محمد اویس ملک
ناول’’ھیچ ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
تلخیص:
انیس اشفاق ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔وہ بہ یک وقت ایک فکشن نگار، شاعر، ترجمہ کار اور نقاد ہیں۔انہوں نے چوبیس سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ان کا پسندیدہ موضوع لکھنئو کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے اُن پوشیدہ روایات و اقدار کو اکیسویں صدی کے قارئین کے سامنے پیش کرناہے جن کی بدولت شہرِ لکھنئو کو ’’ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ‘‘ کہاگیا ہے۔ناول’’ ھیچ‘‘ سے قبل ان کے تین ناول ’’دکھیارے‘‘ (۲۰۱۴)، ’’خواب سراب‘‘ (۲۰۱۷) اور ــ’’پری ناز اور پرندے‘‘ (۲۰۱۸) منظر عام پر آچکے ہیں۔ان ناولوں کو ادبی حلقوں میں خوب پزیرائی ملی۔’’ھیچ‘‘ ناول کو بھی سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی مظہر کا بہترین نمونہ قرار دیا جاتاہے۔یوں تو انیس اشفاق کے قلم سے جو بھی ادب پارے نکلے ہیں وہ سنجیدہ علمی اور ادبی حلقوں میں بہ نظر افتخار دیکھے گئے ہیں تاہم اُن کا تازہ تخلیقی فن پارہ’’ھیچ‘‘ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں جگہ جگہ ثقافتی زوال پزیری کی مثالیں نظر آتی ہیں۔زیر نظر مقالہ ’’ھیچ‘‘ کے ہی متن کا تجزیہ کرکے اُن سیاسی، تہذیبی، اور ثقافتی عوامل و عناصر کو نشان زد کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن پر اہلِ لکنھئو نازاں رہے ہیں۔اس اعتبار سے یہ مجوزہ مقالہ لکھنئویات کے ایک پہلو کی طرف قارئین کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگا۔
کلیدی الفاظ:
دکھ،تقسیم ِبر صغیرِ،ہجرت،ذہنی انتشار،تشخص،وجودیت،اجنبیت،مشترکہ تہذیب،سیاسی انتشار،ثقافتی زوال پزیری،ادبی و لسانی خصوصیات،معاشرتی صورتِ حال
اصل موضوع:
ناول’’ھیچ‘‘ انیس اشفاق کا چوتھا ناول ہے۔اس ناول کو انہوں نے انیس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔یہ ناول کم اور برصغیر کی تاریخ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔اس ناول میں شیعـہ سنّی فسادات،تقسیمِ برصغیرِ ہند،مذہبی،سیاسی اور تہذیبی وراثت کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
ناول کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:
’’اور جب مجھے یقین ہوگیا کہ میرے مرنے کے دن قریب آرہے ہیں تو میں نے وہ سب لکھنا شروع کیا جو اب تک نہیں لکھا تھا اور وہ اسطرح تھا۔‘‘ ؎۱
یہ ناول فلیش بیک کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔سادہ بیانیہ میں لکھا گیا یہ ناول جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے۔ناول کی شروعات دُکھ سے ہوتی ہے اور یہ دُکھ شہنام کی چھوٹی ممانی عصمت کی موت کا ہوتا ہے۔عصمت عارضئہ دق میں مبتلا ہوتی ہے ۔دق کا مرض پھیلتا ہے اس وجہ سے لوگ ان کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں لیکن ذکّن ایسی عورت ہے جو اس کی تیمارداری مرتے دم تک کرتی رہتی ہے۔جب ان کی موت واقع ہوجاتی ہے تو عصمت کو دھچکا سا لگتا ہے:
’’ممانی کے مرنے کے بعد ماں بہت اداس رہنے لگی تھی،اکثر بڑی ممانی سے کہتی:
’عصمت کی سانس رکی تو میری سانس بھی اسی دن رک گئی۔حسن جہاں اب مجھے مردہ ہی سمجھو۔‘ ؎۲
دراصل لفظ’ دُکھ‘ انیس اشفاق نے استعارہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے کیوں کہ ناول جوں جوں آگے بڑھتا ہے دُکھ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔عصمت کے مرنے کے بعد یہ دُکھ فسادات کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔تقسیمِ بر صغیر کا پوشاک اوڑھ لیتا ہے۔
’’یہاں تو منظر دوسرا ہے،ممانی نے کہا:
ہم ایک سے دو کیا ہوئے علاقے کے علاقے خون میں نہائے گئے۔‘‘ ؎۳
اسی صورتحال کو ایک اور جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’اماں صاحبہ بتاتی تھیں:ابھی ستّاون کا زخم ہرا تھا کہ بڑی جنگ سر پر آگئی۔عجیب عالم تھا اس وقت باہر سے کوئی بھی گھر میں آتا موت کی خبر لاتا۔‘‘ ؎۴
یہ عالم ۱۹۴۷ء کا تھا جب تقسیم کے ساتھ ہی بر صغیر دو حصوں میں بٹ گیا۔ذہنی انتشار اور تشخص کے مسئلے جنم لینے لگے۔مذہب کو نشانہ بنا کر عالمِ انسانیت کو روندھا گیا۔اِس پار ہو یا اُس پار مذہب کی آڑمیں لاکھوں جانوں کا زیاں اٹھانا پڑا۔بہت سارے لوگ بے گھر ہوگئے۔آزادی کے بعد ہندوستان میں جو مسائل درپیش تھے اُن کا اِحاطہ کرتے ہوئے مشتاق احمد وانی لکھتے ہیں کہ:
’’ہندوستان میں بسنے والے قومی وحدت کا جذبہ کھوچکے ہیں۔اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں۔فرقہ واریت، مذہب سے دُوری یا مذہبی کشمکش، مسجد اور مندر کے جھگڑے، علاقائی تعصّب، انسانی حقوق کی پامالی، دھوکہ، فریب، بے ایمانی، خود غرضی، بے حیائی اور جنسی ہوس کی تکمیل، آداب و اطوار، رہن سہن، شادی بیاہ کے رسم و رواج، لباس و پوشاک انگریزوں جیسے۔انسانی ہمدردی اور محبت کے بدلے دولت کا نشہ دل و دماغ پر سوار، محنت و کوشش کے بدلے فضول اور بے جا مشاغل میں سر گرمِ ِ عمل رہنا، صبر و تحمل کے بدلے گالی گلوچ اور اشتعال انگیزی، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکوں لڑکیوں کا کھلے عام پنجہ لڑانا، اس کے علاوہ چرس، بھنگ، افیون، شراب، تمباکو، سگریٹ نوشی اور جوابازی وغیرہ کے علاوہ بہت سی مایوس کن حرکات و افعال ہیں جن میں ہندوستانی قوم ملوث ہے۔‘‘ ؎۵
ایک دو نکات کو چھوڑ کے تمام مسائل کی ترسیل اس ناول میںہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔اگر بات ہجرت کے مسائل کی کریں تو انیس اشفاق نے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں ایک پاگل کے ذریعے ان کو پیش کیا ہے۔ایک پاگل جو زنجیروں میں ہمیشہ جکڑا ہوتا ہے پکارتا رہتا ہیں ’میری آنکھیں‘۔اصل میں یہ بانس منڈی کا باشندہ ہوتا ہے جس کی اکلوتی بیٹی ’قرت العین‘نام کی ہوتی ہے۔تقسیم کے دوران ان کی بیٹی کوشادی کا لالچ دے کراُس پار لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن المیہ یہ ہوا کہ اس کو اِس پار کے لوگوں نے ہی مار دیا۔تب سے وہ قاتل کی تلاش میں ہے کہ مجھے قاتل مل جائے اور میں اس کو یہ پہنی ہوئی زنجیریں پہنادوں۔
ہجرت کا اور ایک پہلو مذہب بھی تھا۔یعنی ہندوستان ہندوں کے لئے اور پاکستان مسلمانوں کے لئے۔لیکن ہوا یہ کہ کچھ اِس پار کے مکیں بن گئے اور کچھ اُس پار کے۔اب جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے پاکستان والے ان کو شبہت و مشکوک کی نظروں سے دیکھنے لگا اور ہندوستان والے ان کو اپنا بوج سمجھنے لگے۔اس سے ہوا یہ کہ دونوں طرف انسانیت پر سختیاں ہونے لگیں۔
ناول ’ھیچ‘ کا ایک موضوع شیعہ سنّی فساد بھی ہے۔۱۹۳۹ء ،۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۹ء میں جو شیعٰ سنّی فسادات بپا ہوے ان کی خونی تصویر یں بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس واقعے کو ’’عریضوں والے بابا‘‘ کے کردار کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ان کی عمر ستّر کے آس پاس کی ہوتی ہے اور لوگ ان کودیکھ کے ’’محسن مرگیا‘‘ کا فقرہ کستے تھے اور یہ ان پر پتھر پھینکتا تھا۔اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ ان کا جواں سال بیٹا جن کا نام محسن تھا اس فساد میں بے قصور مارا گیا تب سے لوگ ان کو محسن مرگیا کہہ کر چڑھاتے اور یہ ان پر مسلسل پتھر برساتا رہتا تھا۔
ان فسادات کو ہوا دینے میں مذہبی ٹھیکے داروں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔لوگوں کو اس طرح اُکسایا گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔
’’پتہ نہیں کیسے کیسے ذاکر پیدا ہوگئے ہیں۔سمجھتے ہیں مجمعے کو اشتعال دلا کر ہی واہ واہی لوٹی جاسکتی ہے۔دونوں طرف ایک سا حال ہے۔دونوں طرف دونوں طرح کے لوگ ہیں۔‘‘ ؎۶
مشترکہ تہذیب کو کس طرح پامال کیا گیا۔ان سطور سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’ہمارے جلوسوں پر حملہ ہوا ہے۔علم اور تعزیے کی بے حرمتی ہوئی ہے۔جان پر کھیل جانے کا وقت ہے۔دوسرے گروہ کی طرف سے آواز آرہی تھی:
ان کی آبادی میں ہماری دکان اور مکان جلائے جارہے ہیں۔مارو۔‘‘ ؎۷
ان فسادات سے لکھنئوی تہذیب پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کو صاف دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔انیس اشفاق کا اصل موضوع ہی لکھنئو کے زوال کے اسباب اور ان کا سدِباب تلاش کرنا ہے۔اس ناول میں بھی ہمیں لکھنئو ی تہذیب کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔وہاں کا رہن سہن، طور طریقے اور اشیائے خوردونوش کا تفصیل سے اس ناول میں ذکر ملتا ہے۔اپنوں کے گھر سے نکلنے کے بعد ان کو قرآنِ کریم کے نیچے سے نکالنا ان کو دعائیں دیتے رہنا ان کا بھی ذکر اس ناول میں خوب ملتا ہے۔
’’دونوں گھروں کی آنکھیں نم تھیں۔ماں نے جانے والوں کو قرآن کے نیچے سے نکالا اور بہت سی دعائیںپڑھ کر ان پر دم کیں اور جب سب کے سب پھاٹک سے نکل گئے تو ماں بستر پر آکے ڈھے گئی اور بہت دیر تک کسی سے کچھ نہیں بولی۔‘‘ ؎۸
ان مذکورہ سطور سے لکھنئو کے رسم و رواج کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔نہ صرف لکھنئوی تہذیب بلکہ اپنوں کے بچھڑ جانے کا دُکھ بھی صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مذہب کی آڑ میں نہ صرف لوگوں کو بانٹا گیا بلکہ ’زبان‘ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔زبان جو کہ وسیلہ ہے اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کا ،اس کو بھی نہیں بخشا گیا۔اس صورتِ حال کو مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ:
’’تو کچھ ترقی ہورہی ہے اردو کی؟۔۔۔۔یہ کہہ کر رکے پھر بولے:
ترقی کیا ہورہی ہوگی یہ تو منھ میں ایک لقمہ رکھ دینے والی بات ہے۔میرے دفتر میں تو لوگ دبی زبان سے کہتے ہیں یہ پاکستانی زبان ہے۔اس کا یہاں کیا کام۔‘‘ ؎۹
دوسری جگہ اس طرح لکھتے ہیں کہ:
’’اردو کو اسی وقت نکالا مل گیا تھا جب ملک آزاد ہوا تھا۔
وہ کیسے؟
یہاں امین الدولہ پارک ہے،امین آباد میںجسے جھنڈے والا پارک بھی کہتے ہیں،وہاں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں ایک تختی پر بہت موٹے حروف میں ہندوستان لکھا تھا۔عین ۱۵؍اگست کو جس دن ملک آزاد ہوا تھا اردو والی تحریر مٹادی گئی۔‘‘ ؎۱۰
ناول ھیچ کا ایک اور وصف یہ بھی ہے کہ اس میں خطوط نگاری کی تکنیک کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے۔اس ناول کی جان ’ شہنو ‘ کی ماں کا خط ہے جو کہ انہوں نے بطورِ وصیت اپنی آخری ہچکی لینے سے پہلے لکھ چھوڑا تھا:
’’اور ہاں تم کہا کرتے تھے میں لکھ سکتا ہوں اور میرا یقین پہلے بھی تھا اور اب ہے کہ تم لکھ سکتے ہو اور جان لو جو لکھ سکتا ہے اس کے لیے قلم ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے اور لفظ ہی سب سے بڑی دولت۔تو کیسا ہی مشکل وقت کیوں نہ ہو ان دونوں کا سودا مت کرنا بلکہ ایسے وقت میں انہیں دونوں سے کام لینا اور بیٹا یہ دنیا خیر و شر کی رزم گاہ ہے۔جب دونوں کے درمیان معرکہ ہو تو خیر ہی کی طرف رہنا اور مجھے یقین ہے تم اسی طرف رہو گے۔‘‘ ؎۱۱
گویا اس خط کے زریعے مصنف ہمیں یہ بتانی کی کوشش کررہا ہے کہ مشکلیں کتنی ہی کیوں نہ ہو ںہمیشہ حق کا ساتھ دیتے رہیں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھاتے رہیںکیوں کہ جو طاقت قلم میں ہے وہ تلوار میں نہیں ہے۔یہی نہیں اس ناول میں اشعار کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔جہاں بھی اشعار کا استعمال ہوا ہے بر محل ہوا ہے اوران اشعار سے ناول میں معنویت اور تہہ داری پیدا ہوگئی ہے۔تانیثیت کا اثر بھی اس ناول میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایک مثال پیش کررہا ہوں:
’’عورت ایک معاملے کو چھوڑ کر اور کسی معاملے میں مرد کی محتاج نہیں۔
کس معاملے کو چھوڑ کر؟
مرد کے بغیر وہ ایک سے دو نہیں ہوسکتی۔
باقی۔۔۔۔۔
باقی ساری چیزیں وہ مرد کے بغیر کرسکتی ہے۔شہلا نے زور دے کر کہا۔یہ جو مرد کے دماغ میں برتری کا بھوت بیٹھا ہوا ہے اسے عورت کسی بھی وقت اتارسکتی ہے۔‘‘ ؎۱۲
اس ناول میں عورت کو خودمختار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔وہ ہر جگہ مرد کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلتی ہے اور کہیں مردوں سے بھی آگے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔’’شہلا‘‘ انہیں عورتوں میں سے ایک ہے جو ناول کے اختتام تک اپنا حق مانگتی رہتی ہے اور ہر ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔
مصنف کی آواز ہمیں مسز بینر جی کے خطبے میں سنائی دیتی ہے جب وہ یونیورسٹی سے الوداعی خطبہ پیش کرتی ہے جو اس طرح ہے:
’’میں یہاں سے جارہی ہوں لیکن میرا دل یہیں رہے گا اور اسی لیے سچ کی لڑائی میں میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی اور عجب نہیں کہ مجھے اس عمر میں بھی جیل کی تکلیفیںاٹھانا پڑیں۔جنہیں سختیاں کرنا ہوتی ہیں وہ عمر دیکھتے ہے نہ عہدہ۔‘‘ ؎۱۳
انسان کا بنایا ہوا ہر ایک چیز مکمل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس ناول میں بھی کچھ خامیاں ہیں جن میں ایک خامی یہ ہے کہ مصنف بیچ بیچ میں چھوٹے چھوٹے الفاظ پر بحث شروع کردیتا ہے جو نہ صرف طوالت کا باعث بنا ہے بلکہ اصل موضوع سے قاری کا دھیان بھی بٹکتا ہے اور یہ اس ناول کا ھیچ معلوم ہوتا ہے۔
دراصل یہ ناول برِصغیر کے درد و کرب کی داستان ہے اور جنگ کے خلاف آواز ہے کیوں کہ جنگ تباہ و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے رب چاہی زندگی کے برعکس من چاہی زندگی کو چنا۔ناول کا اختتام بھی جنگ سے پیدا شدہ حالات پر ہی ہوتا ہے :
’’مجھے نانی کی ماں کی وہ بات یاد آتی ہے جب ان کا کوئی عزیز پہلی بڑی جنگ کی ہولناکیوں کی وجہ سے پاگل ہوگیا تھا۔مجھے ایلیا آنٹی کا یہ جملہ بھی یاد آتا ہے کہ جنگ تو پاگل پن ہی ہے۔لیٹے لیٹے مجھے غضنفر فوجی بھی یاد آتے ہیں جو دوسری بڑی لڑائی سے لوٹنے کے بعد پاگل ہوگئے تھے اور مجھے عریضوں والے بابا بھی یاد آتے ہیں جو لکھنئو کے فساد میں اپنا بیٹا کھو بیٹھنے کے بعد سودائی ہوگئے تھے۔‘‘ ؎۱۴
غرض یہ ناول ہماری تہذیب اور سیاست کا ایسا آینہ ہے جس میں ہم اپنی مٹتی ہوئی گنگا جمنی تہذیب اور سیاست کا دہرا پن اور طاقت کا جارحانہ استعمال کو واضع طور پر دیکھ سکتے ہیں۔اس ناول کا مجموعی پیغام امن و امان اور قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی بقا ہے جو کہ ملک کی ترقی اور اتحاد کے لیے ایک اہم عصری ضرورت ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچانا اور ان کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ، اس ناول کا ایک اہم درس ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ناول ’ھیچ‘،انیس اشفاق،ریختہ پبلی کیشن،اترپردیش،۲۰۲۴،ص:۱
۲۔ناول ’ھیچ‘، انیس اشفاق،ص:۱۳
۳۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۵
۴۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۶
۵۔تقسیم کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران،ڈاکٹر مشتاق احمد وانی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۰۷،ص:۱۲۲
۶۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۲۳
۷۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۲۴
۸۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق، ص:۲۸
۹۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۳۲
۱۰۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۱۲
۱۱۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۱۰۵
۱۲۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۲۰۵
۱۳۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۳۳۰
۱۴۔ناول ’ھیچ‘ ، انیس اشفاق،ص:۳۶۴
محمد اویس ملک
ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف کشمیر سرینگر
ای میل:ovais.urscholar@kashmiruniversity.net
۹۶۹۷۲۱۹۴۷۰