محمد یاسین گنائی
’’گماں سے آگے ‘‘شیخ گلزار احمد
مجھ سے میرا نام نہ پوچھ
کیا کرتا ہوں کام نہ پوچھ
سامبورہ ،پانپورہ اور زعفران کو باہمی اشتراک کے سبب مترادف ہی قرار دیا سکتا ہے، جہاں پانپورہ کو زعفران زار یا شہر زعفران کہا جاتا ہے وہاں سامبورہ میں بھی زعفران کی اچھی خاصی کھیتی پا ئی جاتی ہے اور دونوں زعفرانی شہر ایک دوسرے کے متصل ہیں. پانپورہ سے حبہ خاتون کے بعد سلیم ساغر نے شعری منظر نامے پر دستک دی ہے جبکہ شیخ گلزار سامبورہ کا پہلا ایسا شاعر ہے جن کے زرخیز قلم سے پے در پے چھ شعری مجموعے منظر شہود پر آچکے ہیں۔’’ گماں سے آگے‘‘ پچھلے سال 2023 میں شائع ہواتھا اور اس سے پہلے’’ سایہ دھوپ کا
(7 200)، لمحے اندھیروں کے (2011)،دریچہ (2018)،منظر سیاہ آسمانوں کا(2021)اوررخت سفر (2022) میں منظر عام پر آچکے ہیں۔’’ گماں سے آگے‘‘ ان کی84 غزلوں اور دس نظموں کا مجموعہ ہے،یہ مجموعہ 204 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔ اس مجموعے کا پیش لفظ ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے تحریر کیا ہے اور بقول شاعر کتاب کی ترتیب سے اشاعت تک تمام مراحل پر گلزار احمد وانی نے بھرپور مدد کی ہے۔شیخ گلزار سامبورہ کی شاعری میں مجموعی طور پر اور زیرِ نظر شعر مجموعے میں خاص کر جن نکات کی طرف قاری کا دھیان جاتا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے وہ عشق میں بری طرح گھائل ہوئے ہیں، تبھی ہر غزل کے دو تین اشعار بے وفائی، دھوکہ، ارمان، وعدہ،ملن،وصال جیسے الفاظ اور ارتکاز سے بھر پڑے ہیں۔ دوسری بات مختلف غزل میں دھوکہ یا اِشکال ہوتا ہے کہ یہ غزل یا اشعار ابھی ابھی پڑھے تھے اور ظاہر بین آنکھیں شک کو استدلال کی طرف لے جاتی ہیں۔ جیسے غزل نمبر 4اور غزل نمبر 18 سے مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
شکر کرو اس بستی میں کوئی تو مجھ جیسا ہے(ص:23)
جانے دو اس بستی میں کوئی تو مجھ جیسا ہے(ص:50)
حالانکہ اس کو نہ املا کی غلطی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ترتیب کی اور نہ پروف ریڈنگ کی۔ کیونکہ دونوں غزلیں اپنی جگہ مکمل ہیں اور دونوں کی ردیف اور قافیہ میںیکسانیت ہیں۔اس بات کی طرف ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے بھی پیش لفظ میں یوں اشارہ کیا ہے :
‘‘ان کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ایک قاری کئی الفاظ کو بار بار استعمال ہوتے ہوئے
اس نتیجہ پر آہی جاتا ہے کہ ان کے ایک پہلو میں کئی اور پہلو بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ‘‘
چونکہ بات الفاظ کو بار بار دہرانے سے مصرعوں کو بار بار دہرانے تک پہنچ گئی ہے، لہٰذا شیخ گلزار کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اور چھ شعری مجموعوں کے خالق کے نہ صرف اشعار جداگانہ ہونے چاہیے بلکہ غزلیں بھی جداگانہ بلحاظ موضوع اورز مین امید کی جاسکتی ہے۔ شیخ گلزار نے اپنے شعری وجدان کے بارے میں خوب کہا ہے کہ :
’’میری شاعری میری اپنی ذات کی آواز ہے۔
میں جب اپنے آپ سے ملنے کے لیے کوشاں رہتا ہوں ،تو شاعری کرلیتا ہوں۔۔
ان کی شاعری میں متنوع موضوعات ملتے ہیں اور ایک جگہ تنکوں اور بستیوں کے جلنے کا منظر یوں پیش کیا ہے ۔
کبھی تنکے بھی بجھ جاتے ہیں لیکن
کبھی جلتی ہیں پل میں بستیاں تک
شیخ گلزار کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے عیاں ہوتا ہے کہ وہ آج بھی برگزیدہ کشمیری اور اردو شعراء کا ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔اور یہی ایک اچھے شاعرکی پہچان بھی ے۔ان کے اشعار میں میر ؔکا غم بھی ہے اور پروین ؔشاکر کی خودکلامی بھی۔میر تقی میرؔ کا ایک شاہکار شعر ہے۔
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
اس شعر کی زمین نہ سہی لیکن موضوع بڑی خوبی سے گلزارؔ نے یوں پیش کیا ہے۔
تم چلو گے تو جان جاو گے
فاصلہ زندگی کا کتنا ہے
زیرِ نظر شعری مجموعہ میں درجنوں اشعار میں عصری مسائل، فانی زندگی کی حقیقت، گردونواح کا منظر نامہ، دوست و احباب سے گلے شکوے اور رنگین جوانی کی بہاروں بے رنگ ا ور خزاں کی کیفیت نظر آتی ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
مجھے اب کون چاہے گا کہ میرے سیاہ بالوں کا رنگ پھیکا بہت ہے
اس شہر کے کس موڑ پہ کس کا مکان ہے ہے کس جگہ پہ آپ کا گھر جانتا ہوں میں
میری ہمسائیگی میں رہ کر بھی تم کو میرا مکاں نہیں معلوم
کس کو معلوم ہے کس سے پوچھیں گھر یہ کس کا جلا دیا کس نے
ایسے ویسے آنا جانا مشکل ہے پھر دنیا کو بھی سمجھانا مشکل ہے
جب مٹی ذخیرہو تو پھر مشکل کیا لیکن صحرا کو مہکانا مشکل ہے
جموں و کشمیر کے شعراء میں شیخ گلزار جیسے درجنوں شعراء ملتے ہیں جن کو ابھی تک وہ مقام نہیں ملا ہے جس کے وہ حق دار نظر آتے ہیں۔ جہاں تک جموں و کشمیر کے شعراء و شاعرات پر سندی و غیر سندی تحقیق کی بات ہے، تو تمام تحقیقی مقالات میں ایک ہی روایت اپنائی گئی ہے اور قدرتی طور پر ایک ہی گروپ کے شعراء کے کلام کو زیرِ تحقیق لایا گیا ہے۔شیخ گلزار سامبورہ کی شاعری خصوصاً زیر نظر مجموعہ “گماں سے آگے” میں درجنوں اشعار میں وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر شکوہ شکایت کرتے نظر آرہے ہیں اور علامہ اقبال کی طرح خود ہی جوابِ شکوہ بھی رقم کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اے دعا! یہ ذرا بتا مجھ سے کیا خفا ہے میرا خدا مجھ سے
میرے اللہ! تیرے ہوتے ہوئے بھی میری قسمت میں کچھ اچھا نہیں ہے
کیا خبر تھی کہ اس طرح تو بھی اے خدا! مجھ کو آزمائے گا
شیخ گلزار کی شاعری کی جملہ خوبیوں میں خودکلامی، اپنے ذات کے بارے لکھنا، عشق کے جملہ موضوعات کو گرفت میں لانا، عشق مجازی سے عشق حقیقی کی وادیوں کی سیر کرنا، اپنے قریبی رشتوں کی عظمت بیان کرنا وغیرہ شامل ہیں۔وہ چھوٹی اور لمبی بحر اور مختصر و طویل غزلیں یکساں طور پر موزوں کرتے ہیں.۔ان کی ایک غزل میں ۲۷؍ اشعار ملتے ہیں، باربار الفاظ، مصرعوں اور موضوعات کو دہرانا قابل گرفت چیزیں ہیں اور ان پرشاعر کو سوچنا چاہیے۔زیر نظر شعری مجموعہ میں دس آزاد و نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔عنوان اگرچہ’’ گماں، مگر، تمہاری قسم، وابستگی، پہلے کی طرح، اتنی بڑی دوری، میں ہنسنا چاہتا ہوں، اس سے پہلے، یادیں اور سوچ ہیں لیکن موضوع ایک جیسا نظر آتا ہے کہ شاعر کو اپنے کسی قریبی بلکہ شریک حیات کے پچھڑنے کا غم ستائے جارہا ہے۔یہ قریبی ان کی غم خوار اور غم گسار شریک حیات نظر آتی ہے۔ شاعرکو الگ الگ نظموں میں الگ الگ حالات و واقعات کا گماں ہوتا ہے اور یہی گمان اس کتاب کا عنوان بھی ٹھہرا ہ ہے۔’’ گماں سے آگے‘‘ شاعر کو کیا سماں وگماںنظر آتا ہے۔
دن بھر یہی گماں رہتا ہے ؍کہ؍جب میں گھر لوٹوں؍
تو تم میرا استقبال کرو گی؍مجھے چاہو گی؍آپ آو گی(نظم:گماں)
مگر میں تمہیں ؍ڈھونڈنے میں دن بھر مصروف رہا؍
کبھی مہمانوں میں ڈھونڈتا رہا؍ تو کبھی ؍ان بچوں میں جو آنگن میں
ہنگامہ برپا کئے ہوئے تھے(نظم:مگر )
جب کہ تم اب؍میرے پاس نہیں ہو؍میرے ساتھ نہیں ہو؍
مگر وہ وابستگی ؍جو تجھے؍ مجھ سے رہی ہے؍اب بھی؍
میرے پاس ہے؍میرے ساتھ ہے؍میری جان کی طرح (نظم:وابستگی)
میرے پاس ہو؍میرے ساتھ ہو؍کیونکہ؍ اب میں تمہیں ؍من کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں؍
ان آنکھوں سے نہیں؍ جن سے میں تمہیں ؍اس سے پہلے؍ دیکھتا تھا(نظم:اس سے پہلے)
یوں ان کی تمام نظمیہ شاعری کسی کی جدائی کے سبب ماضی کی یادوں اور قراردادوں میں لپٹی نظر آتی ہیں اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ نظم کے مقابلے میں وہ ایک عمدہ اور بہترین غزل گو ہی ثابت ہوتے ہیں۔یوں زیر نظر شعری مجموعہ کی جملہ خوبیوں اور خامیوں اورڈاکٹر گلزار احمد وانی کی ناقدانہ رائے میں بہت حد تک مطابقت و اعتدال نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ماضی کے تلخ حقائق سے گرد چھانتے ہوئے شاعر کی حیات اب اس مقام کی دہلیز پر آکے رکی ہےکہ جہاں کہیں سے بھی اور کسی بھی سمت سے اس متاع حیات کے سوا کچھ بھی نظر میں بھاتا نہیں ہے۔شیخ گلزار اپنی ہی ذات کے حصار میں مقید ہے اور اس کی دنیا اس کے اردگرد پتنگ کے مانند چکر کاٹ رہی ہے۔ان کی شاعری میں داخلیت پسندی کے ساتھ ساتھ خارجیت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ‘‘(بحث ونقد، ص: 89-90)
شیخ گلزار عصر حاضر میں ضلع پلوامہ کے چند گنے چنے شعراء میں ایک اہم نام ہے اور اگر ان کو نذیر آزاد کے بعد دوسرا بڑا غزل گو شاعر قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔رباعی میں سلیم ساغر جیسا معتبر شاعر بھی اسی ادبی ضلع کا درخشندہ تارہ ہے۔ان کی شاعری میں بیک وقت داخلیت اور خارجیت ملتی ہے۔یہ شاعری ان کے ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات ہیں اور اس پر طرہ امتیاز یہ ہے کہ عام فہم زبان میں اپنا پیغام قارئین تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی دو خوبی ان کی شخصیت سے مجھے ان کا گرویدہ بناتی ہیں۔ پہلی وہ ایک استاد کے عظیم پیشہ سے وابستہ رہے ہیں لیکن کتابوں کی اشاعت پر خرچ کرنے کے معاملے میںکم از کم کنجوس تو نہیں ہیں۔دوم کشمیری معاشرے میں ایک روایت یا مرض لاحق ہے کہ جب تک انسان بے روزگار ہوتا ہے تو خوب ہاتھ پیر مارتا ہے اور تحقیقی و تنقیدی مضامین کی اشاعت سے کتابوں کی اشاعت تک اپنے ذاتی خرچے بلکہ گھروالوں سے پیسے مانگ کر ان مضامین اور کتابوں کی اشاعت یقینی بناتا ہے لیکن جس دن کوئی مستقل ملازمت مثلاً استاد، لیکچرار یا اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری ملتی ہے تو اگلے ہی پل ہمارے نوے فیصد سے زائد ملازمین کتاب خریدنا، مضمون لکھنا اور کتاب شائع کرنے کو فضول اور لغو کام سمجھتے ہیں لیکن ہمارے شیخ گلزار سامبورہ ان نوے فیصدافراد میں نہیں ہے بلکہ ہر سال ایک کتاب شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی مالی امداد کا انتظار بھی نہیں کرتے ہیں۔ گو ان پر غالبؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
***