاسی نظام میں نشانہ بنایا جاتا ہو۔ چونکہ یہاں اردلی سے لے کر اعلیٰ افسران تک سب کی باگ ڈور سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جس کے سبب عام شہری کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں عام انسان زندہ ہونے کے باوجود ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا تقاضا کرتا ہے۔

              ”زچ ” میں انہوں نے معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کا احاطہ کیا ہے۔ کہ ایک معاشرہ کس طرح تباہی کی ڈگر پر چلتا ہے اور پھر  انسان کن کن مشکلات سے دو چار ہوتا ہے۔  ان مشکلات کا سبب کھانے پینے کی چیزوں میں جراثیم کی ملاوٹ، اور نشیلی اشیا  کا استعمال انسان کو متنوع قسم کی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس کو افسانہ نگار نے ساحل کے کردار کے روپ میں پیش کیا ہے۔جو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خود کو لاچارگی اور بے بسی کے عالم میں پاتا ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے تو ساحل کی زندگی میں طوفان برپا ہوتا ہے۔ کہانی میں ابتدا سے انجام تک کو جھول نظر نہیں آتا جو افسانہ نگار کا کمال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ افسانہ اصلاحی ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ افسانہ نگار نے جو کردار اس افسانے میں شامل کیے ہیں ان کی  نفسیات کو بڑی چابکدستی سے افسانہ کا حصہ بنایا ہے۔جہاں ساحل اور خوشبو کی بے بسی دیکھنے کو ملتی ہے وہاں ساحل کی جنسی خواہشات بھی ابھر کر سامنے آتی ہیں۔

      ’’مشترکہ اعلامیہ ‘‘میں افسانہ نگار نے دونوں ممالک کے مابین ہونے والے ظلم و ستم کو بیان کیا ہے۔جس میں دونوں ممالک کے جیل خانوں میں قیدیوں کے حالات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کو بھی طنزکا نشانہ بنایا گیا ہے۔جہاں کا سیاسی نظام ایسا ہے کہ صدیاں بیت جانے پر بھی ایک شہری کے لا پتہ ہونے کی خبر تک نہیں لگتی اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی چار دیواری میں بسر ہوتا ہے۔ وہ قیدی کس سنگین ظلم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔، کونسے سے جرائم میں ملوث ہیں ان معامالات سے کوئی واقف نہیں۔مشترکہ اعلامیہ کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کو لے کرایک کمشن تشکیل پاتی ہے۔ جس میں دونوں ممالک کے وفود کے اعلیٰ سربراہ شامل ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے اس مسئلے پر بات ہوتی ہے کہ دونوں ممالک میں قیدیوں کو آزاد کیا جائے، جس پر دونوں ممالک کے وفودمتفق ہوتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جیلوں کا دورہ کیا جائے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہو کہ دونوں میں ممالک میں قیدیوں کی تعداد کتنی ہے۔ جب وفد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں تو ان قیدیوں کی خستہ حالی کو دیکھ کر ان پر رونا آتا ہے۔ان قیدیوں میں کسی کی بازو نہیں، کسی کی ٹانگ نہیںاورکوئی ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ۔ اس کمیشن میں یہ طے پایا کہ اس بات کو پوشیدہ رکھا جائے گاکہ کونسا قیدی کس جیل خانے میں موجود ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں انہوں نے دونوں ممالک کو طنزکا نشانہ بنا کر ان میں ہونے والے ظلم و ستم اور سیاسی نظام کو پیش کیا ہے۔ دونوں اطراف سے عام انسان کی زندگی جہنم معلوم ہوتی ہے۔انسانیت شرمساراور انسانی قدریں پامال نظر آتی ہیں۔

        ’ ’مکتی ‘‘ افسانہ کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو کبھی بھی مشکلات سے نجات حاصل نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ ان سے دو چار رہتا ہے۔’’مکتی ‘‘میں ایک عورت کی بے بسی کو پیش کیا گیا ہے۔کہانی کی شروعات اس طرح سے ہوتی ہے مینا کشی کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے لیکن شادی کے چند سال بعد وہ بیوہ ہو جاتی ہے۔مینا کشی کا ایک بیٹا ہے جو بیمار رہتا ہے علاج و معالجہ کے لیے وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ہے ،جسے دیکھ کر ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ نسل در نسل بیماری چلی آ رہی ہے جس کا علاج ناممکن ہے۔ مینا کشی اپنی ساس سے دکھ کا اظہارِ ان الفاظ میں کرتی ہے۔

                  ’’آپ نے میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا۔۔۔۔ کیوں؟

                    جب آپ کو پتہ تھا کہ آپ کا بیٹا پاگل ہے۔۔۔ اسے

                    دماغ کی خطرناک بیماری ہے تو آپ نے میری زندگی

                      کیوں برباد کر دی‘‘

(افسانہ  ’’مکتی‘‘مشمولہ،  ایک بوند زندگی‘ص:۸۴)

       مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے سماج میں کسی نہ کسی صورت میں ہمیں برائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ فریب کاری سے کسی کی زندگی کو بربادی کی طرف دھکیل دینا  ناقابل تلافی ہے۔  سماج میں پیدا ہونے والی برائیوں کو اس افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے کہ کس طرح ایک سماج میں برائی جنم لیتی ہے اور پھر وہ اپنا وجود قائم کرلیتی ہے۔اس نقطہ نظر سے اگر ہٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس افسانے میں اصلاحی پہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح ایک برائی کو معاشرے سے ختم کیا جائے

 تاکہ آنے والی نسلیں ایسی الجھنوں کا شکار نہ ہوں۔

        افسانہ ’’کیا نہیں ہوسکتا،، میں افسانہ نگار نے بڑی خوبی کے ساتھ بگڑے ہوئے سیاسی نظام کو پیش کیا ہے۔ اس افسانے کی ابتدا ان الفاظ میں ہوتی ہے کہ ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک ایک ایسی لہر پیدا ہوتی ہے ،جو ہر شخص کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسی لہر جو ملک سے غریبی، مہنگائی اور کورپشن کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ لیکن کہانی کا آخری اقتباس پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ کس نوعیت کی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور قاری کا ذہن سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہی ایک کامیاب افسانہ نگار کی علامت ہے کے کہانی پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں ہلچل پیدا ہو اور وہ کہانی کے متعلق غور فکر کرنے پر مجبور ہوکہ کیوں کر افسانہ نگار کو یہ کہانی لکھنے کی ضرورت درپیش آئی۔

’’مکلاوہ ‘‘ جس کا پلاٹ مربوط ہے، قاری کا ذہن شروع سے آخر تک کشمکش میں رہتا ہے کہ آخر کار افسانہ نگار اس کہانی میں کیا پیش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن کہانی کے آخر میں قاری ان تاثرات سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا جو اس کے ذہن پر مرتب ہوتے ہیںجو  اس کہانی خوبی ہے ۔اس کہانی میں جہاں ہمیں بہت ساری تہذیبی چیزیں  دیکھنے کو ملتی ہیں، وہاں اس افسانے میں عورت کے مسائل کو بھی ابھارا گیا ہے۔ جہاں مرد پانی کی گھونٹ کی خاطر عورت کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ یعنی ایک عورت کی قیمت صرف پانی گھونٹ ہوسکتی ہے۔ بہت سارے سوالات انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہی افسانہ نگار کا کمال ہے کہ اس کے قلم کی نوک سے تحریر کردہ کہانی قاری کو بیدار کیے بنا نہیں رہتی۔ مذکورہ بالا کہانیوں کے علاوہ گرفتہ، کھانسی ایک شام کی، ہارا ہو محاذ، چور وغیرہ بھی اس افسانوی مجموعہ کا حصہ ہیں۔

    مجموعہ میں شامل آخری کہانی ’’ایک بوند زندگی ہے ‘‘یہ کہانی  شروع سے آخر تک ایک مسلسل بیانیہ ہے جس میں راوی نے خیالات، تجربات، اور مشاہدات کو بڑی باریک بینی سے پیش کیا ہے اور موقع کی مناسبت سے اسطرح کا ماحول پیدا کیا ہے جو فنکار کی فنکارانہ صلاحیت کا بہترین نمونہ ہے۔مجموعی طور پر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بلراج بخشی کے افسانوں میں زبان و بیان کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت قاری الجھتا نہیں بلکہ اس کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوتا ہے ،جو اس بات کی دلیل ہے کہ بلراج بخشی کو افسانہ کے فن پر بخوبی مہارت حاصل ہے۔ جس کے سبب وہ بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنی بات کہنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر سیاسی، سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے ،جنہیں حسن خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ اصلاحی پہلو بھی ان کے افسانوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ الغرض انہوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ،حقیقی طور پر ان کا حق بھی ادا کیا ہے۔

***

Leave a Reply