You are currently viewing مرغوب اثرؔ فاطمی کی نظموں میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلو

مرغوب اثرؔ فاطمی کی نظموں میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلو

ڈاکٹر آزاد ایوب بٹ

گوسو،پلوامہ کشمیر،وہی بگ پلوامہ

مرغوب اثرؔ فاطمی کی نظموں میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلو

         شاعری انسان کے نازک ترین جذبات اور احساسات کا وہ خوبصورت اظہار ہے جو تہذیب انسان کے آغاز سے ہی اپنے وجود کا نقش ڈالتی آئی ہے۔ شاعری صرف انسانی زندگی کی پیچید گیوںکی ترجمانی ہی نہیں کرتی بلکہ زندگی کی تنقید بھی ہے ۔ اس اعتبار سے مرغوب اثر ؔفاطمی کے مجموعے کلام جیسے ’’منزل دشوار ‘‘(۲۰۱۲)،’’شجر سایہ دار‘‘ (۲۰۱۴)اور ’’خیمۂ بہار‘‘(۲۰۱۸) منظر عام پر آیئے ہیں۔ان مجموعوں میں سماجی ،معاشرتی اور سیاسی زندگی کے جو نقوش پیش کئے گئے ہیں ،اس میں مختلف رنگوں کی آمیزش اپنی جلوہ گری سے قاری کے ذہن کو حسرت و استعجاب میں ڈالتے ہیں ۔ مرغوب اثر ؔ فاطمی کی زندگی کے ساتھ کچھ عجیب حالات رہے ہیں ۔ وہ اپنی پوری زندگی پولیس جیسی غیر ادبی ملازمت کرتے رہے لیکن ساتھ ہی شعر وشاعری بھی کرتے رہے ۔شاعری کے سلسلے میں وہ اپنی ایک الگ رائے رکھتے ہیں ۔وہ ایک جگہ ’’اپنی بات میں لکھتے ہیں :

’’شاعروں کی زندگی میں خاندانی اور معاشرتی مسئلے سایہ دار درختوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔وہ نہ ہو تو شاعری بھی نہ ہو سکے ۔اس لحاظ سے شاعری بھی سایہ دار درخت ہے اور ہاں پھل دار بھی ہے۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کو جسمانی راحت اور روحانی غذا دونوں فراہم کرتی ہے ۔‘‘    ۱؎

         ایک بامقصد زندگی گزارنے والا شخص و شاعر کی شاعری میں ایک پیغام ہوتا ہے ۔ اسی طرح اثرؔفاطمی کی نظم نگاری بھی ایک باعمل اور بامقصد سماجی ، سیاسی اور معاشرتی پیغام سے مملو ہے ۔اثرؔفاطمی نے کئی ایسی نظمیں لکھی ہیں جہاں غور و فکر کا سلسلہ سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے ۔ اس رو سے ان کی بعض نظمیں متاثر کرتی ہیں ۔وہ اپنی نظموں میں کئی سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔مثلاًـ:

         اے بارش کی بوندوں ۔۔کہاں کہاں برسو گی              (بوندوں کا کرب)

         سوچتا ہوں کیا لکھوں ۔۔مسئلے مضامیں سب۔۔آگے بیبانوں میں        (درد کی مئے)

         تم خلاؤ ں میں جھانکتے کیا ہو ۔۔کوئی پیکر نظر نہ آئے گا ۔۔نامرادی ہی ہاتھ لگی ہے (تم خلاؤں جھانکتے کیاہو)

         سوالیہ شاعری شاعر کے یہاں بے چینی و بے قراری ظاہر کرتی ہے ۔ اس بے چینی و بے قراری کا تعلق اگر پورے نظام زندگی سے ہے تو اس کا دائرہ کافی وسیع ہوجاتا ہے ۔ ان کے اکثر نظموں میں یہ کیفیت نظر آتی ہیں ۔ان کی یہ چھوٹی چھوٹی کیفیات نہایت پُر اثر اور معنی خیز دکھائی دیتی ہے۔

         اثرؔ فاطمی کی پہلی نظم جس کا عنوان ’’بوندوں کا کرب ‘‘ہے ۔اس نظم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بارش کی بوندیں کتنے ہی اذیت ناک اور کرب انگیز مراحل سے گذرکر وجود میں آئی ہیں لیکن اُن کا تخلیقی ،تشکیلی اور تعمیری اضطراب کرب و اذیت کے احساس کو مندمل کردیتا ہے ۔مثلاً

         ’’کیوں بے چین ہو اتنی جیسے۔۔آگ فنا کی بدن کو جھلسے ۔۔

         نئے جوش اور نئے تیور سے ۔۔تم نے مردے زندہ کئے ہیں ‘‘۔

         یہاںنظم کے مجموعی معنوی تاثر غور و فکر کے در کھول دیتے ہیں ۔ ہم دھرتی والوں کہہ کر پوری سماجی آبادی کی غیرت کو للکار کر بیداری اور تخلیقی و تعمیری سرگرمیوں میں بارش کی بوندوں کی طرح کرب و اذیت جھیلنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش رجائی نکتہ نظر کی وجہ سے بھی بہترین قرار دی جاسکتی ہے ۔اثرؔ فاطمی کی دوسری نظمیں ’’درد کی مئے ‘‘،تم خلاؤ ں میں جھانکتے کیا ہو، ’’پردہ داری ‘‘، ’’پہچان کی جنگ ‘‘ وغیرہ بھی اچھی نظمیں ہیں جن میں سماج اور معاشرت کی بھر پور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

         مرغوب اثرؔکے کلام سے احساس ہوتا ہے کہ سماجی زندگی کے بدلتے ہوئے رنگوں کو اثر ؔ ایک مخصوص انداز سے دیکھتے ہیں ۔ اس میں ماضی کا کرب ، حال کا درد اور مستقبل کا حسین ترین خواب بھی نظر آتا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی نظمیں ’’یادوں کی اذیت ‘‘اور میں سب کچھ بھلاؤ ں گا ‘‘قابل ذکر ہیں ۔ان میں ماضی کی کھوئی ہوئی قدروں کا محض نوحہ ہی نہیں بلکہ شاعر کی اس سے وابستگی اور ہمدردی کی گھٹی ہوئی چیخ بن کر بھی اُبھرتی ہے ۔تاہم زندگی کی بدلتی ہوئی صورت سے خوف زدہ بھی نہیں ہیں ۔ وہ زندگی کی ہر خوشگوار تبدیلی کو تہے دل سے قبول کرتے ہیں ۔ ان کی ایک نظم ’’پہچان کی جنگ ‘‘ میں وہ جہاں مردوں کو حاکمیت والے سماج کے چہرے سے نقاب اُٹھاتے ہوئے عورتوں کی اذیت ناک زندگی کی تصویر پیش کرتے ہیں اور سماج میں ان کے مساوی حقوق پر اصرار کرتے ہیں ۔وہیں نظم ’’تم خلاؤ ں میں جھانکتے کیا ہو ؟‘‘ اور’’بے آواز چیخ ‘‘ قاری کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا کر دیتے ہیں جن سے عصری سماج بیگانہ نظر آتا ہے ۔عصری سماج کے فروغ کی راہ میں آج بیگانگی کی یہی کیفیت حائل ہے لیکن اثرؔفاطمی کے یہاں فکر کی یہ لہریں شعری جامہ پہن کر جب جذبات کے تاروں کو چھڑدیتی ہیں تو انسانی ذ ہن بے چین ہو اُٹھتا ہے ۔نظم ’’تم خلاؤں میں جھانکتے کیا ہو کا بند دیکھئے:

                  ان خلاؤں میں روشنی ہے مگر

                  ضوفشاں ایک دائرہ لیکن

                  حاشئے پر بہت ہے کالا پن

                   اک ذرا چوک !پھر تباہی ہے

                  وہ سیاہی انا تمہاری ہے

                  سر بلندی سے سرنگونی خوب

                  تمہارے اندر جو ہے چھپا ہم زاد

                  احتساب اس کا اب ضروری ہے

                  تم خلاؤں میں جھانکتے کیا ہو؟  ۲؎

         نظم ’’بے آواز چیخ ‘‘میں عصری انسان کی گھٹن کرب اور بے بسی کی تصویر کشی جس شدت سے کی گئی ہے ، اس میں ہمیں سماجی اور معاشرتی پہلو کی بھر پور عکاسی ملتی ہے ۔ مثلاً

         بول اُٹھیں گے یہ ہوتا ہے گماں

         پتھروں میں قوت احساس ہے

         اتنا سب کچھ بھول کر بھی

         زور سے چیخ اُ ٹھتے کیوں نہیں؟

         درد اتنا اور زبان خاموش ہو !

         پتھروں کا ہی کلیجاچاہیے

         اثرؔفاطمی کی نظموں میں بھوک ، جنس کی ترغیب ، گاؤں کی زندگی ، زندگی کے مسائل ، سماجی مسائل ، عالم کاری ، رواداری ، سائنسی تصورات وغیرہ موضوعات کا ایسا کینواس ہے جو ایک جہاں کو متوجہ کرتا ہے ۔

         نظم ’’مقابلے اور اندیشے ‘‘میں اثرؔفاطمی آنے والی نسلوں کے مسائل کو لے کر کافی فکر مند ہے ۔ والدین کی فقط ایک طرفہ سوچ اور محدود نظر کا انہیں ملال اور دکھ ہوتا ہے ۔وہ اپنے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما کو نظر انداز کر کے بس دوڑ میں آگے آنے ہی کو ترجیح دے رہے ہیں اور اسی کو سماجی زندگی کی کامیابی سمجھ رہے ہیں ۔نظم کی چند سطریں مالاحظہ کیجئے :

                  ’’آنے والی نسل کی محدود راہ

                  ان مسائل ہیںپر چپ چپ ہے والدین

                  فخر کرنے ہی کو بس ترجیح ہے

                  ہے ’’نتیجوں ‘‘کا ہی چرچا رات دن

                  اس پہ مستزاد صوفی صد کی ضد ۳؎

         لاوارث ،آوارہ ، خونخوار اور خارش زدہ کتوں سے انسانوں اور پالتوں جانوروں کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے ۔ نقض امن اور حفظان صحت کے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔انہیں انتظامیہ پکڑ کر گاؤں یا شہر کی سر حد کے باہر محفوظ پناہ گاہوں میں چھوڑ دیتی ہے ۔یہاں شاعر کی درد کو محسوس کیجئے کہ ایک لاوارث خستہ حال بیمار بوڑھا گندی نالی کے قریب اپنے دردوں کو سمیٹے بے سدھ پڑا ہے ۔اس کا درد کون سمجھے ؟ اس کی بھوک وپیاس کا انتظام کون کرے ؟ایسے لوگوں کو محفوظ چھت کون فراہم کرے؟اس نظم ’’پناہ گاہ‘‘ کی آخری تین سطروں کا کرب بھی ایک ’’پناہ گاہ‘‘ کا متلاشی ہے:

                  ’’پوچھتی ہیں بوڑھی آنکھیں یہ سوال

                  اس طرح کا بر محل

                  کیا ہمارا بھی ہے کوئی انتظام ؟  ۴؎

         ان کی اور ایک نظم ’’ٹیگور فہمی ‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور کو خراج عقیدت پیش کرنے والی نظم ہے ۔ اسی طرح نظم ’’ملال ہی ملال ‘‘ امن کے لئے نوبل انعام پانے والی ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا کہ اپنے نغموں کے ذریعے جوش و ولولہ پیدا کرنے والی پشتون شاعرہ’ ملالہ میوندی ‘ کی طرح ملالہ یوسف زئی نے بھی :

                  ’’تونے بستے سے روشنی بانٹی

                  روشنی کیا ہے زندگی بانٹی

                  درسگاہوں سے دور نسلوں کا

                  رُخ کیا تونے آگہی کی طرف

                  نام تیرا ’’ملالہ یوسف زئی‘‘            ۵؎

         ’’وعدوں کا گلدستہ ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک بہترین نظم اثرؔفاطمی نے لکھی ہے ۔اس میں انسانی زندگی کے کشمکش اور مختلف پہلوؤں کو پیش کرتے ہوئے شاعر نے کئی گوشوں سے پردہ اُٹھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ۔ان کے اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

         وہ گئی بن کے ایک فریادی

         کاسئہِ عجزو التجا لے کر

         اب وہ ایوان حل و عقد میں تھی

          مسند آرا تھیں صورتیں دو دو

         اک پہ جمہوریت تھی تخت نشیں

         خندہ زن دوسری پہ تھی سرکار

         اس کی ہی جنس کی وہ دونوں تھیں

         نظم ’’بیٹی ‘‘جس سے اللہ کے رسولﷺ نے رحمت کی علامت قرار دیا ہے ۔جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے وہاں اللہ کی رحمت برستی ہے ۔وہ کہتے ہیں بیٹی وہ دولت ہے جو چاند سے اترتی ہے ۔اس کی خوشبوں سے گھر جنت بن جاتا ہے۔وہ اپنے والدین پر کبھی اپنے شوہر پر ،کبھی اولاد پر جان تک نثار کرنے کو تیار رہتی ہیں ۔ شاعر نے اپنے احساسات کو اس طرح نظم کیا ہے :

          بیٹی تو چاند سے اترتی ہے

         ساری خنکی سمیٹ لاتی ہے

         نرمی و خوش روی کے جھونکوں سے

         حجر بھی موسم ہوتا جاتا ہے

         کوی پازیب سی چھنکتی ہے

         جب وہ خوش ہو کے مسکراتی ہے

         بیٹی تو بادلوں پہ چلتی ہے

         بیٹی تو خوشبوئیں اُڑاتی ہے

         نقش کہنہ میں رنگ بھرتی ہے

         نسلِ آدم کی آفرینش میں

         اپنی جاں تک نثار کرتی ہے

         ’’ضیائے الماس ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک اہم نظم ہے جس میں زمانے کی تبدیلوں کا تذکرہ بڑے ہی خوبصورت انداز میں شاعر نے کیا ہے ۔ زمانہ گزر جاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوجایا کرتی ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

                  ’’وقت کی پسپایوں سے

                   یہ زمانی کھنڈرات

                  ذہن میں تشکیل دیتے ہیں

                  کئی پیکر عجیب

                  رونما ہوئی ہے اس دم

                  بازگشت باقیات

                  اونگھتی ملتی ہے اس میں

                  سابقہ شائستگی ۔دیمک زدہ             ۶؎

         مرغوب اثرؔ فاطمی نے ’’نو نہال وقت ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے ۔ اس میں بچوں کی مناسبت سے کئی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں ۔بچوں کی معصومیت کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ ملک کی ترقی اور تنزلی کے ابواب کو بچوں کی نظر سے پڑھنے کی ایک کامیاب کو شش شاعر نے کی ہے ۔ بچوں سے شاعر بہت ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ بچے کسی بھی ملک کے مستقبل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

                  ’’میرے معصوم تو ہے کیوں حیراں ؟

                  تیرے ہنسنے کے کھیلنے کے دن

                  دانت تیرے ابھی نہیں نکلے

                  اور اُگنے ابھی ہیں بارہ ہاتھ

                  تو نمودار ہوگیا بروقت

                  تجھ سے لاکھوں امیدیں وابستہ ۷؎

         ’’ترانہ جمہوریہ‘‘ کے نام اثرؔفاطمی نے ایک عمدہ نظم قلم بند کی ہے ۔ اس میں اسلاف کی کوششوں سے ملنے والی آزادی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔شاعر کہتے ہیں کہ لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد آج ہم نے یہ آزادی پائی ہے جس کے سبب ہم آرام اور سکون کے ساتھ رہ کر اس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان خیالات اور احساسات کی ترجمانی اثرؔفاطمی چند اشعار میں یوں کرتے ہیں :

         وقت گزرا ہے کہ ہم بھی تھے غلام

         کاوش ِاسلاف آخر آئی کام

          رہتے کب تک نامراد و تشنہ کام

         پی رہے ہیں آج آزادی کے جام

         ’’منزل‘‘ کے عنوان سے بھی ایک دلکش نظم تحریر کی ہے ۔ہر شخص کسی نہ کسی منزل کی تلاش میں ہوتا ہے ۔کسی کو منزل بڑی آسانی سے مل جاتی ہے ،کسی کو منزل حاصل کرنے کے لئے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس ضمن میں شاعر کے خیالات ملاحظہ کریں:

         کبھی قدم سے لپٹ کر نثار ہوتی ہے

         کبھی نگاہ سے اوجھل حسین پردے میں

         کسی عروس کی مانند مسکراتی ہے

         کسی بھی رستے پہ چپ چاپ بیٹھ جاتی ہے

         راہ رو کے تھکے سے قدموں کی

         پاکے آہٹ سمٹ سی جاتی ہے

         راہ کی ٹھوکروں کے ہنسنے پر

         شادمانونی کے گیت گاتی ہے

         اثرؔفاطمی کے یہاں سماجی عنصر اور فکر بڑی شدت سے موجود ہے ۔ دور حاضر کی زبوں حالی اس سے قبل ویسی نہ تھی جیسی کہ آج ہے ۔ ان داخلی کیفیات کا معاملہ یوں ہو چلا ہے کہ انسان کا اندرون بھی اب دو حصوں میں منقسم لگتا ہے ۔ اثرؔفاطمی اس فکر سے شدید متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ ناامید نہیں لیکن حق سے لاعلم بھی نہیں ۔ایمائیت سے پُر غالبؔ کے مصرعہ سے اپنی نظم ’’ہے خبر گرم ‘‘ کا عنوان حاصل کر کے زمانے کی حقیقت کو آشکاری کی شکل دیتے ہوئے کہتے ہیں :

         ہے خبر گرم اس کے آنے کی

         دیوقامت ، سیہ ،قوی ہیکل

         نکلا ہے اک خبیث بوتل سے

         جو بظاہر نظر نہیں آتا

         اس کی صدہا ہزار ٹانگیں ہیں

         پھیلتی ہیں دبوچ لیتی ہیں

          وہ بہ آہستگی پکڑتا ہے

         سبز باغوں کی سیر کروا کر

         لا ٹپکتا ہے اند ھے کویں میں

         جس کو چھوتا ہے ہوش لیتا ہے

         جب زمانہ خراب ہوجائے تو کس سے امید پیدا کی جائے ۔اثرؔفاطمی کے یہاں دور حاضر کی یہ تصویر بھی موجود ہے نظم ’’سروں کے مینار ‘‘ میں کہتے ہیں:

         اس کو بس ایک دھن سمائی تھی

         مجھ پہ الزام کوئی دھرنے کی

         یعنی تذلیل میری کرنے کی

         بے گناہی سے کیا غرض اس کو

         طئے تھی تعزیر جرم سے پہلے

         اثرؔ کے یہاں امید کی لو جلتی ہے۔ وہ نصیحت کا عنصر لانے کی خاطر ان تمام باتوں کا ذکر کرنے سے گریز نہیں کرتے جو اشخاص زمانہ کو نئی راہیں دینے میں معاون و مدد گار ہوسکتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہم گنگا جمنی تہذیب کے پرستار ہوں کہ نہ ہو لیکن اسے کیا کیجئے ہمارا تعلق اسی سر زمین سے ہیں۔ اسے گر تاریخ کی روشنی میں قبول کرتے ہوئے اسلاف سے کچھ استفادہ اُٹھائیں تو دونوں اقوام کی راہیں آسان ہوں گی۔ نظم ’’خواب پھرتے ہیں دن میں آوارہ ‘‘ کے بند کو ملاحظہ کیجئے:

         روز کی چپکلش سے تنگ آکر

         خار سے دوستی ہوئی گل کی

         زندہ تہذیبیں خلط ملط ہوئیں

         لینا دینا ہوا رواجوں کا

         چاشنی بانٹ لی زبانوں نے

         پیدا ہوتے گئے نئے افکار

         نوک پر انگلیوں کے آچمکے

         راز ہائے حدِ زمان و مکان

         اثرؔفاطمی کی دوسری باقی نظموں میں ’’آدمی سگ صفات کیوں نہیں ہوتا ؟ ، آڑی ترچھی لکیریں ،حسرت خوش رنگ ،عید بندگی میں ہے اور کارجہاں جاری ہے، فراغت ، سہرا ، ہوا جاتا ہے ویراں صحن گلشن ، خواب سکون بخش ، عزم کے رنگ،دانشواری ، ان کی جادوگری میں کیا شک ہے ، خواب کی تعمیر بھی کیسی ہوئی ، چھوٹا سا فیصلہ ، زندگی نظم ہے ، ذوق تعمیر سے ، زندہ ہیں پر شرمندہ ہیں ، الوداعی تاثرات کا قبلہ تعریف ،وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔ان نظموں سے اثرؔ فاطمی کی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی پہلو کی بہترین تصویر قارئین کے ذہن میںاُجاگر ہوجاتی ہیں۔ڈاکٹر نورالصباح ان کی نظموں کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ان کی نظمیں سادہ صاف اور دلپذیر ہوئی ہیں ۔ ان میں ابہام کے لئے کوئی راہ نہیں ہوتی ۔ وہ اس بات سے بھی نالاں ہیں کہ موجودہ عہدہ کی انسانی دنیا سائنسی عہد میں سانسیں لے رہی ہے ۔ خلاؤں میں محو پرواز ہے ۔ مگر اس دنیا میں بھی خودکردہ پیر عام ہیں اور پیری مریدی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔‘‘   ۸؎

         مرغوب اثرؔفاطمی کی نظموں میں سماج کا دُکھ درد ایک جانی پہچانی کسک کے ساتھ موجود ہے ۔یہ ان کی زندگی کا سرمایۂ حیات ہے ۔ یہ غم زندگی برائے عبرت بھی ہے اور برائے درس بھی ۔یہ ایسے سوالوں کے جواب کے ساتھ ان کے حل کا متلاشی بھی ہے۔آپ کی نظموں کی توانائی میں ایک اعتدال اور اعتماد ہے ۔آپ کے تجربات آپ کی اپنی زندگی اور اس کے قرب و جوار کے شاہد ہیں۔

         مرغوب اثرؔفاطمی کی نظمیں کسی فلسفۂ حیات کی عکاسی نہیں ہیں لیکن جدجہد سماجی زندگانی کی بنیادی علامتوں سے علاقہ ضرور رکھتی ہے ۔ان کے موضوعات ہمارے اطراف کی دنیا کے چھوٹے بڑے مسائل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ماضی کی مثبت قدروں کا زوال ،توہم پرستی ، جنسی جبر و استحصال ، جنس کے پاکیزہ رشتوں کا احترام ،گاؤں اور اس کے مٹی کی جو شبو، جڑوں کی تلاش ، فکری بے حسی ، نظریاتی خلا،سیاسی کج روی وغیرہ ان کے نظموں کے موضوعات بنتے ہیںجن میں حقیقت کی تصویر جھلکتی ہے اور قاری کے شعور کو تحریک دیتی ہے۔اثرؔفاطمی ذاتی درد و غم کی جگہ کائنات کے کرب کو اہمیت دیتے ہیں۔

                                  حواشی

۱؎        مرغوب اثرؔفاطمی ،’’شجر سایہ دار ‘‘،ناشر،عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۴؁ء ص۔۱۳

۲؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’شجر سایہ دار ‘‘،نظم،’’تم خلاؤں میں جھانکتے کیا ہو‘‘ ناشر،عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۴؁ء ص۔۲۱

۳؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’شجر سایہ دار ‘‘، نظم،’’مقابلے اور اندیشے‘‘،  ناشر،عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۴؁ء ص۔۱۹

۴؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’شجر سایہ دار ‘‘، نظم،’’ پناہ گاہ‘‘، ناشر،عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۴؁ء ص۔۲۸

۵؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’شجر سایہ دار ‘‘، نظم’’ملال ہی ملال‘‘،  ناشر،عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۴؁ء ص۔۵۳

۶؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’خیمۂ بہار ‘‘، نظم ’ ’ضیائے الماس‘‘، ص۔۲۰

۷؎       مرغوب اثرؔفاطمی ،’’خیمۂ بہار ‘‘، نظم’’نونہال وقت‘‘، ص۔۲۲

۸؎       کتابی سلسلہ ،’’پنج آب‘‘،ناشر ،مالیر کوئلہ ،ص۔۱۲۲

***

Leave a Reply