You are currently viewing منتخب خواتین افسا نہ نگار جنسی و نفسیاتی حقیقت نگاری کے تناظر میں

منتخب خواتین افسا نہ نگار جنسی و نفسیاتی حقیقت نگاری کے تناظر میں

شاذیہ عندلیب

Shazia Andleeb

Ph.D (Urdu) Scholar

GC.Women University,

Faisalabad.

 

منتخب خواتین افسا نہ نگار جنسی و نفسیاتی حقیقت نگاری کے تناظر میں

Selected Women Fiction Writers in the Context of Psychological and Sexual Realism

Abstract

Like the other genre of Urdu, the pride of fiction writing is with male writers, but female writers have also added a lot to it. Among them names of Khaton Akram, Mrs Abdul Qadir, Abbasi Begam, Khadija Mastoor, Hajra Masroor and Qurat ul Ain Haider, Amirta Pretum, Jabveeda Jafri are very important. Realistic fiction writers kept themselves attached to internal and external aspects of life, specially the female fiction writers of 20th century, did appreciable work in the field. Realistic writing of every period has a different trend. Inspite of passing centuries of time importance of realistic fiction writing cannot be ignored.

         ادب کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے جس میں جذبات، احساسات ہی نہیں بلکہ تجربات و مشاہدات کی صورتیں بھی نظر آتی ہیں ، اگر یہ کہا جائے کہ ادب کا تعلق انسان کے شعوری اور غیر شعوری عمل سے ہے تو بے جانہ ہوگا۔ اُردو ادب میں جنسی اور نفسیات کا رجحان فرائیڈ کے نظریات کی دین ہے کیونکہ جنس اور نفسیات دونوں مسائل اس معاشرے کی دین ہیں۔  بقول عزیز احمد کے:

‘‘ ہندوستان میں پردے ، عورتوں سے دوری، اور دبی ہوئی جنسی خواہشات کی وجہ سے کسی نہ کسی پیرایہ میں نقطہ نظر رجعت پسندانہ ہو یا ترقی پسندانہ۔ جنس ہمیشہ دل و دماغ پر حاوی رہی۔’’(۱)

فرائیڈنے جنس اور نفسیات کو ایک فطری عمل قرار دیا۔ انگارے کے مصنفین نے بھی اپنے افسانوں میں فرد کی جنسی و نفسیاتی کیفیات کا اظہار کیا اور فرائیڈ کے نظریے سے بھرپور استفادہ کیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اس رجحان کے تحت لکھے گئے افسانوں میں بیدی کا ‘‘لاجونتی’’، سجاد ظہیر کا ‘‘نیند نہیں آتی’’، منٹو کا ‘‘ہتک’’، ممتاز مفتی کا ‘‘خواب’’ اور عصمت کا ‘‘چوتھی کا جوڑا’’ وغیرہ اہم ہیں۔ ان افسانوں میں انسان کے تمام محرکات کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق کو افسانہ نگاروں نے علامتوں کے سہارے بیان کیا۔ افسانے میں جنسی و نفسیاتی رجحان کی بنیاد انہیں نظریات کے تحت وجود میں آئی جو معاشرے میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے۔

جنسی و نفسیاتی موضوعات پر خواتین افسانہ نگاروں نے بھی افسانے لکھے جن میں نذر سجاد حیدر، بیگم عبدالقادر، حجاب، امتیاز علی، رشید جہاں، رضیہ ، سجاد ظہیر خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ خواتین افسانہ نگاروں نے جنسی و نفسیاتی ضروریات میں فرق اور ان کی ترجیحات کو مختلف موضوعات میں بیان کیا ہے جس سے خواتین افسانہ نگاروں کی جنسی و جذباتی اور نفسیاتی مسائل سے گہرائی شناسائی کا علم ہوتا ہے۔ جنسی و نفسیاتی حقیقت نگاری کے ضمن میں ان افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے کرداروں اورگہری حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے جس سے انسان کی جنسی خواہشات کو بعض اوقات زندگی پر حاوی ہوتا دیکھتے ہیں اور بعض دفعہ وہی حقیقتیں ان کے نفسیاتی مسائل کا قصوروار نظر آتی ہیں۔ خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں جنس اور نفسیات کس طرح انسانی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور کئی ایسے مسائل اور وجوہات جن کا تعلق معاشرے سے اور انسانی نفسیات کے سلجھ جانے یااس میں بگاڑ پیدا کرنے کی اہم وجہ بنتے ہیں۔ ان موضوعات نے جنسی و نفسیاتی کئی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا اور انہیں سمجھنے میں مدد دی۔

صالحہ عابد حسین کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت گہرا اور وسیع ہے۔ انہوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا، سماج کی خامیوں اور برائیوں کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو بہت واضح انداز میں بیان کیا لیکن نفسیاتی مسائل پر بھی ان کے ہاں گہما گہمی ملتی ہے۔ عورتوں کے مسائل ان کی زندگی متوسط طبقے کی زندگی اور مسائل کا ذکر بھی عام میں صالحہ کے بعد صدیقہ بیگم، سیوہاروی کا نام بھی اہم ہے۔ اُردو افسانے میں جب انہوں نے قدم رکھا تو اس وقت ہندوستان غلام تھا۔ خواتین سماجی ، اصلاحی کاموں میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صدیقہ بیگم کے افسانوں میں ملک کی تقسیم،، اشتراکی مسائل، قحط بنگال متوسط اور اعلیٰ درجے کے طبقوں کی جنسی اور نفسیاتی موضوعات کا منظر نامہ بھی ملتا ہے۔ ان کے افسانے ‘‘کومل رانی’’، ‘‘ہڈی کا داغ’’، ‘‘پرانا کوٹ’’، ‘‘چاول کے دانے’’ میں تباہی و بربادی کی داستانیں ہیں جہاں بھوک سے نڈھال لوگ اپنی ضروریات کے لیے اپنی بہو بیٹیاں تک بیچنے کو تیار نظر آتے ہیں۔شمیم نگہت کے افسانوں میں عام انسانوں کے مسائل، محرومیاں اور نفسیات پر اثرانداز ہونے والے واقعات کو بڑے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ان کے افسانے ‘‘سہاگ’’، ‘‘پگلی’’، ‘‘بایا’’، عورت کے جذبات اور سماج کے رویے کے عکاس ہیں۔

ہاجرہ شکور نے معاشرے کے کئی پنہاں مسائل کو اپنے افسانوں میں اجاگر کیا۔ ان کے زیادہ تر افسانے عورتوں کی آزادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا افسانہ ‘‘آخر شب’’ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو مغرب کی تقلید میں بغیر شادی کے مرد کے ساتھ رہتی ہے اور آخر میں خود کشی کرلیتی ہے۔ افسانے میں جنسی اور نفسیاتی پہلو نمایاں ہیں کہ جنس کی تڑپ میں پہلے غلط قدم اور پھر نفسیاتی دباؤ میں خود کشی کو مقدر بنا لیتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ‘‘مدارج’’، ‘‘ان کہی’’، ‘‘برزخ’’ میں مرد کی اس نفسیاتی کیفیت کا ذکر کیا ہے جو معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل گیا ہے۔

آمنہ نازلی مولانا راشدالخیری کے فرزند رزاق الخیری کی دوسری اہلیہ تھیں اور معروف ادیب تھیں۔ آمنہ نازلی کے افسانوں میں زبان و بیان اور موضوعات کا اعلیٰ معیار ملتا ہے۔ آمنہ نازی کے افسانوی مجموعے ‘‘دولت پر قربانیاں’’، ‘‘ہم اور تم’’، ‘‘ننگے پاؤں’’ شامل ہیں۔ طنز کا گہرا عنصر ان کے افسانے میں پایاجاتا ہے جسے وہ کامیابی سے استعمال کرتی ہے۔ طبقاتی اونچ نیچ، سماجی کمزوریوں اور نفسیاتی حقیقت نگاری کے ضمن میں لکھتی کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ سماج کے مضحکہ خیز اصولوں پر سوال اٹھاتی ہر ماحول، ہر طبقہ اور ہر حیثیت سے تعلق رکھنے والوں کی اصل معنوں میں کردار نگاری کرتی ہیں۔ وہ بے ساختہ اور کسی دکھاوے سے پاک گفتگو کو کامیابی سے لکھتی اور پیش کرتی ہیں۔ سنجیدہ ظرافت اور معاشرے کی اصلاح پر ایسی کہانیاں لکھی ہیں کہ قاری کے دل میں اتر جاتی ہیں۔

ذکیہ مشہدی یکم ستمبر ۱۹۴۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ مشہور فکشن رائٹر شفیق فاطمہ شفق ان کی پھپھو تھیں اور رضیہ سجاد کی شاگردہ تھیں۔ انہوں نے افسانہ نگاری ۱۹۷۴ء میں شروع کی۔ ان کے افسانوں میں حساسیت اور دردمندی ہر جگہ نمایاں ہے۔ زندگی کی ناہمواریاں، عورتوں کے رنج و غم، حسرت اور غم کی صورتحال کو بیان کرتیں ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے پرائے چہرے، تاریک راہوں کے مسافر، صدائے بازگشت، نقش ناتمام اور یہ جہاں رنگ وبو ہیں۔ ان تمام افسانوی مجموعوں کے موضوعات نفسیاتی مسائل اور اور حقیقت کے آئینہ دار ہیں جو افسانوی ادب میں قابل قدر اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ذکیہ مشہدی کا شمار اُردو ادب کی مشہور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں عصری حسیت اور موجودہ دور کے نفسیاتی مسائل کا تذکرہ ملتا ہے۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جو عام لکھاری نہیں اٹھا سکتا۔ عورت کے جذبات ، احساسات اور اس کے نفسیاتی مسائل کا اظہار ان کے ہاں کھل کر ملتا ہے۔

ان کے افسانے ‘‘ چرایا ہوا سکھ’’ کا ایک اقتباس دیکھئے:

‘‘ یہ عورت کی ذات اگر شک میں مبتلا ہوجائے تو اس کی سانسوں تک میں زہر گھل جائے گا۔ کالے ناگ کی طرح زہر اگلتی ہے۔ فوں فوں کرتی ہے، ناچتی ہے ، کب کس کو ڈس لوں۔’’(۲)

         ‘‘اس ایک تھکی ہوئی عورت’’ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد شادی اور محبت میں فرق کے بیچ کی کہانی ہے جو عورت کی نفسیات سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔

‘‘ وہ چاہتی ہے کہ اجے اسے پکارے تو اس کی آواز میں وہی تہہ ہو جو اظہار محبت کے پہلے کنوارے بولوں میں تھا، وہ اس کی طرف دیکھے تو آنکھوں میں دیپ جل اٹھیں۔’’ (۳)

اس طرح ان کے افسانے‘‘ بھیڑے’’ مفاد کے لیے انسان کو بھی قتل کر دینے اور عورت کو پیر کی جوتی کی طرح سمجھنے والے کچھ تنگ ذہن مردوں کی اجارہ داری دلائل دیتا ایک مضبوط افسانہ ہے جس میں عورت اور اس کے شب و روز کے مسائل اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ دنیا میں آج بھی عورت تنہا ہے۔ ذکیہ مشہدی ایک ماہر نفسیات بھی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں۔ سیر حاصل اور جامع بحث کرتی ہیں، اگر طوائف کو موضوع بناتی ہیں تو ان کی نفسیات اور مسائل اور اگر عام زندگی کی عورت پر بحث کرتی ہیں تو اس کی بھی نفسیات کو کھول کر سامنے رکھ دیتی ہیں۔ کوئی پہلو بھی تشنہ نہیں چھوڑتی ہیں۔

         طاہری دیوی شیرازی بنگال میں اُردو کی پہلی خاتون افسانہ نگار جو ایک مسلمان کی محبت میں گرفتار ہو کر اسلام پر ایمان لے آئیں۔ ۱۹۲۶ء میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور مختصر عرصے میں اتنی مشہور ہوئیں کہ ادبی جرائد میں ان کے افسانے اپنے وقار کے ساتھ نظر آنے لگے۔ ان کا اولین مجموعہ ‘‘سحر بنگال’’ ۱۹۳۵ء میں ساقی بک ڈپو دہلی سے شائع ہوا۔ ان کے بیشتر افسانے جنسی و نفسیاتی آمیزش ہیں۔ عورتوں کی داخلی اور خارجی زندگی کو اپنی کہانیوں کا مرکز بنایا ہے۔ وہ لکھتی ہے:

‘‘ اگرادبی انہماک ایک حد تک باعث تسکین نہ ہو تو یقیناً پیمانہ زیست کا چھلک گیا ہوتا۔۔۔۔ میں کہوں کہ عریانی آرٹ کا معراج ہے لہٰذا اس سے احتراز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔’’(۴)

مندرجہ بالا عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ان کا ادب ان کی روحانی تسکین کا ذریعہ تھا۔ جہاں تک عریانی کا سوال ہے تو وہ بھی انسانی زندگی میں کہیں کہیں حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ ان کا افسانہ ‘‘سنجوگ’’ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں نفسیات اور جنسیات کی رنگ آمیزی ہے ۔ طاہرہ کا افسانہ ‘‘سنجوگ’’ عورت اور مرد کی نفسیات کا اعلیٰ نمونہ ہے جس میں عورت ، مرد کی محبت میں اخلاقی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ محبت میں رسم و رواج کو بھلا دینا اور اخلاقیات سے گر جانا زندگی میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح افسانہ ‘‘نہائے عشق’’ کیفیات عشق میں مبتلا ایک کہانی ہے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری عشق اور محبت کو ہی زندگی کا سرمایہ گردانتی ہیں۔

         قمر جہاں کا تعلق در بھنگہ بہار سے ہے۔ ان کے اب تک دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ‘‘چارہ گر’’ اور ‘‘اجنبی چہرے’’ ان کے افسانوں میں طبقہ نسواں کے جنسی و نفسیاتی مسائل کو بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ خوتین کو اہمیت دیتی ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں کو کہانی کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ قمر نے ہمیشہ اپنے افسانوں میں حقیقت پسندی کو جگہ دی۔ ان کے افسانے ‘‘ دوسراقدم’’ ، ‘‘محافظ’’ اور قانون پولیس اور قانون کی لاپرواہی کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح معمولی سے غلط فہمی اور لاپرواہی کسی معصوم کی زندگی کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔ افسانہ ‘‘قانون’’ میں ڈاکٹر نسرین کو بے جا شک کی بناء پر گرفتار کرنا اور ان کے احوال اور نفسیاتی کیفیات کا بیان ہے۔ قمر نے زوال آمادہ تہذیب و روایات کی عکاسی بڑے جامع انداز میں کی ہے۔ ذہنی انتشار، الجھنوں، محرومیوں، جذباتی ناآسودگی اور شعور کی بالیدگی ان کے فن کو بے حد مسحور کن بنا دیتا ہے۔

         نجمہ انوارالحق افسانوی ادب میں اہم حیثیت کی مالک ہیں۔ ان کے افسانوں میں کہیں طنز مزاح کے نشتر بھی بڑی چابک دستی سے ہر موقع ، ہر سمت میں چلتے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار اس طبقے سے متعلق ہیں جسے انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ وہ زندگی کی کئی سچائیاں بے نقاب کرتی  کہیں ہنستی، کہیں قہقہہ لگاتی اور پھر ایک ماہر نفسیات کی طرح اپنی اکتاہٹ کو دور کرنے کے لیے اپنے آپ پر مسکراتی ہیں۔ ‘‘ ہم لوگ’’ اسی قسم کا افسانہ ہے جس میں ایک شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ ایک محفل میں شریک ہوتی ہے۔ محفل میں دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ محفل کا ہیرو اس حسین و جمیل شادی شدہ لڑکی پر عاشق ہوجاتا ہے لیکن آخر میں عورت اس ہیرو کا تعارف اپنے شوہر سے کرواتی ہے۔ سارے افسانے میں امیروں، رئیسوں کی عیاشی اور سرمایہ داروں کے خلاف جو غریبوں کا خون چوس کر عیش کرتے ہیں ، سب کو واضح دکھایا گیا ہے۔ ان کے افسانے کا اقتباس:

‘‘ میرےنزدیک ہی مسز رونالڈ سیاہ مخمل کا ایوننگ گاؤن پہنے بیٹھی نظر آئیں، مسز رونالڈ کی عمر پچاس سال تھی لیکن وہ اب بھی اپنے آپ کو ایک نوجوان لڑکی تصور کرتی تھیں۔’’(۵)

ہر افسانے میں زندگی کی حقیقت اور مسائل کا سبق ملتا ہے۔ گہما گہمی اور پرلطف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

         حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں ایک نام آمنہ ابوالحسن کا بھی ہے۔ انہوں تقسیم کے بعد لکھنا شروع کیا اور زندگی اندھیروں سے اجالوں تک کا سفر بیان کیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘کہانی’’ جو ۱۹۶۵ء میں منظر عام پر آیا اور دوسرا بائی فوکل مارچ ۱۹۹۰ء میں چھپا۔ ان کے افسانوں میں تصور حیات اور زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان کا افسانہ ‘‘ کاش’’ میں ایک پاگل لڑکی کا کردار جو بازار اپنی بہن کے ساتھ جاتی ہے اور چلّانا شروع کردیتی ہے ، لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بہن کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے ۔ اسی طرح مایوسیوں اور فسادات کے موضوعات پر ان کے افسانے ‘‘اڑان’’ ، ‘‘میری میا’’، ‘‘بائی فوکل’’ مشہور ہیں۔ جن کا مقصد ہی معاشرے کی اصلاح ہے۔ ان کے کردار ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے کا ایک اقتباس دیکھئے:

‘‘ اگر اس کا راستہ روکیں گے تو وہ یقیناً ہمیں دھکیل کر آگے بڑھ جائے گا ، آج کل کا یہی چلن ہے۔’’(۶)

انہوں نے سماج کی اصلاح اور برائیوں کو اجاگر کیا ہے اور اصلاح معاشرے کا سبق بھی دیا ہے۔

         شائسۃ اکرام اللہ ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ تحریک پاکستان سے وابستہ تھیں اور ایک پرجوش سیاسی کارکن تھیں لیکن دب سے بھی گہرا لگاؤ رکھتی تھیں۔ وہ خواتین کے مسائل اور آزادی نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والی خاتون تھیں۔ ان کے افسانوں میں عورتوں کے جنسی و نفسیاتی مسائل، مشکلات اور خواہشات کا ذکر ملتا ہے۔

‘‘ عورت کو آزاد کرنے کے بعد بھی اس سے غلاموں کا سا سلوک کیا۔ غلامی کوئی برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔ پھر عورت اس کلیہ سے کس طرح مستثنیٰ ہوسکتی ہے۔’’(۷)

بے جوڑ شادیاں، عورتوں کا جنسی استحصال اوربچیوں کے مصائب ان کے افسانے ‘‘ہمدردی’’ ، ‘‘شانتی’’ اور ‘‘مجرم’’ میں بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی کئی جگہ مرد کے نقطہ نظر کی وضاحت بھی کی گئی ہے جو عورت کے ظلم کا شکار ہے۔ جنسی و نفسیاتی اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستورہ، رشید جہاں عصمت، ٓامنہ برجیس کا ‘‘دو کا نوٹ’’، شمیم زہرہ کا ‘‘صاحبہ’’، ‘‘ھیولے’’ عطیہ نازلی کا ‘‘امانت’’ جہاں بانو بیگم کا ‘‘سنگیت’’ صفیہ سراج نقوی کا ‘‘روزمی’’ عذراشیریں کا ‘‘طمانچہ’’، ناہید عالم کا ‘‘انتشار’’ ، ام عمارہ کا ‘‘دھوپ چھاؤں’’ صفیہ نقوی کا ‘‘نیاز مند شوہر’’ بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔

اسی طرح جنسی و نفسیاتی مسائل کی گہری چھاپ ہمیں نگہت شمیم، نصرت آرا، قمر جمالی، عصمت آرا، فردوس حیدر، امت الوصی، شہیرہ مسرور، رخسانہ صولت، سیدہ حنا، خالدہ شفیع، سلمیٰ صدیقی، ام عمارہ، صادقہ نواب سحر، رضیہ منظور االامین، شائستہ فاخری، کہکشاں پروین ، قراۃ العین، خالدہ حسین اور بانو قدسیہ کے ہاں بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔

کتابیات

1۔     عزیز احمد، ترقی پسند ادب، چمن بک ڈپو، اُردو بازار لاہور: ص ۲۶

۲۔      ذکیہ مشہدی، پرائے چہرے، چرایا ہوا سکھ،گندھار، دہلی: ۱۹۸۴ء، ص  ۴۰

۳۔     ذکیہ مشہدی، ایک تھکی ہوئی عورت، پرائے چہرے ۔۔۔۔۔ ۱۹۸۴، ص

۴۔     طاہرہ شیرازی دیوی، سحر بنگال، ساقی بک ڈپو، دہلی: ۱۹۳۵ء، ص ۳

۵۔     نجمہ انوارالحق، پھول کی کہانی، پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی، لاہور: ۱۹۹۲ء، ص ۱۴۵

۶۔      آمنہ ابوالحسن، بائی فوکل مجموعہ، نئی دہلی: مارچ ۱۹۹۰ء، ص ۲۳

۷۔     شائستہ اکرام اللہ، بیگم، آزاد چڑیا، کوشش ناتمام، لاہور: مکتبہ جدید، ۱۹۵۰ء، ص ۲۷

Leave a Reply