You are currently viewing اردو فکشن کا ارتقا

اردو فکشن کا ارتقا

محمد الیاس کرگلی

   ریسرچ اسکالر  دہلی یو نی ورسٹی

اردو فکشن کا ارتقا

دنیا میں دیگر ایجادات کی طرح زبان و ادب کو بھی سماجی ضروریات نے جنم دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور حالات کے تقاضے کے مطابق اس میں تہذیبی تخیلات اور ادبی تخلیقات کے لئے جگہ بنتی گئی۔ یہ زبانوں کا اصول ہے کہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، لیکن یہ تغیر بھی دوسری زبانوں کی آمیزش سے اورسماجی شعور سے ہی پیدا ہوتا ہے۔جب زبان نے ایک حد تک ترقی کی تو اس میں ادب تخلیق ہونے لگا۔ ایک ادیب اپنی تخلیق کا خام مواد انسانی معاشرہ سے ہی اٹھاتا ہے اور اس میں اپنے تخیل کی آمیزش سے چاشنی پیدا کرتا ہے۔ وسیع معنوں میں ان احساسات اور مشاہدات کے جمالیاتی اظہار کا نام فن لطیف ہے اور ادب بھی اسی طرز کا ہی ایک اظہار ہے، جو ایک مخصوص ضابطے کے تحت تشکیل پاتا ہے۔ادب میں جذبات لطیف کا اظہار مختلف طریقوں سے ہونے لگا جن کو بڑے پیمانے پر دو زمروں میں، یعنی نثر اور نظم میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ابتدا میں شاعری اور ادب دونوں کا مفہوم ادب ہی لیا جاتا تھا۔ بعد میں شاعری نے ایک علاحدہ شکل اور پہچان اختیار کر لی۔

فکشن انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔فکشن ان تحریروں کو کہا جاتا ہے جن میں کوئی کہانی کم و بیش ادبی قاعدوں کو مد نظر رکھ کر لکھی جاتی ہے۔ وسیع معنوں میں فکشن وہ کہانیاں ہیں جن میں تصوراتی عناصر کو ایک خاص ہیئت میں لکھا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کا اطلاق بیک وقت قصہ، کہانی، داستان ، ناول، ناولٹ، افسانہ، مختصر افسانہ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ فکشن ایک آرٹ ہے جس میں انسانی فکر کی ترجمانی ہوتی ہے جو احساس اور جمالیاتی تجربوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو فکشن کی ابتدا داستانوں سے ہوتی ہے۔یہ اس عہد کی پیداوار ہے جب انسانی تہذیب ابھی اپنی ارتقائی منزل طے کر رہی تھی۔ داستان جاگیردارانہ ماحول کی پیداوار ہے۔ایک ایسا زمانہ جب انسان کے پاس فرصت کے لمحے میسر تھے ۔انسان کے جمالیاتی شعور اور رومانیت کی جب آمیزش ہوئی تو تخیل پر جبلت اور ماحول کے اثر سے ایسی کہانیاں سننے اور سنانے کا رجحان رواج پایا جس میں ابتدا میں رزم اور مہم جوئی اور تلاش و دریافت کا عنصر نمایاں تھا۔ بہت جلد اس میں بزم یعنی عشق اور عاشقی، موسیقی، رقص،نغمہ،سماجی محفلیں وغیرہ شامل ہو گئیں۔ لہٰذا داستان کے بنیادی عناصر میں رزم، طلسم اور عیاری قرار پائی۔ داستان ایک الگ ماحول کی پیداوار ہے جس نے ایک خاص ماحول، تہذیب اور فضا میں نشونما پائی اور صدیوں چلتی رہی۔لوگوں کے پاس فرصت کے لمحے تھے، لمبی راتوں میں لوگ شوق سے کہانیاں سنتے اور سناتے تھے۔ ان کہانیوں میں عام طور پر مافوق الفطری عناصر ہوتے تھے،جن اور دیو تو  دور کی بات ، انسان بھی داستانوں میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جو غیر فطری اور غیر منطقی ضرور ہے مگر دلچسپی سے خالی نہیں ہوتے ہیں۔عشق کو داستان کا ایک اہم عنصر قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ کہانی کی وہ وعلت ہے جسے پورا کرنا ہیرو کا مقدر ہے لیکن اس کامیابی کی راہ میں حائل بہت ساری دشواریاں پیش آتی ہیں جن میں اکثر فوق فطری ہستیاں ہوتی ہیں۔یہی پیچیدگیاں اور مشکلیں قصے کو دلکش اور دلچسپ بناتی ہیں۔سب سے اہم عنصر جو داستانوں میں بیان ہوتی ہے وہ اس ماحول کی تہذیب ہے جس میں داستان لکھی جا رہی ہو۔کردار چاہے ختن سے ہو یا فارس سے، یمن سے ہو یا چین سے، روم سے ہو یا مصر سے ، رہن سہن ، طور طریقہ، کھانے کے دسترخوان، شادی بیاہ کے رسوم غرض ہندوستانی سماج کے ہر معاشرتی پہلو ان داستانوں میں بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔

افسانوی ادب کا ارتقا انسانی تہذیب، فکر اور معاشرتی تغیرات کا نتیجہ ہے۔اس بدلاؤ کا پس منظر کم و بیش سیاسی ہے۔ یہ ارتقا زبانی قصہ گوئی سے لے کر داستان نگاری، ناول نگاری، افسانہ نگاری اور مختصر افسانہ تک کی صورتوں میں ہوتا رہا۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی سیاست و اقتدار کے ساتھ دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح ادب بھی متاثر ہوا۔یہاں دور جدید کا آغاز انیسویں صدی کے آغاز سے ہی مانا جاتا ہے۔یہ دور اردو زبان و ادب کے لئے بہت سی امیدیں لایا۔مغلیہ سلطنت کا زوال انگریزوں کے اقتدار کی صدی تھی۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت اردو زبان نے ترقی پائی اور اردو نثر عام فہم و سلیس ہوئی ۔ قصہ گوئی سے دلچسپی انسان کا ایک جبلی تقاضا ہے۔ لیکن جب انسان کے آس پاس کا ماحول بدل جاتا ہے تو قصہ وکہانی کا انداز بدلنا بھی فطری بات ہے۔ اب چونکہ ہندوستان پرانے جاگیردارانہ سماج سے آہستہ آہستہ نکل رہا تھا اور ایک نئے سیاسی ماحول میں قدم رکھ رہا تھا تو وہ پرانے قصے کہانیاں سماجی تقاضوں کو پورا نہیں کر پا رہی تھیں۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں فورٹ ویلیم کالج کے قیام نے اردو نثرکو عام فہم بنانے کے ساتھ ساتھ کئی داستانیں تالیف و تراجم کرنے کے علاوہ اسے رواج دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔اس کے بعد تقریباََ نصف صدی تک ہندوستانیوں کی ذہنیت ابھی وہی پرانی جاگیر داری اور وہی افسانوی دنیا میں کھوئے رہی۔ 1857 کے انقلاب نے اجتماعی ذہن و فکر کو تبدیل کیا لہٰذا نئے ماحول کی ترجمانی ان پرانے قصوں سے نہیں ہو سکتی تھی۔ ایسے میں کہانی کا ایک اور روپ آہستہ آہستہ جنم لے رہا تھا، جو شعوری یا غیر شعوری طور داستانوں سے الگ تھا، جس میں کہانی زمین سے جڑی ہوئی تھی اور جس سے ہندوستانی سماج کی عکاسی بہتر طریقے سے ہو رہی تھی ۔کہانی لکھنے کے اس نئے انداز کو ’’ناول‘‘ کہا جانے لگا۔ سر سید تحریک نے ہندوستانیوں کو اور خاص طور سے مسلمانوں کو بیدار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ یہ بیداری قصہ گوئی کو بھی داستان سے ناول کی طرف تیزی سے لے جا رہی تھی۔ افسانوی ادب پر اس بیداری کا یہ اثر ہوا کہ اس میں طلسماتی دنیا کی جگہ حقیقی دنیا نظر آنے لگی۔ اردو کا سب سے پہلا ناول مولوی نذیر احمد کے’’ مراۃ العروس‘‘ کو مانا جاتا ہے ۔ اس کا سنہ تصنیف 1869 ہے۔ نذیر کے ساتھ افسانوی کاروان کو آگے بڑھانے میں اہم نام مرزا رتن ناتھ سرشارؔ، عبدالحلیم شررؔ اور مرازا ہادی رسوا کا ہے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اردو ناول کی ترقی اور اس روایت کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ لہٰذا پرفیسر ارتضیٰ کریم اپنی کتاب ’’اردوفکشن کی تنقید‘‘ میں لکھتے ہیں۔

’’نذیر احمد نے اردو ناول کی بنیاد ڈالی اور اسے زندگی کے حقائق سے وابستہ کیا، سرشارؔ نے بتایا کہ یہ زندگی کا آئینہ ہے، جس میں اس کی تمام وسعتیں اور رعنائیاں منعکس ہیں۔ اس زندگی میں ایسے کرداروں کی آب و تاب ہے، جو دلنشین، آب و تاب و قابل فراموش ہیں۔ شررؔ نے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ ناول میں قصہ گوئی کے کچھ حدود ہیں۔ واقعات کو لڑی میں پرونے کے کچھ اصول، کچھ سلیقے ہیں جن کے بغیر کسی قصے کو ناول نہیں کہا جا سکتا۔ رسواؔ نے ان تینوں کی فنی روایات کا احترام کیا اور اردو میں پہلی بار ایک مکمل معیاری ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ پیش کیا، جس میں وہ خوبیاں بھی موجود تھیں، جو بکھری بکھری سی نذیرؔ، سرشارؔ اور شررؔ کے ناولوں میں ملتی تھیں اور وہ بھی جو ان میں موجود نہ تھیں۔‘‘ (اردو فکشن کی تنقید،  پروفیسر ارتضیٰ کریم،  1996   صفحہ 62)

افسانوی ادب نے ہر دور کے حالات اور تقاضے کے تحت خود کو ہم آہنگ کیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ناول داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے بلکہ یہ بات حق بجانب معلوم ہوتی ہے کہ ناول داستان کی بدلی ہوئی شکل ہے۔  ہاں، داستان کی حقیقت نگاری ناول کی حقیقت نگاری سے مختلف ہوتی ہے، اس لیے کہ دونوں کی فضا الگ ہے۔ ناول اردو ادب میں انگریزی ادب کے توسط سے آیا، انگریزی میں یہ اصطلاح ’تازہ کہانی ‘ یا نئے کا مفہوم رکھتی ہے۔ جو رفتہ رفتہ سماجی زندگی اور تہذیبی حسیت کا ترجمان بنا ۔ اگر چہ ناول انگریزی ادب سے ہندوستان میں آیا لیکن اس وقت یہاں کے بھی مخصوص حالات تھے جنھوں نے مصنفین کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

علی عباس حسینی نے اردو نال کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، کردار، مکالمہ، مناظر، زمان و مکان، نظریہ حیات اور اسلوب بیان شامل کیا ہے۔وہیں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی اپنی مشترکہ کتاب ’’ناول کیا ہے‘‘  میں قصہ پن، پلاٹ، کردار نگاری، قصہ، ماحول، مکالمہ، اندازِ بیان، جذبات نگاری،فلسفہ حیات، زبان، تکنیک یا فنکاری وغیرہ کو ناول کے لئے ضروری بتاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ناول کے ان تمام عناصر کوخوبصورتی اور ہم آہنگی کے ساتھ توازن، دلکشی اور سلیقہ کے ساتھ پیش کر نا ہی کامیاب ناول نگاری کی ضمانت ہے۔

پہلے ذکر ہوا کہ قصہ کہانی سننا اور سنانا انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن حالات اور وقت کے پیش نظر ان کہانیوں کی شکلیں اور ان کے کہنے کے انداز تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ انسانی ذوق اور شعور میں جیسے جیسے تبدیلی آئیں ویسے ویسے ان کہانیوں کی شکلیں اور ان کے کہنے کا انداز بھی تبدیل ہوتا گیا۔بیسویں صدی کے اوائل میں سجاد حیدر یلدرم، علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند کی کا وشوں سے اردو میں مختصر افسانہ کی بنیاد پڑی۔ اس صدی کے آغازمیںہندوستان میں متعددمعاشی اور ذہنی تبدیلیوں سے گذر تھا۔ تعلیم عام ہونے، جدید صنعتوں کے قیام اور جدید ترقی کی وجہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ سیاسی بیداری، نئی تعلیم کا پھیلاؤ، مغربی اور جدید علوم سے واقفیت، سماجی اصلاحات اور انسان کی سوچ میں دلیل و منطق کا عمل دخل جیسے عناصر کا براہ راست اثر افسانوی ادب پر پڑا اور یوں مختصر افسانہ کی روایت عام ہو گئی۔ ابتدائی دور میں تخیلی رجحان زیادہ قوی تھا ۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پریم چند کی سربراہی میں حقیقت پسندی اردو افسانوں کا رواج بن گیا۔کہانی محض خلا میں تخلیق نہیں ہو جاتی ہے۔ مصنف اسی معاشرے سے کہانی کے لئے خام مواد نکالتا ہے۔ اسے ایک خاص سلیقہ سے تراشنا پڑتا ہے، ایک ہیئت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے کچھ بنیادی اصول ہیں جن کے تحت مختصر افسانہ لکھا جاتا ہے۔ مختصر افسانہ کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، کرداروں کی پیشکش، اسلوب بیان اور وحدت تاثر شامل ہیں۔مختصر افسانے میں ایجاز و اختصار اور ربط و آہنگ کے ساتھ زندگی کے کسی ایک گوشے، کسی ایک واقعے یا کسی ایک نفسیاتی حقیقت کوعصری آگہی کے تناظر میں پیش کرتا ہے۔ابتدا میں مختصر افسانہ فنی طور پر ناولٹ اور ناول سے بہت قریب رہا۔صرف یہی نہیں بلکہ ابتدائی دور میں افسانے پر بھی داستانی رنگ چڑھا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں مختلف رجحانوں ، تحریکوں اور ملک میں ہونے والے دیگر حادثات و واقعات نے بھی مختصر افسانے کو متاثر کیا۔ابتدا میں رومانوی پھر ترقی پسند افسانے لکھے گئے۔ ترقی پسند تحریک کے نمائندہ ادبامیں کرشن چندر، منٹو بیدی، خواجہ احمد عباس، دیوندر ستیارتھی، اختر حسین رائے پوری، اختر انصاری اور عصمت وغیرہ نے افسانے کی آبیاری میں خونِ جگر صرف کیا ہے۔جب ملک آزاد ہوا تو ہجرت سے متاثر افسانے لکھے گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات اور ہجرت کے کرب نے افسانے پر گہرا اثر ڈالا اور بہت سالوں تک افسانہ پر اس کے اثرات باقی رہے۔1960 کے بعد افسانہ نگاروں میں افسانے کے فن و تکنیک میں اس طرح تبدیلی پیدا کی کہ اب یہ مختصر افسانہ سے علامتی افسانہ سے علامتی افسانہ یا استعاراتی افسانہ بن گیا۔ابتدا سے اب تک افسانہ کے فن میں ہوئی ان تبدیلیوں سے یوں لگتا ہے گویایہ کہانی کے کسی نئی صنف کا پیش ِ خیمہ بننے جا رہا ہے۔

اردو میں افسانہ نگاری کی ایک ارتقائی اور مربوط تاریخ رہی ہے۔ اس کا سارا دار و مدار ہماری ارضی زندگی پر مبنی ہے۔حالات ،واقعات ، انسانی اقدار،اطوار، عصری تقاضے اورماحول کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اردو فکشن نے بھی اپنے رنگ روپ بدل ڈالا۔افسانہ نگار ایک فن کار ہوتا ہے اور اسے ہر دور کے مسائل اور حقیقت کو اپنے مخصوص پیرائے میں قارئین کے سامنے لانا ہوتا ہے۔ ہر افسانہ نگار اپنے دور کے حالات سے متاثر ہو تا ہے۔اسے سب سے قابل قدر خزانہ مشاہدے کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔موجودہ دور میں بھی حالات سے متاثر افسانے لکھے جارہے ہیں۔

حواشی

1۔ اردو فکشن۔ تنقید و تجزیہ۔از۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری۔ موڈرن پبلشینگ ہاؤس دہلی۔ 2012

2۔ اردو فکشن کی تنقید۔ ارتضیٰ کریم۔ تخلیق کار پبلیشرز دہلی۔ 1996

3۔ اردو فکشن ، بنیادی و تشکیلی عناصر۔ اختر انصاری۔ انجمن پریش نشتر روڈ کراچی۔

4۔ اردو افسانے کا سفر (جلد دوم) ۔نجمہ رحمانی۔ عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔ ایڈشن2015

5۔ اردو کا افسانوی ادب، پروفیسر صغیر ابراہیم۔ مسلم ایجوکیشنل پریس۔2010

mohdilyas047@gmail.com

Mob.no.: 6005412339

Leave a Reply