طفیل احمد مصباحی
شادؔ عظیم آبادی کا ایک غیرمنقوط فارسی نعتیہ قصیدہ
میرؔ و غالبؔ کے بعد غزل گوئی کی جو سنہری روایت قائم ہوئی اور نئے غزل گو شعرا کی جو جماعت ابھری ، اس میں داغؔ دہلوی کو چھوڑ کر شادؔ عظیم آبادی کی شخصیت ایک مقتدیٰ و پیشوا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کا نام ، سید علی محمد ، خطاب ، خان بہادر اور تخلص شادؔ تھا ۔ ادبی حلقے میں شادؔ عظیم آبادی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ۸ / جنوری ۱۸۴۶ ء کو عظیم آباد ( پٹنہ ، بہار ) میں پیدا ہوئے اور ۷ / جنوری ۱۹۲۷ ء میں انتقال کیا ۔ اردو شاعری اور بالخصوص غزل گوئی کو ایک نئی سمت و رفتار دینے والے شادؔ عظیم آبادی صحیح معنوں میں ایک جلیل القدر شاعر ، صاحبِ طرز ادیب ، کامیاب نثّار ، عظیم نعت گو ، منفرد اسلوب کے مالک غزل گو ، با کمال مرثیہ نگار اور میدانِ قصیدہ و مثنوی کے بطلِ جلیل تھے ۔ ان کی تہہ دار فکر و شخصیت کے مختلف رنگ و روپ ہیں ۔ نظم و نثر دونوں پر قدرتِ کاملہ رکھتے تھے ۔ ان کی شاعرانہ عظمت اور ادیبانہ شان و شوکت مسلم ہے ۔ وہ مختلف شعری اصناف پر یکساں درک رکھتے تھے ۔ نعت ، غزل ، قصیدہ ، مثنوی ، مرثیہ ، قطعات اور رباعی گوئی میں بے نظیر تھے ۔ انہوں نے غزل میں اگر چہ کچھ حد تک میرؔ و غالبؔ کے رنگ کی تقلید کی ، لیکن اسی سے اپنا ایک مخصوص اور منفرد شعری رنگ بھی پیدا کیا ، جس میں سادگی و شیفتگی ، ترنم ، گھلاوٹ ، حلاوت و شیرینی ، سوز و گداز ، کیف و سرور اور تاثیر کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ شادؔ کے زمانے میں غزل کا زور اور اثر کم ہونے لگا تھا ، شادؔ نے اسے نکھارنے ، سنوارنے اور استحکام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ پروفیسر کلیم الدین احمد جیسے متشدد اور سخت گیر نقاد بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ” اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میرؔ ، غالبؔ اور شادؔ ہیں ” ۔
پروفیسر سید عطاء الرحمٰن عطاؔ کاکوی ، شادؔ عظیم آبادی کی بلند پایہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
غالبؔ کے انتقال کے وقت شادؔ کی عمر ۲۳ / سال کی تھی ۔ وہ غالبؔ کے شاگرد ہو سکتے تھے یا غالبؔ کے رنگ کو اخذ کر سکتے تھے ۔ مگر قدرت نے انہیں اردو غزل گوئی کو ایک نیا مزاج بخشنے کے لیے مخصوص کر دیا تھا ۔ نہ وہ غالبؔ کے متبع ہوئے اور نہ داغؔ کے رنگ کو پسند کیا ، بلکہ ایک اچھوتا پاک بازانہ اندازِ بیان پیدا کیا اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ :
مرا دیواں تو یثرب ہے جہانِ پاکبازی کا
پڑھے کلمہ زبانِ فارس اس بانگِ حجازی کا
شادؔ نے اپنے اس پاکبازانہ رنگ سے شاعری کو اتنا نکھارا کہ عبد السلام ندوی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ دورِ حاضر کے غزل گو شعرا میں شادؔ سب کے پیش رو ہیں ۔ یہ وہ چونکا دینے والی آواز تھی کہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور شادؔ کے حقیقی مقام کے تعین کا جذبہ بیدار ہوا ۔ اردو غزل گوئی کے ناقدین اگر شادؔ کا مرتبۂ شاعری نہ پرکھ سکیں تو یہ شادؔ کی کم نصیبی نہیں ، خود ان کی بے بصری ہے ۔ دورِ حاضر کی غزل گوئی کا جب تذکرہ چھڑتا ہے تو تان حسرتؔ موہانی پر ٹوٹتی ہے ۔ میں حسرتؔ کا مخالف نہیں ، ان کی شاعرانہ عظمت اور ان کی والہانہ غزل گوئی کا دل سے مداح ہوں ۔ مگر جب حسرتؔ اور شادؔ کا تقابلی مطالعہ کرتا ہوں تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ ہندوستان کا یہ امام المتغزلین شادؔ کے سامنے ایک مقتدی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خود حسرتؔ ، شادؔ کے بڑے مداحوں اور نیاز مندوں میں تھے ۔ وہ شادؔ کی عظمت کو پہچانتے اور ان کے رنگِ تغزل سے متاثر تھے ۔ وہ جب عظیم آباد آتے تو شادؔ سے نیاز حاصل کرتے ، اپنا کلام سناتے ، ان سے سنتے اور شادؔ کا کلام ساتھ لے جاتے ۔ ایک بار تو غایتِ اشتیاق سے زبردستی شادؔ کے دیوان سے چند اوراق پھاڑ کر لے گئے ۔
مطالعۂ حسرت ، ص : ۱۸ ، ۱۹ ، ناشر : عظیم الشان بک ڈپو ، سلطان گنج ، پٹنہ
شادؔ عظیم آبادی کی غزل گوئی اور مثنوی و مرثیہ نگاری پر تو بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے ، لیکن پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت ان کی ” نعت گوئی ” پر گفتگو کرنے سے لوگ کتراتے ہیں ۔ شادؔ جتنے بڑے غزل گو و مرثیہ نگار تھے ، اتنے ہی بڑے نعت گو بھی تھے ۔ ان کی نعتیہ شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ وہ ساری خوبیاں موجود ہیں ، جو کسی کامیاب شاعری کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔ ” ظہورِ رحمت ” ان کی نعتیہ شاعری کا ایک بے مثال نمونہ ہے ، جو مسدؔس کی شکل میں ہے ۔ یار لوگوں نے اس نعتیہ مجموعے کو محض ایک ” میلاد نامہ ” قرار دے کر اس کی ادبی و فنی قدر و قیمت کم کرنے کی کوشش کی ہے ، جو درست نہیں ہے اور صحت مند ادب کے سمِ قاتل ہے ۔ ادب بہر حال ادب ہے ، چاہے وہ جس نوع و صنف پر مشتمل ہو ، بشرطیکہ تخلیقی نوعیت کا حامل ہو ۔ جناب حمیدؔ عظیم آبادی نے اس نعتیہ مسدّس ” ظہورِ رحمت ” کو خواجہ الطاف حسین حالؔی کے ” مسدّس مد و زجرِ اسلام ” کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اردو میں اس طرح کے ” نعتیہ مسدّس ” ہم نے نہیں دیکھے ہیں ۔ یہ تاجِ سخن کے وہ گوہرِ آب دار ہیں ، جن کی بدولت اردو شاعری کو معراجِ افتخار حاصل ہوا ہے ۔ ” ظہورِ رحمت ” کی روشنی میں شادؔ عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری کا تفصیلی جائزہ دوسرے مضمون میں لیا جائے گا ۔ یہاں سرِ دست ان کے ایک غیر منقوط فارسی نعتیہ قصیدہ کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے ۔
شادؔ عظیم آبادی کا یہ غیر منقوط نعتیہ قصیدہ ان کے موجودہ شعری دیوان یا کلیات میں نہیں ہے ۔ ماہنامہ ندیم ، ضلع گیا ، بہار کے ” بہار نمبر ” میں یہ قصیدہ آج سے ۸۸ / سال قبل ۱۹۳۵ ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات کی ہے کہ امرا و سلاطین کی جھوٹی مدح میں نظم کیے گئے قصائد پر خوب خوب دادِ تحقیق دی جاتی ہے اور جانِ کائنات ، فخرِ موجودات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدح و توصیف میں تحریر کیے گئے قصائد پر توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ ” شاہنامۂ فردوسی ” میں فردوسیؔ نے زیرِ نظر عنوان ” در ستائشِ پیغمبر و یارانش ” کے تحت نعت و منقبت کے چند اشعار موزوں کیے ہیں ، محققینِ ادب کی صراحت کے مطابق فارسی زبان میں نعتیہ شاعری کا یہ اولین نمونہ ہے ، جو آگے چل کر ایک مستقل روایت بن گئی اور فارسی میں کثرت سے نعتیں لکھی گئیں ۔ فارسی نعت گو شعرا میں سعدیؔ و جامیؔ رومیؔ ، نظامیؔ ، عرفیؔ ، خاقانیؔ ، حکیم سنائؔی وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ بر صغیر پاک و ہند کے شعرا میں حضرت امیر خسروؔ ، عبد القادر بیدلؔ عظیم آبادی ، شاہ امین احمد ثباتؔ فردوسی ، محمد جان قدسیؔ ، شاہ ابو الحسن فردؔ پھلواروی ، غالبؔ اور اقبالؔ جیسے مایۂ ناز شعرا نے فارسی زبان میں مختصر سہی لیکن کامیاب نعتیہ شاعری کی ہے ۔ شادؔ عظیم آبادی اسی قافلۂ شعر و سخن کے ایک معزز فرد ہیں ، جن کی فارسی نعت گوئی اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے اور جہاں تک غیر منقوط نعت گوئی کی بات ہے تو راقم کی محدود معلومات کے مطابق شادؔ کے علاوہ کسی دوسرے فارسی نعت گو شاعر کو یہ امتیاز و اختصاص حاصل نہیں ہے ۔
شادؔ عظیم آبادی کا یہ غیر منقوط فارسی نعتیہ قصیدہ مخمؔس کی شکل میں ۲۰ / بندوں پر مشتمل ہے ۔ اس اعتبار سے اس کے کُل اشعار پچاس ہوتے ہیں ۔ مخمّس اس صنفِ سخن کو کہتے ہیں جس کا ہر بند ( شعر ) پانچ مصرعوں مشتمل ہوتا ہے ۔ پہلے بند کے پانچوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ بعد کے بندوں کے ابتدائی چار مصرعوں کا قافیہ الگ ہوتا ہے اور پانچویں مصرعے کا قافیہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوتا ہے ۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی مشہور نظم ” آدمی نامہ ” مخمّس کی مثال ہے :
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زر دار ، بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں : ایک ” مشبب ” اور دوسری ” مقتضب ” ۔ مشببؔ اس قصیدے کو کہتے ہیں جس میں تشبیبؔ اور گریزؔ وغیرہ کی پابندی ہو اور جس میں یہ پابندی نہ ہو ، اسے ” مقتضب ” کہتے ہیں ۔ پہلے کو ” قصیدہ تمہیدیہ ” اور دوسرے کو ” قصیدہ خطابیہ ” بھی کہتے ہیں ، جو ڈائریکٹ ممدوح کی مدح و ستائش سے شروع ہوتا ہے ۔ شادؔ عظیم آبادی کا یہ قصیدہ ” مقتضب و خطابیہ ” ہے ۔ قصیدہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کا مطالعہ وسیع ، اس کے تجربات گہرے ، مشاہدات قوی اور اس کو زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہو ۔ ایک سے زائد زبانوں پر عبور ہو ۔ خیالات میں بلندی ، فکر میں ندرت اور اسلوب میں جدت و سحر کاری ہو ۔ قصیدے کا آغاز بڑے پُر شکوہ انداز میں ہوتا ہے اور اس کے الفاظ و تراکیب بڑے حسین اور دل پذیر و دل نشیں ہوا کرتے ہیں ۔ قصیدے کا ہر شعر قصیدہ نگار کی شعری عظمت پر دلالت کرتا ہے ۔
شادؔ عظیم آبادی کے غیر منقوط نعتیہ قصیدے کا مطلع ملاحظہ کریں۔
طلوعِ مطلعِ مدحِ مراد ہر دوسرا
دہد دلِ علما را لموعِ مہرِ ولا
سوارِ عرصۂ لولاک سرورِ والا
اساسِ عالمِ ارواح ، روحِ کلِ ورا
رسولِ داور و دلدارِ آدم و حوّا
شادؔ نے اپنے اس قصیدے کا آغاز بڑے شان دار اور جان دار طریقے سے کیا ہے اور ممدوحِ کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شایانِ شان تعریف و توصیف بیان کی ہے اور آپ کو مطلعِ مدح ، مرادِ کونین ، صاحبِ لولاک ، عظیم المرتبت سرور و سردار ، اساسِ عالمِ ارواح ، جملہ خلقت کے روحِ رواں ، رسولِ خدا اور دلدارِ آدم و حوا جیسے رفیع الشان القاب سے یاد کیا ہے ، جو حقیقت کے عین مطابق ہے ۔ مذکورہ پانچوں مصرعے شاعر کے بلند تخیل ، اس کے گہری مذہبی شعور اور دینی بصیرت پر دال ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محمدؔ بھی ہیں اور احمدؔ و محمودؔ بھی ۔ اسی طرح آپ کی ذاتِ گرامی تمام انبیا و رسل علیہم الصلوٰۃ و التسلیم کی سالارِ اعظم ہے ۔ آپ اکرمؔ ( بہت زیادہ معزز و مکرم ) بھی ہیں اور اعلؔم ( بہت زیادہ عالم والا ) بھی ۔ آپ کی نظیر و مثیل محال ہے ۔ آپ مرادِ طٰہٰ و یٰسین ہیں ۔ امرا و سلاطین اور رؤسائے دہر کے سر ان کی دہلیز کے آگے خم ہیں ۔ نیز قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو من جانب اللہ جملہ اسما کی جو تعلیم دی گئی تھی ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تمام چیزیں معلوم ہیں ۔ انہیں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شادؔ عظیم آبادی نغمہ طراز ہیں :
محمد احمدِ محمود ، سرورِ معصوم
رسولِ اکرم و اعلم ، ہمالِ او معدوم
سرِ رؤسا ہم سوادِ او موہوم
حدودِ علمِ کلام و کمال لا محدود
مرادِ سورۂ طٰہٰ و ” علّم الاسما “
دوسرے مصرعے کا یہ جملہ ” ہمالِ او معدوم ” یعنی حضور علیہ السلام کی نظیر و مثال معدوم ہے ، اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور مذہبی نقطۂ نظر سے ” مسئلۂ امتناعِ نظیر ” پر روشنی ڈالتا ہے ۔ امام المنطق و الفلسفہ ، جامعِ معقول و منقول حضرت علامہ فضلِ حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے اس موضوع پر ایک مستقل ضخیم کتاب تحریر فرمائی ہے اور دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت کیا ہے کہ مصدرِ رسالت جناب محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر محال و ممتنع ہے ۔
شادؔ عظیم آبادی صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک دبستان تھے ۔ دبستانِ عظیم آباد کو جن رجالِ شعر و ادب نے اعزاز و افتخار بخشا ، ان میں ایک نمایاں نام شادؔ عظیم آبادی کا بھی ہے ۔ ان کے کلام ( چاہے جس صنف میں ہو ) میں ایک خاص جمالیاتی رنگ اور انفرادیت پائی جاتی ہے اور یہی ان کی شناخت ہے ۔ وہ اپنے روحانی اور عرفانی تجربوں کو شعر کا حسین قالب اور تغزل کا سوز و گداز بخشتے ہیں ۔ یہ دو پاکیزہ بند دیکھیں کہ حقائق و معارف کا سمندر کس طرح اشعار کے کوزے میں بند کیے گئے ہیں ، جن کی توضیح و تشریح کے لیے کئی صفحات درکار ہیں :
مُطاعِ حور و ملائک ، سُلالۂ آدم
اساسِ مہر و عطا و عمادِ رحم و کرم
امامِ کلِ اُمم ، مصدرِ علوم و حِکم
مؤسسِ ہمہ عالم ، مدرسِ اعلم
مکمِّلِ کملا و معلمِ عُلَما
سرورِ دل ، دلِ عالم ، ہُمام را سرور
مدارِ ہُور و ہلال و سماک را محور
سرِ معمَّم و رو مہر و لالۂ احمر
طرر معطر و مسکی کلالہ ہا اطہر
کہ داد در سرِ حورا سوادِ موسودا
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ” معلم و مزکّی ” بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ کے پیغمبرانہ مشن کا نمایاں ترین پہلو تعلیمِ کتاب و حکمت اور تزکیۂ باطن ہے ۔ آپ نے جہاں احکامِ اسلام کی تعلیم و تبلیغ فرمائی ، وہیں مفاسد و منکرات کی بنیاد اکھیڑنے کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ شادؔ عظیم آبادی کے اس قصیدے کے مطابق ” بد اعمالیوں کے خلاف آپ کی شمشیر ، بُرّاں تھی ۔ مکر و فریب اور حسد کے حصار کو توڑنے میں آپ کے نیزوں نے توپ کا کام کیا ۔ آپ کے اصلاحی کارناموں نے جذبۂ صلاح و تقویٰ کو استحکام بخشا ۔ آپ آدمؔ و داؤدؔ و ہودؔ کے علوم کے عالم ، لا ینحل مسائل کو حل کرنے والے اور بابِ ہدایت کے بنیادی ستون تھے ” ۔ جیسا کہ ذیل کے اشعار اس پر دال ہیں :
اصولِ سوئے عمل را حُسامِ او صارم
حصارِ مکر و حسد را رماحِ او ہادم
صلاح کار و ورع را صلاحِ او عاصم
علومِ آدمؔ و داؤدؔ و ہودؔ را عالم
محلِِّ حلِّ مسائل ، عمود دارِ ہدیٰ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عساکر و افواج کے قائد ، جملہ گروہ کے سالارِ اعظم ، ہر چھوٹے بڑے انسان کے حاکم ، علمائے کرام و ائمۂ عظام کے سردار ، بیکسوں کے مسیحا ، پریشان حال امت کے مشکل کشا اور بلا اختلاف مذہب و ملت ہر فردِ بشر کے معین و مددگار اور ممِدّ و معاون ہیں ۔ آپ کے لطف و کرم کا دائرہ وسیع اور آپ کی رحمتِ کاملہ کا حصار کشادہ ہے ۔ آپ انسانوں سے غایت درجہ محبت کرنے والے رسول ہیں ۔ آپ کا کلامِ بلاغت نظام حکمائے عصر اور عقلائے دہر کے لیے دلائل ساطعہ اور براہینِ قاطعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی لیے تو شادؔ عظیم آبادی کہتے ہیں :
ہمہ عساکر و کُلّ ِ گروہ را سالار
کہ و مہ و امرا و ملوک را سرکار
مکرم و علمائے کرام را سردار
مُمِدّ و اُمِ وددو ، مور و مار را داوار
اکاسرہ ہمہ مرؤس طوعاً او کرہا
حصارِ رحم و مراحم ، موسّع و واسع
ہمارہ عالمِ اسرار ……….. را سامع
ودود ، والہِ اولادِ او ہما طالع
کلامِ او حُکَما را دلائلِ ساطع
امامِ کلّ ِ ائمہ ، رسولِ ہر دوسرا
حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
یا اکرم الخلق ما لی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العممٖ
ھو الحبیب الذی ترجیٰ شفاعتہ
لکلِ ھول من الاھوال مقتحمٖ
یقیناً اللہ عز و جل کی عطا سے اس کے حبیب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کونین کے حاجت روا ، مصائب و مشکلات کو دور کرنے والے اور گردشِ دوراں کا رخ پھیرنے والے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو یہ قدرت و اختیار بخشا ہے کہ اپنی چشمِ رحمت سے ہواؤں اور موسموں کا رخ بدل دیتے ہیں ۔ آپ ماویٰ و ملجا اور ہر قسم کے جسمانی و روحانی امراض کے طبیب و معالج ہیں ۔ آپ کے دربارِ فیض بار میں ہر دکھ درد کا علاج و مداوا ہوتا ہے ۔ آپ مصائب و مشکلات کے زہر لیے تریاق ہیں ۔ نیز آپ مُصلحِ اعمال و افکار بھی ہیں اور مرکزِ امید بھی ۔ اسیروں کے چارہ گر بھی ہیں اور سمِ قاتل کے لیے اکسیر بھی ۔ غرض کہ مظہرِ ذاتِ خدا ہونے کی حیثیت سے آپ کے کمالات بیشمار ہیں ، جن کا احاطہ نا ممکن ہے ۔ شادؔ نے ان امور کی وضاحت کیا ہی بہتر انداز و اسلوب میں کیا ہے:
معدّلِ ہمہ موسم ، محوّلِ احوال
محلّ ِ کلِّ مداوا و مصلحِ اعمال
مرامِ کلِّ اُساریٰ و حاصلِ آمال
دوا و مہلکِ سمِّ مکارہ و اہوال
ذیل کے اشعار میں شادؔ عظیم آبادی نے ممدوحِ کائنات علیہ افضل الصلوات و اکرم التسلیمات کی عظمت و رفعت اور آپ کی شانِ رفیع بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحبِ وحی و الہام یعنی رسولِ مُلہَم اور تمام علوم و فنون کے جامع و ماہر ہیں ۔ آپ نے ظن و تخمین اور وسوسہ کی بنیاد منہدم کر کے ایمان و یقین کی عمارت تعمیر کی ۔ آپ کے حاسد ہمیشہ ملول و رنجیدہ رہتے ہیں ۔ آپ کے سامنے جادو گر کا جادو اور مکّار و عیّار کا مکر بے سود اور باطل و مردہ ہو جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت خود اپنے حبیب جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کا اکرام و احترام کرتا ہے ۔ آپ ، اللہ عز و جل کے ہمنام ہیں ۔ آپ کی تعریف و توصیف بندے کی طاقت سے باہر اور کما حقہ آپ کی مدح محال ہے ۔ ہاں ! اگر امامِ عادل حضرت علی رضی اللہ عنہ مدد فرمائیں تو حضور علیہ السلام کی تھوڑی بہت مدح سرائی ہو سکتی ہے ۔
رسولِ مُلہَم و کلِّ علوم را ماہر
اصولِ وسوسہ و طرحِ عار را کاسر
ملول حاسدِ او مردہ سحرِ ہر ساحر
مہول مار و مدحور مکرِ ہر ماکر
کل و اصم ہمہ کائد ہلاکِ کل اعدا
گواہِ اول اکرامِ او الہٰ صمد
دگر کہ عادل و ہم اسمِ کردگار احد
محال مدحِ رسولِ کرام اے احمدؔ
اگر دہد دلِ مدّاح را امام مدد
مگر مسوّدہ گردد مکارمِ والا
خلاصۂ کلام یہ کہ شادؔ عظیم آبادی نے اپنے اس غیر منقوط نعتیہ قصیدہ میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و رفعت ، آپ کے فضائل و کمالات ، محاسن و محامد اور آپ کے علوئے شان و شوکت کو عشق و وارفتگی میں ڈوب کر بیان کیا ہے اور وہ ذاتِ گرامی جو ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ” کی مصداق ہے ، کی شایانِ شان مدح کی ہے ۔ چوں کہ قصیدہ غیر منقوط ہے ، اس لیے بعض مقامات پر الفاظ و تراکیب کے استعمال و انتخاب میں تکلف سے بھی کام لیا ہے ۔ بایں ہمہ یہ ایک عمدہ نعتیہ قصیدہ ہے اور شادؔ جیسے قادر الکلام شاعر کے خامۂ زر نگار کی خوب صورت یادگار ہے ۔