جاوید رسول
سری نگر، کشمیر
فاروق نازکی کی شاعری: ایک نئی قرات
کیا بارتھ نے مصنف کی موت کا نظریہ سارتر کے نظریئہ کمٹمنٹ کے رد کے طور پر پیش کیا تھا؟ بظاہر تو نہیں۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بارتھ ضرور سارتر کا حوالہ دیتا یا کمٹمنٹ کی وجودی منطق کا ہی ذکر چھیڑتا لیکن اس کی تحریر میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے، تو کیا اسے کمٹمنٹ کا رد نہ سمجھا جائے؟ظاہر ہے سارتر کی کمٹمنٹ ادیب کے سماجی منصب کا تعین کرتی ہے جبکہ بارتھ کا سارا زور مصنف کو نظام متن اور قاری کے دائرہ کار سے الگ کرنے پر صرف ہوا ہے۔مطلب صاف ہے، سارتر ادیب کو ذمہ دار سمجھتا ہے جبکہ بارتھ مصنف کو مکمل طور پر آزاد دیکھتا ہے۔گویا سارتر کے نظریئہ کمٹمنٹ پر براہ راست کوئ چوٹ نہ کرنے کے باوجود بارتھ کی تھیوری سارتر اور اس جیسے ان تمام نظریہ سازوں کی تردید کرتی ہے جو ادیب کو کسی بھی لحاظ سے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہو اگر فاروق نازکی صاحب کی شاعری کا تجزیہ سارتر اور بارتھ دونوں کی تھیوریز کے تناظر میں کیا جائے؟ ظاہر ہے یہ تجزیاتی عمل خاصا دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوگا۔جہاں سارتر کی تھیوری ہمیں فاروق نازکی صاحب کی کمٹمنٹ کا پتہ لگانے میں مدد کرسکتی ہے وہیں بارتھ کی تھیوری ہمیں ان کی شعری جمالیات کو نمایاں کرنے میں راہنما ثابت ہوسکتی ہے۔لیکن اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، میں سارتر کی کمٹمنٹ کے حوالے سے ایک اہم نکتہ کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔میں جانتا ہوں کہ سارتر شاعر کی بجائے نثر نگار کو Comitted (ذمہ دار) ٹھہراتا ہے۔اس لیے کیونکہ وہ فوری ترسیل اور وضاحت کو کمٹمنٹ کی بنیادی شرط گردانتا ہے۔لیکن بقول سارتر شاعری میں یہ سب ممکن نہیں کیونکہ شاعری اپنی ساخت میں استعاراتی اور علامتی ہونے کے سبب ابہام پیدا کرتی ہے جو کہ دراصل معنی کو پوشیدہ رکھنے کا عمل ہے، جبکہ نثر کا بنیادی مقصد ہی معنی کی ترسیل ہوتا ہے، لہذا سارتر کے نزدیک کمٹمنٹ صرف نثر نگار کے لیے مناسب ہے شاعر کے لیے نہیں۔مگر چونکہ اول تو ہم دونوں یعنی فاروق نازکی صاحب اور میں کشمیری ہیں،لہذا ان کی شعری لسانیات کے سیاق کو سمجھنا میرے لیے زیادہ دشوار گزار نہیں ہوگا۔ دوم، ان کا شعری اسلوب اور لفظیات اتنے بھی پیچیدہ نہیں کہ جدید شاعری کی طرح ترسیل کا کوئ مسئلہ پیش آئے، سوم، یہ کہ فاروق نازکی صاحب جس صورت حال میں گھرے ہوئے تھے اغلب ہے اس کے ردعمل میں انہوں نے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہوگا۔انہوں نے ہر غزل یا نظم محض تفنن طبع کے لیے تو نہیں کہی ہوگی بلکہ ایک خاص ذہن کو جھنجھوڑنا بھی ان کا مقصد رہا ہوگا.لہذا انہیں کمٹمنٹ کے دائرہ کار میں دیکھنا میرے خیال میں کوئ غیر منطقی عمل نہیں ہوگا بلکہ اس طرح ہم کم از کم اتنا تو پتہ لگا ہی سکتے ہیں کہ وہ کس حد تک کمٹڈ تھے۔
گوکہ فاروق نازکی صاحب علی الخصوص کسی تحریک، رجحان یا آئڈیلوجی کے پروردہ نہیں تھے لیکن کشمیر کے نمائندہ صحافتی اداروں سے پیشہ ورانہ تعلق کے سبب مقامی حالات، تاریخ اور تناظر پر ان کی نظر گہری تھی۔ان کی شاعری میں ردعمل کی جو نفسیات ملتی ہے اس میں تندی یا فقط بیزاری کی بجائے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا جو خفیف جوہر ہے، میں اسے مزاحمتی رویہ کا نام دیتا ہوں۔ ایسا اس لیے کہ نازکی صاحب میں بطور شاعر قوم کے تئیں کمٹمنٹ کا ایک شعور تھا جو ان کی بعض نظموں یا اشعار میں جھلکتا بھی ہے۔مثال کے طور پر ان کی نظم “اور میں چپ رہا” دیکھیے؛
میرے ہاتھوں سے میری چتا بن گئی
میرے کاندھوں پر میرا جنازہ اٹھا
نوک مژگاں سے قرطاس ایام پر
میرے خوں سے مرا نام لکھا گیا
اور میں چپ رہا
میرے بازار کوچے، مرے بام و در
میری نادانیوں سے سجائے گئے
میرے افکار، میری متاع ہنر
میری محرومیوں سے بسائے گئے
اور میں چپ رہا
میری تقدیر کا جو بھی خاکہ بنا
پہلے موسم کے پتوں پہ لکھا گیا
میری تصویر مجھ سے چھپائ گئی
مجھ کو نادیدہ خوابوں میں دیکھا گیا
اور میں چپ رہا
میرے الفاظ معنی کی تلوار سے
سربریدہ ہوئے گنگناتے رہے
میرے نغمے گداوں میں بانٹے گئے
برگذیدہ ہوئے گنگناتے رہے
اور میں چپ رہا
مجھ سے میری تمنا کے گل چھین کر
زرد موسم نے جشن بہاراں کیا
برف میرے نشیمن پہ آکے گری
دھوپ نکلی تو اس کو ہراساں کیا
اور میں چپ رہا
میرے سرسبز جنگل اجاڑے گئے
میری جھیلوں میں اجگر بسائے گئے
کوہ ماراں کی تقدیس لوٹی گئی
بےحسی کے مقابر سجائے گئے
اور میں چپ رہا
کون نہیں کہے گا کہ یہ نظم اپنی مجموعی ساخت میں جبر و استبداد کے خلاف کسی حساس ذہن کی مزاحمت ہے.وہ، جو کشمیر کی تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت رکھتا ہو، بلا شبہ اس نظم کے استعاروں سے رستا ہوا درد محسوس کرے گا۔مجھے یاد پڑتا ہے نوم چومسکی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ دانشوروں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سچ بولیں اور جھوٹ کو بےنقاب کریں۔کیونکہ بہرحال کسی بھی قوم کا صرف یہی ایک طبقہ ہوتا ہے جو ہر سیاسی کھیل کی بظاہر خوبصورت دکھنے والی تصویر کا دوسرا رخ دیکھ پاتا ہے، لہذا ان پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام ذہنوں کو کھیل کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ دیکھا جائے تو کشمیر کی ثقافت میں شاعری ہمیشہ سے دانشوارانہ قدر کے طور پر مانی جاتی رہی ہے اور نازکی صاحب کی شاعری اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ انہیں بعض اوقات اپنی قوم کے تئیں اسی احساس ذمہ داری نے چپ توڑنے پہ مجبور کیا ہے۔مذکورہ نظم کو ہی لیجیے، اپنے عہد کی مقامی صورت حال اور بدلتے ہوئے سیاسی اور کلچرل لینڈ اسکیپ پر نازکی صاحب کا یہ شاعرانہ ردعمل کیا ان کی کمٹمنٹ کو ظاہر نہیں کرتا ہے؟
اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ بارتھ کے نظریئہ متن کے تحت اس نظم کی دوسری قرات فریگمنٹڈ آرٹ کے زاویہ نگاہ سے بھی ہوسکتی ہے۔یہاں ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھا ہو کہ اگر بارتھ کے نظریئہ متن کے تحت قرات کرنی ہے تو پھر یہ فریگمنڈد آرٹ چہ معنی دارد؟ اس ضمن میں پہلے ہی بتا دینا چاہتا ہوں کہ بارتھ کی تھیوری قرات کے عمل کو ایک آزادانہ عمل مانتی ہے جس کے لیے کوئ صورت یا ضابطہ طے نہیں۔مثلاً خود بارتھ نے بالزاک کے حقیقت پسند ناولٹ سارازین (S/Z) کا تجزیہ پانچ مختلف زایوں سے کیا ہے جبکہ عموماً نقاد ایسے ناولوں کا تجزیہ محض کسی ایک زاویئہ نگاہ سے ہی کرتے ہیں۔یہ تو بہت بعد میں ہوا کہ افسانہ کفن کی دوسری، تیسری قرات ہوئ اور متعینہ معنی کو توڑ کر معنی شکنی کا سلسلہ چل پڑا ورنہ ہمارے یہاں تو پریم چند کے افسانوں کا نفسیاتی، علامتی یا ثقافتی تجزیہ آج بھی فعل مجہول سمجھا جاتا ہے۔لیکن بارتھ کی تھیوری ہمیں ہر متن کو کسی بھی زاویئہ نگاہ سے دیکھنے کی آزادی دیتی ہے۔یہ کوئ ضروری نہیں کہ متن ترقی پسند ہو تو آپ اسے بس سماجی تھیوری کے تناظر میں ہی دیکھیں بلکہ آپ کو بطور قاری یہ حق بھی حاصل ہے کہ آپ اس کا علامتی تجزیہ کریں۔پھر یہ قاری کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ متن میں کس قسم کے معنوی انسلاکات کو دیکھ پاتا ہے۔بحیثیت قاری جہاں تک میں نےمذکورہ نظم کو سمجھا ہے مجھے نظم کے مجموعی بیانیہ سے ہٹ کر بھی اس نظم کا ہر بند اپنے آپ میں ایک الگ اور مکمل مزاحمتی بیانیہ محسوس ہوا۔اب آپ پوچھیں گے کہ مزاحمتی ہی کیوں، رومانوی کیوں نہیں؟ تو اس ضمن میں میرا حاصل مطالعہ یہ رہا ہے کہ نظم میں عنوان جس جذبئہ اظہار کے تحت قائم ہوتا ہے وہی اول تا آخر نظم میں محسوس ہوتا ہے۔یعنی عنوان سے ہی نظم کی مجموعی نفسیات قائم ہوتی ہے۔مثلاً فاروق نازکی صاحب کی اس نظم کا عنوان ہے “اور میں چپ رہا”۔ اظہار کی سطح پر یہ ایک مزاحمتی رویہ ہے جو شروع سے آخر تک نظم میں برقرار ہے۔”چپ رہنے” میں جو اضطراری کیفیت ہے وہ کہیں پر بھی خوشی یا انبساط میں نہیں بدل جاتی۔ہرچندکہ موضوع کے اعتبار سے نظم کا ہر بند مختلف اور متضاد معنی پیدا کرسکتا ہے لیکن رویہ کے اعتبار سے ہر بند ایک سا ہوتا ہے۔ میں اسی کو نظم یعنی COHERENCE کے طور پر بھی دیکھتا ہوں۔شاید میری بات آپ سمجھ گئے ہوں گے۔اگر ایسا ہے تو چلیے اب نظم کی دوسری قرات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ نظم کا پہلا بند دیکھیے؛
میرے ہاتھوں سے میری چتا بن گئی
میرے کاندھوں پر میرا جنازہ اٹھا
نوک مژگاں سے قرطاس ایام پر
میرے خوں سے مرا نام لکھا گیا
اور میں چپ رہا
کیا یہ انسان کی بےحسی اور غلط انتخاب جیسے وجودی گناہ Existential Guilt کے کرب کا اظہار نہیں ہے؟ کیا یہ وجودی مزاحمت نہیں؟ بلکہ اس لحاظ سے تو یہ بند اپنے آپ میں ایک مکمل نظم ہے۔ظاہر ہے اپنے ہی کیے دھرے کی سزا پانا اگرچہ مقامی تناظر میں کشمیریوں کا اجتماعی گناہ ہوسکتا ہے، تاہم انفرادی سطح پر یہ ایک وجودی سچ بھی ہے کہ بہرحال انسان کی تشکیل اپنے ہی فیصلے اور انتخابی عمل سے ہوتی ہے۔پھر سارتر کے نزدیک انسان کا یہ انفرادی عمل بھی محض اس کی ذات تک ہی محدود ہوکر نہیں رہتا بلکہ اس کی ہوا انسان کے ذاتی دائرہ کار سے نکل کر اجتماعی دائرہ کار کو متاثر کرتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ سارتر یہ کہنے پہ مجبور ہوا کہ “انسان کو زندہ رہنے کی سزا دی گئ ہے” MAN IS CONDEMNED TO BE FREE۔ گویا انسان کا ہر وہ فیصلہ یا انتخاب جو اس کی ذاتی تشکیل کا باعث بنتا ہے دراصل اسے پوری انسانیت کی تشکیل کے لیے ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔کشمیریوں کی مثال سامنے کی ہے، تاریخ میں ایسا کئ مرتبہ ہوا ہے جب کسی ایک انسان کے انتخاب یا فیصلے سے اس قوم کی اجتماعی ساخت تشکیل پائ ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ یہ بند ہر اعتبار سے ایک مکمل وجودی بیانیہ ہے۔چاہے آپ اسے خالص سیاسی اعتبار سے دیکھیں یا وجودی تناظر میں، یہ بند ہر لحاظ سے معنی کی نئ اور منضبط صورتیں پیدا کرتا ہے۔
اب اسی طرح نظم کا دوسرا بند دیکھیے؛
میرے بازار کوچے، مرے بام و در
میری نادانیوں سے سجائے گئے
میرے افکار، میری متاع ہنر
میری محرومیوں سے بسائے گئے
اور میں چپ رہا
بھول جائیے کہ یہ کسی نظم کا بند ہے۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ جدید عہد کے میکانکی کلچر یا ہمارے عہد کی مصنوعی ذہانت کے خلاف ایک زندہ دل اور باشعور انسان کی مزاحمت ہے؟ جدید عہد کے انسان کا المیہ یہ تھا کہ وہ اپنی نادانیوں کے سبب اس حد تک صارفیت کا شکار ہو گیا تھا کہ اس کی حیثیت مشین کے پرزے کے جتنی رہ گئ تھی۔جبکہ مابعد جدید یعنی ہمارے عہد کے انسان کا المیہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔یہ ذہین اور ہنر مند ہونے کے باوجود خود کے ہی بنائے ہوئے مصنوعی کلچر کے آگے اتنا بےبس اور لاچار ہے کہ سب کچھ اسی کا ہوتے ہوئے بھی یہ تنہا اور محروم ہے۔
بارتھ کی متن اساس تھیوری کے اسی تناظر میں نظم کا تیسرا بند دیکھیے؛
میری تقدیر کا جو بھی خاکہ بنا
پہلے موسم کے پتوں پہ لکھا گیا
میری تصویر مجھ سے چھپائ گئ
مجھ کو نادیدہ خوابوں میں دیکھا گیا
اور میں چپ رہا
لفظ “تقدیر” اس بند کا مرکزی استعارہ ہے۔اسے جب نظم کی مجموعی ساخت کے تناظر میں پڑھتے ہیں تو شاعر کے مزاحمتی رویہ سے وہ سیاسی کھیل بے نقاب ہوجاتا ہے جو کشمیریوں کے مقدر کا خاکہ تیار کرنے میں ہمیشہ اساسی نوعیت کا رہا ہے۔لیکن جب اس بند کو نظم کی مجموعی ساخت سے الگ کر کے پڑھتے ہیں تو یہی لفظ “تقدیر” انسان کو بغیر اس کی خواہش، ارادے یا رضامندی کے دنیا میں پھینکے جانے کا اظہاریہ اور استفہامیہ بن جاتا ہے۔ضمناً عرض کردوں، انسانی وجود کے حوالے سے ہائڈیگر کے فلسفے کا یہ ایک اہم اور بنیادی پہلو رہا ہے۔وہ اسے “THROWNNESS” کہتا ہے جو اس خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کو دنیا میں “پھینک دیا گیا” ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان ایسی صورت حال میں گھرا پڑا ہے جو اس کی اپنی منتخب کردہ بھی نہیں ہے۔ظاہر ہے انسان کا یہ سوال ایک پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ ہے کہ اس سے دنیا میں آنے یا نہ آنے کے لیے کیوں نہیں پوچھا گیا اور کیا واقعی اسے یہاں پھینک دیا گیا ہے؟ زندگی کی بےمعنویت سے نبرد آزما انسان ساری عمر معنی کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور بالآخر ایک ہی لمحہ میں اس کی محنت،حسرت معنی، آرزوئے شوق اور نہ جانے کیا کیا کچھ موت کی نذر ہوجاتا ہے۔تو کیا وہ اتنا احمق ہے کہ محض مرنے کے لیے اس دنیا میں رہتا ہے؟یا اسے یہاں رہنے کی سزا دی گئ ہے؟ جو بھی ہو انسانی وجود کے لیے تقدیر ہر اعتبار سے ایک تیار کردہ خاکہ ہے جس کے خلاف مزاحمت انسان کے زندہ اور معتبر وجود (Authentic Being) ہونے کی دلیل ہے۔
اب نظم کاچوتھا بند بھی دیکھ لیجیے کیسے نظم کی مجموعی ساخت سے ہٹ کر ایک الگ معنوی جہت کو جنم دیتا ہے:
میرے الفاظ معنی کی تلوار سے
سربریدہ ہوئے گنگناتے رہے
میرے نغمے گداوں میں بانٹے گئے
برگذیدہ ہوئے گنگناتے رہے
اور میں چپ رہا
عجیب اتفاق ہے کہ ہم بارتھ کی جس تھیوری کو ہمیشہ دھتکارتے رہے ہیں وہی آج ہمارے ادب کے معنوی ابعاد کو روشن کرنے میں راہنما ثابت ہورہی ہے۔ہم میں سے اکثر لوگ آج بھی یہ سوچ کر بارتھ سے نالاں ہیں کہ اس نے تخلیق کار کو حاشیے پر دھکیل کر بڑا ظلم کیا۔لیکن ہم نے کبھی اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ بارتھ کے ایسا کرنے سے جس نقاد کی موت واقع ہوئ ہے وہ تخلیق اور تخلیق کار کے لیے کتنا ضرر رساں تھا۔متن کی کوئ ایک قدر متعین کرکے اسے دائرے میں قید کرنا ہمارے نقاد کی بنیادی کارگزاری ہوا کرتی تھی۔یہ ہمارے نزدیک ہوسکتا ہے کوئ بڑا ظلم نہ ہو لیکن وہ جو متن کو مکتفی بالذات مانتے ہیں ان کے نزدیک متن کی قدر متعین کرنا ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔ترقی پسند ادب کی مثال سامنے کی ہے، ہمارے نقادوں نے اسے احتجاجی یا انقلابی ادب کہہ کر اس میں موجود ان عناصر پر بھی خاک ڈال دی جن میں معنی کی آفاقی جہتیں پیدا کرنے کا جوہر موجود تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہ سارا ادب زنگ آلودہ ہوچکا ہے۔دیکھیے تو مذکورہ بند میں “معنی سے الفاظ کا سر کٹ جانا” نقاد کی اسی کرتوت کے خلاف مزاحمت ہے۔پھر نغموں کا گداوں میں بانٹا جانا اور برگذیدہ ہونا مزاحمتی رویہ کی مقبولیت کا اظہار ہے۔ میں یہاں اسے شاعرانہ تعلی سے تعبیر کروں گا۔
نظم کا پانچواں بند بھی فریگمنڈڈ آرٹ کی عمدہ مثال ہے؛
مجھ سے میری تمنا کے گل چھین کر
زرد موسم نے جشن بہاراں کیا
برف میرے نشیمن پہ آکے گری
دھوپ نکلی تو اس کو ہراساں کیا
اور میں چپ رہا
اس بند میں عجیب قسم کا شعری آہنگ اور تغزل ہے۔ذرا سا گنگنائیے تو محسوس ہوگا گویا کسی غزل کے اشعار ہیں۔یوں تو آہنگ اس پوری نظم کا خاصہ ہے لیکن اس بند میں لفظوں کا انتخاب اور نشست و برخواست کا عمل اتنا خوبصورت ہے کہ ہر لفظ اپنے آپ زبان پہ چڑھ جاتا ہے۔مگر یہ اس بند کے جمالیاتی نظام کی خوبصورتی ہے جس سے ذرا ہٹ کر اس بند کا معنیاتی نظام دیکھیے کتنا وسیع ہے۔جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی کہا تھا کہ یہ نظم اپنی مجموعی ساخت میں اس سیاسی کھیل کے خلاف مزاحمت ہے جو صدیوں سے کشمیریوں کے مقدر کا خاکہ بناتا رہا ہے، تو یہ نظم اس لحاظ سے معنی کی حامل تو ہے ہی لیکن منفرد حیثیت سے دیکھیے تو نظم کا یہ بند ایک اہم وجودی ڈسکورس کو جنم دیتا ہے۔”زرد موسم کا جشن بہاراں کرنا اور برف کے انجماد کو توڑنے والی دھوپ کو ہراساں کرنا” جہاں کشمیر میں موجود استعماری قوتوں کی سخت گیری اور جبریت کا مزاحمتی اظہاریہ ہے وہیں دوسری جانب یہ زندگی کی بےمعنویت، محدودیت اور نارسائ سے اکتائے ہوئے انسان کی بھی مزاحمت ہے۔گوکہ یہ مزاحمت شاعر ذاتی تجربات کی بنا پر زندگی کی کریہہ حقیقت کے خلاف کرتا ہے لہذا اسے ذاتی اظہار کہنے میں کوئ عیب نہیں۔بلکہ ایسی صورت میں زندگی ایک آفاقی/اجتماعی حقیقت کے طور پر شعر کا موضوع بن جاتی ہےجس سے عمومی سطح پر ہر قاری کوئ نہ کوئ مطابقت ازخود محسوس کرتا ہے۔مثلاً اسی بند کو لیجیے، یہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ہر انسان کا تجربہ ہوتا ہے کہ شکستگئ خواب سے دوچار ہونے پر پیدا والی بوریت کیسے انسان سے اس کی تمناوں کے گل چھین لیتی ہے، اس کے اندر ہر مثبت احساس یا امکان کو منجمد کردیتی ہے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو نظم کا یہ بند ایک حقیقی وجودی بیانیہ ہے۔
اب نظم کا چھٹا اور آخری بند دیکھیے؛
میرے سرسبز جنگل اجاڑے گئے
میری جھیلوں میں اجگر بسائے گئے
کوہ ماراں کی تقدیس لوٹی گئ
بےحسی کے مقابر سجائے گئے
اور میں چپ رہا
اس نظم کی اجتماعی ساخت کو تشکیل دینے میں اس بند کا رول بڑا اہم اور منطقی نوعیت کا ہے۔ظاہری ساخت میں تو اس بند کے معانی بالکل واضح ہیں۔”جنگل اجاڑنا” ، “جھیلوں میں اجگر بسانا”، “کوہ ماراں کی تقدیس کا پامال ہوجانا” اور اس سب سے بڑھ کر “بےحسی کے مقابر سجانا” تاریخی جبریت اور استعماری قوتوں کے سیاسی کھیل کی طرف واضح اشارے ہیں۔لیکن ان استعاروں کی تفہیم دوسری قرات میں کیسے بدل جاتی ہے وہ زیادہ حیران کن ہے۔ماحولیاتی تنقید پر اردو میں چند ایک برسوں سے کافی کچھ لکھا جارہا ہے۔ میر کی شاعری ہو یا حالی اور آزاد کی نیچرل شاعری، فطرت/نیچر کے حوالے سے ماحولیاتی تنقید کو بنیادی مواد یہیں سے فراہم ہوتا ہے۔لیکن نیچر پر جدید صنعتی اور صارفی کلچر کے بہیمانہ ظلم کے خلاف اگر ماحولیاتی تنقید کو مواد درکار ہوگا تو اردو میں یہ مواد نا کے برابر موجود ہے۔اس صورت میں مذکورہ بند کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔میں جب اس بند کے استعاراتی نظام پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس میں نیچر پر انسانی مظالم کے خلاف مزاحمت محسوس ہوتی ہے۔چونکہ کشمیر کے تناظر میں میرا یہ دعوی کسی دلیل کا ہرگز تابع نہیں ہوگا کیونکہ سربز جنگلوں کے اجڑنے میں اور جھیلوں کے آب حیات کو زہر آب بنانے میں ہم کشمیریوں کا رول کیا رہا ہے ہم اس سے بخوبی واقف ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آخری بند میں کوہ ماراں کی تقدیس کے لٹ جانے کا باعث بھی ہماری اپنی غفلت شعاری اور چپ رہنے کی عادت کو ٹھہرایا گیا ہے اور تاریخی اعتبار سے یہی سچ بھی ہے کہ کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی تقدس کو پامال کرنے میں ہماری اپنی بےحسی کارفرما تھی۔ہم نے صدیوں سے اپنے ماحول (نیچر) کی تقدیس کو پامال کیا اور ہمیں نے ہمیشہ خاموش رہ کر ظلم و جبر کو استحکام بخشا۔
ممکن ہے یہ دوسری قرات والا معاملہ کچھ لوگوں کو مضحکہ خیز بھی لگا ہو، کیونکہ بعض لوگوں کا تصورِ نظم آج بھی روایتی طرز کا ہے۔ایسے لوگوں کے نزدیک نظم میں منطقی ربط (COHERENCE) یہی ہوتا ہے کہ نظم میں سے کوئ ایک بند نکال دیجیے تو پوری نظم کا ڈھانچہ گر جائے گا۔اقبال کی نظموں میں ہوسکتا ہے ایسا ہو لیکن نئ نظم نے ہیت کے تجربوں سے بالخصوص فریگمنٹد آرٹ کے ذریعہ اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ ہو یا میراجی کی “سمندر کا بلاوا”، یا پھر راشد کی “حسن کوزہ گر”، ان نظموں میں سے اپنی پسند کا کوئ بھی بند نکال دیجیے اور دیکھیے نظم کا معنوی نظام تب بھی قائم رہ پاتا ہے کہ نہیں؟ غرضیکہ فریگمنٹڈ آرٹ کی یہی خوبی جدید نظم کو روایتی نظم سے مختلف اور زیادہ تہہ دار بنا دیتی ہے۔اس نقطئہ نظر سے فاروق نازکی صاحب کی مذکورہ نظم بھی جدید ہی کہلائے گی کیونکہ اس نظم سے اپنی پسند کا کوئ بھی بند اٹھائیے، نظم اس کے بغیر بھی مکمل اور منضبط محسوس ہوگی۔
بات اصل میں نازکی صاحب کی کمٹمنٹ کے حوالے سے ہورہی تھی۔ان کی ایک اور نظم ہے ” اور پھر یوں ہوا”۔یہ نظم بھی مزاحمتی رویہ کی حامل ہے۔لیکن یہ چونکہ ایک علامتی نظم ہے اس لیے اس میں کثرت معنی کے امکانات زیادہ ہیں۔نہیں معلوم نازکی صاحب نے یہ نظم کس تناظر میں لکھی تھی اور یہ کوئ ضروری بھی نہیں کہ نظم کا پس منظر جان کر ہی نظم کی قرات کی جائے۔یہ عیاں ہے کہ نظم مزاحمتی ہے اور بطور شاعر فاروق نازکی صاحب کی کمٹمنٹ کا جواز فراہم کرتی ہے۔لیکن پھر بھی نظم میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اس کی قرات کئ زاویوں سے کی جاسکتی ہے۔نظم پڑھیے:
ایک پھیلی ہوئی شاخ کاٹی گئی
پیڑ زخمی ہوا
پردہء خاک سے پردہء ساز تک
سرسراتی ہواؤں نے نوحے پڑھے
شاخ تا شاخ رونے کی آئی صدا
اور پھر یوں ہوا
شاخ کچھ روز میں اک عصا بن گئی
جس سے ریوڑ کو ہانکا گیا
پیڑ زخمی ہوا
پات گرنے لگے
پیڑ خالی ہوا
سایہ سایہ ہر اک سمت آئی صدا
اور پھر یوں ہوا
میرا اک ہاتھ کٹ کر زمین پہ گرا
میرا بچھڑا ہوا ہاتھ جلتی ہوئی ریت پر
پھڑ پھڑانے لگا
انگلیاں ہاتھ کی گنگنانے لگیں
حد سے بڑھتے ہوئے ہاتھ توڑے گئے
حد سے بڑھتی ہوئی شاخ کاٹی گئی
نظم کی مرکزی علامت وہ “پھیلی ہوئ شاخ” ہے جس کے کاٹے جانے سے نظم کا پورا بیانیہ یا پلاٹ تیار ہوا ہے۔لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ شاخ کس چیز کا علامتی اظہار ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے “شاخ” کو بطور علامت کشمیر کے تناظر میں دیکھنا ہوگا تاکہ معنی کی کوئ معقول صورت پیدا ہو۔میں جہاں تک نظم کی مجموعی ساخت کو سمجھ پایا ہوں، مجھے پیڑ میں کشمیر کی شبیہہ نظر آتی ہے اور “پھیلی ہوئ شاخ” میں کشمیر کی وہ خودمختاری جس سے کشمیر کی رونق تھی یا یوں کہیے کہ کشمیر اسی کے سہارے سانس لیتا تھا۔لیکن جونہی پیڑ سے یہ شاخ یعنی کشمیر سے اس کی خودمختاری چھین لی گئ اسے لاٹھی بنا کر ریوڑ کی طرح کشمیریوں کو ہانکا گیا۔یوں پیڑ (کشمیر) کے برگ و باد مرجھانے لگے اور پیڑ رفتہ رفتہ اپنی رونق کھو بیٹھا۔بالآخر جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچا تو ہزاروں لوگوں کے ہاتھ کاٹے گئے، بےگھری، یتیمی اور مہاجرت لوگوں کا مقدر بن گیا۔گویا یہ نظم نہ صرف کشمیریوں کے اجتماعی درد کی داستان ہے بلکہ یہ داستان رقم کرنے والی استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔اس طرح نازکی صاحب کی کمٹمنٹ کا وہ پہلو واضح ہوجاتا ہے جس پر سارتر یا چومسکی کی تھیوری آف کمٹمنٹ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔اب اگر بارتھ کی تھیوری کے تناظر میں نظم کی دوسری قرات کی جائے تو نظم پہلے سے مختلف ایک دوسرا مزاحمتی بیانیہ پیش کرتی ہے۔غور کیجیے تو نظم کی یہ دوسری قرات ماحولیاتی ڈسکورس میں زیادہ موثر اور معنی خیز معلوم ہوتی ہے۔کسی بھی پیڑ کی پھیلی ہوئ شاخ کا کاٹا جانا بظاہر ایک معمولی سا واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن دنیا میں اس وقت جس تیزرفتاری سے پیڑ پودے کاٹے جارہے ہیں، ظاہر ہے اس سے Bio Diversity کے اس فطری اعتدال کو خطرہ لاحق ہے جس پر دنیا کا حیاتیاتی نظام قائم ہے۔نظم کا یہ حصہ پڑھیے:
ایک پھیلی ہوئی شاخ کاٹی گئی
پیڑ زخمی ہوا
پردہء خاک سے پردہء ساز تک
سرسراتی ہواؤں نے نوحے پڑھے
شاخ تا شاخ رونے کی آئی صدا
اور پھر یوں ہوا
شاخ کچھ روز میں اک عصا بن گئی
جس سے ریوڑ کو ہانکا گیا
پیڑ زخمی ہوا
پات گرنے لگے
پیڑ خالی ہوا
سایہ سایہ ہر اک سمت آئی صدا
کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ پیڑ کی شاخ کاٹے جانے پر اس کے ارد گرد کا سارا موحول نوحہ پڑھ کر اسی طرح ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جس طرح ہم انسان دوسرے انسانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف کرتے ہیں۔پھر جس طرح کسی باپ سے اس کی اولاد چھن جانے سے اس کی ذہنی حالت متاثر ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح پیڑ پودوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔نظم میں اس حقیقت کو جس جذبہ کے تحت پیش کیا گیا ہے وہ ہوسکتا ہے سائنسی منطق کے مطابق نہ ہو لیکن دنیا کو اس وقت درپیش ماحولیاتی مسائل کا اظہاریہ ضرور ہے۔ظاہر ہے پیڑ کا زخمی ہونا اس قدر کربناک تھا کہ اس دکھ میں اس کے پات گرنے لگے اور وہ خالی ہوا یعنی مرجھا گیا۔اب یہاں سے انسانی ظلم کے خلاف ماحول کی مزاحمت کا آغاز ہوتا ہے۔”سایہ سایہ ہر اک سمت آئی صدا” یہ صدا کوئ معمولی صدا نہیں ہے بلکہ ایک چیخ ہے جس میں ماحول کی بےبسی اور لاچارگی کے علاوہ انسان کے تئیں غصہ کا بھی اظہار ہے۔بارتھ متن کے بین السطور یعنی وقفوں اور خالی جگہوں میں ایک جہان معنی دیکھتا ہے اور وہ قاری سے اسی جہان معنی کی دریافت کی امید رکھتا ہے۔
مجموعی حیثیت سے یہ دونوں نظمیں فاروق نازکی کی کمٹمنٹ کے علاوہ ان کے تخلیقی شعور کو ظاہر کرتی ہیں۔میرے خیال میں یہی مکمل شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور آس پاس کے ماحول پر دانشورانہ نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی شعور کا بھی حامل ہوتا ہے۔ورنہ شاعر اگر خیال کو برتنے کی تکنیک اور لفظوں کے انتخاب و استعمال سے واقف نہیں تو خیال چاہے کتنا ہی بڑا اور بلند کیوں نہ ہو وہ مکمل شاعر ہرگز نہیں کہلائے گا۔فاروق نازکی صاحب کو جو چیز مکمل شاعر بناتی ہے وہ یہی ہے کہ ان میں بیک وقت خیال کی بلندی اور اسے برتنے کا سلیقہ موجود ہے۔یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی کمٹمنٹ میں صرف فکرانگیزی ہی نہیں بلکہ تخلیقی مسرت کے عناصر بھی شامل ہیں جو قاری کو جمالیاتی حظ بہم پہنچاتے ہیں۔
***