ایس معشوق احمد
کاچو اسفند یار خان کی انشائیہ نگاری
وادی کشمیر میں بے شمار ادیب افسانوی ادب کی آبیاری کرنے میں منہمک ہیں۔ اس کے برعکس کم ایسے ادیب ہیں جو غیر افسانوی ادب کی طرف توجہ کررہے ہیں۔آئے روز افسانوی مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں لیکن خال خال ہی خاکوں اور انشائیوں کے مجموعے قارئین کی دلبستگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔غیر افسانوی ادب کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے ایسے میں اگر رحمت باراں کی مانند کوئی انشائیوں پر مشتمل مجموعہ منظر عام پر آئے تو وہ بے اعتنائی کا شکار ہوجاتا ہے اور ناقدین اس کی پذیرائی نہ کے برابر کرتے ہیں۔ اس رویے سے دل برداشتہ ہوکر اکثر انشائیہ نگار مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود چند ایسے جیالے ہیں جو صنف انشائیہ کو فروغ دے رہے ہیں اور لگاتار انشائیے رقم کررہے ہیں ان میں ایک نام کاچو اسفند یار خان کا بھی ہے۔کاچو اسفند یار خان کا تعلق کرگل سے ہے۔اردو ،بلتی پورگی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کے انشائیوں کا مجموعہ پرکالہ گفتار 2022 ء میں منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں کل سولہ انشائیے شامل ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر کتے کسی اجنبی کو دیکھ کر بھونکنا شروع کرتے ہیں۔کاچو اسفند یار خان نے اس واقعہ کی بنیاد پر انشائیے کی خوبصورت عمارت تعمیر کی ہے۔کہانی کتوں کی میں بیس برس قبل کتے ہر اجنبی پر بھونکتے تھے لیکن بیس برس بعد جب انشائیہ نگار کتوں کی معاشرتی زندگی کا جائزہ لیتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ کتوں کی سماجی زندگی انسانوں کی زندگی سے زیادہ متوازن اور منظم ہے۔انسان اضطراب اور بیقراری کی حالت میں ہے جبکہ کتوں کی زندگی میں پختگی اور ٹھہراؤ آگیا ہے۔ کہانی کتوں کی میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ___
” سماجی طور پر کتے کثیر الازدواجی طرز زندگی کو اپناتے ہیں البتہ ان کی بیگمات کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔کسی کو زیادہ پیار اور خرچہ پانی نہیں ملتا ہے کیونکہ کتوں کی بیگمات کو اپنے خرچے پانی کا خود انتظام کرنا پڑتا ہے۔چونکہ ان میں بناؤ سنگھار کا کوئی رواج بالکل نہیں ہے اس لئے صاحب خانہ کو یہ فکر لاحق نہیں رہتی کہ صرافہ بازار میں سونے چاندی کا بھاؤ کیا ہے۔اسی طرح ان کی بیگمات کو دور جدید کے مصنوعی تیلوں ، پاؤڈروں اور فیر اینڈ لاولی کی خیرہ کن ڈبیوں سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔”
ہمارے سماج اور انسان کو مختلف بدعات ، غیر ضروری رسومات ، ظاہر داری ، برائیوں اور بری عادتوں نے کھوکھلا کیا ہے۔ہماری طرز زندگی سادگی کا پیکر ہونی چاہیے تھی لیکن ہمارا دستور العمل بدل گیا ہے جس کی بدولت ہماری زندگی کتوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔کہانی کتوں کی میں انشائیہ نگار نے عمدہ اسلوب میں طنز کے تیر برسا کر قاری کی سوچ کو بیدار کیا ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں کہ مکمل انشائیہ پڑھنے کے بعد قاری کو یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ کتوں کی زندگی انسانوں سے سو درجہ بہتر ہے۔ان کے بچے فرمابردار اور خود ہی علم سے لیس ہوتے ہیں___ :-
” کتے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بالکل فکر مند نہیں پائے گئے کیونکہ ان کے بچے خود مادر فطرت کی کھلی کتاب سے علم و دانش کے موتی حاصل کرتے ہیں۔اس لئے ان کو انسانی بچوں کی طرح کسی منظم اسکول سے درس و تدریس حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے۔اپنے بچوں کے اسکول داخلے کے واسطے نہ تو انہیں کسی اسکول کے نامعقول پرنسپل کے آگے گڑگڑانا پڑتا ہے اور نہ ہی اسکول کے صدر دروازے پر رات بھر بستر بچھا کر سونا پڑتا ہے۔پھر بھی ان کے بچے نہایت ہی فرمابردار اور بااخلاق ہوتے ہیں۔بزرگوں کی عزت و توقیر کرنا ان کی جبلت میں شامل پایا گیا ہے۔”
اس انشائیے میں ان تمام برائیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں انسان مبتلا ہیں اور اشرف المخلوقات کو جن صفات سے لیس ہونے چاہیے تھا وہ تمام اوصاف اور اخلاق حمیدہ کتوں میں دکھائے گئے ہیں۔
الیکشن میں الیکشن کے دوران کی گہماگہمی ، امیدواروں کی فہرست اور لیڈروں کے وعدوں کو موضوع بنایا گیا ہے، انگور کی بیٹی میں شراب کی خرابیوں کو بیان کیا گیا ہے، میرا وطن کشمیر میں کشمیر کو اس خرگوش سے تشبیہ دی گئی ہے جس کو دیگر جانوروں کی بچی کھچی مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس میں کشمیر کے تین خطوں پر انشائیہ نگار کے بجائے ایک تاریخ دان نے روشنی ڈالی ہے۔انشائیہ فن نقادی میں کاچو اسفند یار خان نے فن نقادی کا باوا آدم ابلیس کو مانا ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے خدا کے تخلیق کردہ جانوروں میں نقص نکالے اور آدم کے حوالے سے رب سے کہا کہ باقی جانوروں کی چار ٹانگیں اور اس کی فقط دو۔شاعری کو جزو پیغمبری تو سب مانتے ہیں لیکن کاچو اسفند یار خان نے فن نقادی کو جزو ابلیسی مانا ہے۔خدا جانے نقادوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ انہیں بالکل ہی ناکارہ مانتے ہیں لکھتے ہیں کہ __
“سماج کے کچھ فرد شعر و شاعری کرتے ہیں ،کچھ کہانی لکھتے ہیں ، کچھ ناول لکھتے ہیں لیکن لکھنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو نہ تو شاعری کرسکتا ہے ، نہ کہانی یا افسانہ لکھ سکتا ہے اور نہ ناول لکھ سکتا ہے تو بادی النظر میں وہی طبقہ نقاد بن جاتا ہے اور ادبی تنقید کا ایک لامتنائی سلسلہ شروع کردیتا ہے اور اپنی فرسودہ اور زنگ آلودہ انسلاکاتی و اسلوبیاتی تلواروں سے بہت سارے ادب پاروں کو بڑی بے دردی سے تہہ تیغ کرتا رہتا ہے اور خم ٹھونک کر کہتا ہے کہ صرف ابہام ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس سے شعر کو آفاقی بنایا جاسکتا ہے اور جو شعر انسان کے سرحد ادراک کو چھولے وہ آفاقی شاعری ہوہی نہیں سکتی۔”
ان خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سامنے ایسے ناقدین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے عمدہ افسانے ، ناول اور شاعری تخلیق کی ہے اور فن نقادی میں ان کا فرمایا مستند مانا جاتا ہے۔
چوہے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء ہی خراب نہیں کرتے بلکہ ہمارا اوڑھنا بچھونا اور کپڑوں میں بھی بعض دفعہ چھید کرکے انہیں ناقابل استعمال بنادیتے ہیں۔ ایک چوہے کی سرگزشت میں کاچو اسفند یار خان نے بات اس راجستھانی لحاف میں چوہے کے چھید کرنے سے شروع کی ہے جس کے اندر انہوں نے زندگی کے سرد گرم ، سہانی راتیں ، نوک جھونک ، جھگڑے اور پیارے و محبت کے لمحات گزارے ہیں اور جس میں چوہے کا چھید کرنا انہیں اتنا برا لگا کہ انہوں نے بازار جاکر چوہے دانی لائی۔جب اس میں چوہا پھنس گیا تو چوہے نے انکشاف کیا کہ میں وہی چوہا ہوں جس نے نوح پیغمبر کی کشتی میں سوار ہونے کا شرف حاصل کیا ہے۔اس کے علاوہ چوہے نے عورتوں کی فطرت ، ان کی بے صبری ، حضرت ابراہیم کا خانہ خدا کو تعمیر کرنا، پیارے نبی کی ہجرت ، محمد بن قاسم کا سندھ کو فتح کرنا، 1970 ء میں چوہے کا کشمیر کا رخ کرنا جیسی ساری روداد بیان کی ہے۔
منطقی انداز ، خیالات میں ٹھہراؤ ،معلومات بہم پہنچانا ،سنجیدہ اور الجھا ہوا اسلوب انشائیہ کی روانی کو متاثر کرتا ہے اور انشائیہ نگار کبھی کسی واقعے کی روداد بیان کرنے لگتا ہے اور کبھی مضمون کے حدود میں داخل ہو کر انشائیہ کی مسند سے اتر جاتا ہے۔ پرکالہ گفتار میں کاچو اسفند یار خان کبھی انشائیے کے بجائے خاکہ رقم کرنے لگتے ہیں تو کبھی مضمون۔ “عبدل کی برسی” انشائیہ نہیں بلکہ خاکہ نما تحریر ہے کہ اس میں عبدل کے مرنے کے بعد ان کے گھر کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ان کو یاد کرتے ہوئے ان کی زندگی کے مختلف واقعات کو حوالہ قرطاس کیا گیا ہے۔اسی طرح بربن چن نامی مضمون نما تحریر میں کرگل میں واقع ایک حسین پہاڑی بربن چن کے متعلق معلومات بہم پہنچائی گئی ہے۔ بعض مضمون نما تحریروں سے قطع نظر پرکالہ گفتار میں بعض انشائیوں کی شیریں گفتاری اور کاچو اسفند یار خان کا قوت مشاہدہ لاحق داد ہے۔ اس کتاب میں طنز کے تیر تو خوب برسائے گئے ہیں لیکن شگفتہ مزاح کی پھوار کم کم ہی برس رہی ہے اور مزاح کا انتظار خشک سالی میں بارش کی طرح شدت سے رہتا ہے۔البتہ انشائیوں کی زبان میں روانی اور شگفتگی ہے۔کاچو اسفند یار خان نے انشائیوں میں فارسی اشعار اور محاورات کا برمحل استعمال خوبی سے کیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو پرکالہ گفتار میں شامل انشائیے صنف انشائیہ نگاری کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہے اور مجھے امید ہے کہ اس راہ پر چلنے والوں کو یہ کتاب منزل کا پتہ دے گی۔
***