ڈاکٹر شیخ ریحانہ بیگم
اسسٹنٹ پروفیسر
ڈ اکٹر رفیق زکریا سینٹر فار ہایر لرننگ اینڈ ایڈوانسڈریسرچ ،روضہ باغ اورنگ آباد
ولاس یاترا:نسائی کرداروں کا رزمیہ
ہندوستان کی قدیم ترین شاعری ،رامائن،مہابھارت،پران ہیں( جو سنسکرت زبان سے دیگر ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے) ، اساطیری شاعری میں شامل ہیں، ان کے کردار ہندومت کے بھگوان اور دیو ہیں۔ان کرداروں کا اثر ادب کی مختلف اصناف میں موجود ہے۔ ہندی زبان کی سب سے پہلی اساطیری شاعری تلسی داس کی ’’رام چرتر مانس ‘‘ ہے جو رامائن کی طرز پر لکھی گئی۔یہ اساطیری کہانیاں بر صغیر کے انسانی ارتقاء کی تاریخ ہے۔اساطیرادب و فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں پر اثر انداز ہوئی اور ان کی ترقی و ترویج میںمعاون و مددگار ثابت ہوئیں۔عالمی ادب کی عمدہ تخلیقات بھی اساطیری استعمال سے مملو ہے ۔ مولانا روم ،شیکسپیئرؔ،کبیرؔ ،گیٹےؔ،غالبؔ،اقباؔل وغیرہ بڑے فن کاروں نے یونانی ،رومن، مصری، چینی لاطینی، ہندوستانی اساطیر کو اپنی شاعری میںبرتا۔غرض کہ مختلف تہذیبوں سے ماخوذ اساطیر گویا نثر ہو یا نظم ، سنگتراشی ہو یا مصوری وغیرہ کسی نہ کسی شکل میں موجو دہیں۔ ان اساطیر کی جڑیں لوک کہانیوں میں موجود ہیں اساطیر کے استعمال کی چند مثالیں فردوسی ؔکا ’’شاہنامہ‘‘، مہابھارت کی لوک کہانیاں اور اقباؔل کا’’ جاوید نامہ‘‘ وغیرہ ہیں۔علاء الدین اور اس کا چراغ ،علی بابا اور چالیس چور، شراون کمار،سندبادجہازی،آبِ حیات،لیلیٰ مجنوں،ہیر رانجھا،سوہنی مہیوال،شیریں فرہاد اور بیسیوں کہانیاں مختلف زبانوں میں لکھی گئیںان میں سے چند اساطیر ہیںاور چند قصے کہانیاں۔لوک کہانیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں myth (اساطیر)خاموش اور متحرک روایت جس کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا کیوں کہ اساطیری کردار انسانی لاشعور کی گہرائیوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔برہما، وشنو، پاروتی ،درگا ، لکشمی،اگنی،سرسوتی۔۔۔۔دیوی دیوتائوں اور رشی منیوں کے سینکڑوں کردار ہیں۔ان میں ہر کردار علامتی حیثیت رکھتا ہےتصور کی کسی قدر کا،کسی جبلت کا۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قومی اساطیرقوم کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہوتے ہیں ، دیومالائی داستانیں،ذات کےعرفان کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔جدید افسانہ نگاروں اور شعراء نے اساطیر ودیومالائوں، آسمانی صحائف ،صوفیہ کہ ملفوظات،مقدس شخصیات ،تاریخی واقعات و روایات کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔افسانہ نگاروں میں انتظارؔ ؔحسین،سریندر ؔپرکاش،جوگیندر پاؔل،سلام بن رزاق وغیرہ کے نام ہیں۔اسی طرح شعراء کی فہرست میں میراؔجی اور ن۔م۔راؔشد کے بعد جدید تر شعراء میں محمدعلویؔ،شہر یاؔر ،عمیق ؔحنفی،کمارپاؔشی،عادلؔ منصوری، نداؔ فاضلی، قاضی سلیمؔ،مخمور ؔسعیدی، وحید اخترؔ،زبیرؔ رضوی،امیر آغاؔ قزلباش جیسے شعراء نے آج کے شکستہ سماجی اقدار ، جبلت اور اس کے تقاضے ،حیوانی اور روحانی جبلتوں کا تضاد ، جنس کے حوالے سے شعور اور جبلت کی کشمکش کو اسطوری اوردیومالائی کہانیوں کے حوالے سے بیان کرنے کے نئے تجربے کئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کمار پاشی نے انہی جبلتوں کے تصرف سے اپنے شعری بیانیے کی تشکیل کیوںکر کی۔اس سوال کا جواب ہمیں جدید معاشرے کی الجھنوں ،محرومیوں ،احساس زیاں اور ذات کی گم گشتگی میں تلاش کرنا ہوگا ۔اس ذات کی تلاش جسے تہذیب و تمدن نے بیسویں صدی تک مادی و معاشرتی ترقی کے نقطہ ٔ عروج تک پہنچا دیا تھا لیکن یہ وہ ذات بھی ہے جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی اگر فرائڈ نے تقسیم ذات کے اس نوحے کو شعور ،لاشعور،تحت الشعور ego,id کے حوالے سے بیان کیا توجدید ترین نقادوں نے orpheus کی اساطیری علامت کے توسط سے شیرازۂ ذات سے موسوم کیا۔اس بکھرائو کی بنیادی وجہ دونوں جنگوں کی ہولناکیوں،انسانی درندگی اور تشدد اور اقتدار و ملوکیت کی حرص و طمع ہے ۔اسی لئے شاید پکاسو نے اپنی تصاویر ٹکڑوں میں بنائی یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی تصویریں انسانی اعضاء کے بکھرائوکی علامتی عکاسی ہے۔پھر نازی اور فسطائی قوتوں کا عروج،انسان کی تمام روایتی قدروں پر ضرب کی طرح پڑا۔جنگ کی ہولناکیوں نے 1950 ءکے بعدکی نسل کو انسانی قدروں، عقیدے،مذہب ، اخلاقی روایات اورمعاشرتی نظام کی سالمیت کے تعلق سے شک و شبہ میں مبتلا کردیا۔مذہب ، نظریہ،مکاتب فکر،اخلاقی اور روحانی قدریں ایسے عظیم بیانیے شمار کئے گئے جن کی معاشرتی و تہذیبی معنویت سرے سے کالعدم قرار دے دی گئی۔ان حالات میں ایک متبادل نظام معنی کی تلاش سعی بے سود اور رائیگاں قرار پائی۔نتیجتاً جدید ترین شعرا ء نے قدیم تہذیبوں،لوک کہانیوں،داستانوں کی بازیافت شروع کردی۔کمارؔ پاشی،فضیل ؔجعفری، عزیزؔ قیسی،بلراج کوملؔ،عمیق ؔحنفی اور قاضی سلیمؔ جیسے شعراء مختلف النوع اساطیر کا سہارا لیتے ہیں۔کچھ افسانہ نگاروں اور شاعروں کے پاس ان حوالوں کی باز گوئی ملتی ہے اورکچھ نے ان میں ردو بدل اور تحریف کے ذریعہ اپنا مدعا بیان کیا ہے اور نتیجتاً معنی کی نئی جہتیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔اساطیر کی بازیافت کی کچھ مثالیں صلصلۃ الجرس ، سند باد،ولاس یاترا، شہر یار، ایودھیا آرہا ہوں، میںملتی ہیں۔
شنکر دت سچدیو کمارؔ پاشی کو ہندوستانی اساطیر کا شاعر قرار دیا جاتا ہے ۔کمار پاشی کی شاعری میں ہندوستانی دیومالائوں اور اساطیر کا استعمال ہوا ہے۔ہندوستان کی قدیم تہذیب،ہندوستان کے موسم ،ہندوستانی روایت موجود ہے۔انسانی ارتقاء کی تاریخ،مذاہب کی رنگارنگی،سائنس کی ترقی ،ناامیدی اور فطرت سے بھاگتے ہوئے انسان کے مایوس کن حالات کا بیان نظموں میںملتا ہے۔کمار پاشی کی غزلیں بھی تہذیبی جڑوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
کمارپاشی نے ایک مقام پرلکھا ہے:
ہمارے نقادوں نے اکثر کسی شاعر کی تخلیقات کو پڑھ کر اسے ایک موضوعی حصار میں قید کرنے کی کوشش کی ہے ۔میرے ساتھ بھی قریب قریب یہی ہوا۔میرے پہلے شعری مجموعے’’پرانے موسموں کی آواز‘‘کو سامنے رکھ کر مجھے ہندوستانی دیو مالا کا شاعر قرار دیا گیا تھا۔آج کل میری شناخت اکثر اسی حوالے سے ہوتی ہے۔جب کہ میرا ذہنی سفر ماورائیت سے ارضیت کی طرف رہا ہے۔اپنے ملک کی قدیم تہذیبی اقدار مجھے ہمیشہ عزیز رہی ہیں او رمیں نے ہمیشہ قدیم ہندوستان کی گمشدہ روشنیوں میں اپنی پہچان کے نقوش واکرنے کی کوشش کی ہے۔ماضی کی تہذیبی،معاشرتی اور مذہبی قدریں مجھے وراثت میں ملی ہیں اور میری شاعری نے ان ہی جڑوں سے خوراک حاصل کی ہے۔موجودہ سیاسی نظام نے جس فرقہ واریت فضا کو جنم دیا ہے اور جس کی نتیجے میں غیر محفوظیت کا جو احساس ہر دل میں پیدا ہوگیا ہےاس نے میرے ذہن کو اکثر متاثر کیا ہے۔ میری شاعری ایک ایسے آدرش معاشرے کی تلاش میں ہے جہاں رنگ ونسل کا بھید نہ ہو،جہاں انسان انسان میں امتیاز نہ ہو۔
(کلیات کمار پاشی:جلد اول،مرتب :چندر بھان خیالNCPUL ص۔XV)
ولاس یاترا 1974 میں شائع ہوئی۔یہ ایک طویل نظم ہے جو گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔نظم سمفنی کی شکل میں آگے بڑھتی ہےاس نظم میں آہنگ کا نیا تجربہ کیا گیا ہے۔نظم قدروں کی مسخ شدہ تاریخ سے شروع ہوتی ہےاور جدید عہد کے کرب ناک صورت حال پر ختم ہوتی ہے ۔ عظیم قوم کے انتشار اور کمزوری کو بیان کرتی ہے۔ اس کے اساطیری کردار معنویت سے پر ہیں۔اور انسانی تاریخ سے میل کھاتے ہیں۔یہ کردار اساطیری معنویت کے علاوہ نئے مفہوم پنہاں رکھتے ہیں ۔اس طرح کی ذو معنویت قاری کے لئے علمیت کی متقاضی ہوتی ہے۔ولاس یاترا کے کرداروں کے نام معنویت لئے ہوئے ہیں۔اس نظم کے کرداروں میں خود شاعر یعنی ’’میں‘‘واحد متکلم ’’وہ‘‘ واحد غائب ،ناگ راج پشاج راج ،کیرتی ،سنشے،اکشر، کرونا،گنٹھل، کوشل شامل ہیں۔ولاس کے معنی خوشی،ناز،نخرہ،خوبصورتی،عورت سے اختلاط کے ہیں۔اس یاترا کے کرداروں میں ناگ راج اور پشاج راج دو قوتیں ہیں۔’’میں‘‘کردار درد وکرب کی داستان بیان کررہا ہے اور زمان ومکان کی قید سے باہر ہے۔’’میں‘‘ کا جنم ہر دور میں ہوتا ہے اور’’ہزار تھنوں والی ماں‘‘ناگ راج اور پشاج راج کی ماں ہے۔
’’میں ‘‘دراصل انسانی ذات کی جاری و ساری علامت ہے جو زمان و مکان کے لامتناہی سلسلوں میں اپنی شناخت اور ایک لایعنی کائنات میں معنی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہ ناظر بھی ہے شاہد بھی ہے اور راوی بھی ہے ۔اس کی نہ کوئی طبعی حیثیت ہے اور نہ معاشرتی و تہذیبی مکانیت لیکن اس ’’میں‘‘ہی کے توسط سے نظم کے بظاہربکھرے ہوئے حصے ایک ترتیب و آہنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔یہ ’’میں‘‘ ہےجو دیکھ بھی رہا ہے ، سن بھی رہا ہے اور اپنے مشاہدے کو بیان بھی کررہا ہے۔قدیم اساطیری کہانیوں ہی کی طرح اس میں کا کردار بھی ایک غیر مرئی حیثیت رکھتا ہے۔جو موجود بھی اور موہوم بھی۔اس نظم کے دیگر کردار پشاج راج،ناگ راج،کیرتی اور سنشے بھی بظاہر مجرد فکر پارے ہیں لیکن نظم کے متن میں پرپیچ اور سربستہ علامتیں بن کر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً کیرتی بظاہر شہرت نام و نمود سے منسوب ہے۔ ناگ راج تمام اساطیری ادب میں جنسی قوت کی علامت ہے۔پشاج راج ارواح خبیثہ سے متعلق یا یوں کہہ لیجئے کہ پراکندہ جذبات کا عکاس اور سنشے شک و شبہ کی علامت ،کیرتی ایک بے انتہا complex علامت ہے جو زرخیزی ،تولید، پالن پوشن اور کائنات کی تخلیقی قوتوں کا سرچشمہ ہے ۔ اسی لئے اسے ہزار تھنوں والی ماں کہا گیا ہے اور اعداد و شمار سے بعید یہ ایک ایسی علامت ہے جوفطرت اور پرورش nurture and nature کی طرف اشارہ کرتی ہے دراصل ان تمام علامتوں کے توسط سے کمارپاشی ، انسانی ذات کی جبلتوں اور اندرون ذات پل رہے جنسی اور جذباتی ہیجان کے رموز وا کرتے ہیں۔اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھوک پیاس اور جنس بنیادی جبلتیں ہیں اور ان جبلتوں کا اطلاق ہر ذ ی نفس پر ہوتا ہے۔
دراصل’’ولاس یاترا‘‘ کی ہیئت شعور کی رو جیسی ہے ۔گویا خیالات و تاثرات کا ایک دھاراہے جس کے بہائو اور سمتوں پر خود شاعر کا کوئی کنٹرول نہیں اور چونکہ زمان ومکاں کی حد بندیاں دانستہ توڑ دی گئی ہیں۔لہٰذا تاریخ کے تسلسل سے لاشعور کے لامتناہی سلسلے تک یہ نظم تاریخ ،تہذیب و معاشرے کے گوناگوںگلیاروں میں گردش کرتی رہتی ہے۔چند بنیادی موضوعات ایسے ہیں جنھیں یونان کے مشہور ڈرامہ نگار سوفوکلیس کی مشہور ٹرائلوجی ،Oedipus (ایڈیپس) سے بھی ماخوذ سمجھا جاسکتا ہے کیوں کہ ناگ راج اور ہزار تھنوں والی ماں کے اختلاط سے جو بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ کیرتی ہے لیکن بنیادی طور پر اس کی پیدائش ایک طرح کا incest ہے۔یعنی وہ اختلاط جو ماں اور بچوں کے درمیان ہو اور جسے ہر مذہب اور تہذیب میں غیر مقدس قرار دیا گیا ۔یہی کہانی Oedipus کی بھی ہے کہ انجانے میں وہ بھی اپنی والدہ جو جاکاسٹا(اپیکاسٹا)کاشوہر بن جاتا ہے اور اس کے بطن سے بچے ہوتے ہیں قدیم تہذیبوں میں incest ایک اہم موضوع رہا ہے اور کمار پاشی نےاسی موضوع کےسہارے نظم کے مختلف حصوں کو باہم پیوست کردیا ۔چند حصے’’میں‘‘ کی شدید جنسی ہیجان کا بیانیہ ہے جو دراصل علامتی اعتبار سے زوال آمادہ جدید انسان کے باطنی ہیجان کی باز گوئی ہے۔نظم کے بند ملاحظہ ہوں:
جن بستیوں میں مثالی مردوں کی گندھ
نہیں گونجی تھی
کنٹھا ہری گرنتھ کے اشلوک گاتی پھرتی تھی
لیکن اک دن جب جوار اٹھا
تو وہ ساگر تٹ کے جیتے ،جاگتے شہر کی مانند
لہروں کے سنگ بہتی چلی گئی
ہری بھری کنٹھا
دھیرے دھیرے اجڑ گئی
چار طرف چٹے کپڑوں میں
نئے مثالی مردکھرے تھے
بیچ میں پتوں کی ڈھیری تھی او راس پر ہری گرنتھ رکھا تھا
ایک طرف سوکھے درخت سے بندھی ہوئی تھی
پگھلی کنٹھا
ننگی کنٹھا
مجھ سے میرا تن لے جائو
میرا انگ انگ لے جائو
بدلے میں مجھ کو میرا
مذہب لوٹا دو
ہری گرنتھ میں مری آتما چھپی ہوئی ہے
مجھ کو میری آتما دے دو
مجھ سے میرا ہرا بھرا یہ جسم چھین لو
ص۔۲۶۹۔۲۶۸
ایک طرف ہری گرنتھ ہےاوردوسری طرف برہنہ بدن کنٹھا ہےجوہری گرنتھ کو مقدس بھی مانتی ہے اور اپنے جسم کو تیاگنے میں ترددبھی نہیں کرتی اور نہ ہی اسے اپنے کرموں کے تعلق سےکوئی taboo ہے ( taboo یعنی ایسی تمام معاشرتی تہذیبی پابندیاں جو ممانعت کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور جس میں سماجی مراسم شامل ہوتے ہیں۔)کیرتی دراصل ایک کردار ہے جو اس ماں کے بطن سے پیدا ہوتی ہےجوکائناتی زرخیزی کی علامت ہے لہٰذا سندر بھی ہے،سشیل بھی ہے اور اس میں مختلف قالب بدلنے کی صفات بھی ہے ۔وہ کبھی کنٹھل کبھی کرونا،کبھی کیرتی اورکوشل ہے اور یہی تینوں نام اپنے آپ میں مکمل معنویت کے حامل ہیں،نظم کے بند ملاحظہ ہوں:
بولو! اتنے روز کہاں رہے؟
چپ چپ کیا تکتے ہو مجھ کو
میں کرونا ہوں سمرن بن کی
نہیں میں کنٹھا ہوں کنٹھاہوں
ناں،ناں،شاید کوشل ہوں میں
دیکھو کتنی بدل گئی ہوں
نام بھی اپنا بھول گئی ہوں
ہاں ،یاد آیا۔۔۔
۔۔۔سچ کہتی ہوں
میں اکھشر مٹھ کی کیرتی ہوں
راج بھون کی دیواروں میں
تم جسے تنہا چھوڑ گئے تھے
یاد ہے تم کو ۔۔۔ایک کوی نے
مہا کاویہ لکھا تھا مجھ پر
بیٹھو تم کو کیرتی گرنتھ کا
سب سے پہلا گیت سنائوں
دراوڑ یگ کے اشلوکوں کی
طرح انوکھے اور پرانے
اکھشر مٹھ کی یاد دلائوں
کلیات کمار پاشی۔جلد اول،ص۔۲۷۶ ، مرتب :چند ر بھان خیال (NCPUL )
کیرتی اپنے بارے میں بات کرتی ہے تواپنی کئی شکلوں اور اوتاروں کا ذکر کرتی ہے۔دراصل کیرتی ذاتِ نسواںکی جاری و ساری شکل ہے جو ہر دور میں ہر روپ میں موجو د بھی ہے اور مظلوم بھی۔دراصل شہرت اور گداز جذبۂ ترحم کا مجموعہ کیرتی ہے۔پشاج راج کو یہ شراپ کہ اس کی نسلیں یا اولادیں زندہ نہ رہیں گی ایک قیاس ہے جو کبھی قائم نہیں رہتا۔اس کے برعکس ناگ جو بنیادی طور پر قوت تولید کی علامت ہے وہ لہو لہان۔دراصل کمار پاشی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جدید معاشرے میں بدی اور بنجر پن کے خاتمے کے سارے قیاس غلط ثابت ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس قوت نمو کے جو وسائل دستیاب ہیں وہ بتدریج مجروح ہوتے جارہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ نہ صرف جنگ وجدال ہے بلکہ جدید انسان کی مادہ پرستی اور اخلاقی اور روحانی کھوکھلا پن اور حرص و طمع ہے۔یہی وہ کھوکھلاپن ہے جو پشاج راج کا قالب اختیار کرتا ہے اور جس کی نسلیں روز افزوں بڑھتی جارہی ہیں انگریزی کے جدید شعراء ہی کی طرح مثلاً ایلیٹ، W.B.Yeats اور پائونڈ کی طرح کمارپاشی کو بھی اس بات کا شدید احساس ہے کہ جدید معاشرہ بتدریج ایک Waste Land بنتا جارہا ہے ۔جہاں عکس بکھرے ہوئے ،چہرے ٹوٹے ہوئے،اعضاء منقسم اورروح دریدہ ہے۔نظم شروع ہی اس طرح ہوتی ہے:
اور سنو:
اس زمیں پر مسرت اگے،اس کا امکان کم ہے
کہ اب ایک روح شبانہ کی پرچھائیاں
تا بہ حد گماں
زہر پھیلا چکی ہیں
اب اس خاکداں کے مقدر میں خوابوں کا اندوختہ بھی نہیں
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیات کمار پاشی۔جلد اول،ص۔۲۱۹ ، مرتب :چند ر بھان خیال (NCPUL )
کمار پاشی نے نظم کے ایک حصے میں ناگ راج کو چترکار بھی کہا ہے اور کیرتی کو اس کا شاہکار۔گویا کیرتی تولید اور تخلیق دونوں کی علامت بھی ہے اور دونوں ہی کا شاہکار بھی۔اور یہی کچھ صورت حال جدید عہد کے فن کار کی بھی ہے۔جدید عہد کا فن ایک تحفہ بھی ہے اور ایک شراپ بھی ،بند ملاحظہ ہو:
ناگ راج چتر کار ہے
چتر بناتا ہے
کیرتی بھی اس کا ایک چتر ہے
اس کا انتم چتر
اپنے انتم چتر کا گنہ گار ہے ناگ راج
انگ اپنے کاٹ دیے ہیں اس نے
اور اب خالی مہیب جگہوں میں
سینے تک کٹا لہو لہان جسم
یخ ریت میں گاڑھے
اونگھتا رہتا ہے
ہزاروں تھنوں والی ماں کا شراپ
اسے مرنے نہیں دے گا
ایسا کہا تھا:سات منیوں والے
اکھشررشی نے
جس کے مکٹ میںکیرتی کی تصویرجڑی ہے
ناگ راج کا انتم چتر
کلیات کمار پاشی۔جلد اول،ص۔۲۲۹ ، مرتب :چند ر بھان خیال (NCPUL )
اس کے برعکس پشاج راج ایک ایسی سلطنت کا فرمانروا ہے جہاں سنسان دلوں پر صرف وحشت حکمرانی کرتی ہے اور اس سلطنت کی نئی صداقت خدائے واحد کی عدم موجودگی ہے جس دنیا سے پروردگار عالم نے اپنی نظریں پھیرلیں اس دنیا کے اخلاقی معاشرتی اور تہذیبی زوال کا کوئی تدارک نہیںاور نہ ہی اس سے کوئی فرار ممکن ہے(ایک طرح کا fatalism )۔دراصل نظم کے مختلف حصے عقیدے ،قوت نمو اور انسانی قدروں کی گم گشتگی کی بین مثال ہے۔اور ان تمام ہونے والے واقعات کا گواہ ’’میں‘‘بھی اوروہ ’’ماں‘‘بھی ہے۔نظم کے ایک حصے میں اس ہزار تھنوں والی ماں کے بھی روپ اور اوتار بدلتے رہتے ہیں ۔کبھی وہ ماں ہے کبھی رانی،کبھی وہ راج وحشیہ کبھی سنشے کو جنم دیتی ہے اور کبھی اپنے ہی پتی پتروں کو جنم بھی دیتی ہے اور شراپ بھی۔ماس ، ہڈیوں اور تھنوں کے اس جنگل میں شاعر اپنی ذات کو بوند بوند تحلیل ہوتا ہو دیکھتا ہے ۔یہ احساس زیاں اس اضطراب و کرب کو اور شدید بڑھا دیتا ہے لہٰذا اس کے لہجہ میں تلخی بھی عود کر آتی ہے اور زبان پر ذائقہ میں کڑواہٹ آنے لگتی ہے۔نظم میں ایسے کئی لفظوں اور محاوروں کا استعمال کیا گیاہے جوobscene ہیںاور اسےمخرب الاخلاق یاجسے فحش نگاری بھی کہا جاسکتا ہے لیکن اسی جرم کی پاداش میں D.H.Lawrence اور منٹو جیسے افسانہ نگاروں پر مقدمے چلائے گئے اوران تصانیف پر بین لگا دیا گیا۔ہمارے عام ناقدین فحش نگاری obscenity اور معاشرتی حقیقت نگاری میں آج تک فرق نہ کرسکے۔منٹو ہو یا میراجی،کمارپاشی ہوں کہ عصمت چغتائی سبھی تہذیبی قدروں کی زوال آمادگی کا نوحہ بیان کرتے ہیں اور کمار پاشی کی یہ نظم بھی اسی زوال آمادگی کانوحہ ہے۔ولاس یاترااپنے اسلوب اور آہنگ کے اعتبار سے اس قدر پیچیدہ اور کامپلیکس نظم ہے کہ اس کی مختلف زاویوں سے قرأت کی جاسکتی ہے۔یہ مرد اساس معاشرہ میں عورت کی عزت و حرمت کے کھلواڑ کا نوحہ بھی بیان کرتی ہے اور تانیثی نقطۂ نظر سےتہذیب ومعاشرہ کے مختلف مراحل میں خواتین کی حاشیہ نشینی کا بھی اظہار کرتی ہے یہ اساطیر بھی بیان کرتی ہے یا فرضی کہانیاںو داستان کوبھی شعری بازیافت کے ذریعے عہد جدید کے انتشار کا موضوع بناتی ہے۔بہر حال قرأت کے جس بھی زاوئیے سے آپ اسے دیکھنا چاہیں کیرتی ہی کی طرح یہ نظم بھی کمار پاشی کا شاہکار ہے۔
کمار پاشی کے اس شعر پر میں اپنا مقالہ ختم کرتی ہوں۔
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
***