You are currently viewing جدید اُردو غزل کے ارتقامیں معتوب شاعر عدیم ہاشمی کا حصہ

جدید اُردو غزل کے ارتقامیں معتوب شاعر عدیم ہاشمی کا حصہ

محسن خالد محسنؔ

لیکچرار، شعبہ اُردو،گورنمنٹ شاہ حسین گریجوایٹ کالج،چوہنگ ،لاہور

جدید اُردو غزل کے ارتقامیں معتوب شاعر عدیم ہاشمی کا حصہ

Mohsin Khalid Mohsin

Lecturer, Department of Urdu, Govt. Shah Hussain Graduate College, Chung, Lahore

Correspondence: mohsinkhalid53@gmail.com

Abstract: In the evolution of Urdu Ghazal, many such poets spent their whole lives promoting Urdu Ghazal, who were sentenced to exile and remained anonymous by the brutal dictator of the time and kept their lives miserable. Adeem Hashmi is a representative poet of modern Urdu ghazal clearly show all the possibilities of modern Urdu ghazal. Adeem Hashmi’s ghazal shows a layer of artistic excellence from the classical tradition to the current themes of modern Urdu ghazal. This paper is based on the study of Adeem Hashmi’s ghazal, in which an attempt has been made to look at the layers of the modern Urdu ghazal of Adeem Hashmi and the diverse styles of poetic style from a critical and linguistic point of view. This is the first attempt at a linguistic and analytical study of Adeem Hashmi’s Ghazal.

Key Words: Adeem Hashmi, Modern Urdu Ghazal, Classical Tradition, Martial Law, Dictatorship, Pakistani Society, Creation of Pakistan, Chicago, Resistance, Dictatorship

.خلاصہ :اُردو غزل کے ارتقا میں کئی ایسے شعرا نے اپنا خونِ جگر صرف کیا جنھیں  وقت کے سفاک آمر نے جلاوطن کرنے اور گمنام رہنے کی  سزائیں سنائیں اور ان کی زندگی کو اجیرن کیے رکھا۔ عدیم ہاشمی جدید اُردو غزل کا نمائندہ شاعر ہے جس کی غزل میں جدید اُردو غزل کے جملہ امکانات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ عدیم ہاشمی کی غزل  میں کلاسیکی روایت سے لے کر جدید اُردو غزل کی موجودہ موضوعات تک  فنی محاسن کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔  یہ مقالہ عدیم ہاشمی کی غزل کے مطالعے پر مبنی ہے جس میں عدیم ہاشمی کے جدید اُردو غزل کے ارتقا میں ڈالے گئے حصے کی پرتوں اور شاعرانہ اُسلوب کے متنوع اسالیب کو تنقیدی و لسانی نکتہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدیم ہاشمی کی غزل کے لسانی و تجزئیاتی مطالعے کی یہ اولین کوشش ہے ۔

کلیدی الفاظ: عدیم ہاشمی، جدید اُردو غزل، کلاسیکی روایت، مارشل لا، ڈیکٹیٹر شپ، پاکستانی سماج،  قیام پاکستان، شکاگو،مزاحمت پسندی،آمریت

انسانی جذبات عجب صورت لیے ہیں کہ  اظہار کے سینکڑوں ذرائع میسر ہونے کے باوجود ان کی بے قراری جاتی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب الفاظ ایجاد نہ ہوئے تھے ۔انسان محض اشاروں کنایوں میں  جذبات و احساسات کا اظہار کرتا تھا۔ خود کو زندہ رکھنے اور دوسر ی مخلوقات پر حاوی رہنے کے لیے اسے زبان کی بجائے مخصوص آوازوں کا سہار الینا پڑتا تھا۔ مرورِ وقت کے ساتھ  انسان کے ذہن نے ترقی کی اور اس نے الفاظ کو مختلف علامتوں کی صورت ایجاد کر لیا۔

برس ہا برس علامات اور تصاویر کے ذریعے انتقالِ اظہارِ داعیات کا عمل جاری رہا ،پھر انسان نے ارتقا کے سفر کو مزید آگے بڑھایا ۔انسانی اذہان نے ا لفاظ سے متصل علامتوں کو تصویری شکل میں کندہ کرنا شروع کیا ۔اس کے آگے کا سفر الفاظ کی تراش کندہ وہ صورت ہے  جو آج ہمارےسامنے موجود ہے۔

انسان الفاظ کے سہارے خود کو متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس  کرتا ہے ؟حالاں کہ یہ کسی زبان کا استعمال کیے  بغیرجذبات و احساسات کی ترجمانی   پر قادرہے ۔ الفاظ کا سہارا لینا  اس لیے ضروری ہے کیوں کہ انسان چاہتا ہے کہ اُس کی آواز کو سُنا جائے، اس کے جذبات کو الفاظ کی رو میں بہتا ہوا دیکھا جائے ، اس کی فکری تنوع کے اظہارکی داد دی جائے۔

 اُردو زبان دیگر زبانوں کی طرح اپنے اندر یہ صفات رکھتی ہے کہ اسے دُنیا کی  لطیف زبانوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اُردو زبان  کی  دل پذیری اور پُراثری کا راز یہ ہےکہ اس زبان میں سینکڑوں زبانوں کے الفاظ کی آمیزیش شامل ہے جس نے اس کے چہرے مہرے کو خوبصورت اور پُر کشش بنادیا ہے ۔

اُردو زبان  کے جملہ نثری و شعری سرمائے  کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے ،آپ کو کہیں جھول اور نقص دکھائی نہیں دے گا۔ یہ تو تخلیق کار کی تخلیقی اُپج پر منحصر ہے کہ وہ  اظہار  کا کون سا طریقہ/اُسلوب اختیار کرتا ہے۔ بعض اوقات  یوں ہوتا ہے کہ شاعر یا نثار جو کہنا چاہتا ہے وہ کہنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود پوری طرح  تحریر میں منتقل نہیں  کر پاتا  یا اس سے ہو نہیں پاتا جس سے تحریر میں جھول اور فنی نقص اُبھر آتا ہے جو قاری کی توجہ کو پوری طرح مبذول  نہیں کر پاتا۔

نثر کی نسبت شاعری میں یہ  اظہار کےمتنوع اسالیب کے قرینے  موجود ہیں ۔ شاعری انسانی حواس  کو شعور کے ساتھ ہم آہنگ کر کے رکھتی ہے۔ شاعری میں ادا کی گئی صورتحال کو زیادہ فصیح اور مستند خیال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  اُردو نثر میں خیالات و افکار کا اظہار کرنے کی نسبت شاعری میں کچھ کہنے کی  آرزو باقی رہتی ہے۔

اُردو شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی جملہ اصناف میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں  نہایت آسان،رواں اور سہل انداز میں کہہ سکتے  ہیں۔ مثنوی کی صنف کو دیکھ لیجیے،سینکڑوں شعرا نے مثنویاں لکھیں اور بھر پور انداز میں لکھیں ،اسی طرح قصیدہ کہنے والوں نے قلم توڑ ڈالے۔ غزل کی صنف کو  یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا ایک مصرع کسی مثنوی اور قصیدے پر حاوی ہو سکتا ہے۔ غزل کا مزاج اور رنگ و آہنگ دیگر شعری اصناف کی نسبت مختلف اور جُداگانہ ہے۔ غزل کہنے والا غزل کے جملہ اسالیب سے واقف ہوتا ہے اور وہ خیال کو اس کےمعیار کے مطابق اُسلوب فراہم کرتا ہے یوں جیسے نگینے کو انگوٹھی میں  ٹھیک ٹھیک کندہ کر دیا جائے۔

اُردو غزل نے گزشتہ آٹھ سو برس سے اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کرولیؔ دکنی اور ولیؔ دکنی سے مرزا غالبؔ تک اُردو غزل کا سفر شاندر رہا ہے۔ مرزا داغ ؔسے حسرتؔ موہانی اور اقبالؔ و فیض ؔسے ہوتا یہ سفر آج  اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔ اُردو غزل کی زلفوں کو سنوارنے کے لیے ہزاروں شعرا نے اپنی عمریں صرف کیں ہیں۔ اس لحاظ سے اُردو غزل کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے  شعرا میسر آئے جنھوں نے اس صنف کو بامِ عروج تک پہنچانے میں کلیدی کرداد ادا کیا۔

 اُردو غزل میں پہلے پہل عورتوں سے متعلقات کا ذکر کیا جاتا رہا ،بعدازاں دیگر موضوعات کو بھی جگہ دی جانے لگی۔ محبت،پیار،عشق اوررومان کے موضوعات کے ساتھ سیاست ،معاشرت،تہذیب  و ثقافت  نے بھی جگہ پائی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُردو غزل  سیاست کے رنگ میں   شرابور ہوگئی۔خاص طور سے قیام ِ پاکستان کے بعد کی سیاسی صورتحال یعنی مارشل لا اور ڈیکٹیٹر شپ کے ماحول میں محبت پیار اور حُسن و عشق کے راگ الاپنے والےشعرا نے سیاسی موضوعات پر مزاجی و مزاحمتی رنگ میں کھل کر لکھا۔

 ان شعرا نے اپنے زمانے کے آمروں ،جاگیر داروں،سرمایہ داروں،چوروں،لٹیروں اور قبضہ مافیہ کے سرغنوں کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا جس کی پاداش میں انھیں جیلوں میں قید کیا گیا ،بیشتر شعرا کو ملک سے  دیس نکالا دیا گیا اور بہتوں کو تہ تیغ کرنے کی کوشش کی بھی کی گئی۔ 1970 سے 1980 کی دہائی کی اُردو غز ل کا رنگ پوری طرح مزاحمتی ہوچکا تھا۔ اس دور میں غزل کہنا آسان نہ تھا کہ ایک ایک مصرعے کو سینسر کر کے دیکھا جاتا تھا اور بغاوت کی ذرا سے بُو محسو س ہونے پر شاعر کو قید و بندکی صعوبتوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ آمروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے شعرا میں فیضؔ سے لے کر عدیم ؔہاشمی تک سینکڑوں شعرا کے نام آتے ہیں جن کی زندگی  آمروں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اجیرن کر دی گئی۔ مزےکی بات یہ ان  شعرا نے  جان و مال اورعزت  و وقارکی پروا کیے بغیر اعلانِ بغاوت جاری رکھا  یعنی اپنے   بیانیے اور نظریے کو مزاحمتی انداز میں غزل کا سراپا اول و آخر موضوع بناڈالا۔

عدیم ہاشمی کا ذکر اس حوالے سے خصوصیت کا حامل ہے کہ اس شاعرِ بے مثل کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں حلقہ ادب میں تیزی سے اُبھرنے والے اس شاعر کے مصرعوں میں بلا کی کاٹ اور طنز کا نشتر پایا جاتا تھا۔عدیم ہاشمی نے اس بات کو شدت سے محسوس کر لیا تھا کہ   مفاہمت نہیں کروں گا خواہ جان و جہاں سے گزرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ عدیم ہاشمی کے ساتھ وہی ہوا جو اس دور کے دیگر باغی شعرا کے ساتھ ہوا کہ انھیں ملک سے نکل کر دیارِ غیر میں پناہ لینا پڑی اور گمنامی کی حالت میں طویل بیماری کا شکار ہو کر دُنیا سے  05 نومبر 2001 میں کوچ کرنا پڑا۔

عدیم ہاشمی کا اصل نام ‘فصیح الدین’ اور تخلص ‘عدیم’تھا۔ یکم اگست 1946 کو’ فیروز پور’ موجودہ انڈیا میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم  روایتی ماحول میں ہوئی۔ ان کے والدین صوفی مزاج کے حامل تھے جن کی تربیت نے عدیم کے شعور کو جلا بخشی۔ عدیم کا بچپن  برصغیر کی زرخیر زمین پر فطری ماحول میں گزرا۔1947 میں برصغیر کےبٹوارے کے نتیجے میں ان کا خاندان ہجرت کر کے فیصل آباد موجودہ پاکستان میں آگیا ۔ عدیم ہاشمی نے تعلیم کی تحصیل فیصل آباد میں کی ۔ تلاشِ معاش میں انھوں نے کئی شہروں کا سفر کیا۔ آخر شہرِلاہور کو اپنا مسکن بنا یا۔ شعر و شاعری سے دلچسپی بچپن سے تھی۔ شعور سنبھالا تو کچھ کہنے لگے اور بہت جلد انھیں یہ محسوس ہو گیا کہ انھیں کچھ کہنے  کا ہنر عطا کیا گیا ہے۔ عدیم نے کلاسیکی شعرا کے جملہ دواوین کو پڑھ ڈالا اور اپنے ہم عصر کے اندازِ اُسلوب سے متاثر ہونے کی بجائے شاعری میں اپنا  اُسلوب  متعارف کروانے کی کوشش کی۔

         عدیم ہاشمی نے ملازمت کے حصول کے ساتھ شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا۔ان کی غزل میں وہ تابناکی تھی  جس کی چمک دور دور تک محسوس کی جانے گلی۔ مشاعروں میں سوز میں پڑھی گئی غزلیات کے دل پذیر تاثر نے انھیں ادبی حلقوں میں ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کروایا۔ ان کا کلام پاکستان و ہندوستان کے معرو ف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگا ۔یوں ان کی پہچان ایک منفر د شاعر کی حیثیت سے حلقہ ادب میں ہوئی۔ اس دوران انہوں نے ریڈیو، ٹی وی کے لئے گیت لکھے اور  گاہے گاہے پی ٹی وی کے لئے ڈرامے بھی تخلیق کئے۔’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘،’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ اور’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘ان کے شعری مجموعے ہیں۔

عدیم ہاشمی کو ان کی باغیانہ سوچ ،فکر اور فلسفہ کی بنیاد پر جنرل ضیاالحق نے ملک سے دیس نکالا دیا تھا ۔یہ اُس وقت پاکستان کےمشہور شعرا میں سرفہرست تھے۔ ان کے ساتھ دسیوں اور اشعار کو اسی عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ان کے  بچے  اور خاندان کے دیگر افراد  انتہائی مشکل میں  زندگی کے ایام بسر کر رہے تھے کہ اس صدمے نے انھیں شکستہ پا کر ڈالا۔ دیارِ غیر  میں پناہ کی غرض سے انھوں نے کئی ممالک میں  سیٹل ہونے کا ارادہ کیا تاہم شکاگو میں دوست دیرینہ کے توسل سے انھیں  پناہ ملی جہاں انھوں نے زندگی کے بقیہ ایام  گزارے۔

عدیم ہاشمی کی شاعری میں وہ سبھی عناصر  موجود تھے جو انھیں ایک باغی مزاحمت پسند شاعر قرار دینے کے لیے کافی  تھے۔ عدیم نے   ملک دُشمن عناصر اور آمروں کی حاکمیت سے سمجھوتہ کرکے ان کی خوشامد کرنے کی بجائے خود کو مردود کہلوا کر دیارِ غیر میں در بدر ہونا  گوارا کر لیا لیکن اپنے  شعور اور ضمیر کو  بیچنا تسلیم نہ  کیا۔

عدیم  ہاشمی بلاشبہ جدید اُردو غزل کا چہرہ ہے۔ ان کی غزل میں جملہ فنی و فکری عناصر کی پیش کش موجود ہے جو اسے کسی بھی بڑے شاعر کے ہم پلہ قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ عدیم ہاشمی کے ساتھ دوہرا ظلم یہ ہوا کہ ان کی شاعری کو وہ عزت،وقار اور شناخت نہ مل سکی جس کے یہ ہمیشہ سے مستحق رہے ہیں۔

عدیم ہاشمی کے کلام پر کسی نقاد نے مضمون لکھنا گوارا نہیں کیا۔ یہ چلن ہمارے ہاں عام ہے کہ کسی بھی وجہ سے نظر انداز کیے گئے شاعر کو  گمنام ہی رکھنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کا کلام سامنے نہ آسکے اور  شہرت یافتہ شعرا کے شعری قد میں کمی نہ واقع ہو جائے۔ بد قسمتی سے اُردو ادب میں خوشامد پسند شعرا کی کمی نہیں جو  شاعرانہ لیاقت کے اعتبار سے   پست  قد ہونے کے باوجود نقادوں کے چونچلے اُٹھا کر انھیں سر پر بٹھاتے ہیں اور داد و تحسین کے جملہ ذرائع  جعلی پہچان کے لیے بروئے کا رلاتے ہیں۔

یہ فقط عدیم ہاشمی کا المیہ نہیں ہے کہ ان کے کلام کو نقادوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔یہ سلوک فانؔی بدایونی، شکیب ؔجلالی،سیمابؔ،مصطفی زیدیؔ،آنسؔ معین وغیرہ کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ شاعر کی شہرت کا مدار خواہ کچھ بھی ہو،نقا دکا کام اس کی عوامی شہرت کے بر عکس اس کے کلام کو تنقیدی نکتہ نظر سے پر کھ ٹٹول کر اس کے فنی محاسن کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔نقاد کو  غیر جانبدار ہو نا چاہیے تا کہ شاعر کی شاعرانہ اہمیت کو سامنے لانے کے لیے اس کے ساتھ امتیازی سلوک  روا  ،نہ رکھا جائے بلکہ میرٹ کی بنیاد پر جس کا جتنا حصہ بنتا ہے  اُسے بحر طور دیا جانا چاہیے۔

عدیم ہاشمی کی غزل کا رنگ و آہنگ اپنے اندر کئی امتیازی صفات لیے ہوئے ہے۔ عدیم ہاشمی کی غزل کا ابتدائی دور رومان پرور تھا بعدازاں انھوں نے اپنے لب ولہجے میں خاصا تنوع اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کے مصرعوں میں تلوار کی کاٹ کا اثر پیدا ہوا جو اسے اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ عدیم ہاشمی کو شہرت عطا کرنے والے اشعار کا لب ولہجہ اور زبان و انداز ملاحظہ کیجئے:

؎         فاصلے ایسے بھی ہوں گے سوچا نہ تھا                          سامنے بیٹھا تھا وہ مرے اور وہ میرا نہ تھا

؎         کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ                   ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

؎         اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا                       میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا

؎         بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کاملاپ                      اُڑا دئیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے

ان اشعار میں عدیم کی شاعری کا رنگ و آہنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عدیم ایک پیور قسم کا خالص شاعر ہے جس کے ہاں محبت کا جذبہ سے دیدنی دکھائی دیتا ہے۔ عدیم کی شخصیت میں انسان سے محبت کرنے اور احترام سے پیش آنے کا  انداز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ عدیم کی شاعرانہ تربیت ایک خاص انداز میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاں باہم احترامِ آدمیت کے فلسفہ کا عالمگیری تاثر نظر آتا ہے۔ عدیم کے ہاں عدم برداشت،عدم مساوات اور غیر فطری انداز زیست کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ان کے لب ولہجے میں ایک طرح کاٹھہراؤ اور وقار نظر آتا ہے جو غزل کی لطیف صنف کے لیے  موزوں ہے۔ بطو ر نمونہ اشعار دیکھیے:

؎         ہوا ہے جو سدا اُس کو نصیبوں  کا لکھا سمجھا                      عدیمؔ اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا

؎         یاد کر کے اور بھی تکلیف  ہوتی تھی عدیمؔ                      بھول جانے کے سوا ب کوئی بھی چارہ نہ تھا

؎         ماہ اچھاہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے                        پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے

ایک شاعر کے ہاں یہ بے نیازی بہت کم دیکھی گئی ہے۔ شاعر کی لااُبالی طبیعت میں  شدتِ ادا کی موزونی پائی جاتی ہے۔ شاعر ہر وقت بے چین و بے قرار اور مضطرب رہتا ہے کہ اس کی فکر کا دھارا  منہ زور دریا کی مانند رواں رہتا ہے۔ عدیم کے ہاں  ہیجانی کی یہ صورت نہیں ہے ،عدیم جو کہنا چاہتا ہے بڑے اطمینان اور ضبط کے ساتھ کہہ دیتا ہے۔ عدیم کی غزل کا ایک ایک شعر اپنے اندر جذبے کی شدت کو اعتدال کی دوڑی میں مقید کیے  محسوس ہوتا ہے۔

؎         کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک                        ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

؎         ہم بحر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے                    تم بھی اک آد ھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

عدیم کو محبت کے اظہار کا سلیقہ آتا ہے۔ انھیں جذباتی ہو کر  حواس باختہ ہوتے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہی  اعتدال پسندی ہے ،اُردو غزل میں اظہارِ جذبات کی میانہ روی صرف عدیم ہاشمی کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ محبوب پر دُشنام و الزام اور جملے بازی کا رویہ دور ،دور تک عدیم کے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔

؎         وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو                   میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

؎         مرے ہم راہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے               مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آو

عدیم ہاشمی نے کچھ اُصول وضع کیے تھے جن پر کسی  صورت سمجھوتہ نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ عدیم  ہاشمی ایک سچے اور کھرے پاکستانی محبِ وطن  تھے جنھوں نے اپنے ملک کی آن بان اور شان کے لیے کبھی ایک لفظ اختلافِ رائے میں نہیں لکھا۔ ان کی ذات و شخصیت پر ہر طرح کے جملے سر کیے گیے،انھیں بے جا تنگ کیا گیا اور ان کی گوشمالی کی گئی مگر انھوں نے ظلم کے خلاف اُٹھائی گئی آواز کو کسی صورت  کم کرنے کی کوشش نہیں کی یہاں تک کہ انھیں وطنِ عزیز سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا گیا، اس کےباوجود وطن کے لیے ان کی روح تڑپتی رہی۔

آمر آتا ہے چلا جاتا ہے،ظالم ظلم کرتا ہے او رمظلوم  اسےب فراموش  کر دیتا ہے۔ظلم و جور کا یہ رواج صدیوں سے برصغیر کی رعایا کا مقدر بن چکا ہے۔ اس دھرتی نے سینکڑوں  جابر حملہ آوروں اور سفاک بادشاہوں کے دورِ حکومت کو دیکھا اور ان کی زیادتیوں کو سہا ، اس کے باجود اس دھرتی نے ہمیشہ پھول ہی کھلائے ہیں اور سر سبز و شاداب رہنے کی ضد کی ہے۔

؎         میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب                 مجھے دُنیا کی پستی میں اُتر جانا نہیں آتا

؎         بکتا تونہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں                       رستے میں پڑا ہوں کہ اُٹھائے کوئی آکر

؎         میں جوکچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے           مجھے جھوٹے درو دیوار کو چمکانا نہیں آتا

؎         زباں نے جسم کاکچھ زہر تو اُگل ڈالا                          بہت سکون ملا تخلی نوا سے مجھے

؎         رچا ہوا ہے بدن میں ابھی سرورِ گناہ                          ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے

عدیم ہاشمی کے ہاں  صرف باغیانیہ عناصر کے موضوعات کی گہری چھاپ نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں ہر وہ رنگ موجود ہے جو کلاسیکی غزل سے لے کر جدید اُردو غزل تک  شعرا کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ عدیم نے غزل کے رنگ و آہنگ کو خاص اُسلوبِ بیان کے تیشے سے مقیش کیا ہے۔ محبت و اُنس ، ہمدردی و غم سوزی اور دلدوزی کا بیان  عدیم کی غزل کا سراپا ہے۔ عدیم نے  محبوب سے گلہ کرنے کی بجائے اس کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کی ہے۔ عدیم کے ہاں محبت کا تصور آفاقی سطح پر ٹریٹ ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ تسلیم ورضا کی اس ہم آہنگی نے عدیم کی غزل کو ان کے ہم عصر سے جُداگانہ شناخت عطا کی ہے۔

؎         آؤ پھر دل کے سمند رکی طرف لوٹ چلیں                   وہی پانی ،وہی مچھلی،وہی جال اچھا لے

؎         شام کے ہاتھ نے جس وقت لگائی مہندی                     مجھے اُس وقت ترا رنگ ِحنا یاد آیا

؎         آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے                      آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

عدیم ہاشمی کی غزل کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں کلاسیکی روایت کے تتبع کے باوجود جدت کی آمیزیش ملتی ہے۔ عدیم نے غزل کے فن کو عطائی خیا ل کیا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ و خیال کا دروبست ایسا منجھا ہوا ہے کہ اشعار کی روانی اور آمد کی شدت دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ شاعر  کس طرح کائنات کے آفاقی نظام کےبارے میں سوچتا ہے  اورزندگی کے تصور کو بقا کے زاویے سے متصل کر کے دیکھتا ہے۔

عدیم کا دینی تصور بہت واضح  تھا۔ انھوں نے معتوب ہونے کے باوجود   مشرقی اقدار کے رکھ رکھاؤ سے انحراف نہیں برتا بلکہ اپنی اُولاد کی تربیت بھی  قدیم روایت کے کڑے معیار کے مطابق کی ہے۔ تہذیب و تمدن کی رقصاں پرچھائیاں عدیم کی غزل میں برابر  جھلکتی  ہیں۔

؎         کٹ ہی گئی جدائی بھی کب  یہ ہوا کہ مر گئے                   تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

؎         راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں              وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے

؎         ایک دن تو ختم ہوگی لفظ و معنی کی تلاش                      ایک دن تومجھ کومیرا مدعا مل جائے گا

؎         زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں                کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا

عدیم ہاشمی کے کلام کا تجزئیاتی جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عدیم ہاشمی کی غزل   تعمیری انداز کی حامل ہے جس میں فن اور فن کی باہمی آمیزیش کا وصف کمال خوبصورتی سےمدغم  ہے۔ عدیم کے ہاں وہ سبھی رنگ موجود ہیں جو ان کے ہم عصر شعر اکے ہاں مستعمل ہیں۔ عدیم کی شخصیت،شاعری اور زندگی باہم متصل  ہے،اس کے درمیان کہیں کوئی خلا موجود نہیں ہے ۔عدیم نے جس طرح زندگی گزاری ویسے ہی رقم کر دی۔

عدیم کے ہاں ظاہر وباطن کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ یہ ایک سچا،کھرا اور نرمل شاعر ہے جس پر نقادوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی شاعری کو  پرکھا جائے اور ان کے کلام کے معیار کے پیشِ نظر انھیں وہ مقام دیا جائے جس کے یہ ہمیشہ سے مستحق رہے ہیں۔ مذکورہ رائے کے پیشِ نظر عدیم ہاشمی کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے جو آپ کو عدیم ہاشمی کی شاعرانہ قد رو قیمت کی تعین کے لیے مہمیز کر سکتے ہیں۔

؎         اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں                کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا

؎         محبت میں جو ڈوبا ہو اُسے ساحل سے کیا لینا                    کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

؎         تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کا               تمہار اوصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آو

؎         عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نبھانے کے لیے                        عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لیے

؎         چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری مٹھاس              میں سمندر تھا وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا

***

Leave a Reply