You are currently viewing ناول ، ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ : نفسیاتی بحر کی بولتی خامشی

ناول ، ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ : نفسیاتی بحر کی بولتی خامشی

علی حسن

بی اے آنرز ( اسکالر)

شعبہ اردو ، جی سی یونی ورسٹی ، لاہور

ناول ، ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ : نفسیاتی بحر کی بولتی خامشی

KHAFEEF MAKHFI KI KHAWAB BEETI: SPEAKING SILENCE OF PSYCHIC OCEAN

Ali Hassan

BA Hons ( scholor)

Department of Urdu, GC University Lahore

Abstract:

Psychology is such a field that tries to understand the secrets behind the different acts of humans, animals, insects, and various factors of the universe. That is why its scope ranges from human psychology to cosmic psychology. Literature is representative of society, so it is impossible not to discuss this topic in literature. One such psychological work of art in Urdu literature is called “KHAFEEF MAKHFI KI KHAWAB BEETI”. In this novel, Mirza Athar Baig describes psychology in the dimension of paranormal psychology with various aspects like beauty of the universe, astrology, out-of-body experience, out of mind experience, demonology, ESP, Anpsi, schizophrenia, quantum physics, psychokinesis, demonic possession, clairvoyance, poltergeist, disembodied intelligence, reincarnation, ventriloquism, behaviorism and time travel, etc. In this article, the same psychological themes of the novel are analytically analyzed.

Key words:

Paranormal psychology, behaviorism, poltergeist, Anpsi, out of body experience, demonology, cosmic psychology, reincarnation, disembodied intelligence, clairvoyance, demonic possession, universal beauty.

مرزا اطہر بیگ فن کی دنیا میں ڈراما کے لکھاری کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ اور ناول کے میدان میں چار قدم اٹھاتے ہوئے ایک صدی کا سفر طے کرتے دیکھائی پڑتے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ نے اکیسویں صدی کے عشرہ اول کے نصف دوم کے پہلے سال غلام باغ کی سیر مکمل کرتے ہوئے ناول کے میدان میں قدم رکھا۔ اس میدان میں ہر لکھاری اپنا قدم نئے ڈھنگ کے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر زیادہ لکھاری تقلید کے اصول کو معتبر خیال کرتے ہوئے ان راستوں کو چنتے ہیں جن میں پہلے ہی کوئی دیا روشن کیا جا چکا ہوتا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کا اس میدان میں قدم رکھنا باقی لکھاریوں سے مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ان راستوں کا انتخاب کیا ہے جن میں تاریکی کا راج ہے اور زمانے کے ستم کی ہوائیں اتنی سخت جو  دیے کو ایک لمحے میں بجھا کر رکھ دیں۔ مگر انہوں نے تقلید کے راستوں پر محوِ سفر ہونے کی بجائے پنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے تاریک راستوں میں مسافر ہونا منتخب کیا ہے۔

احمد فراز لکھتے ہیں۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 1

2022 تک ان کے چار ناول غلام باغ، صفر سے ایک تک، حسن کی صورت حال اور خفیف مخفی کی خواب بیتی، منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اس مضمون میں مرزا اطہر بیگ کے نئے ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ خفیف مخفی کی خواب بیتی 2022 ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں بھیانک ماورائے عمومی (Paranormal psychology) کو موضوع بنایا گیا۔ ناول کی تاریخ میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ ناول قصہ کہانیوں سے ہوتا ہوا تہذیب کے کینوس میں داخل ہوا اور تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے شعور کی رو میں بہنے لگا۔ مرزا اطہر بیگ کی عطا یہ ہے کہ انہوں نے ناول کو ایک نئی جہت سے متعارف کرواتے ہوئے اس کا رخ سائنسی میدان کی طرف موڑنے کی کوشش، بلکہ ہمت کی ہے۔ اس کے فکر و فن کو زیر بحث لانے سے قبل ناول کے عجیب مگر دلچسپ عنوان ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کو زیر بحث لایا جانا ضروری ہے۔

مرزا اطہر بیگ نے ناول کا مرکزی عنوان ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ منتخب کیا ہے ۔ وہ کیا خاص بات ہے اس عنوان میں جو اسے عجیب اور دلچسپ بناتی ہے پر بات کرتے ہیں۔

عنوان کا پہلا لفظ ہے۔ ”خفیف” فرنگ آصفیہ میں سید احمد دہلوی نے خفیف کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ 1) ہلکا ، سبک اور 2) اوچھا ، کمظرف – 2

کیونکہ اس زیر تجزیہ کتاب کا موضوع بھیانک ماورائے عمومی (paranormal psychology ) ہے اس وجہ سے خفیف کا پہلا معنی ہلکا، سبک میرے نزدیک موزوں معنی ہے۔  البتہ دوسرا معنی بھی موزوں قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسرا لفظ ”مخفی“ ہے فرنگ آصفیہ جلد سوم میں سید احمد دہلوی نے مخفی کا معنی پوشیدہ، چھپا ہوا لکھا ہے۔ 3

اس لحاظ سے ”خفیف مخفی“ کے دو معنی نکلتے ہیں۔

  1. نیم پوشیدہ آدمی
  2. باطنی رسوا آدمی۔، پوشیدہ کمظرف آدمی (کیونکہ وہ مخفی ہے اس وجہ سے وہ ظاہری طور پر رسوا اور کمظرف نہیں ہو سکتا)

اپنی زندگی کی کہانی اپنی زبانی بیان کرنے کے لئے اردو ادب میں ایک صنف موجود ہے جسے آپ بیتی کہتے ہیں۔

”اپنی زندگی کے حالات کا بیان  آپ بیتی یا خود نوشت کہلاتا ہے۔ “ 4

ناول کے عنوان کا آخری حصہ دو الفاظ ” خواب بیتی” پر مبنی ہے۔ آپ بیتی وہ ہوتی ہے جو زندگی کے حقیقی واقعات پر مبنی ہوتی ہے اور وہ بندہ تحریر کرتا ہے جس پر وہ واقعات بیتے ہوں۔ اس لحاظ سے “خواب بیتی” کا مطلب بنتا ہے کہ وہ تحریر جو ایسے واقعات پر مبنی ہو جس کا تعلق خوابوں کی دنیا سے ہو۔ دوسرے الفاظ میں اپنے خوابوں کے واقعات کا خود بیان کرنا ” خواب بیتی” کہلاتا ہے۔  اردو ادب میں ایسی کوئی صنف وجود نہیں رکھتی جو زندگی کے واقعات کے لحاظ سے تخصیص کی حامل ہو۔ اس لحاظ سے یہ صنف کے روپ میں متعارف کروائی جاسکتی ہے اور اس کا سہرا مرزا اطہر بیگ کے سر ہوگا۔

اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خفیف مخفی کی خواب بیتی” ایک نیم پوشیدہ آدمی کے خوابوں پر مبنی ایک ایسی تحریر ہے جو اس نے خود لکھی ہے۔ اس طرح ناول کا عنوان مثلث (ٹرائی اینگل کا روپ اختیار کر جاتا ہے۔

نیم پوشیدہ آدمی/باطنی رسوا آدمی

                                  حقیقی واقعات                                            تقریباً حقیقی/ غیر حقیقی واقعات

                                     آپ بیتی         حقیقت سے خواب تک              خواب بیتی

                                                          فصیلِ نیند 

عنوان کو وسیع تناظر میں زیر بحث لایا جاچکا کہ ظاہری طور پر کتاب کے مطالعہ کے بغیر اس کے عنوان سے کیا کیا معنی نکل سکتے ہیں ۔ اب عنوان کو اسی کتاب ” خفیف مخفی کی خواب بیتی” کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مصنف اس نام کی کیا حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کتاب کا ایک کردار  محکم دین جو خفیف مخفی کا ملازم ہے۔ سب سے قبل نام ”خفیف مخفی“  پر وہ سوال اٹھاتا ہے:

”فکر۔۔۔۔۔ کونسی فکر کی بات ۔۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب ؟  نام کی فکر مخفی صاحب نام کی۔ آپ نے اس لونڈے کا نام تو بدل دیا حالانکہ بدلنا آپ کو اپنا نام چاہیئے“ 5

مرزا اطہر بیگ کا مرکزی کردار جو خفیف مخفی کے نام سے ناول کے کینوس میں داخل ہوتا ہے کا اصل نام سلطان زمان ہے۔ مگر تحقیقی دنیا میں خفیف مخفی کے نام سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ سلطان زمان نے یہ عجیب نام رسالہ ”اسرار“ کے ایڈیٹر کے کہنے پر کہ رسالہ ”اسرار“ جن بھی پڑھتے ہیں اس وجہ سے نام تبدیل کر کے لکھنا چاہئے، رکھا۔  اس نام کے متعلق سلطان زمان خود ہی بیان دیتا۔

”میں نے اپنے شاعری کے قلمی نام، یعنی تخلص ”خفیف“ کا ذکر کیا۔ مخفی علوم کا بار بار ذکر تو آہی رہا تھا۔ بات کرتے کرتے ایک دم ”خفیف مخفی“ ہم دونوں کے درمیان ٹھہر گیا اور پھر اس کی موزونیت پر میں نے جبلی صاحب کو اور جبلی صاحب نے مجھے مبارک باد دی۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے ”اسرار“ کے لیے درجنوں مضامین اسی قلمی نام کے سائے تلے قلم بند کیے ” 6

ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کی ابتداء کچھ ایسے لوگوں کی کہانیوں سے ہوتی ہے جو ماورائے عمومی واقعات (paranormal incident) کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ماورائے عمومی واقعات سے مراد وہ واقعات ہیں جن کی منطق عام انسانی ذہن سمجھنے سے قاصر ہوتا۔

“Paranormal is denoting events or phenomena which is beyond the scope of normal scientific understanding.”

موجودہ دور میں paranormal psychology کو باقاعدہ ایک سائنس بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور ناول کی ابتدا کے ساتھ ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ناول ماورائے عمومی واقعات کو سائنسی طریقے سے ثابت کرنے کی کوششوں پر مبنی داستان ہے ۔ مگر یہ ایسی کہانی ہے جس میں ماورائے عمومی واقعات کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات اور عام واقعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔

ناول کا ایک اہم کردار” محکم دین“ ہے۔  اس کے پاس چوبیس سال پرانا ایک چڑے کا بیگ ہے اور وہ کسی صورت بھی اس بیگ کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اور جہاں بھی جاتا ہے اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ محکم دین کا مالک خفیف مخفی اسے بار بار کہتا ہے کہ وہ نیا بیگ لے لے مگر محکم دین انکار کرتا رہتا ہے۔ تو اس سے خفیف مخفی سوچتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ محکم دین کے بیگ کے ساتھ نفسیاتی قسم کے تعلقات ہیں ۔ چیزوں کے ساتھ نفسیاتی قسم کے تعلقات کے متعلق فرائڈ یوں بیان کرتا ہے:

”انتقال ( وہ صورت جس میں جنسی جذبہ اپنے اظہار کے لئے ایسے بے ضرر ذرائع اختیار کرتا ہے کہ جنس ان چیزوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے جن کا بظاہر جنس سے کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا -) ایک اور قسم بھی ہے جسے اشیاء پرستی کہتے ہیں ، جب افراد کے لیے کوئی مخصوص شے یا محبوب کا کوئی مخصوص عضو جنسی محرک بن کر باعث آسودگی ہو تو اسے اشیاء پر ستی کہیں گے۔ بالوں کی لٹ ۔ رومال ، جوتی، انگیا، زیر جامے اور اسی نوع کی دیگر چیزیں جنسی تسکین کا باعث بنتی ہیں-“ 7

اسی طرح کی صورتِ حال ہمیں اورحان پاموک (ترکش ناول نگاری) کی کتاب other colors میں ملتی بھی ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ جب وہ گھر سے باہر جاتا تھا اس کی بیٹی رویا اس کی خوشبو اس کے پاجامے کو سونگھ کر حاصل کرتی ۔ مگر انہوں نے یہ قصہ محبت کے تناظر میں بیان کیا ہے۔8  خفیف مخفی کی خواب بیتی میں بھی محکم دین اور اس کی بیگ سے اس قدر وابستگی سے سوال اٹھتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ محکم دین کی بھی بیگ سے نفسیاتی وابستگی ہے۔ یہی سوال کردار ”خفیف مخفی” کے ذہن میں بھی نمودار ہوتا ہے:

”بعض بد قماش لوگ بے جان اشیاء مثلاً جوتوں، موزوں، بنیانوں، انگوٹھیوں حتیٰ کہ قلم دانوں کے ساتھ بھی کچھ انتہائی نامناسب قسم کے نفسیاتی تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اب میں یہ نہیں کہتا کہ محکم دین اور عزیزی گتھلا (بیگ) کے درمیان بھی کچھ اسی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس شک کو پوری طرح ذہن سے نکال بھی نہیں سکتا ۔” 9

محکم دین اور بیگ کے ایک دوسرے پر قابض ہونے (نفسیاتی لحاظ سے) کی وجہ سے کردار خفیف مخفی دونوں کو ایک دوسرے کا آسیب قرار دیتا ہے۔

قدیم زمانے (تیسری صدی قبل مسیح) سے ستاروں کا علم ( astrology) اور ان کا انسانی زندگی پر اثر، بہت اہمیت کا حامل موضوع رہا اور یونانیوں کے ہاں اسے باقاعدہ ایک علمی جہت کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اور انسانی لاشعور میں ابھی تک ستاروں کی حرکت کا انسان پر اثر، کے اثرات باقی ہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ دور میں بھی بعض لوگ اپنا ہر کام ستاروں کی گردش دیکھ کر شروع کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ نے ناول میں ستاروں کے علم   (Astrology) اور انسانی نفسیات (psychology) کے متعلق بھی کافی بحث کی ہے۔ astrology کو ہمیشہ وقت کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے کہ ستاروں کی گردش کے لحاظ سے وقت بہترین گزرے گا یا خراب۔ مگر مرزا اطہر بیگ نے اس موضوع کو نفسیات کی نئی جہت نحوست اور اس کا انسان پر اثر، اور ماورائے عمومی کے تناظر میں بیان کرنے کا سوال اٹھایا ہے ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ نحوست اور ستاروں کی گردش کا کیا تعلق ہے۔  نحوست کیا ہے۔ وہ اسے اپنے نظریے سے یوں بیان کرتے ہیں:

”میرا ایک نیم پختہ سا نظریہ یہ بھی ہے کہ حاسدوں کا حسد، دشمنوں کی بد خواہی، ان کی بدعائیں کہہ لیں ، منفی لہروں کی صورت میں آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لہریں بظاہر برقی مقناطیس کے دائرے میں تو نہیں آتیں ، لیکن شاید یہ کسی بد روحانی لیزر کی صورت میں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس نحوست کی قوت جب ہمارے اُوپر اثر انداز ہوتی ہے تو ہم چھوٹے موٹے، بظاہر غیر مہلک حادثات کا شکار ہو نے لگ جاتے ہیں۔ جیسے راہ چلتے چلتے خواہ مخواہ کہیں ٹھڈا لگ جانا۔۔۔۔۔۔ کار کے دروازے میں ہاتھ آجانا ۔۔۔۔۔۔ آخری گنڈیری کا انتہائی پھیکا نکل آنا ، کسی امتحانی پرچے میں بین انہی سوالات کا آجانا، جنہیں سب ہی غیر اہم کہتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ یہ سب بظاہر معمولی باتیں نحوست کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔“ 10

اپنے دوست ، جو کہ فرانس کا باشندہ اور ماورائے عمومی کا محقق ہے اور نام ہے موسیو لافاں، سے گفتگو کرتے ہوئے خفیف مخفی astrology کو نفسیات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کا رشتہ ماورائے عمومی تحقیق سے یوں استوار کرتا ہے:

”Astrology (علم سیارگان)  تو انتہائی پیمائشی ہے اور نحس گھڑیوں ساعتوں کا ذکر عام ملتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نحوست کو علم سیارگان کے ذریعے پیمائشی بنا سکتے ہیں۔“ 11

انسانی نفسیات اور جادو (غیر فطری واقعات کو ظہور میں لانے کا فن) میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اور اس گہرائی کے سوتے قدیم مصری، بائبل اور قدیم ویدک علوم و فنون سے پھوٹتے ہیں۔ اگر انسان کے نزدیک کچھ بھی ایسا واقعہ رونما ہو جو کہ غیر فطری ہو اسے یا تو جادو کا نام دے کر یا جن بھوت کے سر ڈال کر خود کو تسکین دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی جادو کو ایک فن کا نام دیا گیا ہے جو سیکھا جا سکتا ہے۔12 ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ میں جادو کو Paranormal Psychology کے تحت زیر بحث لایا گیا ہے اور ہر اس واقعہ کو جو غیر فطری ہو مثلاً  کپڑوں میں خود بخود آگ لگ جانا ، اچانک پتھر برسنے لگانا ، کپڑوں کو کٹ لگ جانا وغیرہ کو paranormal psychology کی علیحدہ اصطلاح سے بیان کیا گیا ہے۔ ناول کا کردار خفیف مخفی ایک پیرا نارمل سائیکالوجی محقق ہے۔  اسے اطلاع ملتی ہے کہ ایک گھر میں کپڑوں کو پڑے پڑے آگ لگ جاتی ہے اور وہ اسے جادو کے نام کر دیتے ہیں ۔ مگر خفیف مخفی کہتا ہے کہ وہ جادو نہیں، لوگ جادو اس وجہ سے قرار دیتے ہیں کہ ان کے لاشعور میں دفن صدیوں کے واقعات انہیں ایسا کہنے پر اکساتے ہیں۔ خفیف مخفی کہتا ہے کہ یہ Pyrokinesis ہے ( پیرا ناریل سائیکالوجی (Paranormal psychology) میں کپڑوں میں خود بخود آگ لگ جانے کے واقعہ کو Pyrokinesis کہتے ہیں)۔

”بی بی کے گھر سے اطلاع ملی کہ وہاں اپنے آپ کپڑوں میں آگ لگ جانے کے محیر العقول واقعات رونما ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں تحقیق کرنے گیا لیکن پھر یہ پیچیدگی پیدا ہونے لگی کہ آگ کپڑوں کے علاوہ کپڑے پہنے والوں تک بھی پھیلنے لگی “13

انسان کا نفسیاتی مسئلہ ہے کہ جب وہ کسی کام کو مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے چاہے کام تخلیقی ہو یا تحقیقی ، اگر وہ کامیابی کے نزدیک ہو اور کسی شخص کی مداخلت یا حقائق چھپانے سے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے اور کچھ عرصہ بعد اسے معلوم ہو کہ اسے ناکامی فلاں شخص کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تو وہ آگ بگولا ہو جاتا ہے۔ اور ایسی ہی نفسیاتی کشمکش کو نفسیات کی اصطلاح میں ذہنی دباؤ کہتے ہیں اور نفسیات کی رو سے ذہنی دباؤ غصہ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایسی ہی نفسیاتی بحث اور ذہنی دباؤ اس ناول میں بھی زیر بحث ہے۔ مخفی ایک جگہ آسیب زدگی یعنی Haunting place کا مطالعہ کرنے جاتا ہے اور وہاں ایک کمرے میں اپنے ملازم کو بند کر دیتا ہے ۔ رات کو وہاں کمرے میں چیزیں خود بخود حرکت کرتی ہیں اور اچانک دھواں پھیل جاتا ہے۔ اس عمل کی پیرا نارمل سائیکالوجی کی اصطلاح میں  Poltergeist phenomena کہتے ہیں۔  مگر محکم دین (ملازم) تمام حقائق خفیف مخفی سے چھپا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ رات کو کوئی غیر فطری واقعہ نہیں ہوا۔ مگر ایک دن محکم دین بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس رات مخفی نے اسے کمرے میں بند کیا تھا، وہاں غیر فطری واقعات رونما ہوئے تھے۔ جیسا کہ خون کے چھینٹے پڑنا اور اچانک دھواں سا ہو جانا۔ یہ سن کر مخفی آگ بگولا ہو جاتا ہے:

”غلط بیانی کرنا، سائنسی حقائق کو چھپانا، تجزیاتی عمل کا بیڑہ غرق کرنا، تیرے فرائض میں شامل ہے؟  کیوں تو نے ایسا کیا؟ بول اگر کچھ بول سکتا ہے تو۔ اپنے اس ناقابلِ معافی تحقیقی جرم کا کوئی جواز دے سکتا ہے تو دے۔۔۔۔۔“ 14

انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص ایسی بات بیان کر جاتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھی۔ تو وہ کوئی نہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ بات کا رخ کسی دوسری جانب موڑ کر بیان کی گئی بات کے اثرات کو زائل کر سکے۔ محکم دین کے ہاں بھی ایسا رویہ ملتا ہے جب وہ غلطی سے خفیف مخفی کو یہ بتا دیتا ہے اس نے حقائق پوشیدہ رکھے۔ بلکہ دوسرے معنوں میں چھپائے۔  وہ خفیف مخفی کو دوسری باتوں میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر خفیف مخفی بات کو پھر وہاں لے آتا ہے۔ جب تمام حربے ناکام ہو جاتے ہیں تو محکم دین تمام معاملہ ہوا اور چوہوں پر ڈال دیتا ہے، کہ اس رات ریڈیو محل کے اندر جو کچھ ہوا وہ چوہوں کی بھاگ دوڑ اور تیز ہوا کے باعث تھا۔ اس بات پر خفیف مخفی یوں جواب دیتا ہے:

”چوہے! ستیاناس۔ موسیو لافاں کا خیال ہے کہ ماورائے عمومی مظاہر کی صداقت کے بارے میں شکوک کا اظہار کرنے والوں، اور کھینچ تان کر ماورائے عمومی مظاہر کے نہایت گھٹیا عام سے مادی اسباب تلاش کرنے والوں کا کام جتنا چوہوں اور ہوا نے آسان کیا ہے،  شاید ہی کسی دوسری چیز نے کیا ہو۔ اور اب یہ محکم بھی رانی کوٹ کے اس clear cut poltergeist case میں چوہوں کے عمل دخل کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ افسوسناک ہے۔“ 15

ماضی ایک تلخ حقیقت ہے اور اس سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا۔ ہر شخص کی زندگی میں ماضی ضرور اثرانداز ہوتا ہے۔ کبھی اس فیصلے کے نتائج کی صورت میں جو ماضی میں کیا گیا تھا۔ تو کبھی اس صلے کی صورت میں جو ماضی میں کی گئی محنت کا نتیجہ ہے۔ حال سے ماضی کو جدا کرنا جسم سے روح جدا کرنے کے مترادف ہے، مگر اس کے باوجود تلخ یادوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا، حال کی تندرستی کا باعث بھی ہے۔

”حال کبھی ماضی سے جدا نہیں ہوتا۔ ماضی کے تجربات کو بروئے کار لانے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ وہ آپ کو ماضی کا اسیر نہ بنا دیں۔“ 16

آپ بیتی ہو یا خواب بیتی، اس کی تکمیل ماضی کے واقعات و تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے۔ اور اگر یادِ ماضی نہ ہو تو آپ بیتی کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ مگر یہاں نکتہ یہ ہے کہ یادِ ماضی کو مستقبل کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

مرزا اطہر بیگ نے ناول تخلیق کیا ہے اور ناول خفیف مخفی کی زندگی کے ان واقعات کے گرد گردش کرتا ہے جو اسے ماضی میں پیش آئے۔ اور اب وہ اپنے ملازم جسے وہ PRA (psychic Research assistant) کہتا ہے کی مدد سے واقعات پر مبنی یاد داشتیں مرتب کر رہا ہے۔ اس جگہ حال اور ماضی ایک دوسرے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اچانک حال سے ماضی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ماضی میں آنکھ کھل رہی ہوتی ہے کہ محکم دین کوئی بات کر کے حال حاوی کر دیتا ہے۔ اس ناول کے تناظر میں یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا:

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 17

کیونکہ اگر خفیف مخفی یا محکم دین کا حافظہ چھین لیا جائے، تو ماضی مٹ جائے گا اور ماضی کے مٹ جانے کا مطلب زندگی میں پیش آچکے واقعات کی موت ہے۔ اور واقعات کی موت کے بعد یاد داشتوں پر مبنی خواب بیتی کی  تکمیل کا سوال فضول ہو کر رہ جائے گا۔ انسانی نفسیات کا حصہ ہے کہ بچپن میں لڑکا ماں کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور لڑکی باپ کے قریب۔ نفسیاتی اصطلاح میں اس عمل کو ایڈی پس الجھاؤ کہتے ہیں۔ ایڈی پس الجھاؤ کے تناظر میں سیکنڈ فرائیڈ نے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے۔ 18

”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ میں اس موضوع کے متعلق خفیف اشارے موجود ہیں۔  ناول کی جب ابتدا ہوتی ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ خفیف مخفی (ناول کا کردار)  اپنی اہلیہ سے جھگڑ کر دوسرے مکان میں اٹھ آیا ہے۔ خفیف مخفی یاد داشتیں مرتب کرتے ہوئے ایک جگہ اپنے بیٹے، جس کا نام فیصل ہے، کا ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے زیادہ نزدیک ہونے کے سبب اس کا سب سے بڑا نقاد ہے۔ اس اشارے سے نفسیاتی اصطلاح ایڈی پس الجھاؤ کا سراغ ملتا ہے۔

”اس بظاہر افسوسناک صورتحال (بیوی سے جھگڑا اور جسمانی علیحدگی) میں کسی حد تک میرے بڑے بیٹے فیصل کا بھی ہاتھ ہے۔ میرے اہل خانہ میں اہلیہ کے بعد فیصل میرا سب سے بڑا نقاد ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ مجھے باقاعدہ ناپسند کرتا ہے۔ گُھنا ماں کا اندھا طرف دار ہے۔ “ 19

پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات پر غور و فکر کرنے کی بجائے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی چاہے خراب ہو مگر دوسرا شخص اپنے روزمرہ کے معمول میں تھوڑا بدلاؤ لائے تو تمام لوگ باتیں بنانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس کا جینا محال کر دیتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنی زندگی کی بجائے دوسرے لوگوں کی زندگیوں پر حاوی ہوتے ہیں۔ اور یہاں کے معاشرے میں بڑا بھائی بادشاہ کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اگر چھوٹا بھائی اپنے معمول میں کچھ بھی بدلاؤ لائے تو بڑا بھائی بادشاہ کی مانند اس پر حکم چلانا شروع کر دیتا ہے۔  یہ اس معاشرے کی مجموعی نفسیات ہے۔ اسی مجموعی نفسیات کو مرزا اطہر بیگ نے ناول کے دو کرداروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ حاکم دین اور محکم دین دونوں بھائی ہیں۔ محکم بڑا اور حاکم چھوٹا ہے۔ اپنے نام کے معنی کے برعکس محکم دین ، حاکم دین کی زندگی کا حاکم ہے۔ محکم دین خفیف مخفی کا ملازم ہے اور حاکم دین اسکول کا ماسٹر ۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ محکم دین ، خفیف مخفی اور مخفی کے دوست موسیو لافاں کو ایک ایسی جگہ لے جا رہا ہوتا ہے جہاں سانپ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حاکم دین ان کے پیچھے آ جاتا ہے اور خفیف مخفی کو بتاتا ہے کہ وہاں کے سانپ بہت زہریلے ہیں۔ اور وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ حاکم دین کو وہاں دیکھ کر محکم دین اسے یوں مخاطب کرتا ہے:

” ’سیکل پر دوڑ تو نے پیچھے لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں۔ تیرا فرض یہ ہے حاکم تو ساتویں سی کا ریاضی کا پیریڈ لے جا کر۔۔۔۔۔۔۔۔‘ محکم نے اپنی کلائی کی گھڑی پر  نظر ڈالتے ہوئے گرجنا شروع کیا۔ ’بلکہ اب تو تیرا چھٹی اے کا سائنس کا شروع ہونے والا ہے پیریڈ۔ تیرا فرض تھا بچوں کو ذواضعاف اقل کا طریقہ پڑھاتا۔۔۔۔۔ تم بھگوڑے سکول ماسٹروں نے قوم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ “ 20

یہ معاملہ دیکھ کر موسیو لافاں، جو کہ فرانسیسی پیرا نارمل واقعات کا محقق ہے، حیران ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے معاملات کے متعلق اتنی زیادہ معلومات اور وہ بھی وقت کے ساتھ کس طرح حاصل کرسکتا ہے۔ ایک شخص دوسرے کی زندگی پر اتنا حاوی کیسے ہو سکتا ہے۔  اسی حیرانی میں وہ خفیف مخفی سے سوال کرتا ہے:

”میرے عزیز دوست۔۔۔۔۔۔ اب میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ یہ بڑا بھائی یہ تمہارا سائیکک  ریسرچ اسسٹنٹ اپنے اسکول ٹیچر چھوٹے بھائی کی زندگی پر کیسے اتنا حاوی ہو سکتا ہے کہ اس کے سکول ٹائم ٹیبل کی ایک ایک تفصیل اسے زبانی یاد ہے۔ کیا یہ ایک حیرت انگیز صورتحال نہیں ہے؟  آخر اسے کیسے سمجھایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ایک معمہ نہیں ہے؟“ 21

خواب انسانی زندگی کا اہم جزو ہے اور اس جزو کا انسانی زندگی میں اہم کردار۔  قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ خواب کی کیا اہمیت ہے۔ خواب پر غالباً سب سے قبل ہیپو قرطیس (Hippu Crates) نے بحث کی۔ 22

خواب کو بعض سائنس دان اور نفسیات دان سوتی ہوئی عقل (Mind) میں پیدا ہونے والی خطائے حس

(Hallucination)کہتے ہیں۔

مرزا اطہر بیگ نے بھی اپنے ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ میں خواب پر بحث کی ہے اور اس کا paranormal psychology  سے تعلق جوڑا ہے۔  انسانی نفسیات کا ایک اہم جز ہے کہ انسان اپنے فائدے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ مرزا اطہر بیگ نے اسی نفسیات نکتہ کو خواب کے تناظر میں یوں بیان کیا ہے۔

”لوگ خوابوں میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔“ 23

تاریخ کے اوراق میں ڈوب کر دیکھا جائے تو خواب کے متعلق تمام فلسفیوں ، سائنسدانوں اور نفسیات دانوں کے ہاں ایک نکتہ مشترک ہے۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خواب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اور جو انسان خواب دیکھتا ہے وہ اس کی ذاتی زندگی، شعور، اور لا شعور کے عکاس ہوتے ہیں۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک ہی خواب میں بیک وقت دو لوگ موجود ہوں اور ایک خواب دیکھا رہا ہوں تو دوسرا دیکھ رہا ہوں۔ مرزا اطہر بیگ خواب کی اسی جہت پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے، اس کا رشتہ پیرانارمل سائیکالوجی سے جوڑتے ہیں۔

خفیف مخفی ناول کا کردار، آمنہ دلشاد نامی عورت کے خوابوں، ان کی نوعیت، نتائج اور اثرات پر تحقیق کر رہا ہوتا ہے تو آمنہ دلشاد انکشاف کرتی ہوئی خفیف مخفی سے کہتی ہے، ابھی وہ سچے خواب باقی ہیں جو دیکھے تم نے اور دکھائے میں نے۔

” ابھی میں نے تمہارے سچے خواب سنائے ہیں تمہیں۔ جن خوابوں میں تم خود ہو اور جو اصل میں دیکھے تم نے اور دکھائے میں نے۔“ 24

خواب کی یہ نئی جہت تجسس آمیز  اور تحقیق طلب ہے۔ یہ نکتہ پہلی بار بیان کیا گیا ہے۔ اس کا اعتراف کردار خفیف مخفی بھی کرتا ہے۔

” اب یہ تجسس مجھے مار ڈالے گا۔ یہ سب تم کیا کہہ رہی ہو۔  یہ انتہائی confusing ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی بار یہ phrase سنی ہے۔“ 25

انسان نفسیاتی طور پر جمال پرست ہے اور اپنی جمالیاتی حس کی تسکین کے لئے وہ خوبصورتی کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ خوبصورتی کی کئی اقسام ہیں مثلا فطرتی، نسوانی، حیوانی، کائناتی اور انسانی وغیرہ۔ خوبصورتی کو کسی بھی تعریف میں سمویا نہیں جا سکتا۔  سوائے اس کے کہ خوبصورتی خوبصورتی ہے۔ اردو ادب میں جمال پرستی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ اردو ادب کے پہلے باقاعدہ شاعر ولی دکنی جمال پرست تھے۔  26 اس کے ساتھ یہ رمز بھی موجود ہے کہ حسن و جمال کو وہی تلاش سکتا ہے جس کے پاس نگاہِ جمال ہو۔ مگر :

ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی 27

مرزا اطہر بیگ کے کردار اسی جمالیاتی حس کے حامل ہیں جس کا تقاضا نفسیات کرتی ہے۔ ان کے ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کا کردار خفیف مخفی،  حسن اور فطرتی خوبصورتی کا دلدادہ ہے۔  وہ کبھی نسوانی حسن کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو کبھی فطرتی خوبصورتی میں کھو جاتا ہے۔  کبھی آسمان کو تکتا ہے، ڈھلتی شام کا نظارہ کرتا ہے، تو کبھی پہاڑوں سے ٹکراتی ہوا کے نفیس لمس میں مدہوش ہو جاتا ہے۔

اطہر بیگ فطرتی اور مصنوعی حسن کے امتزاج کو لفظوں میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نسوانی حسن کو بھی بیان کرتے ہیں۔

”پھر میں کھلی کھڑکی کی راہ سے پھول نگر میں اترتی گہری شام کو دیکھنے لگتا ہوں۔ برقی روشنیاں اب ہر طرف نظر آرہی ہیں اور دور پیچھے پہاڑوں میں ظاہر ہو کر بتا رہی ہیں کہ لوگ کیسی کیسی عجیب جگہوں پر آباد ہیں۔ دوسرے پہاڑی علاقوں کی طرح اپنے علاقے کی یہ بات بھی مجھے بہت پسند ہے۔ میدانی علاقوں میں ایسا نظارہ ممکن نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ پری پیکر ہنسی جیسے بجلی چمکی ۔۔۔۔۔۔ قیامت خیز حسن۔۔۔۔۔۔۔۔ میں قدیم گول کوٹ کی اساطیری گلیوں میں ہوں اور جذب کے گرداب میں چکرتا حسین عورتوں کو بد دعائیں دے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجذوب اٹل حسن کا وہ گلدان مجھے دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چینی کے آخری گلدان کو سینے سے لگاتا ہوں۔ “ 28

اس ناول میں نہ صرف انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، بلکہ جانوروں کی نفسیات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔  کیونکہ اس کتاب کا مرکزی موضوع پیرانارمل سیکالوجی ہے اس وجہ سے جانوروں کی نفسیات کو پیرا سیکالوجی کی اصطلاح Anpsi (جانوروں میں پیر نارمل صلاحیتوں کا اظہار) کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اور کمال کا نکتہ یہ ہے کہ Anpsi کو آواگون کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

خفیف مخفی اور موسیو لافاں پہاڑی علاقے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ حاکم دین ( کردار ”محکم دین“ کا چھوٹا بھائی۔) آ کر انہیں آگاہ کرتا ہے کہ یہ علاقہ بہت خطرناک ہے اور یہاں زہریلے سانپ ہوتے ہیں۔ اتنی بات ہو رہی ہوتی ہے کہ ایک درخت سے سانپ نیچے چھلانگ لگا دیتا ہے اور کچھ دیر میں جھاڑیوں میں گھس جاتا ہے۔ یہ سارا واقعہ دیکھ کر موسیو لافاں ( کردار) اپنے دوست خفیف مخفی کو کہتا ہے کہ یہ محض سانپ نہیں ہوسکتا، بلکہ شاید آواگون کے چکر میں پھنسا ہوا کوئی اور ہی وجود ہے۔

”وہ محض سانپ نہیں تھا میرے دوست معاملہ کچھ اور ہے۔ چلتے ہیں واپس چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ سانپ پچھلے جنم میں آواگون کے چکر میں انسان تھا۔ اگرچہ بندر بھی ہوسکتا تھا لیکن اس کا امکان کم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ہم سانپوں کی فطرت جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یا تو رینگتے ہیں یا لپٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کالے ناگ نے ایک ایسی حرکت کی جو بطور سانپ اسے نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے درخت سے ہمارے اوپر چھلانگ لگائی۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سانپ پر کسی دوسری جاندار ہستی کا اثر غالب آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسی کسی ہستی کا تعلق یا تو سانپ کے پچھلے جنم سے ہوسکتا ہے یا پھر اگلے جنم سے۔“ 29

جانوروں کی نفسیات کے تناظر میں اس نکتہ پر بھی گفتگو ملتی ہے کہ آخر جانوروں کو کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے قبل اس کا علم کس طرح ہو جاتا ہے۔

خفیف مخفی ایک جگہ کتے ، جو کچھ دنوں سے عجیب حرکتیں کر رہا تھا، پر تحقیق کرنے جاتے ہیں۔ وہاں پر اس کتے کا مالک بیان کرتا ہے کہ زلزلہ آنے سے قبل کتا عجیب حرکتیں کر رہا ہے۔ خفیف مخفی کتے کے مالک کا پھٹا ہوا کرتہ دیکھ کر کہتا ہے۔

”مجھے لگتا ہے شاہ جی ڈبو نے آپ کا کرتہ منہ میں پکڑ کر کھینچا بھی تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ کل زلزلہ آ رہا ہے۔ اپنا بچاؤ کر لیں۔“ 30

کتے کا مالک کہتا ہے یہ سچ ہے۔ کبھی بھونکتا تھا اور کبھی کرتہ منہ میں ڈال کر کھینچنے لگتا تھا۔

اس طرح کچھ اور جانور مثلاً بلی وغیرہ کی نفسیات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور ان کی حرکات، ماحولیاتی حالات اور نفسیات کے باہمی تعلق پر گفتگو ملتی ہے۔

روحانی طور پر اپنے جسم سے الگ ہو جانا اور پھر اپنے جسم کو بستر پر سوتے ہوئے دیکھنا ایک نفسیاتی معمہ ہے جسے انگریزی میں Out of body experience کہا جاتا ہے۔

اردو ادب میں اس کی مثال موجود ہے۔ مگر اسے نفسیاتی کینوس کی بجائے روحانی لباس دیا گیا ہے۔  قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں اپنی زندگی کے ایک ایسے ہی تجربہ کا ذکر کیا ہے جب وہ اپنے جسم کو بستر پر پڑا اور خود کو اسے دیکھتا ہوا پاتے ہیں۔

”ایک رات میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا مراقبہ موت کی مشق کر رہا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرا جسم فوم کے گدے اور چارپائی کی ٹھوس لکڑی سے گزر کر نیچے فرش کے ساتھ جا لگا ہے۔ میں نے گھبرا کر اٹھ کر دیکھا تو چارپائی پر میرا اپنا وجود بھی بدستور لیٹا ہوا تھا۔“ 31

مرزا اطہر بیگ ناول خفیف مخفی کی خواب بیتی میں ایسے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ اردو کی درج بالا روایت کا تسلسل معلوم ہوتے ہیں۔ مگر عمیق  نظری سے دیکھا جائے تو مرزا اطہر بیگ کے ہاں بیان ہونے والے OBE واقعات کا تعلق اس روایت سے ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ روایت روحانی عنصر اور تصوف سے جڑی ہوئی ہے جبکہ مرزا اطہر بیگ کے یہاں ایسے واقعات پیرانارمل سیکالوجی کا حصہ ہیں۔ اسی تناظر میں مرزا اطہر بیگ کا کردار خفیف مخفی ایک واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک روز وہ اور محکم دین لاہور سے کتابیں خریدنے گئے تو کتابوں والے کے پاس ایک لال ٹوپی والا بوڑھا کھڑا تھا۔ اور کچھ دیر بعد جب وہ باغ میں گئے تو وہی بوڑھا وہاں بھی موجود تھا۔

” یہ جو بندہ ہے لال ٹوپی والا اس پر نظر رکھنا۔ یہ ادھر ادھر نہ ہونے پائے۔ میں پرانی کتابوں کی دکان کو جا رہا ہوں دوسرے لال ٹوپی والے کو چیک کرنے جو مجھے یقین ہے کہ یہی شخص ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دونوں میں سے astral projection کون ہے۔“ 32

Out of body experience سے آگے بڑھ کر مرزا اطہر بیگ نے Out of Mind experience کی اصطلاح کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اردو ادب میں ایک نیا اضافہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کا کردار خفیف مخفی کہتا ہے کہ OBE تو ممکن ہے مگر وہ OME پر تحقیق کر رہا ہے۔ اس کے متعلق وہ یوں کہتا ہے۔

”میں نے OB کے مقابلے میںOM کا تصور دیا یعنی جسم سے باہر نکل کر جسم کو دیکھنا ہی نہیں بلکہ ذہن سے باہر نکل کر ذہن کو دیکھنا۔ “ 33

المختصر مرزا اطہر بیگ کا ناول، ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ نفسیات کا ایسا دریا ہے جس میں paranormal psychology, astrology, out of body experience, demonology, quantum physics, psychokinesis, demonic possession, clairvoyance, poltergeist, disembodied intelligence, reincarnation, ventriloquism, behaviorism time travel کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے موضوعات کو انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی نفسیات کے ساتھ جوڑ کر بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ یہ اتنے تنوع پہلوؤں پر مبنی ناول ہے کہ اس پر سانئسی اردو نوعیت کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ناول  کو نفسیاتی پہلو سے زیر بحث لایا گیا ہے اس کے علاوہ اور کئی جہات کو زیر نظر رکھ کر کئی پہلوؤں سے اس ناول کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

حواشی:

1)   احمد فراز ، کلیاتِ احمد فراز ، نیو دہلی، فرید بک ڈپو ، ۲۰۱۰ء، ص۱۴۰

2)   سید احمد دہلوی، فرنگ آصفیہ، جلد اول، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، 1974ء، ص863۔

3)   سید احمد دہلوی، فرنگ آصفیہ، جلد سوم، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 1998ء، ص 2065۔

4)   ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر علی محمد خاں، اصنافِ نظم و نثر ، لاہور، کاروان بک ہاؤس، ۲۰۲۱ء، ص ۱۹۰۔

5)   مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، 2022ء، ص110-111۔

6)   ایضاً ، ص 124-125۔

7)   ڈاکٹر سلیم اختر ، تین بڑے نفسیات دان، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء، ص ۸۶۔

8)   اورحان پاموک ، رنگ ہائے دیگر، مترجم نعمان عادل، مقالہ برائے ایم فل اردو، جی سی یونیورسٹی لاہور ، غیر مطبوعہ۔

9)   مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 14-15۔

10)                 ایضاً ، ص 36-37۔

11)                 ایضاً ، ص 38۔

12)                 قرآن مجید ، سورۃ البقرہ ، آیت نمبر 102۔

13)                 مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 19۔

14)                 ایضاً ، ص 47۔

15)                 ایضاً ،ص 554۔

16)                 آصف علی، یادِ ماضی ، مضامین ڈاٹ کام ، 24 فروری 2018ء۔

17)                 روحی کنجاہی ، منتخب شاہکار اشعار ، الحمدللہ پبلی کیشنز، 1993ء، ص192ء۔

18)                 ڈاکٹر سلیم اختر ، تین بڑے نفسیات دان، لاہور ، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء۔

19)                 مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 19۔

20)                 ایضاً ، ص 85۔

21)                 ایضاً ، ص 86۔

22)                 ڈاکٹر سلیم اختر ، تین بڑے نفسیات دان، ص 91۔

23)                 مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 628۔

24)                 ایضاً ، ص 624۔

25)                 ایضاً ۔

26)                 ڈاکٹر تبسم کاشمری، اردو ادب کی تاریخ ، لاہور ، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء۔

27)                 ابنِ انشاء ، اس بستی کے اک کوچے میں، لاہور، لاہور اکیڈمی ، ۱۹۸۹ء، ص ۱۵۵۔

28)                 مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 73,123,675,680۔

29)                 ایضاً ، ص 90,91,98۔

30)                 ایضاً ،ص 584۔

31)                 قدرت اللہ شہاب ، شہاب نامہ، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ، 2003ء،ص ۱۱۷۹۔

32)                 مرزا اطہر بیگ ، خفیف مخفی کی خواب بیتی ، ص 55۔

33) ایضاً ، ص 692۔

***

Leave a Reply