ڈاکٹر سلیم محی الدین
صدر شعبہ اُردو شری شیواجی کالج،پربھنی
حالی شناسی اور تقی عابدی
غالب کو حالی مل گئے اور غالب شناسی کے در کھل گئے۔ بالکل اسی طرح تقی عابدی نے حالی کی باز یافت کے حوالے سے حالی شناسی کا ایک نیا جہان آبا د کیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں حالی کی سو سالہ برسی کے موقع پر تقی عابدی نے حالی فہمی کی اس سعی کا آغاز کیا اور تقریباً ایک درجن کتابیں تصنیف کیں۔ تقی عابدی اردو کے ایک بے مثال محقق، معتبر نقاد اور اہم ادیب و شاعر ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر وہ اردو کے ایک شیدائی ،خادم اور مجاہدہیں۔ وہ جب کسی کام کابیڑہ اٹھاتے ہیں تو اسے سرکر کے ہی دم لیتے ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور حالیؔ پر اب تک کئے گئے کام سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں لیکن حالی شناسی کی راہ میں حایٔل دشواریوں اور اکیسویں صدی میں حالی کی عصری معنویت نے انہیں اس کام پر اکسایا۔ خود انہی کے الفاظ میں۔
’’ حالی کے کلام کی کمیابی اور پرانی کتابت کی غلطیوں سے بھرے ہوئے نسخوں کی طباعت حالی شناسی میں خلل انداز ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ گزشتہ چالیس پچاس سال میں حالی پر کوئی خاص کارآمد تحقیقی اور تنقیدی کام نہ ہوسکا۔ کچھ عمدہ مقالے، تبصرے اور تجزیے مقدمہ شعر و شاعری پر ہر دور میں ہوتے رہے اور یہ صدائیں بھی دو تین دہائیوں سے خاموش ہوگئیں۔ راقم نے حالی شناسی کے فروغ کے لئے حالیؔ کے کلام کو صرف نصاب میں شامل کرنا ضروری نہ جانا بلکہ عوام میں بھی اس کے چرچے کو لازم جان کر اس کی فراہمی کا منصوبہ بنایا۔ جس میں اکیسویں صدی کے اردو ماحول میں حالیؔ کا کلام جدید علمی، تحقیقی اور تنقیدی زاویوں پر استوار کرکے تجزیے اور تشریح کے ساتھ ایسی ترتیب اور تدوین کے ساتھ پیش کیا جائے کہ عالم اور عامی اس سے مستفید ہو سکیں‘‘ ۱؎ ص ۱۹
کسی ادب پارے سے عالم اور عامی کا بیک وقت مستفید ہونا اس فن پارے کی عظمت کی دلیل تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی مصنف کی ذہانت، فنی مہارت اور مقصد کے تئیں اخلاص کا آئینہ دار بھی۔ اپنی تصانیف کے تئیں حالی کا مطمع نظر بھی ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس سے عالم اور عامی دونوں ہی فیض پا سکیں۔حالی سے ایک صدی بعد اردو کا ایک جیالا عین اسی مقصد کولے کر اُٹھتا ہے۔ گویا نسل در نسل تر ا در نمایاں ہوگا۔
بلا شبہ مسدس حالیؔ، حالی کا ایک عظیم کارنامہ اور اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ جو مسلمانوں کے ماضی کی تابنا ئیوں کا قصیدہ حال کی بدحالیوں کا مرثیہ اور مستقبل کی خوش امکانیوں کا طربیہ بھی ہے۔ سر سیّد اس کے محرک ہونے پر ناز اں ہیں اور اسے اپنے لئے وسیلۂ نجات تصور کرتے ہیں تو شیخ محمد اکرام کو مسد س میں حالی کے بہائے آنسو آب حیات لگتے ہیں۔ سیّد سلیما ن ندوی کو یہی مسد س قوم کی تیرہ سو برس کی حالت و کیفیت کا آئینہ نظر آتا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کو اردو میں اس آن ، بان اور شان اور اس جمال و کمال کا دوسرا مسدس نظر نہیں آتا ۔مولوی عبدالحق کے مطابق مسدس حالی زندہ جاوید کتابوں میں سے ہے اس کی درد بھری آواز ہمیشہ دلوں کو تڑپاتی رہے گی اور ام بابو سکینہ کے لئے تو مسدس حالی ایک الہامی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
تقی عابدی کی تصنیف کردہ زیر نظر کتاب ’’ مسدس حالی، مع سوانح ، آرائے اکابرین، تشریح و تجزیہ‘‘ دراصل تدوین و تحقیق اور تنقید و تجزیہ کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اپنے مسبوط و مفصل پیش لفظ میں تقی عابدی اردو میں حالی شناسی کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے محاس ن و معا ئب کے ساتھ ساتھ اس راہ کی دشواریوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ پیش لفظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حالی کو مسدس حالی اور اس کے پیغام کو عالم اور عامی تک بیک وقت پہنچانا مقصود تھا جبکہ تقی عابدی کا مقصد حالی ؔ کے فن شخصیت اور پیغام کو بیک وقت عالم اور عامی تک پہنچانا ہے۔ شاید اسی مقصد کے پیش نظر کتاب کے آغاز میں حالیؔ کی قلمی تصاویر کے ساتھ ساتھ ان کے حالات زندگی ان کا شجرئہ نسب ،ان کی تحریر کا نمونہ، ان کو لکھا گیا۔ سر سیّد کا مکتوب بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ آئندہ نسلیں ان کے کام سے پوری طرح آگاہ ہوسکیں۔
تقی عابدی اپنے اسی علمی و ادبی کارنامے میں حالی کے ذریعے اصلاح نظم کیلئے مسدس کے فارم کے انتخاب کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالی نے مختلف موضوعات کو شعری بندشوں کی شکل میں پیش کرنے کی غرض سے مسدس کی ہیئت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ مسدس میں مکالمہ نگاری، واقعہ نگاری، منظر نگاری اور جذبات نگاری کی گنجائشیں سب سے زیادہ ہیں۔ وہ حالی کی نظم نگاری کے محاسن کا فنی تجزیہ بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ساتھ ہی اس کے معنوی حسن کو بھی سراہتے ہیں۔بقول ڈاکٹر تقی عابدی:
’’ حالی کے مسدس کی جان ان کا فطری انداز بیان ہے۔ جو سیدھا سادہ ہے مگر اس میں زور جوش اور روانی ہے۔ یہ سادہ سلیں اور نرم الفاظ دل و دماغ میں اتر جاتے ہیں کیونکہ ان میں صداقت اور حقیقت ہے ۔ جوش اور نغمگی نے اس نظم کو دو آتشہ بنادیا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ان مقامات پر جہاں وہ تاریخی واقعات کو ایک مورخ کی طرح پیش کرتے ہیں وہاں ان کی شاعری سپاٹ اور بے رنگ و خشک ہوجاتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اثر پذیر رہتی ہے‘‘۔ ۲؎
حالیؔ کی سوانح حوالے سے خود حالی کا مضمون ’’ حالی کی کہانی حالی کی زبانی‘‘ کا انتخاب بھی ان کی ژرف نگاہی کا بین ثبوت ہے۔ کتاب میں شامل مضمون ’’ حالی کی حیات اور شخصیت‘‘ تحقیق کا اعلیٰ نمونہ ہے جس میں تقی عابدی نے نہایت عرق ریزی سے حالی ؔ کی شخصیت کے ان مخفی گوشوں کو بھی اجاگر کیا ہے جو اس سے قبل بیان نہیں کئے گئے تھے۔ تقی عابدی کا کمال یہ ہے کہ وہ ذیلی عنوانات قائم کرتے ہوئے حالی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہیں ذیلی عنوانات کے تحت وہ اپنی گفتگو کو مدلل بنانے کے لئے حالی کی زندگی کے مختلف واقعات کو بھی بیان کرتے ہیں جس سے حالی کی شخصیت اور مزاج مزید نکھر کے سامنے آتا ہے۔
یہ واقعات اور حوالے تقی عابدی نے مختلف کتابوں ،رسائل اور اور خطوط سے بہ تحقیق اخذ کئے ہیں اِس مضمون سے حالی کا بچپن، لڑکپن، جوانی، تحصیل علم کی جستجو، نامساعد گھریلو حالات، تلاش روزگار، ازدواجی زندگی ، خاندان، خاندانی حالات،کنبہ پروری، جذبۂ قناعت، مذہبی افکار،اسفا ر، لباس، خوراک، پوشاک، آغاز شاعری، قوم کی اصلاح کا جذبہ، غرض ہر ہر پہلو سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقی عابدی نے اس مضمون میں گویا اپنے قلم سے سلو لائیڈ کا کام لیا ہے۔
’’ مسدس حالی کا اجمالی تجزیہ‘‘ اس کتاب کا اہم ترین مضمون ہے جس میں تقی عابدی خالص تحقیقی و تنقیدی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ مضمون کے آغاز میں اردو مسدس کی روایت کا مختصر جائزہ ہے۔ ساتھ ہی اردو مسدس عربی و فارسی سے سرسری ہی سہی تقابلی جائزہ بھی ملتا ہے۔ مسدس کے بند اور اشعار کی تعداد اور ضمیمے کے اضافے کا احوال بھی بیان کیا گیا ہے۔ حالی نے مسدس کی تکمیل کے چھ سال بعد اس میں ضمیمے کا اضافہ کیا گیا۔ مسدس ابتداًنا امیدی پر منتج تھا۔ اسی نا امیدی کو امید میں بدلنے کی غرض سے مسدس ھالی میں اس تصنیف کے چھ سال بعد اضافہ کیا گیا۔ تقی عابدی کا کمال یہ ہے کہ مسدس میں حالی کی جانب سے بیان کردہ حقائق و واقعات کی سند اور حوالے بھی انھوں نے تلاش کئے اور انہیں کتاب میں شامل کیا ۔بقول تقی عابدی ؎
’’ حالی صر ف مدِاسلام یا ارتقائے اسلام کی بات کرکے نظم ختم کردیتے تو وہ قومی قصیدہ یا سپاسنامہ بن جاتا اور ہمیں پدرم سلطان بود کی روایت سے کچھ حاصل نہ ہوتا ۔ حالی نے پہلے بیماری تشخیص کی پھر اس کے درما ن کی ترکیب پیش کی ۔ لوگوں کو غیرت و شرم و حیا دکھلائی۔ انہیںاپنی پسماندگی کا احساس دلاکر اس خواب گراں سے جاگنے کی تاکید کی۔ انہوں نے فرد اور معاشرے میں موجود خرابیوں کو دکھا کر انہیں اچھائیوں سے دور کرنے کا راستہ بھی دکھایا‘‘ ۳؎
تقی عابدی ہمیں بتاتے ہیں کہ حالیؔ نے تقریباً ۲۴؍ بند یعنی دو سو اشعار میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور عظمت رفتہ کے گن گائے ہیں۔ جب حالیؔ مسدس میں علوم فلکیات، علوم نجوم اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں تو تقی عابدی متشرقین کے حوالوں سے اس کی دلیل پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
’’ جان ڈیوٹ پورٹ نے لکھا۔ عرب کے علم و ادب نے روم اور یونان کے علم و ادب میں دوبارہ جان ڈال دی۔ اور ینٹل کمیٹی نے صحیح اعتراف کیا کہ ’’ فن ادب اور خصو صاً قصص اور حکایات میں کوئی عرب سے بڑھ کر نہیں ہوا‘‘ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ خطابت کا زور اور خاص انداز یورپ کو اندلس کے مسلمانوں سے ملا۔ حالی نے ان تمام نکات کو خوبصورتی سے نظم کیا ‘‘۔ ۴؎
اسی طرح ایک اور جگہ پر جہاں حالی یونانی فلسفے پر تنقید کرتے ہیں تو تقی عابدی اس پر اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے اور اسلامی فلسفے اور دیگر فلسفوں کا تقابل بھی کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
’’ حالی ؔ نے یونان کے فلسفے کو ایک بیکار مشق بتایا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ اسلامی فلسفہ اور یونانی فلسفہ میں مشترک قدریں موجود ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حالیؔ فلا سفر نہیں تھے شاید انہیں فلسفے کا ابتدائی قاعدہ بھی سمجھ میں نہ آیا ہو۔ اسلامی فلسفیوں نے یونان، ہندی اور دوسرے قدیم فلسفوں
سے استفادہ کیا ہے۔ اس مختصر تحریر میں یہ گنجائش نہیں کہ ہم یہاں بحث کا دفتر کھول دیں۔ حالی کے مسدس کا یہ حصہ ہمیشہ بحث و مباحثہ کا محور رہے گا۔ ۵؎
مسدس حالیؔ میں بیان کردہ حقائق و واقعات کی بہ استناد تشریح کے ساتھ ساتھ حالی سے نظریاتی سطح پر اختلافات کو بھی تقی عابدی نے برملا سپرد قلم کیا ہے۔ اکابرین کے تاثرات کے عنوان ایک مکمل باب شامل کتاب ہے جس میں سرسیّد سے لے کر عہد حاضر کے اہم مصنفین کا آراء کو یکجا کیا گیا ہے جو اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے ۔ جبکہ’’ اقتباس مسدس ‘‘کے نام سے کسی ایک موضوع پر کہے گئے اشعار کو عنوانات کے تحت جمع کرنا بھی قابل صد تحسین امر ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مکمل مسدس کو مع ضمیمہ اور عرض حال کے مشکل الفاظ کی تشریح کے ساتھ شائع کیا گیا ہے تاکہ نئی نسل کے نوجوان بھی اس سے فیض یاب ہوسکیں۔ بے شک تقی عابدی نے حالی کے بنیادی مقصد کو نہ صرف یہ کہ سمجھا ہے بلکہ اسے عملاً برتا بھی ہے۔ حالی شناسی کے تحت ان کی اس کوشش کو ہر طبقے میں قبو لیت حاصل ہوگی۔
حوالہ جات:۔۔۔۔
۱۔ ڈاکٹر تقی عابدی: ’’ مسدس حالی: مع سوانح، آرائے اکابرین ، تشریح و تجزیہ‘‘۔ ص ۱۹
۲۔ ڈاکٹر تقی عابدی: ’’ مسدس حالی: مع سوانح، آرائے اکابرین ، تشریح و تجزیہ‘‘۔ ص ۷۵
۳۔ ڈاکٹر تقی عابدی: ’’ مسدس حالی: مع سوانح، آرائے اکابرین ، تشریح و تجزیہ‘‘۔ ص ۹۳۔۹۲
۴۔ ڈاکٹر تقی عابدی: ’’ مسدس حالی: مع سوانح، آرائے اکابرین ، تشریح و تجزیہ‘‘۔ ص ۸۹
۵۔ ڈاکٹر تقی عابدی: ’’ مسدس حالی: مع سوانح، آرائے اکابرین ، تشریح و تجزیہ‘‘۔ ص ۹۶
***