ڈاکٹرصائمہ منظور
فیضؔ کی شاعری میں رومان وانقلاب کا امتزاج
فیض احمد فیض کی شاعری برصغیر کے سیاسی اور سماجی حالات کا ایک ایسا عکس ہے جس میں رومان اور انقلاب کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ فیض کے ہاں ’’رومان‘‘ کا مفہوم محض عشقیہ جذبات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کی خوبصورتی، تعلقات اور ہمدردی کا عکاس ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، سکون اور جمال کی وہ نرمی ملتی ہے جو دل کو تسکین دیتی ہے۔ دوسری جانب، ’’انقلاب‘‘ فیض کے شعری تخیل میں ایک ایسی شدت رکھتا ہے جو ناانصافی، طبقاتی تفریق، اور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا پیغام دیتا ہے۔
فیض کی شاعری کا یہ منفرد انداز اس وقت وجود میں آیا جب انہوں نے سماجی اور سیاسی مسائل کو شدت سے محسوس کیا اور دیکھا کہ محبت اور انسانی عظمت کی حقیقی قدریں اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتیں جب تک معاشرہ ظلم اور ناانصافی سے آزاد نہ ہو۔ یوں انہوں نے اپنے رومانوی خیالات کو انقلابی افکار کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا پیغام تخلیق کیا جو محبت کی نرمی اور انقلاب کی شدت دونوں کو یکجا کرتا ہے۔
فیض کا کلام آج بھی سماج میں امن، محبت اور انصاف کے خواب کی یاد تازہ کرتا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تخلیق میں محبت اور انقلاب دونوں کی اہمیت کیا ہے۔
ایک طرف انقلاب تو دوسری جانب رومان تاہم فیضؔ نے نہ تو انقلاب سے دامن بچایا اور نہ ہی رومانیت کو خیر باد کیا فیض کی شاعری رومان سے شروع ہوئی اورانقلابیت پر ختم ہوئی۔ دراصل فیضؔ نے اُردو شاعری کو ایک نئے اسلوب اورنئے آہنگ سے روشناس کرایا ۔ جس میںرومانیت اورانقلابیت ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔
فیضؔ کے یہاں جمالیاتی حِس بھی ہے اوراخلاقی قدریں بھی، غنائیت بھی ہے اور روایتی شان وشوکت بھی ہے۔ جو انھیں اُن کے معاصرین سے ممتازکرتی ہے ۔میرؔ غالبؔ اور اقبالؔ کے بعد فیضؔ چو تھے ستون مانے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی شاعری سے پورے عالم کو متاثر کیا ہے ۔دراصل فیضؔ ایک رئیس خاندان کی دوشیزہ کے عشق میں مبتلا ہوئے اور ان کی شادی کہیں اور ہوگئی اس طرح فیضؔ کو مایوسی اورناکامی ہاتھ آئی اوراسی دوران وہ امرتسر میں لیکچرر ہوئے اوراس عشق میںناکامی کا اظہار انہوں نے کچھ اس طرح کیا ۔ ’’اُس عشق کا انجام وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے یعنی اُس کی شادی ہوگئی اور ہم نو کر ہوگئے ۔‘‘ اور پھر اسی دوران امرتسر میں فیضؔ کی ملاقات رشید جہاں سے ہوئی۔ انہوں نے فیضؔ سے کہا کہ عشق میںناکامی کوئی بڑا حادثہ نہیں زندگی بے معنی ہوجائے یہ کہتے ہوئے انہوں نے مارکس کا کمیونسٹ مینی فیسٹو فیض کودیا اور مطالعہ کرنے کو کہا۔ یہی ملاقات اور مینی فیسٹو کا مطالعہ فیضؔ کی زندگی میں گریز کادرجہ رکھتی ہے اور انہوں نے اپنا عشقیہ اور رومانوی انداز و آہنگ اور اسلوب اپنی انقلابی فکر کو سونپ دیا ۔عالمی سیاسی منظر نامے سے متاثر ہوئے فکر کو مزید وسعت حاصل ہوئی اور وہ کہہ اُٹھے۔
’’ مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘
اس انقلابی فکر نے فیضؔ کو ایک نئی راہ دکھائی اور اظہار درد عشق کے لئے انہوں نے روایتی انداز ہی اختیار کیا ۔انجمن ترقی پسند مصنّفین میں شمولیت کے بعد وہی انداز اشتراکی نظریہ اور پیغام رسائی کا ذریعہ بنا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ فیضؔ کلاسیکی شاعری میں اخترشیرانی کی رومانوی شاعری اوراقبال کے مشرقی آہنگ نے اُن کے اندر جوش جذبہ اور ولولہ پیدا کیا اورساتھ ہی مارکسی فکر نے ایک نیا انداز بھی فراہم کیا جس کی وجہ سے ان کی شاعر ی میں اعتدال پسندی اورتوازن ہے۔
فیضؔ نہ تو خالص مشرقیت کے پجاری تھے اور نہ ہی مکمل مغربیت کے پیروکار تھے۔انہوں نے جدید اور قدیم میں توازن برقرار رکھاہے بقول ڈاکٹری تقی عابدی:
’’فیض کا سفر مجاز اور رومان سے حقیقت اور انقلاب تک کبھی پورا نہ ہوسکا ۔فیض تمام عمر ایک پانو رومانیت اور دوسرا پانو انقلابیت کی سرزمین میں رکھ کر زندگی بسر کرتے رہے ۔ فیض نے رومان اور انقلاب میں انتہا پسندی قبول نہیں کی۔ نہ وہ اختر شیرانی کی طرح رومانیت میں مکمل غرق ہوئے اورنہ سردار جعفری کی طرح انقلاب کے ڈھنڈورچی بنے ۔‘‘۱؎
فیضؔ کی ابتدائی شاعری میں مغربی شعراء کی ہلکی سے رنگت بھی دیکھی جاسکتی ہے یہ رنگت اورمضمون نگاری زیادہ تر رومانی مشاعروں کے جمالیاتی رُخ سے مشابہت رکھتی ہے جن میں حسینہ خیال سے تنہائی اوردوسری علامتوں نظموں پر خاص مغربی شعراء کے نقوش موجود ہیں۔ اردوادب کے مختلف ناقدین شعراء اور دانشوران نے فیضؔ پر مغربی شعراء کا اثر محسوس کیا ہے۔ جن میں براؤننگ، تھامس ہارڈی کٹیس،آرتھر سائمن رابرٹ فراسٹ شیلے بائرن اورورڈزورتھ کانام کافی اہم ہے۔ فراقؔ گورکھپوری اپنے شاہکار مقالہ ’’اُردو کی عشقیہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فیض اس لحاظ سے انگریزی رومانی شاعری سے بہت قریب ہوجاتا ہے ، کہ اس کی شاعری کی بنیادیں اپنے وقت اور اپنے زمانے کی بعض اقدارپرقائم ہیں۔ فیضؔ نے ایک نیا مدرسۂ شاعری قائم کردیا۔انھو ں نے جس بصیرت افروز احساس وخلوص اورفنکارانہ چابکدستی سے عشقیہ واردات کو دوسرے اہم سماجی مسائل سے متعلق کرکے پیش کیا یہ اردو کی عشقیہ شاعری میںایک بالکل نئی چیز تھی۔ نئی اورقابل قدر بھی۔‘‘۲؎
فیضؔکی مشہور نظم موضوعِ سخن ان کی شاعری کے بنیاد فکر کانچوڑ معلوم ہوتی ہے۔ فیض نے یہاں رومان کا سفر کیا ہے یایوں کہئے کہ یہ مجاز سے انقلاب کا راستہ ہے۔ یہاں غم جاناں اور غم دوراں کی آمیزش ہے ۔اس میں مسائل زندگی کے ساتھ ساتھ فلسفۂ زندگی بھی ہے کہیں پر دُکھ کا میلاہے تو کہیں پر حسن کی رونمائی بھی ہے۔ اوردونوںمقامات پر فیض احمدفیضؔ کامشاہدہ اورتجربہ بولتا دکھائی دیتا ہے۔
اُن کا آنچل ہے کہ رخسار کے پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگین
اپنے افکار کی اشعار کی یہ دنیاہے یہی
جانِ مضمون ہے شاید معنی ہے یہی
جانے اُس زلف کی موہوم گھنی چھانو میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں۔۳؎
فیض غم دوران میں فنا ہونا نہیں چاہتے بلکہ اس سے نبرد آزما ہوتے ہیں وہ شاعری میں صرف نعرہ بازی اورخشک سائی پیدا نہیں کرتے بلکہ اس دشوار گذار راستے کو بڑی آسانی سے طے کرتے ہیں۔ فیض کے کلام میں آسودگی نہیں بلکہ آرزو اور جستجو ہے جوا ن کے اشعار سے نمایاں ہوتا ہے۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
فیض تھی راہ سرسبز منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
اگرچہ فیضؔ ایک خالص رومانی شاعر کی حیثیت سے ابھرے لیکن ترقی پسند ذہنیت اورترقی پسند تحریک کے زیر اثر انقلاب کے راستے پرچل کر سماج کے دُکھ درد اورمسائل کو اپنے دل کے آتش زدہ خانوں میں پگھلانے لگے اوراپنے پہلے شعری مجموعے’’نقش فریادی‘‘ کو دوباب میں منقسم کیا ۔ اور اس رومان اورحقیقت کے درمیان نظامی گنجوی کے مصرعہ’’دلے بفروختم وجان خریدم‘‘ یعنی رومانی شاعری کا شہرمیں نے بیچ دیا اور اب سماجی زندگی کے شہر میں زندگی گذار رہاہوں۔ یہ اعلان بھی کیا کہ اب وغم جاناں سے غم دوراں کی طرف سفر کرچکے ہیں مگر یہ اُن کی خوبی سمجھیں کے انہوں نے رومان اور انقلاب میں کبھی انتہا پسندی قبول نہیں کی ۔ مگر یہ کہنا کہ فیض نے نقش فریادی میں’’دلے بفروختم وجانے خریدم‘‘کے بعد صرف خالص رومانی نظمیں اور غزلیں نہیں کہیں درست نہیں ہے ۔ بعض نظمیں اورغزلیں ایسی ہیں جن میں علامات اور معانی کو صرف رومانی کیفیات سے ہی تشریح دی جاسکتی ہے۔ جس کی ایک مثال ان کی نظم’’مرے ہمدم مرے دوست‘‘ سے بھی دی جاسکتی ہے جو ان کے شعری مجموعہ’’دست صبا‘‘میں شامل ہے ۔اشعاردیکھئے:۔
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفات سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتاہے۴؎
عزیز احمد اپنی مشہور کتاب’’ترقی پسند ادب‘‘ میں اس کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
’’عاشقی اور انقلاب کا خط فاصل جس کو فیض پار کرنا چاہتے ہیں کسی طرح پار نہیں ہوتا اُن کی شاعری عشق اور انقلاب کے درمیان ایک گریز مسلسل بن گئی ہے ۔‘‘۵؎
فیض اپنے انقلابی لہجے کی وجہ سے حکومت کی نظرمیں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے مگر عوام کی نظر میں ان کی انسان دوستی کا گراف بڑھتا ہی گیا ۔۱۹؍مارچ ۱۹۵۱ء کو جب فیض راؤلپنڈی سازش کیس میں گرفتار کرلئے گئے ۔ تو فیض کی دل پر اس کاگہرا اثر پڑا ۔ جس کا اظہار انہوں نے کچھ یوں کیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکرنہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
جیل جانے کے بعد فیض ؔکا حوصلہ کم نہیں ہوا بلکہ وہ اور بھی نڈر اور بے باک ہوگئے اسیری نے ان کے اندر مزید خود اعتمادی پیداکردی اور ان کی شاعر کو وہ مواد حاصل ہوا جو شاید باہر کے دنیا میں رہ کر بھی نہ ملتا ۔دست صبا اور زندان نامہ اسیری کا ہی ثمرہ ہیں ۔ زنداں میں انہوں نے صبح وشام گہرا مطالعہ کیا اورجیل کے اندر ہی اپنے وطن کے دیدار کے لئے تڑپ اٹھے ۔ان کی یہ تڑپ جو ان کے اشعار میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے:۔
بجھا جو روزن زندان تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر تیرے رُخ پر بکھر گئی ہوگی۶؎
فیض کی پرورش روایتی ماحول میں ہوئی تعلیم کا سلسلہ مکتب میں مذہبی کتابوں اورقرآن سے ہوا یہ بھی کہاجاتاہے کہ انہوںنے کچھ پارے حفظ بھی کئے پھر ایف اے بی اے عربی اورانگریزی میں ایم اے کیا ۔ لیکچرر بنے فوج میں بھرتی ہوئے اورپھرصحافت سے وابستہ ہوگئے۔ شاعری کا آغاز رومانیت سے ہوا۔ مگرکلاسیکیت کے کبھی نفی نہیں ہوئے ۔ ترقی پسندی کادامن مضبوطی سے پکڑا مارکسزم کونظریۂ حیات بنایا اور آخردم تک اس نظریہ پر ثابت قدم رہے ۔ اس طرح دیکھاجائے تو فیض واحد ایسے شاعر ہیں کہ ان کی پیچیدگیوں اور تضادات کا اثر ان کی شاعری پر مثبت پڑا اس سے فیضؔ کو جو اخلاق قوت اورجرأت حاصل ہوئی وہی اُن کی انفرادیت ہے جسے روحانی انقلاب سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
حواشی
۱۔ فیض فہمی از تقی عابدی ، سن اشاعت ۲۰۱۱ء، ص ۹۵
۲۔ اردو کی عشقیہ شاعری،از فراق گورکھپوری ،مکتبہ عزل وعمل کراچی،۱۹۶۶ء،ص ۱۲۳
۳۔ کلام فیض، نقش فریادی۔ نظم موضوع سخن ، ص ۷۴
۴۔ دست صبا ، نظم میرے ہمدم میرے دوست، ص۱۶
۵۔ ترقی پسند ادب،ازعزیز احمد، چمن بکڈپو اردو بازار دلی۔ ص ۸۹
۶۔ دست صبا، نظم نثار تیری گلیوں کے، ص۵۹
***