You are currently viewing انتظار حسین کے ناول ـ بستی ـ میں مستعمل تلمیحات کا تجزیاتی مطالعہ

انتظار حسین کے ناول ـ بستی ـ میں مستعمل تلمیحات کا تجزیاتی مطالعہ

محمد اکرم شاد

 لیکچرار، شعبہ اردو، ورچوئل یونی ورسٹی آف پاکستان

ای میل: ibnerajab5@gmail.com

 انتظار حسین کے ناول ـ بستی ـ میں مستعمل تلمیحات کا تجزیاتی مطالعہ

(An Analytical Study of Allusions Used in Intizar Hussain’s Novel ‘Basti’)

Abstract:

In literature, eloquence requires more meaning to be conveyed in fewer words and allusions do full justice to this eloquence as if they are like damming a river in a jar. The allusions reflect the author’s historical and cultural knowledge and enlighten the reader with a deeper understanding. This research aims to analyze the allusions used in the novel” Basti”. For this purpose, the allusions used in the novel have been selected and their literary, cultural and historical background has also been examined. This review will better understand the depth and demands of these cues as humans can acquire a wide range of vocabulary demands. More than 70 Qur’anic, Persian and Urdu allusions (talmihats) used in this paper are analyzed along with Hindi allusions because Urdu and Hindi are the languages ​​of Pakistan and India today. Still, earlier it was the language of the subcontinent.

تلخیص:

ادب میں بلاغت کے لیے ضروری ہے کہ کم الفاظ میں زیادہ معانی سمجھائے جائیں اور تلمیحات اس بلاغت کا پورا حق ادا کرتی ہیں گویا یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہیں۔ تلمیحات قاری کو گہری تفہیم سے روشناس کرانے کے ساتھ مصنف کی تاریخی و ثقافتی معلومات کی بھی آئینہ دار ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد ناول ـبستی ـ میں استعمال ہونے والی تلمیحات کا تجزیاتی مطالعہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ناول میں مستعمل تلمیحات کو منتخب کر کے ان کے ادبی ، ثقافتی اور تاریخی پس منظر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے سے ان تلمیحات کی گہرائی اور مطالب کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے گا کیوں کہ انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ الفاظ کے وسیع مطالب حاصل کر سکے۔ اس مقالہ میں مستعمل 70 سے زائد قرآنی، فارسی اور  اردو تلمیحات کے ساتھ ہندی تلمیحات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے کیوں کہ اردو اور ہندی آج پاکستان اور ہندوستان کی زبانیں ہیں مگر قبل ازیں یہ برِ صغیر کی زبان تھی۔

تلمیح کیا ہے؟

تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے، لغوی اعتبار سے اس کا معنی ہے ۔اشارہ کرنا۔ جیسا کہ اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری میں ہے ۔ تلمیح اشارہ ، کنایہ (1)۔  فیروز اللغات میں ہے ۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں کسی قصہ وغیرہ کا کلام میں اشارہ کرنا (2)۔ انگریزی زبان میں تلمیح کے لیے  الُوژن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مولوی وحید الدین سلیم نے تو اپنے مضامین کی کتاب ـ افاداتِ سلیم ۔ میں تلمیح کو ماضی کی شاندار روایات اور کارناموں کا بیان قرار دے دیا ہے۔ لکھتے ہیں: امریکا کا مشہور انشا پرداز آسبورن لکھتا ہے ـ وہ تلمیحات کیا ہیں: ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات ، مزعومات، اوہام ، رسم و رواج اور واقعات و حالات کے سراغ لگا سکتے ہیں ـ انھوں نے تلمیحات کے ماخذ بھی بتائے ہیں جن سے محقق کی منتخب کردہ تلمیحات کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی، وہ ماخذ ہیں: ۱۔مائتھالوجی (دیو مالا) یعنی دیوتاوں کے قصے کہانیاں (3)، ۲۔ مذہبی قصے۔ مذہبی عقائد کی کتابیں۔ ۳۔ تاریخی واقعات۔ ۴۔عام فرضی قصے اور افسانے۔۵۔ شعرا کی نظمیں، خاص کردہ نظمیں جن میں قصے بیان کیے گئے ہیں۔ ۶۔ ڈراما یا ناٹک کی کتابیں (4)۔ـ

 تلمیح علمِ بیان کی ایک صنعت ہے ـ ادبی اصطلاح میں جب کوئی شاعر یا نثر نگار کسی قرآنی آیت، حدیث مبارکہ، تاریخی واقعے، یا کسی قول کا چند لفظوں میں اس طرح حوالہ دے کہ ان الفاظ کو سمجھے بغیر شعر یا جملے کی درست تفہیم ممکن نہ رہے، تو ایسے الفاظ کا استعمال صنعتِ حسنِ تلمیح کہلاتا ہےـ یہ شعر دیکھیں:

          حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری                              آنچہ  خوباں  ہمہ  دارند ،  تو  تنہا  داری

اس شعر کے پہلے ایک مصرع میں ہی تین انبیا علیہم السلام کے تین عظیم معجزات بیان کر دیے گئے اور یہی تلمیح کا کمال ہے ۔ اس شعر کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یوسف علیہ السلام کا حسن رکھتے ہیں ، عیسٰی علیہ السلام کا دم یعنی وہ الفاظ جن سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے اور موسٰی علیہ السلام کا سفید ہاتھ والا معجزہ رکھتے ہیں یعنی وہ تمام کمالات جو باقی سب انبیا کے پاس تھے وہ تنہا آپ کی ذات مبارک میں جمع ہیں۔

تلمیح کی اہمیت:

تلمیح کی ادبی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کیوں کہ تلمیح سے جہاں کلام میں ایک خاص حسن پیدا ہوتا ہے وہیں اس میں فصاحت اور بلاغت بھی آتی ہے۔ تلمیح کے ذریعے طویل سے طویل بات کو چند الفاظ میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید جو کہ ہدایت کا سرچشمہ ہے اس میں بھی اللہ تعالٰی نے سابقہ لوگوں اور امتوں کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جگہ جگہ تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ تلمیح بلاغت کی علامت ہے۔ اپنی کتاب ـ اردو ادب میں تلمیحات ـ میں ڈاکٹر مصاحت علی صدیقی نے صرف ادب ہی نہیں بلکہ قوم کے عروج اور ترقی کے لیے بھی تلمیح کو نشانِ منزل قرار دیا ہے اور واضح کہا ہے کہ تلمیحات کے اچھے خاصے ذخیرے کے بغیر کوئی قوم کامل ہونے کا دعوٰی کرسکتی ہے نہ اس کا ادب ۔ وہ کہتے ہیں:

” تلمیح قوم کے عروج کمال کا معیار متعین کرتی ہے۔ قوم کی ترقی کا نشان بناتی ہے۔ کوئی معاشرت، کوئی ادب ، کوئی کلچر، کوئی قوم اور کوئی نظام کامل ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا جب تک اس کے دسترس میں تلمیحات کا اچھا خاصا ذخیرہ نہ ہو۔ـ کیوں کہ تلمیحات وہ سنگِ میل ہیں جو شمعِ ہدایت کا کام کرتے ہیں اور ان کے ذخیرہ سے ادب کی مقبولیت اور اس کی درازی عمر کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حقیقت میں تلمیحی اشارے یا تلمیحی کنایہ ترقی کی سیڑھیاں ہیں ۔ یہ زینے جس قدر وافر ہوں گے اور جتنے زاید ہوں گے اور جتنے مستحکم ہوں گے وہ قوم اسی قدر ترقی پذیر ہو گی اور ادبی سرمایہ سے مالا مال ہو گی ۔”(5)

کچھ ـ بستی کے بارے میں:

ـ بستی ـ انتظار حسین کا وہ شاہکار ناول ہے کہ جو نہ صرف اپنے تخلیق کار کے لیے وجہِ شہرت بنا بلکہ اپنے اسلوب سے مغرب میں بھی اردو ادب کی دھاک بٹھا گیا۔ اس ناول کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی کیا گیا یہ ترجمہ فرانسس ڈبلیو پریٹچیٹ نامی انگریزی ادیب نے 1955 میں کیا۔ انتظار حسین نے بہت لکھا اور ان پر بھی بہت لکھا گیا۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے، ناول نگار بھی اور ڈراما نگار، تذکرہ نویس، صحافی، مترجم اور نقاد بھی تھے۔ وہ 1925 کو بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد حسن عسکری کی دعوت پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے اور یہیں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا ناول ـ بستی ـ 1979 میں لکھا گیا۔ یہ ناول مصنف کی خودنوشت اور فکشن کا امتزاج ہے۔ وہ  ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور آئے لیکن اپنے ماضی کو کبھی نہ بھلا سکے، اس نئے ملک پاکستان میں وہ بہت سے خواب بُنتے ہیں مگر ان کا حقیقت نہ ہو پانا ، مشرقی پاکستان کا سانحہ ، روز کے فسادات، خاندانوں کا بچھڑ جانا، محبوب سے مفارقت، روایات کا خاتمہ یہ سب  ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ ہر دکھ پر مصنف آسودگی کے لمحات یاد کرنے کے لیے اپنے ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ شاید اسی لیے انھیں ماضی پرست بھی کہا جاتا ہے۔ انتظار حسین وہ ادیب ہیں جنھوں نے علامات، استعارات اور تلمیحات کو ایک نئے ڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔ اب وہ کس حد تک انھیں استعمال میں لاتے ہیں خود انھی سے پوچھ لیتے ہیں۔ اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ـ علامتوں کا زوال ـ میں انتظار حسین لکھتے ہیں:

” فیشن ایبل شاعر اور افسانہ نگار اپنی آواز میں عام اپیل کرنے کے لیے اُس طرزِ اظہار سے رجوع کرتے ہیں جنھیں اشتہاروں کی روایت نے جنم دیا ہے۔ لفظوں کو بس اس حد تک استعمال میں لایا جاتا ہے جس حد تک وہ اوپری زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ جذباتی زندگی کی سطح کو فوری طور پر تھوڑی دیر کے لیے ضرور چھیڑتے ہیں مگر ان میں اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ باطن میں ایک گونج پیدا کریں اور تَہ میں دبے ہوئے خوابوں، تشبیہوں، یادوں اور موروثی شکلوں کے پیچ دار سلسلہ میں جنبش پیدا کریں۔ زبان کے ساتھ یہ سلوک زبان کا تو ستیا ناس کرتا ہی ہے مگر ساتھ میں جذباتی زندگی کو بھی کند کر دیتا ہے”ـ(6)

بستی                                                              میں مستعمل تلمیحات

ـ بستی ـ ایک تہذیب کا نوحہ ہے، ہجرت کا سانحہ ہے، عشقِ نا تمام کا قصہ، تقسیم کا المیہ ہے، قدیم روایات کی موت کا بیانیہ ہے اور نئے دیس سے وابستہ امیدوں اور خوابوں کے ٹوٹنے کی برہان ہے۔ مصنف نے بھی گویا وقت کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور قاری کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلا۔ مگر سب سے اہم اور اس ناول کے بیانیے میں حسن و دلچسپی پیدا کرنے والی مہارت مصنف کا خوبصورت تلمیحات سے کام لینا ہے جس نے ان کی تحریر کو چار چاند لگا دیے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ بستی میں ہندی، عربی، فارسی، اردو تلمیحات کو مناسب تعداد میں اور یوں برمحل  استعمال کیا گیا ہے کہ قاری کو ایسے لگتا ہے گویا ہر تلمیح اس ناول کے اسی مقام پر بیان کردہ موقعے کے لیے ہی تخلیق ہوئی ہو۔ اگرچہ قرآنی تلمیحات عربی تلمیحات ہیں نیز فارسی سے آنے والی تلمیحات کا اپنا وجود ہے لیکن اردو زبان نے چوں کہ عربی اور فارسی سے اس طرح اثر لیا کہ اب انھیں اردو سے الگ کرنا ناگزیر نہیں رہا۔ عربوں نے ایران کو فتح کیا جہاں کی زبان فارسی تھی۔ اہلِ فارس نے عربی رسمِ خط کو تقویت دی۔ مغل جب برِ صغیر آئے تو اپنے ساتھ فارسی زبان لے کر آئے اس سے اردو کا دامن وسیع تر ہوتا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عربی اور فارسی حکمرانوں کی زبانیں تھیں گویا یہ دونوں حاکم زبانیں تھیں لہذا ان کا مقامی زبانوں پر اثر ہونا لازم تھا اور ایسا ہی ہوا۔ اس لیے عربی اور فارسی تلمیحات کو زیرِ نظر مقالہ میں اردو ہی کے تحت لکھا جائے گا جب کہ برِ صغیر کی خالص مقامی تلمیحات کو ہندی تلمیحات کے تحت لکھا جائے گا۔ آخر میں ان چندمخصوص تلمیحات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ہیں تو مصنف کی خود ساختہ اور اس ناول کے حوالے سے لیکن پورے ناول میں وہ خاص اشارے کا کام کرتی ہیں جس کے پیچھے پورا واقعہ چھپا ہوتا ہے۔

اردو تلمیحات:

1.حضرت سلیمان اور ملکہ صبا: (بستی صفحہ 7)       قرآن مجید میں سورہ نمل میں ان کا واقعہ ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دربار لگائے ہوئے تھے کہ ہُدہُد کے ذریعے ملک صبا پر ایک عورت کی حکمرانی کی خبر  آتی ہےجو آگ کی پوجا کرتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسے مع قوم کے دعوتِ حق دیتے ہیں اور وہ ملکہ یہ یقین کرلینے کے بعد کہ وہ واقعی حقیقی پیغمبرِ خدا ہیں، خود بارگاہ میں حاضر ہو کر ایمان لانا چاہتی ہے جبکہ اس کے پہنچنے سے قبل ہی حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ کا تخت منگوا چکے ہوتے ہیں جسے دیکھ کر ملکہ صبا اپنی قوم کے ساتھ ایمان لے آتی ہے اور اعتقاد مزید پختہ کر لیتی ہے۔ (7)

2.صدقت یا رسول اللہ:  (بستی صفحہ 9)   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی پاک ﷺ کے تربیت یافتہ تھے اور دل و جان سے آپ کی ہر بات پر بلا تردد یقین کرتے تھے، جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انھیں پتا چلا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کی ایک گھڑی میں عرش تک کی سیر کر کے آئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ نے فرمایا ہے تو صدقت یعنی آپ جو فرمائیں وہ میں بلا تحقیق مانتا ہوں۔ یوں انھیں ـ صدیق ـ کا لقب بھی ملا۔ بلکہ کتاب ابو بکر صدیق کے 100 قصے میں یہاں تک درج ہے کہ ـ ”جو شخص معراج کی تصدیق کرتا ہے، وہ ابوبکر صدیق کا پیروکار ہے۔ “ـ (8) یہی حال ناول میں ذاکر کے والد سے سوال کرکے جواب لینے والوں کا بیان کیا گیا ہے۔

3.آدم و حوا: (بستی صفحہ 10)   نسلِ انسانی کے باپ اور ماں ہیں۔ انھی سے یہ دنیا آباد ہوئی۔ یوں حضرت آدم علیہ السلام ابوالبشر اور جناب سیدہ حوا ام البشر ٹھہریں۔ ان کا قصہ قرآن مجید میں متعدد مرتبہ کہیں مختصر، کہیں مطول اور کہیں تلمیحاً بیان کیا گیا ہے۔

4.گائے کے سینگ اور زلزلہ: (بستی صفحہ 10) انتظار حسین نے ان الفاظ کو بطور تلمیح استعمال کرکے یہ بتایا ہے کہ آج سے سو سال پہلے کے متحدہ ہندوستان میں سائنسی حقائق کی کیا صورتِ حال تھی۔ جہاں ہنود دھرتی کو شیش کے پھن پر ٹکا سمجھ رہے تھے وہیں مسلمان زمین کو گائے کے سینگ پر رکھ چکے تھے اور ان کے ہلنے سے زمین ہلتی اور یوں زلزلہ آ جاتا۔ جب کہ اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ حالانکہ علما ثابت کرچکے ہیں کہ یہ گھڑی ہوئی حدیث اور ایک اسرائیلی روایت ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث تو کچھ یوں ہے: ـ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری، رقم:6301) ـ

5.ہابیل اور قابیل: (بستی صفحہ 11)    یہ دونوں آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ قابیل نے اپنی نفسانی خواہش کے لیے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا اور بعد میں پچھتایا، اسی واقعہ کو ناول میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں: ـ تھا وہ پہلا خون آدمی کا کہ ہوا آدمی کے ہاتھوں اور تھا وہ پہلا بھائی کہ مارا گیا بھائی کے ہاتھوں ـ (9)

6.قیامت کا آنا: (بستی صفحہ 11)                                                                                         یہاں انتظار حسین نے آج سے لگ بھگ ایک صدی قبل کے برِ صغیر کے مسلمانوں کی علمی سطح اور بھولے پن کو بیان کیا ہے۔ یوں تو وہ جا بجا اس دور میں بسنے والوں کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتے جاتے ہیں لیکن یہاں خاص طور پر قیامِ قیامت کے لیے ان لوگوں کی علمیت  اور عقائدکو ظاہر کیا گیا ہے۔  ذاکر کے والد کی زبانی مکالمہ کی صورت میں کہتے ہیں:

مولانا قیامت کب آئے گی؟

جب مچھر مر جائے گا اور گائے بے خوف ہو جائے گی۔

مچھر کب مرے گا اور گائے کب بے خوف ہو گی؟

جب سورج مغرب سے نکلے گا۔

سورج مغرب سے کب نکلے گا؟

جب مرغی بانگ دے گی اور مرغا گونگا ہو جائے گا۔

مرغی کب بانگ دے گی اور مرغا کب گونگا ہوگا؟

جب کلام کرنے والے چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے۔ ـ (10)

کتنا ہی عرصہ مندرجہ بالا تمام باتوں کو ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں مکالمہ میں موجود تمام باتوں کو بطور تلمیح استعمال کیا جاتا رہا۔ اور کہیں کہیں آج بھی علمیت کی یہی معیار دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ یہاں ایک اور وضاحت کرنا ہمارے تلمیحاتی تجزیاتی مطالعہ کو مزید قابلِ فہم بنا دے گا کہ جب انتظار حسین ڈاکر کے ابا جان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ـ ابا جان بجلی کو مسجد میں آنے سے نہ روک سکے، جس طرح وہ تاشے کو محرم میں راہ پانے سے نہ روک سکے تھے۔ بجلی کے خلاف محاذ ، زمانے کی بدعتوں کے خلاف ان کا آخری محاذ تھا۔ اس کے بعد وہ خانہ نشین ہو گئےـ ۔ (11) اب یہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا لیا گیا ایک اہم موڑ ہے جہاں ڈاکر کے ابا کی گرفت روپ نگر پر کیا ڈھیلی پڑ گئی، پوری تہذیب نے گویا کروٹ لے لی۔ ابا جان کے خانہ نشین ہونے سے گویا قدیم اسلامی ہند کی وہ تہذیب  جو اس وقت تک برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے حرزِ جان تھی، اب قریباً منہدم ہو گئی البتہ اپنے مقام پر بجلی کا مسجد میں آ جانا اسلامی تہذیب میں ایک نئی روشنی کا آنا تھا۔

7.موت سے بھاگنے والے کو موت:  (بستی صفحہ 16،169) عام طور پر موت سے مفر نہ ہونے کو تو کثرت کے ساتھ تلمیح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بستی میں بھی انتظار حسین جہاں موت پر ذاکر کے ابا جان کا  غیر متزلزل ایمان بتا رہے ہیں وہیں ان کی ثابت قدمی اور علمی حوالوں سے بھی روشناس کرا رہے ہیں۔ لیکن یہاں ناصر علی کے یہ الفاظ کہ ـ حضور رسالت مآب نے فرمایا کہ جو موت سے بھاگتے ہیں وہ موت ہی کی طرف بھاگتے ہیں۔ ـ یہ الفاظ قرآن کے الفاظ سے مماثلت رکھتے ہیں جیسا کہ مندجہ ذیل آیات ہیں:

    اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِیْكُمْ  (بیشک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو پس وہ ضرور تمہیں ملنے والی ہے) (12)

 اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ (تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو) (13)

البتہ گمان ہے کہ پسِ الفاظ یہی مقصد ہو کہ حضور نے قرآن کے طور پر یوں فرمایا ہے لیکن بہر حال قرآن اور حدیث ایک ہی زبان سے ادا ہو کر بھی دو الگ حیثیات کی مالک ہیں۔

8.مسیحا اور مسیحائی: (بستی صفحہ 17) اردو شاعری میں خاص طور پر اس تلمیح کو استعمال کیا جاتا ہے ، چوں کہ مسیحا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا لقب ہے جن کے معجزات میں سے ایک معجزہ مُردے کو زندہ کرنا تھا اور اس صفت کو مسیحائی کہا جاتا ہے ، کنایۃً یہ لفظ محبوب کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور حکیمِ حاذق کے لیے بھی کیوں کہ طبیب بھی مرض سے نجات دلا کر نئی زندگی ہی دے رہا ہوتا ہے۔ انتظار حسین نے روپ نگر میں طاعون پھیلنے کے دنوں میں وہاں کے قابل طبیب ڈاکٹر جوشی کے لیے بھی یہی تلمیح استعمال کی ہے اور بڑی خوبصورتی سے کیوںکہ اگرچہ ڈاکٹر جوشی کے مقابلے کا ڈاکٹر دِلی کے بڑے ہسپتال میں بھی نہیں مگر موت کے زور کے آگے مسیحا کا زور بھی گھٹ گیا تھا۔

9.تعویذ: (بستی صفحہ 17)  تعویذ برِ صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی امراض سے شفا یابی، خوف، روحانی مسائل اور نظرِ بد وغیرہ کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گویا تعویذ بھی ایک لفظی مسیحا ہے لیکن بستی میں ناصر علی کا لکھا ہوا تعویذ ہو یا عزاداری میں تاشے بجنا ہوں سب ہماری پرانی تہذیب کے منہدم ہونے کا ہی پتا دے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے مذہبی رسومات میں بھی ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ البتہ انتظار حسین نے اس تہذیب میں تعویذ کی صورت میں مذہبی الفاظ کے اثرات اور ان کے متعلق عقائد کو ضرور نمایاں کیا ہے۔

10،11،12.امام کی سواری، جنابِ امیر، شیرِ خدا:  (بستی صفحات 18،59،183،225)  (ناول بستی کے پس منظر میں جو عقائدِ اسلامی کارفرما ہیں وہ عام طور پر عقائدِ اہلِ تشیِیُع کی نمائندگی کرتے ہیں جیسے کربلا، محرم، محرم پر تاشے، تعویذ لی خمسۃ اطفی بہا حرالوبا ، سید الساجدین، القاباتِ حضرت علی رضی اللہ عنہ، ذاکر ، بتول، مجلس، عاشورہ،  نادِ علی ، زیارت، امام باڑہ، سوز خوانی، خاکِ کربلا خاکِ شفا ، سجدہ گاہ، کوفہ  بلکہ اس ناول کی سب سے بڑی اصطلاح واقعہ کربلا ہی ہے جسے تقسیمِ پاک و ہند، ہجر و ہجرت، سقوطِ ڈھاکا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔)۔ جوں ہی مندرجہ بالا تلمیحات کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام اوصاف و واقعاتِ شجاعت سامنے آجاتے ہیں۔ البتہ تجزیاتی طور پر دیکھا جائے تو انتظار حسین نے امام کی سواری آنے کی تلمیح کو کمال درجہ کے تصور میں استعمال کیا ہے اور وہ تصور ہے ہمارا بحیثیت قوم بشارتوں پر اندھا اعتماد اور اندھا انتظار، یہ ایک تلخ سبق ہے جو انتظار حسین نے جا بجا اپنے قارئین کو کامیابی سے دیا ہے۔

13.کربلا: (بستی صفحہ 24) ـ عراق میں کربلا کے مقام پر 10 محرم 61 ہجری کو یزید کی فوج کی طرف سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کو شہید کرنے کا تاریخِ اسلام و عالَم کا الم ناک واقعہ پیش آیا۔  اسی تلمیح کو بستی میں روپ نگر کے قریب والی کربلا کی ویرانی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

14.دشت نوردی: (بستی صفحہ 25) دشت نوردی کا مطلب ہے گھومنا پھرنا، دشت پیمائی، آوارہ پھرنا، مارا مارا پھرنا۔ ناول بستی میں انتظار حسین نے اس دشت نوردی کو محبت کی قید سے پہلے آوارہ گردی کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ان دنوں، ان حالات میں، برِ صغیر میں نوجوانوں کی مصروفیت کا پتا دیتی ہے۔ گویا جب کچھ حاصل نہ ہو رہا ہو تو حالات یہی رہتے ہیں۔ انتظار حسین نے ذاکر کے حوالے سے یہی لکھا ہے کہ ـ اس نے کتنی آوارہ گردی، کتنی دشت نوردی کی تھی۔ مگر صابرہ کے آنے کے بعد اس کی آوارہ گردی میں فرق پڑتا چلا گیا۔(14)

15.لیلٰی مجنوں: (بستی صفحہ 33،34)  عشق و محبت میں دیوانگی کی حد سے نکل جانے کو ، کسی کی محبت میں اپنا نقصان کر ڈالنے کو یا معاشرے سے کٹ کر رہ جانے یا پھر صحرا نوردی اور آوارہ گردی کی انتہا کے اظہار کے لیے یہ تلمیح استعمال کرتے ہیں۔ بستی میں بھی انتظار حسین نے ذاکر اور صابرہ کے ذکر کے ساتھ ہی اس تلمیح کو استعمال کیا ہے نیز نہ مجنوں کو لیلٰی حاصل ہو سکی اور نہ ذاکر کو صابرہ۔  جہاں تک داستانِ لیلٰی مجنوں کا تعلق ہے تو کہتے ہیں کہ یہ سرزمینِ عرب کی داستان ہے اور حقیقی ہے۔ مجنوں، کہ جس کا اصل نام قیس عامری تھا، نے عشقِ حقیقی چھپانے کے لیے عشقِ مجازی کا سہارا لیا البتہ حضرت امیر خسرو کی کتاب ـ مثنوی مجنون و لیلٰی ـ کے دیباچہ میں محمد حبیب الرحمٰن شروانی یوں رقمطراز ہیں ـ برقِ انکار نے قیس کا خرمنِ ضبط و صبر پھونک دیا۔ کپڑے پھاڑ کر جنگل کو نکل گیا۔ بادیہ نوردی میں عشق کے جوہر چمکے۔ ـ  (15) اور یہ داستان یہی چند الفاظ ہیں۔

16.بدعت: (بستی صفحہ 36) ویسے تو بدعت کے معانی ہیں کہ ایسی نئی چیز کی ایجاد جس کا کوئی سابقہ نمونہ، مثال یا مادہ نہ ہو۔ اصطلاح میں دین میں کوئی نئی چیز داخل کرنے کو جس کا قرآن و حدیث میں ذکر نہ ہو، بدعت کہتے ہیں۔ لیکن انتظار حسین نے اس کنائے کو یوں استعمال کیا کہ لوگ ہر نئی مفید ایجاد کو بھی بدعت کَہ کر اس کے مانع ہوتے ہیں جیسے ذاکر کے ابا جان مسجد میں بجلی آنے کو بدعت کہتے ہیں۔

17.محرم: (بستی صفحہ 36،37) نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے محرم کو حرمت والا مہینہ فرمایا ہے کہ ـ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ۔ تین تو لگا تار یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب ـ (16) یہ حرمت کے ساتھ ساتھ واقعہ کربلا کی بھی یاد دلاتا ہے۔ چونکہ اس مہینے میں قتال ممنوع ہے تو بدلتی تہذیبِ ہند کے پس منظر میں انتظار حسین نے ابا جان کے ـ بدعاتِ زمانہ ـ کے دنوں میں محرم کے مہینے میں گھر میں بیٹھ جانے کی وضاحت جس کمال کے ساتھ کی، یہ انھی کا خاصا ہے۔

18.قیامت مچی ہونا: (بستی صفحہ 55)  شوروسر، فتنہ و فساد اور ہنگامہ برپا ہونا کے لیے بس ایک تلمیح ہی کافی ہے، تمام واقعہ آنکھوں کے سامنے آ جائے گا۔ سقوطِ ڈھاکا بھی تو قیامت مچنے سے کم نہ تھا، انھی فسادات کے لیے انتظار حسین نے اسے بطور تلمیح استعمال کیا ہے۔

19.چوہے اور بانسری کا قصہ: (بستی صفحہ66) انتظار حسین نے بستی میں اس کہانی کو بطور تلمیح استعمال کیا ہے کہ جیسے لوگ آ چکے ہیں اب واقعی ان کو ڈبونے کا وقت ہے جو اپنے وعدے پورے نہیں کر سکتے ، جو دن بدلنے پر مکر جاتے ہیں۔ پاکستان وہی بستی ہے جسے چوہے کھوکھلا کر رہے ہیں۔

20.جلیاں والا باغ: (بستی صفحہ 76)  بستی میں اس واقعے کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ تلمیح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جس کے پس منظر میں انتظار حسین کئی باتوں کو آشکارہ کر رہے ہیں؛ پاکستان کی دوہری تقسیم کے حوالے سے ملک جلیاں والا باغ، بیان کرتے ہوئےاصل واقعات کی صورت بدل دینا، کرفیو کا لگنا، عوام کا واقعات کو واقعات کے ساتھ انسلاک کرنا وغیرہ۔

21.ملا کی دوڑ مسجد تک: (بستی صفحہ 85)  ایک گاوں میں ایک مُلا رہتے تھے اور ہربار بیوی سے جھگڑا کرتے ہوئے کہتے کہ مجھ پر زیادہ چلائی تو پردیس جا کر کبھی نہ لوٹوں گا۔ ایک دن بیگم نے کَہ دیا کہ پردیس چلے ہی جائو۔ ملا جی غصے میں گھر سے نکل محلے کی مسجد میں آ بیٹھے تو بیوی بھی شام کو پیچھے پہنچ گئی اور جیسا کہ ڈاکٹر شریف قریشی نے لکھا کہ ـ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگی: واہ میرے پردیش کے جانے والے، کیا ہوا! بس ملا کی دوڑ مسجد تک! ـ (17) سقوطِ ڈھاکا کے وقت صرف دعوے کرنے والے جوانوں کے لیے اس تلمیح کا برجستہ استعمال کیا گیا ہے نیز دعوے کرنے کے بعد اپنی مسجد (شیراز) میں پناہ لینے کے احوال کا تذکرہ ہے۔

22.کالے کوس: (بستی صفحہ 92)  انتظار حسین نے اس تلمیح کو بھی بڑی برجستگی کے ساتھ استعمال کیا ہے، چوں کہ ناول بستی کا حقیقی موضوع، ہجرت ، تقسیم اور فسادات ہے، اس تناظر میں کبھی دیکھیں تو ہزاروں میلوں کا سفر بھی چھوٹا ہوسکتا ہے اور کبھی دیکھیں تو ایک قدم بھی کالے کوس بن جاتے ہیں جیسا کہ تقسیمِ ہند اور ہجرت کے موضوع ہی پر لکھے جانے والے ناول ـ کالے کوس ـ کو دیکھ لیں۔ جب درسا اپنے خیر خواہ دوست کو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور ایک جگہ کھڑا ہوکر سراج کو اشارے سے بتاتا ہے کہ یہ دیکھو یہاں سے پاکستان شروع ہوتا ہے۔ سراج چند قدموں پہ ہی پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے رخصت ہونے کے لیے اپنے دوست کی طرف بڑھتا ہے  اور درسا کہتا ہے: ـ سراج! کیا تم مجھ سے ملنے کے لیے پاکستان سے یہاں آئے ہو؟ـ (18) ناول کے مہاجر اور پیچھے رہ جانے والے کرداروں کا معاملہ بھی کالے کوس سے کچھ مختلف نہیں۔

23.قیامت کا وقت، جب حاکم ظالم ہو جائیں گے: (بستی صفحہ 125)  قیامت نام ہے موت کا، حشر بپا ہونے کا، برے وقت کے طویل ہونے کا، اعمال کے سامنے آنے کا اور فیصلے کا۔ انتظار حسین نے بڑی عمدگی سے قیامت کا لفظ بطور تلمیح استعمال کیا اور پھر ـ جب حاکم ظالم ہو جائیں گے ـ کو قیامت کی نشانیوں میں سے نکال کر اس وقت کے پاکستان کے حکام کے حوالے سے ملکی صورت حال کی بھی بھرپور وضاحت کردی۔

24.شاہ دولہ کا چوہا: (بستی صفحہ 128) سولہویں صدی مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں سید کبیر دولے شاہ نامی ایک بزرگ گجرات کے قریب ایک گاوں میں آئے تھے جو بے اولاد کے لیے دعا کرتے تو انھیں اللہ پاک اولاد عطا کرتا پھر اس اولاد میں سے ایک بچہ اسی دربار یا خانقاہ کو دینا ہوتا تھا۔ ان کے سر چھوٹے رہ جاتے تھے اور انھیں دولے شاہ کے چوہے کہا جاتا تھا۔ حالانکہ درحقیقت ان بچوں کو خول وغیرہ چڑھا کر ان کے سر چھوٹے رکھے جاتے تھے اور ان سے بھیک منگوائی جاتی تھی۔ انتظار حسین نے یہ تلمیح محض چھوٹے سر کے اظہار کے لیے نہیں استعمال کی بلکہ انھوں نے اس تلمیح کو چھوٹے دماغ اور چھوٹی عقل کے لیے استعمال کرکے تقسیمِ پاکستان کے عوامل میں سے ایک سے پردہ بھی اٹھایا ہے۔

25.بابر، اکبر، شاہجہان، اورنگزیب: (بستی صفحہ 142) انتظار حسین ذاکر کے ہندوستانی دوست کی زبانی برِ صغیر میں تاریخی، مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور سیاسی تغیرات کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اور کس ترتیب سے اس سرزمین پر یہ تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اب تک ایسے لوگ موجود ہیں۔ لکھتے ہیں: ـ پہلے تو تمھارے فاتحین آئے اور اس زور شور سے آئے کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یہاں کی زمین ہِل گئی اور تلواروں کی جھنکار سے فضا گونج اٹھی۔ پھر سیاسی رہنما نمودار ہوئےاور انھوں نے اپنی گھن گرج دکھائی۔ بابر، اکبر، شاہجہان، اورنگزیب۔ـ (19)

26.حکیم الامت، تقدیرِ امم: (بستی صفحہ 142)   حکیم الامت علامہ اقبال کو کہا گیا ہے اور تلمیح ـ تقدیرِ امم ـ انھی سے منسوب ہے۔ جنھوں نے فرمایا تھا:

میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ امم کیا ہے                            شمشیر و سناں اول، طاوس و رَباب آخر (20)

گویا تہذیبی طور پر ہو یا تاریخی حوالے سے ہمارے امور کی ابتدا ہی شمشیر و سناں سے ہوتی ہے۔

27.محرم میں امام باڑے کے عَلم: (بستی صفحہ 147)   ویسے تو یہ پورا مہینہ قرآن و سنت کے مطابق بہت حرمت والا ہے اور قبل از اسلام بھی حرمت والا ہی تھا لیکن شہادتِ حسین کے حوالے سے مسلمانوں میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی اور شیعہ مسلمانوں نے باقاعدہ عبادت اور مجالسِ شہادتِ امام حسین کے لیے بارگاہیں بنائیں جنھیں امام باڑہ کہا گیا اور ان کے قافلے کے علامتی جھنڈے بھی لگائے، یہ انھی کا ذکر ہے۔

  1. داتا کا شہر (بستی صفحہ 160) بستی کا مرکزی کردار روپ نگر، ویاس پور اور لاہور میں رہا ہے لہذا کسی مقام کی اہمیت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ یہاں انتظار حسین شہر لاہور کے لیے داتا کا شہر کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ وہ تلمیح ہے کہ خاص و عام آج بھی لاہور کو ـ داتا کی نگری ۔ ہی کہتے ہیں ۔ داتا سے ان کی مراد حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری متوفٰی 465ھ جن کا مزار لاہور میں ہے۔
  2. نادِ علی: (بستی صفحہ 162) نور اللغات میں ہے: ـ نادِ علی ایک دعا کا نام جو زہر مہرے یا چاندی کے پتر پر کندہ کرکے بچوں کے گلے میں ڈالتے ہیں ـ (21) یہ تلمیح حلِ مشکلات کے لیے بطور وظیفہ استعمال کی جاتی ہے ۔ ناول میں بھی جب کرفیو لگتا ہے تبھی اس کا ذکر آیا ہے۔
  3. تاج محل: (بستی صفحہ 166) عشق و محبت اور حسن و فنِ تعمیر کی تاریخی علامت، عشق کا کنول، عجائباتِ ارضی میں ممتاز تاج محل مغل بادشاہ شاہجہان نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ تاج محل کی تلمیح ہر دو نظم و نثر میں حسن و عشق کی تلمیحات کے ساتھ خوب استعمال کی جاتی ہے۔ انتظار حسین ناول بستی میں تاج محل کو جہاں ہندوستان کا حصہ اور خوبصورتی کا مجسمہ قرار دے رہے ہیں وہیں اسے امیدوں اور امنگوں کے ترجمان کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
  4. دکھ ہم بھریں اور کھائیں چڑیاں طوطے: (بستی صفحہ 169) یہاں انتظار حسین ذاکر کی والدہ کے حوالے سے امرود کے درخت اور بلبلوں کی تمثیل سے اس نئے وطن کی بابت ایک بڑی بات کرگئے ہیں کہ شجرکاری کرنے اوران اشجار کو خون پسینے سے سینچ کر دکھ جھیلنے والے اور ہوتے ہیں جب کہ پھل کھانے والے اور ہی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تقسیمِ ہند اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد ہوا۔
  5. بے چراغ زمانہ: (بستی صفحہ 170) اس تلمیح کا استعمال کرکے انتظار حسین نے قاری کو سادہ اور مختصر انداز میں ابتدائے آفرینش سے دورِ حاضر تک کے تمدن کا سفر طے کروا دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ بے چراغ دور تو کسی بھی وقت لوٹ کے آ سکتا ہے جیسا فسادات کے دنوں میں رات کے وقت وہی دور لوٹ آتا، ہر شخص شام ڈھلنے سے پہلے اپنے گھر میں ، گھپ اندھیرے میں ۔
  6. الف لیلہ کا ابوالحسن: (بستی صفحہ 175) الف لیلہ طویل فرضی قصوں پر مبنی سرزمین عرب کی ایک داستان ہے جس میں ایک کردار ابوالحسن ہے کہ رئیس سے مفلس ہوا، پھر تاجر ہوا، لوگوں کی اصلیت افلاس میں کھل کے سامنے آئی، ایسوں کو چھوڑا، ہر رات کسی کی مہمان نوازی کرتا، ایک شب خلیفہ ہارون الرشید کو مہمان کیا، اس نے اس کی خواہش پر بنا بتائے بے ہوش کر کے اپنے محل پہنچایا اور ایک دن کا حکمران بنا دیا، اگلی رات بے ہوش کرکے وہیں چھوڑ دیا، نہ محل، نہ کنیزیں، نہ حکمرانی۔ ایسا دو دو مرتبہ ہوا، دنیائے حیرت میں غوطہ زن ہوا کہ الٰہی یہ کیا ہے؟ انتظار حسین بھی اس تلمیح کے ذریعے حالاتِ شہر پر اپنی حیرتوں کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ شہر دن کو اور ہوتا ہے اور رات کو اور، کسی چیز کی سمجھ تک نہیں آتی۔
  7. قصہ ہوشربا: (بستی صفحہ 176) داستانوی اردو ادب کی مشہور و معروف کتاب طلسم ہوش ربا ہے جس کے قصے واقعی ہوش ربا ہوتے ہیں جن میں سحر و جادو کے کمالات، مافوق البشری طاقتیں، مافوق الفطرت مقامات اور نظارے، دیو، پریوں اور جنوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ انتظار حسین نے اس داستان کا حوالہ ایک خاص تلمیح کے طور پر دیا ہے۔ اس داستان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جہاں ایک کہانی ختم ہوتی ہے وہیں دوسری کہانی یا قصہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی بتانا ان کا مقصود تھا کہ ملک میں ایک کہانی ختم نہیں ہوتی کہ دوسری جنم بھی لے لیتی ہے اور کہانی بھی ایسی کہ جو ہو بھی فوق البشری سی۔
  8. یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے: (بستی صفحہ 190) یہ علامہ اقبال کی بالِ جبریل کی ایک نظم ـ طارق کی دعا   اندلس کے میدانِ جنگ میں ـ کا ایک مصرع ہے جس کا پس منظر  طارق بن زیاد ہیں جنھوں نے قوتِ ایمانی سے اندلس فتح کیا تھا۔ گویا یہ فتحِ سپین کی ایک تلمیح کے طور پر استعمال ہوا ہے لیکن انتظار حسین اس تلمیح کو نئے معانی میں دیکھ رہے ہیں کہ اب وہ جذبہ ایمانی نہیں رہا بس پراسرار بندے رہ گئے ہیں جو حکومت و سیاست میں کیا، کیسے اور کیوں کر رہے ہیں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اسی لیے تو ناول کے کرداروں کے لیے ـ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ـ والے اشتہار کی تصویر اور لفظوں کو مردہ کَہ رہے ہیں۔
  9. ان اللہ مع الصٰبرین: (بستی صفحہ 191) یہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153 کا آخری حصہ ہے جس کا ترجمہ ہے کہ بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ صبر کا بلا شبہ بہت زیادہ اجر ہے اور صابر کے لیے اللہ تعالٰی کی رحمت اور اس کی برکات ہیں۔ صبر کا پھل بھی میٹھا ہوتا ہے لیکن فسادات اور غدر کے ایام کے بعد ہونے والے نقصانات کے تناظر میں انتظار حسین نے اس تلمیح کو حسبِ مہارت بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ جب انسان کسی کے لیے کچھ کر نہ پائے تو اسے صبر کی تلقین ہی کر سکتا ہے۔ ہم بعض اوقات اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے بھی قرآن کا سہارا لے لیتے ہیں۔
  10. جمال عبد الناصر: (بستی صفحہ 197) جمال عبدالناصر جو 1954 سے 1970 اپنی وفات تک مصر کے صدر رہے اور جن کے نام پر عرب قوم پرستی ـ ناصر ازم ـ کہلاتی ہے وہ عرب قوم پرستی کی بِنا پر بہت مشہور ہوئے تھے۔ انھی کی تحریر ہے: ـ آج ایک کارنامہ، ایک کردار، بڑی بے چینی سے اس سورما کی راہ دیکھ رہا ہے جو اسے انجام تک پہنچائے ۔۔۔ ۔ ـ (22) انھوں نے عربوں کی ساخت بحال کرنے کے لیے کبھی کسی جنگ سے گریز نہ کیا مگر اسرائیل کے خلاف مصر اور عرب ممالک بری طرح سے جنگ ہار گئے۔
  11. فسادات، غدر: (بستی صفحہ 199،221) انتظار حسین نے انقلابِ آزادی کی ہوائیں چلتی ہوئی محسوس کیں، تقسیمِ ہند اور پھر تقسیمِ پاکستان کے سوانح کے شاہد رہے تبھی وہ لفظ فسادات کو ایک تلخ تلمیح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 1947 میں تقسیمِ برِ صغیر کے نتیجے میں پاکستان تو بن گیا مگر اس ملک کے چلتے رہنے کی بے یقینی رہی، یوں ہی 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا وقوع پذیر ہونا۔ ان حالات کو ناول بستی میں فسادات اور اس کے نتائج کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اور اگر بنظرِ انتظار حسین دیکھیں تو وہی انتشار و افتراق اور وہی بے یقینی کسی حد تک اب بھی موجود ہے۔
  12. یروشلم: (بستی صفحہ 204) اہلِ یورپ اپنی زبانوں میں بیت المقدس کو یروشلم کَہ کر پکارتے ہیں۔ دنیا کے تین الہامی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جوڑنے کے لیے بیت المقدس کو اپنا اپنا حق سمجھتے اور متبرک و مقدس گردانتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک میں عناد کا سبب یہی ہے۔ انتطار حسین نے بھی 1971 کے واقعات میں اس تلمیح کا تذکرہ کیا ہے جس کا مطلب ہے برصغیر کے تینوں حصوں کا تذکرہ کرنا۔
  13. تم اور تمھاری آرزوئیں دنیا میں مہمان ہیں: (بستی صفحہ 218) یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ جسے قرآن نے فرمایا: ـ کل من علیھا فان ـ ہر چیز عارضی ہے خواہ انسان ہو یا انسان کی خواہشات۔ خواہشات بھی تو آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ایک مہمان کی طرح خواہ پوری ہوں یا پوری نہ سو سکیں۔ انتظار حسین نے ذاکر کے دل سے صابرہ کی خواہش جانے کے موقعے پر برمحل اس تلمیح کا استعمال کیا ہے البتہ یہ حضرت علی کا ہی قول ہے، اس کا ٹھوس ثبوت تو نہیں لیکن ان کے کئی اقوال کا مفہوم بہر حال یہی ہے۔
  14. صابر، کلیر تیری بکری ہے: (بستی صفحہ 223) حضرت علاو الدین علی احمد صابر متوفٰی 690ھ نے جب اپنی دینی و روحانی تربیت اپنے ماموں حضرت فرید الدین مسعود سے مکمل کر لی تو انھیں کلیر شریف (انڈیا) میں دعوت و تبلیغ و ارشاد کا حکم ہوا۔ روایات کے مطابق وہ علاقہ آپ کے تصرف میں دے دیا گیا گویا وہ ان کے لیے بکری تھی، جیسا چاہیں اس علاقے کے ساتھ سلوک کریں۔ مگر یہ باتیں قیاس آرائی پر مبنی ہیں جیسا کہ حضرت علی احمد صابر کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب کے پیش لفظ میں اختر حسین ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج نے لکھا ہے: ـ مگر افسوس کہ چند مفروضات کے سوا ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ اور مفروضات سوانح نگاری کی بنیاد نہیں ہوتے ۔ ـ (23) تلمیحاً دیکھیں تو پاکستان جن کی بکری تھی انھوں نے جیسا چاہا اس کے ساتھ سلوک کیا جسے بستی میں بہت عمدہ طریق سے بیان کیا گیا ہے۔
  15. حضرت سجاد، سید الساجدین کی صبح: (بستی صفحہ 224) سجاد اور سید الساجدین ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے حضرت علی بن حسین المعروف حضرت زین العابدین کے القابات ہیں جن سے پوچھا گیا کہ آپ نے صبح کس عالم میں کی تو فرمایا کہ بنی امیہ کے ظلم میں کی۔ انتظار حسین نے موجودہ حالات کے تناظر میں اس تلمیح میں اب تک اسی صبح کا چلنا بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ـ ابا جان یہ کہ کر افسردہ ہو گئے، کہنے لگے، بیٹے! اب تک وہی صبح چل رہی ہے۔ ـ (24)
  16. حضرت رابعہ بصری: (بستی صفحہ 224) حضرت رابعہ بصری متوفٰی 185 ھ دنیائے تصوف میں شہرت دوام حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں اسی لیے خواتین کے زہد و عبادت اور فقرو غنا کو بیان کرنے کے لیے اس تلمیح کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ناول بستی میں ذاکر کی والدہ کے تذکرے کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنے کا بھی یہی مقصد ہے۔
  17. کوفے میں کرفیو: (بستی صفحہ 244) جب کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو تو وہاں کوفہ لفظ بطور تلمیح کَہ کر اہلِ بیت پر ڈھائے گئے ظلم کو بیان کیا جا رہا ہے اور یہی حال اس وقت پاکستان کا تھا۔
  18. وقنا عذاب النار: (بستی صفحہ 246) قرآنی دعا کا حصہ ہے۔ عذابِ نار سے پناہ مانگ کر پاکستان میں لگی آگ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
  19. والعصر ان الانسان لفی خسر: (بستی صفحہ 246) قحط الرجال کے لیے سورہ عصر کی پہلی دو آیات کو بطور تلمیح استعمال کیا گیا ہے کہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے حقیقتاً گھاٹے میں ہے۔

47،48،49. دمشق کا دربار، شہرِ مبارک، مردِ دلیر: (بستی صفحہ 246)  یہ تین تلمیحات ہیں اور تینوں کو تہذیبی وسیاسی تناظر میں استعمال کیا گیا ہے۔ دمشق کا دربار سے مراد یزید کا دربار ہے جہاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے تاریخی خطبہ دیا تھا۔ شہرِ مبارک سے مراد مدینہ منورہ ہے اور مردِ دلیر سے مراد حضرت عبداللہ ابنِ زبیر ہیں نیز ماں سے مراد حضرت اسما بنت ابو بکر ہیں۔ یہ تمام تلمیحات 1971 کے فسادات کے بعد والی صورت حال کے اظہار کے لیے بیان کی گئی ہیں۔

  1. آدم کے بیٹے: (بستی صفحہ 248) آدم کے بیٹوں سے مراد مردانِ جہان ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ہابیل اور قابیل کی طرح فخر اور ندامت دونوں کے ملے جلے جذبات سے بھر پور ہیں۔ ناول بستی میں ان سے مراد کُل انسانیت بھی ہے اور برِ صغیر کے لوگ بھی۔

 

 

 

ہندی تلمیحات:

1.برندا بن: (بستی صفحہ 7)  اسے وِندرا بن بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ تاریخی علاقہ ہے جہاں ہندووں کے ایک دیوتا کرشن کی پرورش ہوئی۔  ہنود میں یہ مقام مقدس اور نشانِ امن سمجھا جاتا ہے اسی لیے آغازِ دنیا کا نقشہ کھینچتے ہوئے انتظار حسین نے دنیا کو مقدس اور پرامن جگہ ظاہر کرنے کے لیے یہ تلمیح استعمال کی ۔ سمراٹ ایس کمار اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں:

“The area of Vrindavan is a focal place of worship for Vaishnava traditions centered on the Hindu god Krishna” (25)

یعنی  ورنداون کا علاقہ ہندو دیوتا کرشنا پر مرکوز وشنو روایات کے لیے ایک مرکزی عبادت گاہ ہے۔

  1. رام چندر جی کی انگلیاں: (بستی صفحہ 7) برِ صغیر کی تقسیم سے پہلے عوام الناس کے عقائد ، سوچ ، یک جہتی اور ان کے عرفان کے اظہار کے لیے کھٹ بڑھیا، ہاتھی، مور، گلہری اور دنیا کی خوبصورتی کا اظہار کیا جا رہا ہے ، اور خاص طور پر گلہری کی پیٹھ پر پڑی کالی دھاریاں جنھیں ذاکر رام چندر جی کی انگلیوں کے نشان سمجھتاہے ، انھیں نشانِ فتح بھی سمجھا جاتا ہے۔ انتظار حسین کی طرح علامہ اقبال بھی اپنی نظم ـ رام ـ میں رام چندر جی کو ہند کے لیے چراغِ ہدایت کہ چکے ہیں:

                        ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز                        اہلِ  نظر سمجھتے  ہیں  اس کو  امامِ   ہند

          اعجاز  اس  چراغِ  ہدایت کا ہے یہی                       روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند   (26)

3.برہما جی ، مہا بھارت، شیش دھرتی ڈانواں ڈول ہے: (بستی صفحہ 8) ہندو مت کے حوالے سے برہما جی کا مہا بھارت کتاب شیش کو دھرتی اپنے پھن پر ٹکا رکھنے اور ہلنے میں زلزلہ آنے کی وجہ بیان کرنا بعینہ اسی طرح ہے جیسے تحقیق کے آغاز میں مسلمانوں کے حوالے سے زلزلہ آنے کی وجہ بیان کی گئی تھی کہ اس دور میں سائنسی حقائق سے دوری کی تلمیحات ہیں اور ہم لوگ صرف کسی کتاب ہی کے الفاظ کو حرفِ آخر سمجھ لیا کرتے تھے۔

  1. ساون بھادوں: (بستی صفحہ 27) ساون بھادوں کی تلمیں کئی حوالوں سے استعمال ہوتی ہے جیسے لگا تار بارشیں، محبوب سے دوری کا شدید احساس ، میرے نیناں ساون بھادوں پھر بھی میرا من پیاسا والی کیفیت، عشق محبت کے اظہار و تکمیل کے مہینوں کے طور پر جیسے ناول بستی میں ہے:

                               پکی نیم کی نبولی ساون کب کب آوے گا                                      جیوے موری ماں کا جایا ڈولی بھیج بلاوے گا

بارہ ماسوں میں وہ خواتین جن کے شوہر پردیس ہوتے ہیں ان کی طرف سے جدائی کے دنوں کا اظہار بھی اسی تلمیح کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

  1. دولھا دلھن کھیلنا: (بستی صفحہ 30) یہ سنہرے دور کے بچپن کی یادوں کی تلمیح ہے کہ جب لوگ ہوس سے بے بہرہ تھے، بچے اپنے بچپن کو بچپن کے طور پر ہی گزارتے تھے۔ انتظار حسین نے ذاکر اور صابرہ کے بچپن میں خود کو بیان کیا، اپنے بچپن کی محبت کو بیان کیا ہے۔
  2. شام نئیں آئے: (بستی صفحہ 31) شام یا شیام اور گھنشام ہندومت کے نزدیک ان کے بھگوان کرشنا ہی کے نام ہیں۔ ہنود کا ماننا ہے کہ ان کی 16108 بیویاں تھیں جن کے وہ ایک ہی شام تھے، انھی کے لیے وہ گیت گایا کرتی تھیں۔ شام کا معنی گہرے اور کالے رنگ کے ہیں جب کہ اس سے مراد محبوب لیا جاتا ہے۔ کرشنا بھی گہرے رنگ کے تھے ۔ سرائیکی میں بھی خواجہ غلام فرید نے اپنے کلام میں محبوب کے معنوں میں ہی اس لفظ کا استعمال کیا ہے:

میڈا سانول مٹھڑا شام سلونا  من موہن جانان وی توں                                  میڈا مرشد ہادی پیر طریقت  شیخ حقائق دان وی توں

  1. کنھیا کرشن جنم آشٹمی: (بستی صفحہ 31) ہندومت کے مطابق کرشنا وِشنو کے آٹھویں اوتار ہیں زمین کے رکھوالے ہیں۔ ان کی پیدائش کی خوشی میں جنم آشٹمی منائی جاتی ہے۔ جیسا کہ پون کمار نے ان کے متعلق لکھا ہے:

Yashoda had given birth to a son. Krishna, Lord of Lords, began his incarnate life in the humble abode of the cowherd chief Nanda, in the sylvan surroundings of Gokula. (27)

  1. رام چندر جی کی پتلیں: (بستی صفحہ 34) ذاکر صابرہ کو ہندومسلم مشترکہ معاشرے میں موجود رسومات سے متعارف کراتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہندووں کے ہاں ایک اور عقیدہ بھی جس پر وہ زمانہ قدیم سے کاربند ہیں۔ وشنو کے ساتویں اوتار رام چندرجی جب بھوجن کر لیتے تو کووں کا راجا آکے ان کا جھوٹا کھاتا اور پتل ( بڑے پتوں سے بنا کھانے کا ظرف) صاف کرتا تھا۔ اسی یاد میں مخصوص دن پر ہنود چھت پر دودھ میں پکے چاولوں کے وہی ظروف رکھ دیا کرتے ۔
  2. سوتے کی کٹیا جاگتے کا کٹا: (بستی صفحہ 96) اصل میں تلمیح ہے جاگتے کی کٹیا ، سوتے کا کٹڑا ہوشیار باشی کے لیے، پہلے آئیے پہلے پائیے، غفلت سے نقصان اٹھانے اور مسلسل کسی کام کی طرف متوجہ رہنے کے لیے جس میں کسی اور کی موجودگی بھی ہو، یہ تلمیح استعمال کی جاتی ہے۔ بھینس کٹیا کو جنم دے تو وہ مالک کے لیے زیادہ سودمند ہوتی ہے۔ لیکن ناول بستی میں معاملہ اُلٹا ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے تلمیح کو الٹا ہی استعمال کیا گیا ہے۔
  3. آنکھ میں سور کا بال: (بستی صفحہ 96) اس کا مطلب ہے بے مروت ہو جانا یا بے غیرت ہو جانا، حیا نہ رہ جانا۔ منشی مصیت کے بدلے ہوئے اطوار کو ظاہر کرنے کے لیے انتظار حسین نے تلمیحاً اسے استعمال کیا ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے بھی انھی معنوں میں لیا ہے۔ (28)
  4. سامراج کا پرانا ہتھکنڈا: (بستی صفحہ 127) حضرت نوح کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا سام تھا جس کی نسل میں سے سفید فام لوگ ہیں اور جو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے کمزور کو دباتے رہے ہیں۔ اسی نسبت سے انگریزوں کے دوسروں پر نظامِ حکومت کو سامراج کہتے ہیں، یہاں انھی کی سازشوں کو بطور تلمیح استعمال کیا گیا ہے۔
  5. رِشی مُنی، جنم بھومی: (بستی صفحہ 144) یہ اصطلاح ہندومت اور بدھ مت میں استعمال ہوتی ہے۔ مُنی اور رِشی ایسا شخص ہے جو روح میں اپنی توجہ مرکوز کرلے اور اپنی تمام تر دنیاوی اور مادی خواہشات کو ختم کردے۔ ناول بستی کے اس صفحہ پر یہی بیان ہوا ہے کہ کوئی اتنا عظیم انسان ہی بددعا دے گیا ہوگا جو مجھے اب میرا مقصد حاصل نہیں ہو رہا۔
  6. پرارتھنا استھان: (بستی صفحہ 144) پرارتھنا ہندی زبان میں عرض گزارنے، التجا کرنے اور دعا مانگنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جب کہ استھان مقدس مقام، جگہ، جائے مسکن، دیوتاوں کی متبرک جگہ وغیرہ کو کہتے ہیں۔ انتظار حسین یہاں سکول کی حالت اور اس کے معمول کی بات کرتے ہیں کہ جہاں طلبہ صبح سویرے پہنچ کر پہلے دعا پڑھتے ہوں گے اور بعدہ دیگر علوم۔
  7. گوتم بدھ: (بستی صفحہ159 ) گوتم بدھ جنھیں بدھا بھی کہا جاتا ہے، 500 سال قبل مسیح ایک شہزادے کی حیثیت سے پیدا ہوئے، کائنات پر غوروخوض کیا، ریاضت کی، عرفانِ ذات (بدھ) حاصل کیا اور بدھ مت مذہب کی بنیاد رکھی جو آج تک موجود ہے۔ ڈاکٹر حفیظ سید نے ان کی حیات پر ایک مکمل کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں: ـ انھیں معلوم ہوا کہ جیسے ان سے کوئی کہ رہا ہے کہ صرف صفائے باطن اور محبتِ خلق ہی میں فلاحِ ابدی کا راز مضمر ہے اور انسانی تکالیف سے چھٹکارا پانے کے یہی دونوں ذریعے ہیں۔ اسی نوری کیفیت اور ارتقا یا انکشاف کے بعد وہ بدھ یا روشن ضمیر کہلانے لگے ـ (29) ناول میں افضال بھی بدھ کی طرح ایک عالم کو تہ و بالا کرنے کا دعوٰی کرتا ہے جس کے لیے انتظار حسین نے یہ تلمیح استعمال کی۔
  8. چندن کا رج ہنس: (بستی صفحہ 159) کسی کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہو یا اس سے فائدہ حاصل کیا ہو اور اسی پر بُرا وقت آ جائے تو خود کی وفاداری کے طور پر صندل کے درخت پر رہنے والے ہنس کی تلمیح استعمال کی جاتی ہے جو صندل کے درخت کو آگ لگنے کی صورت میں بھی نہیں اڑا تھا۔

دل ہمارا گویا دلی شہر ہے: (بستی صفحہ 203)   دلی ہندوستان کا وہ شہر ہے کہ جب میر تقی میر سے لکھنئو والوں نے پوچھا تو ان کا شعری جواب ہماری شعری تاریخ بن گیا۔

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا                                 ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

دلی ایک بار نہیں بار بار تباہ ہوئی، کبھی نادر شاہ تو کبھی احمد شاہ کا نام آتا ہے لیکن اس تباہی کی تاریخ تو اس سے بھی پرانی ہے۔ آخر میں انگریزوں نے دلی کو لہو لہان ہی کر دیا۔ اس تاریخی تلمیح کو ناول بستی میں بھی کمال مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور عین اس موقعے پر کہ جسے دیکھ کر واقعی لاہور بھی دلی لگے اور ناول کے ہیرو کا دل بھی۔ بقول ڈاکٹر بشیر بدر

دل کی بستی پرانی دلی ہے                                جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے (30)

  1. جھانسی کا بولو رام ہو گیا، دلی کا زوال ، لکھنئو کی بساط الٹ چکی: (بستی صفحہ 205) یہ تینوں ریاستوں کا نوحہ ہے بلکہ برِ صغیر کا نوحہ ہے جب 1857 میں انگریزوں نے برِ صغیر پر مکمل قبضہ کرلیا۔ زوال ہونا، بساط الٹنا، رام ہونا تمام کنائے اور تلمیحات شکست ہی کا اشارہ دیتی ہیں۔ یہاں تو گویا انتظار حسین نے جنگِ آزادی ہند کے تمام نتائج کو یکجا کرکے بیان کر دیا ہو۔
  2. بانسری کی مدھر تان ٹوٹنا: (بستی صفحہ 233) ہندومت میں کرشن بھگوان کی بانسری سے ایک مدھر تان نکلتی تھی جو گویا امن اور خوشی کا ایک سماں باندھ دیتیی، چرند پرند اس تان پر ہمہ تن گوش ہو جاتے جیسے کسی نے ہر شے پر جادو کر دیا ہوجب کہ اس تان کا ٹوٹنا امن کے ٹوٹنے کا اشارہ ہے۔
  3. اوم شانتی: (بستی صفحہ 234) ہندو مت میں اوم شانتی کا مطلب ابدی امن یا ہمیشہ رہنے والا سکون ہے ، وہ امن جس میں ساری انسانیت شامل ہے۔ یہ مقام صرف تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے۔ انتظار حسین تہذیبِ ہند سے خود بھی واقف ہیں اور قاری کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

مخصوص تلمیحات  (جو ناول بستی کے حوالے سے وضع کی گئیں)

1.روپ نگر: روپ نگر وہ تلمیح ہے جسے انتظار حسین نے روح دے دی ہے۔ روپ نگر پورے ہندوستان کا ترجمان ہے، ہندوستانی تہذیب کا آئینہ دار ہے، ہندوستانی ثقافت کا عکس ہے جس کا ارتقا ہندوستان کا ارتقا ہے، جہاں کے مناظر اپنے اندر واقعات و سانحات کا پتا دیتے ہیں اور جس کے کردار انسانیت کے ہر پہلو کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ روپ نگر متحدہ معاشرے کا ایک روپ ہے۔ جہاں کہیں محبت پروان چڑھتی ہے تو کہیں جذبے۔ وہ روپ نگر طاون کے بعد تو سنبھل گیا مگر بعد از ہجرت ویسا نہ رہا۔ ذاکر کی ماں تو کہتی ہے کہ روپ نگر میں اب ہمارا کوئی نہیں رہا مگر ذاکر کا جواب یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہجرت اور تقسیم نے درد وہجر دیا ہے مگر میرا حق نہیں چھین سکا۔ وہ کہتا ہے۔ ـ خود روپ نگر تو ہے۔ ـ  (صفحہ 147)

  1. یادیں ؛ جنگل : انتظار حسین نے یادوں کے لیے جنگل کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔ جس کی اہم ترین مثال ملاحظہ کیجیے: ـ میں اندر سمٹتا جاتا ہوں۔ کب کب کی یادیں آ رہی ہیں۔ اگلے پچھلے قصے، بھولی بسری باتیں۔ یادیں ایک کے ساتھ دوسری، دوسری کے ساتھ تیسری الجھی ہوئی، جیسے آدمی جنگل میں چل رہا ہو۔ میری یادیں میرا جنگل ہیں۔ ـ (31)

یہ یادیں انتظار حسین کے لیے جائے پناہ اور باعثِ تسکین ہیں جن سے باہر نکلنا ان کے لیے آسان نہیں۔ درحقیقت وہ ماضی کے حسین اور پرکیف مناظر سے نکل کر تقسیمِ برِ صغیر اور پھر تقسیمِ پاکستان کے تلخ اور پرہول مناظر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔  ذاکر کی اسی کیفیت کے بارے میں کہتے ہیں: ـ جی، اس نے بدِقت جنگل سے واپس ہوتے ہوئے امی جان کو دیکھا جن کے چہرے پہ ہوائیں اڑ رہی تھیں اور آواز میں سخت گھبراہٹ تھی۔ ـ (32)

  1. شیراز: انتظار حسین کے نزدیک شیراز ان لوگوں کی جلسہ گاہ اور بیٹھک ہے جو عمل سے دور ہیں اور بڑی بڑی باتوں تک محدود ہیں۔ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ماسوائے لایعنی گفتگو کے کہ جس کا کچھ حاصل نہیں۔ یہی ہمائے وہ لوگ ہیں جن کے مزاج میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ یہ لوگ یا پھر ہم لوگ کسی خاص حکمتِ عملی کے بغیر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار، خود باتیں کرتے ہیں، انھیں خود ہی سنتے ہیں اور خود ہی جھوٹی امیدیں لگا کر بے عمل ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمار ا یہ المیہ آج سے نہیں بلکہ جنگِ آزادی کے بعد سے یا شاید اس سے بھی کچھ عرصہ پہلے کاہے۔ تبھی تو کہیں امریکا کے ساتویں بیڑے کا ہماری مدد کو آنے کا چرچا ہے تو کہیں ایرانی لشکر کے روانہ ہونے کی خبریں۔

4.بشارت:  (بستی صفحہ 252)  یہ تلمیح انتظار حسین کے یادگار ناول بستی کے آخری الفاظ ہیں : ـ یہ بشارت کا وقت ہے۔ ـ یہ تلمیح ایک تلخ حقیقت بھی ہے اور انتظار حسین کی طرف سے طعن بھی کہ ہم کبھی بشارتوں کے انتظار سے ہی نہیں نکل پائے، اگر نکل چکے ہوتے تو ہم اپنے تمام امور خود انجام دے رہے ہوتے اور بحسن و خوبی انجام دے رہے ہوتے۔ ہم مسائل کے حل کے لیے بھی انتظار کرتے ہیں اور جنگوں کو جیتنے کے لیے بھی انتظار۔ یہ انتظار جذبہ یا ہمت آنے کا نہیں بلکہ کسی دوسرے کا ہوتا ہے اور یہ بحیثیت قوم ہمارا المیہ ہے۔

انتظار حسین وہ ناول نگار ہیں کہ انھوں  نے تاریخیت کا حق ادا کردیا ہے۔ ناول بستی ان کے منفرد اسلوب کا ایک اہم ثبوت ہے۔   وہ کسی ایک خطہٗ ارض کے عکاس نہیں بلکہ برِ صغیر کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے ترجمان ہیں۔ انھوں نے اسلامی اور ہہندی تہذیب و ثقافت میں اشتراک بھی بیان کیا مگر اس طرح کہ دونوں اپنے اپنے قالب سے بھی باہر نہیں آئیں۔ رسم و رواج اور قدامت و جدیدیت کا ارتقائی نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ ڈالا۔ ہر منظر ، ہر فرد اور ہر تلمیح گویا ایک کہانی ہے۔ انھوں نے ہجرت کے بعد پھر سے وہی مشترکہ تہذیب، جس کے وہ عینی شاہد تھے، دیکھنی چاہی مگر مایوس ہوئے تبھی انھوں نے بیان کردہ تلمیحات اور کنایوں کی مدد سے ماضی میں سفر کیا کہ جس ماضی اور اس کی تہذیب کو جدیدیت نے پامال کردیا۔ناصر کاظمی کی یہ غزل انھی کے جذبات و احوالِ قلبی کی گویا عکاس ہے:

ترے   ملنے کو  بیکل  ہو گئے         ہیں                                 مگر    یہ    لوگ    پاگل    ہو   گئے   ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم                               وہ   گھر   سنسان   جنگل   ہو  گئے  ہیں

یہاں  تک   بڑھ  گئے   آلامِ   ہستی                              کہ  دل  کے  حوصلے  شل ہو  گئے   ہیں

کہاں  تک  تاب  لائے  ناتواں   دل                                  کہ  صدمے  اب  مسلسل ہو  گئے  ہیں

انھیں  صدیوں  نہ بھولے گا  زمانہ                                    یہاں  جو   حادثے  کل   ہو   گئے   ہیں

جنھیں ہم  دیکھ کر جیتے  تھے  ناصرؔ                                   وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں    (33)

کتابیات:

1۔ مولوی عبد الحق، اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری ،مطبوعہ  اردو انجمن پریس اورنگ آباد دکن ،1937،  صفحہ 130

2۔ مولوی فیروز الدین، فیروزاللغات، فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور، 1913، صفحہ 375

3۔ وحید الدین سلیم، افاداتِ سلیم، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1972، صفحہ 115

4۔ ایضاً صفحہ 117

5۔ ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی، اردو ادب میں تلمیحات، نظامی پریس لکھنئو، 1990، صفحہ 140

6۔ انتظار حسین، علامتوں کا زوال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1982، صفحہ 19

7۔ قرآن مجید، سورہ نمل نمبر 27 آیات 17 تا 44

8۔ شیخ محمد صدیق منشاوی (مترجم مولانا خالد محمود) ، ابوبکر صدیق کے سو قصے، بیت العلوم، لاہور 2071، صفحہ 50

9۔  انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 11

10۔ ایضاً

11۔ ایضا صفحہ 37

12۔  قرآن مجید، سورہ الجمعہ، آیت نمبر 8

13۔ قرآن مجید، سورہ النسا، آیت نمبر 78

14 ۔ انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 25

15۔ امیر خسرو، مثنوی مجنون و لیلٰی، مطبع انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ، 1917، صفحہ 9

16۔  صحيح البخاري – حدیث 4662  كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ

17۔ شریف احمد قریشی، کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر، دارالنور، لاہور، 2012، صفحہ 260

18۔ بلونت سنگھ، کالے کوس، نیا ادارہ، سویرا آرٹ پریس، لاہور، 1968، صفحہ 238

19۔ انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 142

20۔ اقبالؔ، کلیاتِ اقبال ( بالِ جبریل)، پرنٹ ایکسپرٹ لاہور، 2013، صفحہ 282

21۔ نور الحسن نیر، نور اللغات حصہ چہارم، نیر پریس، لکھنئو، 1927، صفحہ 760

22۔ جمال عبدالناصر، فلسفہ انقلاب (ترجمہ اسما رشید)، انجمن پریس ، کراچی، بار اول 1958، صفحہ 176

23۔ حاکم علی پیرزادہ، تذکرہ جلیل، رحانی کتب خانہ، دہلی، 1978، صفحہ 5

24۔ انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 224

25۔ سمراٹ ایس کمار، Vrindavan’s Encounter with Modernity، LIT, Verlag, Munster، 2019، صفحہ 51

26۔ اقبالؔ، کلیاتِ اقبال ( نگِ درا)، پرنٹ ایکسپرٹ لاہور، طبع یازدہم 2013، صفحہ 205

27۔ پَوَن کے۔ورما، The Book of Krishna، پینگوئن بکس انڈیا، دہلی، 2009، صفحہ 11

28۔  محمد حسن، ہندوستانی محاورے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 1999، صفحہ 15

29۔ ڈاکٹر م۔ حفیظ سید، گوتم بدھ ّ سوانح حیات و تعلیمات،  انجمن ترقی اردو ، دہلی، 1942، صفحہ 40

30۔ بشیر بدرؔ، آسمان، اسپیڈ پرنٹس، سعیدآباد، حیدرآباد، 1993، صفحہ 113

31۔ ۔  انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 12

32۔ ۔  انتظار حسین ، بستی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، 1982، صفحہ 55

33۔ ناصر کاظمی، ابرگِ نے، جمال پرنٹنگ پریس، دہلی، 1998، صفحہ نمبر 26

***

Leave a Reply