You are currently viewing داستان کی شعریات: مبادیات و ممکنات

داستان کی شعریات: مبادیات و ممکنات

امتیاز احمد

ایم۔ اے۔ اردو

شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی

داستان کی شعریات: مبادیات و ممکنات

افسانوی ادب میں صنفِ داستان کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل  ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی قرات اور اور مطالعہ کے حوالے سے ہمیشہ اعتراض و اشکال اور سوالات ہوتے رہے ہیں نیز اس کی ادبی معنویت اور صنفی شناخت کے لیے فنی اصول و ضوابط اور لوازمات و مقتضیات کو زیرِ بحث لایا گیاہے۔ نتیجتاً داستان کی شعریات متعین کرنے کی ایک شعوری کوشش شروع ہوئی۔ داستان کی ممکنہ شعریات اور لوازمات پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس کی تعریف و تفہیم، تشکیلی عناصر و اجزاء اور تہذیبی و تخلیقی پس منظر کا اجمالی جائزہ پیش کر دیا جائے تاکہ اس کی شعریات کی تفہیم میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔

داستان ایک زبانی بیانیہ ہے جس کی توضیح و تشریح کی چنداں ضرورت نہیں البتہ اس کے محاسن و معائب کو اجاگر کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کے ممکنہ عناصر و لوازمات معلوم ہوسکے۔ ازمنہ گزشتہ میں عام طور پر لوگ اپنا وقت گذارنے کے لیے ایک دوسرے کو عجیب و غریب کہانیاں اس انداز میں سناتے کہ سامعین کا اشتیاق دوگنا ہو جاتا اور وہ حیرت و استعجاب سے ان کہانیوں کو بار بار سننے کی خواہش مند ہو جاتے۔ بار بار دہرائے جانے سے یہ کہانیاں زبانِ زد خاص و عام ہو جاتیں اور صدیوں سینہ بہ سینہ چلتی رہتیں۔ ہر ایک ملک و قوم میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ہی طرح کی کہانی رائج ہوتی جس کی جڑیں عوام کی ان مجلسوں اور محفلوں سے منسلک ہوتیں جن میں کہانی کار کہانی بیان کرتا اور اس کی تخلیق اور بنت میں بہت سے عوامل و عناصر کو بروئے کار لاتے جنہیں عام طور پر اجزائے ترکیبی کے نام سے موسوم کیا جاتا۔ ان اجزاء میں قصہ، پلاٹ، کردار اور زبان و بیان کا بہت اہم رول ہوتا۔ مضمون کے طوالت سے بچنے کے لیے یہاں صرف ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

قصہ :- داستان کی بنیاد قصہ و کہانی پر ہی ہوتی ہے جو مختلف چھوٹی بڑی کہانیوں کے ذریعے اپنے اختتام کو پہنچتی ہے یعنی داستان ایک کہانی سے شروع ہوتی ہے اور ختم ہونے تک کئی ضمنی کہانیوں کو اپنے کینوس میں سمو لیتی ہے۔

پلاٹ :- داستان کا پلاٹ اکثروبیشتر پیچیدہ اور مبہم ہوتا ہے جس میں کوئی منطقی ارتباط نہیں ہوتا البتہ پلاٹ کی یہ پیچیدگی اور ابہام داستان میں تحیر و تجسس کا عنصر پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے سامعین کی دلچسپی اور اشتیاق میں ارتعاش پیدا ہوتا رہتا ہے۔

کردار :- داستان کا کردار یک رخی، جامد اور غیر فعال ہوتا ہے اس کی حرکات و سکنات اور

اعمال و افعال ہمیشہ ایک سا رہتا ہے۔ کردار کی یہ غیرفعالیت داستان گو اور تہذیب و معاشرت کے اس عقیدہ و نظریہ کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں اگر کوئی نیک ہے تو وہ ہمیشہ نیک ہی رہتا ہے اور اگر کوئی برا ہے تو ابد تک وہ برا ہی رہتا ہے۔ اس نقص کے باوجود داستان کے کردار اکثر مثالی ہوتا ہےخواہ یہ مثالیت نیکی کی ہو یا بدی کی۔

اسلوب :- داستان کا طرز یا اسلوب عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تشریحی اور دوسرا ڈرامائی۔ بیشتر داستانیں تشریحی اسلوب اور بیانیہ انداز میں بیان کی جاتی ہیں جبکہ ڈرامائی طریقہ کار بہت کم داستانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

زبان :- داستان کی زبان سریع الفہم اور سادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بیانیہ ہے جس کا سامع سامنے موجود ہوتا ہے اور وہ داستان سن کر فوری ردعمل کا اظہار کرتا ہے نیز اپنی آؤ بھاؤ سے دلچسپی یا عدم دلچسپی کا تاثر دیتا رہتا ہے۔

تہذیبی پس منظر :- داستانیں جس زمانے میں کہی یا سنائی جاتی تھیں اس میں محیر العقول واقعات، مافوق الفطرت عوامل، توہماتی عناصر، خیر و شر کی متصادم فضا، جادوئی و طلسماتی کائنات اور جنوں و پریوں کے تصورات عوام و خواص کے عقائد اور تہذیب و ثقافت میں قائم و رائج تھے۔ اس لئے ان میں عموماً وہی کہانیاں بیان کی جاتیں جن میں مذکورہ بالا عناصر اور خصوصیات موجود ہوتے تھے۔

تخلیقی پس منظر :- داستان سنانے کا مقصد نہ تو اپنی یکتائی کا اظہار ہوتا اور نہ ہی ادبی صنف کی آبیاری بلکہ داستان صرف تفریحِ طبع، تسکینِ نفس اور وقت گزاری کے لیے سنائی جاتی۔ عام طور پر جب انسان دن بھر کے کام کاج سے تھک ہار کر شام کو گھر لوٹتا تو اپنی تھکن اور شکن دور کرنے کے لئے محفل و مجلس سجا لیتے جس میں کوئی داستان گو آکر داستان شروع کر دیتا بقول غالب “داستان طرازی منجملہ فنون سخن ہے، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے”۔

داستان کا اولین مقصد تو تفریحِ طبع ہی تھا لیکن اس کے ذریعے داستان گو کبھی اخلاق و حکمت کا درس دیتا، کبھی یکجہتی و ہم آہنگی کا سبق تو کبھی قومی و مذہبی تہذیب و ثقافت، رسوم و عقائد اور تصورات و توہمات کی منظر کشی کرتا غرض کہ وہ اپنی افتادِ طبع اور قادر الکلامی سے جیسا چاہتا ویسا مضمون باندھ لیتا۔ مختصر یہ کہ داستان ایک زبانی بیانیہ ہے جو بنیادی طور پر سننے سنانے والی صنف ہے لہٰذا اس کے مطالعے اور قرات کے تقاضے اور رسمیات دیگر اصنافِ نثر سے مختلف ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ سنانے کا عمل دراصل اندازِ پیشکش اور طرزِ ادائیگی پر منحصر ہوتا ہے یعنی کسی متن یا فن پارے کو کس طرح بیان کیا جائے کہ داستان گو اور سامعین کے درمیان افہام و تفہیم کا علاقہ بآسانی پیدا ہو جائے۔

داستان کی شعریات اور رسمیات کے تفہیم و تعبیر میں شمس الرحمن فاروقی کے تین اہم نکات کو بیان کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ تین نکات نثر کی دیگر اصناف کی شعریات اور مضمرات کے مابین فرق و تمیز پیدا کرتے ہیں اور ناقد و مبصر کے ادراکی التباس کو کسی حد تک دور کرتے ہیں۔

(الف) داستان کی شعریات کو ہم اردو کی دیگر کلاسیکی اصناف کی شعریات سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔

(ب) جس طرح غزل یا مرثیہ جیسی کلاسیکی اصناف کی شعریات کا پورا شعور حاصل کیے بغیر ہم ان کی صحیح تحسین نہیں کر سکتے اسی طرح داستان کی شعریات کو جانے بغیر داستان کا مطالعہ کرنا ہمیں طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا کر دے گا۔

(ج) داستان کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنے رویے کو منفی سے مثبت کرنا ہوگا۔ مربّیانہ طرزِ فکر کو ترک کرنا ہوگا اور اس بات کا یقین کر کے چلنا ہوگا کہ داستان بھی اعلیٰ درجے کی تخلیقی کارگزاری ہے، بچوں یا غیر ترقی یافتہ ذہنوں کا کھیل نہیں نہیں۔

مندرجہ بالا نکات میں فاروقی صاحب اردو کی دیگر نثری و شعری اصناف کی صنفی شناخت، فنی معیار اور ادبی معنویت و افادیت کا اقرار کرتے ہوئے داستان کی فنی اہمیت اور حیثیت کو تسلیم کرانے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں اور اس سے متعلق ہر طرح کی منفی و غیر منطقی فکر و خیال اور رجحان کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ بلاشبہ داستان اپنے زمانی و مکانی پس منظر اور تہذیب و تمدن کے تناظر میں ایک غیر معمولی اور قابلِ تحسین صنف رہی ہے جس سے افسانوی ادب کی بیشتر صنف نے کسبِ فیض کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر صنف چاہے وہ نثری ہو یا شعری ایک مخصوص عہد اور محدود دور تک ہی مشہور و معروف اور قابلِ قبول رہتی ہے پھر وہ رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے لگتی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ داستان ایک سودِ زیاں ہے، داستان کی ادبیت اور معنویت سے مفر نہیں اور نہ ہی اس کو نظر انداز کرکے ہم ناول و افسانہ کی صحیح تفسیر وتوضیح کر سکتے ہیں البتہ اس کی نشاۃ ثانیہ اسی طرح بعید از وجود ہے جس طرح قصیدہ و مثنوی کی۔ تفسیر و تفصیل سے احتراز کرتے ہوئے اب میں اصل موضوع کی طرف بڑھتا ہوں اور داستان کی شعریات کی کچھ اہم جہات کو ذکر کرتا ہوں۔

بیانیہ پن

داستان کی شعریات میں سب سے اہم اور قابلِ ذکر اس کا بیانیہ پن ہے۔ داستان ایک زمانے تک زبان در زبان اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اس وجہ سے بیانیہ پن کی اہمیت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ زبانی بیانیہ میں بیان کنندہ(راوی) کی طرزِ ادائیگی اور جسمانی حرکات و سکنات بہت اہم ہوتے ہیں اسی وجہ سے داستان میں کردار سے زیادہ راوی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ اسی پر کہانی کے ارتقاء اور دلچسپی کا دارومدار ہوتا ہے۔ بیانیہ کی اپنی خصوصیات اور مضمرات ہوتے ہیں جن کے سہارے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ مثلاً سامع کا حاضر و ناظر ہونا، اس کے اور بیان کنندہ کے درمیان فوری ردعمل اور تاثرات کا تبادلہ جس سے داستان گو سامع کے اشتیاق، جذباتی تبدیلی، حیرت و استعجاب، خوشی و غم اور گریہ و آہ زاری وغیرہ تمام طرح کے احوال و کوائف میں شریک ہوتا ہے اور اپنے تخیلاتی پرواز، لفظی بازیگری اور مسحورکن ادائیگی سے دلچسپی کے عنصر کو برقرار رکھنے کی حتی الامکان سعی کرتا ہے۔

بیانیہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے واقعات اور حالات بیک وقت ظہور میں آتے ہیں جنہیں ایک ساتھ بیان کرنا ناممکن ہے مثلاً باغ و بہار کے چار درویش کو دیکھ لیجئے سب کے واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوتے ہیں لیکن جگہیں الگ الگ۔ اسی طرح داستان میں بیک وقت رقص و سرور کی محفل اور جنگ و جدل کی فضا رونما ہوتی ہے ان سب کو ایک ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا اس لئے بیان کنندہ ان میں سے کسی واقعہ کو پہلے بیان کرتا ہے، کسی کو بعد میں، کبھی وہ ایک واقعہ کو درمیان میں چھوڑ کر دوسرے واقعہ کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ اسی ترتیب و تنظیم کی وجہ سے داستان کا پلاٹ پیچیدہ، گنجلک اور غیر مربوط نظر آتا ہے جو کہ اس کی خوبی ہے نہ کہ خامی۔

بیانیہ کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں بیک وقت دو حالات سے رو برو کراتی ہے۔ ایک وہ حالات و واقعات جن سے ہم دو چار ہوتے ہیں اور دوسری وہ بیانیہ متن یا کلام جس کے ذریعے ہمیں ان واقعات اور حالات سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ بیانیہ کی اسی خصوصیت کو A. J. Greimas نے “بیانیہ کی ظاہری اور داخلی سطح سے تعبیر کیا ہے” جبکہ Gerard Genette نے “بیانیہ میں درج کردہ تمام واقعات و کوائف کو مدلول Signified اور بیانیہ متن یا کلام کو دال Signifier کا نام دیا ہے”۔ مختصر یہ کہ بیانیہ کی کئی خصوصیات اور شکلیں ہوتی ہیں۔ داستان بھی بیانیہ کا ایک خود مختار اور قائم بالذات شکل ہے جس کے اپنی شعریات اور رسمیات ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ جو شعریات اور مضمرات داستان کے ہوں وہی ناول یا افسانہ کے بھی ہوں اور جو سبب و مسبب کا علاقہ ڈرامہ و فلم میں ہو وہی داستان میں بھی ہو۔ لہذا ایک صنف کو کسی دوسری صنف کی شعریات اور معیارات سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ کسی صنف کی کیا خوبیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں اس پر تو بحث و مباحثہ ہو سکتا ہے لیکن دو مختلف اصناف میں کون برتر یا فروتر ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی ایک صنف کی شعریات کو معیار و میزان نہیں بنا سکتے۔

طوالت

داستان اس عہد اور دور کی پیداوار ہے جس میں لوگوں کے پاس فرصت اور فارغ وقت کی بہتات تھی۔ لوگ فکرِ معاش سے بے نیاز، مسائلِ دنیا سے آزاد، سامانِ تعیش سے معمور اور آلائشِ آسودہ حالی سے معمور ہوا کرتے تھے۔ ایسی صورتحال میں وقت گزاری کے لیے شراب و کباب کے علاوہ سب سے مرغوب و محبوب مشغلہ داستان سننا اور سنانا ہوتا تھا جس سے دن بھر کی تھکن سے آزادی اور وقتی فرحت و مسرت کا احساس بیک وقت حاصل ہوتا تھا۔ لہٰذا عوام اپنا فارغ وقت داستان سننے میں صرف کیا کرتے تھے۔ عوام کی اسی اشتیاق اور رجحان کو دیکھ کر داستان گو اصل کہانی میں بہت سی ذیلی و ضمنی کہانیاں شامل کر کے داستان کو طول دینے کا شعوری کوشش کرتا اور ان ضمنی کہانیوں کو اس فنکارانہ چابک دستی سے اصل کہانی سے جوڑتا کہ وہ ایک ہی ہار کی مختلف لڑیاں معلوم ہوتی۔ بات کا بتنگڑ اس طرح بناتے کہ سامع کی سماعت کو ناگوار نہیں گزرتا اور نہ ہی ان میں اکتاہٹ و بوریت کی کیفیت پیدا ہوتی بلکہ ان میںھل من مزید کا جذبہ پیدا ہو جاتا۔ خواجہ امان دہلوی حدائق الانظار کے دیباچہ میں داستان کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ “اول مطلب مطول و خوش نما جس کی تمہید وبندش میں تواردِ مضمون و تکرارِ بیان واقع نہ ہو۔ مدت دراز تک اختتام کے سامعین مشتاق رہیں”۔

 اس اقتباس سے واضح ہے کہ داستان کی پہلی شرط طوالت ہے جسے خوش کن لفظیات اور رسمیات کے ساتھ باندھا جانا چاہیے تاکہ اس کو طول دینے میں کسی قسم کے رطب و یابس اور سامع خراش مضمون در نہ آئے بلکہ لطافتِ زبان، نزاکتِ بیان اور محیر و ما فوق فطرت واقعات کا ورود ہو جن سے سامع کی دلچسپی اور حیرت و استعجاب کی کیفیت برقرار رہ سکے۔ داستان کی طوالت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر گیان چند جین اپنی کتاب اردو کی نثری داستانیں میں رقمطراز ہیں کہ “داستان میں اس طرح کی طوالت کو غیرضروری نہیں کہا جاتا تھا کیونکہ اس سے سامعین اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ داستان کے بیان میں تکرار نہیں ہوتی، وہ اپنی قوتِ متخیلہ سے نئے نئے مضامین پیدا کرتا ہے”۔

مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں طوالت کی اہمیت و افادیت واضح ہو جاتی ہے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ طوالت داستان کا عیب نہیں بلکہ اس کا حسن ہے جس سے دلچسپی، تحیر خیزی اور تجسس کے جذبات اور عناصر ابھارنے میں مدد ملتی ہے لہٰذا جو داستان جتنی طول طویل اور تحیر خیز ہوگی وہ اتنی ہی دلچسپ، معیاری اور قابلِ ذکر سمجھی جائے گی اور مدتِ دراز تک اس کی شہرت برقرار رہے گی البتہ اس کو طول دینے میں اس کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا کہ کہیں اس میں کوئی سامع خراش واقعات یا فرسودہ مضامین شامل نہ ہو جائے کیونکہ اس سے داستان کی دلچسپی اور حیرت و استعجاب کے عنصر مفقود ہو جاتا تھا۔

واقعاتی تکرار

ہماری روزمرہ زندگی کے بہت سے واقعات اور حالات ایسے ہیں جو ہیئت و نوعیت اور مضرت و منفعت میں تقریباً یکساں لیکن ظہور میں مختلف ہیں یعنی کوئی واقعہ آج پیش آتا ہے تو کوئی دو چار دن بعد۔ جب ہم ان حالات کی روداد اپنے عزیز و اقارب کو سناتے ہیں تو اکثر و بیشتر اس کی لفظیات اور ڈکشن بدل دیتے ہیں یہی حال داستان کا بھی ہے۔ داستان ایک طویل ترین صنف ہے جس میں ایک ہی طرح کے واقعات بار بار واقع ہوتے رہتے ہیں البتہ یہ واقعاتی تکرار ایک جیسی یا ہو بہو نہیں ہوتے بلکہ ان میں کچھ کمی بیشی اور تقصیر و تفصیل ہوتے رہتے ہیں یعنی ایک جیسے واقعات کو مختلف انداز اور طرزِ بیان میں پیش کرنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں جن کو داستان طراز اپنی قوت متخیلہ اور قادر الکلامی کے توسط سے نئے ڈھنگ اور آہنگ میں بیان کرتے ہیں مثلاً شہزادے کا روز شکار پر جانا، شہزادی کا اپنے ہم جولیوں کے ساتھ سیر و تفریح پر نکلنا اور رقیب و روسیاہ کا شہزادے کے گھات میں لگنا وغیرہ۔ شمس الرحمن فاروقی داستان کی تکراری خصوصیت کے حوالے سے Fernando Savater کے نظریہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں “وہ کہتا ہے کہ جس طرح ہماری زندگیوں میں زیادہ تر چیزیں بار بار بلکہ ہر روز در آتی ہیں لیکن ہر بار وہ کچھ بدلی ہوئی ہوتی ہیں، اسی طرح داستان کے قصہ کا بھی معاملہ ہے اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ داستان کا یہ تکراری رجحان کسی نہ کسی سطح پر ہماری داخلی زندگی میں بھی موجود رہتا ہے”۔ ایک دوسری جگہ ملمن پیرن کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں”منظوم داستانوں میں تکرار صرف اس لیے استعمال نہیں ہوتی کہ اس سے بیان میں آسانی ہوتی ہے بلکہ دراصل تکرار عرصہ دراز کے مشق اور عمل کے بعد حاصل کی ہوئی ارتقائی صورت ہے”۔

متذکرہ اقتباس میں تکراری عنصر کو مشاق اور قادر الکلام فنکار کی خوبی قرار دیا گیا ہے یعنی واقعاتی تکرار کو نبھانا ہر کس و نا کس کا کھیل نہیں بلکہ یہ مہینوں سالوں کی ریاضت اور مشق سے پیدا ہوتی ہے جس طرح غزل کہنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں اسی طرح داستان میں تکراری عنصر کو فنکارانہ انداز سے ادا کرنا آسان نہیں۔ مختلف داستانوں کے مطالعے سے یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ ایک ہی مضمون یا واقعہ کو کئی انداز اور پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے جو تکرار کے باوجود فرحت و انبساط اور دلچسپی و دلجوئی کا سامان فراہم کرتا ہے البتہ داستان کی یہ تکراری عنصر پلاٹ میں بے ترتیبی، پیچیدگی اور غیر مربوطیت پیدا کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود داستان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی لہٰذا یہ داستان کی کمزوری یا نقص نہیں بلکہ اس کی خوبی اور شعریت ہے۔

ما فوق فطرت عناصر

داستان اس تہذیب و معاشرت کا ترجمان ہے جس میں توہمات و تصورات اور محیرالعقول ہستیوں پر ایمان راسخ ہوا کرتا تھا لیکن انقلابِ زمانہ کے ساتھ یہ عقائد متزلزل اور منسوخ ہوتے گئے البتہ آج بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے عقائد و نظریات میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کا وجود ہمارے تفکر و تخیل سے ماورا ہے۔ انہی ماورائی ہستیوں کو فوقِ فطرت عناصر سے موسوم کیا جاتا ہے۔ داستان میں تحیر و تجسس پیدا کرنے اور طول دینے کے لیے ان عناصر کی شمولیت ایک کارآمد اور مفید فنی حربہ سمجھے جاتے ہیں نیز ان کی موجودگی سامعین کے اشتیاق اور دلچسپی میں اضافہ کرتی ہے۔ گوئٹے کے بقول”حیرت و استعجاب اعلیٰ فن کی معراج ہے”۔ ما فوقِ فطرت ذات اور ہستی سے ظاہر ہونے والے اعمال و افعال جہاں ایک طرف تحیر خیزی کی سماں باندھتے ہیں تو وہیں دوسری طرف ایک پُر اسراریت اور سنسنی خیزی کی فضا بھی قائم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اردو کی منظوم داستانیں میں رقمطراز ہیں۔ “مافوق سے داستانوں میں پھیکاپن نہیں بانکپن پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کے مادہ تجسس اور تخیل کے لیے تازیانے کا کام کرتا ہے، دوسری طرف وہ داستان میں پیچیدگی بوقلمونی اور دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے”۔

داستانوں میں فوقِ فطرت عناصر عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مضحکہ خیز جو غیر مربوط اور بے معنی قصوں سے تشکیل پاتے ہیں جن کی کوئی قابلِ قدر اہمیت نہیں ہوتی جیسے علاؤ الدین کا چراغ اور عمرو کی زنبیل۔ دوسرے وہ ماورائی واقعات اور ہستیاں جو گہری معنویت کے ساتھ ساتھ لطافتِ ادب سے معمور ہوتے ہیں جن کے ذریعے داستان گو طلسماتی رکاوٹوں کو ناکام بناتا ہے، گمشدہ جزیروں کو دریافت کرتا ہے، غیر مانوس اشیاء کو متعارف کرتا ہے اور محیر العقول چیزوں کی نقاب کشائی کرتا ہے یعنی نامعلوم کائنات کی تلاش و جستجو فوقِ فطرت عناصر کی بنیاد ہے۔ داستان میں رونما ہونے والے واقعات و حالات ہمارے روزمرہ کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جن پر ہم قابو نہیں پا سکتے اسی وجہ سے اس کے افراد و اشخاص غیر انسانی مخلوق اور دوسری دنیا کا ساکن معلوم ہوتے ہیں البتہ داستان گو انہیں اپنے تخیل و تصور کی بلند پروازی کے ذریعے اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ ہمارے قرب و جوار سے تعلق رکھتے ہوئے بھی اجنبی نظر آتے ہیں۔ دیو، جن، بھوت اور پری ہمارے طرح ہی کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے ہیں لیکن ان کا کھانا پینا اور چلنا پھرنا ہمارے کھانے پینے سے جداگانہ ہوتا ہے نیز یہ لوگ زمان ومکان کی حدود و قیود سے آزاد ہوتے ہیں۔ ایسی دنیا جہاں طلسم و سحر کا زور ہو اور جادو ٹونے کا بول بالا ہو۔ اس میں اگر فوقِ فطرت قوت اور طاقت نہ ہو تو پھر ان مشکلات و مصائب سے چھٹکارا کیسے حاصل ہو۔ اسی لئے تائیدِ خداوندی، سحرشکن اسم اعظم اور جادوئی قلعہ اور چال کو ناکام بنانے والی لوح قدم قدم پر موجود رہتی ہے جس میں طلسماتی کائنات کو فتح کرنے کی تدبیریں اور ترکیبیں کنندہ ہوتی ہیں۔

ہمارے ناقدین ادب داستان کے فوقِ فطرت عناصر کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ ہماری جانی پہچانی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے اور یہ بعید از عقل اور غیر انسانی واقعات ہیں۔ اس اعتراض کا پہلا جواب یہ ہے کہ داستان کے تمام افراد و اشخاص ہماری دنیا سے مختلف ہوتے ہیں خواہ وہ ہیرو ہو یا ہیروئین، رقیب و عیار ہو یا کوئی اور۔ یہ سب جرات و ہمت، جود و سخا، ایثار و قربانی، تحمل و بردباری اور فیصلہ سازی میں عدیم المثال اور نہایت طاقتور ہوتے ہیں اس لیے ان کے حریف و مخالف بھی زبردست اور قوی ہیکل ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر مقابلہ اور تصادم میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہے گی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ داستان کی طوالت اور پیچیدگی میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے فوقِ فطرت عناصر کی شمولیت ناگزیر ہے کیونکہ یہ سامعین کی متجسس طبیعت کی تسکین کرتے ہیں اور ان میں اپنی حرکات و سکنات نیز مستقبل کے اقدام و اعمال کے تئیں مزید جاننے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ سید وقار عظیم اپنی کتاب ہماری داستانیں میں فوقِ فطرت عناصر کی افادیت و ناگزیریت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ “اس دنیا کی ساری چیزوں میں ان کے عجب کے باوجود آپس میں ایک خاص تناسب ہے۔ یہاں دیو ہیں تو ضروری ہے کہ انسان بھی ایسے ہوں جو ان کے مد مقابل بن سکیں۔ پریوں کا حسن ملک فریب ہے تو عشق بھی جنون فطرت ہے۔ اس دنیا کی ہر بات کی تعمیر اسی دنیا کی ہر بات سے ہونی چاہیے۔ جب یہاں انسانوں کی معمولی دنیا نہیں تو معمولی انسانوں کے سے عمل اور اخلاق کی موجودگی اعتدال کے منافی اور تناسب کے خلاف ہے”۔

اعتراض کا تیسرا جواب یہ ہے کہ فوقِ فطرت عناصر کو مضحکہ خیز اور غیر عقلی قرار دینے سے پہلے ہمیں اس عہد کا دقیق مطالعہ کرنا چاہیے جس میں یہ داستانیں کہی یا سنائی گئیں۔ ایک طرف تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر ادب اپنے دور کا آئینہ اور ترجمان ہوتا ہے لیکن دوسری طرف جب ہم کسی فن پارے کا تجزیہ اور جرح و تعدیل کرتے ہیں تو اس کے سماجی و تہذیبی پس منظر اور تصورات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اسی رویہ اور رجحان کی وجہ سے ہم فن پارے کی افہام و تفہیم میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب ہم فوقِ فطرت عناصر کے اسباب و علل کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے درج ذیل نقاط نکل کر سامنے آتے ہیں۔

( الف) تصوراتی نظریہ

داستان گو کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اس عالمِ فانی سے کسی عام انسان کا انتخاب کرتا ہے اور تراش و خراش کر ایسے قالب میں ڈھالتا ہے کہ جب وہ دوبارہ نمودار ہوتا ہے تو سب حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ داستان گو کی اسی خیالی دنیا کے بارے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں۔ “یہ دنیا مشاہدے اور فکر سے نہیں تصور و تخیل سے آئی ہے”۔

( ب) مثالیت پسندی

داستان میں بیان کردہ فطرت نگاری، کردار نگاری اور جزئیات نگاری داستان طراز کے بےمثیل و بےنظیر تخلیق کردہ مجسمے ہوتے ہیں جو ہر لحاظ سے موزوں، مناسب اور برمحل ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر پریاں اور گوپیاں سرشار ہوتے ہیں۔ یہ مثالیت پسندی تخیل اور وجدان کی مرہونِ منت ہوتی ہے جس سے سامع کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اس دنیائے گم شدہ کی تلاش میں ہمہ وقت مصروف نظر آتا ہے جو حور صفت اور اپسرا نما مخلوق کا مسکن ہے۔ مثالیت پسندی کی افادیت پر بحث کرتے ہوئے کلیم الدین احمد لکھتے ہیں۔ “انسان کی دماغی ترقی کا ایک بڑا سبب تجسس مادی ہے جو مختلف اصولوں میں ہمیشہ کار فرما رہا ہے جو ہمیں نئی نئی چیزوں کی تلاش و جستجو پر آمادہ کرتا ہے”۔

داستانوں کے خیر و شر اور نیک و بد کے مثالی کردار اسی تخیلی اختراعیت سے عبارت ہے۔ جہاں حسن و عشق کی بارش ہے وہیں گناہ و بدکاری کا طوفان بھی موجزن ہے۔ خیر و شر کے ان مثالی مجسموں پر روشنی ڈالتے ہوئے سید وقار عظیم لکھتے ہیں۔” جو نیک ہے وہ نیکیوں کی ان سب خصوصیات کا حامل ہے جو انسان کی تصور میں آ سکتی ہے، جو بد ہے وہ بدی کا ایسا مجسمہ ہے کہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگتا ہے”۔

( ج) تہذیبی و معاشرتی رجحان

داستان اس سماج و معاشرے کی عکاس ہے جس میں انسان کی فکری اور ذہنی سطح ایک بچے کی سی تھی، وہ اپنے ذہن میں خیالی تصویریں اور ہیولا بنایا کرتا تھا، چرند و پرند اور جانور سے بے حد قریب ہوتا، توھم و تشکک کا شکار ہوتا اور ہر کام اور ہر چیز میں کسی غیبی اور نادیدہ ہستی کا ہاتھ تصور کرتا اور اس کو کسی نہ کسی دیوی دیوتا سے منسوب کر دیتا۔ انسان کی اسی تصوراتی و ذہنی رجحان کی وجہ سے داستانوں میں ایسے تصورات اور واقعات بکثرت ملتے ہیں جن میں کوئی انسان کسی جانور میں تبدیل ہوجاتا ہے یا کوئی اژدھا یا عفریت انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سید وقار عظیم اس پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ” دانا و بینا اور وعظ و ناصح طوطے، فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے والی مچھلیاں، ہمدرد و ہم راز گیدڑ غرض ایسی بےشمار باتیں ہیں جو نہ صرف ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں، نہ تصور و خیال کے احاطے میں آتی ہیں۔ اس دنیا کے حقائق ہیں”۔

مندرجہ بالا بحثوں سے ما فوقِ فطرت عناصر کی افادیت و معنویت اور ناگزیریت ظاہر ہو

جاتی ہے لہٰذا ہم ان کو فضول، مضحکہ خیز اور غیر انسانی کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ یہ دیوی دیوتا، پری، بھوت، چڑیل اور ڈائن آج بھی ہماری روز مرہ کی زندگی میں موجود ہیں۔

تصور کائنات

داستان کی دنیا بہت وسیع و عریض اور رنگا رنگ ہوتی ہے جس میں افراد و اشخاص، عقائد و مسائل، مشروبات و ماکولات، محلات و عمارات اور رزم و بزم کے مناظر کو نہایت دلکش انداز میں بیان کیا جاتا ہے جسے سن کر سامع تخیلاتی دنیا کی سیر پر نکل پڑتا ہے اور اس کے اسرار و رموز کی تلاش و جستجو کا مشتاق ہو جاتا ہے۔ حسن عسکری داستان کی دنیا کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ” داستان میں اتنی رنگا رنگی ہے جو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ اس کو پڑھنے اور محسوس کرنے کے بعد لگتا ہے کہ ہم نے تو زندگی جی ہی نہیں ہے”۔

داستان میں وقوع پذیر تمام واقعات و حالات ہمارے روز مرہ کی زندگی، بود و باش، عقائد اور تصورات سے مختلف اور الگ ہوتے ہیں جہاں ہر چیز پہلے سے طے اور تقدیر کی پابند ہوتی ہے۔ درمیان میں معمولی اور عارضی رد و بدل اور تغیر ہو جاتا ہے لیکن ان سب کا انجام متعین اور مقرر ہوتا ہے۔ داستان کی اسی کائناتی تصور پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں۔ ” داستان کی دنیا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ Teleological ہے یعنی اس کے قائدے قانون ہیں جنہیں جانا جا سکتا ہے۔ کائنات اور اس کا منظم یعنی خدا اٹل اور تغیر ناپذیر ہیں۔ خدا ہمیشہ ہے اور اس نے کائنات کو جن اصولوں پر بنایا ہے وہ اصول اٹل ہے”۔

داستانوی دنیا کا ہمارے اردگرد کی دنیا سے مختلف اور جدا ہونے کی ایک وجہ اس کی بیانیہ پن بھی ہے کیونکہ بیانیہ میں قرب و جوار اور آس پاس کے واقعات بیان نہیں کیے جا سکتے۔ فرض کریں کوئی داستان گو واقعہ یوں بیان کرے کہ کل میں نے جامع مسجد کے پاس ایک درویش صفت انسان دیکھا جو ہاتھ میں تھیلا تھامے گنگنا رہا تھا۔ کیا اس بیانیہ میں کوئی تحیر ہے؟ کیا سامع اس سے آگے کی کہانی سننا چاہے گا؟ یقیناً جواب نہیں ہی ہوگا کیونکہ اس میں نہ تو تحیر کا عنصر ہے اور نہ ہی استعجاب کا کوئی پہلو جبکہ داستان کی تعمیر تحیر و تجسس اور ما فوقِ فطرت عناصر سے مل کر ہوتی ہے۔ داستان گو اسی حیرت و استعجاب اور انہماک و اشتیاق کو پیدا کرنے کے لئے اَن دیکھی چیزوں اور نامعلوم دنیاؤں کے بیان سے کہانی شروع کرتا ہے۔ کلیم الدین احمد اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔ “داستانوں کی فضا میں دوری کا وجود ضروری ہے۔ یہ دوری دو قسم کی ہو سکتی ہے، زمانی اور مکانی۔ عموماً داستانوں میں دونوں طرح کی دوری پائی جاتی ہے۔ دوری بہت سی برائیوں اور خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ دوری سے حسن میں اضافہ اور نقص میں بہ ظاہر کمی ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے داستانوں میں لکھنو، دلی، الہ آباد اور کلکتہ کے ذکر کے بدلے ختن، یمن، قسطنطنیہ، روم اور دمش کا بیان ہوتا ہے”۔

مذکورہ بحثوں سے داستان کی تصوراتی دنیا اور اس میں وقوع پذیر حالات و کوائف کی

تفہیم و تعبیر واضح ہو جاتی ہے اور نامانوس واقعات کی اہمیت و افادیت بھی عیاں ہو جاتی ہے نیز یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ دوری و بُعد کی وجہ سے داستان طراز اعتراض و اشکال سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔

امان علی خاں غالب لکھنوی نے اپنے ترجمہ داستانِ امیر حمزہ کے جلد اول میں داستان کے چار عناصر بیان کیے ہیں۔ رزم، بزم، طلسم اور عیاری۔ داستانوی شعریات کی افہام و تفہیم اور تعبیر و تفسیر میں ان سب کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ انہیں سمجھے بغیر ہم داستانوی متون اور کلام کی محاسن و معائب اور ادبیت و غیر ادبیت کو کما حقہ بیان نہیں کر سکتے۔

بزمیات

داستانوں کے واقعات و حالات عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں؛رزمیہ اور بزمیہ۔ بزمیہ واقعات میں نشست و برخاست، معاشرت و مصاحبت، عشق و حسن، امن و آشتی، مصالحت و مواخاۃ، سیر و تفریح اور صلہ رحمی و ہمدردی کے بیانات شامل ہوتے ہیں اور ان سب میں سب سے نمایاں اور ممتاز حیثیت بیانِ حسن و عشق کی ہوتی ہے۔ بزمیہ واقعات کے ذریعے انسانی خواہشات اور مقتضیات کی بھرپور عکاسی کی جاتی ہے۔ جہاں کھانے کا ذکر آتا ہے وہاں کھانے کی ہر قسم کو بیان کیا جاتا ہے، جہاں ملبوسات کا بیان ہوتا ہے وہاں ان کی متنوع اقسام کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے، جہاں مال و دولت کا ذکر ہوتا ہے وہاں ہیرے، زمرد اور یاقوت سے لے کر تانبے کا کوئی سکہ نہیں چھوٹتا غرض کہ جنسی تسکین کے سبھی اسباب وافر مقدار میں مہیا ہوتی ہیں۔ شراب و کباب کی فراوانی، رقص و سرور کی مجلسیں، آرائش و زیبائش کی بہتات حتی کہ انسان جو چاہے بلا تکلف حاصل کر سکتا ہے، جس جذبے کی تسکین کرنا چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ قدم قدم پر معشوقِ زہرہ جبیں، جگہ جگہ خزانے اور دفینے، ہر محل اسبابِ عیش و نشاط سے معمور، سازندے تیار، پریاں رقصاں اور ساقی و محرم دستیاب ہوتے ہیں۔

رزمیات

رزمیہ واقعات میں جنگ و جدل، شکست و ریخت، تصادم و ٹکراؤ، طلسم و عیاری، فریب کاری و چال بازی اور ما فوقِ فطرت عناصر کے بیانات شامل ہوتے ہیں۔ بسا اوقات محبت اور نفرت کی رقابت سے رونما ہونے والے تضاد و تصادم کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان واقعات میں حریفوں کے لشکر صف آرا، م اسلحہ جنگ سے لیس، فولادی جسم لئے، مرنے پر آمادہ، جان لینے پر کمر بستہ غرض کہ آنِ واحد میں دشمن کا سر دھڑ سے الگ کرنے کے لیے تیار و مستعد۔ جدھر دیکھیے خیمے برپا ہیں، شمشیریں بے نیام ہیں، کمانیں تیر اگل رہی ہیں، طلسم کی گھتیاں سلجھ رہی ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، جاسوس لگے ہوئے ہیں، عیار بھیس بدل بدل کر آ رہے ہیں، زمین پر خون کی ندیاں جاری ہیں، عظیم الجثہ دیو و جنات کے چھکے چھوٹ رہے ہیں اور برائی و بدی اور شرور و فتن کے قلعے مسمار ہو رہے ہیں۔

طلسمیات

داستان کی دنیا طلسم، جادو اور سحر سے بھری پڑی ہے۔ قدم قدم پر جادوئی پھندے اور

جگہ جگہ پر طلسماتی چالیں ہوتی ہیں جو ہیرو کے راستے میں رکاوٹ اور مزاحمت پیدا کرتی ہے، اس کے عزم و ارادے کا امتحان لیتی ہے اور ہر رکاوٹ سے نمبر آزما ہونے کا درس دیتی ہے۔ طلسم کے حوالے سے محمد حسین جاہ طلسم ہوش ربا کے جلد اول میں لکھتے ہیں۔ “طلسم میں رات اور دن ہوتے ہیں، دنیا بھی مثل طلسم ہے اور باطل ہونا اس طلسم کا روز قیامت ہے کہ جو لوگ اس میں پھنس گئے ہیں وہ اس کے ٹوٹنے سے اپنے مسکنِ اصلی پر پہنچیں گے اگر ناری ہیں تو جہنم اور ناجی ہیں تو فردوس میں”۔

داستان کے مرکزی کردار کو جن کے کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں بھٹک جانا، پتھر بن جانا، دوسری مخلوق میں تبدیل ہو جانا اور طلسماتی مہمات کو سر کرنے کے علاوہ جادوگر، عفریت اور کسی رقیب روسیاہ کا سامنا کرنا بھی شامل ہے۔ یہ تمام محاذ آرائی کردار کو جلا بخشتی ہے اور عزم و حوصلہ کو مضبوط بناتی ہے۔ ہیرو کی اس کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیق احمد لکھتے ہیں۔ ” داستانوں میں ہیرو کی شہرت کا سبب و یقین سے تصادم ہونا ہے، اگر بختک اور بختیارک نہ ہوتے تو امیر حمزہ کا کردار، افراسیاب و مہ لقا نہ ہوتے تو اسد اور ایرج کے کردار اتنے دلکش اور روشن نہ ہوتے۔ شر کی طاقتیں ایک طرف نیکی کی طرف مائل کرتی ہے تو دوسری طرف ہیرو کو حیاتِ دوام بخشتی ہے”۔

طلسم کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چیزیں یکا یک واقع ہوتی ہیں، یکا یک اوجھل ہو جاتی ہیں اور پھر اچانک وہ کسی دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ یہ چیزیں معلوم و نا معلوم دنیا کی اس طور پر نمائندگی کرتی ہیں کہ حقیقت اور التباس ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی وجودی تجربے کا ہی تصور نہیں کرتا بلکہ تخیلی متبادلات کی بھی تلاش کرتا ہے کیونکہ ہر حقیقت ایک سے زیادہ متبادلات کی حامل ہوتی ہے۔ طلسماتی فضا انسانی فکر کی نارسائیوں پر تخیل کی اسی اختراعیت اور خلاقیت کو ترجیح دیتا ہے جو نا مانوس چیزوں اور واقعات میں مانوسیت اور مانوس چیزوں میں نامانوسیت کا شائبہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ داستان گو جادوئی فضا قائم کرنے کے لئے مبالغہ، اشتداد اور تکبیر کا سہارا لیتا ہے جو کہ زبانی بیانیہ کی صفات ہیں اسی وجہ سے داستانوں کے شہر پُر رونق و دلکش، بازار رنگین و پرکشش، باغات و محلات خیرہ کن، عورتیں حور صفات، بہادر مثلِ رستم و سہراب، عیار شیطان صفت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں ہوتی ہیں۔ مبالغہ اور اشتداد سے تکرارِ واقعات کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اس سے داستان کو طول دینے میں مدد ملتی ہے، مرکزی کردار کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور جزئیات کو مرکزی اشیاء پر یا مرکزی اشیاء کو جزئیات پر حاوی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ داستان کی دلکشی، جاذبیت اور تجسس محیر العقول واقعات، جادوئی فضا اور واقعاتی تکرار سے پیدا ہوتی ہے جو مختلف کرداروں کے ذریعے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

عیاری

داستان اردو ادب کی ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جو ہمیں ذہنی و قلبی فرحت و انبساط کے ساتھ اخلاقی اور معاشرتی درس بھی دیتی ہے گرچہ یہ داستان طرازی کا بنیادی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ داستان میں جہاں ایک طرف ہیرو کی فتح و کامرانی دیکھا کے جواں مردی، اولوالعزمی اور ثابت قدمی کے جذبات کی آبیاری کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف عیار کی چالبازی، حکمتِ عملی اور تفکر و تدبر کی بالادستی دیکھا کے صبر و تحمل، جاں نثاری اور تعاون و ہمدردی کے احساسات کو واشکار کیا جاتا ہے۔ عیار غیر معمولی طاقت و قوت کا نظیر، صبر و تحمل اور جواں مردی کا پیکر ہوتا ہے وہ سخت ترین سزاؤں کی بھی پرواہ نہیں کرتا، اپنی جان گنوا کر بھی راز فاش نہیں کرتا۔ صبر و تحمل کی صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے نازک اور خطرناک صورتحال سے بچ نکلنے کی تدبیریں سوچتا اور اقدام کرتا ہے۔ داستان کا عیار طرح طرح کی مضحکہ خیز اور عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، اس کا قول و فعل بسا اوقات پھکرپن اور تمسخر کی حد سے جا لگتا ہے تاہم اس کی حرکات و سکنات سے مثالیت پسندی کے بر عکس حقیقت پسندی اور حرکت پسندی جھلکتی ہے اور ہیرو کے مقابلے اس کی اہمیت معمولی ہوتی ہے۔ داستان میں عیار کی موجودگی سے دلچسپی اور ظرافت کے ساتھ ساتھ ایک طرح کا توازن پیدا ہوتا ہے۔ طاقتور ہیرو اور اس کی معرکہ آرائیوں کے درمیان ان کی تدبیریں خوش آئند فضا اور مناظر کا احساس دلاتی ہیں۔ ان کی حرکت و عمل پر ہنسی بھی آتی ہے مگر جب یہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دشمن کا راز معلوم کرتا ہے، ان کی چالوں کو ناکام بناتا ہے، ان کی قید سے اپنے آدمیوں کو رِہا کراتا ہے اور بعض اوقات جب تنِ تنہا میدانِ جنگ کی بساط پلٹ دیتا ہے تو ہماری ہنسی ایک گہری خاموشی اور حیرت و استعجاب میں بدل جاتی ہے۔

تلخیص

داستان کی صنفی شناخت اور فنی حیثیت پر چاہے لاکھ اعتراض کئے جائیں یا اس کو ہدفِ ملامت بنایا جائے اور لغویات و مضحکات کا دفتر قرار دے کر پسِ پشت ڈال دیا جائے پھر بھی اس کی ادبیت و معنویت ہمیشہ ہمیش برقرار رہے گی کیونکہ یہ امر مسلم ہے کہ اردو داستان ہمارے کلاسیکی ادب کا بیش بہا اور قابلِ فخر سرمایہ ہے جس کا ہماری زبان کی لسانی تعمیر، ادبی تشکیل اور محاوراتی فروغ میں اہم کردار رہا ہے نیز تہذیب و ثقافت کی ترسیل، عقائد و رسومات کے تبادلہ اور سماجی و معاشرتی اخلاق و عادات کی ترویج و اشاعت میں غیر معمولی رول ادا کیا ہے۔ لہٰذا داستان کی محاسن و معائب کا مطالعہ اور محاسبہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس کی ممکنہ شعریات اور اس کی فنی مبادیات و ممکنات کی تفہیم و تعبیر ایک غیر متعصبانہ اور غیر جانبدارانہ فکر و سوچ کے ساتھ کریں تاکہ اس کے متوقع معیار و میزان ہمارے سامنے آشکار ہو جائیں جو ادبی و غیر ادبی فن پارے کے درمیان فرق و امتیاز واضح کرنے میں ہماری رہنمائی کر سکیں۔

حوالہ جات

۱        ساحری، شاہی، صاحب قرآنی، داستان امیر حمزہ کا مطالعہ۔ جلد اول، نظری مباحث۔ شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو، دہلی، 1999

۲        اردو داستان : تحقیق و تنقید۔ قمر الہدی فریدی، ایجوکیشن بک ہاؤس، علی گڑھ، 2000

۳        اردو کی نثری داستانیں۔ گیان چند جین، اتر پردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ، 1987

۴        اردو کی منظوم داستانیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، انجمن ترقی اردو، پاکستان، 1971

۵        اردو زبان اور فن داستان گوئی۔ کلیم الدین احمد، ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ، 1977

٦       ہماری داستانیں۔ سید وقار عظیم، روشان پرنٹرس، دہلی، 2015

۷       اردو فکشن : مبادیات و جزئیات۔ طارق سعید، روشان پرنٹرس، دہلی۔ 2015

۸        داستان اور اردو ادب کی روایت۔ پروفیسر محی الدین بمبئی والا، پیر محمد شاہ لائبریری اینڈ ریسرچ سینٹر، احمدآباد، 2011

۹        اردو میں بیانیہ کی روایت۔ معین الدین جینابڑے، شعبہ اردو، بمبئی یونیورسٹی، بمبئی، 2007

۱۰       اردو نثری داستانوں کے اہم کردار: مجمل جائزہ۔ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم، معیار، نمبر 9، شعبہ اردو، وفاقی یونیورسٹی، اسلام آباد، جنوری تا جون، 2013

***

Leave a Reply