You are currently viewing محمد تقی میرؔ:فکر و فن

محمد تقی میرؔ:فکر و فن

محمد محسن خالد

لیکچرار،شعبہ اُردو

گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور

محمد تقی میرؔ:فکر و فن

Muhammad Taqi Mir:Thought & Fun

ABSTRACT

Mir Taqi Mir enjoys a unique place in Urdu literature. The message of universalism in his poetry combined with his philosophical approach grant him a stature that has yet to be achieved by any other Urdu poet. In the following pages, an effort is being made to give an overview of his poetry, examining it by different yardsticks. The purpose is to highlight the salient characteristics of his personality as well as those of his poetry. One can hardly doubt the depth of thought and technical mastery in his poetry, which sets very high standards not only in Urdu poetry but in the poetry of the world at large. The dominant characteristic of his poetry is his logical style of narration. His poetry contains unparalleled pieces of imagination. The use of words shows a great command of language. The language is used as an art in his couplets, and it deeply reflects the societal values of not only his time but also the gradual evaluation of civilizations. As an artist, one can easily find a musical rhythm used in his poetry.It’s difficult to say whether Mir became famous for his ghazals or whether Urdu ghazal was honoured to have a poet like Him.

 Key words: classic,Ghazl,Poetry, Mir, imagination,Art,Thought,Poetics,Universality,

کلاسیکی شاعری  میں میر سے پہلے تک کوئی قابلِ ذکر شاعر ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے ساٹھ برس کے قریب اُردو غزل کی زلفوں کو سنوارا اور خونِ جگر سے سینچا ہے۔ یہ کارنامہ صرف میر کا ہے ۔ایک ایسے زمانے میں جو ہر لحاظ سے بد امنی،افرتفری اور نفسانفسی کا زمانہ تھا۔ اُردو غزل جو ریختہ کے بموجب شعرا ءکی زبان پر نہیں چڑھتی تھی۔اِسے میر اپنی شاعرانہ لیاقت ، منفرد اُسلوب اور زبان کے چٹخارے سے اِتنا عام ،رواں اور بلند آہنگ عطا کیا کہ بعد کو میر کی شعری عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصروں اور ہر آنے والے دور کے شعرا ء نے کیا ۔

خدائے سخن،شاعرِ بے مثل میرتقی میر ایسے شاعر ہیں۔ جسے پیدا کرنے کے لیے صدیوں مادر گیتی کو دَیر و حرم کا طواف کرنا پڑتا ہے تب جا کر ایسا گوہر ِنایاب میسر آتا ہے۔ میر کی پذیرائی اور شہرت ان کے نصیبے کا نہ صرف مقدر  بنی بلکہ خود تقدیر ان کی شاعرانہ قد و قامت کے آگے سرنگوں ہوگئی۔

محمد تقی میر کی ولادت کے بارے میں ان کے سوانح نویس اور تذکرہ نگاروں کے ہاں اختلاف ملتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق میر صاحب ۱۷۲۳ء کو پیدا ہوئے جبکہ دیگر تذکرہ نگاروں کے ہاں ۱۷۲۲،۱۷۲۴،اور ۱۷۲۵ کے سنین ملتے ہیں۔ میر صاحب کی پیدائش اُردو زبان اور اُردو غزل کے لیے انتہائی نیک فال ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری نے اُردو زبان کو وسعتِ الفاظ اور منفرد شاعرانہ اُسلوب سے ہم آہنگ کیا۔

میر کی شخصیت سازی اور اخلاقی کردار کی تربیت میں ان کے والد محترم کا بڑا ہاتھ تھا۔ دُنیا کی جلوہ سامانیوں سے منہ موڑ کر محض توکل پر بیٹھنے رہنے کی روش  اختیار کر رکھتی تھی۔اس درویشانہ ماحول اور فَقر کی عادت نے  میر کو بچپن سے خاصا متاثر کیا ۔بعدازاں میر نے اس متصوفانہ ماحول کو شعوری طور پر اپنی شخصیت کا حصہ بھی بنایا ۔

 میر کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری والدِ محترم کے ایک مرید خاص میر امان اللہ کے سَپُرد تھی۔۔ انھوں نے میر صاحب کو عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم دی ۔ ان کے دل میں محبت وعشق کی  جوت جلانے کی شعوری کوشش کی۔شومئی قسمت کہ میر ابھی بمشکل کوئی چار پانچ برس کے ہوں گے ۔ والدِ محترم کا سایہ ہمیشہ کے لیے سر سے اُٹھ گیا۔ میر نے  والد کی کمی کو تادیر محسوس کیا۔اس خلا کا ذکر ان کے اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہےڈاکٹر مسیح الزماں لکھتے ہیں:

”میر پر مصیبتوں اور پریشانیوں کا ریلا ہو گا۔بڑے بھائی باپ کی جائداد محض تین سو قلمی کتابیں لے کر لے الگ ہوئے اور ان پر تین سو روپے باپ کے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی۔جو لوگ اب تک تک میر سے بڑے تپاک سے ملتے تھے ان سے اب آنکھیں چرانے لگے۔“ 1؎

میرؔ گو شعوراً کاروبارِ دُنیا میں دخیل تھے لیکن ان کی طبیعت نے ان حادثوں کی وجہ سے بے مرورتی، انانیت، بددماغی ایسے کئی عناصر کو تحریک دی جن کا اظہار ان کی شخصیت اور کلام کے مطالعہ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

میر تا دمِ مرگ حادثات و آلام کا شکار رہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری حادثات و آلام کے گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔ہم کہ سکتے ہیں کہ زمانے کے مصائب اور کلفتوں کو میر نے کسی طرح جھیل تو لیا لیکن محبت کی ناکامی،اپنوں کی بے مرورتانہ، طوطا چشمی اور سنگ آزاری نے میر کو درد و غم کا شاعر بنا دیا۔

میر کے پاس شاعری کے سوا کوئی سنگی ساتھی اور دُکھ بانٹنے نہ والا تھا۔ایسے میں میر نے شاعری کو اپنے دُکھوں کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور اسی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔میر کہتے ہیں:

؎         مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے          دردو غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا2؎

؎         جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہرگز            تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا3؎

ذاتی حالات اور عصری انقلاب کی یورشوں نے میر کو بددماغی کے ساتھ احساسِ کمتری کا شکار رکھا۔ ان کے شعور کا جس بھی زاویے سے جائزہ لیا جائے۔میر ہر طرح سے ٹوٹے پھوٹے بے دلی کا آئینہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کی ظاہری اور باطنی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے زندگی کوجس طرح سے دیکھا، سہا اور محسوس کیا ویسے ہی منظوم کیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

”میر تقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محور الم تھا۔ یہ محرومیوں کی ایسی طویل داستان ہے جس میں مفلسی، رنج ومحن، بے دماغی،ناکامی عشق و جنون وغیرہ مختلف ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نامساعد حالات اور معاشی پریشانیوں نے جس ذہنی کرب میں  اسے مبتلا کیا۔اس کی بنا پر تخلیقی انَا اور اس سے وابستہ نفسی پنداری ہی زندگی کا سہارا بنی۔“ 4؎

میر نے اُردو غزل کو اپنے دُکھ کا درماں بنایا۔اس صنف کو خونِ جگر پلا کر پالا پوسا اور جوان و رعنا  کیا۔شاعرانہ کمال اور انسانی رویوں کااِمتزاج میر کی شاعری میں مُدغم ہوگیا ہے ۔اس  فکری عُنصر نے میر کی شاعری کو جہاں تاب و توانا ئی سے ہمکنار کیا وہاں ان کی بددماغی اور حد سے بڑھی ہوئی انانیت کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔میر کہتے ہیں:

                  ؎         اے میرؔ شعر کہنا کیا ہے کمال انسان     یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آگیا ہے5؎

حالات کی ستم ظریفی دیکھئے۔ میر نازک مزاج اور بد دماغ مشہور ہو گئے۔ دراصل گردشِ دوراں نے انھیں ایسے چابک مارے کہ مصائب کو جان پر لینے کی بجائے انھوں نے دماغ پر لے لیا۔اس کا نتیجہ عمر کے بیشتر حصہ بددماغی میں ضائع ہونے کی صورت  نکلا۔ مشاعرے میں،خلوت میں، جلوت میں، عزیزوں دوستوں، رقیبوں رفقا کے ہاں ان کا ذکر آیا ، شاعری کادور چلا،میر کی بد دماغی اور حد درجہ بڑھی ہوئی انانیت ہر موقع چھلکتی  دکھائی دی۔مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں:

”میر عمر کے آخری حصے میں ضعفِ بصر اور بعض دوسرے امراض میں مبتلا ہو گئے تھے۔میل جول اور اختلاط سے متنفر تو پہلے ہی تھے،امراض کی شدت نے انھیں بالکل گوشہ نشیں بنادیا۔“ 6؎

میرمشاعروں میں برابر شرکت کرتے رہے۔ حالات کی ناسازگاری اور آئے روز کے ہنگاموں کی بیزاری نے میر کے دل اور دلی کو اتنی بار لوٹا کہ میر دل اور دلی کو جاں کنی کا مسئلہ بنا لیا ۔میر کے ہاں ایک خاص طرح کا جذباتی رویہ پایا جاتا ہے۔یہ رویہ اس قدر شدید ہے کہ ان کے ہم عصر شعراء بھی ان سے کنی کتراتے تھے ۔اس روکھے مزاج اور نرگسی اطوار کے باوجود زبان و بیان کے جملہ مباحث کے معاملے میں میر کو اُستادگردانا جاتا ہے۔

میر نے ساٹھ برس سے زیادہ عرصہ کلاسیکی غزل کی زلفیں سنواریں ۔غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ اہلیہ کی وفات،بیٹے اور بیٹی کے انتقال نے میر کو آخری عمر میں دیوانہ کر دیا تھا۔ میرنے عمر بھر مصائب و آلام میں وقت گزارا تھا لیکن اب کے بار دُکھ اتنا بڑا تھاکہ میر جاں بر نہ ہو سکے ۔ مختلف امراض میں ایسے گھرے کہ موت نے  آخر ان پر ہاتھ صاف کیا۔

نزع کے عالم میں یہ شعر جو اکثر ان کی زبان پرجاری رہتا تھا۔دہراتے رہتے تھے۔

؎         ساز پسیج آمادہ ہے سب قافلے کی تیاری ہے        مجنوں ہم سے پہلے گیا اب ہماری باری ہے7؎

شعرو سخن کی سلطنت کے بے تاج بادشاہ؛دُکھوں سے نبرد آزما شاعر بے مثل، اُستاد الاساتذہ میر محمد تقی  ۲۰۔شعبان ۱۲۲۵ھ/مطابق ۱۸۱۰ء میں شام کے وقت نوے سال کی عمر پاکر دارِ فافی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے۔

زمانے کی ناقدری دیکھئے کہ آج اس مردِ بے مثل اور شاعرِ بے نظیر کی قبر کا نشان موجود نہیں ۔اب کوئی نہیں بتا سکتا کہ میر کہاں مدفن ہیں۔میر آج وجود کے اعتبار سے باقی نہیں  لیکن اپنے کلام کے توسط سے ہمیشہ ان کا کام ان کی یادگار کے طور پر باقی رہے گا۔

         ؎         خوبی ترے دم سے تھی اے خانہ ساز دیں و درد    گھر تو پھر سب ہوگیااِک دم میں پھر ویراں8؎

میر تقی میر ایسے نابغہ شاعر ہیں جنھوں نے کلاسیکی غزل کی فکری اُٹھان کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اس کی وسعت میں بے پناہ اضافہ بھی کیا ہے۔ میر کی غزل کا مختصر فکری و فنی اور لسانی جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ میر کے عہد کی غزل پر سرسری نگاہ ڈال لی جائے تاکہ یہ پہلو واضح ہو جائے کہ میر کے ہاں جس غزل کا پرتو ملتا ہے وہ ان کی ذاتی اختراع کے فکری اوج سے تشکیل پائی ہے یا روایتی موضوعات کے سنگم کے توسط سے ان کے فن سے ہم آہنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

میر کے عہد کی غزل میں ایرانی روایت کا اثر بہت گہرا اور واضح دکھائی دیتا ہے۔میر کے دور میں اُردو زبان ابھی اتنی صلاحیت نہیں رکھتی تھی کہ اس میں جملہ جذبات و افکار کا اظہار کیا جاسکے۔شعراء اکثر فارسی زبان میں شعر کہنا پسند کرتے تھے۔تفنن طبع کے طور پر اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ یعنی اُردو میں بھی شعر کہہ لیتے تھے۔ یہ صورتحال غالب کے بعد انیسویں صدی تک جاری رہی۔مرورِ وقت کے ساتھ فارسی گوئی کا یہ رجحان آہستہ آہستہ موقوف ہوتا چلا گیا ۔ شعرا نے اُردو زبان کو شاعری کے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اس پر نازاں بھی ہوئے۔

میر کا یہ معاملہ رہا کہ انھوں نے طویل عمر پائی۔ زمانے کے نشیب و فراز کو بسروچشم کی دیکھا۔انسانی اقدار کی پامالی  اور ارزانی کا نظارہ کیا۔ اخلاقی قدروں کی پستی اور مادیت کے رجحان کو توانا ہوتے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس تجربے سے خود بھی گزرے۔زمانے کی سختیوں،نارروائیوں اورقُرب و جوار کے طوطا چشم   ماحول نے میر کی شخصیت و طبیعت پر گہرے نقوش مرتسم کیے۔مذکور عناصر کی کسک ان کے کلام میں براہ راست دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹرعظمی نورین  لکھتی ہیں:

”اُردو کی شعری روایت میں بہت کم ایسے شعرا گزرے ہیں جن کی زندگی اور شاعری میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وصف میر کے یہاں نمایاں نظر آتا ہے۔میر کی زندگی غم و دردو آلام سے معمور تھی۔اپنوں کی بے رُخی، تنگ دستی،دل کی بربادی،محبت میں ناکامی و نامرادی ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ یاس و بیم کے درمیان ان کی زندگی کا ستارہ طلوع و غروب کی کشمکش میں ہمیشہ رہا۔ ان حالات نے میر کی شاعرانہ اُپج اور افکار پر گہرا اثر ڈالا۔گویا ان کی زندگی اور شاعری غم و الم کا مرقع بن گئی۔“ 9؎

میر کا عہد افراتفری اور طوائف الموکی کا عہد تھا۔ ۱۷۰۷ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ زوال کا شکار ہوگئی تھی۔ تخت نشینی کے حصول کے لیے بیٹوں نے باپ اور باپ نے بیٹوں کو قتل کیا۔مزید یہ کہ بیرونی حملہ آوروں یعنی مرہٹوں کی یورشوں، جاٹوں کی لوٹ مار، قتل و غارت اور روہیلوں کی چپقلشوں نے نادرشاہ کی یلغار کو لبیک کہا۔“ [۲۰] احمد شاہ ابدالی نے مقامی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دلی  ایک طرف پورے برصغیر کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات ایسے دگرگوں ہوئے کہ امن و آشتی جیسے دُنیا سے اُٹھ ہی گئی۔سکون و اطمینان اور نشاط و اُمیدگویا خواب وخیال ہو گئے۔میر نے ان حالات کو بسرو چشم دیکھا اور اس سے گزرے۔میر کہتے ہیں:

؎         دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں     تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا10؎

ان داخلی اور خارجی اثرات کے زیر اثر میر کی شخصیت اور شاعری کی نشوونما ہوئی۔میر نے زمانے کے زخم و غم کو اگر سہا نہ ہوتا تو ان کی شخصیت میں سطحیت اور لا اُبالی پن ہوتا ۔ ان کی شاعری کبھی اس شہرت کو نہ پہنچتی جو مقام و مرتبہ میر کو آج نصیب ہوا۔ اسی وصف کے پیشِ نظر میر کو غزل کا بادشاہ کہتا جاتا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

 ”میر کی آب بیتی گویا جگ بیتی بن گئی ہے۔ انھوں نے شعر کے پردے میں غم لٹایا ہے۔ ان کی شاعری فقط ان کی ذاتی زندگی کا نوحہ نہیں ہے بلکہ اس دور کے پورے عہد کا آئینہ ہے۔ “ 11؎

میر کے کلام کی دل آویزی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان پر جوگزری اور بیتی۔ان احوال و واردات کا بیان انھوں نے نہا یت دل آویز اور پُرتاثیر انداز میں بیان کیا ہے ۔ کلامِ میر کو پڑھتے ہوئے محواً ایک نشہ سا چھا جاتا ہے اور میر کے حالاتِ مذکور سے عدم تجربے کے باوصف اپنائیت اور ہمدردی  کا جذبہ  بحرحال پیدا ہو جاتا ہے محمد یعقوب  لکھتے ہیں:

”کلام کے پُر اثرہونے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے شعر کو ایک تجرباتی کیفیت بنا دیا ہےجس کا انحصار ا ن کی زندگی سے جُڑے حالات کی صداقت سے مملو ہے۔“ 12؎

میر کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ میر کے ہاں دل اور دلی کی باہمی نسبت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ دل انسان کا مرکز ہے جس کے آئینے میں وہ کائنات وماورائے کائنات اور اپنے اندریں کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے اور جلوہ گری سے محظوظ ہوتا ہے۔ دل اور دلی کے ذکر نے ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ دیا ہے جو میر کے عہد کا آہنگ تھا۔

         ؎         دل و دلی دونوں ہیں گرچہ خراب       پہ کچھ لُطف اس اجڑے نگر میں بھی ہے13؎

میر کی دُنیا میں عشق کی حکمرانی ہے۔ میر کے عشق کا خمیر تہذیبی تمدن اور معاشرتی روایت سے اُٹھا ہے۔والد محترم نے عشق کی نصیحت کی تھی جسے میر نے پلّے باندھ لیا۔ اوائل جوانی میں ہی اس تجربے کی خواری کا ایسا سامنا ہوا کہ عمر بھر اس سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔ محبت میں مسلسل ناکامی و نامرادی نے میر کی طبیعت میں جہاں یاسیت کا میلان پیدا کیا وہیں دُنیا والوں نے ہر طرح سے میر کو ستایا، تڑپایا اور ایسا رُلایا کہ میر نے اس مخزن کو شاعری کے پردے میں کمال فنکاری سے کھپا دیا ۔دیواین میر پڑھنے والی کی آنکھیں نم ضرور ہوتی ہیں۔

         ؂         ہم نے تو ناخنوں سے منہ سارا نوچ ڈالا   اب کو کن دکھاوے،رکھتا ہے گر ہنر کچھ14؎

؂         اپنے تڑپنے کی تدبیر پہلے کر لو                             تب فکر میں کروں گازخموں کے بھی رفو کا15

خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں:

”میر کی عشقیہ شاعری میں اس ناکامی و محرومی کا احساس موجود ہےلیکن جب اس پر تاریخی ماحول کی چُوٹ پڑ تی ہے تو اس سے زندگی کے عناصر چمک اُٹھتے ہیں۔ میر جب اپنی خوں افشانی سے دامن پر گلکاریاں کرتا ہے تو اس کا آرٹ بلند ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہ کائنات خود اس سے سرگوشیاں کرنے لگتی ہے۔“ 16

میرؔ نے معاملاتِ حُسن و عشق کو اس طرح نظم کیا ہے کہ ان کی شاعری میں جمال کی سادگی سراپا غزل بن گئی ہے۔ میر کے کلام میں کیفیات عشق؛اِسی دُنیا کے بسنے والے انسانوں کے جذبات و احساسات کی عکاس ہیں۔

                  ؎         راہِ  دورعشق ہے روتا ہے کیا                     آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا17؎

؎         رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے               جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ18؎

؂         سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو              وگرنہ ہم خدا تھے ،گر دلِ بے مدعا ہوتے19؎

میر کی عشقیہ شاعری اور عشق سے مملو اشعار کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ میر کے عشق میں معاملہ بندی کا طوفان؛تلاطم ہیجان آور نہیں ہے بلکہ کسک کی میٹھی دبیز لَے موجود ہے جو ہر آن دل و دماغ پر غالب رہتی ہے۔محبوب کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے بے قرار و بے چین رکھتی ہے۔ میر کی شاعری میں یاسیت کی ہیجانی ضرور ہے مگر یہ ایک جزوقتی ردِعمل ہے جوبہت جلد اثبات میں ڈھل کر حُزن و ملال کے گمان کو زائل کر دیتا ہے۔

میرا یہ ذاتی احسا س ہے کہ غم ایک ایسی کیفیت ہے جس کی پوری دُنیا کے انسانوں پر عمر کے کسی حصے میں حکمرانی رہی ہے۔ یہ غم نہ تو روایتی ہے اور نہ ہی تخیلی۔ یہ ایک داخلی جذبے کا ایک خارجی ردِعمل ہے۔ غم کو مہمیز کرنے میں عشق کی کارفرمائی بنیادی کردار اداکرتی ہے۔ غم سے ناآشنا شخص زندگی کے حقیقی حُسن سے ناآشنا ہے۔ غم ایک تعمیری جذبہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ میر کے ہاں اسی غم کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ میر کی شاعری کا حاصلِ کل “غم” ہے؛جس سے اس کی شاعری کا خمیر اُٹھا ہے۔میرؔ کہتے ہیں:

؂         عالم عالم عشق و جنوں ہے، دُنیا دُنیا تہمت ہے      دریا دریا روتا ہوں میں، صحرا صحرا وحشت ہے20؎

؂         عشق چھپا کر پچھتائے ہم،سوکھ گئے،رنجور ہوئے  یعنی آنسو پی پی گئے،سو زخمِ جگر ناسور ہوئے21؎

خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں:

”میر نے غمِ عشق اور غمِ آفاق کو مردانہ وار اُٹھایا ہے۔وہ ڈوب کر اُبھر سکتا ہے اور مرنے کے بعد بھی آگے چلنے کا عزم رکھتا ہے۔یہ احساسِ غم زندگی کی بنیادی حقیقت ہے۔ یہ دولتِ درد انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔اسی کے ذریعے کائنات کی قدروں کا احترام اور جذبات کی تہذیب و تحسین ممکن ہے۔“ 22؎

میر کے غم میں ایک سنبھلی ہوئی کیفیت، ضبط اور خودداری کے احساس سمیت مقابلہ کی ہمت اور توانائی موجودہے۔ میر کا غم روایتی نہیں بلکہ زندگی کی سچی حکایت ہے۔ میر کی غزل کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میر نے مصائبِ عشق اور آلامِ روزگار پر فتح پائی ہے ۔ دلِ پُرخوں کی رعنائی سے ایک نیا انداز وضع کیا ہے جہاں غم،محض غم نہیں رہتا بلکہ جملہ انسانی جذبات کا آئینہ بن جاتا ہے۔میر نے غم کو اپنی شاعری کا جزو لاینفک بنا لیاہے۔پروفیسر غنضفر ہاشمی لکھتے ہیں:

”میر کی شاعری میں صرف دردو الم کی تصویر نہیں بلکہ فکر انگیزی اور سوز آفرینی کی ایک مستقل روایت ہے۔ان کے کلام میں وارداتِ قلب کی حقیقتیں اور زندگی کی صداقتیں دوش بدوش نظر آتی ہیں۔ غزل کا مزاج اور میر کا مزاج ان کے کلام میں الگ اکایؤں کی صورت اختیار کرنے کی بجائے ایک ہی پیکر ِاحساس میں ڈھل گیا ہے۔میرکا کلام سادگیِ بیان، شستگیِ زبان اور اثر و کیف کا ایسا میخانہء ہے جہاں ساقی کا احساسِ غم رندوں کے سینے میں دل بن دھڑکتا ہے۔“ 23؎

میرؔ کا کلام درد و غم،رنج و الم،حزن و ملال اور یاس و حسرت کا مرقع ہے۔ میر کی شاعری کا یہ اعجاز ہے کہ انھوں نے شدتِ غم کو اظہار کا ایسا لہجہ دیا کہ اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا دیا۔

؎         روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات             اب  یہی  روزگار    ہے  اپنا24؎

میر جذبات کے اظہار کے معاملے میں سب سے منفرد اور تنہا کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جذبات کی ترجمانی کا انداز انتہائی سادہ اور پُرکشش ہے۔ میر قلبی احساسات و تاثرات کو گھر کر رکھنے ایسی کیفیت آمیز لَے میں درد انگیزی سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایسا ترنم موجود ہے۔گویا روحِ موسیقی اس میں حلول کر گئی ہے۔

 میر الفاظ سے کام لینے کا سلیقہ باخوبی جانتے ہیں۔ الفاظ کی گہرائی اور سطحیت سے میر جس قدر آشنا ہیں۔ان کے ہم عصر بہت کم اس صلاحیت سے متصف تھے۔ میر الفاظ کے پردے میں دل پر ایسی چوٹ لگاتے ہیں کہ ہوک سی نکل جاتی ہے۔

؎         ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا              دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھا م تھام لیا25؎

؎         سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں                         لیکن اے داغ! دل سے تو نہ گیا26؎

؂         اُٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش ساتو پھر                 جاتا ہے آنکھوں سے دریا بہا ہوا27؎

؂         جب ترا نام لیجئے تب چشم بھر آوے               اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے28؎

شکیل الرحمان، میر کی جمالیات میں لکھتے ہیں:

”میر کی شاعری درد انگیز ضرور ہے لیکن زہر ناک نہیں اور مردم بیزار تو ہرگز نہیں ہے۔ میر عشق میں ناکام ہوتے ہیں لیکن ہمت نہیں ہارتے ۔ یاسیت کا شکار ضرور ہوتے ہیں لیکن نشاطیہ رجحان سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کے یہاں وہ جذبات ہیں جو شاعری کی جان ہے۔“ 29؎

میر کی شاعری اپنے عہد کی ترجمان تھی۔ میر کی حسّاس طبیعت نے ہر بات کو اخذ کیا پھر اسے ردِعمل کے مخصوص تناظر میں بیان کیا۔ میر کے ہاں جذبات کی سطحی آمیزیش نہیں بلکہ احساس کی دبیز تہ ملفوف نظر آتی ہے۔ میر کا شاعرانہ انداز دلکش اور پُر تاثیر ہے۔ ان کا یہ درد ذاتی ہونے کے باوجود عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔میر کہتے ہیں:

؎         شعر میرے ہیں سب خواص پسند                    پر مجھے گفتگو عوام سے ہے30؎

؂         شعر موزوں کیے ہیں ایسے جن سے خوش ہیں صاحب لوگ      روویں کڑھیں جو یاد کریں،اب ایسا ےم کچھ میرؔ کرو31؎

میر اس بات کا شعور رکھتے تھے کہ وہ شاعری نہیں کر رہے بلکہ معاشرے کے سبھی افراد کے دردو غم اور آلام و مصائب کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں دردو غم کی لَے سطحی ومقامی نہیں بلکہ عالمانہ اور آفاقی نوعیت کی ہے۔ میر کے کلام میں سخت گیرلہجے کی بجائے شیریں، نرم اور کومل اندازِ بیان برتا گیا ہے۔ میر کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ عوام کا اجتماعی رجحان معاشرے کے فکری بدلاؤ کا مظہر ہوتاہے۔میر نے اسی عنصر کو مد نظر رکھتے ہوئے اشعار کہے اور اپنے کلام کے تادیر باقی رہنے کی پشین گوئی بھی کی۔ میرکہتے ہیں:

؎         باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سُنیے گا       کہتے کسی کو سُنیے گا تو دیر تلک سر دُھنیے گا32؎

؂         اشعار میرؔ کے چُن چُن کے لکھ لیے ہیں           رکھیں گے ہم بھی کچھ بَیتیں چِیدہ چِیدہ33؎

میر کی شاعری کی ایک نمایاں خوبی ان کی خودداری اورنازک مزاجی کا حد سے بڑھا ہونا ہے۔ میر کی تربیت چوں کہ صوفیانہ ماحول میں ہوئی تھی۔اس لیے ان کی طبیعت میں مادیت کی نسبت متصوفانہ فقر کازیادہ دخل تھا۔ میر نے مستقل کسی دربار اور نواب سے تعلق نہیں رکھا۔ ان کا مزاج دُنیاوی سہولتوں اور آرام و عیش سے تنگ پڑ جاتا تھا۔اس کے برعکس میر کا مزاج ویرانوں اور جنگل بیانوں کی مسافرت میں ذہنی طور پر مبتلا رہنے کا متمنی تھا۔ ان کی بددماغی از حد مشہور ہونے کی اصل وجہ ان کی حد درجہ بڑھی ہوئی خودداری ہی تھی جس نے میر کو درباروں اور نوابوں کے قصیدے پڑھنے اور دُنیا کمانے سے باز رکھا۔

؎         ہے نام مجلسوں میں میرا میرؔ بددماغ                        از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار34؎

                       ؎         پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ              افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی 35؎

           رام بابو سیسکنہ لکھتے ہیں:

”میر صاحب کی بددماغی اور نازک مزاجی کو آزادؔ نے بڑے مبالغے سے بیان کیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ نازک مزاج تھے۔ راجہ ناگرمل جو ان کا بڑا قدر دان تھا،اس کی رفاقت محض اس وجہ سے چھوڑ دی کہ میر کو ان کا اندازِ تخاطب پسند نہ تھا۔“ 36؎

میر نے “میں ” کی بجائے”ہم”کا لفظ استعمال کیا ہے۔ میر نےغم کو ذاتی حیثیت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے معاشرے کا ترجمان بنا دیا ہے۔ معاشرے کی اجتماعیت کو انفرادیت پر نثار کرنے کی روش میر کی فکری اُپج کا پتہ دیتی ہے۔

؎         ہم فقیروں سے بے ادائی کیا           آن بیٹھے جو تم سے پیار کیا37؎

؎         دُور پھرنے کا ہم سے وقت ہے کیا                پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک38؎

میر کے کلام میں متصوفانہ عنصر مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ میرنے مزاج صوفیانہ اورطبیعت درویشانہ پائی۔میر کا بچپن چوں کہ فقیری و درویشی کی محافل میں گزارا۔ان کے والد علی متقی بھی ایک درویش تھے جنھوں نے میر کی تربیت صوفیانہ ماحول میں کی ۔ انھیں عرفانِ ذات کے کھوج کی بذریعہ عشق تاکید کی۔میر نے صوفیانہ تصورات و نظریا ت کو محض روایتی انداز میں بیان نہیں کیا بلکہ تجربے سے گزاری ہوئی کیفیات کا ذکر کیا ہےجس کی صداقت ان کے اشعار سے مسلّم ہے۔

؎         پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا39؎

؎         ہم آپ ہی اپنا مقصود جانتے ہیں                   اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں40؎

پروفیسر سراج السلام لکھتے ہیں:

”میر ایک صوفی شاعر نہیں تھے البتہ ان کے کلام میں ایک تہائی حصہ صوفیانہ تصورات سے بھرا پڑا ہے۔ میرؔ تصوف کے نہیں تغزل کے شاعر ہیں۔ان کے کلام میں روایتی مضامین کا بیان بھی ملتا ہے۔ انھوں نے روایت میں جدت سے کام لیا ہے اور اپنا ایک منفرد مقام متعین کیا ہے جو میر کی انفرادیت اوراختراعی ذہن کا عمدہ نمونہ ہے۔“ 41؎

میر نے فقر اور درویشی کو دُنیا داری سے فرار متصور نہیں کیا بلکہ اسے ایک لائف سٹائل کے طور پر اختیار کیا ہے۔ میر دُنیا داری اور اس کے تقاضوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور یہ ادراک بھی  رکھتے تھے کہ فقیری دُنیاداری سے ماورا ہو جائے تو ننگ بن جاتی ہے ۔ ایسے فُقروں کو دُنیا دُھتکار دیتی ہے۔ میر کا صوفی مزاج منجھا ہوا تھا ۔میر تصوف کے اسَرار و کیفیات کی حسّیت سے کماحقہ آگا ہ تھے۔

؎         لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر             میں ورنہ وہی خلوتی رازِ نہاں ہوں42؎

؂         قلب گداز ہیں جن کے دے بھی مٹی سونا کرتے ہیں                    میرؔ اکسیر بنائی اُنہوں نے جن کی جہاں سے خاک اُٹھائی 43؎

میر کی شاعری کا ایک نمایاں وصف حُسن سے دلچسپی ہے۔میر کی غزل میں قدرتی منظر جذبے کا حصہ بن کر آتے ہیں۔میر کی تراشی ہوئی تصویروں میں زندگی کے سارے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔میر پیکر تراشی کے تخلیقی عمل سے الفاظ کو مجسم کر نے کا ملکہ رکھتے ہیں۔میر کے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ میرکے ہاں ایک مخصوص طرزِ آہنگ ہے جس سے دردو غٖم ،یاس و اُمید کی تصویریں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

”لفظوں سے بولتی تصویروں نے مختلف رنگوں سے مل کر ایک نیا رنگ بنایا ہے۔اس طرز میں عاشق میر، مجنوں میر اور شاعر میر؛تینوں کی آوازیں مل کرایک ہو گئی ہیں۔ اس عمل سے اِنھوں نے اُردو زبان اور شاعری کو اپنی جاں کاہ محنت سے جہاں پہنچایا وہ اُردو ادب کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔“ 44؎

میر کے کلام میں حقیقت و اصلیت کی عکاسی بھر پور انداز میں ملتی ہے۔ میر ایک مصور کی طرح الفاظ سے مرقع بناتے ہیں اور اسے نگاہوں کے سامنے محوِ رقصاں کر دیتے ہیں۔ ان کے مرقعے جیتی جاگتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں انفرادی و اجتماعی شعور کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

؎         پتا پتا    بوٹا بوٹا   حال   ہمارا   جانے  ہے                  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے45؎

؎         چلتے ہو تو چمن کو چلیے سُنتے ہیں کہ بہاراں ہے       پھول کِھلے ہیں، پات ہرے ہیں، کم کم بادوں باراں ہے46؎

دُنیا بھر کے ادبیات پر نظر ڈال کر دیکھ لیجئے۔کوئی بھی زبان ایسی نہ ہے؛ جس نے کسی دوسری زبان سے استفادہ نہ کیا ہو۔ اُردو زبان نے کلاسیکی فارسی زبان و ادبیات سے برارہ راست استفادہ کیا ہے۔ میر کا کمال یہ ہے کہ اس نے فارسی کی شعری روایت کو اختیار ضرور کیا ہے لیکن اُردو کی شعری روایت کو اس کے تابع نہیں کیا بلکہ اپنے زورِطبع سے اس میں جدت اور ندرت پیدا کی ۔ بیان و بدیع کے مباحث کو اُردو کے قالب میں سہل اور رواں انداز میں اس طرح ڈھالا کہ اُردو غزل جُملہ جذبات کے اظہار کے لائق ہو گئی ہے۔

شکیل الرحمان ،میر کی جمالیات میں لکھتے ہیں:

”میر نے شاعرانہ اُسلوب کو جدت سے ہم آہنگ کیا اور اسے ایک منفرد طرز عطا کیا جس سے میر کی شاعری اور طرزِ خاص دونوں کو یکساں مقبولیت ملی۔“ 47؎

میر کی زبان کا مطالعہ کیے بغیر ان کی شاعری کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ میر نے دلی کی عوامی بولی ٹھولی کو اپنے زورِ طبع سے شاعری کی زبان بنایا۔ دلی کی جامع مسجد کا لہجہ میر کی بدولت اُردو کا معیاری اور ٹکسالی لہجہ قرار پایا اور یہ افتخار صرف میر کو حاصل ہے۔میر نے دلی کے مقامی لہجے کو جسے ان کے ہم عصرشعراء نے گنوار اور پست خیال کر کے ترک کر دیا تھا ۔(میر کے ہم عصر فارسی میں شعر کہنا اپنے شان شایان سمجھتے تھے۔) میر نے اس لہجے کو شاعرانہ آہنگ دے کر اس کا رشتہ براہ راست عوام سے جوڑ دیا ۔ زبان کے نقائص کو تخلیقی شعور کی بھٹی میں پکا کر جدت اور ندرت پیدا کی۔اس وصف کے در آنے سے اظہار کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوا چناچہ اس کے ارتقا کا عمل تیز تر ہو گیا۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

  ”میر کی زبان فارسی کے زیر ِ اثر نہیں بلکہ فارسی الفاظ و تراکیب اُردو کے مزاج میں ڈھل کر ایک نئی  صورت اختیار کر لیتی ہے۔میر کی زبان فارسی کے اقتدار کو ختم کر کے اُردو کی حاکمیت قائم کر دیتی ہے۔ میر کی شاعری خالص اُردو زبان کی شاعری ہے۔“ 48؎

روایت سے انحراف اور زبانِ ریختہ کی تشکیل کو لے کر میر کااندازِ بیان؛ روایت سے ہٹ کر ذاتی زندگی کے غم و آلام اور معاشرتی نزاعات کی کافرمائیوں سے مشروط تھا۔میر نے جس عہد میں شاعری کی اور سختیوں سے نبرد آزما رہے۔ ایسے حالات میں زبان کے بدلتے تناظر اور لسانی و ہیتی بدلاؤ کا رجحان ایک تخلیق کار کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔

زبانِ ریختہ کو فارسیت کے غلبہ سے آزاد کر کے ایک نیا لہجہ دیا۔ الفاظ و تراکیب اور دیگر فنی لوازمات سےزبان کو آراستہ کرنا یقینا ایک بہت بڑا اور صبر آزماکام تھا جسے میر نے تنِ تنہا انجام دیا۔ اس کام میں میر کو ناکامی اور کامیابی دونوں ملی۔ میر کے شعری سفر کے توسط سے اُردو زبان کو ایک ایسا لب و لہجہ میسر آیا جسے ہم اُردو کا خالص ٹھیٹھ لب و لہجہ قرار دے سکتے ہیں۔مثال کے طور یہ اشعار دیکھیں:

؎         فقیرانہ آئے صدا کر چلے               میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے49؎

                  ؎         پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں      اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی50؎

؎         ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے                 اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے51؎

زبان کے معاملے میں میر تشکیلی عمل سے گزر رہے تھے۔اس لیے انھوں نے ہر قسم کے روزمرہ،محاورہ،کنایوں،تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال سے گریز نہیں کیا بلکہ آزادنہ طور پر انھیں اشعار میں برتا اور اپنے مخصوص طرزِ کا نمونہ پیش کیا جس میں یہ کامیاب ٹھہرے۔بطور نمونہ یہ شعر دیکھیں:

؎         میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے             دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار52؎

؎         بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ                  بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے53؎

میر نے ایک ایسی زبان کو پروان چڑھانے کا بیڑا اُٹھایا جسے ان کے ہم عصر منہ لگانا گوارا نہ کرتے تھے۔ میر نے طویل عمر پائی۔ عمر کی درازی اُردو زبان کے لیے غنیمت ثابت ہوئی۔ میر نے ساٹھ برس سے زیادہ عرصہ اشعار کہے۔ ان کی شاعری میں تازگی،جدت اور ندرت کی چاشنی مہک بار رہی کیونکہ انھوں نے زبان کی تشکیل کے عمل کو کسی صورت موقوف نہیں کیا۔ میر کے ہاں الفاظ کی تکرار ضرور ملتی ہے لیکن الفاظ کا مکرر استعمال نہیں ملتا۔

بول چال کی زبان میں کا تعلق سادگی اظہار پر منحصر ہے۔ زبان میں دقیق الفاظ ، نامانوس تراکیب و استعارات در آئیں تو ابلاغ کا معاملہ یکسر موقوف ہوجاتا ہے۔ سادگی دراصل کسی بھی زبان کے فنی لوازم میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ میر سے پہلے فارسیت کا غلبہ تھا ۔ شعرا ء و نثار ناموس الفاظ و اصطلاحات اور سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کو فنی ابلاغ کا طُرہ امتیاز سمجھتے تھے۔اس روش کو میر نے  ترک کر کے سادگی کو رواج دیا۔ میر کے کلام میں عام بول چال کا انداز اور سادگی کا عنصر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

”اُردو زبان تراکیب سے خالی ہے۔اس میں جو تراکیب آئی ہیں وہ فارسی سے آئی ہیں۔ میر نے بھی ان تراکیب کا استعمال کیا ہے اور خاصا کیا ہے۔میر نے ان تراکیب کا استعمال مختلف تجربات سے گزرتے ہوئے سادگی سے کیا ہے۔“ 54؎

میر کے ہاں فارسی تراکیب کا غلبہ نظر نہیں آتا تاہم جہاں ضرورت پیش آئی انھوں نے تراکیب سے استفادہ کیا ہے اور انھیں اشعار میں استعمال بھی کیا ہے۔میر نے تراکیب کے معاملے میں روایت کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنےطریقے سے انھیں برتنے کی کوشش کی ہے جس میں انھیں کامیابی ملی ہے۔رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

”زبان کی فصاحت و سلاست، جدتِ خیال ، ندرتِ فکر، صوتی اثر و کیف اور معنوی سوزوگداز میر کی شاعری کی پہچان اور غزل کی جان ہے۔میر نے غزل کو جو لہجہ اور اسلوب دیا ہے اس کا ٹھہراؤ اور دھیما پن،خاموش گفتگو،بن کر سرگوشیاں کرتا ہے۔تراکیب، تشبیہ اور استعارے اگر اُستادی کے ساتھ برتے جائیں تو شعر کے حُسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔“ 55؎

میر کو اسالیب بیان پر یکساں قدرت حاصل تھی۔میر نے فارسی تراکیب کو بکثرت اپنے کلام میں برتا ہے۔ تراکیب کے معاملے میں میر کے ہاں ترجمہ کا عنصر بھی ملتا ہے ۔یہ شعر دیکھیں:

؎         جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف       اے کشتہ ستم تری غیرت کو کیا ہوا56؎

؎         شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے             دل ہے گویا چراغِ مفلس کا57؎

میر نے فارسی تراکیب کو آسان اور سہل انداز میں اُردو کے قالب میں ڈھال کر اسے ریختہ بنایا ہے۔ میر کے کلام میں تراکیب کا مزید استعمال ذیل کے اشعار میں دیکھیں:

؎         ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا         پیدا ہر ایک نالہ سے شورِ نشور تھا58؎

؎         ہائے اُس زخمیِ شمشیرِ محبت کا جگر        درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہے59؎

میر کے ہاں مقامی و بدیسی زبانوں،پراکرتوں اور مخصوص لہجوں کے علاوہ فارسی زبان کے الفاظ و محاورات اور تراکیب کا ایک ذخیرہ بھی ملتا ہے۔ میر چوں عہدِ فارسی میں شعر کہہ رہے تھے اور ان کے ہم عصر فقط فارسی ہی میں طبع آزمائی کرتے تھے؛اس لیے میر نے فارسی کا اثر یقیناً قبول کیا اور روایت کو بھی کسی حد اختیار کیے رکھا تاہم فارسی کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور طرز پر غالب نہیں آنے دیا۔

میر کے ہاں فارسی تراکیب میں [آتشِ سوزندۂ دل،آفتابِ حُسن،بارگران ِ عشق،خانہ خرابی دل،بازارِ غم، جوشِ گل، جنبشِ لب،چشمِ ماہ،اربابِ وفا،تعبِ فراق،جوشِ جنوں،دامِ زلف،سرِ پُرشور،صیدِ ناتواں،طائرِ سدرہ،طوفِ حرم،چشمکِ گل،ذوقِ جراحت]بکثرت استعمال ہوئی ہیں۔

میر کے ہاں محاورات کا ایک خزانہ موجود ہے۔ میر نے محاورات کے استعمال میں روایتی انداز کو یکسر ترک کیا اور ایک خاص طرزِ وضع کی۔ میر کے ہاں محاورات محض حقیقی معنی میں بیان نہیں ہوئے بلکہ ان کا برمحل استعمال کہیں تلمیحاتی، استعاراتی ، حکائی ،تشبیہاتی  اور کہیں استعاراتی ہوا ہے۔ میر کے ہاں محاورات کا استعمال ایک تخلیقی عمل ہے جو ان کے جملہ کلام میں تسلسل سے کارفرما نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

”محاورات ایک طرح کے مردہ استعارے ہوتے ہیں جن کا استعمال طرز میں بناوٹ بھی پیدا کر سکتا ہے لیکن میر کے ہاں محاورے اس طور سے زبان کا حصہ بن کر آئے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محاورہ اسی طور پر اس سلیقے سے پہلی بار استعمال ہوا ہے۔ میر اپنے طریقے سے اس میں نئی جان ڈال دیتے ہیں جس سے سادگی نکھر آتی ہے۔“ 60؎

میر کے کلام میں محاورات کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔ ان محاورات کو کتابی صورت میں یکجا کر  لیا جائے تو میر شناسی کے باب میں حوصلہ افزا اضافہ ہوگا۔ میر کے کلام میں محاورات کا شعری استعمال بطور مثال ملاحظہ کیجئے۔

؎         اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم             اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہوگا61؎

؎         اس عشق میں نکالے میں نے بھی نام کیا کیا                 خانہ خراب و رُسوا، بے دین اور بے دل62؎

؎         اگرچہ خاک اُڑائی دیدۂ تر نے بیاباں کی           ولے نکلا نہ خاطر خواہ رونے سے غبار اپنا63؎

میر کے محاورات کا یہ انفراد ہے کہ ان میں میر کے انفرادی طرزکا ایک  خاص رچاؤ، مٹھاس اور انداز کا بے ساختہ پن نظر آتا ہے جس سے محاورے کی سادگی اور ندرت نکھر آتی ہے ۔اس  عمل سے محاورہ سطحی معلوم ہونے کے باوجود ذہن پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔میر نے محاورات کو مختلف انداز میں برتا ہے یعنی میر کے ہاں محاورہ محض محاورہ نہیں ہے بلکہ یہ تشبیہ، استعارہ، کنایہ، صنائع بدایع کی ذیل میں بھی استعمال ہوا ہے جس سے اس کی وسعت اور اثر پذیری میں اضافہ ہوا  ہے۔ پروفیسر ظفر ہاشمی لکھتے ہیں:

”الفا ظ کی تکرار اور بر محل نشست نے میر کے کلام میں جو صوتی ترنم اور معنوی حُسن پیدا کیا ہے؛اس کی مثال اُردو میں بہت ملتی ہے۔ میر کے کلام میں ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جن کا متروکات میں شمار ہوتا ہے،اس کے باوجود یہ الفاظ طبیعت پر گراں بار نہیں ہوتے بلکہ شعر کے ظاہری حُسن میں اضافہ کا باعث بنے ہیں۔ میر کا پورا کلام تاثیر کلام اور صفائی زبان کا سراپا  مرقع ہے۔“ 64؎

میرکے کلام میں بکثرت ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں یا ان کی ظاہری بناوٹ میں بدلاؤ آچکا ہے اور یہ کچھ کے کچھ ہو گئے ہیں ۔میر کے کلام میں یہ  الفاظ بطور نمونہ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ میر نے ان الفاظ کو  اشعار میں جوں کا توں برتا ہے ۔یہ التزام اس لیے ہے کہ اصلیت و حقیقت کا پرتو غالب رہے اور عوامی لب و لہجے کا ٹھیٹھ پن زائل نہ ہو نے پائے۔بطور نمونہ یہ امثال دیکھیں:

٭۔لفظ”کبھی” کے لیے”کدھیں،کدھی” استعمال ہوا ہے۔میر نے اسے “کبھو” لفظ استعمال کیا ہے۔

                  ؎         میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُرغرور تھا(دیوان اول)

٭۔لفظ”کسی” کے لیے “کسو” استعمال کیا ہے۔یہ لفظ کلاسیکی شعرا کے ہاں مستعمل رہا ہے۔

                  ؎         ناداں یہاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا(دیوان اول)

٭۔لفظ”واسطہ/ذریعہ”کے لیے”تئیں ” استعما ل ہوا ہے۔

                  ؎         ہوتا ہے دوپہر کے تئیں سر پر آفتاب(دیوان ششم)

٭۔لفظ”اِدھر،اُدھر،جدھر،کدھر”کے لیے”اِیدھر،اُودھر، جِیدھر،کیدھر” استعمال ہوئے ہیں۔

                  ؎         اب کہو اس شہرِ نا پرساں سے ہم کیدھرجائیں(دیوان اول)

٭۔لفظ”ذرا”کے لیے”ٹک”بکثرت استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ بیشتر کلاسیکی شعرا کے ہاں بھی مستعمل رہا ہے۔

                  ؎         ٹک میرؔ جگرِ سوختہ کی جلد خبر لے 65؎  (دیوان اول)

مذکور الفاظ کے علاوہ “ووہیں،ووں، تب تک، تب سے، جہاں تہاں، جس تس،کاہے کو،تد، اُپر” الفاظ کا استعمال میرکے برابر ملتا ہے۔

مذکر مونث کے حوالے سے کلاسیکی شعرا کے ہاں ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ خطوطِ غالب میں اس کے بارے میں مفصل ذکرملتا ہے۔یہ نزائی صورت حال ہنوز برقرار ہے۔ اس کی وجہ دہلی ، لکھنو کے اسکول آف تھاٹ سے منسلک  شعرا کی  فتنہ طرازیاں ہیں۔زبان و بیان کے اُصول و قواعد کی صحت اور قطعیت کے پیشِ نظر  تذکیر و تانیث کا یہ اختلاف جہاں قاری کے لیے سند رکھتا ہے وہاں ایک عامی کو تشکیک میں ضرور مبتلا بھی کرتا ہے۔

 الفاظ کی تذکیر و تانیث کو لے کر متقدمین و متاخرینِ ماہرِلسانیات انھیں اسکول آف تھاٹ کے کلامِ نظم و نثر سے سند لیتے ہیں۔جہاں سے یہ مسئلہ پیدا ہوا۔میر کے ہاں مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر ، جمع کو واحد اور واحد کو جمع باندھنے کا انداز و فرق ملاحظہ کریں:

٭۔لفظ”جان” مذکر باندھا ہے۔       ؎         اس دم تئیں مجھ میں بھی اگر جان رہے گا          (دیوان اول)

٭۔لفظ”شام”  مذکر باندھا ہے۔      ؎         اور ان کا بھی شام ہوتا ہے                       (دیوان اول)

٭۔”وں ” لگا کر جمع باندھاہے۔       ؎         قصر و مکان و منزل ایکوں کو سب ہے             (دیوان سوم)

٭۔”لی” لگا کر جمع بنائی گئی ہے۔       ؎         جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں66؎                  (دیوان اول)

میرکے ہاں”ں ” لگا کر واحد سے مزید”ساریاں،ہماریاں، جاریاں، جانیاں چلوائیاں، بتلائیاں، چرالیاں “جمع بنانے کا عمل نظر آتا ہے:ع   عاشقوں میں برچھیاں چلوائیاں         ع   ان نے باتیں ہی ہمیں بتلائیاں

عربی فارسی اسما کے اواخر میں “ی۔یائے معروف” لگا کر مزید نئے الفاظ بنائے گئے ہیں:

جیسے:[سفر سے سفری۔ زنجیر سے زنجیری۔تلاش سے تلاشی۔حیرت سے حیرتی،نازک سے نازکی[

٭۔    ؎         حیرتی ہے یہ آئینہ کسی کا                (دیوان اول)

٭۔    ؎         جو ہو اختیاری تو اودھر نہ جائیں         (دیوان سوم)

   میر کے ہاں ضمائر کے حوالے سے تشکیلی سعی کارفرما رہی ہے۔ جیسے:[ان نے۔ انھوں کا۔ تئیں۔انھوں سے۔ مجھ۔ کاہے[

٭۔    ؎         تیں آہ عشق بازی چوپڑ جب بجھائی               (دیوان اول)

٭۔    ؎         ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس        (دیوان اول)

پروفیسر نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:

”میر ایک مسلّم الثبوت شاعر ہیں۔انھوں نے اپنے زمانے کی شعری روایت کو قبول بھی کیا اور اس کا اِرتداد بھی کیا۔ میر کے ہاں روایت سے انحراف اور جدت کے تتبع کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔“ 67؎

میر کی ولادت آگرہ میں ہوئی ۔ جوانی کا بیشتر حصہ آگرے میں گزارا۔ میر کے زمانہ کی یورشیں اور مصائب ان کے رفیقِ خاص رہے۔علاوہ ازیں میر راجستھان کے ملحق علاقوں یعنی میرٹھ،غازی آباد اور فرخ آبادسمیت لکھنو اور کوہستان ہمالیہ بھی رہے۔میر کی زبان پر ان علاقوں کی عوامی بولی ٹھولی اور ٹھیٹھ لہجے کا بلواسطہ اثر پڑا۔مثال کے طور پر “آپی، آگیا پیچھا دیکھنا، اپنی ٹکی لگانا، اتّو کرنا، اد ھ موا، بھائیں بھائیں، ٹھڈیاں ” ایسے الفاظ ہیں جو میر کی شاعری میں کھڑی بولی کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں جس سے میر کی کثیر السانی حِس ذکاوت کا پتہ چلتا ہے۔

میر نے زبان کی تشکیل کے معاملے میں محض قرب و جوار کی بولی ٹھولی اور عوامی الفاظ کو شاعری کا حصہ نہیں بنایا بلکہ ہر طرح کے الفاظ خواہ وہ کسی زبان، قوم،نسل اور علاقے سے تعلق رکھتے ہوں؛ شاعری میں کامیابی سے برت کر دکھایا ہے۔

جیسے:[ٹک، نمت، نمد، جوں، سوں،توں،ابے، تبے، ارے،منھوں،کہاویے،جاووے،آوے]الفاظ میر نے بکثرت استعمال کیے ہیں۔ میر نے مقامی الفاظ کے ساتھ ہندی پراکتوں کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔مثال کے طور پر:[نگر، نپٹ، بھسمنت،پران،موند، تنک، مندیل، تد، اچرج،کڈھب، پریکھا،سانجھ] الفاظ کی موجوددگی میر کی کثیر السانی واقفیت کا پتہ دیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ میر نے اُردو زبان کوایک ایسے وقت میں سنبھالا دیا جب ہر طرف فارسی کا غلغلہ تھا۔ میر نے نامساعد حالات اور زمانے کی بے مرورتی کے باوجود کم و بیش ساٹھ برس تک اُردو زبان کے فروغ میں کلام نظم و نثر سے اپنا کردار ادا کیا۔

کلاسیکی غزل میں میر کی شخصیت منفرد اور یگانہ ہے۔ان کی شاعرانہ عظمت کو ہر دور اور ہر زمانے میں تسلیم کیا اور اساتذہ فن نے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

؎         نہ ہوا پر نہ ہوا میر ؔ کا انداز نصیب                  ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا68؎

                  ؎         ریختہ کے تمہیں اُستاد نہیں ہو غالبؔ              کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا69؎

                  ؎         حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہوں              شاگرد میرزاؔ کا مقلد ہوں میرؔ کا70؎

غزل گوئی کی روایت.جو عرب سے شروع ہو کر ایران میں اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔اُردو شاعری کی محبوب صنف بنی۔ اس صنف کو بامِ عروج تک پہنچانے اور جذبات کے اظہارکا ذریعہ بنانے میں میر کا مقام نمائندہ غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ میر نے شعری روایت کا پاس کیا اور اس میں جدت بھی پیدا کی۔میر نے اپنے مخصوص رنگ سے غزل ایسی لطیف صنف کو وسعت و کشادگی سے ہم آہنگ کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میر کی شاعری کا رنگ آفاقی ہے جس میں انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی سمیت جملہ انسانی موضوعات کے نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی اور فلسفیانہ پہلو دکھائی دیتے ہیں۔میر نے غم و الم کو ذاتی تجربے کے بر عکس کائنات کا حصہ بنا کر رجائیت سے معمور کر دیا۔میر کا وضع کردہ طرز ہی اُردو غزل کا بنیادی طرز ہے۔اس طرز کی وجہ سے میر ہر دور میں زندہ رہیں گے اورشاعرِ فردان ان کے مقلد ہو ں گے۔

؎         جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز    تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا71؎

یہ میر کا انفراد ہے کہ انھوں نے جس انداز میں غزل کی زلفوں کو سنوارا ۔بہ حیثیت مجموعی اُردو زبان کے لیے فروغ کے لیے تا دمِ مرگ کام کیا۔ مولوی عبدالحق نے نہایت دل آویز انداز میں میر کو خراج پیش کیا ہے:

”میر تقی میر ؔ سر تاجِ شعرائے اُردو ہے۔ان کا کلام اِسی ذوق و شوق سے  پڑھا جائے گا جیسے سعدی ؒ کا کلام فارسی میں۔ اگر دُنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زنددہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہوگا۔“ 72؎

میر کی عظمت کا اعتراف نہ صرف نقادوں اور تذکرہ نویسوں نے کیا ہے بلکہ ہر زمانے کے شعراء و ادبا ء اور زبان وادب سے تعلق رکھنے والوں نے میر کی اُستادی کا لوہا مانا ہے اور اس کے رنگِ سخن کا تتبع باعث فخر قرار دیا ہے۔   مرزا رفیع سودا نے کہا ہے:

         ؎                سوداؔ تو اس زمیں میں غزل در غزل لکھ   ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے اُستاد کی طرف73؎

مرزا غالب کیا خوب کہ گئے ہیں:

؎                  غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ِ ناسخ        “آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں” 74؎

حوالاجات

۱۔کامل قریشی،ڈاکٹر، اُردو غزل(مرتبہ)،مشمولہ مضمون،میر غزل گو کی حیثیت سے،خواجہ احمد فاروقی،اُردو اکادمی دلی،۱۹۷۸،ص:۹۵

۲۔محمد ساجد خان، تدوین دیوان غزلیات میر تقی میر،غیر مطبو عہ مقالہ پی ایچ ڈی اُردو، بہاوالدین ذکریا،یونی ورسٹی،ملتان،۲۰۱۴،ص:۱۷۶

۳۔ محمد ساجد خان، تدوین دیوان غزلیات میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۱۷۱

۴۔سلیم اختر،ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، انتیسواں ایڈیشن،۲۰۱۴،ص:۱۷۲

۵۔ محمد ساجد خان، تدوین دیوان غزلیات میر تقی میر،دیوان چہارم،ص:۶۸۰

۶۔غلام رسول،مہر،مولانا،مرزا غالب اور میر تقی میر،مشمولہ ،مضمون،رسالہ آجکل،دلی،سن(ندارد)ص:۵۸

۷۔ محمد ساجد خان، تدوین دیوان غزلیات میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۷۰۱

۸۔ عبدالحق،مولوی،ڈاکٹر،مقدماتِ عبدالحق، ص:۶

۹۔ عظمی نورین،ڈاکٹر،میر کی شخصیت و شاعری کا مختصر فکری مطالعہ،مشمولہ،مضمون، رسالہ،اخبارِ اُردو،اسلام آباد،ماہ،جولائی،۲۰۱۴،ص:۳۲

۱۰۔ محمد ساجد ریحان، تدوین دیوان میر،غیر مطبوعہ مقالہ، پی ایچ ڈی، بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی،ملتان،۲۰۱۰ء،ص:۱۱۶

۱۱۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو،جلد سوم،مجسل ترقی ادب،لاہور،مطبع ہشتم،دسمبر،۱۶ ص:۴۶۱

۱۲۔ محمد یعقوب، میر تقی میر کے ادبی معرکے،مکتبہ اُردو، دلی،جون،۱۹۷۱،ص:۶۵

۱۳۔ محمد ساجد ریحان، تدوین دیوان میر(دیوان ششم)،غیر مطبوعہ مقالہ، پی ایچ ڈی، بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی،ملتان،۲۰۱۰ء،ص:۷۲۰

۱۴۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۵۳۵

۱۵۔ایضاً،دیوان اول،ص:۱۱۸

۱۶۔ غالب نامہ،مجلہ،میر نمبر،مدیر،عبدالودو دیگر،مشمولہ مضمون، میر کی زبان،نثاراحمد،فاروقی،پروفیسر،غالب انسٹییوٹ،نئی دلی،جولائی ۲۰۰۱ء،ص:۵۷

۱۷۔ میر تقی میر، تدوین دیوان اول،ص:۱۱۱

۱۸۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۵۳۱

۱۹۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۵۶۴

۲۰۔میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۶۹۳

۲۱۔ میر تقی میر،دیوان چہارم،ص:۶۸۲

۲۲۔نثاراحمد فاروقی،خواجہ،، اُردو غزل(مرتبہ)،کامل قریشی،مشمولہ مضمون،میر غزل گو کی حیثیت سے، اُردو اکادمی دلی،۱۹۷۸،ص:۹۵

۲۳۔ سراج السلام،سید،پروفیسر،اُردو ادب کا ارتقا،غنضفر اکیڈمی،پاکستان،کراچی،۲۰۰۳،ص:۴۴

۲۴۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۱۶۱

۲۵۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۹۴

۲۶۔ایضاً،ص:۱۰۱

۲۷۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۱۴۸

۲۸۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۵۷۲

۲۹۔شکیل الرحمان، میر کی جمالیات،عُرفی پبلی کیشنز، ہریانہ،۲۰۱۱،ص:۴۱

۳۰۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۶۵۰

۳۱۔ میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۵۲۲

۳۲۔ میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۲۰۹

۳۳۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۵۳۴

۳۴۔ میر تقی میر،دیوان ششم،ص:۳۱۴

۳۵۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۶۱۵

۳۶۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۲۹۷

۳۷۔ رام بابو سیکسنہ،تاریخ ادب اُردو(مترجم)حسن عسکری،ص:۱۷۳

۳۸۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۱۰۶

۳۹۔ایضاً،ص:۳۵۷

۴۰۔ایضاً،ص:۸۵

۴۱۔ایضا،ص:۴۱۱

۴۲۔ سراج السلام،سید،پروفیسر،اُردو ادب کا ارتقا،غنضفر اکیڈمی،پاکستان،کراچی،۲۰۰۳،ص:۴۴

۴۳۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۴۱۶

۴۴۔ میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۳۶۴

۴۵۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو، جلد دوم،مجلس ترقی ادب،لاہور،۲۰۰۹،ص:۴۵۵

۴۶۔ میر تقی میر،دیوان پنجم،ص:۶۹۲

۴۷۔ میر تقی میر،دیوان چہارم،ص:۶۷۸

۴۸۔ شکیل الرحمان، میر کی جمالیات،عُرفی پبلی کیشنز، ہریانہ،۲۰۱۱،ص:۶۳

۴۹۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد دوم،ص:۴۶۸

۵۰۔ میر تقی میر،دیوان اول،ص:۶۰۶

۵۱۔ میر تقی میر،دیوان ششم،ص:۷۱۳

۵۲۔ میر تقی میر،دیوان اول ،ص:۵۶۹

۵۳۔ایضاً،ص:۲۸۹

۵۴۔ایضاً،ص:۵۸۴

۵۵۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد،دوم،ص:۴۹۵

۵۶۔ رام بابو سیکسنہ،تاریخ ادب اُردو،مترجم،حسن عسکری،ص:۱۹۴

۵۷۔ میر تقی میر،دیوان اول ،ص:۶۸

۵۸۔ایضاً،ص:۸۹

۵۹۔ایضاً،ص:۸۵

۶۰۔ایضاً،ص:۴۸۹

۶۱۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد،دوم،ص:۴۹۵

۶۲۔ میر تقی میر،دیوان اول ،ص:۱۰۵

۶۳۔ میر تقی میر،دیوان چہارم ،ص:۸۴۸

۶۴۔ میر تقی میر،دیوان دوم،ص:۱۶۹

۶۵۔ ظفر ہاشمی،پروفیسر، ڈاکٹر،میزان اُردو،طاہر سنز،لاہور،۱۹۹۸،ص:۶۰

۶۶۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد،دوم،ص:۴۸۱

۶۷۔ایضاً:ص:۴۸۳

۶۸۔ نثاراحمد فاروقی،خواجہ، اُردو غزل،مشمولہ مضمون،میر غزل گو کی حیثیت سے،ص:۹۹

۶۹۔سودا،محمد رفیع، دیوان سودا، مرتبہ،ہاجرہ ولی الحق،نظامی پریس، لکھنو، ۱۹۸۵،ص:۲۶۳

۷۰۔غالب،مرزا،خاں،اسداللہ،دیوان غالب(نسخہ حمیدیہ)،مرتبہ،مہر افشاں فاروقی،یونی ورسٹی آف ورجینیا،۲۰۱۵،ص:۱۹۴

۷۱۔حالی،مولانا، الطاف حسین،دیوان حالی،مرتبہ،رشید حسن خان،اُردو اکادمی دہلی،۱۹۹۱ء،ص:۱۳۷

۷۲۔ میر تقی میر،دیوان اول ،ص:۹۷

۷۳۔سودا،مرزا ،محمد رفیع، دیوان سودا، مرتبہ، حاجرہ ولی حق،نظامی پریس،لکھنو،۱۹۸۵،ص:۳۲۱

۷۴۔ غالب،مرزا،اسداللہ،دیوان غالب(نسخہ حمیدیہ)،مرتبہ،مہر افشاں فاروقی، ورجینا یونیورسٹی،۲۰۱۵ص:۲۵۹

***

Leave a Reply