You are currently viewing شعریات کیا ہے؟ 

شعریات کیا ہے؟ 

سٹائن ہاؤ گن اولسن

ترجمہ  اور تلخیص و تسہیل:ڈاکٹر عامر سہیل

شعریات کیا ہے؟

شعریات(Poetics) کے معروضی اور سائنسی تصور،یا دوسرے لفظوں میں ادب کے سائنسی مطالعے  کو دوسری جنگ عظیم کے بعد  ادبی نظریہ سازوں اور نقادوں کے ہاں قبول ِ عام کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ بنیادی طور پر یہ معنیاتی شعریات کے  رسوخ  اور اس کے ساتھ ہی  نئی تنقید کے آ جانے سے ہوا، لیکن حالیہ  فرانس میں ساختیاتی شعریات   نےکچھ اسی قسم کے تصورات کو فروغ دیا ہے۔ ساختیات اور معنیاتی شعریات نے اپنے تصورات مختلف ذرائع سے اخذکیے، لیکن  دونوں ایک مشترکہ مفروضے پر پہنچے جسے معروضیت کا بدیہی یا آفاقی اُصول کہا جا سکتا ہے۔اس مفروضے کو کسی حد تک درج ذیل پیرائے میں  بیان کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے: ایک  ادبی  کام کسی ڈسکورس کا حصہ ہوتا ہے اور ہر ادبی متن  کچھ  ایسی لازمی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے جو اسے ادبی بناتی ہیں۔ ادبی ڈسکورس ہونے کے ناطے یہ متن ایک زبان بولنے  والوں تک اپنی رسائی رکھتا ہے۔دل چسپی رکھنے والے  قارئین اس  متن کی صفات  کا مشاہدہ  کرنے کےعلاوہ  اس کی درجہ بندی  بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم  نشان زد کی جانے والی صفات پر اختلاف ِرائے کی گنجائش موجود رہتی ہے جس کاتصفیہ متن کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا ادب کا باضابطہ ( ساختیاتی نقادا سے سائنسی کہنے پر اصرار کرتے ہیں)مطالعہ ممکن ہے۔یہ مطالعہ بالآخر ہمیں متن کی اُن صفات تک پہنچا دیتا ہے جو  اُسے ادب پارہ بناتی ہیں۔متن کو ایک شئے یا معروض کا درجہ دیا جاتا ہے۔ معنیاتی تھیوری میں اسے  مصنوع(Artifact) کا نام دیا گیا ہے۔ ساختیاتی یا سائنسی شعریات میں متن کو ایسا مظہر کہا گیا ہے جس کا سائنسی اُصولوں کےتحت  مطالعہ کیا جا سکے۔معروضیت کا مسلمہ اُصول بذات خود دو مختلف تھیوریوں میں دو مختلف طریقوں سے آشکارہوتا ہے۔ سائنسی شعریات کا نقطہ ء آغاز یہ ہے کہ تمام ڈسکورس  اصلاً ترکیبی ہوتے ہیں۔ترکیب کا یہ عمل ، اُن اُصولوں سے آگے نکل جاتا ہے جس کی مدد سے  الفاظ جملوں کی صورت میں ڈھلتے ہیں۔ڈسکورس کے  بڑے ٹکڑوں میں بھی ترکیب کی یہی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔بالخصوص، متن یا جملوں کا تسلسل جسے ہم ادبی کام سمجھتے ہیں،اُن میں ساختیاتی/ترکیبی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔یہ خصوصیات،جملوں کی ساختیاتی صفات سے مماثلت رکھتی ہیں ،نیز اپنی اکائیوں اور  قواعدکے ساتھ ایک اعلیٰ ترتیب والی زبان کی تشکیل کرتی ہیں۔شعریات اس زبان کی اکائیوں کی نشاندہی کے ساتھ امتزاج  واتصال کے اصول بیان کرتی ہے۔ اس طرح  وہ اعلیٰ درجے کی زبان  ‘لسانیات’ کا درجہ حاصل کر جاتی  ہے۔مثلاً ایسا بھی ممکن ہے کہ فکشن میں کسی پلاٹ پر بات کرتے ہوئے آپ  کواسم،فعل اور صفت کے لسانیاتی کوائف کا ذکر بھی کرنا پڑ جائے۔معنیاتی تھیوری کی اصل بصیرت اُن نکات میں ظاہر ہوتی ہے جس  کی بنیاد  اس نکتے پر قائم ہے  کہ لفظ اور جملے کے اصل اور ثانوی معنوں میں فرق کی نوعیت کیا ہے۔لیکن اس تھیوری میں اصل معنی کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ہر شخص ایک خاص طریقِ کار سے گزر کر معنی کی تفہیم کرتا ہے۔ایک لفظ کئی بنیادی معنی رکھتا ہے جو مختلف تناظرات میں مفید ثابت ہو  سکتے ہیں،اس کے ثانوی معنی بھی ہوتے ہیں۔یہ تلازمِ خیال ہے جو ردِ عمل پیدا کرتا ہے،ایک قاری متن کے ساتھ کئی حوالوں سے جُڑا ہوتا ہے جن میں اشیا،واقعات،صورتِ حال اور لسانیاتی چوکھٹے شامل ہیں۔ ثانوی معنی کو تضمن(لفظی معنی کے علاوہ کسی لفظ یا فقرے کا تعبیری یا اشارتی مفہوم) یا مرادی مفہوم(دلالت کرنا،بنیادی حصے یا نتیجے کا حاصل ہونا ۔ یا پھرالفاظ کے ظاہری مطلب سے زیادہ کی طرف اشارہ کرنا) بھی  کہا جاتا ہے۔یہ اس اصطلاح کی معنیاتی خصوصیات پر حاوی ہے۔ اصل معنی کی طرح یہ بھی  لفظ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور ایک زبان جاننے والا انھیں دریافت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اس کی بہتر تفہیم اس وقت زیادہ بہتر ہو سکتی ہے جب اس مسئلے کو عام زبان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے  کیوں کہ عام زبان میں کسی لفظ کے اصل یا مرادی معنی غلط فہمی کا موجب بن سکتے ہیں۔عام زبان صاف شفاف ہوتی ہے اور اس کا مقصد محض اپنے طے شدہ مفہوم کو آگے پہنچانا ہوتا ہے،لسانیاتی  ذرائع سے اسے کوئی  واسطہ نہیں ہوتا۔ ادبی ڈسکورس عام زبان سے اسی لیے مختلف  ہے کہ اس کا زیادہ تر سروکار لفظ کے تعبیراتی معنوں کے ساتھ مشروط  ہے۔ادب میں بالعموم کسی لفظ کے اصل معنی مستعمل نہیں ہوتے کیوں کہ تناظر اور تضمن کی مدد سے الفاظ اور جملے  معنوی اعتبار سے ثروت مند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابہام اور قول ِ محال جیسی بلیغ اصطلاحات جب ادب میں عملی طور پر استعمال ہوں تو  زبان میں وہ خوبی در آتی ہے جسے معنیاتی پیوستگی یا ٹھوس پن کہنا چاہیئے۔کسی ادبی متن کا ثانوی معنی اخذ کرنے کے لیے توضیح و تشریح کی تکنیک سے کام لیا جاتا ہے۔ابہام کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ بسااوقات کسی ایک ابہام کو واضح کرنے کے لیے نئے ابہام کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ سائنسی معنیات اُن تمام ساختیاتی پیٹرن کو قبول کرتی ہے جو متن میں پائے جاتے ہیں،پھر  معنیاتی تھیوری ان معنوں کو ثانوی اور تعبیراتی دنیا کی سیر کرواتی ہے۔یہاں ہم یہ مفروضہ قائم کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اب تک جس مسائل پر  بات ہوئی ان سب کا تعلق کسی نہ کسی حوالے   سےمتن کی معروضی سطحوں/صفات کے ساتھ ہے۔ سائنسی شعریات اور معنیاتی تھیوری کی خالص ترین صورت بھی خود کو ادبی تھیوری کہلوانے کے حق میں نہیں ہے۔یہ شعریات کے روایتی مسائل یا  سوالوں کا جواب بھی فراہم نہیں کرتی۔البتہ یہ ایسے ڈسپلن کے حق میں ہے کہ جس کا اپنا طریقِ کار ہو اور وہ خود نئے سوال اٹھائے۔ اس  نے نظریہ سازوں  کو ایک حد میں رہنے پر مجبور کیا، صرف متعلقہ مسائل پر توجہ مرکوز کی اور اُن کے مناسب ترین حل نکالنے کو اہم سمجھا۔ فطری طور پر جب معروضیت کو مطلق مان لیا گیا تو شعریات کے اُبھرتے  ہوئے تصور کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر ادبی ڈسکورس  دوسری قسم کے ڈسکورس سے  ممیز کیا جا سکتا ہے،جیسا کی  مقامی معنیاتی  خاصیت یا ساختیاتی  خاصیت  کا معروضی مشاہدہ کیا جا سکتا، اس  مقام پر  ایک تھیورسٹ ہی ان کے باہمی  رشتےکی  وضاحت  اور پھر درجہ بندی کرے گا۔ ایک ساختیاتی نقاد کسی ادبی کام میں نشانیاتی ساخت کی سمت نمائی کرے گا۔ جب کہ معنیاتی تھیورسٹ یہ بتائے   گا کہ زبان معنیاتی سطحوں پر کتنی گہری ہو سکتی ہے۔تاہم  معروضیت کی مطلقیت کا ایک اور اہم ثمرہ یہ نکلے گا کہ تھیورسٹ کو کسی ادب پارے کا جائزہ لیتے وقت یہ طے کرنا پڑے گا کہ اسے کیا نہیں کرنا۔اُسے  یہ  سوال بھی چھوڑنے پڑیں گے کہ ادب اور دنیا کا آپسی تعلق کیا ہے،کسی ادبی کام کا اس کے مصنف اور پھر ادبی کام کا قاری سے کیا  سمبندھ  ہو سکتا ہے۔ اگر وہ ان سوالوں سے اُلجھے گا تو پھر ادبی تھیوری کی  حدود سے باہر  جبکہ نفسیات، عمرانیات یا تاریخ  کی سرحدوں میں داخل ہونا  پڑے گا۔ جس شعریات کی  بنیاد   معروضیت کی مطلقیت  پر ہے اُن کے پاس  اِن مذکورہ اقسام کے رشتوں کو واضح کرنے کے لیے کوئی طریقِ کار نہیں ہو گا۔بلکہ ایسے سوالات جن کا اُصولی تعلق شعریات کے ساتھ ہے اُن کے  جواب بھی  اس کے پاس نہیں ہوں گے۔نتیجتاً ایسی شعریات مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ ادبی  مواد بھی  مادی /طبعی اشیا کی مانند محض ایک معروض ہے۔دوسری جانب اس حقیقیت کو جھٹلانا  محال ہے کہ ادب اقدار کی  بات بھی کرتا ہے۔جب کسی شئے کو ادب قرار دیا جائے تو پھر اسے انسانی حدود میں ہونا چاہیئے تاکہ اس پر سوچ بچار کیا جا سکے۔ادب جب  بطورثقافتی ادارہ  وجود پذیرہو  تو پھر وہ ہمارے ادراک کے لیے خاصا  مفید  ثابت ہوتا ہے۔اس کے بعد تخلیق اور اس کی قدروقیمت کا باہمی کھیل شروع ہوتا ہے۔اگر کسی ادب پارے کو اس کے قاری سے الگ کر دیا جائے تو ادب کا  بامعنی منصب بھی از خود ختم ہو جاتا ہے۔ادب کو محض معروض سمجھ کر  مطالعہ کرنا اصل میں اس کے جمالیاتی پہلوؤں  سے محروم ہونے کے برابر  ہے۔اگر ادب سے اس کی اقدار چھین لی جائیں تو ادبی کاموں کا لطف جاتا رہتا ہے۔ معروضیت کی مطلقیت پر شک کیا جا سکتا ہے،کیوں کہ یہ شعریات کے لیے کوئی اچھی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ اگر شعریات کا اصل مقصد ادب میں موجود خاص قسم کے  اُصولوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے جن  کی وجہ سے شاعری میں تاثیر پیدا ہوتی ہے تو پھر یہاں مطابقت کا سوال پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔کیا جب ہم  طے شدہ اُصولوں کے مطابق  کسی ادب پارے کا جائزہ لیں گےتو پھر ہی ہم کسی بہتر نتیجے تک پہنچ سکیں گے؟ یا  اس تجزیاتی عمل میں ہماری وجدانی / جمالیاتی  فکر بھی اپنا کوئی کردار ادا کرتی ہے؟یہ سوال بھی بن سکتا ہے  کہ ایک شخص کسی ادب پارے کی  ممکنہ تفہیم کیسے حاصل کر سکتا ہے؟مزید ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آئے گا کہ ایسے سوال ادبی تھیوری کے حوالے سے کوئی خاص بات سامنے نہیں لا سکتے۔ ادبی سرگرمی میں تشریح کا ایک خاص مقام ہے لیکن اس کی نظری حیثیت خاصی بے مزہ یا بے کیف ہے۔ تھیوری میں کسی ادب پارے کی  کبھی بہتر صورت منکشف نہیں ہو سکتی۔تھیوری اور ادب پارے میں نقطہ ء اتصال تلاش کرنا خاصا مشکل کام ہے۔اس باعث ہم دیکھتے ہیں کہ بیش تر ادبی متون کی تشریحات میں اختلافات کے پہلو نکلتے چلے جاتے ہیں۔یہی ایک وجہ اس مفروضے کو غلط ثابت  کرنے کے لیے کافی ہے کہ تخلیقی فن پارے کی ساخت میں کوئی ایسا وجدانی فریم ورک پوشیدہ ہوتا ہے  جو ہمیں  تنقیدی عمل کے دوران راست سمت کی طرف لے  کر جاتا ہے۔ تشریحی  فیصلے صرف دلائل پر قائم ہوتے ہیں اور انھیں رد کرنے کے لیے بھی دلائل ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔اگر  ایک  شعری ساخت  کا تجزیہ کسی تشریحی پرکھ  کے تحت کیا جائے اور بعد ازاں یہ سوال اٹھایا جائے کہ یہ جانچ پرکھ بذات خود کیسے پرکھی جا سکتی تو پھر یہ مسئلہ ادبی تھیوری کی  عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ یعنی جو سلسلہ معروضیت  سے شروع ہوا تھا اسے ہم نے اٹھا کر تشریحی عمل  کے حوالے کر دیا ہے۔ ورنہ پھر مان مانےنتائج پیدا کرنے کے لیے  تھیوری  کو مستعفی ہونا چاہیے۔ سائنسی شعریات  کی بنیاد  کسی  فرد کی مختلف درجوں پر مشتمل  قابلیت یا  اس سے منسلک  تشریحی جانچ پرکھ پر نہیں ہوتی بلکہ یہ دراصل  اپنے  دستیاب ذرائع کی ہی وضاحت اور تشریح کر رہے ہوتے ہیں۔دوسروں لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تخلیقی متن کے ساتھ ان کا براہِ راست کوئی معاملہ طے نہیں ہوتا۔یہاں تھیورسٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری محرکات کی تشریح بھی کرے۔کسی ادب  پارے کی کوئی تشریح حرفِ آخر نہیں ہوتی،ہم ایک عہد تک جن تشریحات کو اپنے سینوں سے لگائے پھرتے ہیں،آنے والے وقتوں میں اس سے بالکل مختلف تشریح سامنے آ سکتی ہے اور وہی لوگوں کو اپیل بھی کرے گی۔متنی تشریحات میں اس قسم کے تقابل چلتے رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شعریات کسی مقام  پر معروضیت کی اجارہ داری  ختم کر دے اور متن کے ثانوی معنی سے  بھی کوئی سروکار نہ رکھے۔ ایک قاری جس ادب پارے پر اپنی تنقیدی یا تشریحی  رائے قائم کرتا ہے اس کا حتمی  دارومدار کسی معروضیت یا  متن کے ثانوی معنوں پر  نہیں ہوتا۔بلکہ اس کی بنیاد اُس  طریقِ کار پر استوار ہے جس میں ادب پارے میں موجود جمالیاتی جہتوں کا کھوج لگایا جاتا ہے۔جب ادب پارے کی تفہیم و تعبیر میں ہم زیادہ پیچیدہ طریقِ کار سے رجوع کرتے ہیں تو لامحالہ ہمارا واسطہ ادبی تھیوری کے ساتھ جا  پڑتا ہے۔کیوں کہ ادبی تھیوری کہیں زیادہ مرتب اور منضبط صورت میں ادب کا مطالعہ پیش کرنے پر قادر ہے۔ شعریات اور تھیوری میں ایک دل  چسپ سوال مصنف کے منشا یا ارادے کا آتا ہے۔اب سوچنا یہ ہے کہ اس کے مقام کا تعین کیسے کیا جائے؟کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ جب تنقید کی معروضیت کی بات کی جائے تو بظاہر شعریات اور تھیوری دونوں میں اس منشا یا ارادے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔اگرچہ شعریات میں “منشا “کے لیے نرم گوشہ موجود ہے جو اسے مناسب مقام پر رکھتے ہوئے ادبی مسائل کی گرہ کشائی  کرنے کا قائل ہے۔ ادبی متون کی تفہیمات میں بات جب  ادبی مقاصد کی آئے گی تو پھر منشا کو تنقید کی اقلیم سے خارج کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ادب کی بہتر پرکھ میں مصنف کے ارادے کی بڑی اہمیت ہے بس صرف کرنے والا کام یہ ہے کہ اسے ادبی تھیوری میں صحیح مقام پر رکھا جائے۔

***

Leave a Reply