You are currently viewing مشرقی پنجاب میں اردو ناول :ایک اجمالی جائزہ

مشرقی پنجاب میں اردو ناول :ایک اجمالی جائزہ

ڈاکٹر عرفان امین گنائی

آرونی   بجبہاڑہ ، اننت ناگ ، جموں و کشمیر

مشرقی پنجاب میں اردو ناول :ایک اجمالی جائزہ

اہلِ علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اردو ناول کی عمر زیادہ طویل نہیںہے لیکن ادب میںیہ اردو افسانے سے پہلے وجودمیں آیا۔۱۸۶۹ء میں لکھے گئے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول’’ مرأۃالعروس‘‘کو اردو کا پہلا ناول تسلیم کیا گیاہے۔نذیر احمد کے ناولوں میں اسلامی اخلاقیات کی تشہیر کا سارا سامان موجود ہے گوکہ وہ انگریزی سے واقف تھے اور ممکن ہے کہ انگریزی کے بعض ناول ان کی نظر سے گزرے ہوں۔ڈپٹی نذیر احمدکے بعدپنڈت رتن ناتھ سرشارکا نام آتا ہے جو اپنے ناولوں ’’فسانۂ آزاد‘‘،’’سیر کہسار‘‘، ’’جام سرشار‘‘اور ’’کامنی‘‘وغیرہ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔سرشار کے ناولوں کا موضوع لکھنوی معاشرہ اور وہاںکی اجتماعی زندگی ہے ۔ان کی تخلیقات میں لکھنٔو کی زندگی کے مختلف زاویے موجود ہیں ۔ خصوصی طور پر جاگیردارانہ نظام،وہاںکے رہن سہن اور ان کی زندگی پر بھرپورروشنی پڑتی ہے۔اس کے ساتھ ہمارے سامنے مولاناعبدلالحلیم شررکا نام آتا ہے۔شررایک مذہبی انسان تھے ۔اصلاح، تبلیغ اورقومی بھلائی ان کے مقاصدمیںشامل تھا۔شررنے تاریخی ناول کے علاوہ معاشرتی ناول بھی لکھے لیکن ان کی شناخت تاریخی نا و ل نگاری ہی کی حیثیت سے قائم ہے۔شررکے بعداردوناول نگاری میں ایک اہم نام مشہور ناول’’امراؤجان ادا‘‘ کے خالق مرزامحمد ہادی رسواکا ہے۔امراؤجان ادا میںرسوانے ناول کی تکنیک کو ایک نیاموڑ دیا اورناول میں آپ بیتی بیان کرنے کی روایت کا آغاز کیا۔

بیسوی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ا ردو ادب کے افق پرجو نام نمودار ہوتا ہے وہ پریم چند کا ہے ۔انہوں نے انگریزی ناول نگاروں ٹالسٹائی اورگورکھی کی طر ح اپنے ناولوں میںبڑے کینوس پرقومی زندگی کے ہمہ گیرواقعات،مسائل اور کشمکش کو پیش کرنے کے لیے بیانیہ تکنیک سے کام لیا ہے۔ناول کی تکنیک پر ان کی حاکمانہ قدرت کا سب سے بڑا مکمل نمونہ’’گئودان‘‘ہے۔پریم چند کے بعد اردو ناول میں جو قلم کار سامنے آئے ان میں سجاد حیدر یلدرم،مجنوںگورکھپوری،قاضی عبد الغفار،نیاز فتح پوری ،حجاب امتیاز وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

       علی گڑھ تحریک کے بعد اور رومانی تحریک کے قریب جو تحریک سب سے زیادہ مؤثربن کر سامنے آئی وہ ترقی پسند تحریک تھی جس نے بہت کم وقت میںنہ صرف اردو بلکہ ہندستان کی دیگر زبانوں پر بھی اثر ڈالا۔اس تحریک کے زیر اثر جن لوگوںنے ناول لکھے ان میںسجاد ظہیر ،کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی،عزیز احمد،شوکت صدیقی، خدیجہ مستور، قاضی عبدالستار، جیلانی بانو،اور خواجہ احمد عباس وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔مغرب میں انیسویں صدی میںنئے علوم وفنون اور سائنسی ایجادات کے نتیجے میں فکرواحساس کی ایک نئی لہر آئی جسے روشن خیالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جدیدیت یاMODERNITY   کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔اس نے ترقی پسند تحریک کی سیاست زدگی،  نعرے با زی اور اجتماعیت سے گریز کر کے فرد کی زندگی اور اس کے داخلی ونفسی کوائف پر زور دیا اور مغرب کے زیر اثر افسانوی ادب میں تجربے کئے۔ان میں قرۃالعین حیدر ،ممتاز مفتی،جمیلہ ہاشمی، عبداللہ حسین، انور سجاد، جوگندر پال ، انتظار حسین ، پیغام آفاقی ، غضنفر اور ساجدہ زیدی وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔

       اس کے بعد تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا اور آزادی کے ساتھ ساتھ ہی ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔جس کی وجہ سے بعدمیں کئی سارے ادیب اور قلم کار پاکستان چلے گئے اور کچھ قلم کار پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرکے آئے۔یہی صورت حال پنجاب کے ساتھ بھی واقع ہوئی۔حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پنجاب کا اردو زبان وادب کے ساتھ شروع ہی سے مربوط اور مضبوط رشتہ رہا ہے۔ پنجاب کی دھرتی پر شروع سے آج تک ایسے بے شمار لعل و گوہر پیدا ہوئے جنہوںنے اردو زبان ادب کو ہر دور میں آبیاری کی۔اردو ادب کے لیے پنجاب کے قلم کاروں نے جو خدمات انجام دی ہیں ان سے انحراف کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے آزادی کے ساتھ ہی پنجاب کی اس زرخیز زمین کے بھی دو ٹکڑے ہوگئے ۔ایک حصہ پاکستان کے حصے میں آیا جو بعد میں مغربی پنجاب کہلایا اور دوسرا ہندستان کے حصے میں آیا جو آج مشرقی پنجاب کہلاتا ہے۔

       اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم وطن تک اردو ناول پنجاب میںاپنے ابتدائی مراحل طے کر چکا تھا ۔پریم چند نے اس میں حقیقت کے رنگ بھر دیئے تھے اور اردو ناول کو زندگی کا عکاس بنا دیا تھا۔ پنجاب کے اردو قلم کار وں نے پریم چند کی اس روایت کی پیروی کرتے ہوئے اردو ناول کو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی تقویت بخشی ۔ آزادی سے پہلے پنجاب میں سدرشن نے ناول کو اظہارکا وسیلہ بنایا اس ضمن میںان کا سب سے پہلا ناول ’’بے گناہ مجرم ‘‘ ہے جو لاہور سے شایع ہوا اور اس کے بعد انہوں نے ایک اور شاہکار ناول ’’کنج عافیت ‘‘لکھا ہے ۔ یہ ناول نہایت ہی دلکش و سبق آموز مجلسی ناول ہے جو ۱۹۲۶ء میں شایع ہوا ہے ۔

       پھر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر پنجاب کے اردو ناول نگاروں نے فروغِ ناول کے لیے جو کام کیے اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ پنجاب کے ناول نگاروں میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جو نام سر فہرست رہاوہ کرشن چندر کا ہے ۔ کرشن چندر نے آزادی سے پہلے ۱۹۴۳ء میں ناول ’’شکست ‘‘ سے ناول نگاری کا آغاز کیا جو ساقی بک ڈپو دہلی سے شایع ہوا تھا ۔ موصوف کی ناول نگاری کا سفر تقریباً ۳۵ سال پر مشتمل ہے ۔یعنی کرشن چندر نے ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۹۸۲ء تک ۴۷ اردو ناول لکھے ۔ جن میں چند ایک نام اس طرح ہیں :

۱۔شکست ۱۹۴۳ء    ۲۔جب کھیت جاگے ۱۹۵۲ء    ۳۔گدھے کی واپسی ۱۹۶۲ء   ۴۔ایک وائلن سمندر کے کنارے     ۵۔پانچ لوفر۱۹۶۶ء    ۶۔چندا کی چاندنی ۱۹۷۱ء    ۷۔چنبل کی چنبیلی ۱۹۷۳ء    ۸۔ سپنوں کی وادی ۱۹۷۷ء    ۹۔ فٹ پاتھ کے فرشتے (آخری ناول) ۱۹۷۷ء ۔

       اس کے بعد پنجاب کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا نام آتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی نے صرف ایک ناول لکھا جو ۱۹۶۲ء میں ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا ۔ بیدی نے نہایت ہی ہنر مندی سے پنجاب کی دھیاتی زندگی کے حسن اور کرب کو پیش کیا ہے ۔بلا شبہ ناول ’’ایک چادر میلی سی ‘‘اردو کے گنے چنے اور شاہکار ناولوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ ناول پنجابی کلچر کی جندِجان ہے۔ انور پاشا اس ناول  کے بارے میں لکھتے ہیں :

 ’’پنجاب کی قصباتی زندگی ،دیہات کی زندگی اور معاشرتی اقدار و روایات کو بیدی نے بڑے خلوص کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اس عہد کے لکھے گئے ناولوں میں یہ واحد ناول ہے جس کا کینوس دیہی زندگی کی تصویر کشی پر محیط ہے۔ بیدی نے اپنے ناول میں سماج کے پس ماندہ اور کمزور طبقے کی طرزِ زندگی اور ان کے تہذیبی و معاشرتی ماحول کو مرکزی اہمیت دی ہے ، جس کے سبب یہ ناول پنجاب کی دیہی اور قصباتی زندگی کا تہذیبی مرقع بن گیا اور یہی اس ناول کی اہمیت کا ضامن ہے ‘‘ ۔

                                                    (ہندو پاک میں اردو ناول، انور پاشا ، صفحہ۷۲)

       کرشن چندر کے بعداردو ناول نگاری میں ایک اہم نام خواجہ احمد عباس کا ہے ۔ ان کا مشہور و معروف ناول ’’انقلاب ‘‘  جو ۱۹۷۵ء میں بمبئی سے شایع ہوا ۔ موصوف نے اس ناول کے ذریعے آزادی کی لڑائی کے مختلف اتار چڑھاو پیش کئے ہیں۔ اس ناول کا پس منظر انہوں نے خاص طور پر ملک کی سیاست اور انقلاب پر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ احمد عباس نے ایک درجن کے قریب ناولٹ لکھے ہیں۔ جن میں ’’چار دل چار راہیں ‘‘  اور’’ میرا نام جوکر ‘‘ پر فلمیں بھی بنی ہیں ۔ خواجہ احمد عباس ناول  ’’انقلاب ‘‘ کے پیش لفظ میں ناول کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’چھ سو صفحات کا ناول کو کوئی چھاپنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ سب کا صرار تھا کہ اسکو ڈیڈھ سو،دو سوصفحے کا کر دوتو پاکٹ بک میں چھاپ دیں گے ۔ چار سال اسی طرح گزر گئے ۔ اس کے بعد یہ ناول پہلے کئی زبانوں میں شایع ہوا ۔اس کے بعد ۱۹۵۶ء میں یہ ناول ہندستان میں پہلے انگریزی میں اس کے بعد اخیر میں یہ ناول اردو میں شایع ہوا ‘‘ ۔

                                                                (انقلاب، خواجہ احمد عباس ،صفحہ۵)

       اردو کے بیشتر ناول تقسیم ہند کے ارد گرد ہی گھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بہت سے ناول نگاروں نے تقسیم ہند کے وقت ہندوں، سکھوں اور مسلمانوںکے مابین دل دہلانے والی کشمکش ، ان تناظر میں ہونے والی قتل و غارت اور دیگر واقعات بہت تفصیل اور غیر جانب داری سے بیان کئے ہیں ۔ تقسیم وطن کے خونی سانحہ نے پنجابیوں کو خون کے آنسوں رلائے تھے جس کا درد ہر پنجابی کے اندر تھا ۔ راما نندساغر نے اپنے اس درد کا اظہار اپنے ناول ’’اور انسان مر گیا ‘‘ کے ذریعے کیا ہے ۔ موصوف نے اس ناول میں مذہب کے نا م پر قتل و غارت اور دہشت و بربریت کی عکاسی کی ہے ۔ اس کے بعد صالحہ عابد حسین کا نام بھی پنجاب کے ناول نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے ۔انہوں نے تقریباً دس ناول لکھے ہیں ۔ جن میں ’’عذرا ‘‘ ، ’’گرتی دیواریں‘‘ او ر’’پتھر دل ‘‘  وغیرہ قابل ذکر ناول ہیں ۔

       مشرقی پنجاب کے ناول نگاروں کی اس ترتیب میں ایک نمایاں نام بلونت سنگھ کا ہے ۔ بلونت سنگھ بھی مشرقی پنجاب کے ایک اہم ناول نگار ہیں ۔ ان کے متعلق ڈاکٹر رحمان اختر لکھتے ہیں :

’’ بلونت سنگھ کے وہ نمائندہ ناول جن میں پنجاب کا دل دھڑکتاہے ’’ کالے کوس ‘‘ ، ’’رات چور اور چاند ‘‘ ، ’’چک پیراں کا جسا ‘‘ ، ’’راوی پار ‘‘اور ’’عورت اور آبشارـــ‘‘ہیں ۔ ان ناولوں کے مجموعی مطالعے سے جو بنیادی تصورا بھرتا ہے وہ یہ کہ بلونت سنگھ نے سماجی اور اخلاقی قدروں کو خاص طور پر نمایاںکرنے کی کوشش کی ہے ۔ جبرو استحصال کے خلاف یہ ناول بلونت سنگھ کے انسانیت نواز عقیدے کے ترجمان ہیں ۔ ناول نگار ایک ایسے خوشنما پنجاب کو پیش کرتا ہے جو ہندستان نما جسم کا دل ہے ‘‘۔

                                                 (ادب پنجاب  ،صفحہ ۱۰۹)

       بلونت سنگھ نے تقریباًمندر جہ ذیل اردو ناول لکھے ہیں:

۱۔ رات چور اور چاند  ۲۔ راوی پار   ۳۔ کالے کوس   ۴۔ ایک معمولی لڑکی   ۵چک پیراں کا جسا  وغیرہ ۔

بلونت سنگھ نے اپنے ناولوں میں اس طریقے سے پنجاب کے دیہاتوں کی ترجمانی کی ہے کہ انھیں صلاح الدین نے ’’پنجاب نگار ‘‘اور عبادت بریلوی نے ’’حیات نگار ‘‘کے خطاب سے نوازا ہے۔

       مہندر ناتھ کا جنم بھی پنجاب میں ہوا تھا لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بمبئی میں گزرا ہے۔ کوئی بھی حساس قلم کا ر اپنے ارد گرد کے مسائل اور واقعات کو اپنی قلم کے زد میں ضرور لاتا ہے ۔ اس طور سے دیکھا جائے تو مہندر ناتھ کے ناولوں میں اکثرو بیشتربمبئی کی زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ انہوں نیاردو ادب میں تقریباً آٹھ ناول لکھے ہیں ۔

       ۱۹۶۰ء کے بعد اردو ادب کا منظرنامہ بدل گیا۔ ترقی پسند تحریک دھیمی پڑ گئی تھی اور جدیت اردو ادب کے آسمان پر چھا گئی ۔ جدیدیت نے ادب کی سبھی اصناف کو متاثر کیا ۔ اردو ناول کا بھی اس سے متاثر ہونا قدرتی بات ہے۔ اس دور کے ناول نگاروں میں جوگندر پال ، موہن لال ، سریندپرکاش ، رتن سنگھ ، ہر چرن چاولہ ، ستیہ پال ، آنند ظفر ادیب وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔

       جوگندرپال کے ناولوں میں ’’نادید ‘‘ سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ’’ ایک بوند لہو کی ‘‘بھی اہمیت کا حامل ہے۔ موہن لال بنیادی طور پر پنجابی کے قلمکار تھے لیکن انہوں نے ’’میں بوند بوند زہرپیتا ہوں ‘‘ناول اردو میں لکھا جو جدیدیت کے ترجمان ماہنامہ’شب خون ‘ الہ ااباد میں شایع ہوا۔ سرئندر پرکاش کا نامکمل ناول ’’فسان ‘‘ بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ناول ماہنامہ’شاعر ‘ بمبئی میں قسط وار شایع ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو ناول اور لکھے جن میں ایک نامکمل ناول ’’نڈی دل ‘‘ اور دوسرا ’’پرندہ ‘‘اہمیت کے حامل ہیں ۔ رتن سنگھ پنجاب کے ایک مشہور ناول نگار ہیں ۔ ان کا تعلق مغربی پنجاب (پاکستان )کے ایک گاؤں داؤد سے تھا ۔تقسیم ہند کی بعد وہ مشرقی پنجاب یا منقسم پنجاب کے بھارتی حصے میں وارد ہوئے۔ انہوں نے بھی ناول نگاری میں طبع آزمائی کی اور اردو کے کئی شاہکار ناول پیش کئے۔ جن میں ’’سفید خون ‘‘ ،  ’’سانسوں کا سنگیت‘‘  اور’’ رتن سنگھ اڑن کھٹولا‘‘ کافی مشہور ہیںاس کے بعدہرچرن چاولہ کا ’’بھٹکے ہوئے لوگ‘‘ ،ستیہ پال آنند کا ’’شہر کا ایک دن ‘‘ اور ظفر ادیب کا ’’یُگ جو بیت گیا‘‘ وغیرہ پنجاب کے ناول نگاروں کے تحریر کردہ چند نمایاں ناول ہیں ۔

       گور بخش سنگھ مخمور جالندری کا نام ممتاز ناول نگاروں کی فہرست میں آتا ہے ۔ مخمور جالندھری نے تقریباً ایک درجن ناول اردو ادب کو دیئے جن میں ’’بدلہ ‘‘ ،’’ آوارہ ‘‘  ، ’’خوفناک ‘‘ ، ’’پرچھائیاں ‘‘  ، ’’ ریت کا محل ‘‘ ،  ’’چمگادڈ ‘‘ وغیرہ ناول سماج کی برائیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی پیش کرتے ہیں ۔ عام طور پر ان کے ناول جرائم کی داستان ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کشمیری لال ذاکر کے ناول ’’کرماں والی ‘‘ کا نام اہم ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے ناول ’’سمندری ہوائوں کا سفر ‘‘ ، ’’ سمندر اب خاموش ہے ‘‘  ،  ’’ایک شہرادھوارا ‘‘ وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں ۔ فکرتونسوی کا ناول  ’’ چھٹا دریا ‘‘ بھی ہندو پاک کے فساد میں ہونے والے ظلم و بربریت کا روز نامچہ ہے ۔

       اکیسوی صدی تک آتے آتے کہانی اپنے سفر کے مختلف پڑائو طے کرتی ہوئی داستان سے ناول ، ناول سے افسانے اور افسانے سے افسانچے تک آپہنچی ہے ۔ ایسے میں نئے قلم کاروں میں ناول لکھنے کا رجحان کہیں نہ کہیں ضرور کم ہوتا ہوا نظرآرہا ہے دوسری طرف قاری کے پاس اتنا وقت بھی نہیں رہاکہ وہ طویل اور ضخیم ناول پڑھے۔ بلکہ حقیقت بیانی سے کام لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پنجاب میں یہ صنف تقریباً تقریباً دم توڑتی ہوئی نظرآرہی ہے ۔تاہم اکیسوی صدی کے دوسری دھائی میں مالیر کوٹلہ کے کچھ قلم کاروں نے اس صنف میں طبع آزمائی کرکے اس میں نئے سرے سے جان ڈال دی۔ جن میں ڈاکٹر نریش،عمر فاروق اور دیگر ناول نگار خاص طور پر شامل ہیں ۔ عمر فاروق کا ناول ’’ زخم ‘‘ کچھ عرصہ پہلے ہی شایع ہوا ہے۔

       مشرقی پنجاب میں عصر حاضر کے ناول نگاروں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر نریش کا ہے ۔ ڈاکٹر نریش کے چار ناول اب تک منظر عام پر آچکے ہیں ۔ جن میں’’ پتھروں کا شہر ‘ ‘  ،  ’’درد کا رشتہ ‘‘ ،  ’’کستوری کنڈل بسے ‘‘ اور حال ہی میں’’ مٹی کا قرض ‘‘ ۲۰۱۹ میں شایع ہو ا ہے ۔ اردو فکشن کی خدمات کے تئیں ۲۰۲۰ میں ہی ان کو ’ غالب ایوارڈسے نوازاگیا۔ اردو ناول میں وہ شہر کی نمائندگی کرنے والے واحد ادیب ہیں ۔ ’’پتھروں کا شہر ‘‘ چنڈی گڑھ اور دوسرے میٹروز Metros  کی بے ر وح اور معمولات میں جکڑی زندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔ اسی طرح ان کا ناول ’’ مٹی کا قرض ‘‘ بھی بے تعصب اور مشترک دکھ سکھ والے معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ جس کی زندہ مثال مالیر کوٹلہ کی صورت میں ہے۔ ’’ کستوری کنڈل بسے ‘‘ اردو ادب کا ایک شہرہ آفاق ناول ہے کیونکہ اردو میں روحانیت کے موضوع پر لکھا گیا غالباً یہ پہلا ناول ہے ۔ مذہبیت اور روحانیت کے فرق کو واضح کرنے والا یہ ناول مذہبی رسومات کی عادتاً ادائیگی کو بے وقعت قرار دیتے ہوئے ریاضت پر زور دیتا ہے جس میں سالک اپنے اندر اتر کر خود کو دریافت کرتا ہے ۔

       ڈاکٹر نریش کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب کے حالیہ ناول نگاروں میں ایک اور اہم نام رینو بہل کا ہے ۔ رینو بہل پنجاب کے موجودہ دور کی واحد خواتین ناول نگار ہیں جس نے اردو ادب میں خاص طورپر افسانے اور ناول کی دنیا میں بہت شہرت حاصل کر لی ہے ۔ ان کی ناول نگاری میں ’’ نجات دہندہ ‘‘ ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ ناول ۲۰۱۹ء میں شایع ہوا ۔ اس کے علاوہ رینو بہل نے دو ناول ’’گرد میں اَٹے چہرے ‘‘(۲۰۱۷ء) اور ’’میرے ہونے میں کیا برائی ہے ‘‘(۲۰۱۷ء)لکھے ہیں ۔

       بہرکیف ہم یہ بات بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مشرقی پنجاب کے قلم کار اردو ناول کی صنف میں گراںقدر خدمات انجام دیتے آرہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ آزاد ہندوستان کے ادب میں مشرقی پنجاب کا جو مقام ہے ،اس کو یہ حضرات بلند سے بلند تر اور ترقی کی طرف لے جانے میں کامیابی کی منزلیں طے کرتے رہیںگے ۔ جس سے یہ امید بندھی ہے کی مشرقی پنجاب میں ابھی ناول کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ کہانی ابھی باقی ہے ۔

***

Leave a Reply