ڈاکٹر محمد نور الحق
شعبۂ اردو ،بریلی کالج ،بریلی
ٹیڑھی لکیر کی ہیئت پر ایک نظر
ٹیڑھی لکیرتحلیل نفسی کے لئے مشہورہے جس میں ایک لڑکی کی عورت بننے تک کی نفسیات کا مطالعہ کیا گیاہے۔اس کا انداز سوانحی ہے اور اس پر آپ بیتی کاعنصر غالب ہے۔اسی وجہ سے اسے عصمت چغتائی کی اپنی زندگی پر استوار ناول تسلیم کیا جاتا ہے اس کا موضوع مرکزی کردار(شمن) کی زندگی کے ٹیڑھے پن کو دکھانا ہے اور یہ ثابت کرناہے کہ ٹیڑھا میڑھا ماحول انسان کو ٹیڑھی لکیر پر چلنے کے لئے مجبور کردیتا ہے بقول مصنفہ:
’’شمن کی کہانی کسی ایک لڑکی کی کہانی نہیںہے یہ ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے اس دور کی لڑکیوں کی کہانی ہے جب وہ پابندیوں اورآزادی کے بیچ خلا میں لٹک رہی تھیںاور میں نے ایمانداری سے ان کی تصویر ان صفحات میں کھینچ دی ہے تاکہ آنے والی لڑکیاں اس سے ملاقات کرسکیں اور سمجھ سکیں کہ ایک لکیر کیوں ٹیڑھی ہوتی ہے اورکیوںسیدھی ہوجاتی۔ ‘‘ ۱؎
مصنفہ نے اپنے اس منصوبہ کے تحت ٹیڑھی لکیر کو تین منزلوں میں تقسیم کیا ہے جو ظاہر ہے کہ کہانی کی پرانی ہیئت ابتداء ، ارتقاء اور خاتمے کو ملحوظ رکھنے کا نتیجہ ہے۔ٹیڑھی لکیر کی تنیوں منزلیں تینتالیس حصے پر مشتمل ہیں۔پہلی منزل میں پندرہ حصے ہیں ، دوسری منزل میںبھی پندرہ اور تیسری منزل میں تیرہ حصے شامل کیے گئے ہیں۔پہلی منزل کی ابتدائی دس حصوں میں شمن کے بالکل بچپنے سے لیکر اسکول جانے کے لائق بننے تک کی نفسیات گھریلو ماحول میں پروان چڑھتے دکھایا گیاہے۔گیارہ سے پندرہ تک بورڈنگ اسکول کی زندگی میں اس کی نفسیات میں ہم جنسی کے رجحان کو نمایا ں کیا گیا ہے۔دوسری منزل میں جنسی نفسیات میں تبدیلی لائی جاتی ہے اور جنس مخالف کی کشش پیدا کی جاتی ہے۔اسکول اور گھر دونوں میں اس طرح کے ماحول پیدا کیے جاتے ہیں۔مسلم درسگاہوںسے کرشچن درسگاہوںمیں ماحول تبدیل کردی جاتی ہے۔گھر سے اٹھاکر دوستوں کے گھر تک پہنچایا جاتا ہے۔دوسری منزل کے پچیسویں حصے میں جنس مخالف کی کشش شمن کو اتنا مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنی محبت کا اعلان کردیتی ہے کہ فوراً ماحول بدل جاتا ہے اور شادی کی خواہش بھی بڑھ جاتی ہے۔ستائیس سے تیس حصے تک ایسا ماحول پیش کیاجاتا ہے جو ترقی پسندوں اور اشتراکیوں کا ماحول ہے یہاں جنسی اختلاط کی پوری آزادی ہے اور شمن ایک اورشخص سے کشش محصوس کرنے لگتی ہے۔ تیسری منزل میں اس ماحول کو ایک حصہ تک آگے بڑھا کر کہانی میں اورایک موڑ لایا جاتا ہے۔ شمن ایک استانی کی حیثیت سے ایک مسلم گرلس اسکول میں رکھی جاتی ہے یہاں بھی ماحول جنس مخالف کی کشش ہی بناتا دکھاتا ہے لیکن جنس کے ساتھ ساتھ قوم ، ملک، جنگ، آزادی سب کے سب اس میں کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ اور اکتالیسواں حصہ شمن کی شادی ایک گورے سے کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔اور آخر میں شمن روٹھ کر جنگی محاز پر گئے ہوئے شوہر کے بچے کی ماں بننے میںخوشی محسوس کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔آئیے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ ٹیڑھی لکیر کی فنکاری ہیئت کے نقطہ نظر سے کہاں تک کامیاب ہے۔
پہلی منزل کی ابتداء شمن کی پیدائش سے ہوتی ہے ماحول مسلم، متوسط طبقے کے گھرانے کا ہے۔نوکر چاکر، باورچی، انا وغیرہ سبھی کچھ موجود ہیںاور سب اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔مصنفہ کی تقریر تو فیملی پلاننگ کی تقریریں ہیں لیکن بچوں کی نفسیات کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔دوسرے حصہ میں بھی شمن کی نفسیات کی عکاسی کے لئے ماحول میں یہ تغیر لایا جاتا ہے کہ شمن کی انا جو اپنے عاشق کے ساتھ عیاشی میں پکڑی جاتی ہے اسے بھگا دیاجاتا ہے اور شمن کی دیکھ بھال اس کی بہن منجو بھی کرنے لگتی ہے لیکن منجو بھی شمن کو صرف کوٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے جس سے شمن کے اندر انتقامی جذبہ فکری طور پر پیدا ہوجاتا ہے اور وہ حقیقت میں منجو بی کی پٹائی نہیں کرسکتی تو تخیل میں ہی اس کی پٹائی کرکے اپنے جذبے کو ٹھنڈا کرلیتی ہے اس طرح سے دسواں حصہ تک بچے کی نفسیات کو ابھارنے کے لئے طرح طرح کے واقعات و حادثات لائے جاتے ہیں جو بالکل فطری لگتے ہیں لیکن کہیں کہیں مصنفہ کا تبصرہ قابلِ اعتراض ہوجاتا ہے مثال کے طور پر ساتویں حصہ میںیہ منظر دیکھئے:
’’بڑی آپا ماں باپ کی عزت سمیٹے بیٹھی ہیںجیسے سارے گھر کی جان پر احسان کررہی تھیں۔نفس کو مار کر اس میںحکومت کرنیکی طاقت بڑھتی جارہی تھی مگر شمن اس کی ذرا بھی احسان مند نہ تھی شوق سے وہ کوٹھے پر جابیٹھی تو بھی شمن کو پرواہ نہ ہوتی اس کی بلا سے۔‘‘ ۲؎
کیا ایسی لڑکی جو ابجد سے بھی واقف نہیں کوٹھے کی دنیا سے واقف ہوسکتی ہے کسی کے کوٹھے پربیٹھنے کی پرواہ کرے یا نہ کرے۔
’’اتنے میںاس کی نظر گوٹا لگی ہوئی چولیوں پر پڑی جھلمل کرتی زر نگا کہ وہ ڈوریاںاسے انہیں پہننے کا کتنا ارمان تھا مگراسے تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتی تھی۔امّاںتو غسل خانے میںایسے چھپ کر پہنتی جیسے موٹی سی گالی ہو۔‘‘ ۳؎
ناول نگار کے تبصرے تک تو اسے قابلِ قبول سمجھا جاسکتا ہے لیکن شمن کے حوالے سے گالی اور وہ بھی موٹی سی گالی تک پہنچنے کی توقع نہیںکی جاسکتی۔بہر حال دسویں حصہ تک شمن کی نفسیات اس کے ماحول کی وجہ سے جو بھی بنے ہیں وہ قابلِ قبول ہیں۔
گیارہواںحصہ میںشمن کی زندگی میں یا ناول میں پہلا موڑ آتا ہے جہاں وہ گھر کی چہار دیواری کی قید سے نکل کر بورڈنگ اسکول میں ڈال دی جاتی ہے اس کی تعلیمی کمزوری اوراس کی وجہ سے نفسیاتی اور جذباتی ردِ عمل وغیرہ کی اچھی عکاسی ملتی ہے۔مس چرن سے اس کے تعلقات گہرے ہونے لگتے ہیں لیکن یہاں مصنفہ کا تبصرہ کہ
’’اگر مس چرن کہتیں تو وہ مشکل سے مشکل کام انجام دے لیتی اسے کسی کو قتل کرنے میں بھی دریغ نہ ہوتا۔‘‘ ۴؎
اس ہوش مندی پر پہنچنے کے لائق بنانے سے قبل ایسا سوچنا غلط ہے کیونکہ ابھی تو وہ پاپ کیا ہے اور لوگ کیوں کرتے ہیںیہ بھی نہیں جانتی۔
بارھواں حصہ سے پندرھوان حصہ لگاتار لڑکیوں کے بلوغ تک پہنچنے کی جسمانی حالت اس کی وجہ ان کے ذہن کا رد، عمل اورپھر ہم جنسی (Homosexuality)کے رجحان کو پنپتے دکھایا گیا ہے بلکہ ایک دوسرے پر مرنے والی بات کہی گئی ہے شمن بھی کیٹو پر مرتی ہے۔
دوسری منزل:۔ اس منزل کی ابتداء ہم جنسی کو غیر جنسی کی طرف مائل کرنے کے اعلان سے ہوتی ہے ملاحظہ فرمائیں:
’’تو اس میں بات ہی کیا ہے میں خود پہلے نجمہ پر مرتی تھی مگر آپا بی نے مجھے بتایا کہ لڑکیوں کو ہمیشہ لڑکوں پر مرنا چاہیے۔‘‘ ۵؎
لگاتار آٹھارھویں حصہ تک اسکول میں جنس مخالف (لڑکوں) کی کشش کو آگے بڑھانے کے لئے طرح طرح کے واقعات اور کردار تراشے گئے ہیں جو حالات کے عین مطابق ہیں شمن بقول مصنفہ:
’’شمن اور رشید کا رومان پینگیں بڑھاتا رہا۔‘‘ ۶؎
انیسویں حصہ میںماحول میں تبدیلی کی جاتی ہے اور شمن اپنے گھر میں دکھائی دیتی ہے۔جہاں ایک کردار اعجاز اس کی جنسی نفسیات کو آگے بڑھانے کا کام کرتاہے۔ حالانکہ اعجاز ایک طرح سے اس کا منگیتر ہے لیکن شمن کو وہ زیادہ پسند نہیںہے پھر بھی وہ اس طرح کی حرکتیںکرتا ہے جو نازیبا دکھائی دیتی ہیں لیکن مصنفہ کا مقصد یہاں مسلم متوسط گھرانے کی خراب جنسی حالت کو بھی دکھانا ہے اس لئے اس کی حرکتیں قابلِ غور ہیں ملاحظہ کریں:
’’جب سب سوجاتے تو اجو (اعجاز )آہستہ آہستہ اس کے پیروں میںاپنے پیرکا انگوٹھا اورانگولیاں ملاکر چٹکیاں لیا کرتا۔وہ اسے ڈانٹ کردور جھٹک دیتی مگر وہ سوتا بن جاتا اور رات کو آنکھ کھلتی تو اس کو اپنے پلنگ پر سے چوہے پھدکتے معلوم ہوتے شاید وہ ساری رات جاگا کرتا کیونکہ دم بھرکو شمن چین سے نہ سو پاتی اجو کا ہاتھ یا پیراس کی پنڈلی پر یاران کو سہلایا کرتا۔‘‘ ۷؎
بیسویں حصہ میںاسی سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم گھرانوں کی بہترین تصویر پیش کی گئی ہے جہاں رشتہ داروں کی آئو بھگت اگر غرض شامل ہو تو کس طرح کی کی جاتی ہے خاص طور سے اگر شادی بیاہ کا معاملہ مدِ نظر رکھا جائے تو اس سے بہتر تصویرکہیں نہیں ملے گی۔
اکیسویں حصہ میںپھر ماحول کی تبدیلی کی جاتی ہے کرشچن کالج میںشمن کا داخلہ ہوتا ہے جہاں لڑکیوں اور لڑکوں میں آزادانہ اختلاط ہے اس لئے شمن کی کشش جنس مخالف کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔
بائیسواں حصہ کی ابتداء مصنفہ جنسی نمائش پر تبصرہ سے کرتی ہے ملاحظہ کریں:
’’شام کو لڑکیاں اونچے اونچے سیاہ بلومر اور جمیرپہن کر کالج کے میدان میں آزادانہ چھلانگیں لگاتیں ، مالی اور چوکیدار برہنہ رانوں اور سڈول پنڈلیوں کو گھور گھور کر آنکھیںسینکتے۔‘‘ ۸؎
یہاںبھی میٹرنوں ، استانیوںاوراستادوں کی جنسی کشش سے وہی فضا بنائی گئی ہے۔
تیئسواں حصہ مسلم درسگاہوں اور امریکن مشن کالجوں کے تقابلی مطالعہ سے شروع ہوتا ہے۔ اور جنسی آزادی موضوع بنتا ہے لیکن اس کی حیثیت تبلیغی ہوجاتی ہے اورمصنفہ فن کے بجائے مقصدیت پر اتر آتی ہیں لیکن جلد ہی مشن کالج میں لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے بہتر طریقے سامنے آنے لگتے ہیں۔
چوبیسواں حصہ میںماحول کی تبدیلی سے لڑکوںاورلڑکیوں کے اختلاطِ باہمی انہیں ہاسٹلوں سے نکال کر ایک دوسرے کے گھر بھی جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اس کے مختلف بہانے ڈھونڈے جاتے ہیںاور ملتے ہیں اس حصہ میں شمن کی نفسیاتی پیچیدگی اس طرح سے بڑھائی گئی ہے کہ ماں اور محبوبہ بیک وقت نظر آتی ہے۔ شمن کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ نریندر اس کو چاہتا ہے لیکن خود شمن کا جھکائو اس کے باپ رائے صاحب کی طرف ہے۔اس جواز کے لئے ایک ایسی کہانی پیش کی گئی ہے جس میں وقت کی کوئی اہمیت نہیںہوتی پل بھر میں دنیا کہیںسے کہیں جاسکتی ہے۔
پچیسواں حصہ شمن کی جنسی نفسیات کو انتہا کو پہنچتا ہے۔اسے ناول کا عروج بھی سمجھا جانا چاہیے اس حصہ کو پیش کرنے کے لئے مصنفہ نے بہت محنت کی ہے تاہم تصنع ٹپکنے لگتا ہے ایک طرف شمن کی جنسیت کو ارتقاء تک پہنچانے کا منصوبہ باندھا جاچکا ہے اس لئے شمن گرمی کی چھٹی میںاور لڑکوں کی طرح گھر نہیںجاتی بلکہ یہ دکھایا جاتا ہے اسے کوئی لینے نہیںآیا۔ تو دوسری طرف وہ بورڈنگ میں پڑی پڑی صرف رومانی ادیبوں کا مطالعہ کرتی ہے۔ہندو فلسفہ اور مذہب کو مصنفہ نے رائے صاحب کے آنے جانے کی ابتداء سے ہی پڑھانا شروع کردیا تھا جسے شمن بہت پسندکرتی ہے۔ساتھ ہی نریندر جو شمن کی محبت میںدیوانہ ہے وہ اپنی جنسی چاہت کی تکمیل کرنا چاہتا ہے تو مصنفہ شمن کے دل میں مادرانہ شفقت پیدا کرلیتی ہے ملاحظہ کریں:
’’پریماکو سوتا پاکر اس نے شمن کو سچ مچ اعلان عشق کردیا اور وہ بھی اس بھونڈے طریقے سے بس ٹوٹ ہی پڑے شمن کو اس کو بجائے غصہ کے پیارسا آگیا وہ مسکرادی اور جیسے ایک عقلمند ماں بچے کو شیشے کا گلاس مانگنے پر بڑے پیار سے بہلاد یتی ہے اسی طرح شمن نے نریندرکو چمکار دیا۔‘‘ ۹؎
ایک اور منظرملاحظہ کیجئے:
’’لوریکٹ اور مجھ سے بات نہ کرتا، نریندر نے ریکٹ پٹخ دیا کچھ کچھ دیر شمن اس کو دیکھتی رہی اور پھر کھل کھلا کر ہنس پڑی َاو۔۔۔فو ہ تیری!
مجھ سے مت بولو جی سو دفع کہہ دیا ہاں نہیں تو شمن مامتا کے معصوم جذبے سے بے چین ہوکر ہنسنے لگی۔‘‘ ۱۰؎
شمن کے ایثار نفسیات یا جذبات محض اس لئے دکھائے گئے ہیں کہ وہ اب نریندر کواپنا بیٹا سمجھنے لگتی ہے کیونکہ شمن اس کے باپ کی محبت میں گرفتار ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی جذباتیت جلد سے جلد اپنے پیار کا اظہار کرنے دینے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ پاگلوں کی طرح رائے صاحب کے سینے سے لپٹ کر پیار کا اظہار کرتی ہے اور رائے صاحب کے چونکنے پر اپنے مذہب کو بھی تبدیل کرنے کااعلان کرتی ہے رائے صاحب اس صدمے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں اور شمن کی نفسیات دوسرا Turn لیتی ہے۔
چھبیسواں حصہ میں پھر ماحول کی تبدیلی کی جاتی ہے یہاں بھی شمن کی نفسیات کی پیچیدگی ظاہرکرنے میںمصنفہ تضاد کا سہارا لیتی ہیں۔پچھلے حصہ جو شمن اپنی محبت کے لئے مذہب تبدیل کرنے کا اظہار کرتی ہے وہی شمن بلقیس کو اپدیش یہ دیتی ہے کہ :
’’۔۔۔۔بھئی بات کچھ بھی ہو مجھے تو سوسائٹی پسند ہے۔
بلقیس بے حد مکار ہو تم بھی محبت میں انسان ان باتوں کو سوچتا بھی نہیں۔‘‘ ۱۱؎
شمن اس حصہ میں گھر پہنچائی جاتی ہے جہاں اس کا منگیتراعجاز جس سے وہ حقارت آمیز سلوک روا رکھتی تھی اب اس کا رویہ بدلنے کے لئے اسے دولت مند دکھایا جاتا ہے تاہم شمن پرانی باتیں نہیں بھولی ہے اور کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ اعجاز کے ساتھ کس طرح پیش آئے یہ نفسیاتی کشمکش کی بہترین تصویرہے لیکن دل ہی دل میںیہ بھی سوچتی رہتی ہے کہ اعجاز اس سے اب بھی محبت کرتا ہے تو علی الاعلان کیوں نہیں کہتا۔
’’شمن نے جب پان دیا تو اس نے اس کی انگلی پکڑنے کی کوشش کی شمن نے جل کرپان چھوڑ دیا۔یہ فرسودہ رومان اسے ایک نہ بھایا اسے ان گونگے عاشق سے سخت نفرت تھی جن کا رواںبولتا ہے پر منھ سے نہیں پھوٹتے۔‘‘۱۲؎
اعجاز شادی کے متعلق اس سے گفتگو کرتا ہے تو شمن کا یہ جذبہ اور بھڑک اٹھتا ہے اور وہ ایک نئی دنیاکا خواب دیکھنے لگتی ہے مگراعجازجب بلقیس کا نام ظاہرکرتا ہے تو اس کے جذبات مجروح ہی نہیںمتنفر ہوجاتے ہیں۔
ستائیس سے تیس تک شمن ایک اورنئی دنیا میںبھیجی جاتی ہے۔جو ترقی پسندوں کی دنیا ہے۔ترقی پسندوں کی دنیا کایہاں مصنفہ نے پرخچے اڑائے ہیں۔یونین پریسیڈنٹ جلوس کے ساتھ ساتھ ترقی پسند طلبہ کی تنظیموں میں عورت و مرد کا رشتہ خاص طور سے دکھایا گیاہے لیکن ایلما کی جنسیت مریضانہ حد تک بڑھی ہوئی نظرآتی ہے اس حصہ میں شمن ایک اور مرد کی طرف مائل ہوتی ہے یہ یونین پریسیڈنٹ افتخار ہے۔فلیش بیک کے ذریعہ افتخاراور شمن کی گفتگو کی بہترین تصویر پیش کی گئی ہے۔
تیسری منزل: اس منزل سے شمن کو ایک اور نئی دنیا میں لے جایا جاتا ہے۔اب وہ استانی کی حیثیت سے نظر آتی ہے۔ مصنفہ نے اسکول کے قیام کا حصہ دلچسپ انداز میںبیان کیاہے لیکن تیسری منزل میںایک حصہ پچھلے حصہ سے جوڑنے کے لئے شامل کیا ہے۔ یعنی اکتیسواںحصہ وہی ترقی پسند خیالات اور موجودہ ہندوستانی سماج کی نا اتفاقی ، تعصب ،غلامی وغیرہ کو بیان کرتے کرتے جسم و روح کی کشمکش خاص طورسے عورتوں کے حوالے سے ناجائز بچوں کی ماں کے پیٹ میںپرورش وغیر ہ کوداخل کیا گیا ہے۔
بتیسواں حصہ تیسری منزل کی اصل ابتداء ہے جہاںپھر وہی جنسیت مرکزیت اختیار کرلیتی ہے خواہ وہ اسکول کے مینیجر اور ہیڈ مسٹرس رضیہ کی ہو یا شمن کی طرف حبیب صاحب کی۔
تینتیسواں حصہ مسلمانوں کے قومی اداروں کی خستہ حالی پر تقریر ہے۔
چونتیسواں حصہ اسی تقریر کو آگے بڑھاتا ہے اور پورے ہندوستان کی تاریخ دوہرائی جاتی ہے۔ جس میں سب سے بہترین تصویر ریلوے پلیٹ فارم کی ہے لیکن یہاں نقاب یا پردے والیوں کو گٹھری سے تشبیہ دے کر انہیں طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
پینتیسواں حصہ شمن اور ایلما کے درمیان ایلما کے ناجائز بچوں کو پالنے پوسنے کے متعلق گفتگو ہے لیکن اس میں ایلما کی نفسیات میں تصنع کا بہت زیادہ دخل ہے۔
چھتیسواں حصہ کی پیش کش کی تکمیل کچھ نئے انداز کی ہے، اس کو پڑھتے ہوئے ڈائری، بیانیہ اور خط تینوں کا دھوکہ ہوتا ہے۔اس حصہ کی ابتداء ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی گذشتہ زمانہ دھرارہا ہو۔ یہ کردار کی بے ربط بیانیہ ہے جس میں جرمنی کے ذریعہ فرانس پر کیے جانے والے جبر وظلم اور ہندوستانیوں کو آزادی کے لئے مچلتے دیکھنے کی تمنا ملتی ہے فوراً مصنفہ کا بیانیہ شروع ہوتا ہے اورپھر نئے پیراگراف میںاوپر کا پہلا طریقہ شروع ہوجاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ڈائری لکھ رہا ہو حالانکہ مصنفہ کے کہنے کے مطابق یہ سب شمن کے خیالات تھے لیکن یہ خیالات ماضی یا مستقبل کے نہیں ہیں بلکہ حال اور خیال دونوں ساتھ ساچھ چلتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ خیالات ہیں یا واقعات۔
سینتیسواں حصہ بہت سارے خیالات کو اپنے اندر سموئے ہوا ہے۔ابتداء ایلما اور شمن کی ملاقات سے ہوتی ہے۔شمن ایلما کے یہاں تار دیکر بلائی جاتی ہے کیونکہ ایلما کے بچے کی موت ہوگئی ہے یہ ایک ماں کی نفسیات کا ذکر بہت ہی مختصرہے اور مامتا صرف تصویروں کے کھینچے اور کھنچانے پر منحصر ہے۔لیکن یہاں مصنفہ نے ایلما کی شادی اور اس سے متعلق پوری تفصیل سے پروفیسر کا لگائو پیش کرکے ایک غم ناک حالت کو کمزور کردیا ہے۔ ساتھ اس میں شمن کے گھر کی خستہ حالی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سیاسی حالات اور جنگ کی تصویر، ہندوستانیوں کی غلامانہ ذہنیت، تحریک پاکستان وغیرہ سب کے سب آجاتے ہیں۔آخر میں افتخار کو بھی شمن کے پاس پہنچایا جاتا ہے تاکہ یہ دو چاہنے والے پھر سے تازہ دم ہوجائیں۔
اڑتیسواں حصہ زیادہ تر مکالمہ کی صورت میں ہے اس میں افتخار کی بیوی اور شمن کے درمیان گفتگو ہے۔لیکن دوسرے خیالات بھی بکھرے پڑے ہیں۔ اس حصہ کا مقصد افتخار کی بیوی کو سامنے لاکر افتخار کی حقیقت کو عیاں کرنا ہے تاکہ شمن افتخار کی طرف سے بد ظن ہوجائے۔لیکن شمن کے کسی ردِ عمل سے ایسا نہیں ہوتا۔
انتالیسواں حصہ شمن کی نفسیاتی پیچیدگی کو ابھارتا ہے یہ زیادہ تر خود کلامی اور بیانیہ میں پیش ہواہے۔
چالیسواں حصہ بھی مختلف موضوعات کو پیش کرتا ہے لیکن اس میں مناظر اتنے جلد جلد تبدیل ہوتے ہیں کہ اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ یہاں شمن کے چاہنے والوں کی ایک بھیڑہے اور شمن ان سب کا استحصال کرتی ہے۔یہاں تک کہ اس کے چاہنے والے اس کا بدن بھی دبانے لگتے ہیں ایک پروفیسر اس کا بوسہ لیکر اس کے جنسی نفسیات کو مشتعل کردیتے ہیں اور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
اکتالیسواں حصہ بیانیہ سے شروع ہوتا ہے جس میں فوجیو ں کی امداد کے لئے مینا بازار میںشمن اپنے اسکول میں کشیدہ کاری کرائے گئے کپڑوں کی نمائش کی تیاری میںلگی ہے ساتھ ہی ساتھ جنگ میں مرنے والوں اور جنگ کے خاتمے کے بعد خوشیاں وغیرہ پر غور کرتی ہوئی نفسیاتی ردِ عمل ظاہرکرتی ہے۔ لیکن مصنفہ سر چکرانے کے بہانے تھکا کر گھر پہنچا دیتی ہے اور اس کا منصوبہ تو کافی مضحکہ خیز طور پر باندھتی ہیں ملاحظہ کریں:
’’ مینا بازارکی کامیابی کا سہرا باندھنے سے پہلے ہی سر چکرا اٹھا طاقتِ ضبط ہار گئی توازنِ دماغ ڈگمگانے لگا لہٰذاچھٹی لیکر گھر آرام کرنے کے ارادے سے چلی گئی یہ جنگ کے زمانے میں اپنوں کی ضرورت کتنی بے رحمی سے محسوس ہوتی ہے۔جی چاہتا ہے کسی میں جذب ہوکر چھپ جائو اور پھر عمر میں ایک بار پھر کوشش کرکے دیکھنا چاہیے کہ اپنوں کی محبت کا کیا مزہ ہے شاید یہاں ہی اسے وہ سب کچھ مل جائے جس کی تلاش میں وہ اتنی بھٹکی کہ کوئی کوچہ نا آشنا نہ رہا۔‘‘ ۱۳؎
گھر میں جتنے واقعات شمن کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں وہ سب زبردستی کے معلوم ہوتے ہیںاوراسے گھر سے باہر لے جانے کے بہانے ہوتے ہیں اسی حصہ میں شمن کی زندگی میں آخری اہم موڑ لایا جاتا ہے۔ٹیلر شمن پر عاشق ہوجاتا ہے شمن ٹیلر کو اپنے ملک کو غلام بنانے والوںکی حیثیت سے ظالم سمجھتی ہے اور شمن کی نفسیات اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن دوستی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ ٹیلر شادی کا ارادہ ظاہر کرتا ہے اور انسان دوستی کے تحت اپنے آپ کو انگریزوں سے مختلف کہتا ہے لیکن شمن انگریز دشمنی کے تحت اسے پھٹکارتی رہتی ہے پھر یکا یک اس طرح کے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں :
’’ہم یہ شادی کیونکر کررہے تھے اس لئے کہ ہم دونوںمل کر بہت کچھ دنیا میں کرسکتے ہیں اس میں محبت کو دخل نہیں۔‘‘ ۱۴؎
’’محبت سکھائی نہیں جاتی یہ ایک احساس ہے جو پیدا ہوتا ہے پروان چڑھتا ہے اور۔۔۔چھوڑو اس قصہ کو۔‘‘ ۱۵؎
’’ ہماری دوستی بڑی کار آمد ثابت ہوگی مجھے ہی نہیں پورے ہندوستا ن کو تم جیسے دوست مل جائیں تو بھاگ کھل جائیں۔‘‘ ۱۶؎
اس نفسیاتی کشمکش کا نتیجہ شادی کا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن شادی دونوں کورٹ میں جاکر کر لیتے ہیں۔
بیالیسواں حصہ اور تینتالیسواں حصہ شادی کے بعد دو غیر ملکیوں کے ملن پر سماجی ردِ عمل سے پیدا ہونے والی نفیسات اور اس سے دونوں کے رشتے میں کشیدگی پھر ملن سے کشیدگی یہاں تک کہ قاری ان واقعات سے اکتا جاتا ہے جب شمن اس طرح کے جذبات کا اظہارکرتی ہے کہ۔
اور تم میری قوم کو دماغی ، مالی اور جسمانی طور پر پیسنے کے بعد اب اس کی روح پر حملہ کررہے ہوخیر اب تک تو اقتصادی اور سیاسی دنیا کے مالک تھے اب مجھ جیسی بد نصیب عورتوں نے اپنی آخری دولت بھی تمہاری جوتیوں میں ڈال دی۔‘‘ ۱۷؎
تو قاری بجائے ہمدردی کے تحقیر کا جذبہ قائم کرتا ہے۔اختتام تک پہنچا کر مصفنہ شمن کو اعتدال پر ضرور لے آتی ہیں لیکن جو ان کا مقصد ہے وہ قاری کی سمجھ سے باہر ہوجاتا ہے۔
حواشی
۱۔ ص ۸، پیش لفظ ٹیڑھی لکیر
۲۔ ص ۲۵ ،ٹیڑھی لکیر
۳۔ ص ۳۵ ،ایضاً
۴۔ ص ۰۷ ،ایضاً
۵۔ ص ۰۱۱ ،ایضاً
۶۔ ص ۰۳۱، ایضاً
۷۔ ص ۵۴۱، ایضاً
۸۔ ص ۷۶۱، ایضاً
۹۔ ص ۳۹۱، ایضاً
۱۰۔ ص ۷۹۱، ایضاً
۱۱۔ ص ۶۱۲، ایضاً
۱۲۔ ص ۸۱۲، ایضاً
۱۳۔ ص ۶۹۳، ایضاً
۱۴۔ ص ۰۳۴، ایضاً
۱۵۔ ص ۰۳۴، ایضاً
۱۶۔ ص ۱۳۴، ایضاً
۱۷۔ ص ۸۴۴۔۹۴۴، ایضاً
***