You are currently viewing ناول’’نارسائی‘‘ایک تنقیدی جائزہ

ناول’’نارسائی‘‘ایک تنقیدی جائزہ

صوفیہ  پروین

ریسرچ اسکالر ،دہلی یونیورسٹی دہلی

ناول’’نارسائی‘‘ایک تنقیدی جائزہ

اردو ادب میں ناول کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ناول ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرتا ہے  .ناول نگار اپنی خواہش کے مطابق کوئی بھی تخیلی دنیا قائم نہیں کرتا بلکہ یہ عام انسانی زندگی ظلم و زیادتی معاشرے میں پھیلی ہوئی ناہمواریاں کا ذکر کرتا ہے جہاں خوشی اورغم کی ملی جلی کیفیت بھی نمودار ہوتی ہے ۔

 ناول کی کہانی روزمرہ کی زندگی کی بنیاد پر لکھی جاتی ہے انسانی زندگی ہر وقت تغیر و تبدل کا شکار رہی ہے کبھی خاموش ہوتی تو کبھی ہنگاموں سے بھرپور، کبھی آشوب زمانی سے بھری ہوئی، تو کبھی رومانی۔ ایسے ہی جب ہم اردو ناول کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ابتدا سےچال تک کی تبدیل  ہوتے ہوۓ اقتدار،سیاسی شعوراور سماجی رسم و رواج اپنی شکل میں موجود رہا ہے۔

اردو ادب میں صنف ناول کی بات کی جائے تو ناول نگار سماجی و سیاسی زندگی کیافہام و تفہیم کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور نئے ناول نگاروں میں سے کچھ کے ناولوں کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ناول اپنی فنی ناقص کمزوریوں کو پس پشت ڈال کر اب اگے بڑھ رہا ہے جس سے ناول کی صنف کو مزید وسعت بخشنے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔

کناڈا  کی ناول نگار میں ایک نام روبینہ فیصل کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے مختلف ادبی اصناف میں اپنی مہارت دکھائی ہے۔ ان کی تحریریں عموماً انسانیت، معاشرتی مسائل، محبت، امید، اور انسانی خواہشات کے موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں۔ان کا مقصد موضوع کے ذریعےانسانیت کی حقیقت اور احساسات کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کی کتابوں میں انسانی روابط، خاندانی تنازعات، اور محبت کی داستانیں شامل ہوتی ہیں جو قارئین کو دلچسپی اور فکر میں مبتلا کرتی ہیں۔اُن کی مختلف کتابوں میں  انسانیت کا پیغام ہوتا ہے جو قارئین کو انسانیت کی قیمتوں اور معاشرتی امور کی اہمیت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

یہ اُن کا پہلا ناول ہے جیسے لکھنے میں تین عرصہ لگ گیا اس تعلق سے وہ کہتی ہیں:

“یہ میرا پہلا ناول ہے کہا جاتا ہے کہ اچھا لکھنے کے لئےپہلے کم از کم سو ناول ضرور پڑھ لینا چاہئیے،میں نے اس کا الٹ کیا ۔۔۔۔۔۔۔پہلے جیتنے ناول پڑھے تھے اُن کو ذہن کی کھڑکی سے صاف کیا اور پھر ایک ایسی عورت کی زندگی میں داخل ہو گئی جو اصل میں عورت ہے اور پھر کہیں جا کر “نارسائی” وجود میں آئ”(نارسائی ،ص1)~١

انھو ں نے اس ناول کا انتساب اپنی ماں کے نام کیا جو خودداری ،ہمت،محنت اورا ستقامت کی مثال ہے۔تازہ ترین ناول نارسائی ایک ایسی عورت کی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے جو بےبس بھی ہے اور بہادر بھی ۔جس نے پیدا ہونے کے ساتھ اپنے حصے میں باپ ،بھائی کی بے توجہی ،شوہر سے بےعزتی ،بچوں کی نفرت ،سماج کے طعنے یہ تمام چیزیں اپنے نصیب میں لکھوا کر آئ تھی اور آنے کے بعد اپنے وجود کی تلاش میں بھٹکتی رہی۔

ناول نارسائی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں منزل تک نہ پہنچنے والا،نامرادی ،ناکامی ۔یہ لغوی معنی ہےلیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انھونے اس ناول کا نام نارسائی رکھا تو ظاہر سی بات ہے کی وہ اس  کے اہم کردار سائرہ بتول کے جذبات ، احساسات اس کی تکلیفیں اس میں ہو رہی تبدیلیاں اس کے احتجاج غصّہ بےبسی ان تمام مختلف چیزوں کو اس کے اندر اترکر نہ صرف دیکھا بلکہ اسے محسوس بھی کیا ۔ بتول ایک ایسی عورت تھی جس کی رسائی تمام عمر محبت سے نہ ہو سکی۔ شاید اس وجہ سےانہوں نے اس ناول کا نام “نارسائی” رکھا ۔

   43باب اور 576 صفحات پر مشتمل  یہ ناول مختلف موضوعات کو اپنے  اندر سموئے ہوۓ ہے جس میں ایک طلاق شدہ بےبس عورت ، ہجرت کا درد ،ادبی حلقوں میں سیاست ،عورت اور مرد کی نفسیات، ساتھ ہی ساتھ نوجوان نسل کا جائزہ لیا گیا ہے جن کی زندگیوں میں اب کوئی ٹھہراؤ نہیں ان کی خوشی اور غم کا فیصلہ اب موبائل اور لیپ ٹاپ میں موجود سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والا لائک اور کامنٹس کرتا ہے ۔

مصنفہ نے ناول کو بہت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ سینچا ہے جس وجہ سے یہ ناول کم اور ایک عورت کی سچی روداد زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔مصنفہ نے اس ناول میں مسلم گھرانے کی  بے بس معصوم لڑکی سائرہ بتول کی زندگی کو موضوع گفتگو بنایا ہے ۔اس کے پس منظرِ میں معاشرے کی تلخ حقیقت مرد کی ایک ذات جو  بظاہر نام نہاد عزت دار خاندان کے ہوتے ہیں مگر جنسی کھیل کی اس قدر شیدائی ہوتے ہیں کہ گھر کی معصوم بچیاں بھی اُن کی شیطانیت سے محفوظ نہیں رہ پاتی ۔

“حنا کے کپڑے اس کے بدن سے الگ ہو چکے تھے اور وہ بے بسی سے ثنا اللہ کے سانڈ نما جسم کے نیچے تڑپ رہی تھی۔ پھول جیسا ریشمی اور کلی کی طرح کچا جسم دیکھ کرثنااللہ کے اندرکا وحشی قابو سے باہر ہو چکا تھا۔(نارسائی ،ص141)~۲

بتول نے جب نے حنا کو بچانے کے لئے احتجاج کیا تو اس بغاوت نے اس کا سب کچھ چھین لیا اقتباس

        ”  کتیا ۔۔ طلاق دی تجھے ، تیرے منہ پر طلاق مارتا ہوں، طلاق ہوئی تجھے ۔ ثناءاللہ نے تین دھکوں کے ساتھ طلاق کے تین پتھر اس کے سر پر مارے اور اسی وقت اس سے اس کے تین پھول چھیننے کا بھی اعلان کر دیا۔”(نارسائی ،ص145)~۳

 بتول بے قصور ہوتے ہوئے بھی سزا اور ذلت کا دامن اپنے بدن پر اوڑھ لیتی ہے ۔

 اس کے پاس اب نہ کوئی گھر تھا اور نہ کوئی سہارا وہ ایک کمپنی میں ملازمت کرنے لگی جس کا نام “family planning”تھا اور وہی اس کی ملاقات سرمد سے ہوتی ہے وہ اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے مگر بتول کا ماضی اتنا خوفناک تھا کہ محبت کا خواب دیکھنے سے بھی وہ خوف کھاتی  اسے وہ ظلم یاد آجاتے جو ثناءاللہ نے اس پر کئے۔

سرمد اس کے ماضی کے ساتھ اسے اپناتا ہے   دونوں  نکاح کر لیتے ہیں۔

بتول کو ایسا لگا جیسے اسے دوسری زندگی مل گئی اور اس کے دامن میں ساری خوشیاں سیمٹ آئی ہو لیکن ایسا کچھ نہیں تھا جیسا وہ مستقبل کے بارے میں تصور کررہی تھی اور دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی ۔

شادی کے بعد سرمد میں تبدیلیاں آنے لگی وہ بتول

کو کراچی لے آیا اپنے دوست کے گھر کیوں کی اُسکا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اور وہ گھر رانا ظہیر کا تھا جو کی  ایک صحافی اور شاعر تھا ۔

دوستوں سے ملنے کے بعد سرمد مزید بےخبر رہنے لگا اس کا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ بتول کو حیران کیا کرتا تھا لیکن اب وہ اس رویہ سے پریشان رہنے لگی مسلسل گھٹن میں جینے لگی بتول ماں بننے کے دور سے گزر رہی تھی اس وقت کوئی اُسکا خیرخواہ نہیں ،ہسپتال وقت پر نہ پہچنے کے باعث اُسکا بچہ مر چکا تھا ۔

اس غم سے وہ اور بھی نڈھال ہو گئی ۔اس دردناک حادثے کے بعد وہ اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگی ۔اقتباس

          ”   اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سرمد ایک تعلیم یافتہ اور مہذب “ثناءاللہ تھا اسی لیے وہ شروع شروع میں ان دونوں کی یہ مماثلت پہچان نہیں سکی تھی ۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مماثلت حیران کن حد تک واضح ہو کر اس کا منہ چڑا رہی تھی ۔۔ اسے سرمد میں اپنے باپ کی جھلک نظر آنے لگی تھی”۔ (نارسائی ،245)~۴

اپنے غم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے وہ زندگی سے ہار جاتی ہے اور آخر کار موت کی آغوش میں سونا چاہتی ہے ۔اقتباس

             ” ماہ جون کے بیتے دنوں کی اس نرم رات کو چاند کا نور ہر سو بکھرا پڑا تھا اور ریل کی پٹڑی پر لہو میں بھیگے ایک بدن کی بے نور آنکھیں سب کو دیکھ رہی تھیں ۔”(نارسائی ،ص12)~۵

زیر بحث ناول کا پلاٹ بہت مربوط ہے مصنفہ نے کہیں کہیں پیچیدگی کا سہارا بھی لیا ہے مگر کہانی کے تمام واقعات کو بہت خوبصورتی سے اصل مرکز کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔

ناول “نارسائی” کا پلاٹ ایک لڑکی بتول  کی کہانی پر مبنی ہے جو نارسائی سے جڑا ہوتا ہے۔ ناول کی کہانی میں ایک عام لڑکی، جس کا نام سائرہ ہوتا ہے اس کی زندگی اور اس کے گزرے واقعات دکھائے جاتے ہیں۔ سائرہ ایک معمولی لڑکی ہوتی ہے جو اپنے خوابوں کی تلاش میں نکلتی ہے اور اپنی زندگی کے مختلف مشکلات اور تجربات سے گزرتی ہے۔ناول میں اس کے اثرات اور ان کے ساتھ گزرے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے، ناول میں انسانیت، امید، اور احساسات کے موضوعات کو پیش کیا ہے۔ مختلف کرداروں کی زندگیوں، ان کے روابطوں، اور ان کے ساتھ گزرے واقعات کو بہترین طریقے سے دکھایا گیا ہے تاکہ قارئین کو اس کے اثرات اور ان کے ساتھ گزرے واقعات کو سمجھنے میں مدد ملے۔ناول “نارسائی” کا پلاٹ انسانی روابط، معاشرتی مسائل، اور ناکامی کی حقیقت پر غور کرتا ہے اور قارئین کو انسانیت کی اہمیت اور امید کے پیغامات کے ساتھ روشن کرتا ہے۔

پورے ناول میں کردار واقعات اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں مصنفہ نے ناول کے تمام واقعات کو فنکارانہ اظہار کے ساتھ سمیٹ لیا ہے جس سے پلاٹ متاثر نہیں ہوتا تمام واقعات کو مہارت سے مگر کرخت لہجے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جس سے مصنفہ کے انداز میں غصّہ اور ہمدردی دونوں عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں ناول میں پے درپے موضوعات کو شامل کر کے ناول کو وسعت دی گئی ہے ۔

نارسائی میں کردار کی ایک خاص تعداد دیکھنے کو ملتی ہے روبینہ فیصل نے مرکزی اور ضمنی دونوں طرح کے کرداروں کا استعمال کیا ہے ۔مگر مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس ناول کے تمام کردار ہی ناول کے بنت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ہم اگر کسی ایک بھی کردار کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دیکھتے ہیں تو اس سے ناول متاثر ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔

سائرہ بتول جو اس ناول کا  مرکزی کردار اور راوی ہوتی ہے اس کے ذریعے ہم مختلف نئے چہروں سے ملتے ہیں ۔اس کا

 کردار ایک مثبت کردار ہے جو وقت کے بدلنے کی رفتار سے واقف ہے جو دو نسلوں کا تقابلی جائزہ مندرجہ ذیل الفاظ

میں بیان کرتی ہے۔

        ” وہ اتنی دیر میں اتنا سمجھ گئی کہ اس صفحے کا ایک کو نہ ذاتی تھا اور ایک رائے عامہ کے لئے ۔ کیسی دنیا تھی وہ ۔۔ اور وہ اس لڑکی کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اور اس نئی دنیا کو دیکھ کرخوش ہو رہی تھی ۔ کیسی مزے کی دنیا تھی ۔۔ وہ سوچ رہی تھی اس کی زندگی میں ایسے ڈبے اور ان پر موجود یہ رونقیں موجود ہو تیں تو شاید وہ اس تنہائی کا شکار نہ ہوتی جو آخری دنوں میں اسے موت کی دہلیز تک لے گئی تھی”۔ (نارسائی ،ص56)~۶

ثناءاللہ ایک انسان کی شکل میں جانور تھا ایسا جانور جو اپنی بیٹی تک کو اپنی حیوانیات کا شکار بنا رہاتھا جسے وہ شریکِ حیات نہیں بلکہ خریدی ہوئی جاگیر تسلیم کرتا اسے بتول کے احساسات ،عزت ،جذبات کی کوئی قدر نہیں تھی ۔

وہ ہر عورت کو بد نظر سے دیکھتا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا ۔اقتباس

“وہ ثنااللہ کی بدکرداری سے بھی بے خبر نہ تھی ۔ ثنا اللہ تو کام والی ماسی کو بھی نہیں بخشا تھا۔ شروع شروع میں ایک جوان ماسی اسے ثنا اللہ کے غیر مناسب رویے کی شکایتیں لگایا کرتی تھی اور کام چھوڑنے کی دھمکی دیا کرتی تھی”6(نارسائی ،ص126)~۷

سرمد بتول سے محبت کرتا ہے وہ ایک خاندانی پڑھا لکھا شریف لڑکا تھا لیکن وہ ایک اچھا شوہر نہ بن سکا ۔جب بتول کے افیئر کے بارے میں اسے علم ہوتا ہے تو وہ اپنی غیر ذمّہ داری ،لاپرواہی ،کاہلیت ،محرومی کا احساس کرتاہے ۔ وہ بتول سے معافی مانگتا ہے اور زار و قطار روتا ہے۔سرمد جیسے مرد جب روتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں وفا اور محبّت کے سچے آنسو ہوتے ہیں لیکن افسوس ان آنسوؤں کا بتول پر کوئی اثر نہیں  ہوا ۔شاید بہت دیر ہو چکی تھی ۔

بشرا بتول کی بڑی بہن جس نے اپنی بہن کی ہر حال میں مددکی اور اس کے ساتھ کھڑی رہی موت کے وقت جو بتول نے خط چھوڑا تھا اس میں ایک خط بشریٰ کے نام کا تھا وہ مر کے بھی اپنی بہن کے احسانات نہیں بھول سکی۔

مراد بتول کا بھائی جو رشتے میں اس کا بھائی تھا لیکن بھائی ہونے کا فرض اس نے کبھی نہیں نبھایا ۔

رانا ظہیر صحافی شاعر اور سرمد کا دوست ہوتا ہے جو اپنے ہی دوست کا گھر برباد کرنے کا باعث بنتا ہے ۔

ناصرہ رانا ظہیر کی بیوی ہوتی ہے جو بتول سے شدید نفرت کرتی ہے اور اس کے گھر کو برباد،بدنامی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی ۔

حمیداللہ بتول کا باپ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بتول کی زندگی برباد ہو گئی اور وہ اپنی زندگی سے ہار کر موت کو گلے لگا لیتی ہے ۔

پروین بتول کی ماں جو غیرت مند تعلیم یافتہ خوددار دیندار اور ایک اخلاقی عورت تھی جو کام کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔

روبینہ فیصل کے اس ناول کے مطالعے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حقیقی واقعات سے ناول کی کہانی کو مرتب کیا ہے ۔یہ کردار در حقیقت روزمرہ سے لیے گئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کی اس ناول کے مطالعے کے بعد ہر مظلوم بےبس عورت کو ان کردار میں اپنا وجود چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔

مجموعی طور پر کرداروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں زبردست ریئلٹی کا استعمال کیا گیا ہے اسی ریئلٹی نے کرداروں میں جان بھر دی ہے ۔جس کی وجہ سے یہ کردار تاریخی کردار نظر آتے ہیں

منظر نگاری۔ ناول میں منظر نگاری کو مکمل مہارت سے بیان کیا جائے تو ناول کی کہانی میں نئی روح پھونک دی جاتی ہے ۔کامیاب منظر نگاری وہی ہوتی ہے جس میں ناول نگار منظر کو قاری کی آنکھوں کے سامنے عیاں کر دے ۔ناول میں منظر نگاری کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اقتباس

         “ماہ جون کے تپتے دنوں کی اس نرم رات کو چاند کا نور ہر سو بکھرا پڑا تھا اور ریل کی پٹری پر لہو میں بھیگے ایک بدن کی بے نور آنکھیں سب کو دیکھ رہی تھی لاش مکمل طور پر اُدھڑچکی تھی۔مگر یہ پہچان باقی تھی کہ وہ ایک عورت تھی۔”(نارسائی ،ص12)~۸

اس ناول میں منظر نگاری کم کی گئی ہے مگر جتنی کی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے ۔

مکالمہ نگاری کو بھی ناول کا اہم جز تصور کیا جاتا ہے کیوں کی مکالمہ ہی وہ صنف ہے جس سے کرداروں کی خصوصیات اور اُن کے مخصوصات کو اجاگر کیا جا سکتا ہے اور اس سے پلاٹ کے ارتقاء میں بھی کامیابی ملتی ہے یہ ناول نگار  پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کرداروں سے کیسے امور ادا کروانا چاہتا ہے ۔

روبینہ فیصل کے ناول نارسائی میں مکالمہ ناول کی روح کا کردار ادا کرتے ہیں وہ مکالموں کا صحیح اور بر محل استعمال کرتی ہیں جس سے ناول میں روانی پیدا ہوتی ہے۔ زیر بحث ناول میں مختصر مکالمات کا سہارا لیا گیا ہے جس سے قاری ناول کی طرف متوجہ رہتا ہے اور مکالموں کی برجستگی سے ناول کی دلکشی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔مصنفہ نے مکالموں کا کم استعمال کیا ہے مگر جہاں کیا ہے وہاں مالمے اس انداز میں رچ بس گئے ہیں کہ ان کو وہاں سے الگ کرنا محال تصور کیا جائے گا ۔

اس ناول کا موضوع ایسا ہے ہے کہ اکثر کرداروں کی زبان سے تلخی جھلکتی نظر آتی ہے اور بےبسی سے ملتے جلتے اکثر مکالمہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

      ”  بےوطن بدن کو موت نہیں آتی”۔(نارسائی ،ص13)~۹

سرمد نامرد نہیں تھا بلکہ تم سے کہیں زیادہ مرد تھا کہ اسے کم از کم خود پر یہ بھروسہ ضرور تھا کہ میں کہیں اور نہیں جاسکتی ۔ تم تو ایک ان سکیور مرد ہو ۔ بلکہ تم نامرد ہو ۔ ابھی جو کچھ دیر پہلے سیکس کی ہے۔ وہ تمہاری مردانگی کا ثبوت نہیں ہے۔ مردانگی کا ثبوت یہ ہوتا کہ تم اپنی عورت پر اعتماد کرو ۔ “(نارسائی ،ص443)~١۰

مصنفہ نے کرداروں کی زبان سے ان کے ماحول کے مطابق مکالموں کو ادا کیا ہے جس سے ناول میں مقامی رنگ نظر آتا ہے جس سے تحریروں کو مزید خوبصورت بنانے میں انہیں کامیابی ہوئی ہے۔

ناول کی کامیابی کا انحصار جہاں موضوعات پر ہوتا ہے وہیں زبان و بیان بھی خاص اہمیت کی حامل ہے، موضوع اگر دلکش نہ بھی ہو

تب بھی اگر اس کو پیش کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ عمدہ ہو تو ناول کامیاب تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اگر ناول کا اسلوب جاندار ہوگا تو قاری کی دلچسپی برقرار رہے گی۔

روبینہ نے زیر بحث ناول میں دلکش پیرا گراف اور مناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اقتباس کی روشنی میں ۔

                  ” وہ پہروں اپنی قبر کے پاس بیٹھی رہتی مگر     سوائے سعد کے اور کوئی بھی لفظوں کے یا پھولوں کے گلدستے لے کر اس کی قبر تک نہیں آتا تھا۔ سرحد پار سے نمرتا تھی جو اس کی قبر تک نہیں آسکتی تھی مگر اس پر ایک کتاب لکھ کر اپنی محبتوں کا حق ادا کر چکی تھی”۔(نارسائی ،ص542)~۱۱

 روبینہ فیصل نے اس ناول میں مختلف تکنیک کا استعمال کیا ہے جن کے امتزاج سے ناول کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ انہوں نے بیانیہ انداز تحریر اپنائ ہے جبکہ کہانی کی روانی میں فلیش بیک کی تکنیک استعمال کی گئی ہے، خود کلامی بھی نظر آتی ہے جو زیادہ تر کہانی کے راوی اور مرکزی کردار سائرہ بتول کی زبانی بیان کی گئی ہے جبکہ زیادہ تر مخاطبانہ انداز  اپنایا گیا ہے جس میں سسپنس کے ملے جلے تاثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پورے ناول کا اسلوب اپنے اندر جاذبیت اور دلکشی سموئے ہوئے ہیں ، خوبصورت لفظوں کے ساتھ اسلوب منفرد اور دلچسپ بن گیا ہے۔ روبینہ فیصل نے سادہ اور آسان زبان کا استعمال کیا ہے جس سے بےبس طلاق شدہ عورت کی عکاسی ہوتی ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد حاضر میں لکھنے والی ایک مصنفہ روبینہ فیصل کا ناول”نارسائی”اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد مقام رکھتا ہے ، اس ناول میں بیان ایک عورت کی کتھا ایک عورت کی زبانی اور اس کے مصائب و آلام کا بیان بہت دردمندانہ انداز میں کیا گیاہے۔

جہاں پر عورت کو ہدف ملامت کیا جاتا ہے ، اور اس ناول میں مرد اساس معاشرے کی تلخیاں، ناہمواریاں اور  نہ ختم ہونے والی ظلم و ستم کی داستان کو رقم کیا گیا ہے ۔بقول سیمون دی بوار ۔ عورت پیدا نہیں ہوتی ،بنائی جاتی ہے ،

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون عورت کو بناتا ہے ؟ عورت کو عورت بنانے میں اہم کردار کس کا ہے ؟ عورتوں کو کب سے عورت بنایا جارہا ہے ؟ کیا یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، ایسے بہت سارےسوال جنم لے سکتے ہیں ، جس کا جواب ندارد ۔۔۔۔۔

تانیثیت کے دور میں جب مرد ایک عورت کو اس کے سر سے ردا کھینچ کر ایک عورت کو قربان گاہ تک لےجاتا ہے تو کیسے  اس ظلم سے علم بغاوت کو  بلند کیا جائے،ان سب باتوں کا بیان اس ناول “نارسائی” میں کیا گیا ہے ۔

نارسائی کی خالق محترمہ روبینہ فیصل کو اس کامیاب ناول کے لیے مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔

***

Leave a Reply