علی احمد صابر
کیا تنقید کبھی بھی سائنس نہیں بن سکتی؟
Literary criticism can be no more than a reasoned account of the feeling produced upon the critic by the book he is criticizing. Criticism can never be a science: it is, in the first place, much too personal, and in the second, it is concerned with values that science ignores. The touchstone is emotion, not reason. We judge a work of art by its effect on our sincere and vital emotion, and nothing else. ) -D.H. Lawrence(
ڈی ایچ لارنس صاحب کہتے ہیں کہ تنقید کبھی بھی سائنس نہیں بن سکتی۔ لیکن کیوں؟ پہلی وجہ، تنقید کا تعلق جذبات سے ہے( کیونکہ ادب کا تعلق جذبات سے ہے)۔ دوسری وجہ، تنقید اُن معاملات کو موضوع بناتی ہے جنہیں سائنس نظر انداز کرتی ہے۔ بہت بہتر!! میرا کہنا ہے کہ لارینس کی بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ وجہ یہی ہے کہ وہ نقاد نہیں ہیں، ناول نگار ہیں۔ خیر یہ کوئی بات نہیں ہوئی صابر صاحب! فاروقی بھی ناول نگار ہیں تو کیا اُن کی باتیں لائق اعتناء نہیں ہے؟ اچھا ایسا ہے تو یوں دیکھئے کہ لارینس کے استدلال میں کتنا وزن ہے؟
دیکھئے ادب صرف جذبات تک محدود نہیں ہے، ادب کا کام محض حسی مسرت فراہم کرنا نہیں ہے( ملاحظہ ہو، “ادب کا منصب” از ایلیٹ)۔ ادب کا کام تخیلات کی بلندی اور خیال کی عظمت سے بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایلیٹ نے ملٹن کے فردوس گمشدہ پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس میں بس لفّاظی ہے، معنی کی بلندی بلکل نہیں ہے۔ اب اگر ادب جذبات تک محدود نہیں ہے تو پھر تنقید کیوں رہے؟ مزید بر اں، تنقید میں جذبات کی اہمیت زیادہ ہے تعقل کی اہمیت کم ہے، یہ کیسے ؟ ادب میں جذبات کا ہونا نہ ہونا بھی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعقل کے بنا گزارا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ تھامس ہارڈی کے یہاں جذبات کی موجودگی ڈکنز سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی کہنے کے لئے آپ کے پاس کوئی پیمانہ ہونا چاہئے اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تنقید کا تعلق جذبات سے کہیں زیادہ تعقل سے ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تنقید جذبات کو سمجھنے کی حد تک تعقلاتی ہو سکتی ہے اور اسی معنی میں یہ سائنس سے الگ چیز ہے۔ چلو مان لیا!!!! لیکن پھر وہی سوال کہ کیا ادب بس جذبات تک محدود ہے؟؟ ادب اگر جذبات کے علاہ بھی “بہت کچھ” ہے تو اس “بہت کچھ” کو سمجھنے کے لئے بھی تعقل کی مدد چاہئے۔ الغرض یہ کہ بغیر تعقل کے تنقید کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ اگر چل بھی جاتا ہے تو اس کی اہمیت وہی ہوگی جو عمران پرتاب گڑھی کے اشعار، حبیب جالب کی سیاسی نظموں اور کسی مذہبی دعاء کی ہوتی ہے۔ یعنی بس کیفیت کا احساس اور اس احساس کا اظہار۔ یہ اظہار بذات خود کچھ برا نہیں ہے لیکن اگر اسے مشاعروں کی واہ واہی اور تاثراتی تنقید کی سحر انگیزی سے بچانا ہے تو پھر تعقل ہی کا ہاتھ تھامنا ہوتا ہے۔ ان باتوں کے پیش نظر ڈی ایچ لارینس کی باتوں کی قدر باقی رہے نہ رہے لیکن یہ سوال درست ہے کہ کیا تنقید سائنس بن سکتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ بن سکتی ہے اور کچھ معنوں میں یہ ہے بھی۔ لیکن انہیں معنوں میں میں جن معنوں میں تحلیل نفسی کو سائنس کہا جاتا ہے۔ سماجی معاملات اور طبعی معاملات میں امتیاز قائم کرنا ضروری ہے۔ وٹنگ اسٹائین نے ایک بار پوچھا تھا کہ ” میرا بازو اوپر آٹھ گیا اور میں نے اپنا بازو اوپر اٹھایا، ان دونوں جملوں میں کیا فرق ہے؟” میرا کہنا ہے ان میں وہی فرق ہے جو سماجی اور طبعی علوم میں ہے۔ سماجی معاملات اصل میں جذبات، رضا، شعور سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی وجہ سے ان میں طبعی اصولوں کی سے قطعیت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان میں کوئی اصول ہی نہیں ہوتا۔ انسانی فکر و عمل کے سرچشمے گوناگوں ہوتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی پیٹرن ضرور موجود ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ تجزیاتی مطالعات میں ہمیشہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اشیاء جو بجائے خود مجسم( Concrete) ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے کسی نہ کسی معنوں میں الگ ہوتے ہیں تو پھر اُنہیں کس طرح عمومیایا ( Generalize) جائے؟ تحقیق میں بھی بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ مفروضے کے تحت مواد کی sampling کیسے جائے کیونکہ یہ عمومیانے کے مترادف ہوگا۔ اصل میں سماجی علوم میں کسی نہ کسی قدر مشترک کے تحت چیزوں کو ایک خانے میں رکھ کر اُنہیں عمومیایا جاتا ہے۔ اس بات میں بحث ہو سکتی ہے کہ اقدار مشترک کون سے ہوں گے لیکن یہ کہنا کہ اقدار مشترک ہونے ہی نہیں چاہئے بلکل غلط رویّہ ہے کیونکہ سماجی علوم کی پوری بنیاد ہی اُن اقدار پر مبنی ہے۔ آخر ادب کو بھی آپ ادب اس لئے کہتے ہیں نہ کہ اُن تحریروں میں کچھ ایسی باتیں ملتی ہیں جو دوسری تحریروں میں نہیں ملتیں۔ الگ الگ لوگوں نے الگ ایسے اقدار ڈھونڈے ہیں، ان میں اختلاف بھی ہے مگر آخر میں سچ یہی ہے کہ اقدار ڈھونڈے ہیں۔ ان باتوں کو عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سماجی معاملات میں بھی چند اصول اور قوانین ہوتے ہیں اس لئے اُن کا مطالعہ بھی بہت حد تک قطعی ہو سکتا ہے- بات بس اتنی ہے ہے کہ سماجی معاملات اور طبعی معاملات کے یہ اصول و قوانین مختلف ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بھی ضروری نہیں ہے کہ مکمل طور پر الگ ہوں۔ شاعری میں درد کا تصور بہت ہے لیکن کیا درد کے بارے میں جو میڈیکل سائنس بتاتی ہے اُن میں کوئی مشترکہ اصول و قوانین ہو ہی نہیں سکتے۔ تخلیقی عمل کا جو طریقہ کار کائنات میں ہے، جو حیاتیات میں ہے وہی ادب میں بھی ہے( اُردو شاعری کا مزاج)۔ ان باتوں کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ادب میں بھی کچھ قوانین اور اصول ہوتے ہیں اور ان کے مطالعے کے لئے جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے اُس میں بھی: یعنی تنقید میں بھی۔
اب دوسری بات پر آتے ہیں: میرا یہ کہنا ہے کہ سائنس بھی اُن اقدار کو موضوع بحث بناتی ہیں جن سے ادب کو سروکار ہے۔ اصل میں صنعتی انقلاب اور سائنسی انقلاب نے مذہب کو کوکھلا ثابت کر دیا ہے۔ پہلے پہل نطشے نے یہ محسوس کیا اور عالم بیزاری میں یہ کہہ دیا کہ ہمیں اب خیروشر کے پیمانے ہی تیاگ دینا چاہیے۔ بیسویں صدی میں رچرڈز نے بھی کہا تھا کہ اب ادب ہی انسانوں کا اکلوتا حربہ رہ گیا ہے۔ انتونیو گرامشکی نے کہا تھا کہ پرانے اقدار کی لا یعنیت کے تناظر میں نئے اقدار کی عدم موجودگی ایک ہراساں صورت حال کو جنم دیتا ہے۔ لارینس دراصل اسی بات کو اپنے انداز میں کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر چند مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔پہلی مثال، آپ کا دوست بیمار پڑے اور آپ سے ایسی خوراک کا مطالبہ کرے جو اُس کے لئے مہلک ہو تو کیا آپ فراہم کریں گے؟؟ آپ کی اخلاقی ذمےداری یہ کہے گی کہ ایسا ہرگز نہ کرو۔ ظاہر ہے آپ ایسا اس لئے نہیں کریں ہے کیونکہ سائنس آپ کی مدد کررہا ہے۔ دوسری مثال، کیا جنسیت آزادی کا تصور کا حصہ نہیں ہے؟ ادب نے ہم جنسیت کو بھی کھلے دل سے قبول کیا ہے لیکن اس وسیع دامانی کا سبب کیا ہے؟ اصل میں سائنس نے ثابت کیا کہ ہم جنسیت اتنی ہی فطری ہے جتنی دو جنسیت۔ تیسری مثال, عورتیں کو بانجھ سمجھا جانا اور بچی جننے پر اُنہیں کھڑی کوئی سنانا ہمارے معاشرے میں رائج پریکٹس بن چکا ہے۔ کیا سائنس نے ان اعتقادات کے فریب کو چکنا چور نہیں کیا؟ حیوانات اور نباتات بھی احساس درد رکھتے ہیں اس راز کا انکشاف کس نے کیا اور کیا اس کے بغیر ہم اور آپ پریم چند کی کہانی “دو بیلوں کی کہانی” یا گیو پٹیل کی نظم “ایک پیڑ کا کٹاؤ” صحیح سے پڑھ سکتے ہیں؟ چوری کرنا غلط ہے یا نہیں بیوفائی کرنا غلط ہے یا نہیں ان سوالوں کا بھی سائنس کے پاس جواب ہے۔ سیم ہیرس کی کتاب “اخلاق کا منظرنامہ” اس ضمن میں اچھی کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔ ابھی بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ سائنس ادب سے اُس قدر دور نہیں ہے جس قدر سمجھا جاتا ہے۔ چناچہ تنقید کو بھی سائنس کے نام سے اتنا بدکنا نہیں چاہیے۔
القصہ یہ کہ لارینس صاحب کی بات کو اتنی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بتاتے چلوں کہ لارینس کی یہ رائے کوثر مظہری سر نے اپنی کتاب “قرات اور مکالمہ” میں نقل کیا ہے اور وہیں سے مجھے بھی خیال آیا کہ اس پر اپنی رائے رکھ دوں۔