فوزیہ سلطانہ
ملانا،پھولپور۔ الہ آباد
ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی افسانوی فکر
”زیبرا کراسنگ کے درمیان” کے تناظر میں*
فکشن انسانی زندگی اور معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات اور شکست و ریخت کا تخلیقی اظہار ہے۔فکشن حیات انسانی کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں، اس کے اقدار، اس کی خوشیوں اور غموں، اس کے اخلاق و اطوار اور اس کے منفی و مثبت رویوں کو ہنرمندی اور فنی لوازمات کے ساتھ پیش کرنے کا عمل ہے.
معاصر اردو فکشن میں متعددایسے نام ہیں جنھوں نے فکری و فنی لحاظ سے اردو فکشن نگاری کو ثروت مند کیا ہے اور اسی میدان میں انھوں نے اپنی شناخت قائم کی ہے بعض ایسے ادیب بھی ہیں جن کا اختصاص میدان تنقید و تحقیق ہے تاہم انھوں نے افسانہ نگاری میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں ایسے تخلیق کاروں میں ایک قابل ذکر نام ڈاکٹر مجاہد الاسلام کاہے. جو دربھنگہ ضلع کے باڑھ سمیلا بستی میں 10 اگست 1962ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی حاصل کی پھر مدرسہ جامعتہ الفلاح بلریا گنج، سے عا لمیت مکمل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں سے اردو مضمون سے ایم اے کی ڈگری لی بعد ازاں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی JNU سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں. اب تک ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی کئی تحقیقی، تنقیدی و ترتیب شدہ کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ انکا پہلا افسانوی مجموعہ ”بدن کی خوشبو” 2012ء میں شائع ہوا۔ادب اور ابلاغ(تنقیدی مضامین)2015ء میں شائع ہوا جس پر انہیں یوپی اردو اکادمی انعام بھی ملا۔،فرہنگ کلیات سودا2017ء(تحقیق) یوپی اردو اکادمی ایوارڈ ملا۔،تحلیل و تجربہ(تنقیدی مضامین)2018ء، تنقیدات و تشریحات (ترتیب)2019ء، محاسن و معائب(تنقیدی مضامین)2020ء.
ان کے ۔تنقیدی اور تحقیقی مضامین اکثر وبیشتر اردو کے موقر رسائل و جراید میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔جو بالکل منفرد خاص موضوعات پر اور اچھوتے ہوتے ہیں۔آپکو افسانہ نگاری پر بلونت سنگھ ایوارڈ اور برائے تحقیق مالک رام ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ مجاہد الاسلام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے میگزین مسعود 1987ء میں ترتیب دے چکے ہیں۔ بطور صحافی بھی اردو کی خدمت انجام دی ہے۔آپ اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی Mannu لکھنؤ کیمپس میں بحیثیتِ اردو استاد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مجاہد الاسلام صاحب کثیر الالسان ادیب ہیں جنھیں اردو، ہندی،عربی،فارسی،انگلش زبان پر دسترس حاصلِ ہے۔
جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے بدن کی خوشبو 2012ء، اور ”فلائی اوور کے درمیان 2014ء ” اور تیسرا مجموعہ جو میرے زیرِ مطالعہ ہے ”زیبرا کراسنگ کے درمیان” 2023ء میں منظر عام پر آیا۔ 32 افسانوں پر مشتمل ہے۔ انتساب ”مادر علمی جے این یو میں گزارے ہوئے ان خوبصورت لمحات کے نام جنہوں نے مجھے ایک حس لطیف بخشا اور کشادہ ظرفی، وسعت قلبی، فکر و نظر کی آزادی اور علمی مجاہدے کا ذوق عطا کیا” کے عنوان سے کیا ہے۔ انتساب کو مدنظر رکھیں تو آپکو اس افسانوی مجموعے میں یونیورسٹی کالج کلچر اور پڑھا لکھا معاشرتی جوان اور Depressed اداس نوجوان نسل جنسیت جنسی بے راہ رو کھویا ہوا اور خود کو پانے کی جدوجھد کرتا انسان جھلکتاہے آج ہمارا نوجوان معاشرہ کی کن کن تکلیفوں میں مبتلا ہے جسے وہ ہر جگہ ظاہر نہیں کر سکتا خود میں گھٹ رہا۔کالج یونیورسٹی اور اپنے معاشرے میں سامنے روبرو جو دیکھا اور محسوس کیا ہے ان موضوعات کو اٹھایا اور اپنے افسانوں میں بخوبی نبھایا ہے جیتی جاگتی تصویر کو ہمارے سامنے ہے۔ آپ کی افسانوی دنیا میں جہاں مختلف موضوعات بکھرے ہوئے ہیں۔ وہیں ان موضوعات میں عورت اور مرد کا وہ رشتہ جس سے یہ دنیا اور خلق خدا آباد ہے۔اور جنسی بے راہ روی ہے جس پر سماج میں کھل کر بات کرنے میں ممانعت ہے۔انسان اسی رشتے میں چاہت اور تسکین حاصل کرنے کے لیے جرائم تک کر بیٹھتا۔ ہوس پرستی میں انسان کو انسان سے حیوان بھی بنا بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد الاسلام حرف چند میں رقمطراز ہیں۔”عورت اور مرد ہمارے سماج کی بنیادی وحدت ہیں،انکی تکثیر سے ہی سماج کا وجود عمل میں آیا ہے۔اس سماج اور معاشرے کی بنیادی اکائی کو جوڑنے والی جو چیز ہے وہ رشتۂ الفت ہے۔مردوزن جو ہمارے سماج کی اکائی ہیں۔اگر اس میں صرف حسن کا ہی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو بہرحال مایوسی ہوگی اس کی خوبصورتی کی طرح بدصورتی بھی ایک حقیقت ہے۔جس طرح اجالے کے ساتھ اندھیرا، شام کے ساتھ سویرا ہے۔ اسی طرح نیکی کے ساتھ بدی ازلی حقیقت ہے۔”
اس افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ افسانہ ”کیپری” ہے کرتیکا اہم کردار ہے جو ائی اے ایس آفیسر کی بیٹی ہے۔والدین کے پاس بیٹی کے لیے وقت نہیں صرف ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیسے ہیں، بے شمار پیسے کرتیکا یونیورسٹی ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصلِ کررہی ہے۔ مرد عورت کے حساس رشتے کو ہر مذہب اور سماج نے ایک حدود اور ضابطے طے کیے ہیں۔ رشتہ اذدواج ہے کچھ رسم اور ریتی رواجوں سے رشتے جوڑے جاتے ہیں۔اس کہانی کا موضوع بالکل ہی منفرد ہے ہم اکثر وبیشتر یہیں دیکھتے ہیں کالج یونیورسٹی یا اپنے آس پاس کی ایک لڑکا لڑکی کی محبت میں دیوانہ وار پھرتا ہے اور اسکے سارے شوق شنگار بھی خود پورے کرتا ہے تحائف پر تحائف اور بہترین ریستوران میں کھانا گھوماتا پھراتا ہے ۔لڑکی کے چھوٹے سے بڑے شوق پورا کرتا ہے۔ پر اس افسانے میں کرتیکا بغیر شادی کے لیو ِان رلیشن میں رہنے لگتی شفاف محبت میں اپنے عاشق کے سارے خرچ بھی خود اٹھاتی ہے۔اچانک لڑکے کی ماں۔ کی طبیعت خراب ہونے پر وہ گاؤں چلا جاتا ہے کرتیکا گاؤں خط بھیجتی ہے۔
”خط آیا جس میں اور باتوں کے علاوہ لکھا تھا کہ میں نے تمہارے کپڑے خود اپنے ہاتھوں سے دھوئے اور پریس کیے ہیں سوائے اس ‘کیپری’ کے جس کو میں رات کو اپنے ساتھ لیکر سوتی ہوں اور جس میں تمہارے بدن کی خوشبو محسوس کرتی ہوں۔آخر کب تک میں تمہاری اس ‘کیپری’ کے سہارے اپنا وقت گزاروں؟ اب مجھے راتوں کو نیند بھی بہت کم آتی ہے پچھلی رات عالم تخیل میں تمہاری اس ‘کیپری’ کو اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں میں کچھ اس طرح سے بھینچا کہ میری دونوں ہتھیلیاں لہولہان ہوگئیں۔ تم جلدی آؤ۔وغیرہ وغیر۔”(کیپری، مشمولہ زیبرا کراسنگ کے درمیان،ص 16)
گاؤں سے واپس آنے پر کرتیکا اسے اپنے حاملہ ہونے کی خبر دیتی ہے اور شادی کرنے کو کہتی ہے پر وہ صاف بہانے بناکر شادی سے انکار کردیتا پھر مجبوراً کرتیکا کو ابارشن کرانا پڑتا ہے۔”لیبر روم میں جاتے وقت کرتیکا نے کچھ اس طرح بے بس نظروں سے میری طرف دیکھا میں تھرا کے رہ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا، میں اندر سے گھلا جارہا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر میں کرتیکا باہر آگئی۔اسکے کپڑے مڑے تڑے تھے وہ نیم غنودگی کی حالت میں تھی۔دو نرس دونوں طرف سے اسے تھامے ہوئی تھی۔ پھر اسے پاس پڑے بیڈ پر لٹا دیا۔ اس کی عجیب وغریب حالت دیکھ کر مجھے اس پر بڑا ترس آرہا تھا معصومیت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔”(کیپری، مشمولہ زیبرا کراسنگ کے درمیان، ص17)
پھر کرتیکا سے ملنا کم ہوگیا دھیرے دھیرے کرتیکا نے دوری اختیار کرلی پھر ڈھابے پر کرتیکا دکھی کورٹ میرج کی ہے وہ لڑکا بھی اسکے پیسوں سے کھارہا ہے۔ وہ ہی بل ادا کررہی تھی مانگ میں سیندور ہے پر چہرے پر خوشی نہیں فاتح خوشی تو اس لڑکے کے چہرے پر ہے جس سے کرتیکا نے کورٹ میرج کی تھی۔
*افسانہ ”سچی محبت” کا اہم کردار پارو ایک کتیا جس کو بہت سے کتے چاہتے ہیں گلی میں لائن لگی ہوتی ہے اور جھگڑے ہوتے، پھر کرسٹوفر پارو پر فتح حاصل کرتا ہے۔ پارو کے بچے ہوتے کچھ مرجاتے ہیں کچھ کو دوسرے محلے کے بچے پال لیتے ہیں’ دو پلو کو کرسٹوفر موقع دیکھ کر ایک ایک کر کے مار دیتا ہے اور پارو کا شریکِ غم بن کر اسکے ساتھ ہوتا ہے۔کرشٹوفر اپنی محبت میں اپنے خود کے بچوں کی شراکت برداشت نہیں کرتا اور پارو کو مکمل خود کے سپرد چاہتا ہے۔
*افسانہ ”ورجنٹی”اہم کردار نندنی ہے جو اس سے محبت کرتی ہے۔ گاؤں جانے پر فون بند ہوا تو بند ہی ہوگیا کالج جاکر نئی بات پتا چلی کہ نندنی حمل سے تھی اسقاط حمل کے لیے حکیم کی دوا کھالی وہ ساتھ ہی تھا۔وہ زہر پھیلنے سے مرگئی۔اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
”میرے اصل قاتل تم ہو۔۔۔۔حقیقت میں میں اسی وقت مرچکی تھی، جب میں تمہارے رابطے میں آکر اپنی ورجنٹی(virginity)کھوئی تھی……!!”’
انیتا کالج فیلو آج اسکے قریب آنا چاہتی ہے پر وہ چاہتا ہے کی کوئی اور لڑکا اسکی ورجنٹی ختم کرے کیوں کی وہ انیتا کی ورجنٹی خود ختم کر اسکا قاتل نہیں بننا چاہتا اس لیے انیتا کے قریب جانے سے تھرا جاتا ہے اور نندنی کی حالت اسے یاد آجاتی اور وہ درپردہ خود کو نندنی کا قاتل تصور کرتا ہے۔
*افسانہ ”پگڈنڈی” ماضی کی غلطیوں کو بھول کر آگے بڑھنا بھی چاہوں ماضی ہمارا پیچھا کرتا رہتا ہے آج وہ ماں بننا بھی چاہتی ہے پر ماں نہیں بن پاتی ماضی کی غلطیوں کے سبب۔ یہ افسانہ آدمی کے شکی مزاجی کی بھی عکاسی کرتا مرد کا ماضی داغدار بھی ہو وقت کے ساتھ دامن صاف ہوجاتے پر وقت عورت کے ماضی کو بھولنے نہیں دیتا اگر ماضی زبان سے ذرا مزاق میں بھی نکل گیا تو زندگی تباہ کردیتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔”میرے دماغ میں ماں کی وہ بات گردش کرنے لگی جو اس نے رخصتی کے موقع پر مجھ سے کہیں تھی ”مرد بہت زیادہ وہمی اور شکی ہوتے ہیں انکے سامنے کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں کرنی چاہیے”(پگڈنڈی،زیبرا کراسنگ کے درمیان، ص132)
”آج دلجیت نے بریزیر والی بات پر طلاق کی عرضی داخل کردی ہے اور دعویٰ کیا کہ جو لڑکی سہاگ رات میں خود ہی اپنے بریزیر کے ہک کھول سکتی ہے اسکے کریکٹر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟”(پگڈنڈی،زیبرا کراسنگ کے درمیان، ص134) کورٹ میں بے عزت نا ہو اس لیے خودکشی کی کوشش کی ہسپتال میں بھی Anxiety انزائیٹی اٹیک آتے رہتے ہیں۔وہ مرنا چاہتی اپنی ماضی کی غلطیوں کے لیے کیوں کی اس کا مداوا نہیں ہے۔
*افسانہ ”وسواش گھات” انور اور روفیہ انور کالج کے درمیان روفیہ کو پڑھائی میں گاییڈ کرتا ہے محبت کرنے لگتا ہے محبت کا سلہ چاہتا ہے روفیہ دوری اختیار کرلیتی ہے وہ بھی دہلی چلا جاتا ہے ایک مرتبہ ملاقات ہوتی ہے اس سے بالکل انجان بنتی ہے پھر خط آتے ہیں اور پھر بھولی یادوں اور محبت کے تصور میں گھلنے لگتا ہے بعد میں پتا چلتا ہے روفیہ نے شادی کرلی ہے۔ اسکو بتایا بھی نہیں کتنی بڑی وسواس گھاتی ہے۔
*افسانہ ”مایامال”وکی اہم کردار ہے جو جسم فروشی کی منڈی میں جاتا ہے جہاں ایک ایسی لڑکی سے ملتا ہے جو نا چاہتے ہوئے بھی جسم فروشی کررہی ہے اسے اپنڈکس Apendix ہے۔اسکا آپریشن کرانا ہے اس منڈی میں گاؤں کے پنڈت تک آچکے ہیں وہ بہت افسردہ ہوتا ہے اور لڑکی شرمسار اپنے کام سے۔ہر ویشیا ویشیا نہیں ہوتی کچھ مجبور بھی ہوتی یہ کہانی ہمیں یہیں بتاتی ہے۔
*افسانہ”ببل گم”اہم کردار زینت ہے جو گھر سے دہلی تعلیم جس کے ذریعے ایڈمیشن لیتی ہے اسی ارشد کی وہشی پن کا شکار ہوتی ہے۔
افسانہ”لمس کی لذت”نمرہ اور فریدی اہم کردار ہیں کس قدر لڑکیاں محبت میں سرشار ہوتی ہیں اور ایک مرتبہ ان کی عصمت پر بٹا لگ جائے تو رشتے نہیں ہوتے۔چاہنے والا محبوب بھی راستہ کاٹ جاتا ہے۔
افسانہ”آتش دان” اسلم سے اسکی فیس بک پر دوستی ہوء تھی اسنے آخر اسے ملنے کے لیے راضی کرلیا اور روم پر پہنچتے ہی اسلم نے اسے دبوچ لیا۔
افسانہ”بدلہ احسان کا” اہم کردار گنیش ہے جو ایک لڑکی کو نوکری من موافق سیلری دے کر اسکی عصمت کا سودا کرنا چاہتا آخر وہ خود یہاں سے دور کرکے نء جگہ نوکری حاصل کرلیتی ہے۔ اقتباس ملاحضہ ہو۔
”الفریڈ کمپنی میں آج میرا پانچواں یا چھٹا دن تھا۔ میں ڈیوٹی کے بعد گھر لوٹ رہی تھی۔۔۔گنیش میری مرضی کے برخلاف۔۔۔۔میرے منع کرنے کے باوجود بس کنڈیکٹر کو میرا کرایہ دینے کی کوشش کررہا تھا میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ ڈرائیور کو بس روکنے کو کہا بس ابھی ٹھیک سے رکی بھی نہیں تھی۔۔۔۔میں ایک جھٹکے سے چلتی بس سے ہی نیچے کود گء۔۔۔(بدلہ احسان کا،زیبراکراسنگ کے درمیان، ص227)
افسانہ ”چنبیلی”اس میں عمروں میں فرق اور بے میل شادی پر بات ہوء ہے جہاں لڑکی کے جزبات نا سنے جاتے نا کوء سمجھنا چاہتا خود اسکی ماں بھی اور آخر لڑکیاں اپنے من کو مار کر ایڈجسٹ کرلیتی ہیں۔
*افسانہ”رکاوٹ” موبائل کے ایڈکشن پر بات ہوی ھے۔
*افسانہ ”زیبرا کراسنگ کے درمیان” میں میٹرو ریل جو صرف سواری ہی نہیں آج کل نوجوان نسل کے لیے بے حیاء اور فحاشی کرنے کی روز انہ ان کرتوتوں کوانجام دینے کا اڈہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں لوگوں سے ایسے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنی دنیا میں مگن ہوتے۔ آج کے نوجوانوں اور معاشرے میں بے حیاء ہوس پرستی کس قدر عام ہے۔ کیا کہا جائے۔شلیندر اور سندھیا آج بس میں خود کو قابو نہیں کر پاتے ہیں پھر بھی خود کو کنٹرول کرتے ہیں۔اس افسانے کا اقتباس ملاحضہ ہو۔”بڑی مشکل سے دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے پریتم گریڑ کے بس اسٹینڈ پر اترے اور زیبرا کراسنگ پر قدم رکھتے ہی دونوں نے اپنے وجود پر کنٹرول کھودیا۔”
آجکل نئی نسل میں یہ سب فحش حرکات عام ہوگئی ہیں۔ انہیں نا میٹرو کے لوگ دکھتے نا روڑ کے راہگیر نا پارک میں بزرگ اور بچے یہ افسانہ بڑھتی ہوء جنسی بے راہ روی پر کھل کر باتیں کرتا ھے۔
*افسانہ ”فاصلے”گاؤں اور شہر کے فاصلے میں کس طرح رشتوں میں بھی فاصلے آجاتے ہیں۔اس کہانی میں یہیں بیان ہوا ہے۔
افسانہ ”کانوینٹی لڑکی” اہم کردار آکاش ہے اس افسانے میں پورن ایڈکشن پر روشنی ڈالی گء اس لت میں جکڑے شخص کے حالات بخوبی بیان ہوئے ہیں۔
*افسانہ ”انتقام” اہم کردار رفعت اسکا شوہر راشد رفعت بالکل پسند نہیں کرتی راشد کو پھر مانوس ہوجاتی ہے بیٹی درخشاں ہوتی ہے بزنس ٹرپ پر سنگاپور جاتے ہیں درخشاں کی طبیعت الگ رویے سے ڈی این اے چیک آپ ہوتا ہے رفعت سے تو ڈی این اے میچ ہوجاتا ہے پر راشد سے نہیں وہ سوچتا ہے آخر رفعت نے کونسا انتقام لیا ہے۔ ایسے ہی بہت سے منفرد افسانے اس مجموعے میں شامل ہے۔جیسے۔مایا مال،خودکشی،چوہیا،کوڑھ مغز، دھچکا، ڈالی غلاب کی، انفریارٹی کمپلیکس، نہاری، مالک مکان۔ وغیرہ۔
المختصر یہ کی ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے عصر حاضر میں رونما ہونے والے جنسی واقعات اور حادثات کو بہت کامیابی سے اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔زبان و بیان کی سطح پر محاوروں کا استعمال مناسب اور برمحل ہوا ہے اور کثرت سے ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ مجاہد الاسلام کی زبان پر گرفت خاطر خواہ مضبوط ہے۔بامحاورہ زبان بھی انکی تحریروں کا نمایاں وصف ہے بیانیہ اثر انگیز ہے۔ایک مرتبہ کوئی افسانہ شروع کرے تو ختم کیے بغیر نہیں بیٹھ سکتے۔کہیں کہیں کھلا پن ہے۔پر آج کا فکشن اب نئی راہ پر ہے فکشن نے جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد کردیا ہے،ہر روز نئے نئے تجربے ہورہے ہیں۔ان کی کہانیوں میں مرد اور عورت کے تعلقات زیادہ نظر آتے ہیں،جو فطری بھی ہے۔انکے افسانے اس سماج کے کوڑ مغز معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ وہی گھٹتی زندگیاں نظر آتی۔ ڈاکٹر مجاہد الاسلام جنسی موضوعات پر اور اس میں پنپتے ظلم و ستم اور جنسی تشدد کو بڑی بے باکی سے بیان کرتے ہیں اور اپنے فکشن کی ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
***