سید امتیاز احمد
لکچر ر ،شعبۂ اردو ، یوگی ویمنا یونی ورسٹی،کڑپہ،آندھراپردیش
قیسیؔ قمر نگری کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا جائزہ
قلمی نام قیسی قمر نگری اصل نام صدیق احمد اور تخلص قیسیؔ ہے۔پیدائش یکم مارچ 1954ء شہر کرنول ریاست آندھراپردیش میں ہوئی۔ ایم ۔اے، پی ۔ایچ ڈی تک کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔برقی بورڈ آندھراپردیش میں ملازمت کی۔جنوبی ہند بالخصوص رایلسیما کے بے شمار اہم اوع مشہور و معروف طنزیہ و مزاحیہ شعراء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔طنزیہ و مزاحیہ ادب میں آپ کی کل چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں چوٹی کی شاعری‘ادب برائے بیگم‘ سوتیلی بیوی ‘(شعری مجموعے)اور بسم اللہ کے لڈّو( افسانوں کا مجموعہ)ہیں۔ اس کے علاوہ سنجیدہ کلام کا شعری مجموعہ ’’ نوشتٔہ آب اور دیگر مضامین جن میں ’’ کرنول میں اردو شعر و ادب آزادی کے بعد‘ میرے ہم عصر مزاح گو شعراء اور چند تاریخ سازمشاعرے قابلِ ذکر ہیں۔
طنز و مزاح دو مختلف الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دونوں کے معنی بھی مختلف ہیں۔ طنز کے معنی طعنہ‘نکتہ چینی ‘ تمسخر اور رمز کے ساتھ بات کرنے کے آتے ہیں‘ جبکہ مزاح کے معنی ہنسی‘ مذاق اور خوش طبعی کے ہیں۔ اس طرح اس لفظ کا مجموعی مطلب ’ ظرافت کے ساتھ تنقید یا نکتہ چینی کرنے کا ہوگا‘۔
اردو شعر و ادب میں طنز یہ و مزاحیہ شاعری کی روایت باقاعدہ طور پر جب سے عام ہوئی غالباً اسی وقت سے طنزو مزاح اردو ادب کا ایک اہم حصّہ بن گیا ہے۔ادب میں طنز و مزاح دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دئے جاتے ہیں۔طنز کے بغیر خالص مزاح کی کوئی اہمیت ہے نہ مزاح کے بغیر طنز کی۔اس لئے کہ ادب میں تفریح کے ساتھ ساتھ فکر کو بیدار کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔غرض اس خصوصیت کے حامل شاعر و ادیب کو اچھے طنز و مزاح نگار میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس بات کی تصدیق ہمیں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب کی تحریر سے ہو تی ہے۔
’’ اچھے طنز و مزاح نگار عوام کے تفریحی تقاضوں کو ضرور ملحوظ رکھتے ہیں، شستگی اور شائستگی سےکام لیتے ہیں اور ہماری تہذیبی اقدار کو
فراموش نہیں کرتے وہ مزاح کا سامان ہی پیدا نہیں کرتے ہماری فکر کو بھی بیدار کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی،رضانقوی واہی،اور دلاور فگار جیسے شاعروں نےایسا ہی کیا ہے۔قیسی قمر نگری کے ہاں بھی وہ جراثیم موجود ہیں جو انہیں ایک اچھا طنز و مزاح نگار بنا سکتے ہیں۔‘‘
(سوتیلی بیوی، شعری مجموعہ)
واقعی یہ خصوصیت ہمیں قیسیؔ کی شاعری میں ملتی ہے۔ بیک وقت قیسیؔ کی شاعری قاری کو ہنساتی بھی ہے اور غور و فکر پر آمادہ بھی کرتی ہے۔ قیسیؔ نے زیادہ تر سیاسی، سماجی،تہذیبی اور عصری معاشرتی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ جس طرح سنجیدہ ادب میں اعلیٰ اوصاف کے کردار تخلیق ہوتے ہیں اسی طرح مزاحیہ ادب میں پست و ناقص کردار جنم لیتے ہیں۔پروفیسر مظفر شہ میری لکھتے ہیں۔
’’ سنجیدہ شعر وادب میں انسانِ کامل، مرد ِمومن اور سوپر مین وغیرہ جیسے اعلیٰ کردار جنم لیتے ہیںجبکہ فکاہیہ ادب میں ان کی ضد یعنی انسانِ ناقص کا پست کردار تخلیق ہوتا ہے۔ قیسیؔ کی مزاحیہ شاعری میں ایک ایسے ہی مردِ ناقص کا تصور ابھرتا ہے جو زندگی کے ہر میدان میں اپنی کچھ فطری کچھ خود ساخستہ کمزوریوں کی وجہ نشانہ مزاق بنتا ہے۔
(سوتیلی بیوی، شعری مجموعہ)
اس اقتباس کی روشنی میں جب ہم قیسی ؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ مردِ ناقص مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتاہے۔ کبھی یہ مردِ ناقص ایک نا کام لیڈر کی شکل میں نظر آتا ہے تو کبھی ایک مظلوم و لاچار شوہر کی شکل میں ،کبھی یہ ایک بے غیرت و لالچی داماد کی شکل میں نظر آتا ہے۔کبھی یہ ایک کمزور و ناتواںاور مفلس شاعر کی شکل میں تو کبھی ایک رشوت خور آفسر اور چاپلوسی نوکر کی شکل میں نظر آتاہے۔ اس طرح پوری شاعری اسی مردِ ناقص کے اطراف گھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
قیسی ؔ نے لیڈر کی مختلف کمزوریوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔اس کے کسی بھی عمل پر یقین نہیں کیا جا سکتا جس طر ح ایک کریلا پک جانے
کے بعد بھی کڑوا ہی رہتا ہے بالکل لیڈر کی شخصیت کو اسی مانند پیش کیا ہے۔
کوئی لیڈر نیکو کاری میں یکتا ہو نہیں سکتا
کریلا پک بھی جائے گا تو میٹھا ہو نہیں سکتا
لیڈر کی حیثیت سے وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے وہ خود عوام کے لئے مسلۂ بن جائے تو عوام کی نظر میں اس جیسے منسٹر کا ہو نا یا نہ ہونا دونوں برابر ہے۔
ہم منسٹر سے بنگلے پہ ملنے گئے وہ سڑک پر ہی لیٹا ہوا مل گیا
مسلم رہنمائوں کا معاملہ بھی کچھ عجیب ہے۔نہ ہی ان میں کسی اعلیٰ افسر سے ہمت سے بات کرکے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہےاور وہ نہ ہی اپنے قوم کے مسائل سننے کے عادی ہیںوہ صرف ہمیشہ خاموش رہنے کی تاکید کرسکتےہیںاورانھیں خود بھی خاموش رہنے کی عادت ہے چاہے دنیا اِدھر کی ادھر ہوجائے۔یہی خاموشی شاعر کو ناگوار لگتی ہے۔
مسلمانو! اسمبلی ہو کہ مسجد ہر اک جا حسبِ عادت چپ رہو
قیسی ؔ کا مردِ ناقص ایک شوہر کی حیثیت سے بھی بہت ہی کمزور اور ناکام ہے۔ وہ مظلومی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہےکیونکہ نہ وہ اپنی بیوی کو سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ساس کی غلامی سےآزاد ہوسکتاہےوہ ان دونوں عورتوں کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکا ہےچکھی میں آٹے کی مانند اس کی زندگی پس رہی ہے۔وہ ہر لمحہ موت اور زندگی کے درمیان لڑکھڑا رہا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
بیوی کے ہاتھ میں ساس کے پائوں پر
اس کو قیسیؔ کہیں موت یا زندگی؟
دستِ بیگم کا نشاں گالوں پہ ماشااللہ
آپ اس درجہ ہیں مظلوم مجھے کیا معلوم
ڈرانا چھوڑدو بیگم کو قیسیؔ ہے عورت کی حکومت چپ رہو
ہمارے معاشرے میں داماد کی بہت عزّت کی جاتی ہےجبکہ وہ اس لائق ہو یا نہ بھی ہو،لیکن داماد کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں کہ وہ اس عزّت کے لائق ہے بھی یا نہیں۔اسے صرف اپنے سسر کی دولت چاہئے اس کی بیٹی نہیں۔وہ شادی صرف دولت کی لالچ میں کرنا چاہتا ہے ۔جب کسی بد نسیب باپ کے گھر ایسا بے غیرت داماد آجائے تو اس باپ کی زندگی بھر کی جمع پونجی ختم ہوجانے کے ساتھ ساتھ اپنی عزٔت شان و شوکت سب ختم ہو کر مٹی میں مل جائیں گے۔
یہ شان یہ شوکت یہ دولت یہ جواں بختی
مٹ جائیں گے گھر تیرے داماد اگر آیا
آج ہی پورا جہیز آپ مجھے دے ڈالو
بیٹی کی شادی مرے ساتھ کرو یا نہ کرو
دامادجب بے غیرتی و لالچی کی تمام حدیں پار کردیتا ہے تو ایسی صورت حال میں دو دو بیٹیوں کے باپ پر کیا گذرتی ہوگی صرف تصور ہی سے دل گھبراتا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہونگے ان کا کیا حال ہو ا ہوگا۔قیسی ؔ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
خوشی دفن ہے میرے دل کے کھنڈر میں مرے گھر میں دو بیٹیاں اور بھی ہیں
اے لحد ان کے والد سے کہدے وہ کفن میرا ہرگز نہ بیچیں
ان کی بیٹی کے پیچھے ہم اپنا جو بھی تھا سب لٹائے ہوئے ہیں
شاعروں میں بھی چند ناقص و کمزور وں کی کوئی کمی نہیں ۔خود کو بڑے شاعر و فنکار تصور کرتے ہیں جبکہ انھیںنہ فن پر کوئی عبور حاصل رہتا ہے اورنہ ہی خود کے اشعار کا مفہوم معلوم ہوتا ہے ۔بس شعر پڑھنے کی صلاحیت سے خود کو شاعر سمجھ لیتے ہیں ۔ایسے شعراء پر طنز کرتے ہوئے قیسی ؔ کے یہ اشعار دیکھیے۔
میرے اشعار کا مفہوم مجھے کیا معلوم
آپ کرلیجئے معلوم مجھے کیا معلوم
اتنا معلوم ہے اک شاعر مشہور ہوں میں
کون تھے غالب و مخدوم مجھے کیا معلوم
ایک طرف قیسی ؔ سستی شہرت یافتہ شعرا پر طنز کرتے ہیں تو دوسری طرف اس کی ایمانداری، خودداری اور شریف النفس و غیرت مندی کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
میں سیدھے رستے سے نکلا وہ ٹیڑھے رستے سے
میں دار تک گیا وہ اقتدار تک پہنچا
جاہلوں کے ہیں مخملیں جوتے
میرے پا پوش میں سوراخ
شاید یہی وجہ ہے کہ قیسی شاعر کو پیدا نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ایک شعر ملاحظہ ہو۔
لاکھ دو لاکھ سخن فہموں کو پیدا کرلو
پر خدا کے لیے شاعر کوئی پیدا نہ کرو
آج کل معاشرے میں مختلف قسم کیسماجی برائیاں عام ہیں۔ان برائیوں میں مبتلا لوگوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں غلط ہے۔کوئی رشوت لیتا ہے تو کوئی بے انتہا جہیز کی مانگ کرتا ہے۔کوئی اپنے افسر کی چاپلوسی میں مصروف ہے تو کوئی بن بلائے دعوت کھانے میں لگا ہوا ہے۔ایسی ان گنت بے شمار سماجی برائیوں پر قیسی ؔ کے طنزیہ و مزاحیہ اشعار دیکھیں۔
بلائیں نہ بلائیں کسی بھی دعوت میں
میں بھوکے پیٹ سے کٹھی ڈکار تک پہنچا
اس قدر جمہور افزا ہوگا نظمِ زندگی
کھائینگے رشوت سبھی مل بانٹ کر اب کے برس
چاپلوسوں سے گھرے شخص کی ہر حالت میں
حوصلے ریت کی دیوار بنیں گے ہر دم
قیسی ؔ کی شاعری کے مطالعہ سے مجھےیہ محسوس ہوتا ہے کہ قیسی ؔفن کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔زبان و بیان کے استعمال پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔زبان بالکل سادہ و عام فہم۔جہاں تک ممکن ہوسکے پیچیدہ الفاظ و تراکیب سے اجتناب کیااوراردو الفاظ و محاورات کے ساتھ ساتھ انگریزی الفاظ کااستعمال بھی بہت خوبی سے کیا ہے۔کہیں بھی شعر پڑھنے میں رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ہر شعر روانگی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔کہیں کہیں ہم آواز الفاظ کا استعمال کیا ہے جس سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ہے۔قیسی کے یہاں دوہری تہری تراکیب اور مشکل ردیفوں میں رواں دواں اشعار بھی ملتے ہیں جو ا ن کی مہارت و مشاقی کی دلیل ہے۔بقول پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب ’’ قیسی ؔ کی شاعری صرف برائے شاعری نہیں کچھ زندگی اور زمانے کی نبض بھی ان کے اشعار میں دھڑکتی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
پڑھ لیا اس نے لو لیٹر ویری گڈ
بسٹ سے ہوگئی بیٹر ویری گڈ
پیٹ پر ان کے نشاں اک اس طرف اک اس طرف
یعنی کہ ہیں دو بیویاں اک اس طرف اک اس طرف
جانِ من جانِ غزل اب تو سنبھل اب تو سنبھل
مونگ چھاتی پہ نہ دل اب تو سنبھل اب تو سنبھل
پیسہ اچھال جھٹ پٹ
قرضہ نکال جھٹ پٹ
پیو جامِ عزّت غٹاغٹ غٹاغٹ
وگرنہ جیو مت تٹاتٹ تٹاتٹ
میری نظر میں قیسیؔ ایک قابل اور بہترین طنز و مزاح نگار ہیں ۔ جو خوبیاں ایک اچھے طنز و مزاح نگار میں ہونی چاہیے وہ تمام خوبیاں
موصوف کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ قیسی ؔ نے نہ صرف غزلیں کہی ہیں بلکہ ہائیکو،قطعات وغیرہ شعری اصناف میں بھی بہت ہی کامیابی کے ساتھ عمدہ مزاحیہ شاعری کی ہے ۔
***