محمد عمار حسن
پاکستان
ڈاکٹر رابعہ سرفراز کی نثری نظمیں ۔ داخل و خارج کا عمدہ امتزاج
نثم یا نثری نظم جسے نثرِ لطیف،منثور،بحرِلطیف،نثریہ،نظمانے،نثرانے،نظمیہ نثر اور نظمِ منثور کا نام دیا گیا۔نثری نظم کی کئی تعریفات کی گئیں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری کی وہ صنف جس کا خارج تو نثر کے پیرائے میں ہو مگر اپنے مواد کے اعتبار سے شعری ہو یا غیر موزوں نظم،ایسی نظم جو بحر اور قافیے وغیرہ سے مبرا ہو-نثرجمع نظم برابرنثم، یہ انگریزی سے اردو میں آئی انگریزی میں اس کے لیے “Prose Poem” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یہ صنف ہر طرح کی عروضی پابندیوں سے آزاد ہے۔رفیع الدین ہاشمی کے بقول اردو میں نثری نظم کا تجربہ نیا نہیں سب سے پہلے ۱۹۲۹ْء میں نیرنگِ خیال کے مدیر حکیم محمد یوسف حسن نے “پنکھڑیاں” کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا یہ مجموعہ ایسی تحریروں پر مشتمل تھا جسے نثری نظم کہا جاتا ہے اس کے بعد حسن لطیفی نے ۱۹۳۰ء میں اپنی بعض تحریروں کو “افکارِ پریشاں”کے نام سے پیش کیا۔۱۹۴۴ء کے آس پاس سعادت حسن منٹو نے بھی نثری نظمیں لکھیں۔ ۱۹۴۸-۴۹ء میں بمبئی سے “خیال” نامی رسالہ نکلتا تھا جسے میراجی اور اخترالایمان وغیرہ نکالتے تھے اس رسالہ میں بسنت سہائے نامی شاعر کی طرف سے نثری نظموں کے نمونے ملتے ہیں قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ یہ نظمیں میراجی لکھ رہے تھے اور وہ آزاد تلازمئہ خیال کا تجربہ کررہے تھے۔۱۹۶۴ء میں سید سجاد ظہیر کا مجموعہ”پگھلا نیلم”چھپا تو نثری نظموں پر بات چیت شروع ہوئی،اس کتاب کے حق میں اور مخالفت میں شدید ردِ عمل سامنے آیا اس کی شعری شناخت پر سوالات اٹھائے گئے لیکن اس کی ہیئت اور خلقی نثریت کو ادبِ لطیف سے جدا نہیں کیا گیا۔نثری نظم اردو کی ادبی روایت کا حصہ ہے نثری نظم کے حوالہ سے افتخار جالب،انیس ناگی،مبارک احمد،زاہد ڈار،افتخار امام صدیقی،نصیر احمد ناصر،سائرہ شگفتہ،محمد صلاح الدین،سلیم آغا،اصغر ندیم سید،زہرا نگاہ،زاہد امروز،خالد ریاض،علی محمد فرشی اور دیگر شعراء کے نام نمایاں ہیں۔
عہد حاضر میں نثری نظم پاکستان میں ایک مقبول صنف بن گئی ہے۔بڑی تعداد میں لوگ نثری نظمیں لکھ رہے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مگر ایسے شعراء بہت کم ہیں جنہیں نئی نسل کا نمائندہ کہا جا سکے لیکن چند شعراء ایسے ہیں جن کے ہاں نیا لب و لہجہ اور موضوعات میں جدت نظر آتی ہے جن میں ڈاکٹر رابعہ سرفراز، سید کاشف رضا، مصطفیٰ ارباب، جواز جعفری، حمیدہ شاہین، سدرہ سحر عمران، وجیہہ وارثی، زاہد امروز اور ساحر شفیق کے نام اہم ہیں۔
عہد حاضر کے نامور شعراء میں ڈاکٹر رابعہ سرفراز کی نثری نظموں کے مطالعہ سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس شاعرہ کے پاس ایسا کچھ ہے جو اسے دوسرے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ڈاکٹر رابعہ سرفراز زیرک نقاد،بالغ نظر محقق،خوش فکر شاعرہ،ماہرلسانیات،ماہراقبالیات، فن ترجمہ کی ماہر، اور انفرادی سوچ و فکر رکھنے والی دانشور ہیں جنھوں نے قلیل عرصہ میں اپنی تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی بصیرت و بصارت سے اہل علم کو متاثر کیا۔ڈاکٹر رابعہ سرفراز ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں آپ نے علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی آپ کے والد سرفراز احمد پیشہ کے اعتبار سے ایڈوکیٹ تھے گھریلو ماحول تعلیم کے لیے سازگار تھا جس کے پیش نظر آپ نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی اور اس وقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو میں بہ طور صدرِ شعبہ تعلیمی پودے کی آبیاری کر رہی ہیں۔آپ کی مطبوعات میں بیس سے زائد کتب شامل ہیں جن میں نثری نظموں پر آپ کے دو مجموعے”شبنم سے مکالمہ”(۲۰۰۰ء)اور”محبت زمانہ ساز نہیں”(۲۰۰۱ء) چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر رابعہ سرفراز ذوق اور فطری طور پر “نثم” سے مناسبت رکھتی ہیں۔ان کی “نثمیں” عرفانِ ذات،مشاہدہ کائنات،مظاہر فطرت سے لگاؤ اور رجائیت کی آئینہ دار ہیں داخلی اور خارجی اعتبار سے ان کے نزدیک چلنا زندگی اور رکنا موت ہے ان کی شاعری میں خاص قسم کا مربوط فکری نظام واضح نظر آتا ہے جس سے وہ ایک ایسی فضا تخلیق کرتی ہیں جس میں خارجی و باطنی عناصر مل کر احساس کی سطح پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ان کی شاعری کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ وضاحت اور طول بیانی کی بجائے اختصار سے کام لیتی ہیں۔ان کا مدعا قاری کے ذہن میں نقش بھی ہو جاتا ہے۔وہ جانتی ہیں کہ الفاظ کے بے جا اصراف سے خطابت تو ہو سکتی ہے لیکن شاعری نہیں۔اس لیے وہ اپنی شاعری میں الفاظ سے طلسم پیدا کرتی ہیں۔رجائیت،حسیات،تخیل اور جذبے شاعرہ کی نثموں کے وسیلے ہیں۔
ڈاکٹر رابعہ سرفراز اپنی نثموں کے متعلق خود رقمطراز ہیں:
“میں نے زندگی کے رنگوں کو جس طرح محسوس کیا،بعینہ زیبِ قرطاس کر دیا۔میری نثمیں مختلف کیفیات کی عکاس ہیں۔
ان میں شکوہ،شکایت اور اداسی سے بھرپور موضوعات بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر ایک رجائیت آمیز لہجہ غالب ہے۔
محبت ایک طاقتور جذبے کے روپ میں اپنی برتری کا اعلان کرتی ہے۔یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو مجھے مظاہر فطرت سے
قریب تر بھی کرتی ہے اور رویوں کی بد صورتی کونظر انداز کرنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔مگر بعض اوقات تکلیف کی شدت
ناقابلِ برداشت ہوتی ہے تو وہ تحریر کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔”(۱)
ڈاکٹر رابعہ سرفراز نے اپنی نثموں کے پہلے مجموعہ “شبنم سے مکالمہ” کا آغاز نثم “حمد نامہ” سے کیا جس میں وہ خوب صورت انداز میں خدائے بزرگ و برتر سے محبت کا اظہار کرتی ہیں:
رات کا پچھلا پہر جب پھولوں کی پنکھڑیوں پر شبنم گراتا ہے
تو میرے نادم آنسو
ہتھیلیوں پر تیری حمد تحریر کرتے ہیں(۲)
علاوہ ازیں اسی مالکِ کون و مکاں سے التجائے قلبی کو نثم”آمین” میں کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
اے ندامت اور اذیت بھری خاموشی کی زبان سمجھنے والے!
مرے لہجے کو شکر کی نعمت سے ثروت مند رکھ
اور مجھے صبر کی اس راہگزر کا مسافر بنا
جس کی برکات کبھی زوال آشنا نہ ہوں(۳)
“شبنم سے مکالمہ” میں شاعرہ کبھی خدا سے تو کبھی اس کی مخلوق سے مکالمہ کرتی دکھائی دیتی ہیں نثم “چڑیا سے مکالمہ” میں شاعرہ ایک چڑیا سے مخاطب ہے جو اس کے دل کا بھید جانتی ہے اور اسے اس کی خوش بختی سے آگاہ کرتی ہے اور خوش ہونے کی تلقین کرتی ہے اس نظم میں بڑے ہی خوبصورت پیرائے میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ محبت ایک خوشبو کی مانند ہے جسے انسان چاہ کر بھی چھپا نہیں سکتا اور بالآخر اس کا یہ راز سب پر آشکار ہو ہی جاتا ہے جس طرح روشنی کو قید نہیں کیا جا سکتا اسی طرح محبت بھی دوسروں سے چھپائے نہیں چھپتی کیونکہ محب کی آنکھیں ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالتی ہیں جو اس کی زبان چھپا رہی ہوتی ہے:
میرے آنگن کے شجر پر ایک چڑیا صبح سے چہچہارہی تھی
میں نے حیرت سے پوچھا،
“تم اتنی مسرور کیوں ہو”؟
وہ ہنستے ہوئے بولی
“نادان!
تمھاری قسمت پر نازاں ہو رہی ہوں
خوش بختی کا اک خزینہ تمھارے ہاتھ لگا ہے اور تم خاموش بیٹھی ہو”(۴)
انسان کی زندگی میں بہت سی خواہشات جنم لیتی ہیں ان میں سے کچھ خواہشات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں لیکن ادھوری خواہشات بہت دکھ دیتی ہیں جن کی ترجمانی غالب نے یوں کی تھی
ع۔ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پہ دم نکلے
اس طرح کی خواہشات کو شاعرہ نے حسین انداز میں اپنی نثم “خوش نصیب” میں بیان کیا ہے:
چاہتیں جو انمول ہیں
بے مثل،بے لوث ہیں
چپکے چپکے آتی ہیں
کبھی سرگوشی میں کچھ کہتی ہیں
کبھی نظروں سے کچھ حیرتیں سمجھاتی ہیں
جی چاہتا ہے
ان چاہتوں کے سہارے سمیٹ لوں(۵)
نثم “آشنا خوشبو کا اعتبار نامہ” ایک عاشق کے دل کی پکار ہے جو اپنے محبوب کو اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتی ہے اسے اپنے جذبوں کی صداقت کا یقین دلانے کی آرزو رکھتی ہے وہ اسے یہ بتانا چاہتی ہے کہ اس کی آنکھوں کے پانی میں اس کے مقدر کا عکس موجود
ہے اور وہ اپنے محبوب کی خوشبو سے اسے پہچان سکتی ہے کیونکہ وہ اس کی خوشبو سے آشنا ہے:
میرے جذبوں سے انجان نہ بنو
تم ان محبتوں سے کیوں ڈرتے ہو
کیا تمھیں مرے جذبوں کی صداقت کا یقین نہیں ہے
یا مجھے آزما رہے ہو
سچ کہنا؟
میری منتظر آنکھوں کے پانی میں تمھیں اپنے مقدر کا عکس نظر نہیں آتا
کیا میرے لہجے کے تانے بانے میں تمھاری چاہتوں کے رنگ نہیں ہیں؟
تم زندگی کے سب سے بڑے سچ کو سنجیدہ مذاق سمجھ رہے ہو!(۶)
نثم “اعتماد کے زوال کا تجربہ” میں ایک ایسی عورت کی کیفیت کو بیان کیا جا رہا ہے جس نے اعتماد کے زوال کا تجربہ کیا ہے اور اب اس کی حالت کچھ ایسی ہے کہ دوبارہ کسی پر اعتماد کرنا اس کے لیے محال ہے جو بار ہا اپنی انا کی حفاظت کرتے ہوئے بھی ناکام رہی سورج بلندی اور زمین پستی کی علامت ہے شاعرہ کے نزدیک محبوب کا تصور ایسے ہی ہے جیسے کہ سورج کو پانے کی چاہ رکھنا لیکن وہ اسی چاہ کی وجہ سے ایسے کرب سے گزر چکی ہے کہ اب کسی سورج کی تمنا تو کیا اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی اور اس کے بدلے میں وہ صبر کا کڑوا گھونٹ پینے کے لیے بھی تیار ہے:
ماحول کی آگ سلگ رہی ہے
اسے دیکھ کر میرے صحن جاں میں نفرت کے بگولے اڑرہے ہیں
کیا عمر بھر کی ریاضت جو انا کی حفاظت پر صرف ہوئی
رات کی گرتی ہوئی اوس کی طرح بے وقعت ہے
میرے ہونٹوں پر انگاروں کی طرح کئی سوال ہیں
مگر کسی مہرباں کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں
سورج نے اپنے نام سے بے وفائی کی ہے
اور میرے سر پر روشنی کی بجائے کالک الٹا دی ہے
یہ اعتماد کے زوال کا ایک ایسا تجربہ ہے
کہ اب مجھے کسی بھی سورج کا یقین نہیں
میں اپنی ذات میں ذرہ سہی
میں صبر کی روایت سے جڑی ہوئی زمین کے ساتھ نباہ کر لوں گی
مگر اب کسی سورج کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھوں گی۔(۷)
ڈاکٹر رابعہ سرفراز کے دوسرے مجموعہ”محبت زمانہ ساز نہیں” میں کھوئے ہوئے روشن دنوں کا نوحہ،اپنے اور اپنے عہد کے غموں کا بیان،حالات کی بے یقینی،خواہشات کی عدم تکمیل سبھی ذائقے موجود ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اس میں نیک لمحوں کی دائمی طلب اور روشن دنوں کی بشارت شگفتگی کی منتظر روشن نگاہیں بھی موجود ہیں۔
شاعرہ اپنے دوسرے نثموں کے مجموعہ کا آغاز نثم”نئے سفر کی دعا” سے کرتی ہیں جس میں وہ اپنے رب سے ہمیشہ رہنے والی محبت کی طلبگار ہیں اہلِ اِیمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اِیمان کی تکمیل،اپنی عبادات کا حقیقی فائدہ اور اپنی دُنیا اور آخرت کی خیرو فلاح کے حصول کے لیے اپنے دِل و جاں میں اپنے الله کی محبت جگائے اور بڑھائے رکھے اور الله سے اپنے لیے محبت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہے۔یہی کوشش ہمیں نثم”نئے سفر کی دعا” میں ملتی ہے جس میں شاعرہ خدائے بزرگ و برتر سے التجا کرتی ہیں کہ علم کی روشنی کو تا ابد میرا ہم سفر رکھ،رب سے لازوال رحمت کی طلبگار بن کر زمانے کی پر فریب نگاہوں سے
وقوع پذیر زوال سے پناہ مانگتی ہیں اور محبت کی ہمیشگی کی طلب گار ہیں:
اے مالک!
جس روشنی کو میرا ہم سفر بنایا
اس کی تابناکیوں کو تاابد قائم رکھ
میری بے مایہ ذات کو حقیقت آشنا کرنے والا سچ،
زمانے کی پرفریب نگاہوں سے ہمیشہ پوشیدہ رہے
اسی میں میری محبت کی فتح ہے
تیری لازوال رحمت کی رہبری کے امیدوار ہیں
مجھے اپنی محبت کی ہمیشگی سے نواز!!(۸)
آج تک دنیا میں یہی ہوا ہے کہ جس کسی نے کچھ پانا چاہا اس نے پہلے آنکھوں میں خواب بسائے ہیں اور پھر ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے بارے میں سوچا ہے کسی بھی حوالے سے کوئی شدید خواہش جب ہمارے حواس،اعصاب اور فکری ساخت پر اثر انداز ہوتی ہے تب خواب بن کر آنکھوں میں سمائی رہتی ہے مگر جاگتی آنکھوں کے خواب کچھ نہیں دیتے یہ ادھوری پرمردہ اور ناکام خواہشیں ہیں جو جاگتی آنکھوں میں خواب کی شکل اختیار کیے رہتی ہیں یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان محض خوش فہمیوں کی نذر ہوکر زندگی بسر کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔محض خواب دیکھنے اور کسی چیز کو وژیولائز کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے یہی بات شاعرہ نے ہمیں اپنی نثم”جاگتی آنکھوں کے خواب” میں سمجھانے کی کوشش کی:
جاگتی آنکھوں کے خواب خود ساختہ تعبیروں کے مظہر ہیں
تخیل کی دلفریب وادی کے سحر میں گرفتار۔۔۔۔۔
حقیقت سے نظریں ملانے سے گریزپاہورہے ہیں
منظر کی تازگی کھٹکنے لگی ہے
سوچوں کا جو در اپنے ہاتھوں سے مقفل کر دیا ہے
اس کو وا کرنے کی کوئی صورت کارگر ثابت نہیں ہوسکتی.(۹)
ڈاکٹر رابعہ سرفراز کی شاعری میں ہمیں نسائی شعور بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں وہ مظلوم عورت کی آواز بن کر معاشرے میں موجود رشتوں کے مسائل کے متعلق بات کرتی ہیں شادی نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی طور پر بھی اہمیت کا حامل ایک فریضہ ہے۔ نسل کی بقا و ارتقا، گناہوں میں رکاوٹ اور ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ وہ ممالک جہاں نکاح اور شادی کو نظر انداز کر کے تعلقات بنائے جاتے ہیں۔ ان معاشروں میں بےچینی، ہیجان، ذہنی دباؤ اور خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔ اچھے رشتوں کی قلت ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔خوب سے خوب تر کی تلاش نے رشتوں کے حصول میں رکاوٹ بن کر بگاڑ پیدا کردیا ہے جس سے لڑکیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں روز نت نئے لباس پہن کر بن سنور کر اجنبی لوگوں کے سامنے بیٹھنا اور ان کی کھا جانے والی نظروں کے تیر برداشت کر کے مسکرا دینا اور آخر پہ رد ہو جانا معمول بن چکا ہے بار بار رد ہونا انھیں ذہنی طور پر مفلوج بنا رہا ہے شاعرہ اپنی نثم”قسطوں میں نازل ہونے والی موت” میں لڑکیوں کے ذہنی اور ان کے والدین کے مالی استحصال کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں:
اُسے اپنا آپ سنوار کے اجنبی لوگوں کے سامنے پیش ہونا تھا
اور اُن کی روح کے آر پار ہوتی نظروں کو مسکرا کر برداشت بھی کرنا تھا
چائے کی ٹرے میں مختلف لوازمات سجا کر وہ کمرے میں داخل ہوئی
تو ماں نے پر ستائش نظروں سے اپنی لاڈلی کی طرف دیکھا
وہ حُسن و ذہانت کے ہر معیار پر پوری اترتی تھی
مہمانوں نے بڑی توجہ سے اپنے من پسند لوازمات سے پلیٹیں بھریں
اور پھر محو گفتگو ہو گئے
اُن کے مسکراتے چہروں نے ماں اور باپ دونوں کو اس بات کا یقین دلا دیا
کہ اب کی بار قسمت اُن پر مہربان ہو ہی جائے گی
کتنے دن گزر گئے اور اُدھر سےکوئی اطلاع بھی موصول نہیں ہوئی
اب تو بزرگوں کا یقین بھی ڈگمگانے لگا ہے
اور آج اچانک لڑکے کے والد نے سر راہ ملاقات میں بے اعتنائی سے منہ پھیر لیا ہے
یہ سادہ سی کہانی
ہر روز کسی نہ کسی گھر میں دُہرائی جاتی ہے
یہ مہمان……
ہر روز موت کی قسطوں کی طرح کسی نہ کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں
یہ المیے…….
حساس ذہنوں پر ہر روز کہیں نہ کہیں
آفت بن کر نمودار ہوتے ہیں.(۱۰)
مجموعی طور پر ڈاکٹر رابعہ سرفرازکے دونوں شعری مجموعوں کا اسلوب،لہجہ،مزاج،علامتیں،مثالیں اور محاورے فکری اعتبار سے انسانی رشتوں کو زمین اور خدا کے ساتھ بیک استوار کرتے ہیں۔ نثری نظم کی تخلیق انتہائی مشکل کام ہے یعنی نثری ذائقہ بھی موجود ہو اور شعری آہنگ بھی برقرار رہے۔نئی صنف اپنے ساتھ نئے موضوعات اور نئے خیالات لے کر آتی ہے یہی نیا پن ہمیں ڈاکٹر رابعہ سرفراز کی نثموں میں ملتا ہے خارجی اعتبار سے آپ کی نثموں میں مظاہر فطرت دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ سماجی کھٹنایاں علامتوں کے سہارے نثموں کا روپ دھارتی نظر آتی ہیں۔آپ نے جمال اور اجمال کے ساتھ جو چاہا قاری کے من میں اتار دیا آپ کی نثموں کے خوبصورت عنوان آپ کی تخلیقی ہنر مندی کی دلیل ہیں مجموعی طور پر ڈاکٹر رابعہ سرفراز کی شاعری محبت کی شاعری ہے نہ صرف محبت کی بلکہ محبت کرنے اور محبت کی قدر کرنے والوں کی شاعری ہے ان کی نثمیں انسان کو ایک نئے راستے سے بھی متعارف کرواتی ہیں۔گویا منفی عوامل کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ مثبت پہلو بھی ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ڈاکٹر رابعہ سرفراز نے نثری نظم کے معیارات کو ملحوظِ خاطر لاتے ہوئے اردو نثری نظم کی روایت میں اپنا حصہ ڈال کر نثری نظم کا وقار بلند کیا ہے۔
***
حوالہ جات
1) رابعہ سرفراز،ڈاکٹر،شبنم سے مکالمہ،فیصل آباد:سلیم نواز پرنٹنگ پریس،۲۰۰۰ ء ،ص ۱۶۸
2) ایضاً،ص۹
3) ایضاً،ص۱۱
4) ایضاً،ص۱۳
5) ایضاً،ص۱۸
6) ایضاً،ص۵۰
7) ایضاً،ص۹۹
8) رابعہ سرفراز،ڈاکٹر، محبت زمانہ ساز نہیں،فیصل آباد:سلیم نواز پرنٹنگ پریس،۲۰۰۱ ء ،ص۱۵
9) ایضاً،ص۳۸
10) ایضاً،ص۱۱۴
بہت ہی عمدہ اور جاندار تبصرہ عمار حسن مبارک باد