ڈاکٹر محمد کامران شہزاد
سرگودھا(پاکستان)
احمد داؤد کے افسانوں میں مارشل لا کے خلاف احتجاج
احمد داؤدکے افسانے مارشل لاءکے جبر کے خلاف مزاحمت کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کے یہاں یہ جبر ، معاشی معاشرت اور سماجی سطح پر نمایاں نظر آتا ہے ۔ان کے افسانوں میں اپنے عہد کے سیاسی و سماجی جمود اور تہذیبی جبر کے خلاف احتجاج اور بغاوت نمایاں ہے۔ان کے افسانے سماجی سطح پر لوگوں کے استحصال کا استعارہ بن کر ابھرتے ہیں اور ان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔
کلیدی الفاظ : احمد داؤد ، مارشل لا، تہذیبی جبر، احتجاج
احمد داؤدکے افسانوں میں مارشل لاءکی شدتوں کے خلاف احتجاج موجود ہے۔ انہیں عوام کی آزادیوں کو سلب کرنے اوراپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہ ان اداروں سے بغاوت کر بیٹھتے ہیںجو ملکی بقا اور قومی سلامتی کے نام پر انسانوں سے ہر طرح کی آزادی چھین لیتے ہیں۔احتجاج کی کیفیت احمد داؤد کے افسانوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتی ہے۔ کہیں یہ احتجاج غصہ، جھنجھلاہٹ اور ہیجان پیدا کرتا ہے ۔ کہیں وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں تو کہیں ان کا انداز تلخ اور بلند آہنگ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ان کے افسانے کا ایک اقتباس ہے:
” بد وضع سی معصوم عورت جسے ایک بدبخت کی بیوی ہونے کااعزاز نصیب ہوااور جو اب فرسٹ لیڈی ہونے کا عذاب اپنے ساتھ دوسروں کو دے رہی ہے کہ اس کے شوہر کی پیدائش پر اس کی ماں سخت ناخوش تھی کہ پیدا کرنے کے بعد اسے اس کے لیے ایک باپ تلاش کرنا پڑا تھا۔ “(1)
حکومت نے صرف ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے ہی حکومتی نظام نہیں چلایا کیونکہ بنیادی حقوق کی معطلی اورزباں بندی صرف عوام کے لیے سوہانِ روح نہیں بنی ہوئی بلکہ حکومت کے کاموں میں مداخلتِ بے جا کی وجہ بھی ایک سبب ہے۔چنانچہ اس دورمیں میاں بیوی کو بھی کسی ہوٹل میں قیام کے لیے نکاح نامے دکھانے پڑتے تھے۔ ورنہ پولیس سٹیشن جانا پڑتا تھا۔ یہ اسی دور کا قصہ ہے جب حدود آرڈی نینس جاری ہوا اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ دوپٹہ اسی دور میں جبری کرنا لازم قرار دیا گیا اور سرکاری اداروں میں نماز بھی زبردستی پڑھائی جانے لگی۔
احمد داؤد کے ہاں نہ صرف جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے عمل پر تنقید موجود ہے بلکہ ان مذموم کارروائیوں کو بھی اپنے افسانوں میں انہوں نے بیان کرتے ہوئے ان عجیب و غریب پالیسیوں کی قلعی بھی کھولی گئی ہے۔ ”عجائب گھر“ کے عنوان سے انہوں نے جو تین افسانے لکھے ان میں مارشل لاءکی کارستانیوں کا ذکر موجود ہے۔ اس ریاستی ستون پر شدید تنقید کی گئی ہے جس کا مقصد عوام کی حفاظت کرنا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طالع آزما کے اشاروں پر عوام پرہی چڑھ دوڑتے ہیں۔ ”عجائب گھر“ میں ایک کردار کو جب ہتھکڑیاں لگتی ہیں تو وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھوں سے جو مہک آرہی ہے وہ کسی عورت کے جسم کی ہے۔
”ہنسو مت۔۔۔ہنسی کی ہر وجہ غیر قانونی ہے۔۔۔۔
”نکاح نامہ پلیز“
”کیا مصیبت ہے۔ سڑک پہ جاﺅ۔۔۔پارک میں گھومو۔۔۔ہر جگہ یہی پوچھا جاتا ہے۔“
”اس کے بغیر فحاشی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ منیجر بولا یہ لازمی ہے۔“(2)
اسی منظر میں ایک عورت چوراہے میں چبوترے پر کھڑی چلاتی ہے۔
”مجھے فلائی کرنا ہے۔“
اس کے آس پاس لولے لنجے کوڑھیوں کی ریڑھیاں گزرتی ہیں۔ دیگر ہنگامے برپا ہیں لیکن وہ ہر ایک سے یہی جملہ دہراتی ہے۔
”نیچے سڑک کے جنوبی جانب سے ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سپاہیوں کا ایک دستہ نمودار ہوا، انہوں نے گلے میں کمانیں اور پشت پر تیروں کے تھیلے اور پہلو میں تلواریں لٹکا رکھی تھیں ۔ چبوترے پر کھڑی عورت زور سے چلائی۔
”آگے سے ہٹ جاﺅ۔۔۔۔۔مجھے فلائی کرنا ہے۔“
سڑک کے کسی حصے میں کسی بیل گاڑی نے کسی موٹر کا رستہ روکا ، چاروں طرف کا ٹریفک اتھل پتھل ہو گیا ۔ ہاتھیوں اور گھوڑوں نے راستے کی ہرچیز کو کچل کر اپنا راستہ بنایا ۔فلائی کرنا ہے۔۔۔پاگل تیرے تو پاﺅں ہی بندھے ہوئے ہیں۔“(3)
مارشل لاءکے عہد میں آزادی کی خواہش کو کچلنا ، جبلی ضروریات کو روکنا اور اپنی دھونس جمانا معمول تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عورت کو چھو لینے والے ہاتھ اس ابنارمل واقعے کے گواہ ہیں۔ انہیں زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے۔ جیل کی کال کوٹھریوں کی زینت بنایا جارہا ہے۔ عوام کا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ حکومت جمہوری ہے یا آمرانہ۔ عوام کا مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب ان کی چھوٹی چھوٹی آزادیوںاور معمولی معمولی خواہشات پر پہرے لگا دیے جاتے ہیں۔حد یہ ہے کہ محبت پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور رہٹ خشک ہو جاتے ہیں۔
”گاﺅں کے رہٹ بجھ گئے تھے ۔ بوڑھے کسانوں کے بیٹے گاؤںکی حفاظت کے لیے سرحدوں پر چلے گئے تھے۔باقی صرف عورتیں یا چوکیدار یا پھر بزرگ بندے۔۔۔میں گاﺅں کے پہلے حجرے کے باہر جا رکا کہ آگے کاراستہ پوچھنا مقصود تھا کہ اچانک خرگوشوں کی ایک ڈار موڑ سے نکلی اور خوف زدہ عورتوں کی طرح بھاگتی اجاڑ کھلیانوں کو نکل گئی۔ ان کے تعاقب میں کتوں کا غول جھاگ چھوڑتا دھول اڑاتانمودار ہوا۔۔۔“(4)
مارشل لاءکے خلاف احتجاج احمد داؤد کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں گاﺅں (ملک) کے ان محافظوں کا ذکر طنزیہ انداز میں بار بار آیا ہے جن کی ذمہ داری ملک کے عوام کی حفاظت تھی اور انہوں نے عوام کا استحصال ہی پوری تندہی سے کیا۔ اس تناظر میں ان کا شہکار افسانہ ”پرندے کا گوشت اوروہسکی“ بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال لکھتی ہیں:
”پرندے کا گوشت اور وہسکی“ اس موضوع پر لکھے گئے افسانوں میں فنی اور فکری لحاظ سے اہم افسانہ ہے جس میں اس موضوع کے حوالے سے اتنی ابعاد و جوانب ہیں کہ مارشل لاءکے پورے ماحول کو ، اسے نافذ کرنے والوں کی نفسیات اور حربے،مغلوب ہونے والوں کے رویے اور انجام ، اس جبر کے عہد کی فلاسفی ، بازاروں ،گھروں ، ہوٹلوں کی کیمسٹری ۔اس سے متاثرہ افراد کا ردِ عمل ، استحصال کے لیے بنائے گئے سٹنٹ، عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے لیے گھڑے گئے بہانے اور حربے اس جبر کے نظام کی پوری سائیکی اور ہتھکنڈے سب سامنے آجاتے ہیں۔ غرضیکہ اگر مارشل لاءکے پس منظر میں لکھے گئے افسانے کی جہات کا جائزہ لیا جائے تو اس افسانے میں سبھی کچھ یکجا ہے ، جن پر ان مزاحمتی افسانوں کی پوری عمارت کھڑی ہے۔“(5)
اس افسانے میں زہر خند ہے۔طنز ہے۔ایک منفرد تیکنیک ہے جو جدید علامتی تکنیک کے قریب ہوتے ہوئے بھی ایک منفرد ذائقہ رکھتی ہے اور اس مقام کو چھو لیتی ہے جہاں فن پارہ مروّج روّشوں کے اندر رہتے ہوئے بھی خود مکتفی اور یکتا ہو جاتا ہے۔ اور ایسی ایک تحریر بھی کسی مصنف کی فنی دوائمیت کی مثال بن جاتی ہے۔ یہ افسانہ اتنا عمدہ ہے کہ اس افسانے کا ایک ایک پیرا گراف مثال کے طور پر کوٹ کیا جاسکتا ہے۔ اہم موضوع اس افسانے کا یہ ہے کہ اس افسانے میں ریاستی افواج کے ا س کردار پر اعتراض ہے جب عوام کی حفاظت کا عہد کرنے والے انہی کو فتح کرنے اور ان کی آزادی غصب کرنے لگتے ہیں یہ افسانہ علامت اور حقیقت نگاری کی جدید تیکنیک کی آمیزش سے بنا گیا ہے اور جبر واستبداد ، حبس اور گھٹن میں قید عوام کے احساسات کی عکاسی خوب کی گئی ہے۔(6)
اگرچہ یہ بات سبھی مجاہدوں اور سپاہیوں پر لاگو نہیں ہو سکتی لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی کوئی ریاستی ادارہ حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ رہا کہ مختصر سی تاریخ کے بیشتر برسوں میں اس پر انہی محافظوں اور مجاہدوں کا تسلط رہا۔ اس لیے مطلق العنانیت اور من مانی ان کے اندر در آئی۔ ایک طرف طاقت دوسری طرف نفرت ۔ ایک طرف اسلحے دوسری طرح صلواتیں ۔اسی لیے مصنف کے بعض افسانوں میں اس طرح کی افراط و تفریط در آتی ہے۔ اس افسانے سے متعلق اعجاز راہی کی رائے ملاحظہ کریں:
”اس کی کہانیوں کے کردار عہدِ حاضر کی اوپری سطح سے گزر کر انسانی شعور کی گہرائیوں سے ہوتے ہوئے بے بضاعتی کے عہد میں اپنی شناخت ِ نو کا عمل مکمل کرتے ہیں۔“(7)
اس افسانے میں بھی فرد کا بنیادی آزادیوں سے محروم کیا جانا گویا ذات کی نفی کے مترادف ہے۔ افسانے کا انجام معنی خیز اور جبر کے موسموں کی منظر کشی کرتے ہوئے امید کی روش دکھاتا ہے۔ افسانے میں مختلف مناظر کے ذریعے تھیم کی وضاحت کی گئی ہے۔یہ سارے منظر دو انتہاﺅں پر ہیں۔ غالب و مغلوب، لیکن ان مغلوب عناصر میں جدو جہد اور مقابلے کا حوصلہ نمایاں ہیں۔
احمد داؤد کا ایک اور افسانہ ”شہید“ بھی احتجاج کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس افسانے میں بنیادی آزادیوں کے سلب ہونے کا نوحہ بیان کیا گیا ہے۔اس افسانے کے دو اہم کردار ہیں۔ دو دوست ۔ ایک دوست بیمار ہے اسے اپنڈکس ہے دوسرا دوست اسے ہسپتال پہنچانا چاہتا تھا لیکن شہر میں قدم قدم پر ناکے لگے ہیں۔ سپاہی انہیں روکتے ہیں ۔ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں اور آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں۔بیمار دوست جس کا اپنڈکس اندر ہی پھٹ گیا ہے شدید درد سے کراہ رہا ہے۔ وہ وصیتیں کرنے لگتا ہے ۔ ایک ناکے سے بمشکل نکل کر وہ دوسرے ناکے پر روکے جاتے ہیں ۔ شرمناک تلاشی دیتے ہیں ۔ آدمی مر رہا ہے لیکن انہیں اس کی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
”صحیح صحیح بتاﺅ کیا چکر ہے؟ ادھر کرو منہ سونگھاﺅ، ہاں زور سے سانس باہر نکال نا۔۔۔۔پی کر اوپر سے کیا کھایا ہے کہ بو مر گئی ہے اوئے اس دوسرے کی حالت دیکھو نشہ میں دوہرا ہو گیا ہے۔“اس لمحے سعدی کے منہ سے ایک ہولناک چیخ بلند ہوئی رکشہ کے گرد کھڑے سپاہی یہ غیر انسانی صدا سن کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔”خدا کے واسطے جانے دو۔ یہ مر رہا ہے، یہ مر رہا ہے۔“
”میرا خیال ہے کوئی اور ڈرامہ ہے ۔ شناخت کراﺅ اپنی، جلدی کراﺅ شناخت۔“
ان گنت یکساں چہروں اور آوازوں میں ایک آواز ابھری اور پھر اپنے سوال کے جواب کے لیے ہمارے اوپر تن گئی۔”شناخت۔“ میں بے بسی سے بولا۔”ہماری کوئی شناخت نہیں ہے۔“(8)
احمد داؤد کے افسانوں کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سانپ کا ڈسا ہوا زہر اگل دے۔ اسی افسانے کا اختتامہ پیرا گراف دیکھیے:
”مجھے ایمبولینس چاہیے۔۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔لاش لے جانے کے لیے واپسی پہ۔۔۔۔وہ مجھے روکیں گے۔۔۔وقت گزر جائے ، دیر ہو جائے تو اپنڈکس پھٹ جاتا ہے نا،لاش خراب ہو جاتی ہے۔ آپ مجھے واپسی کے لیے ایمبولینس دیں گے نا۔۔۔پلیز ڈاکٹر خدا کے لیے مجھے ایمبولینس۔۔۔۔۔“میں اپنے دوست کی لاش کو بے حرمتی سے بچانا چاہتا ہوں ، پلیز ڈاکٹر۔۔۔خداکے لیے۔۔۔۔“(9)
حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ مریض کو ہسپتال میں داخل کروانے سے پہلے ہی وہ واپس جانے کے لیے پر تول رہا ہے اور واپسی کے خوف میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس انداز سے وہ مریض کو ہسپتال میں لے کے پہنچا ہے وہ بہت خوفناک تجربہ ہے اس لیے اب اپنے دوست کی زندگی سے زیادہ اسے اس بات کی پریشانی ہے کہ جس طرح مریض کو بر وقت ہسپتال پہنچنے سے روکا گیا اگر اسی طرح کا عمل واپسی پہ بھی دوہرایا گیا تو لاش خراب ہو جائے گی۔
انسانی رشتے زندگیوں کی حفاظت سب سرِ بازار ذلت کی سولی پر چڑھے ہیں۔ اب زندگی اہم نہیں ہے۔ زندگی سے روٹھ جانے والے جسم کو ٹھکانے لگانا زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ احمد داؤد کے ابتدائی دونوں مجموعوں ”مفتوح ہوائیں “ اور ”دشمن دار آدمی“ کا مجموعی رنگ احتجاجی اور مزاحمتی ہے۔ یہ احتجاج ان اداروں کے خلاف ہے جن کا کام عوام کی حفاظت ہے لیکن وہ محافظ بن کر نقب لگاتے ہیں۔ جن کی بندوقوں کے رخ سرحدوں کی ویرانیوں سے پھر کر شہروںکی ہماہمی کو نگل جاتے ہیں۔اس زمانے کے بہت سے لکھنے والوں نے اس عمل کے خلاف لکھالیکن علامت کے دبیز پردوں میں چھپا کر لکھا مگر احمد داؤد جیسا کھلا کھلا اور واضح اظہار اپنی نفرتوں ، ناپسندیدگیوں اور ٹکرا جانے کی خواہش کا برملا انداز کہیں اور نہیں ہے۔ جس طرح پرانے افسانہ نگاروں کی کئی کہانیاں ان کی شناخت بنتی ہیں مثلاً غلام عباس کی آنندی، بیدی کی گرہن اور منٹو کی کھول دو وغیرہ بالکل اسی طرح خالصتاً کہانی کی بنیاد پر شناخت ہونے والے افسانہ نگاروں میں احمد داؤد اپنی کہانی وہسکی اور پرندے کا گوشت کے ساتھ واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔ڈاکٹر شفیق انجم نے بالکل درست لکھا ہے:
” احمد داؤد کے افسانوں میں اپنے عہد کے سیاسی و سماجی جمود اور تہذیبی جبر کے خلاف احتجاج اور بغاوت نمایاں ہے۔بالخصوص مارشل لاءکی پابندیوں اور گھٹن زدہ ماحول میں فرد کی آزادیوں کے کھو جانے کا المیہ بار بار سامنے آتا ہے۔ احمد داؤد نے استعماری قوتوں کے خلاف اپنی نفرت اور غم و غصے کو پورے تاثر کے ساتھ پیش کیا۔“(10)
”خواب فروش“ افسانہ جس کے نام پر اس مجموعے کا نام رکھا گیا اسی صورتِ حال کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہاں وقاص نامی ایک نوجوان گیارہ سال نہیں سویا اور جب ایک دن اس کا دوست اس افسانے کا راوی اس سے ملنے آتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس کے دوست کو بے خوابی کے عذاب سے نجات مل گئی ہے۔ تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔
افسانے کی ابتدا میں وقاص کے ان خیالات سے آگہی ہوتی ہے:
”تمھیں یاد ہے۔۔۔وہ اچھے زمانے جب محبت ممنوعہ علاقے میں منتقل نہیں ہوئی تھی اور شہر ہماری چال کی تمکنت سے کانپتا تھا۔ گیارہ سال کے جگراتے کے بعد وہ زمانے ایک مرتبہ پھر اس خواب فروش کی بدولت میرے نصیب میں آئے ہیں۔ ابھی تمھارے آنے سے پہلے میں سو رہا تھا ، خواب دیکھ رہا تھا اور جب تم چلے جاﺅ گے تو میں پھر گہری نیند میں جا کر اپنے خوابوں کی دنیا میں کھو جاﺅں گا۔ اپنی مرضی سے سونا اپنی مرضی سے جاگنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ گیارہ سال کے جگراتے کے بعد سونے اور جاگنے کی آزادی نصیب ہوئی ہے لیکن تمھیں کیا پتا ۔۔۔جگراتا کیا ہوتا ہے؟ نیند چھن جائے تو زندگی کتنی سنگلاخ ہوجاتی ہے۔تم کیا جانو یہ سب کیا تھا ۔ تم تو سہولتوں کی خاطر یہاں سے بھاگ گئے تھے۔ جو ہمارا حال ہوا ہم ہی جانتے ہیں۔“(11)
یہ مارشل لاءکاقصہ ہے جب تحریر و تقریر پر پابندی ہے ہر طرف خوف کے سائے ہیں ۔ اس حالت میں کہ جو سہہ نہیں سکتے وہ ملک سے بھاگ گئے ہیں اور محب ِ وطن لوگ سختیاں جھیلنے کو اسی ملک میں رہ گئے ہیں۔ احمد داؤد نے نہایت فنکارانہ مشاقی سے آمرانہ دور کی جبریت کا نقشہ کھنچا گیا ہے۔ اور جب یہ آمرانہ دورختم ہوتا ہے تو جمہوریت کی چوسنی دی جاتی ہے اور عوام ایک مرتبہ پھر ان لوگوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں جن کا مقصد صرف اپنی تجوریاں بھرنا ہے لیکن مدتوں عذاب جھیلنے والوں کو یہ چوسنی بھی غنیمت لگتی ہے اور وہ بہل جاتے ہیں۔ وقاص کا بھی یہی حال ہے گیارہ سال کی طویل آمرانہ جبریت سے جب اسے نجات ملتی ہے تو وہ سکھ کا سانس لیتا ہے ۔ اگرچہ یہ جانتا ہے کہ اب عوام کا خون چوسنے والوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیاہے لیکن وہ اس کو بھی غنیمت سمجھتا ہے کہ شاید اب کے حالات سدھر جائیں۔
راوی کو دلچسپی ہے تو صرف اس بات کی کہ وقاص کی طویل بے خوابی کا دور آخر کیسے ختم ہوا۔ آمرانہ دور کا خاتمہ تو ہوا لیکن یہ کس انداز میں ہو اوہ یہ بات جاننا چاہتا ہے اوروقاص اس کو پوری کہانی سنانا چاہتا ہے۔ یہ عقدہ تو آخر میں جا کر کھلتا ہے کہ وقاص کے والدین نے ا س کی بے خوابی کا علاج مدہوش کر دینے والے انجکشن کی صورت میں نکالا ہے:
”وقاص آنکھیں بند کیے خمار بھری آواز میں بڑ بڑائے چلا جا رہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا ۔ اس کا باپ ایک ڈاکٹر کے ہمراہ اندر آیا اور لپک کر وقاص کو شانوں اور بازﺅں سے دبوچ لیا۔ ڈاکٹرنے جلدی سے اپنا بیگ کھولا اورپہلے سے تیار شدہ سرنج نکال کر وقاص کے بازو میں داخل کر دی۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر دونوں نے میری طرف ایسے دیکھا کہ میں نے وہاں مزید ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا ۔ اپنا بریف کیس اٹھا کر باہر نکلتے وقت میں نے وقاص پر الوداعی نظر ڈالی۔ اس کا بدن ڈھیلا پڑ چکا تھا اور گردن ایک طرف کو ڈھل چکی تھی لیکن لبوں کی کپکپاہٹ بدستور جاری تھی۔“(12)
’جوانمرگ کا نوحہ“کا موضوع بھی آمرانہ دور کی سیاہ کاری ہی ہے ۔افسانے کا مرکزی کردار ، خیام اپنی محبوبہ سے دادِ عیش دینے کے لیے ایک ایسے ہوٹل کا انتخاب کرتا ہے جہاں ”حقوقِ داخلہ محفوظ ہیں“کا بورڈ واضح طور پر لگا ہے۔ احمد داؤد نے انتظار کی گھڑیاں بتانے والے خیام کی ہیجان انگیز کیفیت کا نقشہ بہت خوب صورت انداز میں کھینچا ہے۔
”انتظار کی بے چینی اس کی رگوں میں دوڑتے لہو، شانوں اور رانوں کے پٹھوں ، بدن کے مساموں ، آنکھوں کی چمک اور کان کی لووں سے چھلک رہی تھی۔وقت اس کے سامنے ٹھہر ٹھہر کرجم جم کر ، رک رک کر گزر رہا تھا۔ ان سازشی اذیت ناک انتظاری لمحوں کو مہمیز لگانے کے لیے اس نے بار بار گھڑی دیکھی اور اس اچھے وقت کو یاد کیا جو جلدی گزر جاتا ہے اور برے وقت کی مذمت کی جو آدمی کا سب سے بڑا حریف بن کر سامنے جم جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے کھڑکی کھولی تو ایک وقتی ٹھہراﺅاس کے اندر پھیل گیا جو اس لمحے اسے بہت اطمینان پرور محسوس ہوا۔“(13)
ہوٹل کی کھڑکی سے باہر ہونے والے احتجاج کا منظر واضح طور پر نظر آتا ہے ۔یہ احتجاج ریاست کے حکمرانوں کی سیاہ پالیسیوں کے خلاف ہے۔ حکمرانوں کے پاس اس احتجاج کو روکنے کے لیے صرف ایک ہی حربہ ہے اور وہ ہے عوام کی حفاظت کرنے والے محافظوں کو عوام کے خلاف کھڑا کر دیناچنانچہ یہاں بھی یہی ہوا۔
”نیچے منظر بدل چکا تھا ۔ کار پارکنگ کے بورڈ کے پاس بیٹھنے والا پالشی اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا اور اس کی یاد گار ایک ٹوٹا ہوا برش فٹ پاتھ پہ رہ گیا تھا جس کے پاس سیاہ رنگ کے لاتعداد بوٹ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے دیر تک ان لاتعداد سیاہ رنگ متحرک بوتوں پہ نگاہ جمائے رکھی اور پھر آہستہ آہستہ ان بوٹوں میں بند پاﺅں ، پنڈلیوںاور ان پہ قائم جسموں کو نظر کے احاطے میں کھنچ لایا۔ ان گنت سپاہی ہوٹل کے نیچے فٹ پاتھ پر اور سڑک پر کھڑے تھے۔ آہنی خود پہنے ، سنگ باری سے بچنے کے لیے لوہے کی جالی دار ڈھالیں پکڑے رائفلیں اٹھائے ، گیس شیلز کے تھیلے کندھوں سے لٹکائے ایک بے ترتیب دہشت کے ساتھ دور دور تک پھیلے سپاہیوں کو دیکھ کر اس کے بدن میں کپکپی جاگی اور حلق خشک ہونے لگا۔“(14)
ہوٹل کا جہاندیدہ کاﺅنٹر کلرک خیام کی آنکھوں میں ہلکورے لیتے اس جذبے کو دیکھ چکا ہے اور ڈبل بیڈ والا کمرہ اس نے جس مقصد کے تحت لیا ہے وہ اس سے بھی واقف ہے۔ لیکن انجام ِ کار خیام کی محبوبہ اس تک اس لیے نہیں پہنچ سکتی کہ احتجاج کرنے والے ہجوم کی بھیڑ میں وہ اس لیے گم ہو گئی ہے کہ حکمرانوں کے گماشتوں نے ہجوم کے منتشر کرنے کے لیے جو فائرنگ کی ہے ، وہ بھی اسی فائرنگ کا نشانہ بن گئی ہے۔ خیام اس کی جھلک دیکھ لیتا ہے اور دیوانہ وار بھاگتا ہے۔ کلرک کو افسوس ہوتا ہے لیکن وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس طرف وہ بھاگ رہا ہے وہاں موت اس کا استقبا ل کرے گی اسے روک نہیں سکتا اور جب پگھلتا ہوا سیسہ اس کی پشت کی طرف سے ہوتا ہواا س کے دل میں جا گھستا ہے تو پھر وہ روتا ہے اور اس کی جوانمرگی پر ماتم کرتا ہے کہ میں اس کو بچا سکتا تھا۔
”کاﺅنٹر کلرک پہ ساری حقیقت عریاں ہو گئی ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر بانہیں پھیلا کر اس کا راستہ روکنا چاہا ۔ اس نے کاﺅنٹر پہ آگے کو جھک کر خیام کا کندھا پکڑ کر روکنے کی کوشش کی لیکن خیام چیتے جیسی لپک کے ساتھ باہر نکل آیا۔باہر سڑکوں پر رعایا کے قدموں سے اٹھتی دھول پھیلی ہوئی تھی۔ سپاہیوں نے اس دھول میں ایک شخص کو ہوٹل کے دروازے سے باہر لپکتے اور تیزی کے ساتھ چوراہے کی سمت جاتے دیکھا ۔ اس کے بازو پھیلے ہوئے تھے اور ہتھیلیاں ہموار تھیں۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی صدا کی جوابی صدا ہو۔ ابھی وہ چوراہے کے قریب اپنے مانوس پیارے چہرے تک پہنچا ہی تھا کہ ایک انگارہ اس کی پشت میں سوراخ کرتا دل کی راہ سے باہر نکل گیا۔ادھیڑ عمر کاﺅنٹر کلرک نے فائر کی آواز سنی تو اپنی پھیلی بانہوں کو سمیٹا اور ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پاگلوں کی طرح چیکا۔”مم۔۔۔۔میں اسے بچا سکتا تھا۔۔۔۔۔جوانمرگی سے۔۔۔۔۔۔اپنے آپ کو پچھتاوے سے ۔۔۔مم ۔۔۔میں بچا سکتا تھا۔۔۔۔“ادھیڑ عمر کاﺅنٹر کلرک کے سسکیوں بھرے آنسو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔“(15)
افسانہ ”نامہ بر“ کا موضوع آمرانہ عہدکی سیاہ کاری ہی ہے۔ رحیم، نسرین اور راوی اپنے ایک دوست کو بری خبر سنانے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں لیکن یہ بھی جانتے ہیں ہیں کہ اب کوئی بھی بری خبر اس کی موت کی وجہ بن سکتی ہے کیونکہ اسے دوبار ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے اور اب وہ نہیں چاہتے کہ وہ یہ خبر سن کر مر جائے اور خبر اس سے چھپانا بھی مناسب نہیں ہے اس لیے وہ خود میں ہمت باندھ رہے ہیں۔
”اس وقت ہم اسٹوڈنٹس تھے جب اس پر افتاد پڑی رحیم نے گہری ٹھنڈی سانس لے کر کہنا شروع کیا ۔”عین جوانی میں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ آپریشن کے ذریعے اس کا بازو کاٹ دیا گیابعد میں پتا چلا کہ آپریشن غلط تھا اور پھر ایک دفعہ اس کے گھر کے چوکیدار نے اس کا گھر لوٹ لیا۔اس نے مستقبل کے لیے لمبی چوڑی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور بہت ساسرمایہ بھی جمع کر لیا تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ شب خون مارنے والا تاک میں بیٹھا ہے اور وہ شب اتنی طویل ہو گئی کہ جب وہ جاگا تو جوانی گزر چکی تھی ۔ دورسا دور اس وقت پڑا تھا اور اب وہ زندگی کے اس حصہ میں ہے جہاں معمولی سا جذباتی دھچکا اس کو ریزہ ریزہ کر دے گا ، میں تو اس کو یہ منحوس خبر سنا کر مارنا نہیں چاہتا میرے اندر تو ہمت ہی نہیں۔“(16)
وہ تینوں آپس میں مشورہ کر لینے کے بعد جب اپنے دوست کو یہ منحوس خبر سنانے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ اس کے گھر جاتے ہیں تو وہ منظر ان کو بہت بڑا دھچکا لگتا ہے:
”اس کے گھر میں ہمارے چار چوفیرے پورے شہر میں گھنٹیوں کا شور ابھر آیا ۔ اس شور میں ہم دبے پاﺅں پاﺅں آگے بڑھے کھلے گیٹ سے اندر داخل ہو کر ڈرائنگ روم کے ادھ کھلے دروازے سے باہر جھانکتی روشنی کے ٹکڑے پر پاﺅں رکھے اندر داخل ہوئے۔، چاروں طرف پھیلی گھنٹیوں کا شور بگولوں کی طرح ہمارے گرد رقص کر رہا تھا ۔ میں نے گردن موڑ کر اپنے عقب میںگھنٹیوں کے شور کے ماخذ کو تلاش کرنا چاہا ، مجھے گمان ہواکہ جیسے فائر بریگیڈ کی ان گنت گاڑیاں گھنٹیاں بجاتیں ہمارے جلو میں چلی آرہی ہیں۔لیکن میرے عقب میں نسرین کا حیران دکھ بھرا چہرہ تھا۔”۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔اس نے کیا کیا؟“نسرین نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ فرش پر پڑی ا س کی لاش کو دیکھ کر کہا۔میرے اور رحیم کے چہرے پر پتہ نہیں کیوں طمانیت کا عکس ابھرا جیسے ہم اس کی موت کی ذمہ داری سے بچ گئے ہوں۔“(17)
احمد داؤد کے ایک اور افسانے ”گرتے آسمان کا قصہ“ میں بھی جابر کے خوف اور ظلم کو پیش کیا گیا ہے۔ اس خوف اور جبر کا تعلق آمرانہ دور کے سیاہ دنوں سے ہے۔ان کا کمال یہ ہے کہ جو منظر بھی پینٹ کرتے ہیں وہ اتنی مہارت سے پینٹ کرتے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو اس منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے:
”خوف کی مکار لومڑیاں اچھل اچھل کر میرے وجود کی کھال نوچنے لگیں میرے گرد پھیلے تاریک صحن میں انگوٹھا چوس کر بت نیند کی گردن کاٹ چکا تھا اور اب اچھل اچھل کر اپنی قوت کا اظہار کر چکا تھا ، مجھے اچانک احساس ہوا کہ میں تو صدیوں سے بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہوں۔“) 18)
احمد داﺅ د نے افسانوں کی کرافٹ بہت عمدگی سے کی ہے۔ پلاٹ مضبوط ہے۔ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ منظر نگاری بھی لاجواب ہے۔ احمد داؤد اپنے عہد کا لاجواب کہانی کار تھا ۔افسوس کہ قدرت نے ایک بہت زرخیز ذہن کو جوانی میں ہی موت کی وادی میں بلا لیا۔
حوالہ جات
۱۔ احمد داؤد، مفتوح ہوائیں، راولپنڈی ، دستاویز پبلشرز، 1980ء، ص :142
۲۔ایضاً، عجائب گھر (۱)مفتوح ہوائیں،ص:109
۳۔ایضاً، ص: ۱۱۱
۴۔ایضاً، عجائب گھر ۳، ص:119۔120
5۔طاہرہ اقبال، ڈاکٹر، پاکستانی اردو افسانہ سیاسی و تاریخی تناظر میں، لاہور، فکشن ہا ؤس،2015ء،ص:458۔459
۶۔ایضاً، ص :49
۷۔ اعجاز راہی، اردو افسانے میں علامت نگاری، راولپنڈی، ریز پبلی کیشنز، ۲۰۰۲ء،ص: ۱۰۳
۸۔ایضاً، شہید، خواب فروش، اسلام آباد ، دوست پبلی کیشنز، 1996ء،ص:12
۹۔ایضاً، ص :51
10۔شفیق انجم ، ڈاکٹر، اردو افسانہ، اسلام آباد، پورب اکیڈمی، 2008ء، ص :293
۱۱۔احمد داؤد، خواب فروش، ص :51
12۔ ایضاً ، ص :58
13۔ ایضاً، جوانمرگ کا نوحہ، خواب فروش، ص :60
14۔ ایضاً ، ص:62
15۔ایضاً، ص :64
16۔ ایضاً، نامہ بر، ص :97
17۔ ایضاً ، ص :101
18۔ایضاً، گرتے آسمان کا قصہ،مشمولہ احتساب ۲، ص :116
Email: kamranshehzadranjha786@gmail.com
Mobile: 00923357700345