You are currently viewing پشتو کی خواتین افسانہ نگار: مختصر جائزہ

پشتو کی خواتین افسانہ نگار: مختصر جائزہ

کومل شہزادی،پاکستان

پشتو کی خواتین افسانہ نگار: مختصر جائزہ

سید راحت زاخیلی کو پشتو زبان و ادب کا پہلا باقاعدہ افسانہ نگار تسلیم کیا جا تا ہے اور پشتو افسانوی ادب میں ان کو وہی مقام  حاصل ہے جو معاصر اردو ادب میں مولوی نذیر احمد اور راشدالخیری کا ہے ۔ ان کے افسانوں کا مجموعی رنگ اصلاحی تھا پہلا افسانہ مجلہ” افغان ” پشاور میں 1917ء میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا کونڈو چینی ( بیوہ لڑکی ) اور افسانہ نگار تھے سید راحت زاخیلی ۔ یہ ایک کرداری افسانہ تھا اور ناقدین کے نزدیک اس کا مزاج اردو افسانے کے مزاج سے قریب تر ہے۔ ان کا دوسرا افسانہ شیلیدے پنڑ؛ (بھٹہ ہوا جوتا ) 1918ء میں منظر عام پر آیا۔اپنے موضوع کے پیش نظر پشتو کی چند اہم خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کی مختصر خصوصیت بیان کرنے کی سعی کرتی ہوں۔

سیدہ بشری بیگم کا مختصر تعارف:-

سیدہ بشریٰ  بیگم ایک روشن دماغ اور روشن خیال خاتون تھیں۔لیکن پشتونوں کے

رواج خصوصا کاکاخیل کے معزز خاندان سے تعلق کی وجہ سے وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں چنانچہ انہوں نے س۔ب۔ب مخففات کے حوالے سے اردو ،فارسی اور پشتو میں اپنی تخلیقات پیش کیں۔

سیدہ بشری بیگم کے افسانوں کی خصوصیات:-

سیدہ بشریٰ بیگم نے مضامین کے علاوہ افسانے بھی لکھے ۔ان کا ایک افسانہ ” یہ قائم مینہ جہاں آرا” کے عنوان سے بمبئی کے ایک اخبار افغان میں چھپا۔ان کے افسانوں کا موضوع انسانی اخوت ومحبت اور ہمدردی ہے۔اس کے علاوہ تعلیم نسواں اور اصلاح و اخلاق کے موضوعات بھی ان کی توجہ اور تحریر کی پہچان ہیں۔یہ سب پشتو خواتین کے مسائل پر بھی کہانیاں لکھتی رہیں اور یہ ایک محب وطن تھیں۔اقبال کا یہ مصرعہ ع ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ نظام حیات میں عورت کی ناگزیریت کا اعلامیہ ہے۔ عورت کا کردار ہر جگہ مختلف صورتوں اپنے وجود کا اعلان کراتا ہوا نظر آتا ہے۔خواتین کے افسانوں کے موضوعات میں سماجی و معاشرتی زندگی کی جھلکیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ ٹھوس معاشرتی حقائق اور سماجی تخیل ہیں جو افسانہ نگار کو اپنی اہمیت کی طرف مرکوز کراتی ہیں۔ ذات پات کی تقسیم اور طبقاتی اونچ نیچ ہماری معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں اور زندہ حقائق ہیں۔

زیتون بانو کا مختصر تعارف:-

زیتون بانو  18 جون 1938ء کو پشاور کے نزدیک سفید ڈھیری کے مقام پر پیدا

ہوئیں۔ ان کے والد پیر سید سلطان محمود شاہ ایک روشن خیال ادیب تھے جنھوں نے زیتون بانو کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ پشتو اور اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد زیتون بانو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئیں۔اردو کا ایک ادبی رسالہ ’’ جریدہ‘‘ شائع کرتی تھیں۔ زیتون بانو کو حکومت پاکستان نے 14 اگست 1996ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔  زیتون بانو 82 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔ ان کا ادبی سفر 62 سالوں پر محیط تھا۔

زیتون بانو کے افسانوں کی خصوصیات:-

زیتون بانو جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ’وہ ایک زیرک، قابل اور بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے منٹو کی طرح ایسے موضوعات پر اس زمانے میں لکھا جب پشتون معاشرے میں خواتین کا صرف لکھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک خاتون کی طرف سے بہت بڑی جرات تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ زیتون بانو ’د خویندو لشکر‘ کی مشاورتی کمیٹی کی چیئرپرسن بھی تھیں، جس کی تقریبات اور مجلسوں میں وہ کچھ عرصہ قبل تک کافی مستعدی سے حصہ لیتی رہی تھیں۔ انہوں نے کہا: ’وفات سے 10 دن قبل میں نے انہیں کال کی تو انہوں نے اپنے ایک افسانے کی تکمیل کی بات کی کہ اس کو چھاپنا ہے۔ میں نے بہت جلد ملاقات کی یقین دہانی کروائی لیکن اس کے کچھ دنوں بعد ان کی بہو نے فون پر روتے ہوئے اطلاع دی کہ مور بی بی نے بولنا اور کھانا پینا بند کر دیا ہے۔

اردو اور پشتو زبانوں میں افسانوں کی کتابیں اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ جس میں مات بنگری، خوبونا ( 1958 ) ، جوندی غمونا ( 1958 ) ، برگ آرزو ( 1980 ) اور وقت کی دہلیز پر ( 1980 ) زما ڈائری اور خوبونو سلے شامل ہیں۔زیتون بانو پہلی خاتون لکھاری ہیں جنھوں نے پشتونوں کے جیسے سخت گیر معاشرے میں خواتین کی معاشرتی اور گھریلو مسائل کو بڑی جرات اور بہادری کے ساتھ پیش کیا۔ خصوصاً جس زمانے میں ایسے اظہارات پر سخت پابندیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن موضوعات کا 1958 ء میں زیتون بانو کا پہلا افسانوی مجموعہ جوندی غمونہ ”اندوہ حیات“ سامنے آیا اور اس وقت سے لے کر آج تک زیتون بانو کا ادبی سفر تسلسل سے جاری و ساری رہا۔ انھوں نے خواتین مسائل کے ساتھ ساتھ پشتون معاشرے کے مردانہ حالت زار پر بھی بے باکانہ قلم اٹھایا۔

زیتون بانو اردو پشتو کے معروف لکھاری۔ زیتون بانو نے پشتو ادب کی نئی نسل کی خواتین لکھاریوں کو متاثر کیا اور ان کو ایک منٹور کی حیثیت سے مانتی تھی۔ انھوں نے وہ مسائل اپنے افسانوں میں زیر بحث لائے جو اس سے پہلے کوئی نہ لا سکے اس لحاظ سے پشتو افسانہ میں اس نئی ٹرینڈ کی وجہ سے ان کو رجحان ساز اور انقلابی بھی گردانا جاتا تھا۔ زیتون بانو کے افسانے کسی بھی عالمی سطح پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نسائیت اور مزاحمت کی بھر پور عکاسی کی ہے۔جن کے افسانوں کے تین مجموے ” ہندارہ، مات بنگڑی اور ژوندی غمونہ، طبع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کے حقوق کے لیے معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف مردانہ وار لڑ تی نظر آتی ہیں ۔ ان کے افسانوں کے کردار  دہہی زندگی کے بجائے جدید دور کے شہری تعلیم یافتہ اور سوشل کردار ہیں ۔ یہ افسانے معنویت کے اعتبار سے اسلامی ہیں لیکن کہیں کہیں ان پر رومانیت کا دھندلا سا عکس بھی موجود ہے۔ اس کے نام سے لکھا گیا افسانہ ان کے رومانی تصورات کی ایک واضح مثال ہے جبکہ ماہتا بہ مقصدیت، حقیقت پسندی ، فنی باریکیوں اور زبان و بیان کی شیرینی کے حوالے سے ایک نادر نمونہ ہے۔

مبارک سلطانہ شمیم کا تعارف:-

مبارک سلطانہ شمیم پشتو کی اہل قلم خواتین میں نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔یہ ایک حساس فن کارہ ہیں۔انہوں نے پشتو میں بڑے عمدہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔

سلطانہ شمیم کے افسانوں کی خصوصیت:-

یہ ایک عمدہ افسانہ نگار تھیں۔عام طور پر ان کے افسانوں کے موضوعات انسانی ہمدردی اور اصلاح معاشرے پر مشتمل ہیں۔ جن میں خاص طور پر خواتین کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے۔ان کے افسانوں میں تورہ برقعہ ایک بہترین افسانہ ہے جس میں موجودہ وقت کے رومان پسند نوجوانوں پر زبردست طنز کی گئی ہے۔خواتین کے مسائل ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔خواتین نے اپنے افسانوں میں گھر، گھر کے ماحول، تعلق داریوں، انسانی ہمدردی اور خلوص کے جذبوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ گھریلو زندگی کے مسائل، عداوتیں، رقابتیں جن کا تعلق کہیں معاش سے ہے، تو کہیں سماجی بے راہ روی سے۔ ذمہ داریوں اور پریشانیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے گھر، متوسط طبقہ، اس کے مسائل اور مجبوریاں خواتین کے بنیادی موضوعات ہیں۔ خواتین کے موضوعات میں اس حوالے سے رویہ طنز و تنقید سے نکل کر احتجاج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اجتماعی طرزِ احساس ایک اجتماعی بے حسی کے حوالے سے ابھرتا ہے۔ کسی میں کچھ کہنے کی جرأت نہیں۔ صرف مستقبل کے لیے اس تباہی کی گواہیاں اور شہادتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ناکامی محبت کی ماری عورتوں پر خامہ فرسائی کی، جو اپنے محبوب کی منتظر ہوتی ہیں اور وہی ان محب و پر ستار عورتوں کے دلوں کوتوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ دل ایک تار میں جوڑ دیے جاتے ہیں تو بھی وہ اپنی محبت حاصل کرنے میں ناکام ہو تی ہیں حتیٰ کہ وہ ناکامی بڑھاپے کی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔المختصر،پشتو کی ان کے علاوہ بھی خواتین افسانہ نگار ہیں جن کی اہمیت مسلم ہے۔لیکن اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ فرداً فرداً کرنا ناممکن تھا۔

***

Leave a Reply