You are currently viewing منظر کاظمی کے افسانے: سماجی وسیاسی حالات کے ترجمان

منظر کاظمی کے افسانے: سماجی وسیاسی حالات کے ترجمان

ڈاکٹر حُسنِ جہاں

چنئی

منظر کاظمی کے افسانے: سماجی وسیاسی حالات کے ترجمان

         منظر کاظمی کا شمار بہار کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ‘‘زہر کی پوٹ’’ تھا۔ انہوں نے روایتی انداز کے افسانوں سے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا لیکن جلد ہی اپنے منفرد انداز بیان اور انفرادی فکر کے سبب اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوگئے۔ جس زمانے میں ان کے افسانے قارئین کے درمیان پسند کئے گئے وہ دور جدیدیت کا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی افسانے ناقدین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے مگر ترسیل کا مسئلہ اتنا اہم تھا کہ قاری خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا تھا۔ ایسے میں منظر کاظمی نے اپنے افسانوں میں ابہام سے پاک بیانیہ اپناکر مخصوص جگہ بنالی۔ انہوں نے زمینی حقیقت سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ زبان و بیان کا رنگ بھلے ہی زیادہ ہو مگر جذبے اور قصہ میں سچائیاں ہی ہماری افسانوی روایت کا خاصہ رہی ہیں۔ معاشرہ کی حقیقت اور سیاست کی رنگت کہانیوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ فن کار سماج کا ایک فرد ہوتا ہے۔ وہ بھی عام انسان کی طرح اپنے سماج میں جیتا ہے۔ ماحول سے اثر پذیر ہوتا ہے البتہ وہ قدرے حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ سوچتا اور احساس کرتا ہے۔ اس لئے چھوٹا سے چھوٹا واقعہ اور حادثہ سے اثر انداز ہونا اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ انہیں واقعات و حادثات میں کچھ ان کے ذہن میں کہانی کا عنوان بن کر ابھرتے ہیں اور اس موضوع کو وہ تخلیق کی مراحل سے گذار کر پھر ہمارے معاشرے کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ گویا تخلیق کار ہمیں وہی دیتا ہے جو ہمارے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔ لیکن قوت پرواز اور قوت تخیل سے وہ اس موضوع میں ایسے مواد ڈال دیتا ہے کہ انسان کے ذہن پر اس کا فوری اثر ہوتا ہے۔ منظر کاظمی کے افسانے ان کے تجربات و مشاہدات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ مشاہدے ان کی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔ یہ وہ قیمتی اثاثے ہیں جن پر شخص کو ناز کرنا چاہئے۔

         منظر کاظمی کا افسانہ ‘‘سیاہ غلاف اورکالے جرنیل’’ اسلامی واقعات اور باالخصوص محمدؐ کی زندگی پر تحریر کردہ افسانہ ہے مگر اس کی بنت میں منظر کاظمی نے کئی سوالات قائم کرتے ہوئے چند آفاقی مسائل سے روبرو کیا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے چاہنے سے سب کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ جنگ میں بھی فتح اس کی ہوتی ہے جس کی فتح ہونی ہوتی ہے۔ اس نکتہ کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔دراصل اس کہانی میں افسانہ نویس یہ سمجھانے میں پوری طرح کامیاب ہے کہ فتح دلانے والا صرف پاک پروردگار ہے اور وہ یہ موقع انہیں کو دیتا ہے جو حق و صداقت کو اپناتا ہے۔ یہاں یہ بات کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتا ہے کہ لڑنے والے یا مخالف کی تعداد کتنی ہے۔ تعداد سے اگر فتح نصیب ہوتی تو ابرہہ کو ملتی پر اللہ نے ابابیل جیسی نازک پرندے کے ذریعہ اس کی حیثیت بتادی۔ اس کہانی کا اختتامیہ ہمیں ہمارے اعمال کے احتساب کی دعوت دیتا ہے سماجی اورانفرادی طور پر بہت ضروری ہے کہ اعمال کا احساب کیا جائے۔

         منظر کاظمی کے ہر ایک افسانہ میں کسی نہ کسی مسئلہ کو پیش کیا گیا ہے۔ ماجرا اگر سماجی اور سیاسی نہ بھی ہے تب بھی کہانی بیان کرتے ہوئے ایک معاشرتی نباض کی طرح قارئین کو چونکا دیتے ہیں۔ علامتوں اور اشاروں سے وہ ساری باتیں ہمارے روبرو کر دیتے ہیں جن کے باطن میں ہمارا معاشرہ آئینہ ہوا ہے۔ ان کا افسانہ ‘‘آسمان سے گرتی روٹیاں’’ اسلامی واقعات بطور خاص حضرت یوسف، حضرت موسیٰؑ اور فرعون کی کہانی کو علامتی انداز سے پیش کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اس میں زندگی کے رموز سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔‘‘ آسمان سے گرتی روٹیاں’’ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اور اس کے اندرون سے برآمد محنت و مشقت کا درس محسوس کیجئے:

“ہوا یہ کہ ایک قصہ جو ہم نے کچھ دنوں پہلے سنا ہے ۔ انہوں نے بہت پہلے سن لیا تھا۔ مگر انہیں صرف ایک بات یاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب روٹیاں آسمان سے گرتی تھیں۔ اور ہم اس کے علاوہ بھی جانتے ہیں کہ آسمان سے روٹیاں اب کیوں نہیں گرتیں۔ ہم اپنے کمرے میں بیٹھ کر کھلے آسمان کو دیکھتے ہیں اور ہمارے اردگردننگی دیواریں ہیں اور اوپر چمکتا ہوا چاند ہے کہ جس کی ٹھنڈی روشنی میں مسلسل تلاش کے باوجود کوئی روٹی نظر نہیں آتی اور کچھ لوگوں کے ہاتھ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ہیں کہ وہ اب تک ایک پرانے قصے کو فراموش نہیں کر سکے۔”                     (افسانہ ‘‘آسمان سے گرتی روٹیاں’’، لکشمن ریکھا، ص:۲۲)

         قوم موسی پر من و سلویٰ کی عنایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے افسانہ نگار کی خواہش کیا ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر اختر آزاد کے خیال سے میں اتفاق رکھتی ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:

“منظر کاظمی یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس زمین پر ایک ایسا دور بھی گذرا ہے جب انسان اپنی محنت پر بھروسہ کرتا تھا اور دوسروں کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھتا تھا۔ سچ بولتا تھا اور حق کے راستے پر چلتا تھا۔ خدا بھی اس سے راضی تھا۔ اس لیے رزق حاصل کرنا محنت کشوں اور حق پرستوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہا تھا کہ ان کی روٹیاں آسمان سے برستی تھیں۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ہم حق سے دور ہوتے گئے، ہمارے سروں سے رضامندی کی چھتیں سرکتیں گئیں۔ ننگی دیواروں کے درمیان ہم جانور بن گئے۔ ایسی صورت میں آج آسمان پر چمکتے ہوئے چاند میں ایک بھوکے کو روٹی تو نظر آتی ہے لیکن اب روٹیاں برسنا بند ہوگئی ہیں، اور اب صرف ہاتھ اٹھانے اور پرانے قصے کو یاد کر آسمان سے روٹیاں گرنا شروع نہیں ہوں گی، بلکہ محنت کے ہاتھوں ایمانداری کی فصل بونا ہوگی تب کہیں جاکر گیہوں کے دانے ہمارے ہاتھوں میں مسکرائیں گے ۔ چاند روٹی بن کر ہماری طشتری پر اترے گا۔ “

                  (منظر کاظمی کے افسانوں کا تنقیدی مطالعہ از ڈاکٹر اختر آزاد، ص:۲۹)

         اس افسانے کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں ایک وقت تھا جب ہم اپنی محنت اور ہنر مندی سے حالات کا مقابلہ کرتے تھے۔ ہمت ہمارا شیوہ تھا۔ ہمت اور طاقت کی بناپر ہماری انگلیاں فولاد سے ٹکرانے میں بھی پیچھے نہیں تھیں۔ ہمارے پاؤں زمین سے جڑے تھے۔ ہم محنت کش اور زندہ قوم شمار کیے جاتے تھے ۔ ہماری محنت کا ثمرہ ہمارے پاؤں میں گیہوں کی لہلاتی بالیاں تھیں۔ لیکن آج ہم ہر طرف ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ افسانہ نگار ہماری پستی اور تنزلی کو دور کرنے کی خاطر محنت و مشقت کا درس دے رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر روٹی چاہتے ہو تو اپنی محنت اور ایمانداری کے لہو سے سیینچ کر دم توڑتی فضاؤں کو لہلہاتی فصلوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اب آسمان سے روٹی نہیں گرائی جائیں گی۔ یہ افسانہ درس دے رہا ہے کہ محنت سے حالات بدلے جاسکتے ہیں۔

         منظر کاظمی کے افسانوں میں فسادات کا بیان نہایت ہی احسن طریقے سے ہوا ہے۔ وہ فساد کی تصویر کشی پر اکتفا نہیں کرتے ہیں جب کہ ان محرکات پر ان کی نگاہ رہتی ہے جس سے آپسی بھائی چارے کا ماحول اچانک سے کشیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور خون خرابہ شروع ہوجاتا ہے ۔ ان کے افسانوی مجموعہ لکشمن ریکھا میں شامل ایک کہانی بعنوان ‘‘سوگز پر دفن ایک کہانی’’ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ انسان کو حیوان بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اس افسانے میں جمشیدپور کے دنگے ہیں۔ اپنے پڑوسی کے ہاتھوں شہید کئے گئے مشہور افسانہ نویس زکی انور کو یاد کیا گیا ہے۔ اس افسانے کی ایک کیفیت محسوس کیجئے:

“اور یہ وہی رات تھی جب ایک اجنبی دروازے کھول کر اپنے ایک بیٹے کی دردناک کہانی سنانے لگا۔ یہ رات بہت سی بھیانک راتوں کی ابتدا تھی۔ ان راتوں میں شیر خوار بچے رونے کو ترس گئے۔ ماں کی ہتھیلیاں ان کے نازک ہونٹوں پر سختی سے جمی رہیں۔ ضعیف سانسیں گھٹ گھٹ کر دم توڑتی رہیں۔ عورتوں پر سکتہ طاری تھا اور وہ کہ جن کے بازوؤں میں مچھلیاں تڑپتی تھیں حیران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کبھی دوسروں کو دیکھتے یا اپنے آپ کو ٹٹولتے رہنے کی کوشش میں ٹھوکریں کھاتے رہے۔”

افسانہ ‘‘سوگز پر دفن ایک کہانی’’ لکشمن ریکھا، ص:۵۳)

         فرقہ وارانہ فساد ایک اہم مسئلہ ہے ۔یہ اہم اس لئے ہے کہ اس کے ذریعہ سماج ، مذہب اور ملک کے اندرون کا علم ہوجاتا ہے۔ جب مذہب کے نام پر جنگ و جدال ہونے لگے تو انسانیت کو شرمسار ہونا ہی پڑتا ہے۔ منظر کاظمی نے جمشیدپور کے فساد کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کی شدت اور نتائج کو محسوس کیا۔ان پر فساد کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ کئی برس تک وہ اس خونچکاں حادثہ کو یاد کرکے رونے لگتے تھے ۔ اس فساد میں ان کا پیارا مصنف افسانہ نگار زکی انور شہید کر دیا گیا۔ انہوں نے فسادات کی نفسیات پر بھی بہت کچھ لکھا۔ یکجہتی اور بھائی چارگی کی عمارت میں دڑار پڑنے کی دھمک سے وہ پریشان تھے ۔ ان کا ایک مضمون ‘‘ہم جنگل کی طرف لوٹ رہے ہیں’’ ان کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ اس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“بڑھتے ہوئے علم، بدلتی ہوئی تہذیب اور پوری دنیا کو ایک رشتے میں باندھنے والے انسانی سماج میں حیوانی جذبہ کی گنجائش اگر معدوم نہیں ہوسکتی ہے تو موہوم ضرورہوجانی چاہئے تھی۔ مگر ایسالگتا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ نہ صرف زندہ رہنے والی بہت طاقت ور بھی ہے۔ جس کی عبرت ناک مثال اپنے ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اور ان کی روح فرسا تفصیلات ہیں بلکہ قتل و غارت گری کے بعض واقعات تو قدیم عہد میں جنگلی جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے انسان کی درندگی کو بھی مات کر دیتے ہیں۔ دنیا کو امن کا پیغام دینے والے اس ملک میں فرقہ پرستی کا جنون کس سطح سے ابھرتاہے ۔ کس بنیاد پر قائم ہے ۔ اس سوال نے آج ہمیں متحیر اور ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے۔ “

                                             (مقالات منظر ، مرتب: ڈاکٹر افسر کاظمی، ص:۱۵)

         افسانہ ‘‘طوطے بولتے ہیں’’ کا موضوع ہی سیاست ہے۔ طوطا کو بطور علامت پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک اور سماج میں نیتاؤں کی سوچ اور ان کے افعال و حرکات جس طرح کے ہیں اس کے لئے طوطا سے بہتر کوئی علامت وضع نہیں کی جاسکتی تھی۔ منظر کاظمی نے کمال ہنر مندی سے اس پر ندہ کو آج کا نیتا بنا دیا ہے ۔ اس افسانے میں اس کی تقریر کا منظر افسانہ نگار کی زبانی سنئے اور آنکھوں میں طوطا چشم رہنماؤں کی اداؤں کو تازہ کیجئے:

“طوطے نے جب انتہائی مدبرانہ انداز میں دائیں اور پھر بائیں جانب دیکھا اور سامنے مجمع پر نگاہ ڈالی اور دو تین بار کافی مہذب طریقے سے کھانس کر اپنا گلہ صاف کیا۔”

                                    (افسانہ ‘‘طوطے بولتے ہیں’’ لکشمن ریکھا، ص:۶۴)

“اسی دوران طوطا اپنی تقریر کے انتہائی عروج پر پہنچ کر اچانک رک جاتا ہے۔ اپنے دیدے مٹکاتا ہے۔ مجمع کا ایک ایک آدمی ایسا لگتا ہے اپنے آدھے جسم سے زمین میں گڑا ہوا ہے۔ کوئی کہیں سے ذرا ہلتا بھی نہیں۔ طوطے کی خاموشی بھی ایک لمحہ کی ہے۔ بار بار اپنے دیدے مٹکاتا ہے اور ہر بار اس کی آنکھیں رنگ بدل لیتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی تیزی سے بدلتے ہوئے رنگ کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں بھی پتہ نہیں ڈائس کے اتنا قریب کیسے پہنچ گیا ہوں۔ “

         جنس اردو افسانے کا اہم موضوع رہا ہے۔ منظرکاظمی نے بھی اس کو اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ ان کے یہاں جنس قدرے الگ اندا زمیں ہے۔ اک افسانے ‘‘رات کا سورج دن کا چاند’’ ہے جس میں اندھے فقیروں کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ان کے جنسی اختلاط کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے سماج میں جنس اور جنسی رویے کو نہ تو کوئی موضوع بناتا ہے اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ جنسی خواہشوں کی تکمیل جب واجب اور جائز طریقے سے نہیں ہوتی تو غیر فطری اور جرائم نما جنسی حرکات سماج میں پھیلے گا ہی۔ منظر کاظمی کا یہ افسانہ سماج میں تیزی سے بڑھ رہے جنسی جرائم اور غیر فطری جنسی عمل کو اجاگر کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہے۔ اسی طرح افسانہ ‘‘علاج’’ کاکلائمکس ہے۔ جسمانی رشتوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی یہ کہانی کمزور طبقے میں جنسی بے راہ روی کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کا اہم کردار سنجوا کا کردار اوراس کی نفسیات میں ہمارے سماج کا اہم مسئلہ پوشیدہ ہے۔ منگنی ، رگھو ، رکمنی ، اکلوا ، گلبیا کے اعمال واقوال میں جنسی خواہشوں کی تکمیل کی سبیلیں اور امنگیں موجود ہیں۔ اس طرح اس مسئلہ کوہمارے سماجی اقدار سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ اپنی کمیوں کی طرف نہیں دیکھتے ہیں مگر دوسروں کی برائیاں اعلان کرتے ہیں۔

         ہمارے سماج میں موجود یہ رویہ کمزوروں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ منظرکاظمی نے معاشرے کی ابتری کو جوفی الوقت بڑا مسئلہ ہے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ یہاں انسان ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں اونچے مقام پانے کے لئے انسان جانوں کو سیڑھی بناتے ہیں اور اس پر قدم رکھ کر کامیاب ہوتے ہیں۔ انسان اسی طرح انسان کا خون چوستا ہے۔ ایسے میں منظر کاظمی کا افسانہ ‘‘پٹا ہوا مہرہ’’ کا مطالعہ کیجئے اور یہاں کی فکر میں سماج کا ننگا پن دیکھئے ۔ افسانے کے یہ جملے حقیقت کو بیان کرتے ہیں:

“یار پیارے مجھے مچھر کاٹ رہے ہیں اور تم ہری چند کو گالی دے رہے ہو۔ …..یارمنظر تم کیسے ادیب ہو۔

آدمی ، آدمی کا خون چوستا ہے۔ مچھر تو کیڑوں میں سے ہیں جنہیں صرف اسی بات کی عقل ملتی ہے کہ وہ ہر آدمی کا خون چوسیں ، چاہے پیارا سنگھ کا خون ہو ۔ اسٹالن کا یا میکسم گورکی کا۔”

                           (افسانہ ‘‘پٹا ہوا مہرہ’’ منظر کاظمی کی افسانہ نگاری ، از ڈاکٹر افسر کاظمی، ص:۱۰۵)

         ہمارے معاشرے میں پیارا سنگھ جیسا انسان ملنا مشکل ہے مگر ویسے ہی انسان کی ضرورت ہمارے سماج کو ہے ۔ دوسروں سے حد درجہ محبت کرنے والے کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب تو لوگ خودکے اندر ہی جینا چاہتے ہیں ۔ زندگی انسان کے لئے فرد کی زندگی ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے سماجی مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔ ہر قدم پر مسائل اور مشکلوں میں گھری عوامی زندگی مذکورہ کردار کی تلاش میں بے چین ہے۔ آج کا دور صارفی دور ہے۔ تھوڑے سے فائدے کے لئے لوگ رشتے ناتے بھول جاتے ہیں۔ خون کی پہچان ختم ہوجاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنا خون خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے والا کوئی نہیں ہے۔ بس اپنا فائدہ پیش نظررہتا ہے۔ منظر کاظمی نے ایک مضمون ‘‘ہم جنگل کی طرف لوٹ رہے ہیں’’ میں آج کے انسان کے سلسلے میں بڑی اہم اور بے باک بات کہی ہے جس کا اطلاق توبہ ظاہر فرقہ پرستی پر ہوتی ہے مگر عام زندگی اور سماجی زندگی بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجئے یہ حقیقت پسند انہ اظہار:

“غیر مہذب سماج میں انسان کا انسان کو درندوں کی طرح مار ڈالنا اپنے ساتھ ایک جواز رکھتا ہے کہ اس عہد میں آدمی کی کوئی قدر و قیمت متعین نہیں ہوئی ہے وہ تہذیب سے ناآشنا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہمدردی اور دکھ سکھ کے مشترک جذبوں کاکوئی تصور اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ غیر آباد زمین کے کچھ ٹکڑوں پر کسی جنگل یا پہاڑ کے دامن میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ علم سے بے بہرہ ہے۔ ترسیل خیال کے لئے کوئی مناسب زبان اس کے پاس نہیں۔ سترپوشی ، کنبہ پروری، ازدواجی تعلقات اور بھائی چارگی کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر حیوانی جذبے غالب ہیں۔”

                                                      مقالات منظر از ڈاکٹر افسر کاظمی ، ص:۱۴۔۱۳)

         منظر کاظمی کا افسانہ ‘‘تماشہ جاری ہے’’ شب خون (مئی ۲۰۰۲) میں‘‘ تماشے جو نہ ہوئے’’ کے عنوان سے شائع ہوا۔

اس کا موضوع فساد سے پیدا شدہ حالات ہیں۔ فساد اب ایک ملک گیر مسئلہ بن گیا ہے۔ مذہب کے نام پر اچانک دنگا ہوجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ یہاں اس کا تجزیہ کرنا مقصد نہیں ہے کہ یہ کیوں ہوتا ہے بلکہ اس کہانی میں ‘‘میں’’ کی نفسیات کو اس پس منظر میں واضح کرنا ہے۔ اپنی گفتگو کو ڈاکٹر اختر آزاد کے چند جملوں سے جوڑکرآگے بڑھاتی ہوں۔ انہوں نے نہایت سچائی سے لکھا ہے:

“بلوائیوں کے حملے میں گھر، آنگن، کھیت،کھلیان ، گلی گوچے اور چوپایوں کو روند دیا جاتا ہے۔ یہاں تک ناتوانوں تک کی ہڈی کو قیمہ بنادیا جاتا ہے۔ مکانات کو آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ زمین کا آگ اگلنا اور آسمان کا دھوئیں سے بھر جانا۔ شہر کا شہر مقتل گاہ میں بدل جانا یہ ساری ایسی چیزیں ہیں جو آہستہ آہستہ ہندوستان کی قسمت بنتی جارہی ہے۔ ایسے میں خود کو بچانا اور اپنے گھر کے افراد کی حفاظت کرنا اقلیت کے لئے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ لیکن ان کی عورتیں اور بچیاں نا امید ہیں۔ ایسے فساد میں سب سے زیادہ پریشانیوں سے دو چار ہوتی رہی ہیں۔ ان کی آبروئیں مردوں کے سامنے لوٹی جاتی رہی ہیں۔ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک دن کہانی کا ‘‘میں’’ عورتوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے ذبح کر ڈالتا ہے اور شرمندگی سے خود کو بچالیتا ہے۔”

                                             (منظر کاظمی کے افسانوں کا تنقیدی مطالعہ از ڈاکٹر اخترآزاد، ص:۱۲۵)

         فسادات کے بعد بلوائیوں کے ساتھ حکومت وقت کا سلوک تماشہ کی طرح ہوا کرتا ہے جو جتنا بڑا بلوائی ہے اس کو اتنا بڑا انعام ملتا ہے۔ جن کا گھر تباہ ہوا ہے جن کے گھروں کے چاند پیروں تلے رونددیئے گئے ہیں۔ جن کی بیٹیاں نگاہوں کے سامنے ….ایسے میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آخر سماج کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے لوگوں کے ساتھ کیا انصاف ہوگا۔ اب تو ظالم سیاست کے ایوانوں تک جا پہنچتے ہیں ۔ جب قاتل ہی منصف ہوجائے تو بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ چاند سے چہرے کو کندھے پر اٹھاکر لے جانے والوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ ان آنکھوں کا کیا ہوگا جو بلوائیوں کی پشت سے چپک گئی ہیں۔ منظرکاظمی نے اشاروں میں ساری باتیں کہہ ڈالی ہیں:

“ایسا کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بھی جسم کسی بلوائی کی زد میں آکر موت کے گہوارے میں جھولنے لگتا ہے۔ تو یہ آنکھیں اس کے جسم سے چپک جاتی ہیں۔ یہ آنکھیں پچھلی نصف صدی سے اس طرح تمام بے جان اور جھولتے ہوئے بدنوں کو ایک ایسے مقام پر یکجا کر رہی ہیں۔ جہاں ایک عدالت کو قائم ہونا ہے۔ منصفی کی کرسی پر کون بیٹھے گا اور اسے کون وہاں بیٹھائے گا اس کا قصہ باقی ہے۔ عدالت کی کاروائی کھلے عام ہوگی یا ان کیمرہ In camera۔کچھ طے نہیں ہوپایا۔ لیکن وہ آنکھیں ان جھمیلوں سے بے پروا ہیں۔ وہ ابھی جھولتے جسموں کو ڈھونے اور اکٹھا کرنے میں لگی ہیں۔”

                                    (افسانہ ‘‘تماشہ جو نہ ہوئے’’ شب خون مئی ۲۰۰۲ء، ص:۱۷)

         واقعی گذشتہ سالوں میں لاشوں کا انبار لگ چکا ہے۔ اس کے باوجود لاشوں کے سوداگروں کے لئے اب بھی عدالتیں قائم نہیں ہوئیں جو ان سے حساب لے سکے۔ مصنف کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر عدالتیں قائم کربھی دی گئیں توا س پر منصف کون ہوگا، بلاشبہ ان بلوائیوں کا سرغنہ جس نے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہوں ۔ اس طرح اس افسانے کا مسئلہ از خود واضح ہوجاتا ہے کہ پھر تو تماشہ جاری رہے گا۔منظر کاظمی کا ایک افسانہ ‘‘ٹاور آف بے بی لون’’ ہے۔ اس میں عالمی سیاست کے نمایاں رنگ کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔نام سے ہی یہ افسانہ ہمیں دنیا کی بلند و بالا مینارکی جانب لے جاتا ہے اور یہیں سے افسانہ نگار اپنی باتیں ہمارے ذہن میں ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جوگندر پال نے اس افسانہ کا تجزیہ کرتے ہوئے عالمی سیاست کی پیچیدگی کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔

         افسانہ نگار ہماری ترقی یافتہ زندگی سے خوش نہیں کہ اس نے عجیب و غریب حادثوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ ہماری ترقی دراصل تنزلی ہے۔ جس رفتار سے ہم آسمان کی بلندی کو چھوتے جارہے ہیں اسی رفتار سے ہمارے اندر کا انسان مشین بن کر صرف لڑنے میں مزہ لے رہا ہے۔ ہماری انسانی قدریں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور تجربے ہماری زندگی کا حصہ۔ اور تجربہ کیسا؟ افسانہ‘‘ ٹاور آف بے بی لون’’ کے یہ جملے دیکھئے:

“کولہوں کی چرمراتی ہڈیاں اور مشرق و مغرب میں پھیلتی ٹانگوں کا منظر اب کیمرے کی تقدیر ہے۔ اجتماعی آبرو ریزی کی فلم بندی ایک نیا تجربہ ہے اور یہ سارا کچھ قبولیت کے دروازے کھٹکھٹارہا ہے۔ “

                                                      (افسانہ ‘‘ٹاور آف بے بی لون’’ مناظر نامہ، ص:۲۱۰)

         یہ تجربہ اب صرف دستک ہی نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کی نئی شکل ہمارے ایوانوں میں جگہ بناچکی ہے ۔ ایک اچھے انسان کی خوبیاں جب فن کے اندر آجاتی ہیں تو ایک عمدہ فن پارہ نمو پذیر ہونے کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں۔ منظرکاظمی دیہات کے پلے بڑھے تھے۔ اس وقت شخصیت کو نکھارنے اور تربیت دینے کے معاملے میں گاؤں کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ آپسی رواداری ، مدد، دوستی، قدرت سے نزدیکی، انسانیت ، تہذیب اور اچھے عادات و اطوار کے لئے گاؤں جانا جاتا تھا۔ جب منظر کاظمی تلاش و معاش میں شہر آہن جمشیدپور آئے تو یہاں زندگی بالکل مختلف تھی ۔ شہری اور کلونیکل کلچر کا بول بالا تھا۔ لیکن جس مٹی کو تپ تپاکر برتن بنادیا گیا ہو اور انسانیت کا گہرا لیپ چڑھا دیا گیا ہو اس پر بھلا چمکیلا رنگ کیسے چڑھ سکتا تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود انہوں نے ایمانداری اور انسانیت کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جمشیدپور کے دوران قیام انہوں نے ٹیوشن پڑھایا اور ایک ہومیو پیتھ کی ڈسپنسری کھولی۔ اس مطب میں وہ مریض دیکھا کرتے تھے۔ان کی ایمانداری اور برتاؤ کے بارے میں پریم چندکلین لکھتے ہیں:

“میں اکثر شام کو ان کے مطب میں پہنچ جایا کرتا تھا۔ کچھ مریضوں کا حلیہ آج بھی یاد ہے۔ ایک دن ایک پٹھان خوشی سے چلاتے ہوئے مطب میں آئے اور منظر کی میز پر ایک پڑیا رکھ کر ان کے علاج کی تعریف کرنے لگے۔ منظر نے پڑیا کھولا تو اس میں کئی عدد چھوٹے چھوٹے کنکر تھے ۔ پٹھان ایک مدت سے گردوں میں پتھر کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا تھے۔ منظر کی دوا سے کنکر پیشاب کے ساتھ باہر آگئے اور ان کا درد کافورہوگیا۔ پٹھان نے ایک بڑی رقم میز پر رکھ دی۔ منظرنے اپنی حساب کی کاپی نکالی اور دوا اور فیس کی جو رقم لکھ رکھی تھی اتنی ہی کاٹ کر باقی رقم پٹھان کے حوالے کر دی۔ پٹھان کے بار بار اصرار کے باوجود منظر نے اپنے حق سے زیادہ رقم قبول نہیں کی۔”

(مضمون ‘‘اندھی دیوار کا ایک سوراخ ’’غیر مطبوعہ از پریم کلین، بحوالہ منظرکاظمی کے افسانوں کا تنقیدی مطالعہ ص:۱۷)

         منظر کاظمی کے افسانوں میں سماجی اور سیاسی حالات کادر آنا فطری تھا۔ سماج اور سیاست کو موضوع بنانے میں ان کے تجربات کودخل ہے۔ زندگی میں جن حادثات و واقعات سے دوچار ہوئے یا جن لمحوں میں سماج کو بگڑتے دیکھا ۔ ان کی آنکھوں نے اسے قید کرلیا اور موضوعات کی رسائی افسانے کی شکل میں قارئین تک ہوگئی۔ فنکار کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ زندگی کو بیان کرتے ہوئے قاری کو کتنی بصیرت فراہم کرتا ہے۔ ان کے اندر موجود طاقتوں سے کس قدر گھائل کر پاتا ہے ۔ اعلیٰ ادب محسوسات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زندگی کو معنی نو سے سوچنے کو اکساتا ہے۔ سید حامد حسین نے بجا طور لکھا ہے:

“اعلیٰ ادب قاری کی خواہشات کا احترام کرنے کے لئے کوئی بنا بنایا فارمولا تو اختیار نہیں کرتا، لیکن وہ ان احساسات کا اس انداز سے ارتقا (Sublimation)کرتا ہے کہ اس میں قاری اپنی توقعات کی ایک نئی تشکیل کا تجربہ کرتا ہے۔ اعلیٰ ادب کے لئے مکروہات اس تخلیق کا منتہا بن کر نہیں آتے بلکہ وہ ان کو اس نوعیت سے پھیلانے اور پیش کرنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ وہ زندگی کو پر معنی بصیرت فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔”

 (جدید ادبی تحریکات و تعبیرات از سید حامد حسین ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی ، سن اشاعت: ۲۰۱۲ء، ص:۳۴)

         عصری مسائل بھی سماج کے کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اس لئے ان پر نگاہ رکھ کر فن پارہ تخلیق کرنے والاہمارے سماج کو آئینہ دکھانے والا شخص ہوتا ہے۔ سماج تو ابتدا سے ہی اردو افسانے کا موضوع رہا ہے۔ چاہے واقعات ہو یا ماحول سازی، کردار ہو یا زبان، افسانہ نگاروں نے ہمارے سماج کو پیش کرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ منظر کاظمی نے اس طرف خاص توجہ دی۔ انہوں نے سماج کے ان مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا جن پر لکھنے اور بولنے والے حضرات کم تھے ۔ ہماری دکھتی رگوں پر انہوں نے انگلی رکھ دی۔ انہوں نے نہ صرف واقعات کو پیش کیا بلکہ داخلی سطح پر ہماری محسوسات پر ضرب کاری کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سماج کے ایک فرد کی طرح سماجی حقائق کو بیان کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

         منظر کاظمی نے بھی ہمارے سماج کے ان تمام گوشوں کا مشاہدہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ پیش کیا۔ وہ صرف کہانیوں کے ذریعہ دل کی باتیں نہیں کہتے تھے بلکہ اپنی تقاریر اور عملی طور پر معاشرے کو خوش حال دیکھنا چاہتے تھے ۔ تعلیم کی کمی آج بھی معاشرے کا بڑا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اقلیتی طبقہ کی تعلیم کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ تعلیم کی کمی نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اقلیت کے مسائل کے تئیں بے حد حساس تھے اور عملی طور پر کچھ کرتے رہنے کی ترغیب دیتے تھے ۔ ان کی اس فکر مندی سے لبریز چند سطور پیش کرتی ہوں جس میں اقلیت کی تعلیم اور ذہنی غلامی کو موضوع بنایا گیا ہے:

“لیکن ہم یہ جاننے کو تیار نہیں کہ کسی نے ہم کو ہماری مرضی کے خلاف غلام بنایا ہے۔ دراصل ہم تعلیم سے بے بہرہ ہیں اور جو افراد تعلیم سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنے آپ سے آشنا نہیں ہوتے۔ گرد و پیش کے حالات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ زندگی کی سچائی ان پر نہیں کھلتی۔ وقت کے تقاضے کو وہ نہیں پہچانتے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنے غلام ہوتے رہنے کے عمل کو محسوس نہیں کرتے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں جب قومیں ان ہی مرحلوں سے گذر کر تباہ و برباد ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر ہم بھی ان مرحلوں سے گذررہے ہیں تو ہماری کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟حکمت اور فراست تو مومن کی دولت ہوا کرتی تھی ہم نے اسے کہاں چھوڑ دیا؟ کہاں کھو آئے؟ اور کچھ کریں یا نہ کریں کم از کم اپنی گم شدہ دولت کی تلاش تو کریں۔”

                                             (منظر کاظمی کی افسانہ نگار ی از افسر کاظمی، ص:۵۵۔۵۴)

         منظر کاظمی کے افسانوں میں زندگی کی حرارت اور اپنے اجداد کی بے مثل قربانیوں اور کارناموں کا بیان جہاں بطور خاص ہے وہیں سماجی اور سیاسی مسائل کی خوب خوب جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ ‘‘لکشمن ریکھا’’ میں شامل افسانے کے مطالعہ اور تجزیہ سے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے معاشرتی تضادات اور ناہمواریوں کو اپنی کہانیوں کے ذریعہ آشکار کیا ہے ۔ معاشرے کے ان مسائل کو کہانیوں کی بنت میں اس طرح شامل کیا ہے کہ قاری چونکتا ہے ، غور کرتا ہے ، احساسات کے دریچے خود بخود کھل جاتے ہیں اور افسانہ نگار کی سماجی اور سیاسی افکار کی بلندی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ افسانہ ‘‘سیاہ غلاف اور کالے جرنیل’’ سے لے کر ‘‘شور سناٹے’’ تک میں اشارے اور علامات کے ذریعہ ہمارے احساس کو جھکجھوڑنے کی جو کوششیں ہیں ان کے مرکز میں معاشرہ ہی تو ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے زیادہ تر افسانوں پر علامت نگاری اور استعاراتی انداز کی چھاپ ہے مگر علامتیں بھی اتنی آسان ہیں کہ قاری فوری طور پر ان کی باتوں کو جان لیتا ہے۔ یہ علامتیں یا اشارے ہمارے سماج کی بہتری کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ افسانوں کے علاوہ بھی منظر کاظمی کی تحریریں تقریریں واضح طور پر معاشرہ کو بہبودگی کا راستہ دکھانے میں معاون ہیں۔ افسانہ نگار کا تعلق درس و تدریس سے رہا ہے اس لئے عوامی زندگی کا بھرپور تجربہ کے ساتھ مردم سناشی کے جواہر بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ طالب علموں کی سماجی، معاشی اور فکری استعداد کا محاکمہ ان کے روز مرہ کا مشغلہ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اسی وجہ سے سماجی حالات و اطوار کی بہتر جانکاری وہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ دیہات سے تعلق کے سبب وہاں کی زندگی کا تجربہ ان کی خصوصیت تھی۔ چونکہ سیلف میڈ مین تھے اس لئے سیاسی اور معاشی حالات بھی ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ کل ملاکر منظر کاظمی اس فنکار کا نام ہے جن کے یہاں سماجی اور سیاسی بصیرت و بصارت موجود تھی جو ان کے افسانوں میں بھرپور طریقے سے در آیا تھا۔ اس لئے انہیں سماجی نباض افسانہ نگار کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

Dr. Husne Jahan

W/o. Dr. Sibghatullah Nasir

8D New Staff Quarters

B.S.A. Crescent University

Vandalur, Chennai

This Post Has One Comment

  1. محمد آ صف

    ترجیحات کس کٹیگری میں شامل ہے ؟ ایکس یا وائے یا پھر زیڈ میں
    ۔۔؟

Leave a Reply