You are currently viewing مشترکہ ہندوستانی معاشرہ اور تصوف

مشترکہ ہندوستانی معاشرہ اور تصوف

ڈاکٹر مشکور معینی

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو

بنواری لال بھلوٹیا کالج، آسنسول

مشترکہ ہندوستانی معاشرہ اور تصوف

         عہد حاضر میں اگر چہ ہندوستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔مگر اس کی ترقی صرف اقتصادیات پر منحصر ہے۔ ملک کا معاشرہ اور اس کی تہذیب اور اتحاد کا  سرِ ا دن بہ دن ٹوٹتا جا رہا ہے۔ ماہرین سماجیات نے ملک کی ترقی اور اس کی شناخت کا سبب ایک صحت مند معاشرہ اور اس کی تہذیب و ثقافت کو قرار دیا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جدید دور میں معاشیات کو ہی زندگی کا ماحصل تصور کر لیا گیا ہے۔ نتیجتاََ سماج میں انارکی پیدا ہو گئی ہے اور تہذیب پامال ہوتی جا رہی ہے۔ اس کیفیت کا بہتر اظہار سلطان اختر نے اپنے شعر میں کیا خوب کیا ہے:

ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے            زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دے

         عہد رواں کو دور جدید بھی کہا جاتا ہے۔ جدیدیت کا مفہوم مختلف اعتبار سے ہے۔ اس صدی نے انسانی آبادی کو کئی لحاظ سے متاثر کیا ہے۔ باالخصوص جدید ٹیکنالوجی کے ایجاد سے معاشرہ میں انقلاب آیا۔ انٹرنیٹ کی آمد سے Globalization کا تصور ابھرااور پوری دنیا ایک بستی میں تبدیل ہو گئی۔ بظاہر تعلیم کے میدان میں خوب ترقی ہوئی۔ علم و ادب کے نئے نئے دریچے وا ہوئے۔ جدید علم سے انسانی ذہن روشن تو ہوا مگر اس روشنی میں اس کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ نئی روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا انسان اپنی معاشرت اور تہذیب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید علم کا مقصد صرف اور صرف حصول معاش ہے۔ معاشیات نے انسان کو خود غرض بنا دیا ہے۔ جدید علم میں اخلاق کی کوئی اہمیت نہیں۔ اخلاق کے بغیر علم کا تصور بغیر نقشے کے مکان جیسا ہے۔ علم سے انسان کا ذہن یقینا روشن ہوتا ہے مگر اخلاق اسے اعتماد اور وقار عطا کرتا ہے۔ اس نکتے کی طرف اقبال نے کیا خوب اشارہ کیا ہے:

عقل کو کچھ نہ ملا علم میں حیرت کے سوا            دل کو بھایا نہ کوئی رنگِ محبت کے سوا

         انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس قوم اور سماج نے اخلاق (واضح رہے کہ یہاں اخلاق اتحاد کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے) کے دامن کو چھوڑا اس پر زوال طاری ہو گیا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کی صورتِ حال نا گفتہ ہے۔ قوم کے اندر اخلاقی کمزوریاں بڑھنے لگیں جس کی وجہ سے صدیوں سے قائم سماجی اور تہذیبی ڈھانچے ٹوٹنے لگے۔ اخلاق انسانی زندگی کے ساتھ سماجی توازن کو برقرار رکھنے میں بھی کلیدی رول ادا کرتا ہے۔لیکن زندگی سے اخلاق جب ناپید ہو جائے تو پھر سماجی شیرازہ کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔در اصل اخلاق انسان کو مذہبی اور سماجی دونوں سطحوں پر کبھی بیزار نہیں ہونے دیتا ۔ اخلاق کی کمزوری سے انسان بیزار ہو جاتا ہے۔ عصر حاضر میں ہندوستانی معاشرے میں پھیلے اس بیزاری کا احساس سلطان اختر کو شدید ہے جس کا اظہار انھوں نے درج ذیل شعر میں یوں کیا ہے:

ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی             ہر کام چل رہا ہے خدا کے بغیر بھی

         دراصل یہاں اخلاق سے میری مراد علم تصوف ہے۔تصوف طریقۂ زندگی یا طرز حیات کا نام ہے۔ تصوف سادہ زندگی جینے کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ایک اچھا سماج اور زندگی کے لیے سادگی بے حد ضروری ہے۔ تصوف جس تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے وہ عشق و محبت کی تعلیم ہے۔عشق کا یہ وصف ہے کہ انسان کو کبھی رذالت کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا اور کسی بھی حال میں انسان اخلاقی ضابطوں سے مبرہ نہیں ہوتا۔ تصوف کی اس خوبی کو مولانا شبلی نعمانی نے اپنی تصنیف شعر العجم میں بحسن و خوبی اجاگر کیا ہے جس سے اس کی اہمیت و افادیت مزید عیاں ہوتی ہے۔ شعر العجم سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

         ـ’’ تصوف کا تعلق تمام تر واردات اور جذبات سے ہے، اور اس کی تعلیم کی پہلی ابجد

         عشق و محبت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق کا بڑا وصف یہ ہے کہ تمام رذیل

         اخلاق، شریف اخلاق سے بدل جاتے ہیں۔بغض ،کینہ، حسد، خود پرستی، فخر، غرور

         فنا ہو جاتے ہیں۔طبیعت میں رقت اور سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے اور انسان ایک عام

 محبت اور کشش سے لبریز ہو جاتا ہے۔ حضرات صوفیا جب طالب کوتزکیہ نفس کی تعلیم

          کرنا چاہتے ہیںتو سب سے پہلے عشق و محبت کی تعلیم دیتے ہیں کہ یہ صیقل تمام

رنگ کو پاک کر دے گا۔‘‘ ۱

         تصوف کا بنیادی مقصد عوام کے درمیان محبت کو عام کرنا ہے۔ چونکہ محبت انسان کے اندر سوز و گداز پیدا کرتی ہے۔ یہ انسان کے دل میں ہمدردی کا مادہ ابھارتی ہے۔ محبت انسان کو رحم دلی کا سبق سکھاتی ہے۔ گویا تصوف کے اس موثر طریقۂ کار کی بنا پر ماحول میں خوشگواری پیدا ہو جاتی ہے۔ بقول علامہ شبلی نعمانی :

’’تصوف کا اصلی مقصد عشق و محبت ہے۔ اس عالم میں دشمن اور دوست کی تمیز اٹھ جاتی

         ہے۔ ہر چیز میں اسی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ ہر چیز سے محبت کی بو آتی ہے۔ ہر چیز کی طرف

         دل کھنچتا ہے۔ تمام عالم ایک معشوق بن کر نظر آتا ہے اور دنیا کی مکروہات اور مخالف چیزیں

         معشوق کی دلدوز ادائیں معلوم ہوتی ہیں۔اس کا اخلاق پر عمدہ اثر پڑا ۔ فقہا اور علمائے ظاہر

نے اختلافِ خیالات کی بنا پر جو دشمنی پھیلائی تھی اور جس کی بدولت نہ صرف غیر اہلِ مذاہب         بلکہ خود اسلامی فرقوں میں ایک ابدی جنگ قائم ہو گئی تھی۔ وہ حالت بدل گئی۔

 عام محبت اورہمدردی کے خیالات پھیل گئے۔‘‘ ۲

         پیشِ نظر اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیمِ تصوف میں جو خصوصیت ہے وہ کسی اور مکاتب میں نہیں۔دوسرے مکاتب اور تصوف کی تعلیم میں ایک واضح فرق علم اور عمل کا ہے۔یہی وہ خط ہے جو عالم اور صوفی کے درمیان حد فاصل قائم کرتا ہے۔عالم بظاہر اخلاص کا درس تو دیتا ہے لیکن اس کی تعلیم میں عمل کم اور فلسفہ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک عالم فلسفی بن جاتاہے لیکن وہ صوفی نہیں ہوتا۔ اس کی بہتر وضاحت شبلی نعمانی کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:

         ’’ فلسفہ اور تصوف میں علم و عمل کا فرق ہے۔ فلسفی جانتا ہے، صوفی دیکھتا ہے۔ ارسطو

         دلائل سے ثابت کرتا ہے کہ سچ اچھی چیز ہے، گو جھوٹ بول جاتا ہے ۔ لیکن صوفی کی

         زبان سے بلا قصد بھی سچ ہی نکلتا ہے۔‘‘ ۳

اس خیال کو علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یوں ادا کیا ہے کہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نا نوری ہے نا ناری ہے

         صوفی کا سارا زور عمل پر ہوتا ہے اور عمل کا انحصار عشق پر ہے۔عشق کافر ہے نہ مسلمان۔ عشق انسان میں تفریق نہیں اخوت پیدا کرتا ہے۔ اس کے دائرے میں شیخ و برہمن ، ادنیٰ و اعلیٰ، رذیل و شریف سبھی آباد ہیں۔تصوف کی مقبولیت کا سبب یہی ہے کہ اس نے مذہب کے سکہ بند اور ظاہری تصور کے بجائے سماجی مساوات پر زور دیا ۔ چونکہ مذہب کا اصل مقصد خلوصِ قلب ہے۔ بلکہ خلوصِ قلب کے ساتھ اگر بت پرستی بھی کی جائے تو اس کا بھی انعام ملتا ہے۔امیر خسرو نے اپنے اس شعر میں کیا خوب کہا ہے:

کافر ِعشقم مسلمانی مرا درکار نیست       ہر رگِ من تار گشت حاجت زنار نیست

اس ضمن میں غالب کا شعر بھی قابل غور ہے:

وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے          مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

اس موضوع سے متعلق خواجہ میر درد کا شعر بھی کافی مقبول ہے:

بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن                آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا

         اردو کا مشہور صوفی شاعر خواجہ میر درد کے شعر سے مذہب کی اصل فکر اور تصوف کے مقاصد سے ہم مزید روشناس ہوتے ہیں:

درد ِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو               ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

         انسانی زندگی کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صوفیائے کرام ایک اچھے سماج کی تشکیل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ چونکہ ان کے نزدیک عمل کا تمام انحصار خدمتِ خلق پر ہے۔ پروفیسر محمد حسن تصوف کے سماجی پس منظر اور اس کی افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

         ’’ انسان کی عظمت کے اس تصور کے ساتھ ساتھ تصوف نے انسانی مساوات پر زور دیا۔

         مذہب کے سکہ بند اور ظاہری تصور کو صوفیا نے حتمی اور قطعی قرار نہیں دیا۔۔۔۔

         ۔۔۔۔صوفی ظاہری پابندی کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرنے اور ان میں منافرت

         پھیلانے کے بجائے صرف خلوصِ نیت اور کیفیتِ قلب کو بنیادی درجہ دیتے تھے،

         گویا عشق و محبت معرفتِ الہٰی کا سب سے معتبر اور مستند راستہ ہے اور اس راستے

         پر چلنے کے لیے محض ضابطہ پرستی یا صرف ظاہری رسوم و عبادت کافی نہیں ہیں۔ اس

                  طرح تصور ِ عشق کو نظامِ تصوف میں کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی۔‘‘ ۴

         تصوف کا محور تزکیۂ نفس ہے۔چونکہ تزکیۂ نفس ہی انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف بناتا ہے۔ صوفیا کے نزدیک انسان سے بہتر کوئی شے نہیں، انسان حاصل کائنات ہے۔وہ خدا کا مظہر ہے۔ وہ شانِ الہٰی کا طلسم ہے۔ اسی لیے صوفیا نہ شاعری نے عزتِ نفس کا خیال پیدا کیا اور یہ بتایا کہ زمین و آسمان اور کون و مکان سب انسان کے تابع ہیں اگر انسان کامل انسان بن جائے۔

جلوہ تو ہر اک طرح کا، ہر شان میں دیکھا           جو کچھ کہ سنا تجھ میں، سو انسان میں دیکھا

         سماجی تاریخ کے جائزہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی اور سیاسی قائدین نے اپنے مفاد کے پیشِ نظر تہذیبی اور سماجی ضابطوں کو پامال کرنے کا کام کیا ہے۔ان کے نظریات سے سماج میں انتشار پھیلا۔ انسانی زندگی بے راہ روی کا شکار ہو گئی۔ سماج میں وحشی پن بڑھنے لگا۔ سماج سے بربریت کا خاتمہ اور اتحاد ملت کو وجود میں لانے کا کام سب سے پہلے پیغمبروں نے انجام دیا اور پیغمبروں کے بعد صوفیوں نے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔ تہذیب کو مثالی بنانا مکمل طور پر علم و آگہی کا عمل ہے جس میں جذبے کا شامل ہونا لازمی ہے۔ پیغمبروں نے انسان کو اس عمل کی طرف متوجہ کیا مگر انسانیت کا قافلہ پیغمبروں کی ہدایت پر چلنے میں ناکام رہا۔پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی قیادت میں ایک بڑی امت تیار ہوئی۔ اس امت کا اولین کام یہ تھا کہ وہ ایک ایسی تہذیب کی تشکیل کرے جس سے پوری انسانیت مستفیض ہو سکے۔ مگر امت کی طویل تاریخ بتاتی ہے کہ امت محمدی بہت جلد سیاسی اقتدار کے راستے پر چل پڑی۔ امت کے افراد نے تہذیبِ معرفت کی تشکیل کے بجائے ایک مسلم سیاسی ایمپائر قائم کر لیا۔ایسے عالم میں صوفیوں کی جماعت ہی تنہا طور پر تہذیبِ معرفت کی تشکیل کا کام انجام دیتی رہی۔ہندوستان میں مسلم بادشاہوں کی آمد کے ساتھ صوفیوں کا بھی ظہور ہوا۔ اگر چہ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں بھگتی تحریک اور پیرووانِ بدھ تہذیبِ معرفت کی تشکیل کے کام میں سرگرم تھے۔مگر صوفوں کی آمد کے بعد ہندوستان میں ایک نئے سماج و تہذیب کا فروغ ہونے لگا جسے گنگا جمنی تہذیب یا مشترکہ کلچرکے نام سے جانا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان کی شناخت اسی گنگا جمنی تہذیب سے ہے۔اس مشترکہ کلچر اور اتحاد ملت کا قدیم نقش صوفیوںاور سنتوں کی کوششوں کی بدولت اب بھی قائم ہے البتہ اس کی وحدت کا رنگ ہلکا پڑنے لگا ہے۔اتحاد ملت کے اس پرانے نقش کو مٹنے سے بچانے کی تدبیر صوفیانہ اصول کی بنا پر ہی کی جا سکتی ہے۔

         مسلم حکومت کے قیام کے بعد تصوف کا یہ سلسلہ بدستور تقسیمِ ہند تک جاری رہا۔حالانکہ صوفیوں کی جماعت اب بھی موجود ہے مگر معاشرہ ان کے فیض سے محروم ہے۔غالباََ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسندِ تصوف پر جلوہ فرما صوفی میں اب اہلیت باقی نہیں رہی یا وہ دنیاداری کے اجالے میں گم ہو گئے ہیں۔اس احساس کا اظہار علامہ اقبال نے شاعرانہ انداز میں کیا ہے جو قابلِ فکر ہے:

قم باذن اللہ ، کہہ سکتے تھے جو، رخصت ہوئے              خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گور کن

یا غالب کے اس شعر کے آئینے میں اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے:

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی                اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

         تقسیم ہند کے سانحہ کے اثرات ہندوستانی معاشرہ پر گہرے مرتب ہوئے۔صدیوں سے قائم گنگا جمنی تہذیب کا شیرازہ بکھر گیا۔سماج مذہب کے نام پر بٹنے لگا۔مذہبی تعصب کی وجہ سے لوگوں میں دوریاں بڑھ گئیں۔انسان ، انسان سے خوف کھانے لگااور ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔موجودہ وقت میں سماجی بحران سے نکلنے کی تمام تدبیریںناکام ہیں۔ ملک اور مذہب کے پاسبان اس خلا کو کم کرنے کے بجائے مزید دوری بڑھانے میں لگے ہیں۔چونکہ تعصب کی آگ میں سماج اگر چہ خاک ہو جائے مگر ان کے مفاد کی روٹیاں مزے سے سیکی جارہی ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤوں نے سماج کو فائدہ پہنچانے کا کام کم اور اس سے فائدہ اٹھانے کا کام زیادہ لیا ہے۔صوفیائے کرام کی جماعت ایک واحد جماعت ہے جو سماج کو موجودہ تعطل سے نجات دلا سکتی ہے۔ لیکن عصر حاضر کی خانقاہوں میں وہ روحانی کیفیت باقی نہیں کہ جن کے فیضان سے پورا معاشرہ سیراب ہو سکے۔ دراصل سیاست اور بازار کا رنگ خانقاہوں پر چڑھ چکا ہے۔ صوفیا جن سے دنیا مستفیض ہوتی رہی اب وہ خود دنیا سے مستفید ہونے لگے۔تصوف میں مذہب کے ظاہری رسومات داخل ہو گئے اور صوفیا  مذہبی رہنما کا لبادہ اختیار کر کے خانقاہوں میں گوشہ نشیں ہو گئے۔گویا مذہب کی ظاہر پرستی خانقاہوں میں بھی جھلکنے لگی۔اس حقیقت کی تصویر کشی علامہ اقبال نے خوب کی ہے:

حقیقت خرافات میں کھو گئی            یہ امت روایات میں کھو گئی

یا پھر دور جدید کا معتبر شاعر شکیب جلالی کے اس شعر پر غور کیجیے کہ

اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب         دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے

         صوفیوں کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کر مایوسی ضرور ہوتی ہے مگر نا امیدی نہیں۔ چونکہ تصوف کی طویل تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسی فکر کی لَو سے تاریکی کا طلسم ٹوٹے گا۔ لیکن اس توقع کے ساتھ کہ:

آسمانوں پر نظر کر  انجم و مہتاب دیکھ

صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

٭٭٭

حواشی:

۱۔ شعر العجم، علامہ شبلی نعمانی، ص ۔۸۳۔۵۲، مطبع معارف، اعظم گڑھ، ۱۹۲۱

۲۔ ایضاََ

۳۔ ایضا

۴۔ اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر، پروفیسر محمد حسن، ص۔ ۲۵۱، ادارۂ تصنیف، ماڈل ٹاؤن، دہلی، ۱۹۸۳

پتہ:

Dr. Mashkoor Moini

Assistant Professor

Department of Urdu

Banwarilal Bhalotia College, Asansol-713303

Leave a Reply