You are currently viewing محمد یوسف ٹینگ کی تحقیق پر طائرانہ نظر

محمد یوسف ٹینگ کی تحقیق پر طائرانہ نظر

ظہور احمد

ریسرچ اسکالر ،دہلی یونیورسٹی

محمد یوسف ٹینگ کی تحقیق پر طائرانہ نظر

محمد یوسف ٹینگ کا شمار اردو کی ان نامورشخصیات میں ہوتا ہے۔ جنہوںنے اردو ادب میں ایسا بیش قیمتی ذخیرہ چھوڑا ہے جن کا نام لئے بغیر قلم کو جنبش نہیں دے سکتے۔ ان کی پیدائش 12مارچ 1935ء کو شوپیاں میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ اس کے بعد کشمیر یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں سے انہوں نے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا ۔ان کے کنبے کا کاروبار جسے خاندانی کاروبار کہا جاتا ہے وہ پھلوں کا تھا ۔کشمیر میںچونکہ میوے کثرت سے ہوتے ہیںاور سیب جو صرف ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور پھل ہے وہ کشمیر میں کثرت سے پایا جاتا ہے اس لئے تجارت کشمیر میں اول نمبر پرہے ۔محمد یوسف ٹینگ نے پڑھائی لکھائی کی طرف اپنا ذہن موڑا،ا ور عمر بھر اب اسی کام میں مشغول ہیں۔وہ بیک وقت محقق،نقاد ،مصنف ،سیاست داں ، ماہر کشمیریات ،تہذیب و ثقافت کے شناور ،مخطوطات کے نباض۔تاریخ دان ،مصوری اور نقاشی کے فن سے آشنا اور صحافی ہیں ۔ابتداء میں انہوں نے کشمیر سے شائع ہونے والے اخبار ’’جہان نو ‘‘میں ایڈیٹر کا کام کیا ۔اس کے بعد انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھ لیا اور سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارآفتاب،زمیندار،حقیقت اور چٹان جیسے اخباروں میں کام کیا۔اس کے بعد وہ رسالہ’’ تعمیر ‘‘ جو ماہانہ تھاا س میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیااور اس کے بعد اس کے ایڈیٹر بھی بنے۔اس کے بعد جب جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹس ،کلچر اینڈ لینگویجزنے جب دو ماہی رسالہ ’’شیرازہ ‘‘نکالنا شروع کیا تب اس کے بھی ایڈیٹر بنے ۔اس کے بعد انہوں نے اردو ،کشمیری اور انگریزی میں لکھنا شروع کیا ۔انہوں نے تنقیدی اور تحقیقی کتابوں کے علاوہ متعدد مضامین بھی لکھے۔ان کی کشمیری تحریروں کا مجموعہ ’’تلاش ‘‘1988ء میں شائع ہوا ۔اردو میں ان کے کارنامے شناخت ،جستہ جستہ،کشمیر قلم اور بین السطور قابل ذکر ہیں ۔انہوں نے مہجور پر بھی کام کیا اور ان کے اس کام پر 1998ء میں ان کی تحریر’’مہجور شناسی ‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔ان کے اس کارنامے میں چودہ مضامین ہیں جو مہجور کی زندگیاور ان کے کاموں کے متعلق ہیں ۔

ان کی تنقیدی تحریریں جن میں منٹو کی افسانہ نگاری ،رسا جاودانی ،غنی کاشمیری ،حسرت موہانی عاشق اور مجاہد،کشمیری شاعری میں جدید رجحانات ،چلمن سے چمن ،شخصیت کے پیچھے شخص، ان کی تنقیدی کتابوں کے زمرے میں آتی ہیں ۔ان کے تحقیقی مضامین میں قرانیات کی نادر دریافت ،نسخہ فتح اللہ الکشمیری ،مغل مصوری کے دو نادر نمونے ،یہی حال ،اسطور ،تاریخ اور ادب ،ایک ادبی سرقے کا سنسنی خیز انکشاف اورغنی کاشمیری کے نام شامل ہیں ۔

محمد یوسف ٹینگ نے کشمیری شاعر رسول میر پر ایک کتاب مرتب کی جس میں انہوں نے ان کے کلام کا انتخاب کر کے تعارف و تبصرہ کے ساتھ شائع کیا۔رسول میر کشمیری شاعر ی کے تیسرے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔یوسف ٹینگ نے رسول میر کی پیدائش بیا ن کرتے ہوئے صرف ان کی جائے پیدائش کا ہی ذکر کیاہے تاریخ پیدائش تحقیق کے بعد بھی معلوم نہیں ہو سکی ۔ان کی پیدائش تحصیل اسلام آباد قصبہ ڈورو شاہ آباد محلہ پیوہ میدان میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد نمبردار تھے تاریخ پیدائش کا جس طرح سے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ تاریخ معلوم نہ ہو سکی لیکن ایک اندازے کے مطابق پیدائش انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی اور ان کی موت لگ بھگ 1870ء کے آس پاس بتائی جاتی ہے ۔

یوسف ٹینگ نے رسول میر کو لل دید کے بعد کاایک ایسا شاعر قرار دیا ہے جس میں تصور حسن میں عشق میں انفرادیت اور اسلوب میں نئی شادابیوں کی کونپلیں پھوٹتی ہوں۔ ۔رسول میر کی غزلوں کو کلاسیکی اور ٹکسالی کہا گیا ہے۔ان کی غزلوں کو طرز ادا سے ٹینگ دو حصوںمیںتقسیم کرتے ہیں ۔ایک جو وہ کشمیری شعری روایت کے مطابق عورت کی زبان سے اظہار عشق کرتا ہے اور دوسری جب روایت سے انحراف کر کے مردوں کی زبان سے عشقیہ جذبات کو جامعہ کا اظہار پہناتا ہے ۔ٹینگ نے ان کی شاعری کے بارے میںان چیزوں کا ذکر کیا ہے جو رسول میر نے اپنی شاعری میں برتے ہیں ۔رسول میر کے لکھے ہوئے گیت ،ان کے استعمال کئے ہوئے محاورات،اور ان کے لب و لہجہ کے بارے میںپوری جانکاری دی اورا س کی بارے میںبھی بتایا ہے ۔انہوںنے جس طرح سے عورت کی زبان سے اشعار کہے ہیں اس کے بارے میں بھی بتایا ہے اور وہ کس انداز میں بیان کئے ہیں ان کے بارے بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ محمد یوسف ٹینگ نے ایک طرف یہ کتاب لکھ کر تنقید کا حق اداکیاہے تو دوسری طرف تحقیق میں بھی اہم رول ادا کیا ہے ۔ان کی یہ کتاب تحقیقی زیادہ اور تنقیدی کم ہے ۔کتاب میں ان کے حالات و اقعات بھی بیان کئے ہیں۔ انہوںنے رسول میر کے چند اشعار کی تشریح بھی کی ہے اور تشریح کے ساتھ ساتھ ان پر اپنی آراء کے ساتھ ساتھ تنقیدی نظر بھی دوڑائی ہے ۔ان کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں ؛

’’میر کے کلام میں ہر عظیم غزل گو کی طرح لہجے کے اتارو چڑھائو ،زبان کی زیر و بم اور استعارات کے لطیف ابہام کا خاص دخل ہے ۔ان کے کلام پر شباب اور سرمستی کا بڑا ہی شوخ اور گہرا غلاف چڑھا ہوا ہے ۔ان کے اپنے الفاظ میں ’’ گویا اسے برسوں کسی مے خانے میں آنچ دی گئی ہو ‘‘  ہر رومانی شاعر کی طرح رسول میر کے کلام کابنیادی خیال یہی ہے کہ زندگی کی رعنائیوں اور مسرتوں سے زیادہ لطف اندوز ہونا چائیے۔اس سے پہلے کہ موت کا بے رحم ہاتھ ہمیں غفلت کے اندھیروں میں دھکیل دے ۔زندگی کی لطافتوں سے جی بھر کے اکتساب لذت حاصل کرنا چائیے۔‘‘16

رسول میر ،محمد یوسف ٹینگ ،ص 26-27

رسول میر کی شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ جو محبوب شاعری میں لاتے ہیں اس سے مل کر زندگی کو حسین تر بنانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔اور مایوسی ختم ہوتی ہے ٹینگ نے ان کے کلام کو صرف مرتب ہی نہیں کیا بلکہ ان کے کشمیری کلام کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کلام کی تشریح بھی کی ہے۔ انہوں نے کلام کوکشمیری کے ساتھ ساتھ تشریح بزبان اردو میں کر کے اردو ادب میں اضافے کا کام بھی کیا اور اردو داں طبقے کو کشمیری ادب سے روشناس بھی کرایا ہے ۔

’’گل ریز‘‘ محمد یوسف ٹینگ کی ایک ایسی کتاب ہے جو کشمیری زبان میں ہے ۔اس کا کلا م فارسی میںتھا۔لیکن انہوں نے کشمیری زبان میں مرتب کیا،تنقید و تحقیق میں ان کا ایک ایسا کارنامہ بھی ہے جسے انہوں نے ڈوگری اور کشمیری کہانیوں کا انتخاب کر کے مرتب کیاہے ۔انہوں نے اس کتاب کانام پربت اور پنگھٹ رکھا ہے۔اس میں ڈوگری کہانیوں کی تعداد آٹھ ہے اور کشمیری کہانیوں کی تعداد سات ہے ۔ڈوگری کہانیوں میں گرجتے بادل چمکتی بجلی از رام ناتھ شاستری ،

پہاڑ کی کہانی از نیلامیہ دیو شرما

بہن کا گھر از وید راہی

سمدھی کا الہانہ از بھگوت پرساد ساٹھے

اندھیری گلی کی آخری دیوار از مدن موہن

جمدر از نرسنگھ دیو جموال

چینچلو از دھرم چند ر پرشانت

کاستو کاک کالا تیتر از نریندر کھجوریہ

                            کشمیری کہانیوں میں ؛

رادھے کاک کی بلی ازدیپک کول

دھوپ از ہری کرشن کول

نصیب کا چور از امیش کول

۔۔۔۔جب میں مر گیا !از بنسی نردوش

چھوٹی چھوٹی باتیں از علی محمد لون

آبنوس کا رولر ،جگر کی بھانس از ہردے کول بھارتی

حسن اور موت از اختر محی الدین

انہوںنے اس میں ان کی پیدائش اور حالات زندگی اور ان کے کارناموں کا بھی ذکر کیا ہے ۔انہوں نے افسانوں کی شروعات کس طرح سے کی ہے اس کے بارے میںبھی جانکاری دی ہے ۔

’’بین السطور‘‘ ان کی تحقیقی کتاب ہے اس میں انہوں نے تحقیقی مضامین لکھے ہیں

قدوس جاوید ان کی تنقید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ؛

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ متن اور صاحب متن کے تجزیہ و تحلیل میںتقلیدی رویوں کی پیروی نہیں کرتے بلکہ ایک صاحب ذوق قار ی اور دیدہ ور ناقدکے طور پر شاعری اور شاعر کے بارے میں آزادانہ نتائج اخذ کرتے ہیں۔حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو محمد یوسفٹینگ جس طرح شاعری کی فنی و جمالیاتی ساخت ((Structure کی گہرائیوں میں اترتے ہیں اور شاعر کے تخلیقی عمل میں شریک ہوتے ہیںاور پھر متن اور اس کی بنت کے لسانی تاروپود کو سمیٹ کر نتائج اخذ کرتے ہیں۔ان کے بغور مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد یوسف ٹینگ کے یہاں تنقید کے وہ تازہ ترین رویے (مثلاًساختیاتی اور قاری اساس تنقید)بھی سر گوشیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔جو آج اپنی ارتقائی صورتوں میں ’’مابعد جدید تنقید ‘‘’’ Post Modern Criticism‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں آج ادب شناسی کے لئے جن پانچ نکات ،زبان ،زمانہ ،متن ،مصنف اور قاری کی بات کی جاتی ہے یوسف ٹینگ نے بھی شعوری طور پر شعر و ادب کی قدر شناسی کے لئے انہیں نکات کو بنیاد بنایا ہے۔اس امتیاز کے ساتھ کشمیر اور کشمیر شناسی کی ذہنی لہریں ہر مقام پر ان کے تحقیقی و تنقیدی رویوںکے ساتھ رواں دواں رہتی ہیں ۔‘‘17

                            اد ب کے معمار  ۔قدوس جاوید ، ص 353

       محمد یوسف ٹینگ کو تاریخ سے بہت دلچسپی تھی ۔انہوں نے کشمیر کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا ہے کشمیر میں انہوںنے ایسے ایسے تاریک گوشے سامنے لائے ہیں جن کے بارے میں شاید ہی آج تک کو ئی جان پاتا ۔لیکن انہوں نے جہاں کہیں بھی کوئی نئی خبر سنی یا دیکھی یا کسی بھی چیز کے بارے میں کہیں پڑھا وہ وہاں اس کی تہہ تک پہنچے اور ایسا نتیجہ نکال کر سامنے لایاکہ سننے اور دیکھنے والوں کی عقل دھنگ ہو جاتی ہے ۔کشمیر میں قرانیات کے بارے میںان کی تحقیق بہت ہی اہم ہے ۔اس نسخے کے بارے میں انہوں نے کہیں پڑھا تھا مگراس کے بعد جب اس کی تہہ تک پہنچے اور آخر میں کامیابی بھی حاصل کی ۔اس کے بعد انہوں نے بدھ مذہب کے مسودات کا ذکر کیاہے۔اور اس کے بارے میں بتایا ہے کہ و ہ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ یہ مسودات کہاں ہیں اور اس کی جانکاری انہوں نے اس شرط پر بتانے کو کہاکہ اگر اس کے بعد ان کو دوبارہ یہیں رکھا جائے گا تبھی ان کی جانکاری دے سکتا ہوں ۔اس کے بعد کا تاریخی کارنامہ والٹر لارنس اور کشمیر شناسی ہے۔للتادتیہ۔جارج فورسٹر کے سفر نامے ،کلہن کی راج ترنگنی ،تاریخ حسن،ان کی ایسی کتابیں ہیں جو تحقیقی و تنقیدی کے ساتھ ساتھ تاریخی نوعیت بھی رکھتی ہیں ۔وہ جب بھی کسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو اس وقت ان کی نظر تاریخ پر بھی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی  بات کو تاریخ کے ساتھ جوڑ کر ہی اس کو آگے لے کر جاتے ہیں اس سے ایک تو تحقیق بھی ہوجاتی ہے جس سے کہ اس کے اصل ماخذ تک پہنچاجا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی صیح نشاندہی بھی ہو جاتی ہے ۔جب وہ کشمیر کی موسیقی پر لکھتے ہیں تو اس وقت کو بھی تاریخ کے آئینے سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میںکہتے ہیں کہ آج جو موسیقی کشمیر میں ہے وہ پہلے سے بالکل مختلف ہے اور اس کے بعد اس پر پوری تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے اس کے فن اور گانوں کے بارے میں بھی سیر حاصل معلومات بہم پہنچائی ہے۔انہوں نے کشمیری موسیقی ،فن تعمیر ،خوش نویسی،خطاطی،دستکاری ،کشمیر تہذیب وتمدن ،وغیرہ جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ۔انہوں نے جس طرح سے فن پر بات کی ہے اسی طرح سے اس فن میں مہارت رکھنے والوں کو بھی قلم کی نوک پر لایا ہے ۔ان کے علاوہ انہوں نے کشمیرکے اردو دان یا کشمیر کے باہر سے آنے والے اردودان پر بھی تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔انہوںنے میر ،غالب اور اقبال سے لے کر رسا جاودانی ۔رحمن راہی اور احمدشناس تک کی شاعری پر اور ان کے حالات پر مضامین لکھے ہیں۔

***

Leave a Reply