(۱)محمد محسن خالد
لیکچرار،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور
(۲)ڈاکٹر سید ہ عطیہ خالد
اسسٹنٹ پروفیسر،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین،سیالکوٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا دروازہ ٔ حرفِ ہست
(“گنج سوختہ” کے تناظر میں)
تخلیق کا تعلق انسانی مزاج کی موزونی طبیعت سے ہے۔ طبیعت کا یہ رجحان ہر کسی میں یکساں نہیں ہوتا۔ انسانوں کے اس انبوہ میں ہر کوئی جداگانہ وصایا کے ساتھ زیست کر رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک انسان کا تجربہ دوسرے کے لیے سازگار ہو ۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کے مشاہدے کی گرفت میں آئی چیز ایک جہان کے مشاہدے کا مظہر بن جائے۔ تخلیق کا کسی خاص عنصر،ہیت،ڈکشن اور آموختہ کیفیت کے تجرباتی الحاق سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
تخلیق کی بُنت کو تراشنے اور اسے اظہار کا جامعہ پہنا کر انسانوں کے اس انبوہ کی اجتماعی احساس کو اپنے مشاہدے سے مہمیز کر لینا بظاہر بہت مشکل ہے تاہم کچھ نابغہ ایسے ہیں جو یہ کام آسانی سے کر جاتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی بھی انھیں معدودے چند نابغوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جس موضوع،صنف اور رجحان پر قلم اُٹھایا ؛قلم توڑدینے والی تخلیق کو وجود بخشا۔ شمس الرحمن فاروقی ایک نام نہیں ایک تحریک نہیں ایک عہد نہیں بلکہ ایک پوری صدی کا ادب ہے جس نے اُردو ادب کی اساس کو اپنی تخلیقات سے از سرِ نو تشکیل کر کے نئے آہنگ اور لب و لہجے سے متعارف کروایا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی بطور نقاد ،مورخ، لغت نگار، مترجم ،ناول نگار، افسانہ نگاری اور جانے کیا کچھ تھے۔ ان کے مذکورہ تخلیقی اوصاف کے بر عکس ان کی طبیعت کی موزونی کا مشاہدہ ان کی شاعری سے کرنا ان کی شخصیت، فن اور تخلیقی ذہن کے افہام کا مرکزی محور ہے۔ فاروقی صاحب نے تنقید سے لے کر ناول تک ہر صنف میں لائقِ تقلید کام کیا تاہم ان کی شاعری کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ان کا حق تھا۔
بلراج کومل لکھتے ہیں:
“شمس الرحمن فاروقی بلاشبہ اُردو زبان و ادب کے انتہائی متکلم اور وسیع النظر، وسیع المطالعہ نقاد اور شاعر ہیں۔ ان کی شخصیت کے ان گنت پہلو ہیں۔ شاعر جس پر نقاد حاوی ہے لیکن حواس کے باوجود بطور شاعر سرگرمِ کار ہے۔ نقاد جو بیک وقت شعر۔غیر شعر۔نثر ،عروضِ آہنگ، بیان۔ لفظ و معنی ، فکشن اور لغت سازی کی تخلیق میں بلند مرتبہ مقام مشرقی علوم، جدیدیت کے جملہ مباحث پر حاوی نظر آتا ہے”۔ (1)
ایک بڑے آدمی کے ساتھ ہمیشہ سے مسئلہ رہتا ہے کہ اُس کی بہت سی نیم مشہور تخلیقات کسی بڑے کارنامے کے آگے دب جاتی ہیں ۔ نقادوں، قارئین اور دلچسپی لینے والوں کی نگاہ اِن پوشیدہ تخلیقات کے جواہر پر نہیں جاتی ۔اس طرح ایک فنکار کے جملہ تخلیقی فن کو سامنے آنے میں ہمیشہ اس طرح کے عنصر کا دخل حائل دیکھا جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی ہستی اتنی گہرائی والی دکھائی دیتی ہے جتنی شمس الرحمن فاروقی کی ہے۔ شعری تخلیقات میں انھوں نے روایت کا اجتنا احترام کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ ان کی لفظیات میں جو تمکنت اور وقار ہے ؛اس کی شان بیان سے باہر ہے۔مشرقی و مغربی ادب کے مطالعہ کی بِنا پر آپ وجدانِ آسمان کی وسعتوں کو چھوئے ہوئے ہیں۔فاروقی کی شاعری کچھ ایسی ہے کہ جیسی کہ براؤننگ کی شاعری ہے۔
شمس الرحمن فاروقی ایک غیر جانبدار نقاد تھے ۔انھوں نے “شب خون” کے ذریعے اُردو ادب کی جملہ اصناف کے تخلیقی،تحقیقی اور تنقیدی ادب کو منظرِ عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی تنقید کے آگے ان کی شاعری چل نہ سکی۔ فاروقی صاحب بطور شاعر ہنوز وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جس کے یہ حق دار ہیں۔نوشاد کامران لکھتے ہیں:
“تنقید، تحقیق،فکشن ،زبانی بیانیہ اور شاعری بطورِ خاص شمس الرحمن فاروقی کے خاص میدان ہیں۔ فاروقی صاحب نے تنقید، تحقیق، فکشن کے مقابلے میں اپنے شعری سرمائے کو پسِ پُشت ہی رکھا۔ ان کا شعری سرمایہ ان کے دیگر جملہ تنقیدی کام کے مقابلے میں کسی صورت کمتر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے بہت کم کہا اور جو کہا ؛اس کا بڑا حصہ وہ منظر ِ عام پر نہ لا سکے۔ ان کے معاصرین میں ایسے حوصلہ شکنوں کی کمی نہیں جنھوں نے ان کے کلام پر اعتراض کیے اور کُھل کر داد نہ دی۔فاروقی کی شاعری ان اصحاب کو مشکل اور بوجھل نظر آتی ہے اور وہ اسے پڑھنے سے کتراتے ہیں جبکہ فاروقی کے نکتہ چینوں کے مقابلے میں تحسین نوازوں کی کثرت فاروقی کی شاعری کو ایک مرقع کے طور پر لیتی ہے۔”(2)
شمس الرحمن فاروقی میر تقی میرؔ پر وہ کام کر گئے ہیں کہ رہتی دُنیا تک جب تک اُردو زبان کا چلن باقی ہے۔ شاعری سے دلچسپی اور شغف رکھنے والے فاروقی کے اس کام کو سراہتے رہیں گے اور داد دیتے رہیں گے۔ فاروقی صاحب نے بطور شاعر خود کو ہمیشہ پسِ پُشت رکھا۔ ان کی دیگر تصنیفات کے مقابلے میں شاعری کے مجموعے مختصر ضرور ہیں لیکن یہ اتنے کمتر نہیں کہ انھیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ فاروقی صاحب چوں کہ خود ایک بے لاگ قسم کے نقاد تھے جن کی قلم سے آسانی سے کسی شاعر کی فکر اور طرزِ اظہار کے جملہ اوصاف کے بارے میں تحسین کے کلمات ادا نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نقاد وں نے اور ان کے ہم عصروں نے خود ان کی شاعری کو بھی انھیں کے متعین کردہ سخت اُصولِ نقد پر پرکھنے کی کوشش کی جس سے فاروقی صاحب کا بطور شاعر وہ قد سامنے نہیں آسکا جو بطور نقاد انھیں میسر ہے۔شاہد ملک لکھتے ہیں:
“فارقی کی شاعری میں تجرید،تعقل، تفکر،گہرائی،داخلیت،مابعد الطبیاتی اور ماورائی جہتیں،اُسلوب اور ڈکشن کی پیچدگی’یہ ساری چیزیں مل کر اپنے پڑھنے والوں سے خاصی علمیت اور غوروخوض کا تقاضا کرتی ہیں۔لفظوں کی کفایت، خیال کی گہرائی، تجریدیت اور داخلیت کے ذریعے فاروقی نے اپنے اشعار میں جو جہان آباد کیا ہے؛اس تک رسائی کے لیے ادب کے عام قارئین کو خاصی ریاضت درکار ہو گی۔شعری اظہار کے لیے فاروقی نے جن استعاروں،تمثالوں اور علامتوں کا استعمال کیا ہے وہ عام قارئین کے لیے ایک حد تک نامانوس ہیں۔فاروقی کی شاعری کا بیشتر حصہ سہل زبان پر مبنی ہے جسے قاری با ٓسانی سمجھ سکتا ہے ۔فاروقی کا شعری سفر مشکل پسندی اور پیچدہ گوئی سے شروع ہو کر سادگی اور بر جستگی کی طرف گامز ن رہا جو ابتدا سے منتہا تک قاردی کو مرعوب اور حیرت زدہ کرتا ہے”۔(3)
یہ بات کسی حد تک درست ہے اور اس بات کا خود فاروقی صاحب نے اعتراف بھی کیا ہے کہ بطور شاعر انھوں نے اپنے کلام کو مزید نکھارنے اور جلا بخشنے کی کوشش نہیں کی۔ کلاسیکی شاعری کے غائر مطالعہ نے ان کی طبیعت میں کلاسیکی رنگ بھر دیا تھا۔
پروفیسر مظفر حنفی لکھتے ہیں:
“فاروقی کی تنقید نے ان کی شاعری کو مسخ کیا ہے ۔ان کے شعری مجموعے “گنج سوختہ” اور”سبز اندر سبز” میں لوگوں نے فراقؔ اور ظفر اصغر گونڈوی کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔ اگر یہ مجموعے کسی عام شاعر کے ہوتے تو یقیناً پڑھنے والوں کا رویہ اس کے ساتھ ہمدردانہ ہوتا لیکن شمس الرحمن فارقی کی بے باک تنقیدی آرا کی روشنی میں دیکھنے اور انھیں کی میزان پر ان مجموعوں کو پرھکنے سے یہ شاعری بے کیف ،سروِ علمیت سے گرانبار اور آورد سے مملو محسوس ہوتی ہے۔یہ خیال کسی حد تک درست ہے کہ فاروقی جتنے بڑے نقاد ہیں ؛اِتنے ہی چھوٹے شاعر ہیں”۔(4)
کلاسیکی شعرا کے سر تاج شاعر میر تقی میر ؔ پر ان کی بیس برس کی محنت نے ان کی شاعری کو گہرا اثر چھوڑا جسے فاروقی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ انکار بہت حد تک درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاشعوری طور پر انسان دوسرے انسانوں سے متاثر ہوتا ہے اور انھیں متاثر بھی کرتا ہے۔ بدلاؤ کے اس عمل کو فاروقی صاحب یکسر نظر انداز کرتے ہیں ۔
شمس الرحمن فاروقی “آسمان محراب” میں لکھتے ہیں:
“بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری شاعری کا رنگ اِدھر کچھ بدلا ہے۔ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے اس خِرمن خاکستری کو یک جا دیکھا ہوں تو مجھے کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ یہ ضرور ہے کہ اگرچہ مجھ پر اتباع ِ میرؔ کا الزام نہیں لگ سکتا؛لیکن یہی اٹھارہ بیس میں نے میرؔ کی غزل کو سمجھنے میں صرف کیے ہیں”۔(5)
فاروقی صاحب کا مذکورہ بیان اپنی جگہ درست تاہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے کلاسیکی روایت کے ساتھ جدید رنگ کو بھی اپنے ہاں نہ صرف جگہ دی بلکہ کلاسیکی اور جدید رنگ کی آمزیش کو خود ساختہ دو آتشہ کر دیا ہے۔ فاروقی صاحب کی شاعری ان کی ذات سے ماورا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ زیادہ تر خارج سے تعلق رکھتا ہے۔ فاروقی کے ذہن کی پختگی ایسی بلا کی تھی کہ معمولی مشاہدے کو تجربے کی حدت سے مملو کرنے کا سلیقہ ان کی انفرادیت کو زائل نہیں ہونے دیتا۔
شمس الرحمن فاروقی کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا مجموعہ کلام”گنج سوختہ” کے نام سے 199ء میں شب خون کتاب گھر الہٰ آباد سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں 27 غزلیں اور 13 نظموں کے علاوہ 05 رباعیاں شامل ہیں۔ اس مجموعے کا پیشِ لفظ ن۔م۔راشد نے لکھا ہے جس سے اس مجموعے کی ادبی وقعت اظہر من الشمس ہے۔ دوسرا مجموعہ کلام “سبز اندر سبز” کے نام سے1974ء میں شب خون کتاب گھر،الہٰ آباد سے شائع ہوا ۔اس مجموعے میں 28 غزلیں، 16 نظمیں اور 22 رباعیوں کے علاوہ بچوں کی نظمیں بھی شامل ہیں۔ تیسرا مجموعہ کلام “چار سَمت کا دریا” کے نام 1977ء میں شائع ہوا۔اس مجموعہ کلام میں 75 رباعیاں ہیں۔
اس مجموعہ کو مجموعہ رباعیات کہا جا سکتا ہے۔ چوتھا اور آخری مجموعہ “آسمان محراب” کے نام سے 1979ء میں شب خون کتاب گھر،الہٰ آباد سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں 43 غزلیں،17 نظموں کے علاوہ 20 ترجمہ شدہ ماخوذ نظمیں اور 35 رباعیاں شامل ہیں۔ مذکورہ سبھی مجموعوں کو “مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں” کے نام سے کلیات میں یکجا کر کے 2018ء میں نوشاد کامران اور شنہاز بنی نے مرتب کر کے چھپوایا دیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے کلیات “مجلس آفاق میں پروانہ ساں” کے منظرِ عام پر آنے سے بطور شاعر ان کی ادبی وقعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اکیسویں صدی کے ممتاز نقادوں اور مبصرین نے ان پر تنقیدی آرا پیش کی ہیں جس سے فاروقی صاحب کا بطور قد مزید فروزاں ہو گیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب کے پہلے مجموعہ کلام “گنج سوختہ” کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ ان کی شاعرانہ حِسّیت بہت غضب کی ہے ۔ ان کے اندر کا شاعر سر کھجانے کی فرصت نہ ہونے کے باوجود خود کو گُم نہ کر سکی۔ فاروقی نے اس مجموعہ میں اپنے ابتدائی اوائلِ زمانہ ٔ تخلیق سے لے کر بیس برس کی تخلیقی ریاضت و جہد کے اجتماعی احساس کو اس مجموعہ میں یکجا کر دیا ہے۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
” شمس الرحمن فاروقی کا نام دُنیائے ادب میں محتاجِ تعارف نہیں وہ ان چُنیدہ ہستیوں میں سے ہیں جن کو مشرق و مغرب دونوں کے ادب پر یکساں عبور حاصل ہے اور وہ دونوں کے شعر اور زبان پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ۔انھیں قدیم و جدید رویوں سے پوری طرح واقفیت ہے اور ساتھ ہی وہ اپنا ایک انفرادی نطقۂ نظر بھی رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے ان کی دِقتِ نظر، وسعتِ معلومات اور خود اعتمادی پوری طرح ظاہر ہوتی ہے”۔(6)
ایک شاعر کا یہ مسئلہ ان کی انفرادی زندگی کا شاخسانہ ہے کہ وہ خود کو زندہ بھی رکھے اور اپنے اندر کے حساس شاعر کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کرے۔ دُنیا کے ہنگاموں ،خرابوں اور الجھاؤ میں اکثر بہت کچھ منہدم ہو جاتا ہے اور جو بچ رہتا ہے وہ بھی شکست و ریخت کا نقشِ فرواں عبرت لیے نگاہوں کے خار کو نشتر بناتا رہتا ہے۔ فاروقی نے اپنے اس باطنی کرب اور داخلی احساس کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
میں اپنے قول فعل میں آزاد تھا مگر منت پذیر صاحب بست و کشود تھا
رُکنے لگا تھا ذہن ِ رواں کائی کی طرح پتھر گرا نہ ایک تو کتنا جمود تھا
اگر دریا کا منہ دیکھوں تو قید نقش حیرت ہوں جو صحرا گھیر لے تو حلقۂ زنجیر ہو پیدا
آب و گیا سے بے نیاز سرو جبیں کوہ پر گرمی روئے یار کا عکس بھی رائیگاں گیا
زمانے کی تلخ حقیقت کا عکس فاروقی کی شاعری کا انفرادہے ۔ فاروقی صاحب نے کمال تجزیاتی انداز میں معاشرے کی چبھتی ہوئی ٹِیس قرار دے کر رگِ جاں کو مہمیز کیا ہے۔فاروقی کے ہاں داخلی احساس کو تعلق کی کسوٹی پر پرکھنے کی شعوری کوشش بہت فراواں محسوس ہوتی ہے۔ جبر کی شدید لہر ان کی تخلیق جوت کو دوآتشہ ہونے میں ہمیشہ روکتی ہے اس کے باوجود ان کے داخلی کرب کے آگے ہر طرح کی مصلحتیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔
مَسل کر پھینک دوں آنکھیں تو کچھ تنویر ہو پیدا جو دل کا خون کر ڈالوں تو پھر تاثیر ہو پیدا
سراسر سلسلہ پتھر کا چشم نم کے گھر میں ہے کوئی اب خواب دیکھے بھی تو کیوں تعبیر ہو پیدا
لہو میں گھل گئے جو گل دوبارہ کِھل بھی سکتے ہیں میں چاہوں تو سینے پر نشان تیر ہو پیدا
شاعر جو کچھ کہتا ہے وہ اِس کی ذات سے متصل ہوتا ہے ۔ شاعر اپنی ذات سے متصل کے علاوہ بھی بہت کچھ کہتا ہے جو اس کے مشاہداتی نظام کے خارجی احساس کے ساتھ لاشعوری منسلک ہوتا ہے۔ شاعر کی ذات میں خواہ سیکڑوں اوہام گردش کررہے ہوں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے خود کو بیگانہ نہیں رکھ سکتا۔ شاعر بعض دفعہ اپنی ذات سے ہٹ کر محض معاشرے کے خارجی ردعمل کے اظہار کا نقارہ بن جاتا ہے اور اِسی میں مگن خود کو معاشرے کا نگہان اور مترجم سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ احساس شاعر کو نرگسیت کی طرف لے جاتا ہے۔ نرگسیت کا تعلق شاعر کے داخلی احساس کے تحسینی جذبات سے مملو ہوتی ہے جس کی پرستش شاعر خود کرتا دکھائی دیتا ہے اور ببانگِ دُہل اس کا شاعرانہ اظہار بھی کرتا ہے۔ فاروقی کے ہاں یہ عنصر بہت واضح نظر آتا ہے۔
مجھ سے صد رنف کو دُنیا نہ سمجھ پائی کہ میں حرفِ تکفیر بھی تھا نعرۂ تکبیر بھی تھا(
مجھ سے شکستہ پا سے ہے شہر کی ترے آبرو چھوڑ گئے مرے قدم نقشِ کمال ہر طرف
جانے کب سے بے نشاں وہ چاہِ شب میں غرق تھا میں جو اُٹھا ہو گیا اک دم اُجالا آسماں
اونچی اونچی چٹانوں کا بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں لطفِ سخن پر مرنے والو! بات کو سمجھو پتھر تم
فاروقی صاحب جس زمانے میں شعر کہہ رہے تھے ۔ اُردو غزل کی تشکیل نو کا عمل جاری تھا۔ الفاظ کی ہیر پھیر، تغیرِاُسلوب کے جملہ مباحث اور اوزان و ڈکشن کے معاملات میں بڑی شدت پیدا ہو چکی تھی۔ اُردو غزل کے خلاف اُردو نظم یعنی نظمِ پابند،معریٰ اور آزاد سے بڑھ کر نثری نظم کے فروغ کی راہ ہموار کی جارہی تھی۔ فاروقی اس تحریک سے خود متاثر ہوئے اور غزل کے ساتھ نظم کے جملہ اسالیب میں طبع آزمائی کی ۔فاروقی کے ہاں شاعری محض دل بہلانے اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ انسان کے باطنی احساس کے جملہ معاملات کی لفظی شرح ہے جس سے انسانی زیست کا خمیر اُٹھا ہے۔
ن۔م۔ راشد “گنج سوختہ” کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
“فارقی صاحب کی زبان میں نادر آمیزیش ہے ۔نہ صرف حقیقت اور واہمے کی بلکہ قدیم اور جدید کی بھی۔ خا ص طور پر غزلوں میں،جہاں نئے تصورات اور کلمات اور تصاویر کے دوش بدوش،روایتی تصورات اور تراکیب بھی موجود ہیں۔”۔(7)
زبان کے جملہ اسالیب کے بیان کے معاملے میں اگر یہ کہا جائے کہ فاروقی کے ڈکشن کو سند کی حیثیت حاصل ہے تو اس میں اختلاف کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ فاروقی صاحب ایک مایہ ناز لغت نگار تھے۔ کلاسیکی ادب کے بحرِ بیکراں کو تنِ تنہا انھوں نے جس عرق ریزی سے کھنگالا اور اس کو جدید تنقید کے اُصولوں پر پرکھا اور اس پر لسانیاتی ڈسکورس کا اطلاق جس انداز میں کیا وہ حیرت زہ کردیتا ہے۔ فاروقی کی شاعری میں لفظیات کو پرکھنے،استعمال میں لانے اور ان کے افہام کے سطحی معانی کو نئے مفاہیم پہنانے کا ایک منفرد سلیقہ ملتا ہے۔ میرؔ،درؔ،غالب،مصحفی ایسے کلاسیکی شعرا کے دواوین کے مطالعے سے فاروقی کی نثر کو فروزنی اور بے باکی تو ملی ہی ملی ان کی شاعری کو بھی پرِ جبرئیل میسر آگئے۔
میرے جنوں کا سلسلہ تا حدِ لامکاں گیا خاک اُڑائی اس قدر غیر کا بھی گماں گیا
رازِ خرد ہو کچھ بھی اب رازِ جنوں تو یہ ہے بس آنکھ تھی بے بصر رہی تیر تھا بے کماں گیا
دور اُڑتا گیا میں نور کے رہوار پر پھر بھی جب بھی سر اُٹھایا منہ پہ دیکھا آسماں
عمرِ رواں کی منزلیں طول طویل مختصر آپ بھی ہم سفر رہے غیر بھی ہم عناں گیا
فاروقی کی غزل کا تانا بانا گو کلاسیکی غزل کے جملہ اسالیب سے وضع ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن مزے کی بات یہ کہ فاروقی نے غزل کو ایک نیا ڈسکورس دیا ہے۔ ان کی شاعری میں تعلق پسندی ،مشکل لفاظی، متروک تشبہات اور دورزکار تمثالی مناظر کا کثرت سے ذکر ملتا ہے جس سے ایک عام قاری مفہوم کی روح تک پہنچنے میں دُشواری محسوس کرتا ہے۔
ہر لمحے کی کمر پہ ہے اک محمل سکوت لوگو بتاؤ قاتل گفتار کون ہے
پروفیسر مظفر حنفی لکھتے ہیں:
“فارقی اپنی نثر کی طرح شاعری کو بھی حسب ضرورت مناسب اور متناسب الفاظ با ٓسانی دی ڈالتے ہیں۔ الفاظ کی مصنوعی بُنت کا سلیقہ انھیں خوب آتا ہے۔ حشو و زائد کے حامل مصرعے اور فقرے بھی کم ہی نظر آتے ہیں۔ ہندی اور فارسی سے فارقی بخوبی واقف ہیں۔ عربی سے بھی ان کی یادِ اللہ ہے اور ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔”(8)
فاروقی کی غزل کا آہنگ کسی حد تک مشکل اس لیے ہے کہ ان کی تشکیک کی بُنت فلسفیانہ ہے۔ “گنج سوختہ” کی غزلیات میں دسیوں ایسے اشعار موجود ہیں جن کی سطحیت کو چھپانے کے لیے مشکل الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے اور ان میں فلسفہ بگھارنے کی خودساختہ کوشش نے اشعار کے احساس ِ ظاہری کو مجروح کر دیا ہے۔
ہم اپنے سائے سے تو بھڑک کر الف ہوئے دیکھا نہیں مگر پسِ دیوار کون ہے
گھر گھر کِھلے ہیں ناز سے سورج مکھی کے پھول سورج کو پھر بھی مانع دیدار کون ہے
شمس الرحمن فاروقی کی نظموں کا آہنگ بھی کچھ ایسا ہی الجھاؤ آمیز ہے۔ نظموں میں فاروقی نے قدرے فراخ دلی کا مظاہرہ اس طرح کیا ہے کہ موضوع کو لفظیات پر حائل نہیں ہونے دیا۔ نظم خود اپنے موضوع سے لگا ؤ رکھتے ہوئے الفاظ کو نگینےایسے انگوٹھی میں منقش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ فاروقی کی غزل گوئی کے مقابلے میں ان کی نظمیہ صلاحیت پختہ اور ادبی شان لیے ہوئے ہے۔
شاعر کی مجبوری کہیے یا پسند یدگی ۔شاعر کسی رجحان، کیفیت، مشاہدے اور تجربے کے اظہار کے لیے نثر کی طرح سپاٹ بیانیہ انداز اختیار نہیں کرتا بلکہ علم بیان و بدیع کے جملہ لوازم کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاروقی کے ہاں علم بیان و بدیع کے ان لوازمات کا نہایت خوبصورت استعمال ملتا ہے۔فاروقی نے جہاں تشبہہات و استعارات سے کام لیا ہے وہیں علامت اور تمثیل کو بھی حسبِ موقع برتنے سے گُریز نہیں کیا ہے۔ ان کی شاعری محاکات کا مرقع ہے۔
باد ل کا آسمان پہ بنتا بگڑتا روپ یادِ مزاج ِ یار کی اک لہر بن گیا
پتھر اُٹھا کے درد کا ہیرا جو توڑ دے کج کلاہ بانکا طرح دار کون ہے
کردار قتل کرنے لگے لوگ یوں کہ ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھ کے آوارہ بن گئے
نیلے پانی کی حیرانی کس نے دیکھی کون کہے سامنے رکھ کر آئینہ یوں تو گم صم بیٹھے اکثر تم
گُرگِ احساس سے بچنے کی تو کوئی نہیں راہ سگِ تخیل پہ بند آنکھ کا دورازہ کریں
فاروقی نے جہاں تشبیہات و استعارات کے ساتھ علامات و تمثیلات کا استعمال کیا ہے وہیں محاورات اور تلمیحات کے استعمال سے اپنے وسیع المطالعہ اوروسیع المشاہدہ ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ محاورات کا استعمال یقیناً انھوں نے میرؔ کے دواوین کے مطالعے سے اخذ کیا ہے اور تلمیحات کے معاملے میں فاروقی کی معلومات بہت زرخیر اور وسیع معنویت کی حامل ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی غزلوں میں ” خاک اُڑنا، سر کٹانا، الف ہونا، آنکھوں کو بھربا، زبان کھولنا،نقش چھوڑنا،گرد اُڑنا،صورت چاٹنا،چوٹ پڑنا، سر پھوڑنا” محاورات کی موجودگی ان کی لغت نگاری اور بدیعی شناسی کا ثبوت ہے۔
میرے جنوں کا سلسلہ تا حدِ لامکاں کیا خاک اُڑائی اس قدر غیر کا گماں بھی گیا
سر کٹایا تو سبکسار کہا اُس نے مجھے سر جو رکھتا تھا تو ننگ کف زنجیر بھی تھا
آنکھوں میں روشنی کی جگہ تھا خدا کا نام پاؤں تُڑوا کے مر رہے جاتے کہاں جناب
جو بھری دُنیا کی سنگین عجائب نگری میں اپنا سر آپ نہ پھوڑے وہ جہنم واصل ہے
محاورات کے ساتھ تلمیحات کا استعمال فاروقی کے ہاں کلاسیکی اندازِ شعری کا پتہ دیتا ہے۔ فاروقی نے تلمیحات کے استعمال کو میرؔ،غالبؔ،مصحفی ،ذوقؔ اور اقبال سے سیکھا ہے اور اسی رنگ میں انھیں برتا ہے جس سے ان کے اشعار کی بدیعی معنویت میں اضافہ ہوا ہے۔فاروقی کے ہاں” لامکاں، آمین، عمرِ دراز، فنی النار و السقر،رند،جہنم،ہمزاد،روح” وغیرہ تلمیحات کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔
میرے جنوں کا سلسلہ تا حدِ لامکاں کیا خاک اُڑائی اس قدر غیر کا گماں بھی گیا
کرب کے ایک لمحے میں لاکھ برس گزر گئے مالک حشر! کیا کریں عمرِ دراز لے کے ہم
سارے علوم ہم کریں فی النار و السقر معصومیت کی راہ میں تیر و تبر لیں ہم
رندوں کو ترے آرزوئے خشک لبی ہے اب اے نگہ مست تو کیا ڈھونڈ رہی ہے
وہ کون تھا مرا ہمزاد تو نہ تھا کل رات جب اُس کے نام کو پوچھا کہا جواب میں سانپ
شمس الرحمن فاروقی کی غزل کا آہنگ اپنے اندر اُداسی کی شدید لَے کا فراواں احساس لیے ہوئے ہے۔ شاعر کو شاعر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ داخلی کرب کے شدید مغموم جذبات کا اظہار نہ کرے۔ ایک شاعر ایک انسان اور معمولی انسان سے بہت آگے کی چیز ہوتا ہے۔ اس کا قوتِ مشاہدہ بلا کا اور تجربہ متنوع احساسات کا اجتماع ہوتا ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی لکھتے ہیں:
“فارقی کی غزلوں میں اکثر اشعار متعدد پرتیں رکھتے ہیں ۔صرف فکر کرنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل ان کا ادراک کر سکتا ہے۔ ننگے سینے میں چاندی کے پھول بھرنا، سینۂ چورنگ کے ایک گوشے میں مہتاب کی لَو کا جِھلملانا ،محبوب کو پھولوں میں گلاب اور کانٹوں میں ببول سے تعبیر کرنا ،دل کے کنویں میں سات سمندروں کو گِرتے ہوئے سننا،بدن کی مٹی کا بھاری ہونا، گمانِ دل زدگاں کا کسی طور یقین میں تبدیل نہ ہونا شعری احساسات کو دل پذیر اور دلچسپ بناتا ہے۔”(9)
فاروقی کی نجی زندگی بے شمار مسائل او رہیجانات کا شکار رہی۔ وائٹ کالر ملازمت سے لے کر شدید مصروفیت کے درمیان بہت سے ایسے مسائل اور ذہنی الجھاؤ تھے جنھوں نے فاروقی کے ذہنی کرب اور داخلی احساسا کو یاسیت زدہ کر دیا تھا۔ یہ قنوطیت میرؔ والی نہیں تھی تاہم اس سے زیادہ مختلف بھی نہ تھی۔
کرب کے ایک لمحے میں لاکھ برس گزر گئے مالک ِ حشر! کیا کریں عمرِ دراز لے کے ہم
روئے سخن بدل گیا بڑھنے لگے فاصلے آہ سکوتِ منجمند بیٹھے ہیں ساز لے کے ہم
موت کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ فاروقی کے ہاں موت کی حقیقت کا اعتراف شدت سے ملتا ہے جو ان کے مذہبی رجحان کا پتہ دیتا ہے۔
رقصِ شرر میں کھو گئے برق کے دل سے مل گئے لالہ و گل میں کِھل گئے موت کا راز لے کے ہم
رقص نسیم موت تھا ہر چند مختصر دریا کے منہ پہ پھر بھی اُچھل آئے آبلے
سلیم سہیل لکھتے ہیں:
“شاعر کی جہاں یہ خوبی ہوتی ہے کہ نامعلوم کو معلوم بنادیتا ہے وہیں یہ کیفیت بھی در آتی ہے کہ دید کو ان دیددکھا دے۔ لازم نہیں کہ کسی کا شعر ایسا ہو کہ پر دیوان دینے کی بات کی جائے ۔شاعری تو زندگی کے جملہ اظہار کے عمدہ سلیقے کا نام ہے اور شمس الرحمن فاروقی کے حصے میں یہ سلیقہ مہذب کیفیت میں ڈھلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔فاروقی قاری اور ذہنی ریاضت میں فصیل حائل نہیں کرتے بلکہ سیدھا دل پر چوٹ کرتے ہیں”۔(10)
ایک شاعر حُسن پرست اور عاشق ِ محض نہ ہو۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ فاروقی کے ہاں رومانوی جذبات کی اگرچہ اُس طرح کی بیان بازی دکھائی نہیں دیتی جو میرؔ،غالبؔ اور داغؔ کے ہاں نظر آتی ہے تاہم ڈھکے چھپے الفاظ میں فاروقی نے جذباتِ دل گداختہ کا اظہار ضرور کیا ہے۔ فاروقی کے ہاں محبت محض ایک تسکین کا جز وقتی ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک نمائیندہ ڈسکوری ہے جس کے اطلاق سے انسان کے جملہ عوامل و عناصر کی نفسیاتی تحلیل کی جاسکتی ہے۔
سر پہ ہے نخلِ تمنا کے گل و خار کا تاج سچ کہا تم نے کہ ہے عشق بڑا سادہ مزاج
سرحد آسماں کے پاس جال بچھے تھے ہر طرف کس نے کیا ہمیں اسیر،شوقِ شکار کس کو تھا
کتنے تخیل کدے آنچ سے اپنی جل اُٹھے روشنی تیز ہے اور شہر ہوا ہے تاراج
سلیم سہیل لکھتے ہیں:
“شمس الرحمن فاروقی اپنی شاعری میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے خود کو باقی شاعروں سے منفرد رکھنا ہے۔ اس التزام میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ آدمی آورد کا شکار ہو کر بے لطفی پیدا کرنے کا موجب نہ بن جائے۔”گنج سوختہ” میں یہ مواقع کم کم آتے ہیں۔ جن شاعروں کی تخلیقات کی رفاقت میں شاعر کی زندگی گزری ہے یہ اُسی کا فیض ہے”۔(11)
محبت کے جذبے سے خالی شاعر خود کو شاعر کہہ سکتا ہے تاہم حقیقی معنوں میں وہ شاعر ہو نہیں سکتا۔ محبت انسان کی اتمامِ حجت کی علامت ہے۔ محبت زندگی کا حاصلِ کُل ہے۔ محبت ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو انسانوں سے متصل ہونے، ملن کی آرزو کو مہمیز کرنے اور ہجر و وصال کے ذائقے سے لطف اندوز ہونے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی محبت کے اس جذبے کو اپنی شاعری کا مرکزی استعارہ بنائے ہوئے ہیں جس کا اظہار جا بجا ان کے اشعار میں ملتا ہے۔
دُنیا کا کوئی کام سلیقے سے کر لیں ہم فرصت کہیں سے پائیں تو تجھ ہی پہ مر لیں ہم
اُنگلیاں سرد ہیں پھونکیں تو انہیں ہوش میں لائیں اپنے سینوں پہ لکھیں حرفِ وفا تازہ کریں
سر کو جھکائے الگ تھلگ کیوں بیٹھے ہو آؤ کھیلیں کھیل روح ہم اِس میں پھونکیں گے کوئی تراشو پیکر تم
غم ایک مستقل کیفیت ہے جو انسان کے وجود سے گویا خمیر کی گِل کی صورت متصل کر دیا گیا ہے۔ دُنیا کے اس آزمائشی سفر میں جہاں خوشیوں کے رین بسیرے ہیں وہاں غم کے مستقل ڈیرے بھی ہیں۔ غم انسان کو ذہنی طور پر بالغ اور پختہ کرتا ہے۔ یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے۔ غم تعمیری ہو تو نئے جہاں کی تشکیل کا استعارہ بن جاتا ہے اور اگر اس کی سرشت میں تخریبی سازش کی کارفرمائی مستور ہو تو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ فاروقی کی زندگی کچھ ایسی ہی سچائیوں سے عبارت تھی جن کا ذکر ان کے اشعار میں واضح طور پر ملتا ہے۔
آخر ی قطرۂ خوں سے ہوئی جن کی تنویر چشمِ دل مانگتی ہے اب بھی اُن اشکوں کا خراج
دم بہ دم چہرہ بدلتا رہا آئینہ درد ہم نے یہ دیکھ کے سمجھا غمِ انساں کا مزاج
شیشہ تھا اک غم دل ٹوٹ کے ساحل پہ گِرا منتشر ریت کے ہر ذرے کا شیرازہ کریں
میں نے خود زہر ِ ندامت میں بجھائی ہیں رگیں ورنہ کیا درد ہے جو پنجۂ درماں میں نہیں
شاعر جس سماج میں رہتا ہے اس کے خارجی اور داخلی جملہ عوامل وعناصر سے شناسا ہوتا ہے۔ سماج کے شعور کے بغیر ایک شاعر لن ترانی کر سکتا ہے لیکن حقیقت کی عکاسی کو صحیح طور منکشف نہیں کر سکتا۔ فاروقی نے ہر میدان میں اس وصف کو شاملِ تحریر رکھا ہے۔ تنقید ہو ،ناول نگاری ہو یا شاعری؛ہر جگہ شمس الرحمن کی قلم سے حقیقت کی سماجیاتی معنویت سہل او رواں انداز میں سہ پارے کا فرواں عکس لیے قاری کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ شاعر کو معاشرے کا نباض کہا جاتا ہے۔ نباضی کا یہ عمل فاروقی کے ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بھوری پہاڑیوں پہ بھی سبزہ اُگا کے دیکھ دعویٰ ہے گر کہ سب پہ ہے جنگل کی دسترس
آنکھوں میں روشنی کی جگہ تھا خدا کا نام پاؤں تُڑا کے مر رہے جاتے کہاں جناب
منسوخ ہے اس دور میں ہر رسم گریباں اب مشغلۂ اہل جنوں سینہ زنی ہے
بے حسی میں جیتے ہیں کچھ سزا ہی مل جائے کتنا سُونا جنگل ہے بھیڑیا ہی مل جائے
شمس الرحمن فاروقی کے ہاں شعری احساسِ زیاں کا خوبصورت اظہار بہت فراواں ہے۔ فاروقی نے حقیقت کو معنویت کارنگ دیا ہے اور اس رنگ میں پھیکا پن نام کو بھی نہیں ہے۔
دیوار سرد مہر کے سائے میں رات بھر چُنتا رہا میں خوف و ندامت کے خار و خس
تجربہ دل میں رہے تو کِھلے آنسو بن بن کر اور کاغذ پہ چھلک جائے تو شمع محفل ہے
کلاسیکی اُردو غزل کی اساس لفظیات پر رکھی گئی تھی۔ دورِ ایہام گوئی سے لے کر تازہ گوئی اور پھر جدید تشکیلی دور کے بعد جدید اُردو غزل کے وسیع عہد میں غزل نے کئی ڈکشن اختیار کیے اور نت نئے اسالیب سے استفادہ کیا ۔ غزل نے ہر طرح کے لسانی بدلاؤ کو قبول کیا اور اس سے اپنے وجود کی فراخی کو کشادگی بخشنے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
غزل جہاں تمثیل اور محاکات کی اساس پر اُستوار ہے وہاں منظر نگاری کے وصف نے اُردو غزل کے معیار اور وقعت کو ہمیشہ مستحکم کیے رکھا ہے۔ بیان و بدیع کے لوازمات جہاں تج جاتے ہیں وہاں منظر نگاری کا مرقع اُسلوب جذبات و احساسات کے جملہ اظہار کے لیے کلیدِ فقل کا کام دیتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کےشعری مجموعہ”گنج سوختہ” میں بیسیوں اشعار مل جاتے ہیں جو منظر نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔
پتھر کی بھوری اوٹ میں لالہ کِھلا تھا کل آج اِس کو توڑ لے گئیں دو بچیاں جناب
کنارِ بحر ہے دیکھوں گا موج آب میں سانپ یہ وقت وہ ہے دکھائی دے ہر حباب میں سانپ
مر مر کی چٹانیں سینہ تانے ہیں ہاتھوں میں مگر ندی کے تیشہ ہے
خودفراموشی ایک اذیت ہے جسے خودساختہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سماج کا ایک طرح سے نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے جو انسان کو کُھل کر اپنے بیانیے کی ترویج اور تخلیقی مزاج کے عملی مظاہرے کو روکتا ہے۔ شاعر اپنے اندر کے کومل انسان کو ہزار حیلوں سے بہلا پُھسلا کر خود فراموشی یعنی اغماض میں پڑے رہنے پر آمادہ کر لیتا ہے ۔یہ کوشش کسی حد تک کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اسے پوری طرح دبایا نہیں جا سکتا ۔ فاروقی کے ہاں خود فراموشی کا بیان ایک المیے کی صورت لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
ہم برگ زرد سبز خلاؤں میں کھو گئے ہم کو ہوائے سرد تھی سنگ گراں جناب
تو جسم تھا آہٹ پا کے میری سنگ ہوا مگر مرا مرنا تجھ پہ منحصر تو نہ تھا
برف کے گالے سے ہلکے ہم اپنی قیمت کا مانگیں شمعِ سخن پر پگھلا دو یا جو بھی سمجھو بہتر تم
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمس الرحمن فاروقی ایک عمدہ شاعر ہیں۔ ان کے شاعر ہونے میں کسی کو اعتراض نہیں۔ ان کی شاعری پر بے شمار تنقیدی آرا سامنے آتی ہیں۔ فاروقی کی تعقل پسندی، وسیع المطالعاتی عادت اور خودساختہ بہت کچھ ہونے کا دعوای کرنے کا مزاج ان کی شاعری کو فکری آہنگ کی پستی میں مبتلا کر تا ہے ۔ فاروقی کے کلام میں نامانوس فارسیت زدہ تراکیب اور دوزاکار تشبیہات کے علاوہ محض موزو ں کیے ہوئے سطحی خیالات کی فراوانی بھی ملتی ہے جسے پڑھ کر فاروقی صاحب کے دیگر کام کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمدردی ہوتی ہے تاہم اس سطحیت کو کسی طور پر کمپلسیٹ نہیں کیا جاسکتا۔
شمس و قمر بے کراں ہفت فلک نبرد گاہ روشنیوں کی دوڑ میں پاے فرار کس کو تھا
سایہؐ ابلق شجر گھات میں چشم نیم وا پاؤں جہاں تھے جم گئے ہوش فرار کس کو تھا
آج سے پہلے ہم سبھی سمجھے تھے اِس کو برگِ گل تجربۂ جلالت روے نگار کس کو تھا
موج دریا کو پیئں کَیا غمِ خمیازہ کریں رف افشردۂ صحرا میں لہو تازہ کریں
سایۂ ہر شجر میں تھا رینگتے لمحوں کا ہجوم خام خیال گردشِ لیل و نہار کس کو تھا
شمس الرحمن فاروقی کے مطلعے آتشؔ کی طرح چُست اور دلا ٓویز نہین بلکہ انتہائی سطحی،معمولی اور بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں۔ پوری غزل جو پانچ سے آٹھ ،نو،اشعار پر مشتمل ہے ۔اس میں کبھی ایک اور کبھی دو عدد شعر کام کے ہوتے ہیں۔ فاروقی صاحب کی علمیت اور تعلق پسندی شعری نغمیت کو زائل کرنے اور شعر کے حُسن کو چاٹ جانے کی لَت سے باز نہیں آتی۔ فاروقی صاحب کو کہیں کہیں اِس سطحیت کا اندازہ تھا تاہم انھوں نے اس روش کو بدلنا گوارا نہیں کیا۔
عزیز تھا لیکن پر غرور سر تو نہ تھا حقیر تھا پھر بھی خاک رہ گزر تو نہ تھا
ہر جلوۂ حُسن بے وطن ہے شاید کہ یہ محفلِ سخن ہے
آس رہی اب نہ یاس خوف نہیں کچھ دل سے اُٹھا جاں کا پاس خوف نہیں کچھ
سُرخ سیدھا سخت نیلا دور اونچا آسماں زرد سورج کا وطن تاریک بہتا آسماں
سلیم سہیل لکھتے ہیں:
“شمس الرحمن فاروقی نے اُردو کی کم و بیش ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ شعر، افسانہ، ناول، تنقید،ترجمہ،لغت نویسی،ادارت ؛الغرض ادب کی جملہ اصناف میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی اتنے کام کیسے کر سکتا ہے۔ فاروقی نے یہ سارے کام کیے اور خوبی یہ ہے کہ وہ اتنی متنوع اصناف کے ساتھ معاملہ کرنے میں ناکام نہیں ہوئے۔ ان کا اظہار ہر صنف کے تقاضوں کی تکمیل کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اظہار میں ہر صنف میں خود معتکف ہیں”۔(12)
شمس الرحمن فاروقی کی غزلیات میں منظر،فرطت، تکرار، من مانی،مادیت،تعقل پسندی کی ایسی دُنیا آباد ہے جو بالکل نئی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ شاعر اپنے لیے اظہارِ بیان میں انفرادیت کا سامان کررہا ہے۔ اس سے اس شاعری میں انفرادیت ،انفرادیتِ محض نہیں بلکہ صرفِ ذات محسوس ہوتی ہے۔اس صرفے میں شاعر کا خون بھی متصرف نظر آتا ہے۔
شمس الرحمن فارقی کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ ان کے اکثر قاری،دوست اور نقاد ،شمس الرحمن کی شاعری کو ،ان کی ناقدانہ اقدار و آرا سے الگ نہیں کر سکے۔ لہذات سطح پر کِھلے ہوئے پھول تو ان کو برابر دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ آگ کی تپش ان کی نظروں سے اوجھل رہی جن نے فاروقی اور ان کی شاعری کو مضطرب و بے چین کیے رکھا۔
شمس الرحمن فاروقی کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ایک واضح جہت کا احساس ہوتا ہے ۔”گنج سوختہ” کی نظموں اور غزلوں کی ڈرافٹنگ قدرے پیچدہ ہے۔نظموں کے ڈھانچے سڈول جبکہ غزلوں اور رباعی میں جذبہ ٔ خیال کی شعوری آرائش سے ماورایت برتی گئی ہے۔ایک بات طے ہے کہ فاروقی کی شاعری کا مطالعہ، جسمانی تفصیلات ،محاکات،بیانات اور نظریات کے سلاسل میں رہ کر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم بیانات اور نظریات کے سلاسل سے آزاد ہونے کی جرات اور ہمت نہیں رکھتے تو فاروقی کی شاعری کے اکثر نازک گوشے ہماری نظروں سے اوجھل رہیں گے۔
حوالا جات
1۔کوثر صدیقی،جاوید یزدانی،کارروان ادب،(شمس الرحمن فاروقی نمبر)،شمارہ نمبر،12،سن(ندارد)، دہلی ،ص:120
2۔مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں(کلیات)، شمس الرحمان فاروقی ،مشمولہ،پیش لفظ،رنگِ ادب پبلیکیشنز،کراچی،2019ء،ص:30
3۔شاہد ملک،دی وائر،ویب بلاگ،25 دسمبر،2020ء
4۔کوثر صدیقی، کارروانِ ادب(بھوپال)،غالب اکیڈمی،دہلی،2013ء ،ص:109
5۔ ، مجلس آفاق میں پروانہ ساں(کلیات)شمس الرحمن فاروقی،مشمولہ، دیباچہ،”آسمان محراب”،ص:542
6۔شمس الرحمن فاروقی ، اُردوغزل کے اہم موڑ،غالب اکیڈمی،دہلی،1997،ص:15
7۔ مجلس آفاق میں پروانہ ساں(کلیات)شمس الرحمن فاروقی ،ص:39
8۔ کوثر صدیقی، کارروانِ ادب(بھوپال)،غالب اکیڈمی،دہلی،2013ء ،ص:113
9۔ کوثر صدیقی، کارروانِ ادب(بھوپال)،غالب اکیڈمی ،ص:117
10 ۔سلیم سہیل،ویب بلاک،اُردو لَو،02 جنوری ،2019ء
11۔ ایضاً
12۔ایضاً
***