عبدالحکیم
ریسرچ اسکالر
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
حسین الحق: شخصیت اور فکرو فن کے آئینے میں
جب ہم عہد حاضر میں فکشن نگاروں کے مسائل و موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں توان میں بہت سی قدآور شخصیت نظر آتی ہیں جنہوں نے انسانی دکھ ،درد اور اس کے انتشار و اضطراب ،زندگی سے فرار ، جہیز اور نئی تعلیم ،تعلیمی نظام کی اہمیت وضرورت کے مسائل ،عدم تحفظ کا مسئلہ ،فرقہ وارانہ فسادات ،ہجرتوں کا کرب ،فر د اور اس کا جذباتی زندگی سے جڑاہوا ہو نا ،بے چہر گی ،خوف ،تنہائی ،جنسی بحران ،نفسیاتی پیچید گیاں،ذات پات کے نام پربھید بھائو ،قدامت پرستی ،غلط رسم و رواج ،شہروں کی زندگی ،شہروں میں رہنے والے غریب ونادار افراد ،مزدوراور کسانوں کے مسائل ، عورتوں کی زبوں حالی ، جیسے مسائل وموضوعات کو اپنے فکشن میں جگہ دے کر اردو فکشن کے سرمائے میں اضافہ کیا ہے ۔انہی فکشن نگاروں کی فہرست میں ایک معتبر نام حسین الحق کا بھی ہے ۔جن کی پیدائش 2نومبر 1949ء ،بہار کے سہسرام ضلع میں ایک صوفی گھرانے میںہوئی ۔
حسین الحق کے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور نقاد وادیب پروفیسر وہاب اشرفی رقمطراز ہیں:’’یہ۲ نومبر ۱۹۴۹ء کو سہسرام کے ایک محلہ املی آدم میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد حضرت مولانا انوارالحق نازش سہسرامی ایک عالم ،صوفی شاعر ،مقرر اور نثر نگار تھے ۔حسین الحق کے دادا بھی صوفی اور حافظ تھے ۔اسی مذہبیانہ ماحول میں حسین الحق نے آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی ۔گویا علم و فضل انہیں وراثت میں ملی‘‘ ۔(وہاب اشرفی :بہار میں اردو افسانہ نگاری ،بہار اردواکادمی ،۱۹۸۹ء ص۵۳)
حسین الحق نے مدرسہ اگزامنیشن بورڈ پٹنہ سے مولوی پاس کیا اور مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام میں عالم تک پڑھا۔ایس پی جی کالج سہسرام سے اردو آنرس کاامتحان دیااور یونیورسٹی میں اول آئے۔پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور اول رہے۔فارسی میں ایم اے مگدھ یونیورسٹی سے کیا اور یہیں سے’ اردو افسانوں میں علامت نگاری ‘کے موضوع پر۱۹۸۵ء میں پروفیسر افصح ظفرکی نگرانی میں پی ایچ ڈی مکمل کی ۔۱۹۷۲ء میں گروگوبند سنگھ کالج میں بحیثیت لکچرار جوائن کیا ۔۱۹۷۶ء میں گیا کالج میں بحالی ہوئی ۔۱۹۸۱ء میں مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا میں تبادلہ ہوا جہاں سے ۲۰۱۴ء میں سبکدوش ہوئے۔حسین الحق نے لکھنے پڑھنے کاآغاز دس برس کی عمر میں کر دیا تھا ۔انہوں نے پہلی کہانی ۱۹۵۸ء میں ’کتاب کھوگئی ‘کے نام سے لکھی۔ان کی پہلی کہانی ’عزت کا انتقال ‘۱۹۶۵ء میں ماہنامہ ’کلیاں ‘(لکھنو) میں شائع ہوئی ۔پہلا افسانہ ’جیسے کو تیسا ‘ہفتہ وار’ تیج‘(دہلی)میں ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا ۔پہلا مضمون ’اردوشاعری پر گاندھی جی کے اثرات ‘۱۹۶۹ء میں ’بہار کی خبریں ‘(پٹنہ) میں شائع ہوا۔پہلی نظم ۱۹۷۲ء میں ’صبح نو ‘(پٹنہ ) میں شائع ہوئی ۔
حسین الحق کی شخصیت سے متعلق ان کے ہم عصر مشہور فکشن نگار ’عبدالصمد ‘لکھتے ہیں :’’حسین الحق کے ہاں کچھ عجیب تضادہیں اس کیفیت کو کہیں اور ڈھونڈنا مشکل ہے ۔وہ ایک بے حد مذہبی اور خانقاہی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ۔تعلیمی پس منظر میں بھی مذہبی تعلیم غالب ہے ۔اب وہ ماشا ء اللہ صاحب سجادہ بھی ہیں ۔ان کے والد ماجد حضرت مولانا سید شاہ انوارالحق نازش سہسرامی اپنے وقت کے بڑے عالم اور سالک تھے ۔ان کی شخصیت میں کچھ ایسی کشش اور وقار تھا کہ چند لمحے ان کے قدموں میں بیٹھنے والا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا اور وہاں سے کچھ حاصل ہونے کچھ پانے کااحساس لے کر ہی اٹھتاتھا۔یہ بات فطری ہے کہ خلف اکبر ہونے کے باعث حسین الحق پر انہوں نے خاص توجہ صرف کی ہوگی ‘‘۔(عبدالرحیم:حسین الحق کے افسانے :ایک تنقیدی نظر،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس )
حسین الحق نے تقریباً دوسو افسانے ،۱۲۵/ادبی مضامین ،۲۵ مذہبی اور صوفیانہ مضامین اور ۳۵ ،۴۰ شعری تخلیقات شائع ہوچکیں ۔’انوار صبح ‘ (سہسرام )’آہنگ ‘ (گیا ) ’تصوف ملی ‘ (کلکتہ) ’جام شہود ‘(کلکتہ)کی ادارت میں شامل رہا ۔سہسرام سے ایک ہفتہ وار ’سہسرام ایکسپریس ‘ جاری کیا جس میں بطور مدیرہ اہلیہ بی نشاط اسرار کا نام شامل رہتا تھا ۔
اس کے معاونین میں عین تابش اور زین رامش تھے مگر جس کا اداریہ اور بیشتر مضامین میں خود لکھا کرتا تھا ۔’دائرہ حضرت وصی ‘کی سجاد گی کاشرف بھی حاصل تھا۔اسی نسبت سے انجمن تصوف پسند مصنفین بھی قائم کی ۔۱۹۷۷ء میں بی نشاط اسرار سے شادی ہوئی ۔جن سے دو بیٹیاںاور دو بیٹے پیداہوئے ۔بڑی بیٹی ایماحسین نے ہمدرد سے بی آئی ٹی کیا ،چھوٹی بیٹی ایمن نشاط نے علی گڑھ سے اکنومکس میں ایم اے اور بی ایڈ کیا۔ بڑا بیٹا شارع علی حق کمپیوٹر انجینئر ہے اور فی الحال امریکہ میں بر سرروز گار ہے ۔چھوٹا بیٹا شعور نازش ایم بی بی ایس کے بعد ابھی زیرتعلیم ہے۔اردو ادب میں موصوف کی حیثیت کئی اعتبار سے اہم اور قابل قدر ہے ۔انہوں نے افسانہ نگاری ،ناول نگاری ،پر طبع آزمائی کی اور بحیثیت نقاد ،محقق ومترجم بھی انہوں نے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
امتیاز احمد علیمی لکھتے ہیں :’’حسین الحق ایک ایسے عہد کے پر وردہ ہیں جب بہار میں ایک ساتھ کئی نام بہت تیزی کے ساتھ اردو ادب میں ابھر رہے تھے ۔حسین الحق ،عبدالصمد ،شفق ،اور شوکت حیات وغیرہ اس زمانے میں بہار سے نکلنے والے بیسیوں ادبی رسائل میں اپنی چمک بکھیر رہے تھے لیکن اس عہد میں شفق ،عبدالصمد اور حسین الحق کا نام ایک سانس میں لیا جاتا تھا ۔اس سے ان کی ادبی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ‘‘۔(امتیاز احمد علیمی :شفق بحیثیت ناول نگار ،دہلی ،ایجوکشنل پبلشنگ ہائوس، ۲۰۱۴ء ،ص۳۷)
حسین الحق کی ادبی خدمات میں آٹھ افسانوی مجموعے :(۱)پش پردئہ شب،۱۹۸۱ء، (۲) صورت حال،۱۹۸۲ء، (۳) بارش میں گھرامکان،۱۹۸۴ء، (۴)گھنے جنگلوں میں ،۱۹۸۹ء،(۵)مطلع ،۱۹۹۶ء،(۶) سوئی کی نوک پر رکا لمحہ،۱۹۹۷ء،(۷) نیو کی اینٹ،۲۰۱۰ء، (۸) زخمی زخمہ قابل ذکرہیںجو شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ،افسانے کے باالمقابل ناول کے میدان میں وہ بہت زیادہ کارہائے نمایاں انجام نہیں دے سکے ۔پھر بھی اپنے چار ناول ،بولو مت چپ رہو ،۱۹۹۰ء،فرات ،۱۹۹۲ء ، اماوس میں خواب ،۲۰۱۷ء، آشوب ،کے ذریعہ ناول کے میدان میںبھی اہمیت و انفرادیت کو تسلیم کرالیا ہے ۔ان کو شاعری سے بھی خوب لگائو رہا ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ،آخری گیت ،۱۹۷۱ء میں شائع ہوا ۔حسین الحق بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور اس فن میں انہیں مہارت تامہ حاصل ہے ۔انہوں نے اپنے فکشن میں جن موضوعات کاانتخاب کیا ہے ان میں، قدروں کا زوال ،رشتوں کا بکھرائو ،مذہب اور سیاست میں ہونے والی تبدیلیاں ،بے سمتی ،ذات کی شناخت ،آزادی کے نام پر عورت کی پستی ،مشترکہ تہذیب،مشرقی تاریخ میںتہذیبوںکے سیاسی و سماجی ٹکرائواوربنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت کابیان ،ہجرتوںکاکرب،تعلیمی نظام کی اہمیت وضرورت کے مسائل ،عدم تحفظ کا مسئلہ ،واقعا ت وحادثات ،Partitionاور اس کے عوامل وغیرہ خاص طورپر قابل ذکرہیں ۔
حسین الحق کی تخلیقات کامطالعہ کرنے کے بعدیہ اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے آس پاس کے ماحول ،رہن سہن ،طرززندگی ،سماجی ناانصافی اور ظلم و ستم کو باریک بینی سے دیکھا اور اسے اپنے ادب کا موضوع بنایا۔
حسین الحق نے اپنے عہد ،ماحول اور اس کے تضادات وتصادمات کو ایک ایسے تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے جس میں انسان کی فکر ی انفرادیت کے ساتھ ساتھ افسانے کی جمالیاتی عناصر بھی موجود ہیں۔ وہ اپنے منفرد انداز واسلوب کی وجہ سے افسانوں اور ناولوں کی دنیا میں ایک اہم اور دائمی مقام قائم کیاہے ۔ فکشن کے علاوہ انہوں نے تحقیق وتنقید،سوانح، تاریخ،تالیف اور مذہبی موضوعات پر بہت سارے مضامین اور کتابیںبھی لکھیں ہیں ۔جن کے تعلق سے اگرچہ یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہے کہ ان کا تعلق افسانے کے کس دبستان سے ہے ،کیوں کہ ان کے افسانو ںکے آنگن میں مختلف رجحانات اور نظریات کے موتی بکھرے پڑے ہیں ۔البتہ ان کے بیشتر افسانوں میں ما بعد جدیدیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے ۔
حسین الحق کی افسانے کے حوالے سے عبد الرحیم لکھتے ہیں :’’حسین الحق نے اپنے افسانوں میں علامت،تمثیل ،اساطیر،اور ایہام سبھی کوبرتا ہے لیکن کہانی سے وہ اپنا رشتہ کبھی نہیں توڑ تے ۔نئی تکنیک اورنئے تجربے کے باوجود ان کی کہانی گنجلک نہیں ہوتی ۔انہوں نے مختصر اور طویل دونوں طرح کے افسانے تحریر کئے ہیں ۔نئے تجربے کے ساتھ کہانی کو بر قرار رکھنا یہی حسین الحق کا کمال ہے اور یہی ایک بڑے افسانہ نگار اور فنکار کی پہچان بھی ہوتی ہے‘‘ ۔(عبدالرحیم :حسین الحق کے افسانے :ایک تنقیدی نظر ،دہلی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس )
حسین الحق نے جس زمانہ میں افسانہ نگاری کی ابتداکی وہ ۶۰ کی دہائی کازمانہ تھا۔انہوں نے فکشن کے میدان میں دواہم رجحانات ’جدیدیت ،اور ’مابعد جدیدیت ،کو اپنی آنکھوں سے دیکھااور ان دونوں کے نشیب و فراز کا مشاہدہ بھی کیا ۔انہوں نے دونو ں رجحانات کے تحت افسانے تخلیق کئے ہیں ۔ان کے ابتدائی افسانوں میں جدیدیت کے تمام اوصاف مو جود ہیں ۔
عہد مابعد جدیدیت میںحسین الحق کا پہلا افسانہ 1965ء میں ’پسند ‘ کے نام سے ماہنامہ ’ جمیلہ ‘ دہلی سے شائع ہوا ۔انہوںنے اپنے ہمعصر ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے مختلف رنگوں کو جس ہنر مندی اور سلیقے سے پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔اسی عہد کی زندگی اور معاشرت کا مصنف کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان کامشہور ناول ’فرات‘اس عہد کی تہذیب کا مکمل مرقع بن گیا ہے جس میں سیاسی،سماجی، معاشی ،ثقافتی اور اخلاقی غرض زندگی کا ہر پہلو اور ہر رنگ سمٹ آیا ہے ۔انہوں نے ’فرات ‘ میں ماضی کے پس منظر میں جدید عہد میں ذات پات سے طبقاتی کشمکش ،سیاسی اور سماجی بے راہ روی ،مسلمانوں کی زبوں حالی،بابری مسجد ،اخلاقی و روحانی قدروں کی شکست وریخت وغیرہ جیسے مسائل کو پیش کیا ہے ۔اس ناول کے حوالے سے صغیر افراہم رقمطراز ہیں :’’حسین الحق نے وقار احمد کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک کہانی قاری کے سامنے پیش کر دی اور سوچنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کے نئے در کھول دیے ۔اس عبرت ناک کہانی میں مرکزیت وقار احمد حاصل ہے جن کی پشت پر ابا جان اور داداحضرت کی یادیں ،سامنے بیٹے بیٹی ،پوتے پوتی اور درمیان میں خود وقار احمد اور ان کی پچھر سالہ زندگی کے نشیب و فراز ہیں ‘‘۔(صغیر افراہیم :پنجنک کام ،مضمون ،فرات تشنہ لب انسانیت کااعلامیہ )۔اس ناول کا بیشتر حصہ شعور کی رو اور فلیش بیک کی تکنیک پر مبنی ہے اورایک اہم موضوع NOSTALGIA بھی ہے ۔
اسی طرح حسین الحق نے’ بولو مت چپ رہو ‘میں اسکول لیول پر بہار میں تعلیمی بد نظمی اور تعفن زدہ تعلیمی نظام کے پردہ کو فاش کیا ہے ۔حسین الحق نے استاد کی عینک لگاکر پورے تعلیمی ڈھانچے کو نشان زد کیا ہے ساتھ ہی انہوںنے نظام تعلیم کی بدعنوانیوں کو اپنے مخصوص لب ولہجہ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔’اماوس میں خواب‘ ناول بڑے کینوس پر لکھا گیا ہے ،اس میں آزادی کے بعد کی سیاسی ،سماجی صورت حال بھی ہے اور مسلمانوں کی زندگی میں پیش آئے تغیرات و انقلابات بھی ۔تعلیم کی کساد بازاری بھی ہے ، بہارمیں الیکشن کی ڈیوٹی بھی اورسیاست کی عیاری بھی ہے ۔ اس میں بھیونڈی ،مالیگائوں،بھاگل پور ،بابری مسجد ،جے این یو،گجرات ،اخلاق ،نتیش مودی کی دوستی،لوجہاد ،گئورکچھا ،وغیرہ جیسے مسائل کوپیش کیا ہے۔
حسین الحق کے ادبی کارناموں میں تقریباًدوسو افسانے ،۱۲۵/ادبی مضامین ،۲۵ مذہبی اور صوفیانہ مضامین اور ۳۵ ،۴۰ شعری تخلیقات شائع ہوچکیں ۔آٹھ افسانوی مجموعے،چار عہد ساز ناول ،چار نثری کتابیں شائع ہوچکی ہیں ،جس میں ’ مطلع ‘ کو بہار اردو اکیڈمی نے پہلے انعا م اور ناول ’ فرات ‘ کو دوسرے انعام سے نوازا ،اور افسانوی مجموعے ’ پس پردہ شب ‘ اور صورت حال‘ کو بھی دوسرے انعام دیاگیا۔ ۲۰۱۷ ء میں مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ کی طرف سے ان کو مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ حسین الحق کو ۲۰۱۸ء کا غالب ایوارڈ برائے اردو نثر ، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی طرف سے بھی سرفراز کیا گیا ،یہ ایوارڈ ۱۲ دسمبر ۲۰۱۸ء کو بین الاقوامی غالب تقریبات کے افتتاحی جلسے میں سرفرازکیا گیا ۔ حسین الحق نے تصوف و روحانیت کے موضوع پر بھی مسلسل مقالات تحریر کئے ہیں۔
حسین الحق کی مشہور تالیفات وسوانح کے نام یہ ہیں : آثار حضرت وحید بنارسی،۲۰۰۳، (تصنیف حضرت سرور اورنگ آبادی) ،غیاث الطالبین (تصنیف حضرت مولاناغیاث الدین اصدقی) ، فوزوفلاح کی گمشدہ کڑی (تصنیف مولاناانوار الحق شہودی) ، شرف آدم کا نقطئہ عروج (تصنیف مولانا انوارالحق شہودی )،آداب حج وزیارت ،آثار بغاوت (تذکرہ قاضی علی حق) ، آثار حضرت وصی،( حضرت وصی کی سوانح )، مزیدبرآں انہوں نے اپنے والد انوارالحق شہودی کے دو شعری مجموعے مرتب کرکے شائع کیے۔ انہوں نے قاضی علی حق اکیڈمی کے نام سے باقاعدہ اشاعتی ادارہ ’ آمڈاری ہائوس‘ سہسرام میں قائم کیا ،جہاں سے اپنی اور اپنے والد کی نگارشات کے علاوہ شعراء و ادباء کی معیاری کتابیں بھی شائع کیں ۔ان سب کے علاوہ اساتذہ کی اہمیت ،نثرکی اہمیت،اردو افسانہ ہندوستان میں (۲۰۱۰ء )،تفہیم تصوف(۲۰۱۲ء )، حسین الحق کے منتخب افسا نے (۲۰۱۹ء )،اور اردو فکشن ہندوستان میں ان کی گراں قدر تنقیدی و تحقیقی تصانیف ہیں ۔ حسین الحق اپنے دور کے ان تخلیق کاروں میں سے تھے جن کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔ ان کے کارنامے ہمیشہ دانشوروںکی محفلوں کی زینت رہیں گے جوان کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھیں گے ۔
حسین الحق کی بنیادی خصوصیات میں عصری آگہی،تاریخی حسیت، علامتی اظہار،سیاسی طنز اور متصوفانہ معاملات ہیں۔جسے انھوں نے اپنے فکشن میں سمونے کی کوشش کی ہے حسین الحق دور اندیش اورحساس ذہنیت کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں معمولی واقعات کو غیر معمولی بناکر پیش کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ حسین الحق نے جدید رویوں کے ساتھ بھی افسانے بننے کی کوشش کی مگر انھوں نے علامتوں سے اپنے بیانیہ کو بوجھل نہیں کیا ، بلکہ وہ حالات کے مدنظر قارئین سے رویہ اختیار کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کا فکشن کبھی قاری کی دنیا میں اجنبی نہیں رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تخلیقی اجنبی پن اہم ہوتا ہے ۔ اسی اجنبیت سے جدت آتی ہے مگر حسین الحق نے چونکانے والے تجربات
نہیں کیے ، بلکہ جانے پہچانے رویوں میں انھوںنے اجنبی پن سے کام لینے کی کوشش کی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی فکشن میں ہمیشہ جدت کا احساس ہوتا مگر ماورائی نظام کا معاملہ سامنے نہیں آتا ہے۔ گویا وہ کل بھی قاری کے دلوں میں جیتے تھے اور کل بھی جیتے رہیں گے ۔
***
!بہت خوب جناب