You are currently viewing ڈاکٹرریاض توحیدی: صاحبِ بصیر ت اردونقاد

ڈاکٹرریاض توحیدی: صاحبِ بصیر ت اردونقاد

ڈاکٹر فریدہ تبسم

(گلبرگہ)

ڈاکٹرریاض توحیدی: صاحبِ بصیر ت اردونقاد

   آسمان تنقیدپر اڑان بھرنے والا شاہین’ اپنے تخیل کی پروازکے دوران تخلیق پر باز نظررکھنے والا نقاد ‘اپنی تخلیقی وتنقیدی بصیرت سے گلشن اردوزبان وادب کو نکھارنے والی شخصیت ڈاکٹر ریاض توحید ی کشمیری اردو ادب کے عالمی منظرنامے پر اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ بقول اقبال حسن آزاد:

         ’’آسمان ادب پر پر یوں تو بے شمار روشن اور تاباں ستارے موجود ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ

            ساتھ ان میں سے بہت سارے ستارے یا تو ڈوب چکے ہیں یا ان کی چمک ماند پڑ گئی ہے ۔لیکن یہ

           بھی قدرت کا قانون ہے کہ ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا طلوع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی نام

           کا ایک درخشاں ستارہ فلک ادب پر نہ صرف نمودار ہو چکا بلکہ ہر چہار جانب اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔‘‘

سائبر ایج کے جدید وسائل فیس بک اور واٹس ایب کے ادبی فورمز پر مسکراہٹ کی جادو گری سے اپنے فینز کو مسکرانے پر مجبور کرنے والی شخصیت اور آن لائن ویبنارز و ادبی پروگراموں میں شامل ہوکر اردوادب کو سائبر ورلڈ سے جوڑنے میں فعال کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر ریاض توحیدی ‘ جس نے نہ صرف مسکراہٹ کا ایک جہان بنایا ہے بلکہ اپنی افسانہ نگاری اورادبی تنقیدی جوہر سے عالم فکشن و تنقید میں اپنی منفرد پہچان بھی بنائی ہے ۔ کالے دیوؤں کا سایہ ‘تاج محل اور گئو شالہ اورکالے دیوؤں کی واپسی جیسے شاہکار افسانوں کے فسوں سے مسحورکرتے ہوئے فکشن اور شاعری کے تنقیدرازوں سے بھی محظوظ کراتے ہیں۔بقول معروف نقاد وفکشن نگار شمس الرحمن فاروقی:’ ’ہردورکاادب اپنا نقاد پیدا کرتا ہے۔‘‘۔۔۔تو ریاض توحیدی کی تخلیقی وتنقیدی صلاحیت دیکھ کر ایسا محسوس ہوجاتا ہے کہ آج کے دور نے ایک ادبی نقاد پیدا کیا ہے۔

  ڈاکٹر ریاض توحیدی اکثر و بیشتر درس وتدریس‘تحقیق وتخلیق اور تنقید وتصنیف میں مصروف کار رہتے ہیں ۔ ان کی ادبی نگارشات اور تنقیدی جوہرپارے ان کے وسیع مطالعہ اور صلاحیت وذہانت کی عکاسی کرتے ہیں۔ کئی آن لائن پروگرامز میں وہ اکثر فرماتے رہتے ہیں کہ ’’مشرقی نقاد بالعموم اور بالخصوص مبصرین‘ اس لئے رٹی رٹائی باتوں کی رٹ لگائے نظرآتے ہیں کہ وہ ابھی تک فرسودہ سوچ اوردہائیوں پہلے والے خیالات اور اسلوب پر چلتے نظرآتے ہیں ۔ مغربی معاشرہ توکب کا فرسودہ خیالات اور روایتی لکیر کو چھوڑکر آج سوشل میڈیا‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور علوم  وفنون ‘جدید فکشن وتنقید کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہورہا ہے اور نئے تجربات سے ادب کو زندگی کے نئے تقاضوں کے مطابق پیش کررہاہے۔‘‘

 اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ علمی سطح پر انتقاد تحرک خردافروزی شروع کی جائے اور یہ عمل تخلیقی تنقید اور اس کی مبادیات پر تقریباً پچھلے پندرہ برسوں سے جاری ہے۔انہیں تجربات و مطالعات کی روشنی میں ان کی تنقیدی بصیرت پروان چڑھتی رہی۔پروفیسرابولکلام قاسمی کی تنقید نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے مضمون’’پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی تنقیدی بصیرت۔۔۔میں لکھتے ہیں:

       ’’۔۔۔مجموعی طور پر اردو تنقید کااحاطہ کریں تواردوتنقید کا معتدبہ حصہ تبصراتی‘تشریحی‘ توصیفی یاتنقیحی نوعیت

        کا خاکہ معلوم ہوتا ہے‘اور بہت کم ناقدین کی تحریرات میں تفکیری اور تجزیاتی فکر و پرکھ کا تکنیکی مکالمہ نظر آتا

       ہے‘جن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں‘کیونکہ موصوف کسی بھی شعری متن پر گفتگو کرنے کے

       دوران تنقیدی اسالیب کے پیش نظرتجزیے و تحلیل کے ماہرانہ عمل (Skilful Performace)

       کاثبوت جگہ جگہ فراہم کرتے ہیں جو ان کی تصنیفات خصوصاََ ’’شاعری کی تنقید‘‘اور ’’معاصر تنقیدی رویے‘‘

      کے بیشتر مضامین سے ظاہر ہوتاہے۔اردو تنقید کے رسمی اور مکتبی انداز کا احساس خود ابوالکلام قاسمی کو بھی تھا

      کیونکہ ان کی نظر اردو کے علاوہ کئی اور زبانوں کے ادب پر بھی تھی‘ چونکہ درالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل

       کرنے کے دوران عربی اور فارسی سے شناسائی اور پھر عصری تعلیم کے میدان میں آکر اردو‘انگریزی اور  چنددیگر زبانوں کے شعر و ادب سے بھی انہیں استفادہ کرنے کا موقع ملاتھا۔‘‘

(رسالہ ’’آجکل‘‘دہلی۔شمارہ فروری ۲۰۲۲)

ڈاکٹر ریاض توحیدی اردو افسانہ اور تنقید میں فکری جمود کی فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی پہلی تنقیدی کتاب ”معاصر اردو افسانہ۔۔۔جلداول ” ۲۰۱۸ء میں سامنے لائی اور عملی طور پر ثابت کیا کہ فکشن میں تنقیدی زاویہ نگاہ کیسا ہونا چاہے:

      ’’افسانہ نگاری ایک تخلیقی عمل ہے جو کہ اکتساب سے زیادہ تخلیقی صلاحیت پر مدار رکھتا ہے۔ افسانے میں کسی

   بھی موضوع کو داخلی جذبہ و احساس اور خارجی مشاہدہ و مطالعہ کے ماہر انہ تجربے کے زیر اثر فکشن فارم میں

   ڈسکورس بنایا جاتا ہے۔ افسانے کا ہر جملہ یا لفظ بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جس طرح شعر کی معنویت کا انحصار

  تخلیقی لفظ وخیال پر ہوتا ہے اسی طرح افسانوی متن میں تخلیقی رچاؤ کا ہونا ضروری ہے یعنی تخلیق کا فنی حسن

   تخیل کے جوہر سے نکھر جاتا ہے۔ مشاہدے سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر افسانوں میں غیر افسانوی زبان و خیالات

 ایسے ٹھونس دیے جاتے ہیں کہ جیسے پھلواری میں خاردار جھاڑی اُگ آئی ہواور بیشتر لوگ بھی پھلواڑی کے

   بجائے جھاڑی کی تعریف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ تصور اور تخیل کے مابین امتیاز کرنے میں سہل پسندی سے کام لیتے ہیں۔‘‘

(معاصر اردو افسانہ۔۔۔تفہیم وتجزیہ جلد اول‘ص: ۱۵)

ڈاکٹر ریاض توحیدی کو معنی بردار الفاظ کے برتنے کا ہنر خوب آتا ہے وہ تنقیدی نقطہ نگاہ سے متن کو حیطہ فہم میں لاکر قاری کی فکر کوبھی متحرک کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب فکری آہنگ اور حسیاتی جہتیں رکھتا ہے‘جہاں دانش ورانہ موشگافیاں اور فلسفیانہ بیانات بھی نظر نواز ہوتے رہتے ہیں ۔وہ متن پر مدلل بحث کے دائرے میںعلمی دلائل کے ساتھ تخلیق کا تجزیہ کرتے ہیں۔یہ خوبی ان کی تنقیدنگاری کو ایک معیار عطاکرتی ہے کیونکہ ہم نے اکثر محسوس کیا ہے کہ بیشتر قارئین و نقادوں کی عقل و دانش پرماضی سے ورثے میں ملی ہوئی تقلیدپرستی اس طرح نفوذ کئے ہوئے ہے کہ کسی بھی نئی تخلیق میں پوشیدہ حقائق کو ان کی اصلی صورت میں نہ تودیکھ نہیں سکتے ہیں اورنہ ہی سمجھ پاتے ہیں۔ اور پھریہی لاعلمی ان کی منفی سوچ اور تعصبات پراثرانداز ہوجاتی ہے اور ان کی فکری صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ اس طرح سے خیالات دھندلانے لگتے ہیں اور وہ مغالطوں میں مبتلا ہوکرتعصب کی زد پر آجاتے ہیں۔ اس طرح ادب پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر ریاض توحید ی کشمیری نے اس جمود کو توڑنے اور ان مغالطوں کا جواب دینے کافکری ‘علمی اور فنی دلائل کا استدلالی راستہ نکالا ہے اور علمی بنیاد پر ایسی سوچ وفکرکو باطل قرار دیا ہے جو تنقید کے نام پر تنقیص کی حامل ہوتی ہے ۔انہوں نے اس منجمد ماحول کوتنقیدی اصول وضوابط کے توسطہ سے تحرک دینے کی سعی کی ہے یعنی بصارت سےبصیرت کا تنقیدی سفر کا آغازکیا ہے۔ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ان کے ایک تنقیدی مضمون’’ تنقید اور ادبی تنقید‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ سائبر ورلڈ اردو اکاڈیمی اور  TV4U  یوٹیوب چینلز پر بھی موجود ہے اور معروف نقاد اظہار خضر کی تنقیدی کتاب ’’تجزیے ۔۔۔فکشن سے مصافحہ‘‘ پر تحریر شدہ مضمون کے ان خیالات سے لگایا جاسکتا ہے:

        ’’ادبی تنقید ایک فن کی حیثیت رکھتی ہے جو صرف تبصراتی نوعیت کی گفتگو کرنے کے دوران خامی خوبی کی            نشاندہی کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ کسی بھی معیاری متن کو ادبی و فنی اور تخلیقی ڈسکورس بنانے کا فن ہے ۔        اس مناسبت سے دیکھیں تواظہار خضر(بہار) کا شمارعصر حاضر کے ان سینئر ناقدین میں ہوتا ہے جو واقعی تخلیق اور تنقید کے مابین تجزیاتی ڈسکورس قائم کرنے کی علمی بصیرت اور تنقیدی شعور رکھتے ہیں۔ یہ خوبیاں ان کی تصانیف ”زبان کی جمالیات” اور”تجزیے۔۔۔ اردو فکشن سے مصافحہ”کے مطالعہ سے واضح طور پر عیاں ہوجا تی ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ بیشتر لوگ افسانے کا تجزیہ کرنے کے بجائے اس کی کہانی کو مضمون میں دہراتے ہیں یا کسی ایک بات کو ذہن میں رکھ کر اکتادینے والی غیر ضروری تشریح     کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اظہار خضر چند اہم ناقدین کی طرح تخلیق سے تنقیدی مصافحہ کرتے ہوئے تجزیاتی تنقید کے عمدہ نمونے پیش کرتے ہیں۔ تخلیقی مزاج کا حامل انسان اگر تنقیدی بصیرت بھی رکھتا ہو تو اس کی تنقیدبھی تخلیقی نوعیت کی ہوتی ہے اور راقم کا تجربہ ہے کہ ایسا نقاد کسی بھی تخلیق کی روح تک پہنچ کر        مثالی تجزیہ پیش کرسکتا ہے۔۔۔۔‘‘             (رسالہ’’تحریک ادب ‘‘وارانسی)

مختلف فلسفیوں نے تنقیدی مباحث کی روشنی میں ادب میں علامتی اسلوب یا علامت نگاری سے متعلق متنوع خیالات پیش کئے ہیں۔ڈاکٹر ریاض توحیدی ایک تو خود علامتی افسانے تخلیق کرتے ہیں اور علامتی افسانوں کا اس طرح سے تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں کہ قارئین متحیر ہوجاتے ہیں کہ اس افسانے میں کیا کیا چھپا ہوا تھا۔ علامتی اسلوب پر ان کا ایک طویل مقالہ کتاب ’’معاصر اردو افسانہ ۔۔۔تفہیم وتجزیہ جلد اول‘‘ میں موجود ہے اور یہ مقالہ رسالہ’’ثالث ‘‘پٹنہ اور ’’اردودنیا‘‘دہلی میں بھی شائع ہوا تھا۔اس مقالے میںعلامت کی وضاحت اور اہمیت کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’کسی بھی لفظ یا شئے کے علامتی اظہار کا مدار ماحول کی کیفیت میں مضمر  ہوتا ہے اب شعر و ادب میں علامت نگاری کی بات کریں تو شعر و ادب میں علامت کا استعمال تخلیقی اظہار کا ایک معنی خیز وسیلہ ہے اسی بنیاد پر           علامت کو ”تخیلی تجربات کی گاڑی” Vehicle for imaginative  experience))       بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ علامتی اسلوب کسی بھی تخلیق کی کی امکان خیز معنویت میں توانا کردار ادا کرتا ہے     اور تخلیق کی معنوی جہات میں وسعت  پیدا کرنے کا تخلیقی وسیلہ بنتا ہے۔۔‘‘

      (رسالہ’’اردو دنیا‘‘دہلی جون ۲۰۱۸)

ڈاکٹر ریاض کی تنقیدنگاری کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ متن کی گہرائی میں ڈوب کر اس کی موضوعاتی ‘ سماجی، سیاسی، معاشی،معاشرتی ‘عائلی‘نفسیاتی وغیرہ جہات کو دلیل کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔یعنی شعر وفکشن جس چیز کو پیش کررہا ہو اس کو سامنے لاتے ہیں اس طرح قاری بھی آگاہ ہوجاتا ہے اور فکشن میں فلسفہ،تاریخ، نفسیات، تہذیب و ثقافت کے تفاعل سے گہری وسعت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح متن کانہ صرف خارجی پہلو بلکہ داخلی پہلوبھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جہاں پر معروضی نقطہ نظر قطعیت اختیار کر جاتاہے وہاں پر بھی وہ صرف داد و تحسین و مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے بلکہ معیاری تنقید سے تعمیری تنقید کرتے ہیں۔یہی تنقیدی خوبی ان کے افسانوں میں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ جس کا احاطہ کرتے ہوئے معروف مابعدجدید نقاد پروفیسرقدوس جاوید صاحب لکھتے ہیں :

”  ڈاکٹرریاض تو حیدی ؔکشمیری کے افسانوں میں بھی کشمیر کے عصری حالات و حقائق کو عمدہ فنی اور جمالیاتی         دروبست کے ساتھ جینے کا عمل ملتا ہے۔تاہم ریاض توحیدیؔ کی فکشن نگاری کا یہ پہلو بھی قابل ستائش        ہے کہ ایک صاحب بصیرت (Visionary) افسانہ نگاراور باشعور ناقد ہونے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں صرف مقامی موضوعات کی کہانیاں نہیں ملتی ہیں بلکہ ان کے بیشتر افسانوں کا کینوس اتنا پھیلا ہوا ہے کہ ان میں عالمی سطح کے موضوعات و مسائل کو بڑی فنکاری اور دانشورانہ انداز سے موضوعِ گفتگو بنایاگیا ہے۔”

(اخبار ’’تعمیل ارشاد‘‘کشمیر)

 سینئر تنقیدنگاروں نے جس زاویہ نگاہ سے تنقیدی اصول وضوابط پیش کئے ہیں ‘ڈاکٹر ریاض توحیدی نہ صرف ان کی ستائش کرتے ہیں بلکہ حسب ضرورت استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح انسان کی علمی  بصیرت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب تجربات دراصل ارتقائیت کے مراحل سے گزر کر تنقیدی ادب میںنئے زاویے اور جدید تھیوریٹکل رجحانات سے کسی بھی تخلیق کو پرکھا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے جدید تنقید نئے مفاہیم   ومطالب سامنے لارہی ہیں۔ اس دائرے میں عصری تنقید فکشن خصوصا َ َ افسانے کے ذیلی اصناف ’فلیش فکشن‘ فیٹیسی فکشن‘ مائیکرو فکشن‘ہارر فکشن‘افسانچہ ‘ نینو فکشن‘سائی فائی وغیرہ کی تکنیکی اور فنی مباحث پر زور دیتی ہے۔چونکہ ان ساری اصناف میں ڈاکٹر ریاض توحیدی فکشن لکھتے ہیں ‘اس لئے وہ ان صناف کی فنی تشکیل سے متعلق فرماتے ہیں کہ:

      ’’افسانہ یا اس کے ذیلی اصناف افسانچہ ‘فلیش فکشن’ فنٹیسی فکشن’ مائیکروفکشن’ہارر فکشن ‘نینو فکشن وغیرہ کی

      فنی ساخت۔۔۔۔ ہیت و زبان اوراسلوب و موضوعات کی تخلیقی تشکیل پر استوار رکھتی ہے۔ اگر صرف

     موضوع کی پیش کش ہی نظرآئے اور باقی تین چیزوں پر خاص دھیان نہیں دیاگیا ہو تو وہ افسانہ افسانوی

       تشکیل کے دائرے سے خارج ہو جائے گا۔ کیونکہ موضوع کی پیش کش انشائیہ یا کسی مضمون میں بھی ہوتی

           رہتی ہے۔”                      (کالم: افسانوی تشکیل: فیس بک۔بتاریخ ۲۴ جنوری ۲۰۲۲)

اس سے ظاہر ہے کہ ان کی نظر فکشن اور تنقید کی سمت ورفتار پر کتنی گہری ہے کیونکہ کئی لوگ ان اصناف کے نام سے بھی بے خبر ہیں اس طرزپر لکھنے کا سوال دوسرا رہا۔ اس طرح اردو فکشن و تنقید کے نئے در وا ہوجاتے ہیں اور تازہ ہوا کے جھونکے ذہن و قلب کو محظوظ کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی آنکھ اور منہ بند کرے تو وہ کیسے تازہ ہوا کے جھونکوں سے فیض اٹھا سکتا ہے۔ میری رائے میں فکشن کی ان نئی اصناف پردھیان دینا روایتی سوچ سے نکل کر جدید سوچ کا مظاہرہ کرنا ہے اس طرح اردو ادب بھی تازہ ہواؤں کے دوش پر آگے چلتا رہے گا۔فکشن کے تخلیقی عمل اور ناقد کے خصائص پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”  فکشن نگار مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر جب کسی بھی موضوع کو فن کے قالب میں ڈھالتا ہے تو کبھی

         وہ افسانے  اور کبھی ناول کی صورت میں ایک فن پارے کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔اس میں فنی

       صنعت گری کا کمال دکھانا پڑتا ہے اور فنی صنعت گری کا یہی کمال کسی بھی باشعور ناقد کی توجہ اپنی طرف

  مبذول کرانے میں اہم رول ادا کرتا ہے‘نہیں تو آج تک سیکڑوں افسانے اور ناول سامنے آئے ہیں

      لیکن ان میں ایک محدود تعداد ہی ایسی ہے جن پر لکھا گیا ہے یا لکھا جارہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب اپنے ادبی نظریات کے حق میں منطقی جواز فراہم کرتے رہتے ہیں اور متن کے پرکھنے کا ادبی معیار سامنے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تنقید سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ادبی تنقید کے اصول وضوابط پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

      ’’ادبی تنقید کے اپنے اصول و ضوابط ہیں ‘یہ کسی بھی تخلیق کے نقائص نکالنے کا نام نہیں ہے اور وہ بھی اسطرح

     کہ خود کی سوچ کے مطابق تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ ایسی ہونی چاہے یہ ویسی ہونی چاہیے۔ اگر

     انسان تخلیق وتنقید کی علمی وادبی اورفکری و تکنیکی بصیرت رکھتا ہو تو وہ کسی بھی معیاری تخلیق کو ادبی ڈسکورس بناتا

     ہے اور اس کے معیار’موضوعاتی پیش کش’فنی و تکنیکی اسالیب وغیرہ کا مفصل جائزہ لیتا ہے جس کے دوران

    اس کی خوبی اور خامی بھی اجاگر کرتا ہے اگر خامی نظر نابھی آئے تو بھی یہ تنقیدی جائزہ/تجزیہ کہلائے گا۔ کئی

    لوگوں کی تحریریں عمدہ تنقیدی بصیرت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ کئی لوگوں نے تنقید نگاری کو ڈنڈی مارنے کی کرتب

     بازی سمجھ رکھا ہے۔ اس سے ہوتا کیا ہے کہ ان کی عقل ڈنڈی مار بن جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ان کی اچھی بات

    بھی رجیکٹ ہوتی رہتی ہے۔۔۔۔ اس ضمن میں ابراہیم اشک صاحب کا یہ شعر کتنا معنی خیز نظر آتا ہے:

یہ  علم  و  ہنر  اشک  کسوٹی  پہ  پرکھنا

  تنقید  کا  شعور ہر  اک  کو   نہیں  ہوتا

     اس لئے ہر کسی کی فضول گوئی کو علمی رائے یا تنقید نہیں سمجھنا چاہے۔ کسی کی تحریر خود ہی اپنی معیار پسندی کا جواز

      فراہم کرتی ہے۔۔۔۔                (کالم ۔۔۔فیس بک۔۔تنقید اور ڈنڈی مارنا۔۱۸ جنوری ۲۰۲۲)

 مغربی مفکرین افکار کی روشنی میں تخلیق کاتنقیدجائزہ لیتے ہیں۔ اردو تنقید پر بھی انگریزی تنقید کے کافی اثرات ہیں اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے کیونکہ علم وادب انسان کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ ادبی روایت ایک تسلسل ہے لیکن اس مسئلے پرٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ہم کیا او رکیوں کررہے ہیں۔اردو تنقید کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں:

       ’’۔۔۔اردوکے تنقیدی یا تجزیاتی مضامین سے ظاہر ہے کہ اگرچہ کچھ باشعور ناقدین متنی ماحول کے اندر ہی

        بصیرت افروز توضیح کرتے رہتے ہیں‘ تاہم بیشترلوگ متن کے بنیادی موضوع یاموضوعات کو چھوڑ کر من

       پسند تفہیم و تاویل کرکے متن کے اوپر اپنا ہی غیر معنوی غلاف چڑھاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے متن کا

            موضوعاتی سسٹم درہم برہم ہوتا نظر آتا ہے۔‘‘

اردو تنقید میں کئی اصطلاحات ایسی استعمال ہوتی ہیں جو تخلیق پر جامع انداز سے بات کرنے میں مفید نظرآتی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کی تنقید میں بعض الفاظ واصطلاحات تخلیق کے تشکیلی نظام میںلسانی و اسلوبیاتی اور معنیاتی و لفظیاتی کینوس کی عمدہ وضاحت کرتی ہیں ۔ اس ضمن میںمضمون’’فکشن شعریات…تشکیل و تنقید ‘‘ میں لکھتے ہیں:

      ”کسی بھی متن کی معنویت کا مدار لفظیاتی نظام میں پوشیدہ ہوتا ہے‘یعنی متن کا منفرد لفظیاتی نظام ہی معنیاتی

     نظام کی تشکیل کرتا ہے اور پھر قاری اپنی فہم وفراست کے مطابق متن کی تفہیم و توضیح کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ              مسئلہ اس وقت تھوڑا ساپیچیدہ بن جاتا ہے جب متن میں لفظ کو حقیقی یا لغوی معنی کی بجائے مجازی معنی

      یامفہوم میں استعمال کیا گیا ہواور وہ بھی شعر و فکشن میں‘تو پھر متن کی معنی خیز تفہیم کے لئے الفاظ و تراکیب پر

    لسانی‘ اسلوبیاتی اورساختیاتی نقطہ نگاہ سے ارتکاز کرنا ضروری بن جاتا ہے اور یہی ارتکاز متن کی مناسب اور

    مخصوص معنوی جہات کو اجاگر کرنے میں کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ معنی انگیزی کے تناظر میں اگرچہ یہ تصور بھی

    موجود ہے کہ لفظ کا کوئی حتمی معنی نہیں ہوتا ہے تو معنوی جہات کی کشید کاری کے ضمن میں یہ ایک متحرک تصور

   توہے لیکن اگر اسے یہ مغالطہ پیدا ہوجائے کہ لفظ بے معنی ہوتا ہے تو ہرادبی متن مجذوب کی بڑ قرار پائے

     گا۔جب تخلیق کارکے ذہن میں کسی چیز کا تصور یا خیال ہوتا ہے تو ہی وہ الفاظ کے پیکر میں متن کا حصہ بن

    جاتا ہے اور قاری اپنی بساط کے مطابق معنی انگیز کرتا ہے۔‘‘

(معاصر اردوافسانہ تفہیم وتجزیہ جلد اول‘ص:۴۳)

ڈاکٹر ریاض توحیدی فن پارے کی فنی تکنیک اور معنوی جہات میں فنی تدبیر کاری ‘تخلیقی تجربے اور موضوعاتی برتاؤ پر ارتکاز کرکے ماہرانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔کئی افسانوں پر کئے گئے تجزیوں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔فی الحال معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے ایک افسانے’’تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی‘‘کے تجزیے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

      ’’پیش نظر افسانہ ’’تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی‘‘ اپنے موضوعاتی کینوس کے تناظر میں تاریخی

               فکشن(Historical Fiction)  کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس کے پلاٹ کا فنی دائرہ Artistic rangeتاریخی واقعات اور مقامی یعنی ہندوستان کی عصری سماجی ‘سیاسی اور مذہبی صورتحال پر   محیط ہے ۔تکنیکی طور پرا فسانے کی کہانی۔۔۔ تاریخی بیانیہ  (Historical Narrative) اورعصری حسیت (Contemporary Sensibility)  کے سماجی مکالمے  Social  Discourse ) ) کی فنی عکاسی کرتی   ہے۔اس افسانے کے موضوع کی تشکیلی ساخت (Morphologic Structure) تاریخی سانحات کا لفظی اور واقعاتی منظر نامہLexical and Eventful scenario)) پیش کرتی ہے جو کہ ماہرانہ ہنر            مندی کا دلچسپ مظہر ہے۔

   اب مذکورہ معروضات کے پیش نظر افسانے کے متن کاجائزہ لیں تو پہلے کردار نگاری پر ارتکاز کرنا بہتر رہے گا   ‘اس کے بعد کہانی کی متنوع جہات کا جائزہ مفید ہوگا۔ کہانی کے مرکزی کردار راوی بصورت پرائیویٹ ڈٹکٹیو(جاسوس) اور آصف شیخ ہیں‘کیونکہ افسانے کا تانابانا انہیں دو کرداروں کی کاریگری اور موجودگی کے کنٹرول میں ہے۔یعنی افسانے میں جوماضی اور حال کے تاریخی اور سماجی واقعات و حالات بیان ہورہے ہیں ان کے اظہارکا میڈیم راوی کا کردار ہے۔اس لئے افسانے کا یہ مرکزی کردار کہانی کا بیان کنندہ (Narrator) ہے جو تاریخی واقعات کی کڑیاں ہندوستان کی عصری اندوہناک صورتحال حال سے جوڑتا رہتا ہے۔کبھی فلیش بیک کی تکنیک میں اور کبھی تاریخ کے اشاراتی حوالوں سے۔اس    کے بعد افسانے کا ایک اور اہم کردار آصف شیخ ہے۔‘‘

(رسالہ’’ بھاشا سنگم ۔پٹنہ جنوری تا جون ۲۰۲۱)

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی تنقید نگاری صرف فکشن تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دائرے میں ‘تنقیدی کتابیں اور شاعری بھی آتی ہے۔انہوں نے کئی شعری کتابوں‘غزلوں اور نظموں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ ان کا ایک تنقیدی مضمون رسالہ’’ آجکل ‘‘دہلی میں کشمیر کے مشہور شاعر رفیق راز صاحب کے شعری مجموعہ ’’نخل آب ‘‘میں دسمبر۲۰۲۰ ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا جو بعد میں ان کی فیس بک وال پر بھی پوسٹ ہوا تھا۔ اس مضمون میں رفیق راز کی شاعری کا لسانی‘معنوی اور اسلوبیاتی پہلوؤںکا مفصل تجزیہ کیاگیا ہے۔مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’رفیق راز کے بیشتر اشعار مشاہداتی تجربے کی دلکش فنی عکاسی کرتے ہیں ۔ان میں جذبات انگیز سطحی

خیالات نہیں بلکہ سنجیدہ فکرکا مدبرانہ اظہار ہوتا ہے۔وہ خارجی یا ظاہری شورشرابے کے برعکس داخلی

سکوت کی دنیا پسند کرتے ہیں ‘اس لئے ملائم لہجے میں دنیا کی مثال پر’دل کی کتاب‘ کے حوالے کو

فوقیت دیتے ہیں ۔‘‘

رسالہ’’ آجکل‘‘دہلی۔دسمبر۲۰۲۰)

 اسی طرح شعری تخلیق پر تنقید ی نگاہ ڈالتے ہوئے شعر کی تخلیقی ساخت اور معنوی جہات کوا جاگر کرتے ہوئے فنی و فکری صورت گری اورجمالیاتی تصویر کاری اور پیکر تراشی کی عمارت سازی کو منکشف بھی کرتے ہیں ‘بطور نمونہ چند مثالیں۔شعری مجموعہ ’’عذاب درعذاب‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شعری مجموعہ ”عذاب در عذاب”۔۔۔۔تلخ وشیریں یادوں کا نوَحہ

   میری   جو   بھی   کہانی    ہے

      محفل   کو    یہ     سُنانی     ہے

شاعرکو اگر کہانی کار کہا جائے‘ جو منظوم پیرائیہ میں اپنے احساسات وجذبات کو شعرکے پیکر میں پیش کرتا ہے تو سامع یا قاری محفل کی مانند بن جاتاہے‘ یعنی الفاظ یاآواز اور قرأت یا سماعت کی محفل۔انگریزی شاعر Roger Turner ایک نظم ’’ I am The Story Teller ‘‘ میں لکھتا ہے:

Listen to me people

I’ll take you on a journey

To places far  away

Hold on tight and listen

From my mind

To yours today

(لوگو! میری بات سنو‘میں تمہیں ایک سفر پر لے جارہا ہوں‘دوردراز جگہوں پر‘صبر کرو اور سنو‘میرے دماغ سے‘ تمہارا آج کا حال.)

دراصل ایک شاعر بھی اپنے کلام کے توسطہ سے خیالات و تصورات کی کہانی ہی سناتا ہے لیکن منثورحکایتی انداز سے نہیں بلکہ فکر و فن کے مخصوص شعری اسلوب میں۔ یہ توضیحی تمہیدباندھنے کا محرک پیارے ہتاشؔ کے پیش نظرشعری مجموعہ’’عذاب در عذاب‘‘ کا مطالعہ بنا۔ میں سمجھتا ہوں جب تک نہ قاری کسی تخلیق (شعر/فکشن)میں پوشیدہ دردوکرب یا موضوعاتی گہرائی کے احساس کو محسوس کرسکے‘ تب تک اس تخلیق کی مناسب تفہیم یا تجزیہ مکمل نہیں ہوسکے گا اور یہی دردوکرب پیارے ہتاشؔ  کے سبھی آٹھ شعری مجموعوں ’’لمحات گمشدہ‘‘’’کربِ وجود‘‘ ’’گردشِ ایام‘‘’’یادِ زعفران‘‘ ’’لہولہو آنگن‘‘ ’’حال ِزار‘‘’’سبزہ سے صحرا تک‘‘ اور ’’عذاب در عذاب‘‘کے بیشتر اشعار میں نظر آتا ہے۔ مجموعہ ’’سبزہ سے صحرا‘‘ تک کا استعاراتی نام کچھ زیادہ ہی دل کو چھوجاتا ہے کیونکہ اس میں سبزہ (کشمیر) سے صحر ا (جموں)کے نشیب وفراز کو دلنشیں شعری اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔‘‘ (اخبار’’کشمیر عظمیٰ‘‘کشمیر ۳جنوری ۲۰۲۱)

اس طرح ڈاکٹر ریاض توحیدی کی فکشن کاجائزہ لیں تو وہ جدید تنقیدی اسلوب اور تھیوری کے پیش نظر کسی بھی افسانے کا فنی وتکنیکی اور موضوعاتی تجزیہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کی آنکھیں علم کے نور سے منور ہوجاتی ہیں۔ان کی تنقیدی کتاب ’’معاصر اردو افسانہ۔۔۔تفہیم وتجزیہ جلد اول‘‘ کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے مقامی سطح کے افسانوں پرمضامین نہیں لکھے ہیں بلکہ عالمی سطح پر جہاں جہاں بھی افسانے لکھے جارہے ہیں ان پر بھی کئی مضامین لکھے ہیں‘جس سے ان کے وسیع مطالعہ‘علمی بصیرت اور تنقیدی ذہانت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ان ہی خصوصیات پر ان کی افسانہ نگاری اور تنقید نگاری کوعالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔

حد ادراک سے اس کی بہت آگے ہوں فضا

صاحب  فن  بھی  مرا  جائزہ  لے گا کتنا

Leave a Reply